عنوان شاید کچھ پیچیدہ ہو گیا ۔ اسے تھوڑا کھولنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی,سماجی بندشوں سے آزادی کا مطلب ہے ، کہ سیاسی، سماجی قدامت، رجعت پسندی سے آزاد ( Emancipate or Liberate ) ہونا ۔اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ سماجی طور پر emancipate ہوتے ہیں ۔ سیاسی طور پر انتہائی رجعتی خیالات کے مالک ۔ دوسری صورت میں لوگ سیاسی طور پر Liberated ہوتے ہیں، لیکن سماجی طور پر الٹ ۔
ایسے لوگوں کو آپ نے اکثر یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا ،کہ ہیر (وارث شاہ کی ہیر) خواتین کی آزادی کی پہلی خاتون علمبردار تھی یا ہے ۔ لیکن اگر ان لوگوں کے اپنے گھر میں ہیر پیدا ہو جائے ، تو اجمل خٹک جیسا سکہ بند ترقی پسند بھی پشتون کلچر کے نام پر اس ہیر کے قتل کی حمایت کر دیتا ہے ۔ یہ ہم صرف پشتون معاشرہ کی حد تک نہیں کہہ رہے ۔ ہمارے جیسے معاشروں کی ہر قوم میں ایک جیسی صورتحال ہے ۔ یہ سوال قوموں سے نہیں سوشواکنامک زندگی سے جڑا ہوا ہے ۔
ہماری خواہش اور کوشش بھی ہے ، کہ یہ دونوں وصف معاشرہ میں ایک ہی وقت میں پائے جاتے ہوں ۔ تبھی معاشرے آگے برھ سکتے ہیں ۔ ورنہ سماج جامد ۔ مردہ اور غیر تخلیقی رہ جاتے ہیں ۔ یہ سطور لکھتے وقت بھی بیسیوں مثالیں ہمارے ذہن میں ہیں۔ یہاں اکثر سیاسی، سماجی دونوں طرح کی یا کوئی ایک بندش موجود رہتی ہے ۔ دونوں بندشوں سے آزادی بہت نایاب شے ہے ۔ ہم اپنے آپ کو پاکستان کی حد تک محدود رکھیں گے۔
ہمارے ذہن میں یہ سوال انسانی حقوق کے دن کے حوالے سے انسانی حقوق کمشن کی سابق سربراہ محترمہ حنا جیلانی اور وجاہت مسعود صاحب کی گفتگو سننے کے دوران آیا ۔ ہم اپنی ان معروضات سے کسی طور پر بھی ان کی گفتگو کو undermine نہیں کرنا چاہتے۔ حنا جیلانی صاحبہ اور ان کے خاندان کی انسانی حقوق کے حوالے سے بہت شاندار خدمات ہیں ۔ سراہی جانی چاہئیں۔ ہم اس گفتگو میں اضافہ یا آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
وجاہت مسعود صاحب نے اپنے پہلے سوال کا آغاز ہی علی گڑھ میں قائداعظم کی 10 مارچ 1944 کی تقریر کے حوالے سے کیا ۔ جس میں قائداعظم فرماتے ہیں کہ کوئی قوم اس وقت تک height of glory نہیں پا سکتی ، جب تک وہ اپنی آدھی آبادی خواتین کو برابر کے حقوق نہیں دیتی ۔
درست بات ہے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ 76 سال گزرنے کے بعد بھی یہ فیصلہ نہیں ہو پایا ، کہ کیا قائداعظم خود سیاسی اور سماجی طور ایک Emancipated انسان تھے ؟ ۔
بد قسمتی سے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ خود قائد اعظم نے اپنے قلم سے اپنے خیالات بارے دو سطریں بھی نہیں لکھیں ۔ ویسے ساری مسلم لیگ یا مسلم اشرافیہ میں لکھنے پڑھنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر رہا ہے ۔ کبھی پاکستان کے ترقی پسند دوست ان کی 11 اگست 1947 کی تقریر پکڑ کر انہیں سیاسی طور پر ایک Liberated , Emancipated انسان کے طور پر paint کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف سے رجعت پسند ان کی بیسیوں تقریریں اسلامی پاکستان بناتے ہوئے پیش کر دیتے ہیں۔ اب آتے ہیں ان کی سماجی Emancipation کی طرف ، جیسے وجاہت مسعود صاحب ان کی علی گڑھ کی تقریر کا حوالہ دے کر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ہم کہیں لکھ چکے ہیں، کہ وہ خود پارسی فیملی میں شادی کر لیتے ہیں ۔ جب بیٹی نے کرنا چاہی تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے اپنا رشتہ منقطع کر لیتے ہیں ۔ کہاں گ عورتوں کی برابری کی تقریر ۔
ابھی حال ہی کا عمران خان phenomenon آپ کے سامنے ہے ۔ ان کی مڈل کلاس Following سماجی طور پر Liberated نظر آتی ہے ، لیکن سیاسی طور پر سماج میں انتہائی رجعت پسندانہ کردار ادا کر رہی ہے ۔ آپ دیکھیں کہ ان کے ہاتھوں استحصال ذدہ عورتیں چیخ چیخ کر اپنی کتھائیں سنا رہی ہیں۔ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ہم کہتے ہیں کہ جب تک ہم اور ہماری قیادتیں سیاسی اور سماجی طور پر غیر جمہوری، رجعت پسندانہ خیالات کی بندشوں سے آزاد نہیں ہوتیں ، معاشرہ وہیں کا وہیں کھڑارہے گا۔ اس لئے کہ ہمارے جیسے نیم قبائلی ، نیم جاگیردارانہ معاشروں میں غربت سے نیچے ہماری چالیس فیصد آبادی کو آپ کون سے انسانی حقوق دلا سکتے ہیں یا ان کے کون سے انسانی حقوق ہوتے ہیں۔ ان کا پہلا مسئلہ ان کی روٹی ہوتی ہے ۔ وہ اس قبائلی جاگیردارانہ سماج میں انہیں نہیں مل سکتی۔
ہماری مسلم اشرافیہ کا یہی المیہ رہا ہے ۔ conformism تقلید پسندی کی زندگی میں کیا نیا سیکھنا ہو تا ہے ۔نئے پن کی ضرورت تو مزاحمتی زندگی میں ہوتی ہے ۔ ایسے معاشروں میں خواتین ہوں یا دیگر کمزور طبقات، ان کی کوئی جگہ نہیں.
ہمارا ماننا ہے کہ ایسے معاشرے اسں سڑاند کا شکار رہیں گے۔ جب تک قبائلی اور جاگیردارانہ سماج کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ۔ یہ کام NGOS کے بس سے باہر ہے۔ خواہ کتنی ہی مجموعی انسانی یا عورتوں کے حقوق کی علمبردار کیوں نہ ہوں ۔ یہ کام محنت کشوں کی نمائندہ سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کا ہے ۔ جنہوں نے سماجی تبدیلی کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے ۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
عنوان شاید کچھ پیچیدہ ہو گیا ۔ اسے تھوڑا کھولنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی,سماجی بندشوں سے آزادی کا مطلب ہے ، کہ سیاسی، سماجی قدامت، رجعت پسندی سے آزاد ( Emancipate or Liberate ) ہونا ۔اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ سماجی طور پر emancipate ہوتے ہیں ۔ سیاسی طور پر انتہائی رجعتی خیالات کے مالک ۔ دوسری صورت میں لوگ سیاسی طور پر Liberated ہوتے ہیں، لیکن سماجی طور پر الٹ ۔
ایسے لوگوں کو آپ نے اکثر یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا ،کہ ہیر (وارث شاہ کی ہیر) خواتین کی آزادی کی پہلی خاتون علمبردار تھی یا ہے ۔ لیکن اگر ان لوگوں کے اپنے گھر میں ہیر پیدا ہو جائے ، تو اجمل خٹک جیسا سکہ بند ترقی پسند بھی پشتون کلچر کے نام پر اس ہیر کے قتل کی حمایت کر دیتا ہے ۔ یہ ہم صرف پشتون معاشرہ کی حد تک نہیں کہہ رہے ۔ ہمارے جیسے معاشروں کی ہر قوم میں ایک جیسی صورتحال ہے ۔ یہ سوال قوموں سے نہیں سوشواکنامک زندگی سے جڑا ہوا ہے ۔
ہماری خواہش اور کوشش بھی ہے ، کہ یہ دونوں وصف معاشرہ میں ایک ہی وقت میں پائے جاتے ہوں ۔ تبھی معاشرے آگے برھ سکتے ہیں ۔ ورنہ سماج جامد ۔ مردہ اور غیر تخلیقی رہ جاتے ہیں ۔ یہ سطور لکھتے وقت بھی بیسیوں مثالیں ہمارے ذہن میں ہیں۔ یہاں اکثر سیاسی، سماجی دونوں طرح کی یا کوئی ایک بندش موجود رہتی ہے ۔ دونوں بندشوں سے آزادی بہت نایاب شے ہے ۔ ہم اپنے آپ کو پاکستان کی حد تک محدود رکھیں گے۔
ہمارے ذہن میں یہ سوال انسانی حقوق کے دن کے حوالے سے انسانی حقوق کمشن کی سابق سربراہ محترمہ حنا جیلانی اور وجاہت مسعود صاحب کی گفتگو سننے کے دوران آیا ۔ ہم اپنی ان معروضات سے کسی طور پر بھی ان کی گفتگو کو undermine نہیں کرنا چاہتے۔ حنا جیلانی صاحبہ اور ان کے خاندان کی انسانی حقوق کے حوالے سے بہت شاندار خدمات ہیں ۔ سراہی جانی چاہئیں۔ ہم اس گفتگو میں اضافہ یا آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
وجاہت مسعود صاحب نے اپنے پہلے سوال کا آغاز ہی علی گڑھ میں قائداعظم کی 10 مارچ 1944 کی تقریر کے حوالے سے کیا ۔ جس میں قائداعظم فرماتے ہیں کہ کوئی قوم اس وقت تک height of glory نہیں پا سکتی ، جب تک وہ اپنی آدھی آبادی خواتین کو برابر کے حقوق نہیں دیتی ۔
درست بات ہے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ 76 سال گزرنے کے بعد بھی یہ فیصلہ نہیں ہو پایا ، کہ کیا قائداعظم خود سیاسی اور سماجی طور ایک Emancipated انسان تھے ؟ ۔
بد قسمتی سے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ خود قائد اعظم نے اپنے قلم سے اپنے خیالات بارے دو سطریں بھی نہیں لکھیں ۔ ویسے ساری مسلم لیگ یا مسلم اشرافیہ میں لکھنے پڑھنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر رہا ہے ۔ کبھی پاکستان کے ترقی پسند دوست ان کی 11 اگست 1947 کی تقریر پکڑ کر انہیں سیاسی طور پر ایک Liberated , Emancipated انسان کے طور پر paint کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف سے رجعت پسند ان کی بیسیوں تقریریں اسلامی پاکستان بناتے ہوئے پیش کر دیتے ہیں۔ اب آتے ہیں ان کی سماجی Emancipation کی طرف ، جیسے وجاہت مسعود صاحب ان کی علی گڑھ کی تقریر کا حوالہ دے کر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ہم کہیں لکھ چکے ہیں، کہ وہ خود پارسی فیملی میں شادی کر لیتے ہیں ۔ جب بیٹی نے کرنا چاہی تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے اپنا رشتہ منقطع کر لیتے ہیں ۔ کہاں گ عورتوں کی برابری کی تقریر ۔
ابھی حال ہی کا عمران خان phenomenon آپ کے سامنے ہے ۔ ان کی مڈل کلاس Following سماجی طور پر Liberated نظر آتی ہے ، لیکن سیاسی طور پر سماج میں انتہائی رجعت پسندانہ کردار ادا کر رہی ہے ۔ آپ دیکھیں کہ ان کے ہاتھوں استحصال ذدہ عورتیں چیخ چیخ کر اپنی کتھائیں سنا رہی ہیں۔ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ہم کہتے ہیں کہ جب تک ہم اور ہماری قیادتیں سیاسی اور سماجی طور پر غیر جمہوری، رجعت پسندانہ خیالات کی بندشوں سے آزاد نہیں ہوتیں ، معاشرہ وہیں کا وہیں کھڑارہے گا۔ اس لئے کہ ہمارے جیسے نیم قبائلی ، نیم جاگیردارانہ معاشروں میں غربت سے نیچے ہماری چالیس فیصد آبادی کو آپ کون سے انسانی حقوق دلا سکتے ہیں یا ان کے کون سے انسانی حقوق ہوتے ہیں۔ ان کا پہلا مسئلہ ان کی روٹی ہوتی ہے ۔ وہ اس قبائلی جاگیردارانہ سماج میں انہیں نہیں مل سکتی۔
ہماری مسلم اشرافیہ کا یہی المیہ رہا ہے ۔ conformism تقلید پسندی کی زندگی میں کیا نیا سیکھنا ہو تا ہے ۔نئے پن کی ضرورت تو مزاحمتی زندگی میں ہوتی ہے ۔ ایسے معاشروں میں خواتین ہوں یا دیگر کمزور طبقات، ان کی کوئی جگہ نہیں.
ہمارا ماننا ہے کہ ایسے معاشرے اسں سڑاند کا شکار رہیں گے۔ جب تک قبائلی اور جاگیردارانہ سماج کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ۔ یہ کام NGOS کے بس سے باہر ہے۔ خواہ کتنی ہی مجموعی انسانی یا عورتوں کے حقوق کی علمبردار کیوں نہ ہوں ۔ یہ کام محنت کشوں کی نمائندہ سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کا ہے ۔ جنہوں نے سماجی تبدیلی کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے ۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے۔