نثار قادری ایک خوبصورت اور ورسٹائل اداکار تھے ۔ مجھے حیرت ہے کہ کل ان کی وفات پر چند سطری خبر کے بعد پورا الیکٹرونک میڈیا بشمول پی ٹی وی خاموش ہی رہا۔
شاید ان کی زندگی میں میڈیا کی دلچسپی کا سامان نہ رہا ہو۔ ایک غریب ورکر زندگی میں اور بعد از موت ورکر ہی رہتا ہے۔ بھلے وہ زندگی میں ادب و آرٹ میں کتنا نام ہی کیوں نہ کما لے۔
راولپنڈی میں ٹیکسی ڈرائیور سے اداکاری کا راستہ منو بھائی اور یاور حیات بنے۔ یاور حیات انہیں پھر لاہور لے آئے اور نثار قادری کے فن کو کھل کو سامنے آنے دیا۔
میری ان سے جان پہچان بحیثیت مداح ان کے اس ڈرامہ سے ہوئی جس میں یہ صحافی بنے جا بہ جا ” ماچس ہوگی آپ کے پاس” کہتے پائے جاتے تھے ۔ لطف کی بات ہے کہ ایسے ہی عوامی کردار انہوں نے کیے۔
دوسری ملاقات باالمشافہ ٹی وی سٹیشن لاہور میں پروڈیوسر طارق جمیل کے دفتر میں ہوئی جہاں زاہد عزیر بھائی (اس وقت جی ایم ٹی وی لاہور سٹیشن ) مجھے طارق جمیل سے ملانے لائے تھے۔
نثار ایک دم محبت کرنے والے انسان تھے ، اس دن مجھےیہ معلوم ہوا کہ وہ موسیقی سے پیار کرنے والے بے حد معصوم اور پرخلوص شخص تھے۔
یہ نوے کی دھائی کے آخری برسوں کا وقت تھا جب میں لاہور میں بینک کاڈپٹی جنرل منیجر تھا اور طارق جمیل کا ٹی وی پرطوطی بولتا تھا۔ میں زاہد عزیر سے ملنے ٹی وی اسٹیشن گیا تو زاہد مجھے گراونڈ فلور پر طارق جمیل کے کمرے میں یہ کہتے ہوئے لے گئے کہ طارق کو مجھ سے ضروری کام ہے۔ شاید طارق جمیل نے مجھے کسی وقت زاہد کے پاس دیکھا ہوگا۔ کیونکہ جب بھی میں اپنے نیلا گنبد آفس سے نکلتا تو اکثر راستے میں کسی نہ کسی دوست سے ملتا ہوا ہے اپنے گھر جاتا.اسی طرح زاہد کے پاس بھی چلے جایا کرتا۔
میں زاہد سے یہ پوچھتا ہوا سیڑھیاں اتر رہاتھا کہ یار کمال ہے ۔ کام طارق کو ہے اور تم مجھے خود اس کے پاس لے جارہے ہو۔ کہنے لگا تم چلو تو سہی۔۔۔
اصل میں تمہیں چائے پلانی ہے اور کام بھی تمہارا ہی ہے۔ میرے کچھ پلے نہ پڑا اور میں اسی حیرانی میں طارق کے کمرے میں داخل ہوا تو کمرہ خواتین و مرد اداکاروں سے بھرا ہوا تھا جن میں بیشتر کو میں ٹی وی اسکرین پر دیکھتا تھا۔ نثار قادری ایک کونے میں بیٹھے تھے۔ محسوس ہوا کہ سب لوگ ہمارا انتظار کر رہے تھے کیونکہ زاہد نے انٹرکام پر بتا دیا تھا کہ ہم آرہے ہیں۔
یہاں معمول کی سلام دعا کے دوران مجھے محسوس ہوا کہ کچھ لوگ مجھے تعریفی نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور کچھ لوگ جیسے مجھےاپنی نظروں سے ٹٹول یا کھنگال رہے ہوں۔ یہ سب لوگ یہاں کسی ڈرامہ سیریل کے ٹائٹل کردار کے فائنل ہونے کے لیے جمع تھے۔
یہاں طارق جمیل نے مجھے بتایا کہ انہیں جس مرکزی کردار کی ضرورت تھی وہ ہو بہو میری شکل ‘ قدوقامت اور شخصیت جیسا ہے۔ حتی کہ قدرے بھاری آواز بولنے اور چلنے کا انداز بھی ویسا ہے ۔ میں چونکہ دفتر سے نکل کر آرہا تھا تواپنے بہترین سوٹ ٹائی میں ملبوس تھا جو شاید اس کردار کی ڈیمانڈ ہو۔ کھڑے کھڑے مجھے پورے کمرے نے اپروو کردیا۔
یہ کردار مجوزہ ڈرامہ کا ٹائٹل رول تھا۔
مجھےاچھی طرح یاد ہے کہ موجود افراد میں سے واحد نثار قادری مرحوم تھے جنہوں نے میری معذرت پر طارق جمیل کے بعد بہت اصرار کیا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ وہ ہر قیمت پر مجھے کاسٹ کرنا یا کروانا چاہتے تھے۔ ممکن ہے کہ انہیں اپنا ابتدائی وقت یاد رہا ہو .
لیکن سچ پوچھیں تو میں نثار قادری کے فن سے اتنا مرعوب تھا کہ میں ہمت کرکے بھی ان کے ہمراہ کام نہ کرپاتا اگر میں مان بھی جاتا۔ کیونکہ میرے نزدیک وہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری کے کسی بھی ٹاپ کلاس اداکار سے کم نہ تھے۔
اب دو تین برس وفات سے پہلے طارق جمیل بھائی نے مجھے کہا کہ اگر آپ اس وقت میرے ڈرامہ سیریل میں آجاتے تو آج معروف ایکٹر ہوتے ادیب نہ ہوتے ۔
—♦—
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے سنئیر وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک ملکی و عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے تاحیات ممبر ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
نثار قادری ایک خوبصورت اور ورسٹائل اداکار تھے ۔ مجھے حیرت ہے کہ کل ان کی وفات پر چند سطری خبر کے بعد پورا الیکٹرونک میڈیا بشمول پی ٹی وی خاموش ہی رہا۔
شاید ان کی زندگی میں میڈیا کی دلچسپی کا سامان نہ رہا ہو۔ ایک غریب ورکر زندگی میں اور بعد از موت ورکر ہی رہتا ہے۔ بھلے وہ زندگی میں ادب و آرٹ میں کتنا نام ہی کیوں نہ کما لے۔
راولپنڈی میں ٹیکسی ڈرائیور سے اداکاری کا راستہ منو بھائی اور یاور حیات بنے۔ یاور حیات انہیں پھر لاہور لے آئے اور نثار قادری کے فن کو کھل کو سامنے آنے دیا۔
میری ان سے جان پہچان بحیثیت مداح ان کے اس ڈرامہ سے ہوئی جس میں یہ صحافی بنے جا بہ جا ” ماچس ہوگی آپ کے پاس” کہتے پائے جاتے تھے ۔ لطف کی بات ہے کہ ایسے ہی عوامی کردار انہوں نے کیے۔
دوسری ملاقات باالمشافہ ٹی وی سٹیشن لاہور میں پروڈیوسر طارق جمیل کے دفتر میں ہوئی جہاں زاہد عزیر بھائی (اس وقت جی ایم ٹی وی لاہور سٹیشن ) مجھے طارق جمیل سے ملانے لائے تھے۔
نثار ایک دم محبت کرنے والے انسان تھے ، اس دن مجھےیہ معلوم ہوا کہ وہ موسیقی سے پیار کرنے والے بے حد معصوم اور پرخلوص شخص تھے۔
یہ نوے کی دھائی کے آخری برسوں کا وقت تھا جب میں لاہور میں بینک کاڈپٹی جنرل منیجر تھا اور طارق جمیل کا ٹی وی پرطوطی بولتا تھا۔ میں زاہد عزیر سے ملنے ٹی وی اسٹیشن گیا تو زاہد مجھے گراونڈ فلور پر طارق جمیل کے کمرے میں یہ کہتے ہوئے لے گئے کہ طارق کو مجھ سے ضروری کام ہے۔ شاید طارق جمیل نے مجھے کسی وقت زاہد کے پاس دیکھا ہوگا۔ کیونکہ جب بھی میں اپنے نیلا گنبد آفس سے نکلتا تو اکثر راستے میں کسی نہ کسی دوست سے ملتا ہوا ہے اپنے گھر جاتا.اسی طرح زاہد کے پاس بھی چلے جایا کرتا۔
میں زاہد سے یہ پوچھتا ہوا سیڑھیاں اتر رہاتھا کہ یار کمال ہے ۔ کام طارق کو ہے اور تم مجھے خود اس کے پاس لے جارہے ہو۔ کہنے لگا تم چلو تو سہی۔۔۔
اصل میں تمہیں چائے پلانی ہے اور کام بھی تمہارا ہی ہے۔ میرے کچھ پلے نہ پڑا اور میں اسی حیرانی میں طارق کے کمرے میں داخل ہوا تو کمرہ خواتین و مرد اداکاروں سے بھرا ہوا تھا جن میں بیشتر کو میں ٹی وی اسکرین پر دیکھتا تھا۔ نثار قادری ایک کونے میں بیٹھے تھے۔ محسوس ہوا کہ سب لوگ ہمارا انتظار کر رہے تھے کیونکہ زاہد نے انٹرکام پر بتا دیا تھا کہ ہم آرہے ہیں۔
یہاں معمول کی سلام دعا کے دوران مجھے محسوس ہوا کہ کچھ لوگ مجھے تعریفی نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور کچھ لوگ جیسے مجھےاپنی نظروں سے ٹٹول یا کھنگال رہے ہوں۔ یہ سب لوگ یہاں کسی ڈرامہ سیریل کے ٹائٹل کردار کے فائنل ہونے کے لیے جمع تھے۔
یہاں طارق جمیل نے مجھے بتایا کہ انہیں جس مرکزی کردار کی ضرورت تھی وہ ہو بہو میری شکل ‘ قدوقامت اور شخصیت جیسا ہے۔ حتی کہ قدرے بھاری آواز بولنے اور چلنے کا انداز بھی ویسا ہے ۔ میں چونکہ دفتر سے نکل کر آرہا تھا تواپنے بہترین سوٹ ٹائی میں ملبوس تھا جو شاید اس کردار کی ڈیمانڈ ہو۔ کھڑے کھڑے مجھے پورے کمرے نے اپروو کردیا۔
یہ کردار مجوزہ ڈرامہ کا ٹائٹل رول تھا۔
مجھےاچھی طرح یاد ہے کہ موجود افراد میں سے واحد نثار قادری مرحوم تھے جنہوں نے میری معذرت پر طارق جمیل کے بعد بہت اصرار کیا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ وہ ہر قیمت پر مجھے کاسٹ کرنا یا کروانا چاہتے تھے۔ ممکن ہے کہ انہیں اپنا ابتدائی وقت یاد رہا ہو .
لیکن سچ پوچھیں تو میں نثار قادری کے فن سے اتنا مرعوب تھا کہ میں ہمت کرکے بھی ان کے ہمراہ کام نہ کرپاتا اگر میں مان بھی جاتا۔ کیونکہ میرے نزدیک وہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری کے کسی بھی ٹاپ کلاس اداکار سے کم نہ تھے۔
اب دو تین برس وفات سے پہلے طارق جمیل بھائی نے مجھے کہا کہ اگر آپ اس وقت میرے ڈرامہ سیریل میں آجاتے تو آج معروف ایکٹر ہوتے ادیب نہ ہوتے ۔
—♦—
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے سنئیر وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک ملکی و عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے تاحیات ممبر ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT