غالب نے ایک بار اپنے دوست کو بس یہ مختصر خط لکھا تھا کہ
”ہم جانتے ہیں کہ تم زندہ ہو،تم جانتے ہو کہ ہم زندہ ہیں
امرِ ضروری لکھ لیا!قسمت میں رہا تو مل بھی لیں گے
دعاؤں کا طالب
غالب!“
پر وہ کیا لکھے؟جو بہت طویل خط لکھنا چاہتی ہے،اتنا طویل جتنی مقدس بائبل ہے،اتنا طویل جتنی مقدس کتابوں کی آیات ہیں،اتنا طویل جتنا رسولوں کا دردوں کا سفر ہے۔اتنا طویل جتنا خدا اور ابلیس کا مقالمہ ہے۔اتنا طویل جتنی ابراھیم اور اسماعیل کی پہاڑوں کی چوٹیوں پر گفتگو ہے۔اتنا طویل جتنا قوم اسرائیل کا سفر ہے۔اتنا طویل جتنا دھرتی پر فرشتوں کا آنا اور جانا ہے۔اتنا طویل جتنا سورج کا بن منزل کے سفر ہے۔اتنا طویل جتنا چاند کا بادلوں میں چھپ جانا ہے اور پھر آکاش پر لوٹ آنا ہے۔اتنا طویل جتنا اس کا اپنا درد ہے۔اپنا سفر ہے۔اپنے پیروں کے نقش ہیں اور ان پیروں پر اُٹی دھول ہے۔اگر اتنا طویل نہ بھی ہو تو اتنا تو ضرور ہو جتنا عیسیٰ اور مریم کا سفر ہے
بہت ہی مختصر،بہت ہی طویل!
ماں اور صلیب کا سفر
عیسیٰ اور مریم کا سفر
آنسوؤں اور آہوں کا سفر
پر وہ جو زندہ ہے وہ اتنا مختصر خط بھی نہیں لکھ سکتی جتنا مختصر زبور کا یہ گیت ہے کہ
”خدا دل خالی ہے،دل میں اُترو محبت کی طرح!“
وہ خالی دل میں محبت کی طرح کیسے اُترے؟وہ توگوندروں (دکھوں) میں سسئی کی ماند اُتری ہوئی ہے!
وہ غالب کی طرح یہ نہیں جانتی کہ وہ زندہ بھی ہے کہ نہیں اگر وہ خط لکھے بھی تو کسے؟اگر وہ جانتی کہ وہ زندہ ہے تو وہ ایسا خط ہر گز نہ لکھتی جس خط میں غالب اپنے دوست کو لکھ رہے ہیں کہ
”ہم جانتے ہیں کہ تم زندہ ہو،تم جانتے ہو کہ ہم زندہ ہیں!“
پر وہ اک ایسا خط لکھتی جو خط الفاظوں سے نہیں پر آہوں سے لکھا جاتا،جس خط میں الفاظ نہیں ہو تے بس محبت ہو تی،درد ہوتا اور آنسو ہو تے،وہ خط بھیگا بھیگا سا ہوتا،جب اسے کوئی ہاتھوں میں لیتا تو اس خط سے درد کی بارش برسنے لگتی۔وہ خط سفر بھی ہوتا اور دھول بھی۔وہ خط آنکھیں بھی ہوتا اور دید بھی!وہ خط انتظار بھی ہوتا اور آس بھی،وہ خط درد بھی ہوتا اور چیخ بھی،وہ خط دل بھی ہوتا اور دل کا ڈوب جانا بھی
اس خط میں خواب ہو تے،رت جگے ہو تے،اُمیدیں ہو تیں،انتظار ہوتا،آسرہ ہوتا،دل کا ٹوٹنا ہوتا،دل کی بدلتی کیفیات ہو تیں،احساسات ہو تے،ماں کا رونا اور بیٹی کا بڑی دانا بن کر ماں کو سمجھانا ہوتا۔دادی کا پوچھنا ہوتا کہ”آخر وہ کب لوٹے گا؟“اور پوتی کا دادی سے محبت سے،بہت سے آنسو روک کر بتانا ہوتا کہ ”وہ ضرور لوٹے گا!“جاگتے آنکھوں کی نیند ہو تی اور سوتی آنکھوں کا جاگنا ہوتا،بن بابا کی قیامت ہو تی،تلاش یار ہو تی،ہولتے دل کا درد ہوتا،پیروں کے چھالے ہو تے،سر سے اترے دوپٹے کا پرچم بن جانا ہوتا،پر وہ اپنے بابا کو خط نہیں لکھ سکتی کیوں کہ وہ غالب کی طرح یہ نہیں جانتی کہ وہ جسے کچھ لکھنا چاہتی ہے وہ زندہ ہے اور وہ اگر اپنے الفاظوں میں،الفاظوں کا جادو نہ بھی جگائے بس یہ لکھے کہ
”ہم جانتے ہیں کہ تم زندہ ہو،تم جانتے ہو کہ ہم زندہ ہیں!“
اور اپنا قلم روک دے،تو کس کو لکھے؟!!!
وہ جو دردوں کی ماری ہے
وہ جو مریم جیسی ہے
وہ جو سسئی کی بہن ہے
وہ جو دکھوں اور دردوں سے دور رہتی تو شاعرہ ہو تی
وہ جو قرت العین جیسی ہے
وہ جس کا محمد علی باب جیسا بابا گم ہے،وہ اگر لکھے تو کیا لکھے اور اگر لکھے تو کس کے لیے لکھے
دردوں سے بھرے طویل خط،آنسوؤں سے بھیگے مختصر خط!
ہمیں جاننا چاہیے کہ چودہ سالوں کا درد کچھ الفاظوں میں بیان نہیں ہو سکتا،ایسے دردوں کو بیان کرنے کے لیے بھی منہ کو نہیں پر دل کو زباں چاہیے اور وہ دل کو زباں بنا کر آج عید کے روز بھی شہر یاراں میں سڑکوں پر ہے۔
کیا یہ اکیلی سسئی آج عید کے دن دردوں کا سفر لیے اپنے بابا کو آواز دے رہی ہے،تلاش کر رہی ہے؟
نہیں!!!
آج تو کئی سکھیاں ایسے باباؤں کی تلاش میں نکلی ہیں جیسے آکاش پر کونجیں قطاریں بنا کر پو رے آکاش کو اپنے پروں سے ڈھک دیتی ہیں
پر یہاں درد کا پیمانہ کچھ اور ہے
نینوں کی بارش کچھ اور ہے،
ایسا درد،جس درد کے لیے غالب نے کہا تھا کہ
”مجھ کو وہ دو کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگو
زہر کچھ اور سہی،آبِ بقا اور سہی!“
کاش آج تم بھی یہ بار بی کیو نہ کھاتے اور اپنے گھروں سے باہر نکلتے اور جان پاتے اس درد کو جس درد کی کوئی منزل نہیں جس درد کا کوئی سنگ میل نہیں
بس یہ درد یا توآنکھوں سے جھلکتا ہے یا ان بیٹیوں کے دل میں اُٹھتا ہے جو آج بھی سڑکوں پر تلاش یار میں ہیں
مقدس بائبل میں لکھا ہے کہ
”عاقلہ
کیا تم مریم کو جانتے ہو
اگر تم مریم کو نہیں جانتے
تو تم درد سے واقف نہیں!“
ایسے ہی اگر تم سمی کو نہیں جانتے،تو تم درد سے واقف نہیں!!
—♦—
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
غالب نے ایک بار اپنے دوست کو بس یہ مختصر خط لکھا تھا کہ
”ہم جانتے ہیں کہ تم زندہ ہو،تم جانتے ہو کہ ہم زندہ ہیں
امرِ ضروری لکھ لیا!قسمت میں رہا تو مل بھی لیں گے
دعاؤں کا طالب
غالب!“
پر وہ کیا لکھے؟جو بہت طویل خط لکھنا چاہتی ہے،اتنا طویل جتنی مقدس بائبل ہے،اتنا طویل جتنی مقدس کتابوں کی آیات ہیں،اتنا طویل جتنا رسولوں کا دردوں کا سفر ہے۔اتنا طویل جتنا خدا اور ابلیس کا مقالمہ ہے۔اتنا طویل جتنی ابراھیم اور اسماعیل کی پہاڑوں کی چوٹیوں پر گفتگو ہے۔اتنا طویل جتنا قوم اسرائیل کا سفر ہے۔اتنا طویل جتنا دھرتی پر فرشتوں کا آنا اور جانا ہے۔اتنا طویل جتنا سورج کا بن منزل کے سفر ہے۔اتنا طویل جتنا چاند کا بادلوں میں چھپ جانا ہے اور پھر آکاش پر لوٹ آنا ہے۔اتنا طویل جتنا اس کا اپنا درد ہے۔اپنا سفر ہے۔اپنے پیروں کے نقش ہیں اور ان پیروں پر اُٹی دھول ہے۔اگر اتنا طویل نہ بھی ہو تو اتنا تو ضرور ہو جتنا عیسیٰ اور مریم کا سفر ہے
بہت ہی مختصر،بہت ہی طویل!
ماں اور صلیب کا سفر
عیسیٰ اور مریم کا سفر
آنسوؤں اور آہوں کا سفر
پر وہ جو زندہ ہے وہ اتنا مختصر خط بھی نہیں لکھ سکتی جتنا مختصر زبور کا یہ گیت ہے کہ
”خدا دل خالی ہے،دل میں اُترو محبت کی طرح!“
وہ خالی دل میں محبت کی طرح کیسے اُترے؟وہ توگوندروں (دکھوں) میں سسئی کی ماند اُتری ہوئی ہے!
