فلسطین میں گزشتہ کئی دنوں سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک ہزاروں بے گناہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور اَن گنت زخمی ہو چکے ہیں۔ ہسپتالوں اور شہری علاقوں پر وحشیانہ بمباری جاری ہے۔ غزہ میں فلسطینی خوراک، پانی اور بجلی کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں غزہ کی پٹی زمین بوس ہو رہی ہے۔
فلسطین کی جدوجہد آزادی میں مزاحمت کے کئی طریقے اور رجحانات پائے جاتے ہیں جن میں مارکسی تنظیموں کے ساتھ ساتھ اسلامی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔
تشدد کے حالیہ المناک واقعات کے پس پردہ اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر جاری غاصبانہ قبضہ اور غیر قانونی آباد کاری، چیک پوسٹوں پر روزانہ کی بنیاد پر ڈھائے جانے والے مظالم اور غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی ہے جو فلسطینی عوام کے خلاف برسوں سے جاری ہے۔
فلسطینیوں کے خلاف مظالم کے ارتکاب میں اسرائیل کو بڑی سامراجی طاقتوں، یعنی امریکہ،برطانیہ، کینیڈا، یورپی یونین اور ان کے باقی اتحادیوں کی مکمل آشیرباد حاصل ہے، اور یہ مظالم حالیہ برسوں میں مزید سفاک ہو چکے ہیں۔
فقط فلسطین اور اسرائیل ہی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں بھی لوگوں کے لیے امن و سلامتی کا حصول اور اسے مستحکم کرنے کا واحد راستہ مقبوضہ علاقوں میں سے اسرائیلی قبضے اور آباد کاری کو فوری طور پر ختم کرنے میں مضمر ہے۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مشرقی یروشلم کے ساتھ 1967 کی سرحدوں پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق کی ضمانت دینا ہے۔
ان قراردادوں کے برعکس اسرائیل اور اس کی اتحادی قوتیں سامراجی جرائم کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں اور انسداد دہشت گردی اور اسلامی انتہا پسندی کے خاتمے کے نعرے کی آڑ میں وہ فلسطینی عوام کی نسل کشی کی پالیسی پر کار فرما ہیں۔ ان دعووں کی آڑ میں انہیں فلسطینی عوام کو نیست و نابود کرنے کے لئے خطے میں خون خرابہ اور عدم استحکام ایک نیا جواز مل گیا ہے۔
اسرائیل جارحیت کی حالیہ پالیسی کی عالمی سامراجی قوتوں کی لیڈرشپ نے نہ صرف شدومد سے حمایت کی اور فلسطینی عوام کے خلاف جرائم اور قتل عام پر آنکھیں بند کر کے قبضے اور استعمار کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا بلکہ ایسی راۓ عامہ بنانے کی کوشش کی جس میں اسرائیل کو فلسطینی جارحیت کا شکار بنا کر پیش کیا۔
یہ منافقت اور جھوٹ کا ایک ایسا پلندہ ہے جس کے خلاف دنیا بھر کے امن پسند عوام سراپا احتجاج ہیں اور فلسطینی عوام سے یک جہتی دکھانے سڑکوں پر نکل آئے ہیں ۔
ترقی پسند قوتوں کو اصولی طور پر فلسطینی عوام کے مصائب اور قومی آزادی کی جدوجہد کرنے والی قوتوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور فلسطینی عوام پر مسلط اس وحشیانہ جنگ کی بھرپور مذمت کرنا چاہیے جس کا واحد مقصد اسلحے کے وحشیانہ استعمال کے ذریعے فلسطینی سرزمین پر قبضے کو دوام بخشنا اور نوآبادیاتی نظام کو برقرار رکھنا ہے۔ ہمیں فلسطینی علاقوں میں قائم یہودی بستیوں کے خاتمے اور فلسطینی پناہ گزینوں کے امن و سلامتی کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس جانے کے حق کی حمایت کرنا چاہیے۔
—♦—
عاصم علی شاہ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان کے سابق راہنما ہیں اور عرصہ دراز سے لندن میں مقیم ہیں۔ آپ لندن میں بائیں بازو کے انتہائی سرگرم لوگوں میں سے ہیں۔ اس کے علاوہ فیض کلچرل فاؤنڈیشن برطانیہ اور انجمن ترقی پسند مصنفین برطانیہ کے ساتھ بھی وابستہ ہیں۔ آپ اکثر سیاسی، سماجی اور بین الاقوامی موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
فلسطین میں گزشتہ کئی دنوں سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک ہزاروں بے گناہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور اَن گنت زخمی ہو چکے ہیں۔ ہسپتالوں اور شہری علاقوں پر وحشیانہ بمباری جاری ہے۔ غزہ میں فلسطینی خوراک، پانی اور بجلی کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں غزہ کی پٹی زمین بوس ہو رہی ہے۔
فلسطین کی جدوجہد آزادی میں مزاحمت کے کئی طریقے اور رجحانات پائے جاتے ہیں جن میں مارکسی تنظیموں کے ساتھ ساتھ اسلامی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔
تشدد کے حالیہ المناک واقعات کے پس پردہ اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر جاری غاصبانہ قبضہ اور غیر قانونی آباد کاری، چیک پوسٹوں پر روزانہ کی بنیاد پر ڈھائے جانے والے مظالم اور غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی ہے جو فلسطینی عوام کے خلاف برسوں سے جاری ہے۔
فلسطینیوں کے خلاف مظالم کے ارتکاب میں اسرائیل کو بڑی سامراجی طاقتوں، یعنی امریکہ،برطانیہ، کینیڈا، یورپی یونین اور ان کے باقی اتحادیوں کی مکمل آشیرباد حاصل ہے، اور یہ مظالم حالیہ برسوں میں مزید سفاک ہو چکے ہیں۔
فقط فلسطین اور اسرائیل ہی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں بھی لوگوں کے لیے امن و سلامتی کا حصول اور اسے مستحکم کرنے کا واحد راستہ مقبوضہ علاقوں میں سے اسرائیلی قبضے اور آباد کاری کو فوری طور پر ختم کرنے میں مضمر ہے۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مشرقی یروشلم کے ساتھ 1967 کی سرحدوں پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق کی ضمانت دینا ہے۔
ان قراردادوں کے برعکس اسرائیل اور اس کی اتحادی قوتیں سامراجی جرائم کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں اور انسداد دہشت گردی اور اسلامی انتہا پسندی کے خاتمے کے نعرے کی آڑ میں وہ فلسطینی عوام کی نسل کشی کی پالیسی پر کار فرما ہیں۔ ان دعووں کی آڑ میں انہیں فلسطینی عوام کو نیست و نابود کرنے کے لئے خطے میں خون خرابہ اور عدم استحکام ایک نیا جواز مل گیا ہے۔
اسرائیل جارحیت کی حالیہ پالیسی کی عالمی سامراجی قوتوں کی لیڈرشپ نے نہ صرف شدومد سے حمایت کی اور فلسطینی عوام کے خلاف جرائم اور قتل عام پر آنکھیں بند کر کے قبضے اور استعمار کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا بلکہ ایسی راۓ عامہ بنانے کی کوشش کی جس میں اسرائیل کو فلسطینی جارحیت کا شکار بنا کر پیش کیا۔
یہ منافقت اور جھوٹ کا ایک ایسا پلندہ ہے جس کے خلاف دنیا بھر کے امن پسند عوام سراپا احتجاج ہیں اور فلسطینی عوام سے یک جہتی دکھانے سڑکوں پر نکل آئے ہیں ۔
ترقی پسند قوتوں کو اصولی طور پر فلسطینی عوام کے مصائب اور قومی آزادی کی جدوجہد کرنے والی قوتوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور فلسطینی عوام پر مسلط اس وحشیانہ جنگ کی بھرپور مذمت کرنا چاہیے جس کا واحد مقصد اسلحے کے وحشیانہ استعمال کے ذریعے فلسطینی سرزمین پر قبضے کو دوام بخشنا اور نوآبادیاتی نظام کو برقرار رکھنا ہے۔ ہمیں فلسطینی علاقوں میں قائم یہودی بستیوں کے خاتمے اور فلسطینی پناہ گزینوں کے امن و سلامتی کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس جانے کے حق کی حمایت کرنا چاہیے۔
—♦—
عاصم علی شاہ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان کے سابق راہنما ہیں اور عرصہ دراز سے لندن میں مقیم ہیں۔ آپ لندن میں بائیں بازو کے انتہائی سرگرم لوگوں میں سے ہیں۔ اس کے علاوہ فیض کلچرل فاؤنڈیشن برطانیہ اور انجمن ترقی پسند مصنفین برطانیہ کے ساتھ بھی وابستہ ہیں۔ آپ اکثر سیاسی، سماجی اور بین الاقوامی موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