کراچی (للکار نیوز ڈیسک) بلوچوں پر جاری وحشیانہ ظلم و بربریت صورت حال کو اس قدر خراب کر رہا ہے کہ واپسی کے تمام راستے بند ہونے کا اندیشہ ہے ۔بلوچستان میں جبرا گم شدگیاں ، ماورائے عدالت قتل جیسے انسانیت سوز اقدامات کے خلاف پر امن احتجاج کو طاقت کے زور پر دبایا جا رہا ہےجس سے ثابت ہوتا ہے کہ ریاست مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید خراب کرنے کے درپے ہے۔ اس کی حالیہ مثال تربت میں بالاچ اور دیگر تین نواجونوں کا اغوا اور بہیمانہ قتل ہے جس کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں بلوچ شرکاء نے پر امن احتجاجی مارچ کا آغاز کیا جسے روکنے کے لیے ریاستی مشینری نے تشدد اورگرفتاریوں کا غیر قانونی طرز عمل اختیار کیا جس کے نتیجے میں پورے ملک اور خصوصاً بلوچستان میں شدید غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
تربت میں بپا ہونے والی بربریت کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جس پر انصاف کے دعوی دار ریاستی اداروں نے روایتی مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ تربت میں ہونے والی لاقانونیت کے خلاف بلوچ خواتین کی قیادت میں تربت سے اسلام آباد کی جانب پرامن بلوچ مارچ اس امر کی نشان دہی کرتا ہے کہ تمام مظالم اور نسل کشی کےباوجود بلوچ آج بھی اسلام آباد میں بیٹھے طاقت کے ایوانوں سے انصاف کے لیے دستک دے رہیں ہیں ۔ لیکن بدقستمی سے ہمیشہ کی طرح ان کی آواز کو طاقت اور بہیمانہ تشدد سے دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ شہریوں کے خلاف اس طرح کا بھیانک ریاستی طرز عمل نے بھیانک نتائج ہی مرتب کئے ہیں ۔ بدقسمتی سےغیرانسانی طر ز عمل ایسے وقت میں اختیار کیا گیا ہے جب ملک کا وزیر اعظم، سینٹ کا چیئرمین اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تعلق بلوچستان سے ہے۔

پاکستان کے محنت، مظلوم اور محکوم عوام بلوچوں کے خلاف جاری ریاستی بربریت اور بلوچوں کی نسل کشی کی شدید مذمت اور بلوچوں کی انصاف پر مبنی پر امن جدوجہد سے مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ ؛
- تمام بلوچوں کی جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔
- جبری طور پر غائب کئے گئے تمام سیاسی سماجی کارکنوں اور صحافیوں کو فی الفور رہا کیا جائے اور اس گھناؤنے جرم کے مرتکب عناصر کو قانون کےمطابق سزا دی جائے ۔
- تربت کے نوجوان بالاچ بلوچ اور تین نوجوانوں کے بہیمانہ قتل میں ملوث اہلکاروں کو گرفتار کیا جائے اور قرار واقعی سزاد دی جائے۔
- اسلام آباد میں بلوچ خواتین اور پر امن مارچ کے شرکاء پر پولیس کے وحشیانہ تشدد میں ملوث اہلکاروں کو گرفتار کیا جائے۔
- آئین کی شیقیں آزادی رائے (19)، ہر شہری کی زندگی کا تحفظ (9)، غیرقانونی گرفتاری و قید سے تحفظ کا حق (10)، منصافہ عدالتی کاروائی کا حق (10 اے) بنیادی اور مفت تعلیم کا حق (25 اے)، شہریوں کی عزت اور وقار کا تحفظ (14) اور اداروں کو آئینی حدود کا پابند بنایا جائے۔
احتجاجی مظاہرے کے شرکاء ناصر منصور،کامریڈ رمضان بلوچ، ڈاکٹر اصغر دشتی، عبدالوہاب بلوچ ، نزہت شیریں ، زہرا خان، عبالخالق زدران، رمضان میمن ، اللہ بخشن بکک ، عبدالواحد بلوچ، سعید بلوچ، قاضی خضر، گل رحمان، ریاض عباسی، حانی بلوچ، عاقب حسین، سائرہ فیروز ، پروین بانو، محمد علی شہوانی ایڈووکیٹ، ، سارا خان ایڈووکیٹ، ماھین واحد بلوچ، احسن باری ایڈووکیٹ، نور محمد ایڈووکیٹ، عظمٰی نورانی، شریف بلوچ ، عبدالرحمٰن بلوچ، پروین ناز بلوچ ، ماہین یعقوب بلوچ اور دیگر شامل تھے۔جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
کراچی (للکار نیوز ڈیسک) بلوچوں پر جاری وحشیانہ ظلم و بربریت صورت حال کو اس قدر خراب کر رہا ہے کہ واپسی کے تمام راستے بند ہونے کا اندیشہ ہے ۔بلوچستان میں جبرا گم شدگیاں ، ماورائے عدالت قتل جیسے انسانیت سوز اقدامات کے خلاف پر امن احتجاج کو طاقت کے زور پر دبایا جا رہا ہےجس سے ثابت ہوتا ہے کہ ریاست مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید خراب کرنے کے درپے ہے۔ اس کی حالیہ مثال تربت میں بالاچ اور دیگر تین نواجونوں کا اغوا اور بہیمانہ قتل ہے جس کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں بلوچ شرکاء نے پر امن احتجاجی مارچ کا آغاز کیا جسے روکنے کے لیے ریاستی مشینری نے تشدد اورگرفتاریوں کا غیر قانونی طرز عمل اختیار کیا جس کے نتیجے میں پورے ملک اور خصوصاً بلوچستان میں شدید غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
تربت میں بپا ہونے والی بربریت کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جس پر انصاف کے دعوی دار ریاستی اداروں نے روایتی مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ تربت میں ہونے والی لاقانونیت کے خلاف بلوچ خواتین کی قیادت میں تربت سے اسلام آباد کی جانب پرامن بلوچ مارچ اس امر کی نشان دہی کرتا ہے کہ تمام مظالم اور نسل کشی کےباوجود بلوچ آج بھی اسلام آباد میں بیٹھے طاقت کے ایوانوں سے انصاف کے لیے دستک دے رہیں ہیں ۔ لیکن بدقستمی سے ہمیشہ کی طرح ان کی آواز کو طاقت اور بہیمانہ تشدد سے دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ شہریوں کے خلاف اس طرح کا بھیانک ریاستی طرز عمل نے بھیانک نتائج ہی مرتب کئے ہیں ۔ بدقسمتی سےغیرانسانی طر ز عمل ایسے وقت میں اختیار کیا گیا ہے جب ملک کا وزیر اعظم، سینٹ کا چیئرمین اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تعلق بلوچستان سے ہے۔

پاکستان کے محنت، مظلوم اور محکوم عوام بلوچوں کے خلاف جاری ریاستی بربریت اور بلوچوں کی نسل کشی کی شدید مذمت اور بلوچوں کی انصاف پر مبنی پر امن جدوجہد سے مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ ؛
- تمام بلوچوں کی جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔
- جبری طور پر غائب کئے گئے تمام سیاسی سماجی کارکنوں اور صحافیوں کو فی الفور رہا کیا جائے اور اس گھناؤنے جرم کے مرتکب عناصر کو قانون کےمطابق سزا دی جائے ۔
- تربت کے نوجوان بالاچ بلوچ اور تین نوجوانوں کے بہیمانہ قتل میں ملوث اہلکاروں کو گرفتار کیا جائے اور قرار واقعی سزاد دی جائے۔
- اسلام آباد میں بلوچ خواتین اور پر امن مارچ کے شرکاء پر پولیس کے وحشیانہ تشدد میں ملوث اہلکاروں کو گرفتار کیا جائے۔
- آئین کی شیقیں آزادی رائے (19)، ہر شہری کی زندگی کا تحفظ (9)، غیرقانونی گرفتاری و قید سے تحفظ کا حق (10)، منصافہ عدالتی کاروائی کا حق (10 اے) بنیادی اور مفت تعلیم کا حق (25 اے)، شہریوں کی عزت اور وقار کا تحفظ (14) اور اداروں کو آئینی حدود کا پابند بنایا جائے۔
احتجاجی مظاہرے کے شرکاء ناصر منصور،کامریڈ رمضان بلوچ، ڈاکٹر اصغر دشتی، عبدالوہاب بلوچ ، نزہت شیریں ، زہرا خان، عبالخالق زدران، رمضان میمن ، اللہ بخشن بکک ، عبدالواحد بلوچ، سعید بلوچ، قاضی خضر، گل رحمان، ریاض عباسی، حانی بلوچ، عاقب حسین، سائرہ فیروز ، پروین بانو، محمد علی شہوانی ایڈووکیٹ، ، سارا خان ایڈووکیٹ، ماھین واحد بلوچ، احسن باری ایڈووکیٹ، نور محمد ایڈووکیٹ، عظمٰی نورانی، شریف بلوچ ، عبدالرحمٰن بلوچ، پروین ناز بلوچ ، ماہین یعقوب بلوچ اور دیگر شامل تھے۔جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT















