پاکستان کی نئی نسل کو فوجی ڈکٹیٹروں کے بنائے ہوئے مایوسیوں کے سمندر میں غرق ہونے سے بچانے کے لیے آج بھی علامہ اقبال کے فلسفہِ حُریت، سجاد ظہیر کے ویژن اور فیض احمد فیض کے ولولہ انگیز اور فکر انگیز کلام کی ضرورت ہے۔
11 جون کو لندن میں معاشرے میں انتہا پسند اور رجعت پسند رجحانات کی بڑھتی ہوئی طاقت پر مباحثے کے لیے فیض کلچرل فاؤنڈیشن، برطانیہ کے زیر اہتمام فیض امن میلہ کی تقریب میں مقررین کی جانب سے پاکستانی نوجوانوں میں مایوسی کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا جو سیاست میں فوجی مداخلت کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔
’اقبال، فیض، سجاد ظہیر‘ کے عنوان کی اس تقریب کا انعقاد فیض کلچرل فاؤنڈیشن نے، SOAS سٹوڈنٹس یونین ، پاکستان سٹوڈنٹس سوسائٹی کے تعاون سے لندن میں سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹڈیز کے ڈیجام لیکچر تھئیٹر میں کیا تھا جس میں لندن اور دیگر شہروں میں آباد پاکستانی طبقہِ روشن فکران نے بھر پور حصہ لیا۔
اس تقریب کو دو سیشنز میں تقسیم کی گیا گیا تھا: پہلا سیشن سیاسی مباحثے اور ترقی پسند ادبی تحریک کے لیے مخصوص تھا جبکہ دوسرے سیشن میں استاد شفقت علی خان اور روشن آرا مونی نے صوفی موسیقی پیش کی، علاوہ ازیں نیکیتا ٹھکرار اور ان کے طائفے نے کلاسیکل رقص پیش کیا۔
تقریب دوپہر دو بجے شروع ہوئی اور شام گئے تک جاری رہی۔ روشن فکران کی شرکت صرف سامعین کی طرح موسیقی سُننے تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ انہوں نے والہانہ وَجد میں صوفی موسیقی اور کلام میں اپنے عوامی رقص کے ساتھ فنکاروں کا ساتھ بھی دیا۔
تقریب کا آغاز پہلے سیشن کے مباحثے سے ہوا تھا جس میں عنوان پر پاکستان سے آئے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار راشد رحمان، اور فیض کلچرل فاؤنڈیشن برطانیہ کے سرپرست ایوب اولیاء اور لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ثقلین امام نے خطاب کیا۔
(اگرچہ معروف دانشور نور ظہیر اس تقریب میں مہمان مقرر تھیں، تاہم عین تقریب کے موقع پر نجی مسائل کی وجہ سے وہ تشریف نہ لا سکیں۔) اس موقعہ پر فاؤنڈیشن کے مرکزی رکن ڈاکٹر رحمان خان نے فیض کا کلام پیش کیا۔ نظامت کے فرائض فاؤنڈیشن کی نمائندہ پلوشہ بنگش نے انجام دئیے تھے۔
مباحثے کے پہلے حصے سے خطاب کرتے ہوئے صحافی و تجزیہ کار راشد رحمان نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ جدوجہد کی مختلف تحریکوں سے مُزیّن ہے اور سفر جاری و ساری ہے، لیکن یہ ملک اُس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکے گا جب تک فوجی مداخلت کو روکا نہیں جا سکتا ہے۔
راشد رحمان نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی لیڈران تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے ہیں اسی لیے ان پر فوج حاوی ہو جاتی ہے۔ ’عمران خان اپنی ایروگنس کی وجہ سے مجھ جیسی ترقی پسند سوچ رکھنے والے لوگوں سے ملتا بھی نہیں تھا، لیکن اب اسے سمجھ آ جانا چاہیے کہ فوج کا سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں کیا کردار کیا ہے۔‘
ادیب و موسیقی کے نقاد، اویب اولیاء نے اپنے خطاب میں کہا کہ فیض احمد فیض نے نہ صرف اپنے کلام میں اقبال کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے بلکہ اپنی تحریروں میں بھی انہوں نے اقبال کو ایک بڑا فلسفی تسلیم کیا ہے۔
ایوب اولیاء نے کہا کہ فیض اور اس دور کی مزاحمت کی شاعری کو اقبال کے کلام سے جدا کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ اولیاء صاحب نے اس موقعہ پر اقبال کے لیے ایک کلام بھی پیش کیا۔
تقریب میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے صحافی ثقلین امام نے کہا کہ اقبال، سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض کی کوششوں کا آغاز اس دور میں ہوا کہ جب زمانہ ایک تاریک دور سے گزر رہا تھا، لیکن نوجوانوں کے دلوں میں امید کی کرن روشن تھی۔
’تاہم آج نہ صرف تاریکی ہے بلکہ امید کی کرن بھی بُجھ گئی ہے اس لیے بڑا گُھپ اندھیرا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ تاہم نئی نسل کے لیے اس امید کی کرن کو روشن کرنا ضروری ہے جس کے لیے پھر سے اقبال و فیض و سجاد ظہیر کی تحریک کی تجدید کی ضرورت ہے۔
تقریب کے اختتام پر فیض کلچرل فاؤنڈیشن کے بانی رکن عاصم علی شاہ نے میلہ آرگنائزنگ کمیٹی کے ارکان سمیت SOAS طلباء یونین، پاکستان سٹوڈنٹس سوسائٹی اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا جنہوں اس تقریب کو کامیاب بنایا۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ مستقبل میں بھی ترقی پسند فکر اور حقیقی عوامی مسائل پر سوشلسٹ نقطہ نظر کے فروغ کے لیے ایسی تقریبات منظم کی جاتی رہیں گی۔
—♦—
عاصم علی شاہ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان کے سابق راہنما ہیں اور عرصہ دراز سے لندن میں مقیم ہیں۔ آپ لندن میں بائیں بازو کے انتہائی سرگرم لوگوں میں سے ہیں۔ اس کے علاوہ فیض کلچرل فاؤنڈیشن برطانیہ اور انجمن ترقی پسند مصنفین برطانیہ کے ساتھ بھی وابستہ ہیں۔ آپ اکثر سیاسی، سماجی اور بین الاقوامی موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
پاکستان کی نئی نسل کو فوجی ڈکٹیٹروں کے بنائے ہوئے مایوسیوں کے سمندر میں غرق ہونے سے بچانے کے لیے آج بھی علامہ اقبال کے فلسفہِ حُریت، سجاد ظہیر کے ویژن اور فیض احمد فیض کے ولولہ انگیز اور فکر انگیز کلام کی ضرورت ہے۔
11 جون کو لندن میں معاشرے میں انتہا پسند اور رجعت پسند رجحانات کی بڑھتی ہوئی طاقت پر مباحثے کے لیے فیض کلچرل فاؤنڈیشن، برطانیہ کے زیر اہتمام فیض امن میلہ کی تقریب میں مقررین کی جانب سے پاکستانی نوجوانوں میں مایوسی کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا جو سیاست میں فوجی مداخلت کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔
’اقبال، فیض، سجاد ظہیر‘ کے عنوان کی اس تقریب کا انعقاد فیض کلچرل فاؤنڈیشن نے، SOAS سٹوڈنٹس یونین ، پاکستان سٹوڈنٹس سوسائٹی کے تعاون سے لندن میں سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹڈیز کے ڈیجام لیکچر تھئیٹر میں کیا تھا جس میں لندن اور دیگر شہروں میں آباد پاکستانی طبقہِ روشن فکران نے بھر پور حصہ لیا۔
اس تقریب کو دو سیشنز میں تقسیم کی گیا گیا تھا: پہلا سیشن سیاسی مباحثے اور ترقی پسند ادبی تحریک کے لیے مخصوص تھا جبکہ دوسرے سیشن میں استاد شفقت علی خان اور روشن آرا مونی نے صوفی موسیقی پیش کی، علاوہ ازیں نیکیتا ٹھکرار اور ان کے طائفے نے کلاسیکل رقص پیش کیا۔
تقریب دوپہر دو بجے شروع ہوئی اور شام گئے تک جاری رہی۔ روشن فکران کی شرکت صرف سامعین کی طرح موسیقی سُننے تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ انہوں نے والہانہ وَجد میں صوفی موسیقی اور کلام میں اپنے عوامی رقص کے ساتھ فنکاروں کا ساتھ بھی دیا۔
تقریب کا آغاز پہلے سیشن کے مباحثے سے ہوا تھا جس میں عنوان پر پاکستان سے آئے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار راشد رحمان، اور فیض کلچرل فاؤنڈیشن برطانیہ کے سرپرست ایوب اولیاء اور لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ثقلین امام نے خطاب کیا۔
(اگرچہ معروف دانشور نور ظہیر اس تقریب میں مہمان مقرر تھیں، تاہم عین تقریب کے موقع پر نجی مسائل کی وجہ سے وہ تشریف نہ لا سکیں۔) اس موقعہ پر فاؤنڈیشن کے مرکزی رکن ڈاکٹر رحمان خان نے فیض کا کلام پیش کیا۔ نظامت کے فرائض فاؤنڈیشن کی نمائندہ پلوشہ بنگش نے انجام دئیے تھے۔
مباحثے کے پہلے حصے سے خطاب کرتے ہوئے صحافی و تجزیہ کار راشد رحمان نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ جدوجہد کی مختلف تحریکوں سے مُزیّن ہے اور سفر جاری و ساری ہے، لیکن یہ ملک اُس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکے گا جب تک فوجی مداخلت کو روکا نہیں جا سکتا ہے۔
راشد رحمان نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی لیڈران تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے ہیں اسی لیے ان پر فوج حاوی ہو جاتی ہے۔ ’عمران خان اپنی ایروگنس کی وجہ سے مجھ جیسی ترقی پسند سوچ رکھنے والے لوگوں سے ملتا بھی نہیں تھا، لیکن اب اسے سمجھ آ جانا چاہیے کہ فوج کا سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں کیا کردار کیا ہے۔‘
ادیب و موسیقی کے نقاد، اویب اولیاء نے اپنے خطاب میں کہا کہ فیض احمد فیض نے نہ صرف اپنے کلام میں اقبال کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے بلکہ اپنی تحریروں میں بھی انہوں نے اقبال کو ایک بڑا فلسفی تسلیم کیا ہے۔
ایوب اولیاء نے کہا کہ فیض اور اس دور کی مزاحمت کی شاعری کو اقبال کے کلام سے جدا کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ اولیاء صاحب نے اس موقعہ پر اقبال کے لیے ایک کلام بھی پیش کیا۔
تقریب میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے صحافی ثقلین امام نے کہا کہ اقبال، سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض کی کوششوں کا آغاز اس دور میں ہوا کہ جب زمانہ ایک تاریک دور سے گزر رہا تھا، لیکن نوجوانوں کے دلوں میں امید کی کرن روشن تھی۔
’تاہم آج نہ صرف تاریکی ہے بلکہ امید کی کرن بھی بُجھ گئی ہے اس لیے بڑا گُھپ اندھیرا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ تاہم نئی نسل کے لیے اس امید کی کرن کو روشن کرنا ضروری ہے جس کے لیے پھر سے اقبال و فیض و سجاد ظہیر کی تحریک کی تجدید کی ضرورت ہے۔
تقریب کے اختتام پر فیض کلچرل فاؤنڈیشن کے بانی رکن عاصم علی شاہ نے میلہ آرگنائزنگ کمیٹی کے ارکان سمیت SOAS طلباء یونین، پاکستان سٹوڈنٹس سوسائٹی اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا جنہوں اس تقریب کو کامیاب بنایا۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ مستقبل میں بھی ترقی پسند فکر اور حقیقی عوامی مسائل پر سوشلسٹ نقطہ نظر کے فروغ کے لیے ایسی تقریبات منظم کی جاتی رہیں گی۔
—♦—
عاصم علی شاہ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان کے سابق راہنما ہیں اور عرصہ دراز سے لندن میں مقیم ہیں۔ آپ لندن میں بائیں بازو کے انتہائی سرگرم لوگوں میں سے ہیں۔ اس کے علاوہ فیض کلچرل فاؤنڈیشن برطانیہ اور انجمن ترقی پسند مصنفین برطانیہ کے ساتھ بھی وابستہ ہیں۔ آپ اکثر سیاسی، سماجی اور بین الاقوامی موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