ایک سوال ہر دوسرا پاکستانی کہہ رہا ہے کہ عرب ریاستیں غزہ میں پھنسے فلسطینیوں کی مدد اور پناہ کیوں نہیں دے رہیں؟ جبکہ اس وقت فلسطینیوں کے لئے خصوصاً غزہ کی پٹی میں رہنے والوں پر تو قیامت بپا ہوچکی یے، دنیا کے امیر ترین ممالک میں بہت سے ایسے ہیں جو عرب ملکوں میں سے ہیں، لیکن ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس مسئلے میں انہوں نے کبھی فلسطین کا ساتھ نہیں دیا۔ وہ فلسطینیوں کو قبول کیوں نہیں کرتے، انہیں گھر، تعلیم اور وسائل کیوں مہیا نہیں کرتے. فلسطین میں اس وقت سب سے مظلوم خطہ غزہ کی پٹی ہے اور یہاں سے ان کا کہیں بھی جانا ممکن نہیں ہے اس کی ایک اہم وجہ غزہ کے رہائشی نقل مکانی کیوں نہیں کرسکتے؟ کیونکہ سرحدی گزرگاہوں کو کافی وقت سے سیل کر دیا گیا ہے، اس کے علاوہ حماس نامی تنظیم نے غزہ کے باشندوں کو حکم دیا ہوا ہے کہ وہ اپنی جگہ پر رہیں اور غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع علاقوں سے انخلاء نہ کریں۔
دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ حالیہ بحران کے علاوہ بھی زیادہ تر عرب ریاستیں واقعتاً فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد کو قبول نہیں کرنا چاہتیں، کیونکہ ماضی میں عرب ممالک نے ہمیشہ فلسطینیوں کا ساتھ دیا ہے، ان کے لئے اپنے ممالک کی سرحدیں کھولی ہیں۔ لیکن عرب ملکوں نے اس کے بہت سخت نتائج بھگتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے لوگوں کو جو زمانوں سے عسکریت پسندوں کی تربیت میں گزار چکے ہوں، ان کو پناہ دینے والے عرب ممالک کے لئے ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی اپنی میزبان عرب ریاستوں کے ساتھ ایک بہت ہی عجیب سی تاریخ ہے، جس کی وجہ سے کوئی عرب ملک انہیں اپنے پاس رکھنے کے لئے راضی کبھی نہیں ہوتا۔
غزہ کے ساتھ مصر کی سرحد 8.7 میل لمبی اور 20 فٹ بلند ہے۔ یہ پتھر اور کنکریٹ سے بنی ہوئی ہے۔ غزہ کے حالیہ مقامی عرب کثرت سے مصری ہیں، اسرائیل نے سنہء 1967 میں مصر کے ساتھ 6 روزہ جنگ کے دوران مصری صحراء سیناء کے کئی حصوں پر قبضہ کرلیا تھا، پھر جب سنہء 1982 میں دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدوں پر دستخط ہوئے تو اسرائیل نے سیناء مصر کو واپس کردیا لیکن مصر نے غزہ اور اس کے ساتھ اپنے سابقہ مصری شہریوں کو واپس لینے سے انکار کر دیا تھا، وہ سارے مصری شہری آج اس خطے میں فلسطینی ہی کہلاتے ہیں۔ مصر کو خاص طور پر ڈر ہے کہ اسرائیل ان فلسطینیوں کو جن کی روٹس مصر سے ہیں کل کلاں کو مصر کے صحرائے سیناء میں بھگا دے گا، جہاں وہ مصری عسکریت پسند مقامی اخوان کے ساتھ مل کر ملک پر حملہ کریں گے۔اسی لیے مصر غزہ کے رہائشیوں کو سرحد کے مصری حصے سے جانے کی اجازت نہیں دے گا۔ انہوں نے طویل عرصے سے غزہ کے لیے اپنی سرحد اسی طرح بند کر رکھی ہے جس طرح اسرائیل نے ان کے لئے ھماس کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اپنی سرحدیں بند کی ہوئی ہیں۔
مصر کے لیے غزہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا ان کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ کیونکہ نہ مصر اور نہ ہی اسرائیل غزہ کی پٹی کے ساتھ کچھ کرنا چاہتے تھے، جو حماس کے کنٹرول میں ہے۔ یہ جگہ زیر زمین سرنگوں، اسمگلنگ اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ کا گڑھ ہے، جسے روکنے کے لئے سنہء 2020 میں مصر نے پہلے سے موجود خار دار باڑ کو مزید الیکٹرانک سینسرز لگادئیے تھے، مصر اسے کثرت سے بند کرتا ہے، اور اسرائیل کی طرح سخت حفاظتی انتظامات کرتا ہے۔ اس کی وجہ سیناء میں مقامی مصری عسکریت پسند باغیوں کو حماس کی حمایت حاصل ہونا ہے ۔
ایک اور بڑی مثال اردن کی ہے، جنہوں نے ہزاروں فلسطینیوں کو اپنے ملک میں پناہ دی مگر سنہء 1970 میں "بلیک ستمبر” کا واقعہ ہوا، جب وہاں پر موجود پناہ گزین فلسطینیوں نے اردن کی ریاست پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی، فلسطینیوں نے کئی بار اردن کے شاہ حسین کو قتل کرنے اور خود حکومت بنانے کی کوشش کی، اس کا اختتام اردن کی فوج کی جانب سے پاولٹینین پناہ گزین کیمپوں پر گولہ باری کے ساتھ ہوا جہاں سے قبضے کی کوشش شروع کی گئی تھی، بعد ازاں اردن نے فلسطینی قیادت اور اس کے تمام فوجی اور سیاسی ڈھانچے کو بے دخل کردیا تھا۔ وہاں سے انہوں نے لبنان کے جنوب پر قبضہ کر لیا، وہاں پر فلسطینیوں کی موجودگی نے بین الاجتماعی تناؤ کو بڑھا دیا جس کی وجہ سے لبنانی خانہ جنگی شروع ہوئی، بالآخر اردن کو پی ایل او کو نکالنا پڑا، اور لبنان ایک تباہی میں بدل گیا، جس نے لبنان کی معیشت کو تباہ کر دیا۔
کویت نے بھی ہزارہا فلسطینیوں کو پناہ دی، ریاستی سطح پر انہیں مکانات دئیے گئے، وسائل مہیا کئے گئے، لیکن سنہء 1991 میں جب صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا، تو یاسر عرفات اور پی ایل او نے صدام کی حمایت کی (یہ واقعی ایک عجیب فیصلہ ہے کہ جو خلیجی ریاستوں کی فنڈنگ پر انحصار کررہے تھے وہ آج ان کی مخالفت بھی کررہے تھے) اور ہر جگہ فلسطینیوں نے حملے کے حق میں مظاہرہ کیا۔ آخری ظلم تو یہ ہوا کہ کویت میں داخلی طور پر وہ رہائشی فلسطینی جنہیں کویت نے نہ صرف پناہ دی ہوئی تھی بلکہ ایک اچھی زندگی دی ہوئی تھی، حملے کے بعد کویت کی سڑکوں پر کویت کی حکومت کے خلاف نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو خلیجی ریاستوں سے بے دخل کیا گیا تھا، اس کے علاوہ شام نے بھی فلسطینوں کو پناہ گزین کیمپوں میں پناہ دی تھی، اسد حکومت میں ان کے کیمپوں میں کثرت سے بغاوت ہوتی رہی وہ اسد حکومت کے خلاف بغاوت کا حصہ بنتے رہے جس کی وجہ سے اسد حکومت کی طرف سے کیمپوں پر لڑائی یا محاصروں کی وجہ سے ہزاروں فلسطینی مارے گئے ہیں۔ اس وقت بھی شام میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی حکومتی جیلوں میں نظر بند ہیں۔
اس کے باوجود پھر بھی لبنان، اردن، ترکی، مصر اور متعدد عرب ریاستوں کے علاوہ یورپی ریاستوں سمیت 100,000 سے زائد فلسطینی پناہ گزین آباد ہیں، خود اسرائیل میں ہر پانچواں شخص فلسطینی ہے جسے وہاں کی مقامی اسرائیلی شہریت میسر ہے۔ یہ زمینی حقائق ہیں، آپ انہیں تحقیق کرکے دیکھ سکتے ہیں، اسرائیل ایک جبری و ظالم ریاست ہے، مگر کیا فلسطینیوں نے خود بھی اپنی قسمت کا فیصلہ درست سمت میں طے کیا ہے؟ ھماس نے غزہ کی پٹی کو موت کے ایک کنوئیں میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں بچوں کا سب سے بڑا مقصد خودکش بمبار بننا ہے۔ مزید ایک مسئلہ یہ ہے کہ کوئی دوسرا ملک انہیں نہیں قبول نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ یہ خود بھی کسی کے ساتھ مخلص نہیں رہے (,تاریخ اس کی گواہ ہے) فلسطینی کسی بھی ملک کے لیے بری خبر بن جاتے ہیں جہاں وہ رہ رہے ہوں۔ عرب ممالک فلسطینیوں کی حمایت کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ ان کی مالی امداد کرتے ہیں، جب تک کہ وہ اسرائیل کے مقابل ہوں، مگر جہاں ھماس ان کے ساتھ ہو وہاں کوئی بھی عرب ملک ان سے تعلق نہیں رکھتا, ماسوائے ان عرب ممالک کی عسکریت پسند تنظیمیں ھماس کا ساتھ دیتی ہیں یا ایران ساتھ دیتا ہے۔
آج سے تقریباً 20 سال پہلے فلسطینیوں کے پاس ایک زبردست وزیر اعظم "سلام فیاض” آیا تھا، کرپشن و مالی بدعنوانیاں اس قدر عروج پر تھی کہ بالآخر اس نے استعفیٰ دے دیا، کیونکہ وہ حکومت کی بدعنوانی اور اقربا پروری کو برداشت نہیں کرسکا تھا، جبر کی ایک متعین تعریف یہی ہے کہ ایک طاقتور کے مقابلے میں کمزور طبقے کے ساتھ کیا جانا والا ناجائز عمل آپ کو جبر لگتا ہے،
کیا کبھی کسی نے فلسطینیوں کی داخلی حکومتی انتظامات کا جائزہ لیا ہے؟ وہ بھی بطور حکومت اپنے سے کمزوروں پر جبر ہی کرتے ہیں، مغربی کنارے میں ایک فلسطینی صحافی جس نے حکومت کے خلاف بات کی تھی اس کو پولیس نے مار مار کر ہلاک کر دیا تھا اور اس وقت جب وہ خود غربت اور بدسلوکی کا شکار ہیں، مغربی کنارے پر اسرائیلی کنٹرول ہے ۔
آج فلسطینی اسرائیلی جبر کا شکار ہیں، بظاہر ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے حماس کی قبولیت کے، مگر یہ بھی ایک اندھا کنواں ہے، فلسطینیوں کو ایک اچھی معاشی زندگی کی ضرورت ہے، اچھی تعلیم کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس کیفیت سے باہر نکل آئیں کہ انہوں نے ہر وقت جنگوں اور بغاوتوں کا حصہ بننا ہے۔ اس کا واحد حل امن میں ہے، اور دو ریاستی پالیسی کی طرف سفر معاملہ چلا جائے، ورنہ شائد اس خطے میں یہ نہ رکنے والا سلسلہ ایسے ہی رہے گا۔
آخرمیں بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ا گرچہ اسرائیل ایک جابر ریاست ہے، مگر فلسطینیوں کے بہتے خون میں حماس کا حصہ بھی شامل ہے، اور جب تک کسی قوم کو مہذب نہیں بنایا جائے گا وہ اپنے پر مہربانی کرنے والوں کے لئے بھی تکلیف کا باعث بنتے رہیں گے۔ یہ سب امن، معاشی استحکام اور تعلیم سے ہی ممکن ہے۔ جس کی طرف کسی کا بھی رحجان نہیں ہے۔ ممکن ہے آپ کی ذہنی تربیت بھی ایسی ہو کہ آپ بھی حقیقت سمجھنے کے لئے درست حقائق اور تاریخ کے بجائے جذبات کی مدد لیتے ہوں۔ مگر اس سب کے باوجود اس وقت فلسطینی مسلمانوں پر ایک کڑا وقت ہے صرف امید ہی کر سکتے ہیں کہ کسی طرح سے یہ جارحیت رک جائے۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
ایک سوال ہر دوسرا پاکستانی کہہ رہا ہے کہ عرب ریاستیں غزہ میں پھنسے فلسطینیوں کی مدد اور پناہ کیوں نہیں دے رہیں؟ جبکہ اس وقت فلسطینیوں کے لئے خصوصاً غزہ کی پٹی میں رہنے والوں پر تو قیامت بپا ہوچکی یے، دنیا کے امیر ترین ممالک میں بہت سے ایسے ہیں جو عرب ملکوں میں سے ہیں، لیکن ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس مسئلے میں انہوں نے کبھی فلسطین کا ساتھ نہیں دیا۔ وہ فلسطینیوں کو قبول کیوں نہیں کرتے، انہیں گھر، تعلیم اور وسائل کیوں مہیا نہیں کرتے. فلسطین میں اس وقت سب سے مظلوم خطہ غزہ کی پٹی ہے اور یہاں سے ان کا کہیں بھی جانا ممکن نہیں ہے اس کی ایک اہم وجہ غزہ کے رہائشی نقل مکانی کیوں نہیں کرسکتے؟ کیونکہ سرحدی گزرگاہوں کو کافی وقت سے سیل کر دیا گیا ہے، اس کے علاوہ حماس نامی تنظیم نے غزہ کے باشندوں کو حکم دیا ہوا ہے کہ وہ اپنی جگہ پر رہیں اور غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع علاقوں سے انخلاء نہ کریں۔
دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ حالیہ بحران کے علاوہ بھی زیادہ تر عرب ریاستیں واقعتاً فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد کو قبول نہیں کرنا چاہتیں، کیونکہ ماضی میں عرب ممالک نے ہمیشہ فلسطینیوں کا ساتھ دیا ہے، ان کے لئے اپنے ممالک کی سرحدیں کھولی ہیں۔ لیکن عرب ملکوں نے اس کے بہت سخت نتائج بھگتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے لوگوں کو جو زمانوں سے عسکریت پسندوں کی تربیت میں گزار چکے ہوں، ان کو پناہ دینے والے عرب ممالک کے لئے ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی اپنی میزبان عرب ریاستوں کے ساتھ ایک بہت ہی عجیب سی تاریخ ہے، جس کی وجہ سے کوئی عرب ملک انہیں اپنے پاس رکھنے کے لئے راضی کبھی نہیں ہوتا۔
غزہ کے ساتھ مصر کی سرحد 8.7 میل لمبی اور 20 فٹ بلند ہے۔ یہ پتھر اور کنکریٹ سے بنی ہوئی ہے۔ غزہ کے حالیہ مقامی عرب کثرت سے مصری ہیں، اسرائیل نے سنہء 1967 میں مصر کے ساتھ 6 روزہ جنگ کے دوران مصری صحراء سیناء کے کئی حصوں پر قبضہ کرلیا تھا، پھر جب سنہء 1982 میں دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدوں پر دستخط ہوئے تو اسرائیل نے سیناء مصر کو واپس کردیا لیکن مصر نے غزہ اور اس کے ساتھ اپنے سابقہ مصری شہریوں کو واپس لینے سے انکار کر دیا تھا، وہ سارے مصری شہری آج اس خطے میں فلسطینی ہی کہلاتے ہیں۔ مصر کو خاص طور پر ڈر ہے کہ اسرائیل ان فلسطینیوں کو جن کی روٹس مصر سے ہیں کل کلاں کو مصر کے صحرائے سیناء میں بھگا دے گا، جہاں وہ مصری عسکریت پسند مقامی اخوان کے ساتھ مل کر ملک پر حملہ کریں گے۔اسی لیے مصر غزہ کے رہائشیوں کو سرحد کے مصری حصے سے جانے کی اجازت نہیں دے گا۔ انہوں نے طویل عرصے سے غزہ کے لیے اپنی سرحد اسی طرح بند کر رکھی ہے جس طرح اسرائیل نے ان کے لئے ھماس کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اپنی سرحدیں بند کی ہوئی ہیں۔
مصر کے لیے غزہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا ان کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ کیونکہ نہ مصر اور نہ ہی اسرائیل غزہ کی پٹی کے ساتھ کچھ کرنا چاہتے تھے، جو حماس کے کنٹرول میں ہے۔ یہ جگہ زیر زمین سرنگوں، اسمگلنگ اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ کا گڑھ ہے، جسے روکنے کے لئے سنہء 2020 میں مصر نے پہلے سے موجود خار دار باڑ کو مزید الیکٹرانک سینسرز لگادئیے تھے، مصر اسے کثرت سے بند کرتا ہے، اور اسرائیل کی طرح سخت حفاظتی انتظامات کرتا ہے۔ اس کی وجہ سیناء میں مقامی مصری عسکریت پسند باغیوں کو حماس کی حمایت حاصل ہونا ہے ۔
ایک اور بڑی مثال اردن کی ہے، جنہوں نے ہزاروں فلسطینیوں کو اپنے ملک میں پناہ دی مگر سنہء 1970 میں "بلیک ستمبر” کا واقعہ ہوا، جب وہاں پر موجود پناہ گزین فلسطینیوں نے اردن کی ریاست پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی، فلسطینیوں نے کئی بار اردن کے شاہ حسین کو قتل کرنے اور خود حکومت بنانے کی کوشش کی، اس کا اختتام اردن کی فوج کی جانب سے پاولٹینین پناہ گزین کیمپوں پر گولہ باری کے ساتھ ہوا جہاں سے قبضے کی کوشش شروع کی گئی تھی، بعد ازاں اردن نے فلسطینی قیادت اور اس کے تمام فوجی اور سیاسی ڈھانچے کو بے دخل کردیا تھا۔ وہاں سے انہوں نے لبنان کے جنوب پر قبضہ کر لیا، وہاں پر فلسطینیوں کی موجودگی نے بین الاجتماعی تناؤ کو بڑھا دیا جس کی وجہ سے لبنانی خانہ جنگی شروع ہوئی، بالآخر اردن کو پی ایل او کو نکالنا پڑا، اور لبنان ایک تباہی میں بدل گیا، جس نے لبنان کی معیشت کو تباہ کر دیا۔
کویت نے بھی ہزارہا فلسطینیوں کو پناہ دی، ریاستی سطح پر انہیں مکانات دئیے گئے، وسائل مہیا کئے گئے، لیکن سنہء 1991 میں جب صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا، تو یاسر عرفات اور پی ایل او نے صدام کی حمایت کی (یہ واقعی ایک عجیب فیصلہ ہے کہ جو خلیجی ریاستوں کی فنڈنگ پر انحصار کررہے تھے وہ آج ان کی مخالفت بھی کررہے تھے) اور ہر جگہ فلسطینیوں نے حملے کے حق میں مظاہرہ کیا۔ آخری ظلم تو یہ ہوا کہ کویت میں داخلی طور پر وہ رہائشی فلسطینی جنہیں کویت نے نہ صرف پناہ دی ہوئی تھی بلکہ ایک اچھی زندگی دی ہوئی تھی، حملے کے بعد کویت کی سڑکوں پر کویت کی حکومت کے خلاف نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو خلیجی ریاستوں سے بے دخل کیا گیا تھا، اس کے علاوہ شام نے بھی فلسطینوں کو پناہ گزین کیمپوں میں پناہ دی تھی، اسد حکومت میں ان کے کیمپوں میں کثرت سے بغاوت ہوتی رہی وہ اسد حکومت کے خلاف بغاوت کا حصہ بنتے رہے جس کی وجہ سے اسد حکومت کی طرف سے کیمپوں پر لڑائی یا محاصروں کی وجہ سے ہزاروں فلسطینی مارے گئے ہیں۔ اس وقت بھی شام میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی حکومتی جیلوں میں نظر بند ہیں۔
اس کے باوجود پھر بھی لبنان، اردن، ترکی، مصر اور متعدد عرب ریاستوں کے علاوہ یورپی ریاستوں سمیت 100,000 سے زائد فلسطینی پناہ گزین آباد ہیں، خود اسرائیل میں ہر پانچواں شخص فلسطینی ہے جسے وہاں کی مقامی اسرائیلی شہریت میسر ہے۔ یہ زمینی حقائق ہیں، آپ انہیں تحقیق کرکے دیکھ سکتے ہیں، اسرائیل ایک جبری و ظالم ریاست ہے، مگر کیا فلسطینیوں نے خود بھی اپنی قسمت کا فیصلہ درست سمت میں طے کیا ہے؟ ھماس نے غزہ کی پٹی کو موت کے ایک کنوئیں میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں بچوں کا سب سے بڑا مقصد خودکش بمبار بننا ہے۔ مزید ایک مسئلہ یہ ہے کہ کوئی دوسرا ملک انہیں نہیں قبول نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ یہ خود بھی کسی کے ساتھ مخلص نہیں رہے (,تاریخ اس کی گواہ ہے) فلسطینی کسی بھی ملک کے لیے بری خبر بن جاتے ہیں جہاں وہ رہ رہے ہوں۔ عرب ممالک فلسطینیوں کی حمایت کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ ان کی مالی امداد کرتے ہیں، جب تک کہ وہ اسرائیل کے مقابل ہوں، مگر جہاں ھماس ان کے ساتھ ہو وہاں کوئی بھی عرب ملک ان سے تعلق نہیں رکھتا, ماسوائے ان عرب ممالک کی عسکریت پسند تنظیمیں ھماس کا ساتھ دیتی ہیں یا ایران ساتھ دیتا ہے۔
آج سے تقریباً 20 سال پہلے فلسطینیوں کے پاس ایک زبردست وزیر اعظم "سلام فیاض” آیا تھا، کرپشن و مالی بدعنوانیاں اس قدر عروج پر تھی کہ بالآخر اس نے استعفیٰ دے دیا، کیونکہ وہ حکومت کی بدعنوانی اور اقربا پروری کو برداشت نہیں کرسکا تھا، جبر کی ایک متعین تعریف یہی ہے کہ ایک طاقتور کے مقابلے میں کمزور طبقے کے ساتھ کیا جانا والا ناجائز عمل آپ کو جبر لگتا ہے،
کیا کبھی کسی نے فلسطینیوں کی داخلی حکومتی انتظامات کا جائزہ لیا ہے؟ وہ بھی بطور حکومت اپنے سے کمزوروں پر جبر ہی کرتے ہیں، مغربی کنارے میں ایک فلسطینی صحافی جس نے حکومت کے خلاف بات کی تھی اس کو پولیس نے مار مار کر ہلاک کر دیا تھا اور اس وقت جب وہ خود غربت اور بدسلوکی کا شکار ہیں، مغربی کنارے پر اسرائیلی کنٹرول ہے ۔
آج فلسطینی اسرائیلی جبر کا شکار ہیں، بظاہر ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے حماس کی قبولیت کے، مگر یہ بھی ایک اندھا کنواں ہے، فلسطینیوں کو ایک اچھی معاشی زندگی کی ضرورت ہے، اچھی تعلیم کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس کیفیت سے باہر نکل آئیں کہ انہوں نے ہر وقت جنگوں اور بغاوتوں کا حصہ بننا ہے۔ اس کا واحد حل امن میں ہے، اور دو ریاستی پالیسی کی طرف سفر معاملہ چلا جائے، ورنہ شائد اس خطے میں یہ نہ رکنے والا سلسلہ ایسے ہی رہے گا۔
آخرمیں بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ا گرچہ اسرائیل ایک جابر ریاست ہے، مگر فلسطینیوں کے بہتے خون میں حماس کا حصہ بھی شامل ہے، اور جب تک کسی قوم کو مہذب نہیں بنایا جائے گا وہ اپنے پر مہربانی کرنے والوں کے لئے بھی تکلیف کا باعث بنتے رہیں گے۔ یہ سب امن، معاشی استحکام اور تعلیم سے ہی ممکن ہے۔ جس کی طرف کسی کا بھی رحجان نہیں ہے۔ ممکن ہے آپ کی ذہنی تربیت بھی ایسی ہو کہ آپ بھی حقیقت سمجھنے کے لئے درست حقائق اور تاریخ کے بجائے جذبات کی مدد لیتے ہوں۔ مگر اس سب کے باوجود اس وقت فلسطینی مسلمانوں پر ایک کڑا وقت ہے صرف امید ہی کر سکتے ہیں کہ کسی طرح سے یہ جارحیت رک جائے۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT