زیرِ نظر مضمون کیون بی اینڈرسن کے مضمون سے ماخوذ ہے۔ یہ ہو بہو ‘لفظ بہ لفظ’ ترجمہ نہیں ہے بلکہ ان کے بنیادی خیال کو یہاں رواں عبارت میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مضمون کو سمجھنے کے لیے کم از کم تین اصطلاحوں کو سمجھنا ضروری ہے جن کو ہم یہاں بیان کررہے ہیں۔
’ یوروسینٹرازم ‘کی اصطلاح ایک عالمی نقطہ نظر، ذہنیت، یا بیان بازی کے رجحان کو بیان کرتی ہے جو یورپی، یا سفید فاموں کے جاننے کے طریقوں کو دوسروں کے طریقوں کے مقابلے میں واحد، مرکزی اور سب سے بہتر طریقہ بناکر پیش کرتی ہے’
’ایتھنوسٹنرازم ‘ / نسلیاتی مرکزیت پسندی ایک ایسے رجحان، رویے یا نظریہ کا نام ہے جو اپنی نسلیاتی ثقافتی گروہ کو ہر لحاظ سے دوسروں سے برتر خیال کرتا ہو-
اورئنٹل ازم/ استشراقیت (بقول ایڈورڈ سعید) ایک ایسے ‘نظریہ اور عمل’ کی ساختہ تجسیم ہے جو مشرق کے ایسے نقوش بناتا ہے جن کا خالق مغرب/ یورپ ہے۔ اور یہ مشرق کو دور دراز بہت پرے کا بدیشی ، نسائی، کمزور اور خطرات سے گھرا دکھاتا ہے اور اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ مغرب مشرق کے مقابلے میں خود کو کس طرح سے معقول، مردانگی سے بھرپور اور انتہائی طاقتور بناکر پیش کرتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی تنقید میں دلچسپی کے احیاء کے باوجود کارل مارکس پر حملے کئی سمتوں سے جاری ہیں۔ ان کے تنوع کے باوجود، ان تنقیدوں کا مطلب یہ ہے کہ مارکسزم مر چکا ہے، ختم ہو چکا ہے، نئے نظریات اور واقعات اسے پيچھے چھوڑ چکے۔
لیکن اگر مارکسزم واقعی مر چکا ہے تو اس کے ناقدین کو اپنی بات کو بار بار "ثابت” کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟
اصل جواب واضح ہے۔ مارکسزم کبھی نہیں مرا، اگرچہ اس کی زوال پذیری، مرگ کا کئی بار اعلان ہوا اور گزشتہ ڈیڑھ سو سالوں میں اسے کئی بار دوبارہ ‘زندہ’ بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اب تک مارکس کے ناقدین اسے دفن کرنے کی کوششیں کئی بار کرچکے ہیں لیکن اس میں کامیاب نہیں ہورہے۔
ایڈورڈ سعید کی تنقید
معیاری لبرل نقطہ نظر کا خیال ہے کہ مارکسی سوشلزم مطلق العنانیت اور بالآخر معاشی زوال کا باعث بنتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مارکسی "تجربات” سوویت یونین کی گواہی دیں! یہ خطرناک ہیں اور ہمیں زیادہ قابل عمل متبادل، لبرل سرمایہ دارانہ نظام پر قائم رہنا چاہیے۔ تاہم ، عظیم کساد اور ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں مضبوط فاشسٹ رجحانات کے فروغ کے تناظر میں ، سرمایہ داری اور لبرل جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات نے اس طرح کے دلائل کی بنیادوں کو کمزور کردیا ہے۔
ترقی پسند دانشوروں اور محققوں کے درمیان مارکس پر لگے جس الزام کی سب سے زیادہ تشہیر کی گئی وہ یہ تھا کہ وہ ایک ‘یوروسنٹرسٹ’ تھا – یعنی وہ 19ویں صدی کا ایسا مفکر تھا جو 21ویں صدی کی کثیر النسلی اور نوآبادیاتی مخالف ‘حسیتوں/ سینسیبلٹیز سے مطابقت نہیں رکھتا تھا- اس تنقید کو ایڈورڈ سعید کی کتاب ‘اورئنٹلزم(1978) میں کارل مارکس پر اسی نہج کے اعتراض کے سبب بڑی مقبولیت ملی تھی-
ایڈورڈ سعید کے خیال میں کارل مارکس میں دو بڑی خامیاں تھیں- ایک تو یہ کہ وہ سماجی و معاشی ترقی کے مراحل کی یک خطی سلسلے کے مہابیانیے پر عمل پیرا تھے۔ ان کے تناظر کے مطابق مارکس نے ایک ایسا یک خطی ماڈل استعمال کیا جس کی بنیاد مغربی یورپی تاریخ پر استوار تھی اور انہوں نے یورپی خطے سے باہر کے غیر سرمایہ دارانہ سماجوں کا تجزیہ کرنے اور ان کی جانچ بنانے کے لیے اس ‘یک رخی ماڈل’ کے استعمال کا کوئی حقیقی جواز بھی پیش نہیں کیا- دوسری خامی مارکس میں ، ان کے نزدیک مارکس کا ‘یوروسنٹر ازم ‘ کے ساتھ جھولنا تھا- یہاں تک کہ ایڈورڈ سعید نے مارکس پر غیر مغربی سماجوں کی تصویر کشی میں نسل پرست ہونے کا الزام بھی دھر دیا-
اپنی پہلی تنقید جس میں انہوں نے مارکس پر غیر یورپی و غیر سرمایہ دارانہ سماجوں پر یک خطی یورپ کی سماجی اور معاشی ترقی کے ماڈل کے اطلاق کا الزام لگایا تھا، اسے ثابت کرنے کے لیے ایڈورڈ سعید نےکہا کہ مارکس کے نزدیک مغربی سامراجیت آگے کی طرف بڑھنے کا ایک تاریخی تقاضا یا ناگزیریت تھی- اور اس سے مستقبل میں ساری انسانیت ترقی کرے گی- جیسا کہ سعید نے اپنی کتاب ‘اورئنٹل ازم ‘میں لکھا کہ نیویارک ٹرائبون میں 1853ء میں جو تحریریں لکھیں وہ برٹش نوآبادیاتی نظام کے لیے حیرت انگیز طور پر حمایت پر مشتمل تھیں-
مارکس نے انگریزوں کو "ہندوستانی تہذیب سے بالاتر اور اس لیے ناقابل رسائی” قرار دیا جبکہ ہندوستان کو ایک جامد معاشرے کے طور پر پیش کیا جو سامراج کے خلاف زیادہ مزاحمت کرنے سے بھی قاصر تھا۔ جیسا کہ سعید نے مارکس کے مؤقف کی نشاندہی کی:
"ایشیا کو تباہ کرکے بھی، برطانیہ وہاں ایک حقیقی سماجی انقلاب کو ممکن بنا رہا تھا”۔
ایڈورڈ سعید جس قسم کے مسئلے کو اجاگر کر رہے ہیں اس کی سب سے واضح مثال شاید 1853 میں ہندوستان کے بارے میں لکھی گئی تحریروں میں نہیں بلکہ پانچ سال پہلے کمیونسٹ منشور (1848) میں ملتی ہے۔ یہاں مارکس اور فریڈرک اینگلز چین کے سامراجی مداخلت کی تعریف کرتے نظر آئے:
بورژوازی، پیداوار کے تمام آلات کی تیزی سے بہتری کے ذریعے، مواصلات کے انتہائی آسان ذرائع کے ذریعے، سب سے زیادہ وحشی قوموں کو تہذیب کی طرف راغب کرتی ہے۔ اس کی اجناس کی سستے داموں بھاری توپ خانے ہیں جن کی مدد سے وہ چین کی تمام دیواروں کو منہدم کر دیتا ہے، جس کی مدد سے وحشیوں کی غیر ملکیوں سے شدید نفرت کو ختم کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ معدومیت کے درد سے دوچار تمام قوموں کو بورژوا طرز پیداوار اپنانے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ تہذیب کو اپنے درمیان متعارف کرائیں، یعنی خود بورژوا بن جائیں۔
یہاں مینی فیسٹو میں مارکس نے نہ صرف نوآبادیات کی طرف سے ہونے والی "ترقی” کا جشن منایا، بلکہ انہوں نے چینیوں کو "وحشی” بھی قرار دیا۔ اس طرح کی زبان سعید کی دوسری تنقید سے جڑی ہوئی ہے، جس کا نام نسلی امتیاز ہے۔
سعید نے مارکس کو ‘صحبت مفکریان مغرب’ میں گردانا اور کہا کہ ارنسٹ رینان سے لیکر مارکس تک سب کے سب غیر مغربی اور نوآبادیاتی سماجوں کے باب میں ‘یورونٹرک’ بلکہ ‘نسل پرست’ تھے۔ جنہوں نے نطشے کے بیان کردہ مفہوم کے مطابق ‘سچائیوں کا نظام’ تیار کیا-
اس لیے ایڈورڈ سعید نے کہا: یہ درست ہے کہ ایک مغربی ‘مشرق/اورئنٹ’ کے بارے میں جو کہہ سکتا تھا وہ بہرحال ایک نسل پرست ، ایک سامراجیت پسند اور قریب قریب مکمل طور پر ایتھنوسنٹرک / مائل بہ نسلیت کا کہا ہی ہوسکتا تھا-
مارکس کا نظریاتی ارتقاء
کیا ایڈورڈ سعید کے دلائل ٹھیک تھے؟ کیا واقعی مارکس دوہرے معنی رکھنے والی اصطلاح ‘یوروسنٹرسٹ’ کا عین مصداق تھا: یعنی اس نے بطور نظریہ ساز اور ایک ایتھنو سنٹرسٹ دونوں اعتبار سے اس نے دنیا کی تاریخ اور ثقافت پر مغربی یورپ کی تاريخ اور ثقافت کو چپکا دیا اور یورپ سے باہر کی دنیا بارے اس کا طرز عمل ایک مائل بہ نسلیت یا اس سے بھی برا تھا-
جواب کسی بھی طرح آسان نہیں ہے. کچھ مارکس وادیوں کے برعکس، میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ یہ دعوے حد سے زیادہ ہیں، لیکن ہمیں ان کی جزوی صداقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے، کم از کم جب مارکس کی 1848 سے 1853 تک غیر مغربی معاشروں کے بارے میں ابتدائی تحریروں کی بات آتی ہے۔ تو مارکس پر ایڈورڈ سعید کا الزام کافی حد تک سچ لگتا ہے۔
لیکن اگر کوئی کارل مارکس کی 1841ء تا 1883ء تک کے عرصے میں لکھی جانے والی تمام تحریروں کا جائزہ لے گا تب اس کا مارکس کے بارے میں ‘یوروسنٹرک’ ہونے کا تاثر قائم نہیں رہے گا- کیونکہ کارل مارکس ایک محقق اور مفکر تھا- اس نے اپنے کام پر نظرثانی کرنا اور اپنے فکری آپریٹس پر پیش رفت جاری رکھی-
پہلی بات تو یہ ہے کہ جسے آج ہم یوروسینٹرازم اور ایتھنوسینٹرزم کہتے ہیں، ان کی واحد مثالیں وہ تحریریں ہیں جو مارکس نے ہندوستان اور چین کے بارے میں ابتدائی طور پر لکھےیں۔ مثال کے طور پر 1853ء میں ہندوستان کے بارے میں لکھی گئی تحریروں میں بھی اس طرح کے اقتباسات شامل تھے:
برطانوی سرمایہ داری/بورژوازی کی طرف سے ان کے درمیان بکھرے سماج کے نئے عناصر کے ثمرات سے اس وقت تک فائدہ نہیں اٹھاسکیں گے جب تک برطانیہ میں اس وقت کے حکمران طبقات کی جگہ صنعتی پرولتاریہ/محنت کش نہ لے لیں یا ہندؤ(ہندوستانی) خود اتنے مضبوط اور طاقتور نہ ہوجائیں کہ وہ فرنگی کی غلامی کا جوا اتار نہ پھینکيں- زیادہ محتاط طریقے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جلد یا بدیر اس عظیم اور دلچسپ ملک کا جنم نو ہوگا جس کے شریف باسیوں نے برطانوی افسروں کو اپنی بہادری سے ششدر کردیا ہے اور جن کا ملک ہماری زبان امو ہمارے مذاہب کا مسکن ہے۔
یہاں مارکس نے نہ صرف ہندوستانی ثقافت اور تہذیب کی بہت تعریف کی بلکہ اس دور میں ہندوستان کی آزادی کے ایک ایسے یورپی حامی کے طور پر بھی کھڑے ہوئے جو یورپ میں اس وقت ڈھوںدے نہیں ملتے تھے۔
دوسری بات یہ کہ ہندوستان اور چین کے بارے میں مارکس کے نقطہ نظر میں 1856-58 تک کافی تبدیلی آئی، جب ردعمل میں یہ معاشرے برطانوی سامراج کے خلاف بڑے پیمانے پر مزاحمت کر رہے تھے۔ دی ٹربیون کے لیے لکھے گئے مضامین میں جن پر شاذ و نادر ہی بحث کی جاتی ہے، مارکس نے ایشیائی "پسماندگی” پر توجہ مرکوز نہیں کی بلکہ چین کے خلاف برطانیہ کی دوسری افیون جنگ کی نوآبادیاتی بربریت پر توجہ مرکوز کی – یہاں 1856 کے ٹربیون کے ایک مضمون میں اس نقطہ نظر کا اظہار کیا گیا ہے:
کینٹن کے نہتے شہریوں اور پرامن تاجروں کا قتل عام کیا گیا، ان کی بستیوں کو زمین بوس کیا گیا، اور انسانیت کے دعوے داروں نے اپنے دعوؤں کی نفی کی۔ انگریزوں نے اپنی طرف ایک چوٹ لگنے کے بدلے میں 99 چینیوں کو چوٹیں لگائیں-
1857 میں ہندوستان میں شروع ہونے والی غدر کے مسئلے پر ، مارکس نے ٹریبون میں انگریزوں کے خلاف ہندوستانی غدریوں کی ایک بار پھر حمایت کی۔ 1858 میں اینگلز کو لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے انہیں ایک ایسے وقت میں "ہمارے بہترین اتحادی” بھی قرار دیا جب یورپی محنت کش طبقہ بحران کے دور سے گزر چکا تھا۔
تیسری بات یہ کہ تاریخی ترقی کے مراحل کے بارے میں مارکس کا تصور بھی 1850 کی دہائی کے اواخر میں ایک اہم تبدیلی سے گزرا۔ 1846 میں ‘جرمن ائیڈیالوجی’ میں ، انہوں نے اور اینگلز نے سماجی و اقتصادی مراحل کا ایک نظریہ پیش کیا ، جسے انہوں نے بعد میں طریق ہائے پیداوار/موڈز آف پروڈکشن کا نام دیا:
بے ریاست قبیل داری معاشرے ، یونان اور روم کے غلاموں پر مبنی معاشرے ، اور قرون وسطی کے مغربی یورپ کے غلامی پر مبنی جاگیرداری ، اس کے بعد سرمایہ دارانہ نظام نے رسمی طور پر آزاد اجرت مزدوری کی حکومت قائم کی ، اور آخر میں ، مستقبل میں پیش کیا ۔ ایک جدید کمیونزم جس کی بنیاد "آزاد اور مربوط مزدوری” پر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ پیداوار کے "قدیم” – "غلام داری” – "جاگیردارانہ” – "بورژوا "/شسرمایہ دارانہ– سوشلسٹ/ اشتراکی طریق ہائے پیداوار کہلاتے ہیں-
تاہم 1857-58 ء تک مارکس نے اس فریم ورک کو وسعت دی اور یورپ کے گریکو رومن اور جاگیردارانہ نظاموں کے ساتھ ساتھ ایک ایشیائی طرز پیداوار (اے ایم پی) متعارف کرایا جسے انہوں نے خاص طور پر ہندوستان ، چین اور مشرق وسطی کی نوآبادیاتی زرعی سلطنتوں سے منسلک کیا۔ مارکس نے کیپیٹل میں اس توسیع شدہ فریم ورک کا بھی ذکر کیا ، جہاں اس نے "ایشیائی ، قدیم ، جاگیردارانہ اور جدید بورژوا پیداوار کے طریقوں” کے بارے میں لکھا۔
ہم اے ایم پی/ ایشیائی طریق پیداوار کو گریکو رومن اور جاگیردارانہ معاشروں کے ہم منصب کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ اے ایم پی کا تصور بنیادی طور پر اس بات کی نشاندہی کے طور پر اہم ہے کہ مارکس پوری انسانی تاریخ کو غلامی، جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ نظام کے راستے میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ بدقسمتی سے مارکس کے پیروکاروں میں سے زیادہ تر – خاص طور پر سوویت یونین میں – نے مغربی یورپ سے باہر سرمایہ دارانہ طبقاتی معاشروں ، بشمول اہم شہری مراکز کے ساتھ کافی مرکزی زرعی سلطنتوں کو یورپی جاگیرداری کے جال میں ڈھالنے پر زور دیا۔
ایک نظریہ ناکہ ہر تالے کی کنجی
اس طرح کے مسائل مارکس کی 1877-82 کی آخری تحریروں میں مرکزی حیثیت اختیار کر گئے ، ایک ایسا دور جب انہوں نے مغربی یورپ سے باہر ، ہندوستان سے لاطینی امریکہ اور روس سے شمالی افریقہ تک مختلف قسم کے زرعی اور چرواہے معاشروں پر بشریات اور سماجی تاریخ بارے کتابیں پڑھی تھیں۔ اس وقت تک ، انہوں نے اس ملک کے سماجی ڈھانچے کی تحقیقات کرنے کے لئے روسی زبان سیکھ لی تھی ، جہاں انہیں بڑی حیرت ہوئی جب انہیں پتا چلا کہ وہاں ان کی کتاب سرمایہ کی پہلی جلد کا پہلا مکمل ترجمہ 1872 میں شائع ہوچکا ہے۔
اس دور کے مارکس کے تحقیقی نوٹس/ حاشیوں کے بڑے حصے، خاص طور پر ہندوستان کے بارے میں، شائع ہو چکے ہیں، اور دیگر تحریریں اشاعت کی تیاری کے مراحل میں ہیں۔ مارکس نے ان زرعی معاشروں میں سے ایک یعنی روس پر دو انتہائی اہم خطوط بھی لکھے۔
اس وقت بھی روس میں ایک انتہائی زرعی سماجی ڈھانچہ موجود تھا جس کی بنیاد مقامی سطح پر دیہی کمیون پر رکھی گئی تھی۔ یہ کمیون، اگرچہ زمیندار طبقوں میں جڑی ایک آمرانہ بادشاہت کے کنٹرول میں تھے، لیکن اجتماعی ملکیت اور کام کے انتظامات کی ایک حد رکھتے تھے جو مغربی یورپی جاگیرداری کے زیادہ انفرادی سماجی انتظامات سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔
مارکس نے ان خطوط میں دو اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ سب سے پہلے، کیا روس مغربی یورپ کی ترقی کے راستے پر چلنا چاہتا تھا؟ دوسرا یہ کہ کیا اس کے فرقہ وارانہ دیہاتوں میں کوئی انقلابی اور سرمایہ داری مخالف صلاحیت موجود تھی، یا ان کے باشندوں کو پہلے اپنی زمینوں سے بے دخل کرنا پڑے گا تاکہ مزدوروں پر مشتمل ایک صنعتی پرولتاریہ تشکیل دیا جا سکے، جس عمل کو مارکس نے "سرمائے کا ابتدائی ارتکاز’ کہا تھا-
بہت سے محققین نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ انہوں نے روس کے بارے میں ان خیالات کو دوسرے زرعی معاشروں سے منسلک ہونے کے طور پر دیکھا ہے جن کا وہ گلوبل ساؤتھ میں اپنے آخری سالوں میں مطالعہ کر رہے تھے۔ 1877ء میں روسی انقلابی دانشوروں کے نام لکھے گئے ایک خط میں مارکس نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ انہوں نے سماجی ترقی کا ایک عمومی اور غیر تاریخی نظریہ تخلیق کیا تھا:
اس طرح مختلف تاریخی سیاق و سباق میں رونما ہونے والے حیرت انگیز مماثلت کے واقعات کے نتیجے میں مکمل طور پر مختلف نتائج برآمد ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک پیش رفت کا الگ الگ مطالعہ کرنے سے، کوئی بھی آسانی سے اس رجحان کی کلید کو دریافت کرسکتا ہے، لیکن یہ کبھی بھی مطلق تاریخی -فلسفے کے نظریے کی مہا کلید نہیں بن سکتی جس کی خاصیت ماورائے تاریخی / سپر ہسٹاریکل ہونا ہوتی ہے۔
یہاں، مارکس نے اس الزام سے انکار کیا کہ وہ یورو سینٹرک "عظیم بیانیہ” پر قائم تھا۔
روسی شاہراہِ عمل
ان مباحثوں کا فوری سیاق و سباق یہ سوال تھا کہ جیسا کہ روسی دانشور اپنے آپ سے پوچھ رہے تھے، کیا ان کا معاشرہ "لازمی طور پر” مغربی یورپ کے راستے پر چلنے کے لئے مجبور ہے اگر اسے ترقی کرنی ہے۔ اس نکتے پر مارکس نے 1881ء میں روسی انقلابی ویرا زاسولیچ کو لکھے گئے ایک خط میں لکھا ہے:
سرمایہ دارانہ پیداوار کی ابتدا ء کا تجزیہ کرتے ہوئے میں کہتا ہوں: "اس لیے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پیداوار کے ذرائع سے پیداوار کرنے والوں کی مکمل علیحدگی ہے۔ اس پوری ترقی کی بنیاد کاشتکاروں کی ضبطی ہے۔ اب تک، یہ صرف انگلینڈ میں ایک انقلابی انداز میں کیا گیا ہے. . . لیکن مغربی یورپ کے دیگر تمام ممالک اسی ترقی سے گزر رہے ہیں” (کیپٹل، فرانسیسی ایڈیشن، صفحہ 315)۔ لہذا، اس عمل کی "تاریخی ناگزیریت” واضح طور پر مغربی یورپ کے ممالک تک محدود ہے.
ایک بار پھر مارکس اس بات سے انکار کر رہے تھے کہ انہوں نے مغربی یورپ کے راستے پر مبنی سماجی ترقی کا ایک یک رخی ماڈل تشکیل دیا تھا۔ اس تناظر میں ہمیں یہ بھی نوٹ کرنا چاہیے کہ اس دور میں ہندوستان کے بارے میں اپنے تحقیقی نوٹس میں انہوں نے واضح طور پر اس نظریے پر حملہ کیا تھا کہ قبل از نوآبادیاتی ہندوستان ایک جاگیردارانہ معاشرہ تھا۔
اس دور میں مارکس نے روسی معاشرے کے اندر سماجی تضادات کو بھی اٹھایا، جہاں اب تک ایک اہم انقلابی تحریک وجود میں آ چکی تھی۔ انہوں نے نہ صرف اپنے روسی مخاطب کاروں کے اس گمان کی نفی کی کہ ان کے نظریات سے روس کے بارے میں یہ خیال نکلتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ روس کے الگ تھلگ دیہاتوں کو ابتدائی ارتکاز سرمایہ کے لیے لازمی طور پر اسی طرح سے تباہی سے کزرنا ہوگا جیسے یورپ گزرا تھا- انہوں نے روس کے بارے میں ایسی کسی بھی ‘لزومیت’ اور ‘مجبوری’ کے ہونے سے انکار کیا- بلکہ مارکس نے تو روس کے ان دیہاتوں کو ایک نئی قسم کی انقلابی تحریک کی سماجی بنیادیں فراہم کرنے والے مقامات کے طور پر دیکھا تھا-
یہ تحریک یورپی محنت کش طبقے کے متوازی ہوگی، لیکن اس کی پیروی نہیں کرے گی، جیسا کہ انہوں نے اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو کے 1882 کے روسی ایڈیشن کے پیش لفظ میں لکھا تھا:
اگر روسی انقلاب مغرب میں پرولتاری انقلاب کا اشارہ بن جاتا ہے، تاکہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کریں، زمین کی موجودہ روسی مشترکہ ملکیت کمیونسٹ ترقی کے لئے نقطہ آغاز کے طور پر کام کر سکتی ہے.
یہاں، مارکس انقلاب کا ایک کثیر الجہتی تصور پیش کر رہا تھا، جس میں روس کے کسان کمیون مغربی یورپ کے صنعتی محنت کش طبقے کا ایک اہم اتحادی بن سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ دلیل دی کہ سرمایہ دارانہ نظام کے دائرے میں اس طرح کی کسان بغاوت سب سے پہلے آسکتی ہے، جو "نقطہ آغاز” کے طور پر سامنے آسکتی ہے جو یورپ بھر میں انقلابی تحریک کو جنم دے سکتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ مارکس نے کبھی بھی زرعی سوشلسٹ نظام کی وکالت نہیں کی۔ ان کا خیال تھا کہ زیادہ ترقی یافتہ ممالک سے روابط کے بغیر، روس میں کسان انقلاب اپنے طور پر جدید کمیونزم کی ایک قابل عمل شکل کا باعث نہیں بن سکتا۔ اس کے بجائے وہ غلبے اور استحصال کے عالمی نظام یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عالمی انقلاب کی وکالت کر رہے تھے۔
ہمارے زمانے کا مارکس
ان طریقوں سے مارکس مغربی یورپ پر مبنی ترقی کے کسی بھی قسم کے یک خطی نظریے سے دور ہو گئے جس میں باقی دنیا کو تصوراتی طور پر تنگنائی کے ساتھ نتھی کرنا پڑتا-
سرمایہ دارانہ نظام کے حاشیوں پر پڑے معاشروں کے بارے میں تضحیک آمیز رویہ کا اظہار کرنا تو دور کی بات ہے، ان آخری تحریروں نے اس کے بالکل برعکس مظاہرہ کیا: ان سماجوں کی انقلابی صلاحیت کا نظریہ
اس مضمون میں جس قسم کے دلائل پیش کیے گئے ہیں وہ اس دور میں پیش کیے جا رہے تھے جب ایڈورڈ سعید کی مارکس پر تنقید زور پکڑ رہی تھی۔
میری گرو رایا دونایوسکایا کی کتاب :روزا لکسمبرگ، آزادی نسواں اور مارکس کا فلسفہ انقلاب (1981) اور ٹیوڈور شانن کی آنجہانی مارکس اور روسی شاہراہ عمل (1983) میں ایک ایسے آنجہانی مارکس کا تصور سامنے آیا جس نے صنف سمیت معاشرے اور انقلاب کے بارے میں ایک کثیر الجہتی، حقیقی عالمی نقطہ نظر تیار کیا۔
مارکس کی ان تشریحات کو نیو لبرلازم، پوسٹ اسٹرکچرلزم، پوسٹ ماڈرنزم اور مارکسزم کی "موت” کے اعلانات کے دور میں زیادہ توجہ نہیں ملی۔ لیکن اس کے بعد کے برسوں میں ایڈورڈ سعید کی اورینٹل ازم میں مارکس پر اعتراضات پر مارکسی رد عمل سامنے آئے ہیں، خاص طور پر اعجاز احمد کی کتاب ان تھیوری (1992) اور گلبرٹ اشقر کی مارکسزم، اورینٹلازم، کاسموپولیٹنزم (2013)۔ ہیدر براؤن، مارسیلو مسٹو اور ڈیوڈ نارمن اسمتھ جیسے مصنفین کے ساتھ ساتھ میری اپنی کتاب "مارکس ایٹ دی مارجنز” سے بھی آنجہانی مارکس کے بارے میں گفتگو آہستہ آہستہ شروع ہوئی ہے۔
حالیہ برسوں میں مارکس کی طرف واپسی کے ساتھ، مجھے امید ہے کہ اس طرح کے تناظر نے اپنی جگہ بنالی ہوگی۔
—♦—
کیون بی اینڈرسن یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں سوشیالوجی کے استاد اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں – ان کا مضمون سب سے پہلے رسالہ جیکوبن میں شائع ہوا اور پھر ان کی اپنی آفیشل ویب سائٹ پر یہ نمودار ہوا- وہ نظریاتی اعتبار سے مارکس وادی ہیں-
جواب دیں جواب منسوخ کریں
زیرِ نظر مضمون کیون بی اینڈرسن کے مضمون سے ماخوذ ہے۔ یہ ہو بہو ‘لفظ بہ لفظ’ ترجمہ نہیں ہے بلکہ ان کے بنیادی خیال کو یہاں رواں عبارت میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مضمون کو سمجھنے کے لیے کم از کم تین اصطلاحوں کو سمجھنا ضروری ہے جن کو ہم یہاں بیان کررہے ہیں۔
’ یوروسینٹرازم ‘کی اصطلاح ایک عالمی نقطہ نظر، ذہنیت، یا بیان بازی کے رجحان کو بیان کرتی ہے جو یورپی، یا سفید فاموں کے جاننے کے طریقوں کو دوسروں کے طریقوں کے مقابلے میں واحد، مرکزی اور سب سے بہتر طریقہ بناکر پیش کرتی ہے’
’ایتھنوسٹنرازم ‘ / نسلیاتی مرکزیت پسندی ایک ایسے رجحان، رویے یا نظریہ کا نام ہے جو اپنی نسلیاتی ثقافتی گروہ کو ہر لحاظ سے دوسروں سے برتر خیال کرتا ہو-
اورئنٹل ازم/ استشراقیت (بقول ایڈورڈ سعید) ایک ایسے ‘نظریہ اور عمل’ کی ساختہ تجسیم ہے جو مشرق کے ایسے نقوش بناتا ہے جن کا خالق مغرب/ یورپ ہے۔ اور یہ مشرق کو دور دراز بہت پرے کا بدیشی ، نسائی، کمزور اور خطرات سے گھرا دکھاتا ہے اور اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ مغرب مشرق کے مقابلے میں خود کو کس طرح سے معقول، مردانگی سے بھرپور اور انتہائی طاقتور بناکر پیش کرتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی تنقید میں دلچسپی کے احیاء کے باوجود کارل مارکس پر حملے کئی سمتوں سے جاری ہیں۔ ان کے تنوع کے باوجود، ان تنقیدوں کا مطلب یہ ہے کہ مارکسزم مر چکا ہے، ختم ہو چکا ہے، نئے نظریات اور واقعات اسے پيچھے چھوڑ چکے۔
لیکن اگر مارکسزم واقعی مر چکا ہے تو اس کے ناقدین کو اپنی بات کو بار بار "ثابت” کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟
اصل جواب واضح ہے۔ مارکسزم کبھی نہیں مرا، اگرچہ اس کی زوال پذیری، مرگ کا کئی بار اعلان ہوا اور گزشتہ ڈیڑھ سو سالوں میں اسے کئی بار دوبارہ ‘زندہ’ بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اب تک مارکس کے ناقدین اسے دفن کرنے کی کوششیں کئی بار کرچکے ہیں لیکن اس میں کامیاب نہیں ہورہے۔
ایڈورڈ سعید کی تنقید
معیاری لبرل نقطہ نظر کا خیال ہے کہ مارکسی سوشلزم مطلق العنانیت اور بالآخر معاشی زوال کا باعث بنتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مارکسی "تجربات” سوویت یونین کی گواہی دیں! یہ خطرناک ہیں اور ہمیں زیادہ قابل عمل متبادل، لبرل سرمایہ دارانہ نظام پر قائم رہنا چاہیے۔ تاہم ، عظیم کساد اور ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں مضبوط فاشسٹ رجحانات کے فروغ کے تناظر میں ، سرمایہ داری اور لبرل جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات نے اس طرح کے دلائل کی بنیادوں کو کمزور کردیا ہے۔
ترقی پسند دانشوروں اور محققوں کے درمیان مارکس پر لگے جس الزام کی سب سے زیادہ تشہیر کی گئی وہ یہ تھا کہ وہ ایک ‘یوروسنٹرسٹ’ تھا – یعنی وہ 19ویں صدی کا ایسا مفکر تھا جو 21ویں صدی کی کثیر النسلی اور نوآبادیاتی مخالف ‘حسیتوں/ سینسیبلٹیز سے مطابقت نہیں رکھتا تھا- اس تنقید کو ایڈورڈ سعید کی کتاب ‘اورئنٹلزم(1978) میں کارل مارکس پر اسی نہج کے اعتراض کے سبب بڑی مقبولیت ملی تھی-
ایڈورڈ سعید کے خیال میں کارل مارکس میں دو بڑی خامیاں تھیں- ایک تو یہ کہ وہ سماجی و معاشی ترقی کے مراحل کی یک خطی سلسلے کے مہابیانیے پر عمل پیرا تھے۔ ان کے تناظر کے مطابق مارکس نے ایک ایسا یک خطی ماڈل استعمال کیا جس کی بنیاد مغربی یورپی تاریخ پر استوار تھی اور انہوں نے یورپی خطے سے باہر کے غیر سرمایہ دارانہ سماجوں کا تجزیہ کرنے اور ان کی جانچ بنانے کے لیے اس ‘یک رخی ماڈل’ کے استعمال کا کوئی حقیقی جواز بھی پیش نہیں کیا- دوسری خامی مارکس میں ، ان کے نزدیک مارکس کا ‘یوروسنٹر ازم ‘ کے ساتھ جھولنا تھا- یہاں تک کہ ایڈورڈ سعید نے مارکس پر غیر مغربی سماجوں کی تصویر کشی میں نسل پرست ہونے کا الزام بھی دھر دیا-
اپنی پہلی تنقید جس میں انہوں نے مارکس پر غیر یورپی و غیر سرمایہ دارانہ سماجوں پر یک خطی یورپ کی سماجی اور معاشی ترقی کے ماڈل کے اطلاق کا الزام لگایا تھا، اسے ثابت کرنے کے لیے ایڈورڈ سعید نےکہا کہ مارکس کے نزدیک مغربی سامراجیت آگے کی طرف بڑھنے کا ایک تاریخی تقاضا یا ناگزیریت تھی- اور اس سے مستقبل میں ساری انسانیت ترقی کرے گی- جیسا کہ سعید نے اپنی کتاب ‘اورئنٹل ازم ‘میں لکھا کہ نیویارک ٹرائبون میں 1853ء میں جو تحریریں لکھیں وہ برٹش نوآبادیاتی نظام کے لیے حیرت انگیز طور پر حمایت پر مشتمل تھیں-
مارکس نے انگریزوں کو "ہندوستانی تہذیب سے بالاتر اور اس لیے ناقابل رسائی” قرار دیا جبکہ ہندوستان کو ایک جامد معاشرے کے طور پر پیش کیا جو سامراج کے خلاف زیادہ مزاحمت کرنے سے بھی قاصر تھا۔ جیسا کہ سعید نے مارکس کے مؤقف کی نشاندہی کی:
"ایشیا کو تباہ کرکے بھی، برطانیہ وہاں ایک حقیقی سماجی انقلاب کو ممکن بنا رہا تھا”۔
ایڈورڈ سعید جس قسم کے مسئلے کو اجاگر کر رہے ہیں اس کی سب سے واضح مثال شاید 1853 میں ہندوستان کے بارے میں لکھی گئی تحریروں میں نہیں بلکہ پانچ سال پہلے کمیونسٹ منشور (1848) میں ملتی ہے۔ یہاں مارکس اور فریڈرک اینگلز چین کے سامراجی مداخلت کی تعریف کرتے نظر آئے:
بورژوازی، پیداوار کے تمام آلات کی تیزی سے بہتری کے ذریعے، مواصلات کے انتہائی آسان ذرائع کے ذریعے، سب سے زیادہ وحشی قوموں کو تہذیب کی طرف راغب کرتی ہے۔ اس کی اجناس کی سستے داموں بھاری توپ خانے ہیں جن کی مدد سے وہ چین کی تمام دیواروں کو منہدم کر دیتا ہے، جس کی مدد سے وحشیوں کی غیر ملکیوں سے شدید نفرت کو ختم کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ معدومیت کے درد سے دوچار تمام قوموں کو بورژوا طرز پیداوار اپنانے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ تہذیب کو اپنے درمیان متعارف کرائیں، یعنی خود بورژوا بن جائیں۔
یہاں مینی فیسٹو میں مارکس نے نہ صرف نوآبادیات کی طرف سے ہونے والی "ترقی” کا جشن منایا، بلکہ انہوں نے چینیوں کو "وحشی” بھی قرار دیا۔ اس طرح کی زبان سعید کی دوسری تنقید سے جڑی ہوئی ہے، جس کا نام نسلی امتیاز ہے۔
سعید نے مارکس کو ‘صحبت مفکریان مغرب’ میں گردانا اور کہا کہ ارنسٹ رینان سے لیکر مارکس تک سب کے سب غیر مغربی اور نوآبادیاتی سماجوں کے باب میں ‘یورونٹرک’ بلکہ ‘نسل پرست’ تھے۔ جنہوں نے نطشے کے بیان کردہ مفہوم کے مطابق ‘سچائیوں کا نظام’ تیار کیا-
اس لیے ایڈورڈ سعید نے کہا: یہ درست ہے کہ ایک مغربی ‘مشرق/اورئنٹ’ کے بارے میں جو کہہ سکتا تھا وہ بہرحال ایک نسل پرست ، ایک سامراجیت پسند اور قریب قریب مکمل طور پر ایتھنوسنٹرک / مائل بہ نسلیت کا کہا ہی ہوسکتا تھا-
مارکس کا نظریاتی ارتقاء
کیا ایڈورڈ سعید کے دلائل ٹھیک تھے؟ کیا واقعی مارکس دوہرے معنی رکھنے والی اصطلاح ‘یوروسنٹرسٹ’ کا عین مصداق تھا: یعنی اس نے بطور نظریہ ساز اور ایک ایتھنو سنٹرسٹ دونوں اعتبار سے اس نے دنیا کی تاریخ اور ثقافت پر مغربی یورپ کی تاريخ اور ثقافت کو چپکا دیا اور یورپ سے باہر کی دنیا بارے اس کا طرز عمل ایک مائل بہ نسلیت یا اس سے بھی برا تھا-
جواب کسی بھی طرح آسان نہیں ہے. کچھ مارکس وادیوں کے برعکس، میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ یہ دعوے حد سے زیادہ ہیں، لیکن ہمیں ان کی جزوی صداقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے، کم از کم جب مارکس کی 1848 سے 1853 تک غیر مغربی معاشروں کے بارے میں ابتدائی تحریروں کی بات آتی ہے۔ تو مارکس پر ایڈورڈ سعید کا الزام کافی حد تک سچ لگتا ہے۔
لیکن اگر کوئی کارل مارکس کی 1841ء تا 1883ء تک کے عرصے میں لکھی جانے والی تمام تحریروں کا جائزہ لے گا تب اس کا مارکس کے بارے میں ‘یوروسنٹرک’ ہونے کا تاثر قائم نہیں رہے گا- کیونکہ کارل مارکس ایک محقق اور مفکر تھا- اس نے اپنے کام پر نظرثانی کرنا اور اپنے فکری آپریٹس پر پیش رفت جاری رکھی-
پہلی بات تو یہ ہے کہ جسے آج ہم یوروسینٹرازم اور ایتھنوسینٹرزم کہتے ہیں، ان کی واحد مثالیں وہ تحریریں ہیں جو مارکس نے ہندوستان اور چین کے بارے میں ابتدائی طور پر لکھےیں۔ مثال کے طور پر 1853ء میں ہندوستان کے بارے میں لکھی گئی تحریروں میں بھی اس طرح کے اقتباسات شامل تھے:
برطانوی سرمایہ داری/بورژوازی کی طرف سے ان کے درمیان بکھرے سماج کے نئے عناصر کے ثمرات سے اس وقت تک فائدہ نہیں اٹھاسکیں گے جب تک برطانیہ میں اس وقت کے حکمران طبقات کی جگہ صنعتی پرولتاریہ/محنت کش نہ لے لیں یا ہندؤ(ہندوستانی) خود اتنے مضبوط اور طاقتور نہ ہوجائیں کہ وہ فرنگی کی غلامی کا جوا اتار نہ پھینکيں- زیادہ محتاط طریقے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جلد یا بدیر اس عظیم اور دلچسپ ملک کا جنم نو ہوگا جس کے شریف باسیوں نے برطانوی افسروں کو اپنی بہادری سے ششدر کردیا ہے اور جن کا ملک ہماری زبان امو ہمارے مذاہب کا مسکن ہے۔
یہاں مارکس نے نہ صرف ہندوستانی ثقافت اور تہذیب کی بہت تعریف کی بلکہ اس دور میں ہندوستان کی آزادی کے ایک ایسے یورپی حامی کے طور پر بھی کھڑے ہوئے جو یورپ میں اس وقت ڈھوںدے نہیں ملتے تھے۔
دوسری بات یہ کہ ہندوستان اور چین کے بارے میں مارکس کے نقطہ نظر میں 1856-58 تک کافی تبدیلی آئی، جب ردعمل میں یہ معاشرے برطانوی سامراج کے خلاف بڑے پیمانے پر مزاحمت کر رہے تھے۔ دی ٹربیون کے لیے لکھے گئے مضامین میں جن پر شاذ و نادر ہی بحث کی جاتی ہے، مارکس نے ایشیائی "پسماندگی” پر توجہ مرکوز نہیں کی بلکہ چین کے خلاف برطانیہ کی دوسری افیون جنگ کی نوآبادیاتی بربریت پر توجہ مرکوز کی – یہاں 1856 کے ٹربیون کے ایک مضمون میں اس نقطہ نظر کا اظہار کیا گیا ہے:
کینٹن کے نہتے شہریوں اور پرامن تاجروں کا قتل عام کیا گیا، ان کی بستیوں کو زمین بوس کیا گیا، اور انسانیت کے دعوے داروں نے اپنے دعوؤں کی نفی کی۔ انگریزوں نے اپنی طرف ایک چوٹ لگنے کے بدلے میں 99 چینیوں کو چوٹیں لگائیں-
1857 میں ہندوستان میں شروع ہونے والی غدر کے مسئلے پر ، مارکس نے ٹریبون میں انگریزوں کے خلاف ہندوستانی غدریوں کی ایک بار پھر حمایت کی۔ 1858 میں اینگلز کو لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے انہیں ایک ایسے وقت میں "ہمارے بہترین اتحادی” بھی قرار دیا جب یورپی محنت کش طبقہ بحران کے دور سے گزر چکا تھا۔
تیسری بات یہ کہ تاریخی ترقی کے مراحل کے بارے میں مارکس کا تصور بھی 1850 کی دہائی کے اواخر میں ایک اہم تبدیلی سے گزرا۔ 1846 میں ‘جرمن ائیڈیالوجی’ میں ، انہوں نے اور اینگلز نے سماجی و اقتصادی مراحل کا ایک نظریہ پیش کیا ، جسے انہوں نے بعد میں طریق ہائے پیداوار/موڈز آف پروڈکشن کا نام دیا:
بے ریاست قبیل داری معاشرے ، یونان اور روم کے غلاموں پر مبنی معاشرے ، اور قرون وسطی کے مغربی یورپ کے غلامی پر مبنی جاگیرداری ، اس کے بعد سرمایہ دارانہ نظام نے رسمی طور پر آزاد اجرت مزدوری کی حکومت قائم کی ، اور آخر میں ، مستقبل میں پیش کیا ۔ ایک جدید کمیونزم جس کی بنیاد "آزاد اور مربوط مزدوری” پر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ پیداوار کے "قدیم” – "غلام داری” – "جاگیردارانہ” – "بورژوا "/شسرمایہ دارانہ– سوشلسٹ/ اشتراکی طریق ہائے پیداوار کہلاتے ہیں-
تاہم 1857-58 ء تک مارکس نے اس فریم ورک کو وسعت دی اور یورپ کے گریکو رومن اور جاگیردارانہ نظاموں کے ساتھ ساتھ ایک ایشیائی طرز پیداوار (اے ایم پی) متعارف کرایا جسے انہوں نے خاص طور پر ہندوستان ، چین اور مشرق وسطی کی نوآبادیاتی زرعی سلطنتوں سے منسلک کیا۔ مارکس نے کیپیٹل میں اس توسیع شدہ فریم ورک کا بھی ذکر کیا ، جہاں اس نے "ایشیائی ، قدیم ، جاگیردارانہ اور جدید بورژوا پیداوار کے طریقوں” کے بارے میں لکھا۔
ہم اے ایم پی/ ایشیائی طریق پیداوار کو گریکو رومن اور جاگیردارانہ معاشروں کے ہم منصب کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ اے ایم پی کا تصور بنیادی طور پر اس بات کی نشاندہی کے طور پر اہم ہے کہ مارکس پوری انسانی تاریخ کو غلامی، جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ نظام کے راستے میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ بدقسمتی سے مارکس کے پیروکاروں میں سے زیادہ تر – خاص طور پر سوویت یونین میں – نے مغربی یورپ سے باہر سرمایہ دارانہ طبقاتی معاشروں ، بشمول اہم شہری مراکز کے ساتھ کافی مرکزی زرعی سلطنتوں کو یورپی جاگیرداری کے جال میں ڈھالنے پر زور دیا۔
ایک نظریہ ناکہ ہر تالے کی کنجی
اس طرح کے مسائل مارکس کی 1877-82 کی آخری تحریروں میں مرکزی حیثیت اختیار کر گئے ، ایک ایسا دور جب انہوں نے مغربی یورپ سے باہر ، ہندوستان سے لاطینی امریکہ اور روس سے شمالی افریقہ تک مختلف قسم کے زرعی اور چرواہے معاشروں پر بشریات اور سماجی تاریخ بارے کتابیں پڑھی تھیں۔ اس وقت تک ، انہوں نے اس ملک کے سماجی ڈھانچے کی تحقیقات کرنے کے لئے روسی زبان سیکھ لی تھی ، جہاں انہیں بڑی حیرت ہوئی جب انہیں پتا چلا کہ وہاں ان کی کتاب سرمایہ کی پہلی جلد کا پہلا مکمل ترجمہ 1872 میں شائع ہوچکا ہے۔
اس دور کے مارکس کے تحقیقی نوٹس/ حاشیوں کے بڑے حصے، خاص طور پر ہندوستان کے بارے میں، شائع ہو چکے ہیں، اور دیگر تحریریں اشاعت کی تیاری کے مراحل میں ہیں۔ مارکس نے ان زرعی معاشروں میں سے ایک یعنی روس پر دو انتہائی اہم خطوط بھی لکھے۔
اس وقت بھی روس میں ایک انتہائی زرعی سماجی ڈھانچہ موجود تھا جس کی بنیاد مقامی سطح پر دیہی کمیون پر رکھی گئی تھی۔ یہ کمیون، اگرچہ زمیندار طبقوں میں جڑی ایک آمرانہ بادشاہت کے کنٹرول میں تھے، لیکن اجتماعی ملکیت اور کام کے انتظامات کی ایک حد رکھتے تھے جو مغربی یورپی جاگیرداری کے زیادہ انفرادی سماجی انتظامات سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔
مارکس نے ان خطوط میں دو اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ سب سے پہلے، کیا روس مغربی یورپ کی ترقی کے راستے پر چلنا چاہتا تھا؟ دوسرا یہ کہ کیا اس کے فرقہ وارانہ دیہاتوں میں کوئی انقلابی اور سرمایہ داری مخالف صلاحیت موجود تھی، یا ان کے باشندوں کو پہلے اپنی زمینوں سے بے دخل کرنا پڑے گا تاکہ مزدوروں پر مشتمل ایک صنعتی پرولتاریہ تشکیل دیا جا سکے، جس عمل کو مارکس نے "سرمائے کا ابتدائی ارتکاز’ کہا تھا-
بہت سے محققین نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ انہوں نے روس کے بارے میں ان خیالات کو دوسرے زرعی معاشروں سے منسلک ہونے کے طور پر دیکھا ہے جن کا وہ گلوبل ساؤتھ میں اپنے آخری سالوں میں مطالعہ کر رہے تھے۔ 1877ء میں روسی انقلابی دانشوروں کے نام لکھے گئے ایک خط میں مارکس نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ انہوں نے سماجی ترقی کا ایک عمومی اور غیر تاریخی نظریہ تخلیق کیا تھا:
اس طرح مختلف تاریخی سیاق و سباق میں رونما ہونے والے حیرت انگیز مماثلت کے واقعات کے نتیجے میں مکمل طور پر مختلف نتائج برآمد ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک پیش رفت کا الگ الگ مطالعہ کرنے سے، کوئی بھی آسانی سے اس رجحان کی کلید کو دریافت کرسکتا ہے، لیکن یہ کبھی بھی مطلق تاریخی -فلسفے کے نظریے کی مہا کلید نہیں بن سکتی جس کی خاصیت ماورائے تاریخی / سپر ہسٹاریکل ہونا ہوتی ہے۔
یہاں، مارکس نے اس الزام سے انکار کیا کہ وہ یورو سینٹرک "عظیم بیانیہ” پر قائم تھا۔
روسی شاہراہِ عمل
ان مباحثوں کا فوری سیاق و سباق یہ سوال تھا کہ جیسا کہ روسی دانشور اپنے آپ سے پوچھ رہے تھے، کیا ان کا معاشرہ "لازمی طور پر” مغربی یورپ کے راستے پر چلنے کے لئے مجبور ہے اگر اسے ترقی کرنی ہے۔ اس نکتے پر مارکس نے 1881ء میں روسی انقلابی ویرا زاسولیچ کو لکھے گئے ایک خط میں لکھا ہے:
سرمایہ دارانہ پیداوار کی ابتدا ء کا تجزیہ کرتے ہوئے میں کہتا ہوں: "اس لیے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پیداوار کے ذرائع سے پیداوار کرنے والوں کی مکمل علیحدگی ہے۔ اس پوری ترقی کی بنیاد کاشتکاروں کی ضبطی ہے۔ اب تک، یہ صرف انگلینڈ میں ایک انقلابی انداز میں کیا گیا ہے. . . لیکن مغربی یورپ کے دیگر تمام ممالک اسی ترقی سے گزر رہے ہیں” (کیپٹل، فرانسیسی ایڈیشن، صفحہ 315)۔ لہذا، اس عمل کی "تاریخی ناگزیریت” واضح طور پر مغربی یورپ کے ممالک تک محدود ہے.
