• Latest

رات کون سرمست تیری گلیوں سے گزرا؟!!! – تحریر: محمد خان داؤد

دسمبر 25, 2023

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
منگل, مئی 20, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home home سماجی مسائل

رات کون سرمست تیری گلیوں سے گزرا؟!!! – تحریر: محمد خان داؤد

للکار نیوز by للکار نیوز
دسمبر 25, 2023
in پاکستان, سماجی مسائل, فنون و ادب
A A
0

یہ صدیوں کی صدا جو نیلے آکاش سے کانوں کی سماعت میں گونجنے لگتی ہے کہ
”جب انسان کے ہاتھوں سے سب کچھ پھسل جاتا ہے تو کہانی اس میں اُمید جگانے آتی ہے
کہانی کو صحیح پیش کر کے کچھ انسان نبی بن گئے اور کچھ ولی!
اور کچھ آسماں والے کے خاص بندے
پر بہت تھوڑے لوگ ہی جان پائے کہ اصل میں تو وہ کہانی گر ہیں
کہانی ہی سنانے آئے ہیں!“

پر ایسی صدا کو نہ تو بند کان سن سکتے ہیں اور نہ اپنے میں مست دل محسوس کر سکتے ہیں
اداس بجھتے دل،اور ہر شور اور دروں کی ہلکی سی آہٹ پر بھی جاگ جانی والی آنکھیں،اور سنتے کان تو ایسی صداؤں کو سن سکتے ہیں،محسوس کر سکتے ہیں،آنکھیں رو سکتی ہیں،دل جل کر بجھ سکتے ہیں،بجھ بجھ کر جل سکتے ہیں،بند آنکھوں کی پلکیں نیند سے بھا ری ہونے کے باجود سوتی ہیں،ان آنکھوں پر نیند کی بارش تو کیا پر نیند کی اُوس بھی نہیں برستی،وہ آنکھیں جاگتے ہیں جو جاگتی ہیں رہتی ہیں پر وہ آنکھیں نیند میں بھی جاگنے کا عذاب سہہ رہی ہو تی ہیں،اور کان ہو تے ہیں جو قدرت کی کُن فیکون سے لیکر ان صداؤں کو بھی سن رہے ہو تے ہیں جن صداؤں سے کائینات میں اُتھل پتھل ہو رہی ہو تی ہیں،پر پھر بھی وہ دل،وہ آنکھیں،وہ کان ہواکی ہلکی آہٹ اور ہواؤں کے ہلتے پلڑوں پر جاگ جا تے ہیں
ہوا ہر ہلتے در بہت پیچھے رہ جا تے ہیں پر آنکھیں،من،ملول روح اور اداس دل ہلتے رہ جا تے ہیں
جب رات کے آخری پہروں میں پو ری دنیا اپنے پیاروں کی بہانوں میں سو رہی ہو تی ہے جب بھی دردسے ماری مائیں اور ملول دل والی بیٹیاں جا گتی رہتی ہیں ان کی نیند ایسی ہو گئی ہے جس نیند کے لیے حسن درس نے لکھا تھا کہ
”گھر تہ ستو آبھاتین سان بھاکریں
اے کھڑکندڑدر
چھو بھلا سمھین نتھو؟!!!!“
”گھر تو اپنے گھر والوں کو جھپی پا ر سوگیا
اے ہلتے در
تم کیوں سوتے نہیں؟!!!“

شاید کوئی نہ جانے پر میں ان سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ جن گھروں کی چوکھٹ پر درد آکر بیٹھ جائیں،جن گھرو ں میں درد بچوں کی طرح پلتے ہوں،جن ماؤ ں کے دامنوں سے درد بچوں کی طرح دامن گیر ہوئے ہوں،جن بیٹیوں کے ساتھ درد ایسے نبھا کر رہے ہوں جیسے بڑی بہنیں چھوٹے بھائیوں کے ہاتھ پکڑے چلتی ہوں ان گھروں کی نیندیں ماری جا تی ہیں ان گھروں میں بہنوں،ماؤں،بیٹیوں کی آنکھوں میں نیند کا کوئی بسیرہ نہیں ہوتا ان آنکھوں میں سپنے اور خواب نہیں آتے وہ آنکھیں دن تو دن پر رات میں بھی سفر کو ناپتی رہتی ہیں وہ سفر جس سفر کو پیروں نے طے کیا،دل نے جھیلا اور نم نم آنکھوں اس سفر کو ناپا
روح سے بھی
درد سے بھی
بھیگیں پلکوں سے بھی
اور دل سے بھی
کیوں؟
اس لیے کہ ان کی نیند تو ازل ازل ازل سے ماری گئی ہے!
سسئی ایک طرف اگر ان مسافروں پیروں کے سفر کو کسی پیرا میٹر یا کسی آلہ سے ناپا جائے تو نبیوں کے دردیلے سفر ان پیروں کے سامنے مختصر ہو جائیں اور یہ سفر اتنے طویل ہو جائیں کہ
انہیں کون ناپے
اور کیوں ناپے؟
یہ مسافر مائیں اور بیٹیاں ساتھ میں اُمت نہیں رکھتیں
کہ ان کے سفر کی واہ واہ ہو
یہ تو ساتھ میں درد رکھتی ہیں
اور دردوں کے قریب کون بھٹکتا ہے
دردوں کو اپنا کون کہتا ہے؟
دردوں کو کون ہاتھوں میں لیتا ہے؟
دردوں کو کون دل میں جگہ دیتا ہے؟
دل تو دل پر درد کو تو کوئی دامن گیر بھی نہیں کرتا سب درد سے دامن بچاتے ہیں اور درد مسافر بیٹیوں کے دامن گیر ہو جاتا ہے اور یہ درد سے پلو نہیں چھڑاتیں پر درد کو ایسے ساتھ لیے پھرتی ہیں جیسے وہ جوگیانیاں جو بھیک مانگتے ان بچوں کو لیے پھرتی ہیں جو بچے ان کے میلے پستانوں سے جُڑے رہتے ہیں
یہ بھی درد کی جوگیانیاں ہیں
اور درد ان کے۔۔۔۔۔۔
ایسا نہیں ہے کہ ان کا بس دن ہجر کا ہے
اور ایسا بھی نہیں کہ بس ا ن کی رات دکھ بھری ہے
اور ایسا بھی نہیں کہ ان کی سب صبحیں اور تمام شامیں ہجر کی ہیں
پر ان کا تو ہر ہر پل دردوں سے پُر ہے
جس کے لیے بابا فرید نے فرمایا تھا کہ
”درداں دی ما ری دلڑی علیل اے!“
وہ دردوں کی ماری دلڑی لیے ملول دل سے سفر کرتی ہیں شال کی گلیوں سے لیکر کراچی کی تنگ و تاریک گلیاں اسلام آباد کے ڈی چوک سے لیکر پھر شال کی گلیاں پر پھر بھی ان کی کہانی نہیں سنی جا تی
کیوں؟
ایک خاص مائینڈ سیٹ آصفہ زردا ری اور مریم صفدر کے ٹوئیٹ دیکھ کر انہیں رے ٹوئیٹ تو کرتا ہے
ان بے ہودہ ٹوئیٹوں پر میڈیا میں خبر بھی بنتی ہے
پر سمی کے درد کو الفاظ کیوں نہیں ملتے
راشد کی بوڑھی ماں کے درد پر اخبار کیوں نہیں بھیگتا
اور مسافر ماؤں کے پیروں کے زخموں کو میڈیا پر کیوں کور نہیں کیا جاتا؟
کیا وہ کہانی گر نہیں؟
کیا ان کے پاس کہانی نہیں؟
ان کے ہاتھوں سے تو سب کچھ پھل گیا ہے
بابا کا پیارا ہاتھ بھی
اور بابا کے ہاتھ کا لمس بھی
محبت بھی اور محبت میں دینے والا بوسہ بھی
تو کیا وہ کہانی گر نہیں
یہ تو عظیم کہانی گر ہیں،پر انہیں کوئی سنے بھی تو
میں نہیں
آپ نہیں
انہیں وہ سنیں جہاں کہانیاں براڈ کاسٹ ہو تی ہیں
نشر ہو تی ہیں
اور شائع ہوکر وہاں جا تی ہیں جہاں ان کے لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں ان اداروں کی چابیاں ہیں
یہ میری مائیں۔بہنیں۔بیٹیاں عظیم کہانی گر ہیں
ان کے پاس بیٹھو اور ان کی کہانی سنو
جن کہانیوں میں الفاظ نہیں
بس بھیگی آنکھیں ہیں
دھول آلود پیر ہیں
اور ملول دل!
”جب انسان کے ہاتھوں سے سب کچھ پھسل جاتا ہے تو کہانی اس میں اُمید جگانے آتی ہے
کہانی کو صحیح پیش کر کے کچھ انسان نبی بن گئے اور کچھ ولی!
اور کچھ آسماں والے کے خاص بندے
پر بہت تھوڑے لوگ ہی جان پائے کہ اصل میں تو وہ کہانی گر ہیں
کہانی ہی سنانے آئے ہیں!“

شال کی سردی میں سوتے لوگو!
شال کی سردی میں کافی کا جگ پیتے لوگو
شال کی گلابی دوپہروں میں چلتے لوگو
کیا تم جانتے ہو رات شال کی گلی سے کون گزرا؟
”صورتِ ملول مائیں
زندگی،تیرے خواب کا شیشہ ٹوٹا
چاند گہنا گیا تیری دلداری کا
اے عشقِ بتاں
تجھ کو کُجا کیا معلوم
کون سر مست
تیری رات گلی سے گزرا؟!!!“

—♦—

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">

یہ صدیوں کی صدا جو نیلے آکاش سے کانوں کی سماعت میں گونجنے لگتی ہے کہ
”جب انسان کے ہاتھوں سے سب کچھ پھسل جاتا ہے تو کہانی اس میں اُمید جگانے آتی ہے
کہانی کو صحیح پیش کر کے کچھ انسان نبی بن گئے اور کچھ ولی!
اور کچھ آسماں والے کے خاص بندے
پر بہت تھوڑے لوگ ہی جان پائے کہ اصل میں تو وہ کہانی گر ہیں
کہانی ہی سنانے آئے ہیں!“

پر ایسی صدا کو نہ تو بند کان سن سکتے ہیں اور نہ اپنے میں مست دل محسوس کر سکتے ہیں
اداس بجھتے دل،اور ہر شور اور دروں کی ہلکی سی آہٹ پر بھی جاگ جانی والی آنکھیں،اور سنتے کان تو ایسی صداؤں کو سن سکتے ہیں،محسوس کر سکتے ہیں،آنکھیں رو سکتی ہیں،دل جل کر بجھ سکتے ہیں،بجھ بجھ کر جل سکتے ہیں،بند آنکھوں کی پلکیں نیند سے بھا ری ہونے کے باجود سوتی ہیں،ان آنکھوں پر نیند کی بارش تو کیا پر نیند کی اُوس بھی نہیں برستی،وہ آنکھیں جاگتے ہیں جو جاگتی ہیں رہتی ہیں پر وہ آنکھیں نیند میں بھی جاگنے کا عذاب سہہ رہی ہو تی ہیں،اور کان ہو تے ہیں جو قدرت کی کُن فیکون سے لیکر ان صداؤں کو بھی سن رہے ہو تے ہیں جن صداؤں سے کائینات میں اُتھل پتھل ہو رہی ہو تی ہیں،پر پھر بھی وہ دل،وہ آنکھیں،وہ کان ہواکی ہلکی آہٹ اور ہواؤں کے ہلتے پلڑوں پر جاگ جا تے ہیں
ہوا ہر ہلتے در بہت پیچھے رہ جا تے ہیں پر آنکھیں،من،ملول روح اور اداس دل ہلتے رہ جا تے ہیں
جب رات کے آخری پہروں میں پو ری دنیا اپنے پیاروں کی بہانوں میں سو رہی ہو تی ہے جب بھی دردسے ماری مائیں اور ملول دل والی بیٹیاں جا گتی رہتی ہیں ان کی نیند ایسی ہو گئی ہے جس نیند کے لیے حسن درس نے لکھا تھا کہ
”گھر تہ ستو آبھاتین سان بھاکریں
اے کھڑکندڑدر
چھو بھلا سمھین نتھو؟!!!!“
”گھر تو اپنے گھر والوں کو جھپی پا ر سوگیا
اے ہلتے در
تم کیوں سوتے نہیں؟!!!“

شاید کوئی نہ جانے پر میں ان سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ جن گھروں کی چوکھٹ پر درد آکر بیٹھ جائیں،جن گھرو ں میں درد بچوں کی طرح پلتے ہوں،جن ماؤ ں کے دامنوں سے درد بچوں کی طرح دامن گیر ہوئے ہوں،جن بیٹیوں کے ساتھ درد ایسے نبھا کر رہے ہوں جیسے بڑی بہنیں چھوٹے بھائیوں کے ہاتھ پکڑے چلتی ہوں ان گھروں کی نیندیں ماری جا تی ہیں ان گھروں میں بہنوں،ماؤں،بیٹیوں کی آنکھوں میں نیند کا کوئی بسیرہ نہیں ہوتا ان آنکھوں میں سپنے اور خواب نہیں آتے وہ آنکھیں دن تو دن پر رات میں بھی سفر کو ناپتی رہتی ہیں وہ سفر جس سفر کو پیروں نے طے کیا،دل نے جھیلا اور نم نم آنکھوں اس سفر کو ناپا
روح سے بھی
درد سے بھی
بھیگیں پلکوں سے بھی
اور دل سے بھی
کیوں؟
اس لیے کہ ان کی نیند تو ازل ازل ازل سے ماری گئی ہے!
سسئی ایک طرف اگر ان مسافروں پیروں کے سفر کو کسی پیرا میٹر یا کسی آلہ سے ناپا جائے تو نبیوں کے دردیلے سفر ان پیروں کے سامنے مختصر ہو جائیں اور یہ سفر اتنے طویل ہو جائیں کہ
انہیں کون ناپے
اور کیوں ناپے؟
یہ مسافر مائیں اور بیٹیاں ساتھ میں اُمت نہیں رکھتیں
کہ ان کے سفر کی واہ واہ ہو
یہ تو ساتھ میں درد رکھتی ہیں
اور دردوں کے قریب کون بھٹکتا ہے
دردوں کو اپنا کون کہتا ہے؟
دردوں کو کون ہاتھوں میں لیتا ہے؟
دردوں کو کون دل میں جگہ دیتا ہے؟
دل تو دل پر درد کو تو کوئی دامن گیر بھی نہیں کرتا سب درد سے دامن بچاتے ہیں اور درد مسافر بیٹیوں کے دامن گیر ہو جاتا ہے اور یہ درد سے پلو نہیں چھڑاتیں پر درد کو ایسے ساتھ لیے پھرتی ہیں جیسے وہ جوگیانیاں جو بھیک مانگتے ان بچوں کو لیے پھرتی ہیں جو بچے ان کے میلے پستانوں سے جُڑے رہتے ہیں
یہ بھی درد کی جوگیانیاں ہیں
اور درد ان کے۔۔۔۔۔۔
ایسا نہیں ہے کہ ان کا بس دن ہجر کا ہے
اور ایسا بھی نہیں کہ بس ا ن کی رات دکھ بھری ہے
اور ایسا بھی نہیں کہ ان کی سب صبحیں اور تمام شامیں ہجر کی ہیں
پر ان کا تو ہر ہر پل دردوں سے پُر ہے
جس کے لیے بابا فرید نے فرمایا تھا کہ
”درداں دی ما ری دلڑی علیل اے!“
وہ دردوں کی ماری دلڑی لیے ملول دل سے سفر کرتی ہیں شال کی گلیوں سے لیکر کراچی کی تنگ و تاریک گلیاں اسلام آباد کے ڈی چوک سے لیکر پھر شال کی گلیاں پر پھر بھی ان کی کہانی نہیں سنی جا تی
کیوں؟
ایک خاص مائینڈ سیٹ آصفہ زردا ری اور مریم صفدر کے ٹوئیٹ دیکھ کر انہیں رے ٹوئیٹ تو کرتا ہے
ان بے ہودہ ٹوئیٹوں پر میڈیا میں خبر بھی بنتی ہے
پر سمی کے درد کو الفاظ کیوں نہیں ملتے
راشد کی بوڑھی ماں کے درد پر اخبار کیوں نہیں بھیگتا
اور مسافر ماؤں کے پیروں کے زخموں کو میڈیا پر کیوں کور نہیں کیا جاتا؟
کیا وہ کہانی گر نہیں؟
کیا ان کے پاس کہانی نہیں؟
ان کے ہاتھوں سے تو سب کچھ پھل گیا ہے
بابا کا پیارا ہاتھ بھی
اور بابا کے ہاتھ کا لمس بھی
محبت بھی اور محبت میں دینے والا بوسہ بھی
تو کیا وہ کہانی گر نہیں
یہ تو عظیم کہانی گر ہیں،پر انہیں کوئی سنے بھی تو
میں نہیں
آپ نہیں
انہیں وہ سنیں جہاں کہانیاں براڈ کاسٹ ہو تی ہیں
نشر ہو تی ہیں
اور شائع ہوکر وہاں جا تی ہیں جہاں ان کے لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں ان اداروں کی چابیاں ہیں
یہ میری مائیں۔بہنیں۔بیٹیاں عظیم کہانی گر ہیں
ان کے پاس بیٹھو اور ان کی کہانی سنو
جن کہانیوں میں الفاظ نہیں
بس بھیگی آنکھیں ہیں
دھول آلود پیر ہیں
اور ملول دل!
”جب انسان کے ہاتھوں سے سب کچھ پھسل جاتا ہے تو کہانی اس میں اُمید جگانے آتی ہے
کہانی کو صحیح پیش کر کے کچھ انسان نبی بن گئے اور کچھ ولی!
اور کچھ آسماں والے کے خاص بندے
پر بہت تھوڑے لوگ ہی جان پائے کہ اصل میں تو وہ کہانی گر ہیں
کہانی ہی سنانے آئے ہیں!“

شال کی سردی میں سوتے لوگو!
شال کی سردی میں کافی کا جگ پیتے لوگو
شال کی گلابی دوپہروں میں چلتے لوگو
کیا تم جانتے ہو رات شال کی گلی سے کون گزرا؟
”صورتِ ملول مائیں
زندگی،تیرے خواب کا شیشہ ٹوٹا
چاند گہنا گیا تیری دلداری کا
اے عشقِ بتاں
تجھ کو کُجا کیا معلوم
کون سر مست
تیری رات گلی سے گزرا؟!!!“

—♦—

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Tags: Baloch Missing PersonsBaloch YakjehtiMarchBalochistanCivil RightHuman RightsIslamabadMahrang BalochNational Press Club
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

by للکار نیوز
اکتوبر 13, 2024
0
0

پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں...

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

by للکار نیوز
اکتوبر 5, 2024
1
0

پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد...

بلوچ جدوجہد اور بلوچوں کی تاریخی حقیقت؟ – تحریر:ممتاز احمد آرزو

by للکار نیوز
ستمبر 26, 2024
0
0

ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا...

میری آواز سنو ! – تحریر: ناصر منصور

by للکار نیوز
ستمبر 5, 2024
0
0

آپ بار بار وہی دوا تجویز کرتے آ رہے ہیں جو ہر بار مرض بڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔...

کولکتہ : گینگ ریپ اور وحشی معاشرے! – تحریر: پرویز فتح

by admin
اگست 28, 2024
0
0

ہندوستانی ریاست مغربی بنگال میں 34 برس (2011-1977) تک لیفٹ فرنٹ، بالخصوص کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی حکمرانی کے...

جلتا، سلگتا بلوچستان! – تحریر: رانااعظم

by للکار نیوز
اگست 27, 2024
0
0

آؤ مل کر بلوچستان کے حالات/سوالات پر غور کریں۔ جب ہم آؤ مل کر کہتے ہیں تو ہم ان دوستوں...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.