فرانس کے وزیر تعلیم گیبریل اطال نے اتوار کو دیر رات گئے ایک فرانسیسی ٹیلی ویژن چینل ٹی ایف ون پر انٹرویو کے دوران یہ اعلان کیا۔ انہیں رواں برس کے موسم گرما کے اوائل میں ہی وزیر تعلیم کا عہدہ سونپا گیا تھا۔
انٹرویو کے دوران انہوں نے عبایا پر پابندی کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا، ”جب آپ کلاس روم میں جائیں، تو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ محض طالب علموں کا لباس دیکھ کر آپ ان کے مذہب کی شناخت کر سکیں۔”
عبایا کے خلاف ایسا اقدام آخر کیوں؟
سال 2004 میں ایک فرانسیسی قانون کے تحت سکولوں میں ”ایسی تمام علامات یا ایسے لباس پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، جس سے بظاہر مذہبی وابستگی کا اظہار ہوتا ہو۔” اس قانون کا اطلاق مسیحیوں سے تعلق رکھنے والی بڑی صلیبوں، یہودیوں کی خصوصی ٹوپیوں اور اسلامی ہیڈ اسکارف پر بھی ہوتا ہے۔
تاہم گزشتہ نومبر تک عبایا اس فہرست میں شامل نہیں تھا۔ اس وقت وزارت تعلیم نے پابندی سے متعلق ایک نیا سرکلر جاری کیا، جس میں پابندی والے لباسوں میں عبایا کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
نومبر کے سرکلر میں کہا گیا تھا کہ اگر لباس ایسا ہو کہ ”اس سے کھلے عام مذہبی وابستگی کا اظہار ہوتا ہو”، تو وہ بھی ممنوع ہو گا۔ اس میں عبایا کے ساتھ ہی بندھن (سر ڈھکنے کا خصوصی کپڑا) اور لمبی اسکرٹس کو بھی شامل کر لیا گیا۔
فرانس میں عبایا سے متعلق تنازعہ سن 2020 میں اس وقت شدت اختیار کر گیا، جب ایک سخت گیر چیچن مسلمان نے اسکول کے اس ٹیچر کا سر قلم کر دیا تھا، جس نے طالب علموں کو پیغمبر اسلام حضرت محمدکے خاکے دکھائے تھے۔
پابندی پر ردعمل کیا ہے؟
ہیڈ ٹیچرز یونین کے رہنما برونو بوبکیوچز نے حکومت کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”پہلے اس سلسلے میں ہدایات واضح نہیں تھیں، اب وہ ہیں اور ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔”
حزب اختلاف کی دائیں بازو کی ریپبلکن پارٹی کے سربراہ ایرک سیوٹو نے بھی اس اعلان کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم نے کئی بار اپنے اسکولوں میں عبایا پر پابندی کا مطالبہ کیا۔”
تاہم بائیں بازو کی جماعت ‘فرانس انبوڈ پارٹی’ کے رکن کلیمینٹائن اوٹین نے ”لباس کی پولیسنگ” قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کی مذمت کی۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ ”غیر آئینی” ہے اور فرانس کی سیکولر اقدار کے بنیادی اصولوں کے خلاف بھی ہے۔
اوٹین نے فرانسیسی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ ملک کی تقریباً 50 لاکھ مسلم آبادی کو ”جنونی طور پر مسترد” کر رہی ہے۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
فرانس کے وزیر تعلیم گیبریل اطال نے اتوار کو دیر رات گئے ایک فرانسیسی ٹیلی ویژن چینل ٹی ایف ون پر انٹرویو کے دوران یہ اعلان کیا۔ انہیں رواں برس کے موسم گرما کے اوائل میں ہی وزیر تعلیم کا عہدہ سونپا گیا تھا۔
انٹرویو کے دوران انہوں نے عبایا پر پابندی کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا، ”جب آپ کلاس روم میں جائیں، تو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ محض طالب علموں کا لباس دیکھ کر آپ ان کے مذہب کی شناخت کر سکیں۔”
عبایا کے خلاف ایسا اقدام آخر کیوں؟
سال 2004 میں ایک فرانسیسی قانون کے تحت سکولوں میں ”ایسی تمام علامات یا ایسے لباس پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، جس سے بظاہر مذہبی وابستگی کا اظہار ہوتا ہو۔” اس قانون کا اطلاق مسیحیوں سے تعلق رکھنے والی بڑی صلیبوں، یہودیوں کی خصوصی ٹوپیوں اور اسلامی ہیڈ اسکارف پر بھی ہوتا ہے۔
تاہم گزشتہ نومبر تک عبایا اس فہرست میں شامل نہیں تھا۔ اس وقت وزارت تعلیم نے پابندی سے متعلق ایک نیا سرکلر جاری کیا، جس میں پابندی والے لباسوں میں عبایا کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
نومبر کے سرکلر میں کہا گیا تھا کہ اگر لباس ایسا ہو کہ ”اس سے کھلے عام مذہبی وابستگی کا اظہار ہوتا ہو”، تو وہ بھی ممنوع ہو گا۔ اس میں عبایا کے ساتھ ہی بندھن (سر ڈھکنے کا خصوصی کپڑا) اور لمبی اسکرٹس کو بھی شامل کر لیا گیا۔
فرانس میں عبایا سے متعلق تنازعہ سن 2020 میں اس وقت شدت اختیار کر گیا، جب ایک سخت گیر چیچن مسلمان نے اسکول کے اس ٹیچر کا سر قلم کر دیا تھا، جس نے طالب علموں کو پیغمبر اسلام حضرت محمدکے خاکے دکھائے تھے۔
پابندی پر ردعمل کیا ہے؟
ہیڈ ٹیچرز یونین کے رہنما برونو بوبکیوچز نے حکومت کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”پہلے اس سلسلے میں ہدایات واضح نہیں تھیں، اب وہ ہیں اور ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔”
حزب اختلاف کی دائیں بازو کی ریپبلکن پارٹی کے سربراہ ایرک سیوٹو نے بھی اس اعلان کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم نے کئی بار اپنے اسکولوں میں عبایا پر پابندی کا مطالبہ کیا۔”
تاہم بائیں بازو کی جماعت ‘فرانس انبوڈ پارٹی’ کے رکن کلیمینٹائن اوٹین نے ”لباس کی پولیسنگ” قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کی مذمت کی۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ ”غیر آئینی” ہے اور فرانس کی سیکولر اقدار کے بنیادی اصولوں کے خلاف بھی ہے۔
اوٹین نے فرانسیسی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ ملک کی تقریباً 50 لاکھ مسلم آبادی کو ”جنونی طور پر مسترد” کر رہی ہے۔