ایک بار پھر مارکس اس بات سے انکار کر رہے تھے کہ انہوں نے مغربی یورپ کے راستے پر مبنی سماجی ترقی کا ایک یک رخی ماڈل تشکیل دیا تھا۔ اس تناظر میں ہمیں یہ بھی نوٹ کرنا چاہیے کہ اس دور میں ہندوستان کے بارے میں اپنے تحقیقی نوٹس میں انہوں نے واضح طور پر اس نظریے پر حملہ کیا تھا کہ قبل از نوآبادیاتی ہندوستان ایک جاگیردارانہ معاشرہ تھا۔
اس دور میں مارکس نے روسی معاشرے کے اندر سماجی تضادات کو بھی اٹھایا، جہاں اب تک ایک اہم انقلابی تحریک وجود میں آ چکی تھی۔ انہوں نے نہ صرف اپنے روسی مخاطب کاروں کے اس گمان کی نفی کی کہ ان کے نظریات سے روس کے بارے میں یہ خیال نکلتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ روس کے الگ تھلگ دیہاتوں کو ابتدائی ارتکاز سرمایہ کے لیے لازمی طور پر اسی طرح سے تباہی سے کزرنا ہوگا جیسے یورپ گزرا تھا- انہوں نے روس کے بارے میں ایسی کسی بھی ‘لزومیت’ اور ‘مجبوری’ کے ہونے سے انکار کیا- بلکہ مارکس نے تو روس کے ان دیہاتوں کو ایک نئی قسم کی انقلابی تحریک کی سماجی بنیادیں فراہم کرنے والے مقامات کے طور پر دیکھا تھا-
یہ تحریک یورپی محنت کش طبقے کے متوازی ہوگی، لیکن اس کی پیروی نہیں کرے گی، جیسا کہ انہوں نے اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو کے 1882 کے روسی ایڈیشن کے پیش لفظ میں لکھا تھا:
اگر روسی انقلاب مغرب میں پرولتاری انقلاب کا اشارہ بن جاتا ہے، تاکہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کریں، زمین کی موجودہ روسی مشترکہ ملکیت کمیونسٹ ترقی کے لئے نقطہ آغاز کے طور پر کام کر سکتی ہے.
یہاں، مارکس انقلاب کا ایک کثیر الجہتی تصور پیش کر رہا تھا، جس میں روس کے کسان کمیون مغربی یورپ کے صنعتی محنت کش طبقے کا ایک اہم اتحادی بن سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ دلیل دی کہ سرمایہ دارانہ نظام کے دائرے میں اس طرح کی کسان بغاوت سب سے پہلے آسکتی ہے، جو "نقطہ آغاز” کے طور پر سامنے آسکتی ہے جو یورپ بھر میں انقلابی تحریک کو جنم دے سکتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ مارکس نے کبھی بھی زرعی سوشلسٹ نظام کی وکالت نہیں کی۔ ان کا خیال تھا کہ زیادہ ترقی یافتہ ممالک سے روابط کے بغیر، روس میں کسان انقلاب اپنے طور پر جدید کمیونزم کی ایک قابل عمل شکل کا باعث نہیں بن سکتا۔ اس کے بجائے وہ غلبے اور استحصال کے عالمی نظام یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عالمی انقلاب کی وکالت کر رہے تھے۔
ہمارے زمانے کا مارکس
ان طریقوں سے مارکس مغربی یورپ پر مبنی ترقی کے کسی بھی قسم کے یک خطی نظریے سے دور ہو گئے جس میں باقی دنیا کو تصوراتی طور پر تنگنائی کے ساتھ نتھی کرنا پڑتا-
سرمایہ دارانہ نظام کے حاشیوں پر پڑے معاشروں کے بارے میں تضحیک آمیز رویہ کا اظہار کرنا تو دور کی بات ہے، ان آخری تحریروں نے اس کے بالکل برعکس مظاہرہ کیا: ان سماجوں کی انقلابی صلاحیت کا نظریہ
اس مضمون میں جس قسم کے دلائل پیش کیے گئے ہیں وہ اس دور میں پیش کیے جا رہے تھے جب ایڈورڈ سعید کی مارکس پر تنقید زور پکڑ رہی تھی۔
میری گرو رایا دونایوسکایا کی کتاب :روزا لکسمبرگ، آزادی نسواں اور مارکس کا فلسفہ انقلاب (1981) اور ٹیوڈور شانن کی آنجہانی مارکس اور روسی شاہراہ عمل (1983) میں ایک ایسے آنجہانی مارکس کا تصور سامنے آیا جس نے صنف سمیت معاشرے اور انقلاب کے بارے میں ایک کثیر الجہتی، حقیقی عالمی نقطہ نظر تیار کیا۔
مارکس کی ان تشریحات کو نیو لبرلازم، پوسٹ اسٹرکچرلزم، پوسٹ ماڈرنزم اور مارکسزم کی "موت” کے اعلانات کے دور میں زیادہ توجہ نہیں ملی۔ لیکن اس کے بعد کے برسوں میں ایڈورڈ سعید کی اورینٹل ازم میں مارکس پر اعتراضات پر مارکسی رد عمل سامنے آئے ہیں، خاص طور پر اعجاز احمد کی کتاب ان تھیوری (1992) اور گلبرٹ اشقر کی مارکسزم، اورینٹلازم، کاسموپولیٹنزم (2013)۔ ہیدر براؤن، مارسیلو مسٹو اور ڈیوڈ نارمن اسمتھ جیسے مصنفین کے ساتھ ساتھ میری اپنی کتاب "مارکس ایٹ دی مارجنز” سے بھی آنجہانی مارکس کے بارے میں گفتگو آہستہ آہستہ شروع ہوئی ہے۔
حالیہ برسوں میں مارکس کی طرف واپسی کے ساتھ، مجھے امید ہے کہ اس طرح کے تناظر نے اپنی جگہ بنالی ہوگی۔
—♦—
کیون بی اینڈرسن یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں سوشیالوجی کے استاد اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں – ان کا مضمون سب سے پہلے رسالہ جیکوبن میں شائع ہوا اور پھر ان کی اپنی آفیشل ویب سائٹ پر یہ نمودار ہوا- وہ نظریاتی اعتبار سے مارکس وادی ہیں-