وہ غالب کی طرح یہ نہیں جانتی کہ وہ زندہ بھی ہے کہ نہیں اگر وہ خط لکھے بھی تو کسے؟اگر وہ جانتی کہ وہ زندہ ہے تو وہ ایسا خط ہر گز نہ لکھتی جس خط میں غالب اپنے دوست کو لکھ رہے ہیں کہ
”ہم جانتے ہیں کہ تم زندہ ہو،تم جانتے ہو کہ ہم زندہ ہیں!“
پر وہ اک ایسا خط لکھتی جو خط الفاظوں سے نہیں پر آہوں سے لکھا جاتا،جس خط میں الفاظ نہیں ہو تے بس محبت ہو تی،درد ہوتا اور آنسو ہو تے،وہ خط بھیگا بھیگا سا ہوتا،جب اسے کوئی ہاتھوں میں لیتا تو اس خط سے درد کی بارش برسنے لگتی۔وہ خط سفر بھی ہوتا اور دھول بھی۔وہ خط آنکھیں بھی ہوتا اور دید بھی!وہ خط انتظار بھی ہوتا اور آس بھی،وہ خط درد بھی ہوتا اور چیخ بھی،وہ خط دل بھی ہوتا اور دل کا ڈوب جانا بھی
اس خط میں خواب ہو تے،رت جگے ہو تے،اُمیدیں ہو تیں،انتظار ہوتا،آسرہ ہوتا،دل کا ٹوٹنا ہوتا،دل کی بدلتی کیفیات ہو تیں،احساسات ہو تے،ماں کا رونا اور بیٹی کا بڑی دانا بن کر ماں کو سمجھانا ہوتا۔دادی کا پوچھنا ہوتا کہ”آخر وہ کب لوٹے گا؟“اور پوتی کا دادی سے محبت سے،بہت سے آنسو روک کر بتانا ہوتا کہ ”وہ ضرور لوٹے گا!“جاگتے آنکھوں کی نیند ہو تی اور سوتی آنکھوں کا جاگنا ہوتا،بن بابا کی قیامت ہو تی،تلاش یار ہو تی،ہولتے دل کا درد ہوتا،پیروں کے چھالے ہو تے،سر سے اترے دوپٹے کا پرچم بن جانا ہوتا،پر وہ اپنے بابا کو خط نہیں لکھ سکتی کیوں کہ وہ غالب کی طرح یہ نہیں جانتی کہ وہ جسے کچھ لکھنا چاہتی ہے وہ زندہ ہے اور وہ اگر اپنے الفاظوں میں،الفاظوں کا جادو نہ بھی جگائے بس یہ لکھے کہ
”ہم جانتے ہیں کہ تم زندہ ہو،تم جانتے ہو کہ ہم زندہ ہیں!“
اور اپنا قلم روک دے،تو کس کو لکھے؟!!!
وہ جو دردوں کی ماری ہے
وہ جو مریم جیسی ہے
وہ جو سسئی کی بہن ہے
وہ جو دکھوں اور دردوں سے دور رہتی تو شاعرہ ہو تی
وہ جو قرت العین جیسی ہے
وہ جس کا محمد علی باب جیسا بابا گم ہے،وہ اگر لکھے تو کیا لکھے اور اگر لکھے تو کس کے لیے لکھے
دردوں سے بھرے طویل خط،آنسوؤں سے بھیگے مختصر خط!
ہمیں جاننا چاہیے کہ چودہ سالوں کا درد کچھ الفاظوں میں بیان نہیں ہو سکتا،ایسے دردوں کو بیان کرنے کے لیے بھی منہ کو نہیں پر دل کو زباں چاہیے اور وہ دل کو زباں بنا کر آج عید کے روز بھی شہر یاراں میں سڑکوں پر ہے۔
کیا یہ اکیلی سسئی آج عید کے دن دردوں کا سفر لیے اپنے بابا کو آواز دے رہی ہے،تلاش کر رہی ہے؟
نہیں!!!
آج تو کئی سکھیاں ایسے باباؤں کی تلاش میں نکلی ہیں جیسے آکاش پر کونجیں قطاریں بنا کر پو رے آکاش کو اپنے پروں سے ڈھک دیتی ہیں
پر یہاں درد کا پیمانہ کچھ اور ہے
نینوں کی بارش کچھ اور ہے،
ایسا درد،جس درد کے لیے غالب نے کہا تھا کہ
”مجھ کو وہ دو کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگو
زہر کچھ اور سہی،آبِ بقا اور سہی!“
کاش آج تم بھی یہ بار بی کیو نہ کھاتے اور اپنے گھروں سے باہر نکلتے اور جان پاتے اس درد کو جس درد کی کوئی منزل نہیں جس درد کا کوئی سنگ میل نہیں
بس یہ درد یا توآنکھوں سے جھلکتا ہے یا ان بیٹیوں کے دل میں اُٹھتا ہے جو آج بھی سڑکوں پر تلاش یار میں ہیں
مقدس بائبل میں لکھا ہے کہ
”عاقلہ
کیا تم مریم کو جانتے ہو
اگر تم مریم کو نہیں جانتے
تو تم درد سے واقف نہیں!“
ایسے ہی اگر تم سمی کو نہیں جانتے،تو تم درد سے واقف نہیں!!
—♦—
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT