کیا ادب اور ثقافتی کوششوں کے لیے نجی کاروباری کارپوریٹ اداروں کی امداد و سرپرستی انسانی معاشروں اور انسانیت کی خودمختاری کے لیے ایک ممکنہ بڑا خطرہ ہے؟ اس سوال کا کوئی ایک سیدھا یا قطعی جواب دینا مشکل ہے۔ تاہم اس طرح کے پیچیدہ مسائل اکثر پیچیدہ اور کثیر الجہتی بحثوں کے آغاز کا سبب بنتے ہیں۔
ایک کتاب ‘لٹریری فیسٹیولز اینڈ کنٹیمپریری بک کلچر’ کی مصنفہ ڈاکٹر ملیسنٹ ویبر کی تحقیق کے مطابق؛ "ان میں (یعنی لیٹریری فیسٹولز میں) غیر متناسب طور پر مراعات یافتہ پس ِمنظر کے لوگ شرکت کرتے ہیں، عام طور پر، ان کے شرکاء امیر، پڑھے لکھے اور سفید فام ہوتے ہیں۔” (پاکستان/انڈیا کے سیاق و سباق میں ‘سفید فام’ کو ممکنہ طور پر مراعات یافتہ شہری متوسط یا امیر طبقہ کہا جا سکتا ہے۔)
عالمی کارپوریٹ سیکٹر کا ایک بڑا پلیٹ فارم، ورلڈ اکنامک فورم کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق، نجی کاروبار ، ثقافت اور تخلیقی سرگرمیوں کے شعبوں کے درمیان تعاون ہماری غیر مستحکم، غیر یقینی، پیچیدہ، اور مبہم دنیا کے چیلنجوں سے نمٹنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کارپوریٹ سیکٹر ان فنکاروں اور ثقافتی کارکنوں کی مدد میں بھی اپنا حصہ ڈال سکتا ہے جو ناکافی معاوضے کی وجہ سے اکثر اپنے معاشروں میں مالی طور پر پسماندہ رہتے ہیں۔
تاہم کارپوریٹ سیکٹر اور ادب و ثقافت کی سرگرمیوں کے درمیان تعاون کے بارے میں خدشات اُس وقت پیدا ہوتے ہیں جب اکثر متمول مغربی ممالک میں مقیم ترقی پذیر ممالک سے آئے ہوئے تارکین وطن فنکاروں کی ساکھ کا اندازہ ان کی فطری صلاحیتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ شہرت کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس لیے یہ”شہرت “ یا ریٹنگ کا پیمانہ فنکاروں کی شناخت کی تشکیل میں تعلقات عامہ کی کمپنیوں کے کردار کو زیادہ اہم بنا دیتا ہے، اور اس طرح یہ پورا نظام کارپوریٹ طاقت کے اثر و رسوخ میں ایک اور پرت یعنی پبلک ریلیشننگ کمپنیوں کے کردار کا اضافہ کرتا ہے۔
اس موضوع کے بارے میں ایک اور نقطہ نظر یہ ہے کہ کارپوریٹ سرپرستی درحقیقت انسانی معاشرے اور انسانیت کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے خاص کر جب ان کی سرپرستی کی وجہ سے ایک ایسا ماحول پیدا ہو جس میں غلط مقاصد کے حصول کے لیے اخلاقی اور سماجی اقدار کو نقصان پہنچانے کے خطرات کو نظر انداز کیا جا رہا ہو۔
کارپوریٹ سیکٹر بے ایمانی سے ادب اور ثقافتی سرگرمیوں کو سماجی اقدار میں اپنے کاروباری مقاصد کے لیے تبدیلیاں لانے کے آلات کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ صارفین، ملازمین، یا معاشرتی گروہوں کو ان کے وقار، خودمختاری، حقوق یا مفادات کا خیال کیے بغیر انہیں منفی انداز میں متاثر کر سکتا ہے۔
اس قسم کی سرپرستی کے نتیجے میں کاروباری اداروں اور ثقافتی سرگرمیوں کے شعبوں کے درمیان تعاون کے اس عمل سے کارپوریٹ اقدار اور اصول ادب اور ثقافتی سرگرمیوں پر غالب ہو سکتے ہیں، جس سے ادب اور ثقافتی سرگرمیوں کی خود مختاری، تنوع اور حق گوئی کی صلاحیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس لحاظ سے ادب اور ثقافتی سرگرمیاں انسانی ایجنسی کے تخلیقی اظہار کو آزادی سے پیش کرنے کے بجائے کارپوریٹ مفادات کی خدمت کرتے ہوئے نظر آئیں گی۔
مزید برآں ادب اور ثقافتی سرگرمیوں کی "سرپرستی” کے ذریعے کارپوریٹ سیکٹر کی ہیرا پھیری کی صلاحیت اور طاقت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے بیرون ملک میں آباد تارکین وطن جو ہر وقت تفریحی تقریبات کے منتظر رہتے ہیں وہ بغیر سوال کیے کارپوریٹ سرپرستی کو لاشعوری طور پر قبول کر لیتے ہیں اور انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے ادب و ثقافت میں پنہاں سچ پر سمجھوتہ کر لیا ہے۔
مختلف آراء
کاپوریٹ سیکٹر کی سرپرستی کو مختلف زاویوں سے پرکھا جا سکتا ہے۔ مارکسی یا بائیں بازو کے نقطہ نظر سے ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی کارپوریٹ سیکٹر کی سرپرستی کے بارے میں رائے مختلف زاویوں سے تجزیوں کی بنیاد پر مختلف ہوتی ہے:
• کچھ مارکسسٹ کارپوریٹ سیکٹر کی سرپرستی کو ثقافت پر اس کی بالادستی کی ایک شکل کے طور پر دیکھتے ہیں، جہاں سماجی طور پر معاشرے کا غالب اور مراعات یافتہ طبقہ مخصوص ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کو فنڈ اور فروغ دے کر ثقافتی اور نظریاتی منظر نامے کو اپنے حق میں ڈھالتا ہے۔ یہ انتونیو گرامچی کے ثقافتی بالادستی کے تصور سے اخذ کرتے ہوئے عوام کو ان کے استحصال اور جبر کے بارے میں تنقیدی بیداری پیدا کرنے سے روک سکتا ہے۔
• کچھ بائیں بازو کے دانشوران کارپوریٹ سیکٹر کی سرپرستی کو ادب اور ثقافتی سرگرمیوں سے ایک ایسے تعاون کے طور پر دیکھتے ہیں، جہاں کارپوریٹ سیکٹر فائدے یا علامتی انعامات کی پیشکش کرکے امیر طبقے پر بائیں بازو کی ممکنہ تنقید کرنے والے ناقدین کو بے اثر اور غیر مسلح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رابرٹ مشیلز کے تصور کے مطابق، ایسا عمل غیر اخلاقی طریقوں سے کارپوریٹ سیکٹر کی اس بدمعاشی سے لوگوں کی توجہ ہٹاتا ہے اور کارپوریٹ سیکٹر کی ساکھ اور طاقت میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال فارماسوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے ڈاکٹروں کی ثقافتی سرگرمیوں کے لیے عطیات دینا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی مصنوعات پر ڈاکٹروں کی ممکنہ تنقید کو تقریباً ناممکن بنا دیتی ہیں۔
• مارکسسٹ اسے کموڈیفیکیشن سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں، جہاں کارپوریٹ سیکٹر ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کو قابل فروخت مصنوعات میں تبدیل کرتا ہے، ممکنہ طور پر ان کی فنکارانہ ساکھ سے سمجھوتہ کرتا ہے اور کارل مارکس کے کموڈیفیکیشن کے تصور کے مطابق، ان سرگرمیوں پر سرمایہ کاری کرکے منافع بنانے کے آلات قرار دیتا ہے۔
•اس کے برعکس، کچھ لبرلز کارپوریٹ سیکٹر کی سرپرستی کو کارپوریٹ سیکٹر اور ادب و ثقافتی سرگرمیوں کے درمیان تعاون کو دونوں کے لیے باہمی طور پر سودمند قراردیتے ہیں۔ ان لبرلز کے خیال میں کارپوریٹ سیکٹر باہمی طور پر فائدہ مند طریقوں سے ثقافتی سرگرمیوں کی مدد کرتا ہے اور وہ خود مختاری کے ساتھ حق گوئی کا کام جاری کرتے ہیں۔ لبرلز کا یہ نظریہ امریکی عملیت پسند، جان ڈیوی (John Dewey) کے تعاون کے تصور کی بازگشت ہے جس کے مطابق اس سرپرستی کے ذریعے کارپوریٹ سیکٹر معاشرے میں مثبت کردار ادا کرتا ہے۔
ایک تنقیدی ویب سائیٹ” سپرنگرلنک“ (SpringerLink) نے زور دیا ہے کہ انسان دوست ماحول کی تشکیل کا عمل یعنی انسانی اقدار کے معاشرے کا فروغ افراد کے مجموعی نظریہ اور مشترکہ بھلائی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ تاہم کارپوریٹ کلچر بعض اوقات لوگوں کی بھلائی پر اپنے منافع کو ترجیح دے کر، مراعات کو غلط انداز میں، یا غیر ذمہ دارانہ طور پر انسانی اقدار کو خطرے میں ڈال کر ان اصولوں سے متصادم بنتا ہے۔
اس طرح خودمختار اور مستند ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ کارپوریٹ سیکٹر کی سرپرستی بن جاتا ہے کیونکہ اس کے لیے منافع یا اپنی کاروباری ”گُڈوِل “ (goodwill) زیادہ اہم ہوتی ہے۔ ایسے خطرے کی ابتدا سیاسی، سٹریٹجک اور جوڑ توڑ کی مداخلتوں سے ہوتی ہے جس کا مقصد معاشرے کی ثقافتی اقدار اور بنیادوں کو کھوکھلا کر کے مغربی اقدار کو متعارف کرانا ہوتا ہے۔
ترقی پذیر ممالک، جہاں فنکاروں کو کم معاوضہ دیا جاتا ہے، متوسط طبقے کے پاس فن کو سپورٹ کرنے کے لیے وسائل کی کمی ہوتی ہے، اور قوم پرست کارپوریٹ سیکٹر عالمی کاروباری کارپوریشنز سے مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتا ہے تو پھر وہ ان کےسامنے بے بس نظر آتا ہے۔ اور قوم پرست یا تو عالمی کارپوریٹ سیکٹر کو جوائن کر لیتا ہے یا تباہ ہوجاتا ہے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہےکہ بہت سے ترقی پذیر معاشروں میں ریگولیٹری فریم ورک اور قواعد و ضوابط کا فقدان ہے جو کارپوریٹ سیکٹر کے ادبی اور ثقافتی اقدار کو ان کے پوشیدہ کاروباری ایجنڈوں کو ہیرا پھیری سے روکنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ترقی پذیر معاشرے بھی اس کارپوریٹ سیکٹرز کے سامنے بالکل بے بس نظر آتے ہیں۔ اس کی واضح مثال افریقہ کی کمزور ریاستیں ہیں جہاں کے لوگ اپنی تاریخی ثقافت کا ایک گھٹیا ثقافت کے طور ادراک کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی کارپوریٹ سیکٹر کی سرپرستی "ایلیٹ کلچر” کو تقویت دیتی ہے، جو ثقافتی سامراج کے اثر و نفوذ کو بڑھانے کا ایک بڑا آلۂِ کار طبقہ ثابت ہوتا ہے، کیونکہ یہ طبقہ عام دیگر ثقافتوں کو پرکھنے اور اپنی ثقافتی اقدار کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال ہونے والے معیارات اور ماڈلز قائم کرتا ہے۔
اس لیے ان آلۂِ کار طبقوں کی جانب بیرونی ممالک سے رقم پانی کی بہتی ہے۔ مغربی این جی اوز غریب ممالک کی این جی اوز پر اپنا اثر و رسوخ بڑھاتی ہیں، سیاسی اور سماجی انجینئرنگ کے مقاصد کے لیے سماجی ایجنڈے کے ڈسکورس کو تشکیل دیتی ہیں۔ یعنی سادہ الفاظ میں، پیسہ پھینک تماشہ دیکھ۔ اور رقم کی یہ ترسیل ان طبقوں کو اپنا قومی تشخص اور ثقافت کو مغربی کمرشل اقدار کے زیر نگیں کرنے میں کوئی برائی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ غیر پارلیمانی الفاظ میں یہ طبقہ “دلّا گیروں” کا کردار ادا کرتا ہے۔
ایسے پیچیدہ حالات میں ترقی پسندوں کے لیے آگے بڑھنے کا بہترین راستہ یہ نہیں ہے کہ وہ عالمی کاپوریٹ سیکٹر کو کہیں کہ جب وہ مقامی ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں کی سرپرستی کرتے ہیں تو مقامی ادبی شخصیات اور ثقافتی کارکنوں کی مالی مدد کریں لیکن ان کی تخلیقی آزادی کو بھی تسلیم کریں۔ ایسا کہنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہی ہے۔کوئی کمپنی اگر مالی مدد دیتی ہے تو اپنے کاروباری مفاد کے لیے کرتی ہے، "جنت میں گھر بنانے کے لیے نہیں”۔
اس کے بجائے، ایک زیادہ تعمیری حکمت عملی یہ ہوسکتی ہے کہ نچلے طبقات کی تنظیمیں آگے بڑھیں اور کمیونٹی کے اندر معروف اور معزز دانشوروں کی حمایت سے ادیب شاعر اور فنکاروں کی مالی امداد کریں اور ادب اور ثقافتی سرگرمیوں کو منظم کریں، نہ کہ اس مقصد کے لیے عالمی کارپوریٹ سے مالی امداد مانگیں۔ (بھارت کے پاس کمیونٹی کے اندر مالی طور پر مضبوط، اچھی شہرت و ساکھ والا اور معزز دانشور طبقہ موجود ہے، لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے، اس لیے پاکستان میں یہ کام کرنا کافی مشکل ہے۔)
ہمارے ادب اور ثقافت کی اپنی اقدار کے مطابق تشکیل میں غیر ملکی اور عالمی کارپوریشنوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے عام لوگوں کو بھی جن میں مزدور، طلبا، کسان، اساتذہ قومی کاروباری طبقے وغیرہ کو بڑھ چڑھ کر اپنے مقامی اچھی شہرت و ساکھ رکھنے والوں اور معزز دانشوروں کی کوششوں کا ساتھ دینا اشد ضروری ہے۔ ایسا کرنے میں ناکامی ہوئی تو ہمیں کارپوریٹ سیکٹر کے زیر کنٹرول "زندہ لاش” بننے سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔
—♦—
ثقلین امام برطانیہ کے شہر لندن میں مقیم صحافی ہیں۔ آپ سیاسی و سماجی مسائل پر اکثر لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 2
جواب دیں جواب منسوخ کریں
کیا ادب اور ثقافتی کوششوں کے لیے نجی کاروباری کارپوریٹ اداروں کی امداد و سرپرستی انسانی معاشروں اور انسانیت کی خودمختاری کے لیے ایک ممکنہ بڑا خطرہ ہے؟ اس سوال کا کوئی ایک سیدھا یا قطعی جواب دینا مشکل ہے۔ تاہم اس طرح کے پیچیدہ مسائل اکثر پیچیدہ اور کثیر الجہتی بحثوں کے آغاز کا سبب بنتے ہیں۔
ایک کتاب ‘لٹریری فیسٹیولز اینڈ کنٹیمپریری بک کلچر’ کی مصنفہ ڈاکٹر ملیسنٹ ویبر کی تحقیق کے مطابق؛ "ان میں (یعنی لیٹریری فیسٹولز میں) غیر متناسب طور پر مراعات یافتہ پس ِمنظر کے لوگ شرکت کرتے ہیں، عام طور پر، ان کے شرکاء امیر، پڑھے لکھے اور سفید فام ہوتے ہیں۔” (پاکستان/انڈیا کے سیاق و سباق میں ‘سفید فام’ کو ممکنہ طور پر مراعات یافتہ شہری متوسط یا امیر طبقہ کہا جا سکتا ہے۔)
عالمی کارپوریٹ سیکٹر کا ایک بڑا پلیٹ فارم، ورلڈ اکنامک فورم کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق، نجی کاروبار ، ثقافت اور تخلیقی سرگرمیوں کے شعبوں کے درمیان تعاون ہماری غیر مستحکم، غیر یقینی، پیچیدہ، اور مبہم دنیا کے چیلنجوں سے نمٹنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کارپوریٹ سیکٹر ان فنکاروں اور ثقافتی کارکنوں کی مدد میں بھی اپنا حصہ ڈال سکتا ہے جو ناکافی معاوضے کی وجہ سے اکثر اپنے معاشروں میں مالی طور پر پسماندہ رہتے ہیں۔
تاہم کارپوریٹ سیکٹر اور ادب و ثقافت کی سرگرمیوں کے درمیان تعاون کے بارے میں خدشات اُس وقت پیدا ہوتے ہیں جب اکثر متمول مغربی ممالک میں مقیم ترقی پذیر ممالک سے آئے ہوئے تارکین وطن فنکاروں کی ساکھ کا اندازہ ان کی فطری صلاحیتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ شہرت کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس لیے یہ”شہرت “ یا ریٹنگ کا پیمانہ فنکاروں کی شناخت کی تشکیل میں تعلقات عامہ کی کمپنیوں کے کردار کو زیادہ اہم بنا دیتا ہے، اور اس طرح یہ پورا نظام کارپوریٹ طاقت کے اثر و رسوخ میں ایک اور پرت یعنی پبلک ریلیشننگ کمپنیوں کے کردار کا اضافہ کرتا ہے۔
اس موضوع کے بارے میں ایک اور نقطہ نظر یہ ہے کہ کارپوریٹ سرپرستی درحقیقت انسانی معاشرے اور انسانیت کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے خاص کر جب ان کی سرپرستی کی وجہ سے ایک ایسا ماحول پیدا ہو جس میں غلط مقاصد کے حصول کے لیے اخلاقی اور سماجی اقدار کو نقصان پہنچانے کے خطرات کو نظر انداز کیا جا رہا ہو۔
کارپوریٹ سیکٹر بے ایمانی سے ادب اور ثقافتی سرگرمیوں کو سماجی اقدار میں اپنے کاروباری مقاصد کے لیے تبدیلیاں لانے کے آلات کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ صارفین، ملازمین، یا معاشرتی گروہوں کو ان کے وقار، خودمختاری، حقوق یا مفادات کا خیال کیے بغیر انہیں منفی انداز میں متاثر کر سکتا ہے۔
اس قسم کی سرپرستی کے نتیجے میں کاروباری اداروں اور ثقافتی سرگرمیوں کے شعبوں کے درمیان تعاون کے اس عمل سے کارپوریٹ اقدار اور اصول ادب اور ثقافتی سرگرمیوں پر غالب ہو سکتے ہیں، جس سے ادب اور ثقافتی سرگرمیوں کی خود مختاری، تنوع اور حق گوئی کی صلاحیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس لحاظ سے ادب اور ثقافتی سرگرمیاں انسانی ایجنسی کے تخلیقی اظہار کو آزادی سے پیش کرنے کے بجائے کارپوریٹ مفادات کی خدمت کرتے ہوئے نظر آئیں گی۔
مزید برآں ادب اور ثقافتی سرگرمیوں کی "سرپرستی” کے ذریعے کارپوریٹ سیکٹر کی ہیرا پھیری کی صلاحیت اور طاقت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے بیرون ملک میں آباد تارکین وطن جو ہر وقت تفریحی تقریبات کے منتظر رہتے ہیں وہ بغیر سوال کیے کارپوریٹ سرپرستی کو لاشعوری طور پر قبول کر لیتے ہیں اور انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے ادب و ثقافت میں پنہاں سچ پر سمجھوتہ کر لیا ہے۔
مختلف آراء
کاپوریٹ سیکٹر کی سرپرستی کو مختلف زاویوں سے پرکھا جا سکتا ہے۔ مارکسی یا بائیں بازو کے نقطہ نظر سے ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی کارپوریٹ سیکٹر کی سرپرستی کے بارے میں رائے مختلف زاویوں سے تجزیوں کی بنیاد پر مختلف ہوتی ہے:
• کچھ مارکسسٹ کارپوریٹ سیکٹر کی سرپرستی کو ثقافت پر اس کی بالادستی کی ایک شکل کے طور پر دیکھتے ہیں، جہاں سماجی طور پر معاشرے کا غالب اور مراعات یافتہ طبقہ مخصوص ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کو فنڈ اور فروغ دے کر ثقافتی اور نظریاتی منظر نامے کو اپنے حق میں ڈھالتا ہے۔ یہ انتونیو گرامچی کے ثقافتی بالادستی کے تصور سے اخذ کرتے ہوئے عوام کو ان کے استحصال اور جبر کے بارے میں تنقیدی بیداری پیدا کرنے سے روک سکتا ہے۔
• کچھ بائیں بازو کے دانشوران کارپوریٹ سیکٹر کی سرپرستی کو ادب اور ثقافتی سرگرمیوں سے ایک ایسے تعاون کے طور پر دیکھتے ہیں، جہاں کارپوریٹ سیکٹر فائدے یا علامتی انعامات کی پیشکش کرکے امیر طبقے پر بائیں بازو کی ممکنہ تنقید کرنے والے ناقدین کو بے اثر اور غیر مسلح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رابرٹ مشیلز کے تصور کے مطابق، ایسا عمل غیر اخلاقی طریقوں سے کارپوریٹ سیکٹر کی اس بدمعاشی سے لوگوں کی توجہ ہٹاتا ہے اور کارپوریٹ سیکٹر کی ساکھ اور طاقت میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال فارماسوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے ڈاکٹروں کی ثقافتی سرگرمیوں کے لیے عطیات دینا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی مصنوعات پر ڈاکٹروں کی ممکنہ تنقید کو تقریباً ناممکن بنا دیتی ہیں۔
• مارکسسٹ اسے کموڈیفیکیشن سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں، جہاں کارپوریٹ سیکٹر ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کو قابل فروخت مصنوعات میں تبدیل کرتا ہے، ممکنہ طور پر ان کی فنکارانہ ساکھ سے سمجھوتہ کرتا ہے اور کارل مارکس کے کموڈیفیکیشن کے تصور کے مطابق، ان سرگرمیوں پر سرمایہ کاری کرکے منافع بنانے کے آلات قرار دیتا ہے۔
•اس کے برعکس، کچھ لبرلز کارپوریٹ سیکٹر کی سرپرستی کو کارپوریٹ سیکٹر اور ادب و ثقافتی سرگرمیوں کے درمیان تعاون کو دونوں کے لیے باہمی طور پر سودمند قراردیتے ہیں۔ ان لبرلز کے خیال میں کارپوریٹ سیکٹر باہمی طور پر فائدہ مند طریقوں سے ثقافتی سرگرمیوں کی مدد کرتا ہے اور وہ خود مختاری کے ساتھ حق گوئی کا کام جاری کرتے ہیں۔ لبرلز کا یہ نظریہ امریکی عملیت پسند، جان ڈیوی (John Dewey) کے تعاون کے تصور کی بازگشت ہے جس کے مطابق اس سرپرستی کے ذریعے کارپوریٹ سیکٹر معاشرے میں مثبت کردار ادا کرتا ہے۔
ایک تنقیدی ویب سائیٹ” سپرنگرلنک“ (SpringerLink) نے زور دیا ہے کہ انسان دوست ماحول کی تشکیل کا عمل یعنی انسانی اقدار کے معاشرے کا فروغ افراد کے مجموعی نظریہ اور مشترکہ بھلائی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ تاہم کارپوریٹ کلچر بعض اوقات لوگوں کی بھلائی پر اپنے منافع کو ترجیح دے کر، مراعات کو غلط انداز میں، یا غیر ذمہ دارانہ طور پر انسانی اقدار کو خطرے میں ڈال کر ان اصولوں سے متصادم بنتا ہے۔
اس طرح خودمختار اور مستند ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ کارپوریٹ سیکٹر کی سرپرستی بن جاتا ہے کیونکہ اس کے لیے منافع یا اپنی کاروباری ”گُڈوِل “ (goodwill) زیادہ اہم ہوتی ہے۔ ایسے خطرے کی ابتدا سیاسی، سٹریٹجک اور جوڑ توڑ کی مداخلتوں سے ہوتی ہے جس کا مقصد معاشرے کی ثقافتی اقدار اور بنیادوں کو کھوکھلا کر کے مغربی اقدار کو متعارف کرانا ہوتا ہے۔
ترقی پذیر ممالک، جہاں فنکاروں کو کم معاوضہ دیا جاتا ہے، متوسط طبقے کے پاس فن کو سپورٹ کرنے کے لیے وسائل کی کمی ہوتی ہے، اور قوم پرست کارپوریٹ سیکٹر عالمی کاروباری کارپوریشنز سے مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتا ہے تو پھر وہ ان کےسامنے بے بس نظر آتا ہے۔ اور قوم پرست یا تو عالمی کارپوریٹ سیکٹر کو جوائن کر لیتا ہے یا تباہ ہوجاتا ہے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہےکہ بہت سے ترقی پذیر معاشروں میں ریگولیٹری فریم ورک اور قواعد و ضوابط کا فقدان ہے جو کارپوریٹ سیکٹر کے ادبی اور ثقافتی اقدار کو ان کے پوشیدہ کاروباری ایجنڈوں کو ہیرا پھیری سے روکنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ترقی پذیر معاشرے بھی اس کارپوریٹ سیکٹرز کے سامنے بالکل بے بس نظر آتے ہیں۔ اس کی واضح مثال افریقہ کی کمزور ریاستیں ہیں جہاں کے لوگ اپنی تاریخی ثقافت کا ایک گھٹیا ثقافت کے طور ادراک کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی کارپوریٹ سیکٹر کی سرپرستی "ایلیٹ کلچر” کو تقویت دیتی ہے، جو ثقافتی سامراج کے اثر و نفوذ کو بڑھانے کا ایک بڑا آلۂِ کار طبقہ ثابت ہوتا ہے، کیونکہ یہ طبقہ عام دیگر ثقافتوں کو پرکھنے اور اپنی ثقافتی اقدار کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال ہونے والے معیارات اور ماڈلز قائم کرتا ہے۔
اس لیے ان آلۂِ کار طبقوں کی جانب بیرونی ممالک سے رقم پانی کی بہتی ہے۔ مغربی این جی اوز غریب ممالک کی این جی اوز پر اپنا اثر و رسوخ بڑھاتی ہیں، سیاسی اور سماجی انجینئرنگ کے مقاصد کے لیے سماجی ایجنڈے کے ڈسکورس کو تشکیل دیتی ہیں۔ یعنی سادہ الفاظ میں، پیسہ پھینک تماشہ دیکھ۔ اور رقم کی یہ ترسیل ان طبقوں کو اپنا قومی تشخص اور ثقافت کو مغربی کمرشل اقدار کے زیر نگیں کرنے میں کوئی برائی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ غیر پارلیمانی الفاظ میں یہ طبقہ “دلّا گیروں” کا کردار ادا کرتا ہے۔
ایسے پیچیدہ حالات میں ترقی پسندوں کے لیے آگے بڑھنے کا بہترین راستہ یہ نہیں ہے کہ وہ عالمی کاپوریٹ سیکٹر کو کہیں کہ جب وہ مقامی ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں کی سرپرستی کرتے ہیں تو مقامی ادبی شخصیات اور ثقافتی کارکنوں کی مالی مدد کریں لیکن ان کی تخلیقی آزادی کو بھی تسلیم کریں۔ ایسا کہنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہی ہے۔کوئی کمپنی اگر مالی مدد دیتی ہے تو اپنے کاروباری مفاد کے لیے کرتی ہے، "جنت میں گھر بنانے کے لیے نہیں”۔
اس کے بجائے، ایک زیادہ تعمیری حکمت عملی یہ ہوسکتی ہے کہ نچلے طبقات کی تنظیمیں آگے بڑھیں اور کمیونٹی کے اندر معروف اور معزز دانشوروں کی حمایت سے ادیب شاعر اور فنکاروں کی مالی امداد کریں اور ادب اور ثقافتی سرگرمیوں کو منظم کریں، نہ کہ اس مقصد کے لیے عالمی کارپوریٹ سے مالی امداد مانگیں۔ (بھارت کے پاس کمیونٹی کے اندر مالی طور پر مضبوط، اچھی شہرت و ساکھ والا اور معزز دانشور طبقہ موجود ہے، لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے، اس لیے پاکستان میں یہ کام کرنا کافی مشکل ہے۔)
ہمارے ادب اور ثقافت کی اپنی اقدار کے مطابق تشکیل میں غیر ملکی اور عالمی کارپوریشنوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے عام لوگوں کو بھی جن میں مزدور، طلبا، کسان، اساتذہ قومی کاروباری طبقے وغیرہ کو بڑھ چڑھ کر اپنے مقامی اچھی شہرت و ساکھ رکھنے والوں اور معزز دانشوروں کی کوششوں کا ساتھ دینا اشد ضروری ہے۔ ایسا کرنے میں ناکامی ہوئی تو ہمیں کارپوریٹ سیکٹر کے زیر کنٹرول "زندہ لاش” بننے سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔
—♦—
ثقلین امام برطانیہ کے شہر لندن میں مقیم صحافی ہیں۔ آپ سیاسی و سماجی مسائل پر اکثر لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 2
-
ریاض احمد says:
موضوع تو خوب ہے البتہ ثقلین صاحب نے اردو لگتا ہے chatgpt سے لکھوا لی ہے. مضمون کی روح انگریزی لگتی ہے. موضوع کی ایک. اچھی مثال کراچی و دیگر شہروں میں لٹریچر فیسٹول اور عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے افتتاحی اجلاسوں میں مغربی سفارتکاروں کا اسٹیج پکڑنا ہے. اور انکے ساتھ بڑی کمپنیوں کے مالکان کو ثقافت کا پیامبر بنا کر پیش کرنا ہے. البتہ یہاں دو پیچ ہیں. اول، آڈینس میں طلبہ کی اچھی خاصی تعداد قوم پرست رحجان رکھتی ہے اور وہ سندھی بلاچ پشتون مسئلہ کو کبھی حامد. میر تو کبھی حنیف (دونوں ہی ان قوموں سے نہیں) کی معتبر زبان کی صورت ہی مغربی سفارتکاروں تک پہنچانے میں ان فیسٹولز. کو مددگات سمجھتی ہے. ایسے ہی انور مقصود جیسے بے کار افراد کی زبانی مبہم طنز کے ساتھ فوج اور پنجابیوں کے غلبے کو ایکسپوز ہوتا دیکھ کر سکون قلب حاصل کیا جاتا ہے کہ چلو کوئی تو. دوئم، ترقی کا مغربی تصور از. خود سرمائے کے گرد ہے. اور اس تصور کو مشرق کے طلبہ اور دانشوروں کی بڑی تعداد نے گرہ. سے باند رکھا ہے. وہ. خود بھی سہل پسند ہیں اور کاروبار میں چھکے پر جہا یقین رکھتے ہیں وہیں اپنے ادب کی پزیرائی کے لیے ایسے ہی چھکوں کی تلاش میں ہیں. عوام اور مسائل سے جڑے ادب کو. کسی فیسٹول. کی چنداں ضرورت نہیں.
-
للکار نیوز says:
جناب ریاض احمد صاحب مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ۔ جہاں تک مضمون کی اردو زبان کا تعلق ہے تو صاحب مضمون اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں کمال مہارت رکھتے ہیں اور یہ درست ہے کہ یہ مضمون انہوں نے انگریزی میں لکھا تھا جسے للکار ٹیم کی درخواست پر اردو کے قالب میں منتقل کرکے اردو قارئین تک اس اہم موضوع کو پہنچانے میں ہمارا ساتھ دیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کو ایسی ہی عمدہ تحریریں مستقبل میں بھی پڑھنے کو ملتی رہیں گی۔ اور ٹقلین امام صاحب بھی ایسے اہم موضوعات کو قلمبند کرتے رہیں گے۔
للکار ترقی پسند اور بائیں بازو کے نظریات کا حامل ادارہ ہے اور محنت کش عوام کے حق میں جانبداری کا قائل ہے۔ آپ بھی اپنی تحریریں ہمیں بھیج سکتے ہیں۔
-
موضوع تو خوب ہے البتہ ثقلین صاحب نے اردو لگتا ہے chatgpt سے لکھوا لی ہے. مضمون کی روح انگریزی لگتی ہے. موضوع کی ایک. اچھی مثال کراچی و دیگر شہروں میں لٹریچر فیسٹول اور عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے افتتاحی اجلاسوں میں مغربی سفارتکاروں کا اسٹیج پکڑنا ہے. اور انکے ساتھ بڑی کمپنیوں کے مالکان کو ثقافت کا پیامبر بنا کر پیش کرنا ہے. البتہ یہاں دو پیچ ہیں. اول، آڈینس میں طلبہ کی اچھی خاصی تعداد قوم پرست رحجان رکھتی ہے اور وہ سندھی بلاچ پشتون مسئلہ کو کبھی حامد. میر تو کبھی حنیف (دونوں ہی ان قوموں سے نہیں) کی معتبر زبان کی صورت ہی مغربی سفارتکاروں تک پہنچانے میں ان فیسٹولز. کو مددگات سمجھتی ہے. ایسے ہی انور مقصود جیسے بے کار افراد کی زبانی مبہم طنز کے ساتھ فوج اور پنجابیوں کے غلبے کو ایکسپوز ہوتا دیکھ کر سکون قلب حاصل کیا جاتا ہے کہ چلو کوئی تو. دوئم، ترقی کا مغربی تصور از. خود سرمائے کے گرد ہے. اور اس تصور کو مشرق کے طلبہ اور دانشوروں کی بڑی تعداد نے گرہ. سے باند رکھا ہے. وہ. خود بھی سہل پسند ہیں اور کاروبار میں چھکے پر جہا یقین رکھتے ہیں وہیں اپنے ادب کی پزیرائی کے لیے ایسے ہی چھکوں کی تلاش میں ہیں. عوام اور مسائل سے جڑے ادب کو. کسی فیسٹول. کی چنداں ضرورت نہیں.
جناب ریاض احمد صاحب مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ۔ جہاں تک مضمون کی اردو زبان کا تعلق ہے تو صاحب مضمون اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں کمال مہارت رکھتے ہیں اور یہ درست ہے کہ یہ مضمون انہوں نے انگریزی میں لکھا تھا جسے للکار ٹیم کی درخواست پر اردو کے قالب میں منتقل کرکے اردو قارئین تک اس اہم موضوع کو پہنچانے میں ہمارا ساتھ دیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کو ایسی ہی عمدہ تحریریں مستقبل میں بھی پڑھنے کو ملتی رہیں گی۔ اور ٹقلین امام صاحب بھی ایسے اہم موضوعات کو قلمبند کرتے رہیں گے۔
للکار ترقی پسند اور بائیں بازو کے نظریات کا حامل ادارہ ہے اور محنت کش عوام کے حق میں جانبداری کا قائل ہے۔ آپ بھی اپنی تحریریں ہمیں بھیج سکتے ہیں۔