آج ہم جس شاعر کا ذکر کرنے جارہے ہیں جتنی پذیرائی اس شاعر کو نصیب ہوئی شاید ہی کسی اور شاعر کے نصیب میں آئی ہو۔ کنیا کماری اور مالابار سے لے کر کوہِ ہمالیہ تک ہند اور سندھ سمیت وہ کون سا قریہ، وہ کون سا نگر اور بستی ہو گی جہاں ساحر لدھیانویؔ کے لکھے گیت نہ گونجتے ہوں۔ گو کہ ساحر نے اپنا تعارف بہت انکساری سے کراتے ہوئے کہا تھا کہ میں پل دو پل کا شاعر ہوں لیکن سچ یہ ہے کہ وہ پل دو پل کا نہیں صدیوں کا شاعر ہے! خصوصاً نوجوانوں میں ساحر کی مقبولیت بہت دیدنی ہے۔ کیونکہ
ساحر نے یہ ثابت کیا کہ ادب، فن محض حقیقت کا عکس نہیں بلکہ ایک نئی حقیقت کی تخلیق ہے۔
ساحر نے اپنے شعری فن سے ایک حقیقی عکس تلاش کیا اور پھر اس سے ساری زندگی ایک رشتہ اُستوار کیے رکھا۔ ہماری عمر کے لوگوں کا عہد ہو یا اس سے پچھلا عہد ہو، ساحر کی نظموں اور گیتوں کو اس قدر پذیرائی ملی کہ جو اپنی مثال آپ ہے۔
ساحر نے نہ صرف موجود کی استحصالی قوتوں کو للکارا بلکہ گزرے شہنشاہوں کی محبتوں کے تاج محلوں کی حقیقتوں کو بھی کھول کر رکھ دیا۔
آج اس عظیم شاعر ساحر لدھیانویؔ کی پیدائش کو ایک سو چار سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے لیکن آج بھی ساحر کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی کیونکہ وہ شاعری کے ابتدائی عہد سے لے کر آخری سانس تک نہ کبھی ڈگمگائے اور نہ نظریے اور ادبی وابستگی میں کوئی تضاد پیدا ہوا۔ وہ ہر حالات میں اپنے اُصولوں، اپنے نظریات و خیالات پر ثابت قدم رہے ہرچند کہ ان کی ذاتی زندگی میں بڑے اُتار چڑھاؤ آئے اور عمر کے آخری حصے تک ان تضادات سے گھرے رہے لیکن ہر حال میں ثابت قدمی ان کی پہچان رہی۔
ساحر لدھیانوی اپنے والد چودھری فضل محمد کی بارہویں بیوی سردار بیگم کے بطن سے 8 مارچ 1919ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ والد طبیعتاً بہت ہی روایتی زمیندارانہ اور جاگیردارانہ مزاج رکھتے تھے۔ نہ صرف یہ کہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ان کا روّیہ غیر منصفانہ اور جابرانہ تھا بلکہ حد تو یہ تھی کہ ساحر کی والدہ سردار بیگم کو اعلانیہ اپنی بیوی تسلیم کرنے کو ہی تیار نہ تھے۔ بات یہاں تک پہنچی کہ ساحر کی والدہ کو ساحر کی پیدائش کے بعد اپنا حق لینے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ ان کی والدہ سردار بیگم کی خواہش تھی کہ ساحر اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے جج یا ڈاکٹر بنے۔ لیکن جاگیردار والد کو ان کی تعلیم سے کوئی دلچسپی نہ تھی کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ ماں باپ کی اکلوتی نرینہ اولاد ہے اس لیے پڑھا لکھا کر نوکری کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ خاندان کے وقار کو برقرار رکھتے ہوئے اتنی بڑی جاگیر کی ذمہ داریاں سنبھالے۔
عیش پسندی اور جاگیردارانہ مزاج کے تحت ساحر کے والد نے کبھی بھی اپنے بیٹے کے سر پر شفقت کا ہاتھ نہیں رکھا۔ حد تو یہ کر دی کہ بیٹے کا نام عبدالحئی رکھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ فضل محمد کے پڑوسی کا نام عبدالحئی تھا جس سے ان کے والد کے تعلقات خراب تھے۔ بیٹے کے ساتھ کبھی محبت کے ساتھ پیش نہیں آئے بلکہ بات بات پر گندی گالیوں سے نوازتے۔ وجہ یہ تھی کہ اگر پڑوسی اعتراض بھی کرے تو یہ کہہ سکیں کہ میں تو اپنے بیٹے کو گالیاں دے رہا ہوں۔ والد کے جاگیردارانہ روّیوں کی یہ حالت تھی کہ انتہاء کا جابر، ظالم اور اَنا پرست تھا اس کے باوجود ساحر کی والدہ نے انہیں سکول داخل کرا دیا۔
ساحر لدھیانویؔ نے اپنی ابتدائی تعلیم خالصہ گورنمنٹ سکول سے حاصل کی اور پھر لدھیانہ کالج میں داخلہ لے لیا۔ کالج کے زمانے سے ہی انہوں نے شاعری کا آغاز کر دیا جس کی وجہ سے وہ کالج میں مقبول ہو چکے تھے۔ لیکن دوسری طرف دلِ ویراں کو کسی کی محبت کی بھی ضرورت تھی کیونکہ گھر میں والد کے روّئیے نے اُنہیں یاس واَلم کے حصار میں مقیّد کر رکھا تھا۔ تن کو جان کے لیے، ایک طالب کو مطلوب کی ضرورت تھی اور یوں کالج کے دور میں ہی ایک کالج فیلو مہندرا چوہدری سے انہیں محبت ہو گئی۔ مہندرا بہت سادہ طبعیت اور انتہائی خوبصورت لڑکی تھی۔ ساحر جسے گھر سے لے کر باہر تک تنہائیوں کا سامنا تھا، کو ایک ایسی ہمدرد کی محبت ملی کہ ساحر اس کے اَسیر ہو گئے۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہی مہندرا چوہدری کو تپ دق ہوا جس کی وجہ سے وہ بیمار پڑ گئی۔
ایک دن جب ساحر اپنے گھر پر موجود تھے اور گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے ان کا دوست حافظ آیا اور چُپکے سے ساحر کو یہ خبر دی کہ مہندرا چوہدری چل بسیں۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ یہ خبر سُن کر ساحر پہ ایک سکتہ سا طاری ہو گیا۔ موت کے بھیانک ہاتھوں نے ساحر سے مہندرا کو چھین لیا تھا۔ وہ محبت کے پیکرِ رنگیں کو لے کر وادیِ فنا میں پرواز کر چکی تھی۔ ساحر اس خبر پر بہت رنجیدہ ہوئے اور ٹوٹ سے گئے۔ وہ مہندرا چوہدری کے گھر کی طرف چل پڑے راستے میں مہندرا کی کلاس فیلو شیلا کا سامنا ہو گیا، شیلا مہندرا چوہدری اور ساحر کی محبت کے بارے میں سب جانتی تھی۔ ساحر نے شیلا سے کہا کہ وہ مجھے مہندرا کی ایک تصویر لا دے۔ ساحر نے دُور کھڑے اپنی محبت کے شریر کو چِتا کی آگ میں جلتے دیکھا۔
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
تو میری پہلی محبت پہلی پوجا ہے
تو مندروں کا کوئی پھول ہے مقدس سا
خدا کے لب سے جو نکلا ہو ایسا نغمہ ہے
ہرچند کہ ساحر بڑے فہم کے انسان تھے لیکن مہندرا کی تصویر کو گلے لگا کر ساحر پھوٹ پھوٹ کر روئے مہندرا کے جواں جسم کو جلانے والے چِتا کے شعلے ان کے خرمن من کو ساری زندگی یاد آتے رہے۔ غم سے نڈھال پیشانی سُکڑ چکی تھی جو کل تک مہندرا کی محبت سے کشادہ تھی۔ چِتا کی آگ نے ان ہونٹوں کو راکھ کر دیا تھا جو کل تک اپنی جنبش سے حوصلے دیا کرتے تھے۔
میرے تصورات کہن کی اَمین ہے تو
مرگھٹ کی مقدس سر زمین ہے تو
اک بے وطن اَسیرِ محبت کا سلام لے لے
آرزوِ بہارِ چمن کا سلام لے لے
فطرت تیرے حرم پہ تقدس فشار ہے
تو میرے دل کی خاک کی سرمایہ دار ہے
ویرانیاں تیری مجھے جنت سے کم نہیں
یہ دھوپ مجھ کو سایۂ رحمت سے کم نہیں
سو تیرے راستے میں ہر اک سو ببول ہیں
دامن میں تیرے اس جوانی کے پھول ہیں
جو میری زندگی کی تمنا بنی رہی
زوق نیاز شوق کا کعبہ بنی رہی
حوریں ہیں تیرے پاک مناظر پہ زرقاں
اے ارضِ شوق اے میری اُمیدِ جہاں
مٹی مہک رہی ہے تیری راہ گزار کی
ارتھی گئی ہے یہاں سے عروسِ بہار کی
مہندرا چوہدری کی موت کے بعد لدھیانہ کالج کے ہی دور میں ساحر کی پہلی کتاب تلخیاں شائع ہو چکی تھی اور ساحر ایک مقبول شاعر بن چکے تھے۔ ہمارے سماج کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اگر محبت کی ابتدا لڑکی ہی کرے تب بھی اس کا قصور ہمشہ مرد پہ دھر دیا جاتا ہے۔
ساحر اور اس کی ماں کو جہاں ایک جاگیردار باپ نے گھر سے نکال دیا تھا وہیں وہ مسلسل اس نظام کی بے رحمیوں کا شکار بنتے رہے۔ لہٰذا اس تفریق اور ظلم نے ساحر کو اس نظام کا باغی بنا دیا ان کی تخلیق ایک بغاوت اور سرکشی میں بدل چکی تھی۔ کالج کے پرنسپل نے ساحر پر یہ الزام لگا کر کہ وہ میری لڑکی کے ساتھ تعلق بنانا چاہتا ہے، ساحر کو کالج سے نکال دیا۔ اسی کالج میں 1970ء کو ایک مشاعرہ منعقد کیا گیا جس میں خاص طور پر شِوکُماربٹالویؔ اور ساحر لدھیانویؔ کو مدعو کیا گیا۔
ساحر اپنی نظم کا آغاز ان اشعار سے کرتے ہیں؛
اس سرزمین پے آج ہم اک بار ہی سہی
دنیا ہمارے نام سے بے زار ہی سہی
لیکن ہم ان فضاؤں کے پالے ہوئے تو ہیں
گر یاں نہیں تو یہاں سے نکالے ہوئے تو ہیں
ان سارے واقعات کے بعد ساحر کی نظموں اور غزلوں میں عشق و محبت کا ذکرگَھنگوراندھیرے میں کوندے کی طرح چمک کر غائب ہو جاتا ہے اور وہ ادب و فن سے ایک فعال رشتہ استوار کرتے ہیں۔
ساحر مارکسی نظریات اور ادب و فن کو طبقاتی بنیاد پر ڈال کر ایک مخلص انقلابی کی طرح اپنے خیالِ فن کی تعمیر کرتے ہیں۔
ساحر مارکسی نظریات کی اصل رُوح کو سمجھتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے وہ ذات کے حوالوں سے لے کر معاشرتی و سماجی اور جن طبقاتی تفریقوں کا شکار تھے، انہیں ایک قطعی مصنوعی اور دبے ہوئے سماج نے جنم دیا تھا۔ لیکن لوگوں کی اکثریت ان حقائق کی تفہیم سے چشم پوشی اختیار کرتی ہے جن کے باعث ان کی اصل فطرت مسخ ہو رہی ہے۔
چند کلیاں نشاط کی چن کر
مُدتوں محوِ یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اُداس رہتا ہوں
جس طرح فیض نے کہا تھا اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا ساحر نے ایک اور راہ اختیار کی جہاں قدم قدم پر بھوک افلاس ہے انسانیت کی آہ و پکار بے بے کفن لاشوں پڑھی دیکھائی دیتی ہیں افلاس اور غربت کی وجہ سے بچوں کے زرد اور بلکتے ہوئے چہرے ہیں محکومی اور مجبوری ہے اور سب سے زیادہ جاگیردارانہ نظام کی غیر مساوی تقسیم ہے۔ سوچتا ہوں ناکامی
مجھے سوچنے دو خود کشی سے پہلے اور گریز جیسی نظموں میں ساحر نے اردگرد پھیلی ہوئی ہولناک ظلمتوں سے نکل جانے کی کوشش کی لیکن ان کی روح مضحمل ہے، ان کے حوصلے شَل ہیں۔ وہ جب وطن کی غربت مجبوری اور غلامی کو دیکھتے ہیں تو صرف اتنا کہتے ہیں؛
”یہ غم بہت ہیں میری زندگی مٹانے کو“
ساحر یکدم گھبرا کر غیض و غضب کے عالم میں اگلے شعروں میں کہتے ہیں؛
وہ پھر کسانوں کے مجمع پر گن مشینوں سے
حقوق یافتہ طبقے نے آگ برسائی
ساحر کو 1944ء میں بنگال کے قحط نے شدید متاثر کیا، اسی اضطراب میں ساحر نے قحطِ بنگال جیسی نظم لکھی؛
جہانِ کُہنہ کے مفلُوج فلسفہ دانو
نظامِ نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا
کہ ان پہ دیس کی جنتا سِسک سِسک کر مرے
سلسلہ یونہی چلتا رہا اور پھر ساحر کو لدھیانہ کو خیر آباد کہہ کر لاہور آنا پڑا۔ لاہور آنے کے بعد وہ ادبِ لطیف کے ایڈیٹر ہو گئے جس میں ان کی نظمیں چھپنے لگیں۔
پنجابی شاعرہ اَمرتا پریتم ان کے نام سے پہلے ہی واقف تھیں، لیکن ادبِ لطیف کا ایڈیٹر بننے کے بعد وہ ساحر کو مسلسل پڑھتی رہیں۔ اس طرح اَمرتا پریتم کو ساحر سے گہرا لگاؤ ہونے لگا اس وقت ان کی شادی امروز سے ہو چکی تھی۔ لیکن یہ شادی گھر والوں کی پسند سے کی گئی تھی۔
پھر کچھ ایسا ہوا کہ 1943ء پریت نگر لاہور میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا جس میں ساحر بھی موجود تھے اور اسی مشاعرے میں پہلی مرتبہ ساحر کی اَمرتا پریتم سے ملاقات ہوئی اور دونوں نے یہیں پہلی بار اس مشاعرے میں ایک دوسرے کو دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں دل نے دل کی راہ لی۔ اس مشاعرے کے دوران بارش ہوئی اور کھل کر برسی۔ اس بارش کو یاد کرتے ہوئے برسوں بعد امرتا نے کہا؛
”قدرت نے میرے دل میں محبت کا جو بیج بویا تھا اس کی بارش سے آبیاری ہوئی۔“
اور پھر یوں دونوں کے بیچ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جن میں زیادہ وقت ساحرکرسی پر بیٹھے سگریٹ پیتے رہتے، ان کے جانے تک کمرہ سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھر جاتا امرتا اپنے اس تعلق کے بارے میں لکھتی ہیں کہ؛
”کبھی ایک بار۔۔۔ اس کے ہاتھ کا لمس لینا چاہتی تھی لیکن میرے سامنے میرے ہی رواجی بندھنوں کا فاصلہ تھا جو طے نہیں ہوتا تھا۔۔۔اس کے جانے کے بعد، میں اس کے چھوڑے ہوئے سگریٹوں کے ٹکڑے سنبھال کر الماری میں رکھ لیتی تھی اور پھر ایک ایک ٹکڑے کو تنہائی میں بیٹھ کر جلاتی تھی اور جب ان کو انگلیوں میں پکڑتی تھی تو محسوس ہوتا تھا۔۔۔ جیسے اس کا ہاتھ چُھو رہی ہوں۔ سگریٹ پینے کی عادت مجھے اس وقت پہلی بار پڑی، ہر سگریٹ سُلگاتے ہوئے محسوس ہوتا تھا کہ ساحر میرے پاس ہے۔۔۔ سگریٹ کے دھوئیں میں سے جیسے وہ جن کی طرح نمودار ہوجاتا تھا۔“
امریتا پریتم اور ساحر کی محبت بھی بہت لافانی رہی جس کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا اس کے بارے میں ہم یہاں مختصر ہی بیان کرتے ہیں۔ لیکن ساحر شاید اب اس طبقاتی نظام کے سامنے سینہ سپر ہو کر اپنی بقایا زندگی انہی راہوں پہ گزارنا چاہتے تھے۔
میرے سرکش ترانے سُن کے دنیا یہ سمجھتی ہے
کہ شاید میرے دل کو عشق کے نغموں سے نفرت ہے
مجھے ہنگامۂ جنگ و جدل میں کیف ملتا ہے
میری فطرت کو خون ریزی کے فسانے سے رغبت ہے
وقت گزرتا رہا اور پھر 1947ء کی خون آشام شامیں آگئیں۔ انگریز تو چلا گیا لیکن ایسی آگ لگا کر گیا کہ ہر طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں، بچے یتیم ہو گئے، بہنوں کی عصمتیں تار تار ہوئیں، دین و دھرم کے نام پر وہ خون خرابہ ہوا جس کے زخم شاید صدیاں بھی نہ بھر سکیں۔ تقسیم کے ان ہنگامے پہ ساحر آل انڈیا ریڈیو سے یہ نظم پڑھ رہے ہیں؛
ساتھیو میں نے برسوں تمارے لیے
چاند تاروں بہاروں کے سپنے بنے
حسن عشق کے گیت گاتا رہا
آرزوؤں کے ایوان سجاتا رہا
آج میرے دامنِ چاک میں
گرد راہ سفر کے سوا کچھ نہیں
رفیق چوہدری اپنی کتاب میری دنیا میں لکھتے ہیں کہ تقسیم کے بعد ساحر کی ماں لاہور چلی آئی لہٰذا ماں کے پیچھے ساحر کو بھی لاہور آنا پڑا۔ یہ 1948ء کا دور تھا دونوں طرف بہت بڑی افراتفری تھی مقامی لوگوں میں محنت کشوں کی بڑی تعداد ہمدردانہ پہلو رکھتی تھی لیکن بااثر اور چوہدری ہندوؤں کا مال لوٹنے میں لگے ہوئے تھے۔ اس وقت گجرانوالہ کے کسٹوڈین آفیسر فیض احمد فیض کے بھائی طفیل احمد اس عہدے پر فائز تھے۔ ہم سب شعراء نے مل کر ریفیوجی فنڈز کے لیے ایک مشاعرہ کرنا چاہا اس وقت ٹرانسپورٹ کا بڑا مسئلہ تھا ہندوؤں کی گاڑیوں پر مقامی افرد نے قبضہ کر رکھا تھا، سارا نظام درہم برہم تھا، تاہم ہم نے فیض صاحب کے ریفرنس سے طفیل احمد صاحب سے بات کی تو انہوں نے لاہور جانے کے لیے ہمیں ایک کار دے دی اور کہا اس پر آپ لاہور جاؤ ان دنوں ساحر بھی لاہور میں ہی موجود تھے۔
ہم لوگ گجرانوالہ سے لاہور پہنچے رات رہنے کا کوئی انتظام نہ تھا اور چار آدمیوں نے رات گزارنی تھی ہمارے ایک شاعر دوست جن کی سائیکلوں کی دوکان تھی مزنگ چونگی قبرستان کے پاس رہتے تھے، ہم ان کے پاس چلے گئے۔ دوکان کے سامنے کھلی جگہ تھی انہوں نے ہمیں وہاں چارپائیاں بچھا کر دیں اور ہم وہاں سو گئے اور ساتھ ہی کچھ دُور گاڑی بھی کھڑی کر دی۔ ہمارا وہ دوست بڑا ہنس مُکھ اور بے تکلف انسان تھا رات کے پچھلے پہر کسی نے آکر ہمیں جگایا سامنے ایک پولیس والا اور ہمارا میزبان کھڑا تھا۔ پولیس والے نے پوچھا یہ گاڑی کس کی ہے تو ہم نے کہا یہ ہماری گاڑی ہے۔ پولیس والے نے ثبوت مانگا تو ہم نے کسٹوڈین کی مہر لگی چٹ دِکھا دی وہ ہمارے میزبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا یہ گاڑی ہم واہگہ سے لائے ہیں اس نے یہ گاڑی بیچ دی تھی لیکن بروقت ہم نے اسے پکڑ لیا، ہم حیران رہ گئے کہ یہ سب کیا ہوا اور اسی وقت وہاں سے گاڑی لے کر نکل پڑے۔
جیسے تیسے رات گزاری اور ہم سیدھے انارکلی حافظ امرتسری کے پاس پہنچ گئے جن کی انار کلی میں بٹنوں کی دوکان تھی ان سے بات کی وہ خود بھی شاعر تھے اور ہر شاعر کے ساتھ ان کے رابطے تھے۔ انہوں نے تاثیر،صوفی تبسم، حفیظ جالندھری، ساحر، ندیم ظہیر اور قتیل شفائی جیسے شعراء سمیت کافی اور شاعروں کو گجرانوالہ مشاعرے میں جانے کے لیے راضی کر لیا۔ اعجاز بٹالوی سے بھی براڈ کاسٹنگ کے لیے بات ہو گئی۔ اب مسئلہ ان سارے شعراء کو گجرانوالہ لے جانے کا تھا جو ملا جلا کہ چالیس سے زیادہ لوگ تھے۔
ہم نے گجرانوالہ کے ایک ٹرانسپورٹر دوست کو پکڑا اور کہا بھائی اتنی بسوں پر قبضہ کر رکھا ہے ہمیں ریفیوجی فنڈز کے لیے گجرانوالہ میں ایک مشاعرہ کرنا ہے ہمیں بھی گجرانوالہ پہنچا دو تو اس نے پوچھا کہ ساحر ہیں؟ تو ہم نے کہا جی ساحر بھی ہیں تو اس نے کہا ایک شرطِ پر لے جاؤنگا کہ ساحر فرنٹ سیٹ پر میرے ساتھ بیٹھیں گے۔ ہم نے اس کی شرط مان لی اور وہ گاڑی لے کر ہمارے ساتھ آ گئے۔
سارے شاعر اکٹھے ہو گئے گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر احسان دانش اور حفیظ جالندھری کو بٹھا دیا گیا وہ بزرگ شاعر تھے گاڑی شاعروں سے بھر گئی لیکن ڈرائیور ایک طرف منہ پھلا کر بیٹھ گیا ہم نے کہا کیا مسئلہ ہے بھائی؟ تو وہ بولا کہ جب تک ساحر میرے پاس نہیں بیٹھے گا گاڑی نہیں چلے گی! ہم نے بڑی منت سماجت کی لیکن وہ نہیں مانا بالآخر ساحر نے اسے سمجھایا کہ وہ اُستاد شاعر ہیں میں کیسے ان کے ہوتے ہوئے آگے بیٹھ سکتا ہوں، پھر وہ کہنے لگا اگر گاڑی نے گڑ بڑ کی تو میں ذمہ دار نہیں۔ ہم پریشان ہو گئے کیونکہ رات دس بجے مشاعرہ تھا بالآخر اس نے اس شرط پہ مانا کہ میرے پیچھے والی سیٹ پر ساحر بیٹھے گا پورے راستے ساحر اپنا ہاتھ ڈرائیور کے کندھے پر رکھ کر باتیں کرتے رہے اور ڈرائیور بس چلاتا رہا۔
ساحر کے ساتھ عام لوگوں کی محبت دیدنی تھی اس مشاعرے میں سب سے زیادہ روپے حفیظ جالندھری نے لیے اور مشاعرہ کے پانچھ سو روپے وصول کیے جبکہ احسان دانش نے تین سو ساحر کا نام چھتیس روپے معاوضے والے شاعروں میں لکھا گیا ساحر کی جیب خالی تھی لیکن ساحر نے وہ چھتیس روپے ریفیوجی فنڈز میں دے دیے ساحر ہندوؤں اور سکھوں کا مال لوٹنے والوں کو دیکھ کر حیران ہو رہیے تھے کہ کسطرح گدھ کی طرح جھپٹ جھپٹ کر مال کو لوٹ رہیے ہیں بے اختیار ساحر نے کہا؛
یہ منظر کون سا منظر ہے پہچانا نہیں جاتا
سیاہ خانوں سے کچھ پوچھو شبستانوں پے کیا گزری
چلو وہ کفر کے گھر سے سلامت آگئے لیکن
خدا کی مملکت میں سوختہ جانوں پہ کیا گزری
ایک مرتبہ پھر ساحر لاہور چھوڑ کر بمبئی جا بسے بمبئی میں ساحر نے بہت مشکل وقت دیکھا وہ اندھیری میں کرشن چندر کے فلمی آفس میں بھی رہتے رہے ابراہیم جلیسؔ لکھتے ہیں کہ ساحر کے بمبئی میں ان ابتدائی ایام میں مالی حالات بہت خراب تھے وہ جب بمبئی کے بوری بند اسٹیشن پر ہمارے دوستوں کو رخصت کرنے آئے تو بوری بند اسٹیشن پر ایک مزدور یہ گیت گاتا ہوا جارہا تھا۔
او جانے والے بالموا لوٹ آ لوٹ آ۔۔۔
تو ساحر نے کہا ابراہیم جلیسؔ جب تم دوسری مرتبہ بمبئی آؤ گے تو مزدور میرے گیت گاتے ہوئے ملیں گے یہ بات اس وقت مجھے افسانہ لگی لیکن ٹھیک دس سال بعد جب میں دوبارہ بمبئی گیا تو واقعی ساحر کے حالات بدلے ہوئے تھے اس کے گیت ہندوستان بھر میں گونج رہے تھے جب واپسی پر ساحر ہمیں بوری بند اسٹیشن چھوڑنے آئے تو پورٹ کے مزدور گا رہے تھے؛
ساتھی ہاتھ بڑھانا
ایک اکیلا تھک جائے گا مل کر بوجھ اٹھانا
ہم محنت والوں نے جب بھی مل کر قدم بڑھایا
ساگر نے راستہ چھوڑا پربت نے سیس جھکایا
فولادی ہیں سینے اپنے فولادی ہیں بانہیں
ہم چاہیں تو پیدا کر دیں چٹانوں میں راہیں
ساتھی ہاتھ بڑھانا۔۔۔
25 اکتوبر 1980ء کو غمِ دوراں اور غمِ جاناں جھیلتے جھیلتے اس شاعر کا ممبئی میں انتقال ہوا اور وہیں بمبئی کے ایک قبرستان میں ان کی تدفین کی گئی۔ ان کی قبر پر ان کے چاہنے والوں نے ایک مقبرہ بھی تعمیر کرایا لیکن جنوری 2010ء میں اسے منہدم کر دیا گیا۔ اب ان کی قبر کا بھی نشان نہیں ملتا۔
انسان کے شدتِ احساس نے شاعری کو جنم دیا۔ تفکر کی گہرائی نے اسے پروان چڑھایا۔ مشاہدے کی ہمہ گیری اور ماحول کے اثر نے اس میں رنگ بھرے۔ ساحر دنیا سے چلا گیا لیکن وہ آج بھی ہر جگہ اپنی توانا آواز اور عظیم خیالات لیے زندہ ہے؛
میں پل دو پل کا شاعر ہوں
پل دو پل میری ہستی ہے
پل دو پل میری جوانی ہے
—♦—
ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
آج ہم جس شاعر کا ذکر کرنے جارہے ہیں جتنی پذیرائی اس شاعر کو نصیب ہوئی شاید ہی کسی اور شاعر کے نصیب میں آئی ہو۔ کنیا کماری اور مالابار سے لے کر کوہِ ہمالیہ تک ہند اور سندھ سمیت وہ کون سا قریہ، وہ کون سا نگر اور بستی ہو گی جہاں ساحر لدھیانویؔ کے لکھے گیت نہ گونجتے ہوں۔ گو کہ ساحر نے اپنا تعارف بہت انکساری سے کراتے ہوئے کہا تھا کہ میں پل دو پل کا شاعر ہوں لیکن سچ یہ ہے کہ وہ پل دو پل کا نہیں صدیوں کا شاعر ہے! خصوصاً نوجوانوں میں ساحر کی مقبولیت بہت دیدنی ہے۔ کیونکہ
ساحر نے یہ ثابت کیا کہ ادب، فن محض حقیقت کا عکس نہیں بلکہ ایک نئی حقیقت کی تخلیق ہے۔
ساحر نے اپنے شعری فن سے ایک حقیقی عکس تلاش کیا اور پھر اس سے ساری زندگی ایک رشتہ اُستوار کیے رکھا۔ ہماری عمر کے لوگوں کا عہد ہو یا اس سے پچھلا عہد ہو، ساحر کی نظموں اور گیتوں کو اس قدر پذیرائی ملی کہ جو اپنی مثال آپ ہے۔
ساحر نے نہ صرف موجود کی استحصالی قوتوں کو للکارا بلکہ گزرے شہنشاہوں کی محبتوں کے تاج محلوں کی حقیقتوں کو بھی کھول کر رکھ دیا۔
آج اس عظیم شاعر ساحر لدھیانویؔ کی پیدائش کو ایک سو چار سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے لیکن آج بھی ساحر کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی کیونکہ وہ شاعری کے ابتدائی عہد سے لے کر آخری سانس تک نہ کبھی ڈگمگائے اور نہ نظریے اور ادبی وابستگی میں کوئی تضاد پیدا ہوا۔ وہ ہر حالات میں اپنے اُصولوں، اپنے نظریات و خیالات پر ثابت قدم رہے ہرچند کہ ان کی ذاتی زندگی میں بڑے اُتار چڑھاؤ آئے اور عمر کے آخری حصے تک ان تضادات سے گھرے رہے لیکن ہر حال میں ثابت قدمی ان کی پہچان رہی۔
ساحر لدھیانوی اپنے والد چودھری فضل محمد کی بارہویں بیوی سردار بیگم کے بطن سے 8 مارچ 1919ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ والد طبیعتاً بہت ہی روایتی زمیندارانہ اور جاگیردارانہ مزاج رکھتے تھے۔ نہ صرف یہ کہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ان کا روّیہ غیر منصفانہ اور جابرانہ تھا بلکہ حد تو یہ تھی کہ ساحر کی والدہ سردار بیگم کو اعلانیہ اپنی بیوی تسلیم کرنے کو ہی تیار نہ تھے۔ بات یہاں تک پہنچی کہ ساحر کی والدہ کو ساحر کی پیدائش کے بعد اپنا حق لینے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ ان کی والدہ سردار بیگم کی خواہش تھی کہ ساحر اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے جج یا ڈاکٹر بنے۔ لیکن جاگیردار والد کو ان کی تعلیم سے کوئی دلچسپی نہ تھی کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ ماں باپ کی اکلوتی نرینہ اولاد ہے اس لیے پڑھا لکھا کر نوکری کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ خاندان کے وقار کو برقرار رکھتے ہوئے اتنی بڑی جاگیر کی ذمہ داریاں سنبھالے۔
عیش پسندی اور جاگیردارانہ مزاج کے تحت ساحر کے والد نے کبھی بھی اپنے بیٹے کے سر پر شفقت کا ہاتھ نہیں رکھا۔ حد تو یہ کر دی کہ بیٹے کا نام عبدالحئی رکھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ فضل محمد کے پڑوسی کا نام عبدالحئی تھا جس سے ان کے والد کے تعلقات خراب تھے۔ بیٹے کے ساتھ کبھی محبت کے ساتھ پیش نہیں آئے بلکہ بات بات پر گندی گالیوں سے نوازتے۔ وجہ یہ تھی کہ اگر پڑوسی اعتراض بھی کرے تو یہ کہہ سکیں کہ میں تو اپنے بیٹے کو گالیاں دے رہا ہوں۔ والد کے جاگیردارانہ روّیوں کی یہ حالت تھی کہ انتہاء کا جابر، ظالم اور اَنا پرست تھا اس کے باوجود ساحر کی والدہ نے انہیں سکول داخل کرا دیا۔
ساحر لدھیانویؔ نے اپنی ابتدائی تعلیم خالصہ گورنمنٹ سکول سے حاصل کی اور پھر لدھیانہ کالج میں داخلہ لے لیا۔ کالج کے زمانے سے ہی انہوں نے شاعری کا آغاز کر دیا جس کی وجہ سے وہ کالج میں مقبول ہو چکے تھے۔ لیکن دوسری طرف دلِ ویراں کو کسی کی محبت کی بھی ضرورت تھی کیونکہ گھر میں والد کے روّئیے نے اُنہیں یاس واَلم کے حصار میں مقیّد کر رکھا تھا۔ تن کو جان کے لیے، ایک طالب کو مطلوب کی ضرورت تھی اور یوں کالج کے دور میں ہی ایک کالج فیلو مہندرا چوہدری سے انہیں محبت ہو گئی۔ مہندرا بہت سادہ طبعیت اور انتہائی خوبصورت لڑکی تھی۔ ساحر جسے گھر سے لے کر باہر تک تنہائیوں کا سامنا تھا، کو ایک ایسی ہمدرد کی محبت ملی کہ ساحر اس کے اَسیر ہو گئے۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہی مہندرا چوہدری کو تپ دق ہوا جس کی وجہ سے وہ بیمار پڑ گئی۔
ایک دن جب ساحر اپنے گھر پر موجود تھے اور گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے ان کا دوست حافظ آیا اور چُپکے سے ساحر کو یہ خبر دی کہ مہندرا چوہدری چل بسیں۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ یہ خبر سُن کر ساحر پہ ایک سکتہ سا طاری ہو گیا۔ موت کے بھیانک ہاتھوں نے ساحر سے مہندرا کو چھین لیا تھا۔ وہ محبت کے پیکرِ رنگیں کو لے کر وادیِ فنا میں پرواز کر چکی تھی۔ ساحر اس خبر پر بہت رنجیدہ ہوئے اور ٹوٹ سے گئے۔ وہ مہندرا چوہدری کے گھر کی طرف چل پڑے راستے میں مہندرا کی کلاس فیلو شیلا کا سامنا ہو گیا، شیلا مہندرا چوہدری اور ساحر کی محبت کے بارے میں سب جانتی تھی۔ ساحر نے شیلا سے کہا کہ وہ مجھے مہندرا کی ایک تصویر لا دے۔ ساحر نے دُور کھڑے اپنی محبت کے شریر کو چِتا کی آگ میں جلتے دیکھا۔
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
تو میری پہلی محبت پہلی پوجا ہے
تو مندروں کا کوئی پھول ہے مقدس سا
خدا کے لب سے جو نکلا ہو ایسا نغمہ ہے
ہرچند کہ ساحر بڑے فہم کے انسان تھے لیکن مہندرا کی تصویر کو گلے لگا کر ساحر پھوٹ پھوٹ کر روئے مہندرا کے جواں جسم کو جلانے والے چِتا کے شعلے ان کے خرمن من کو ساری زندگی یاد آتے رہے۔ غم سے نڈھال پیشانی سُکڑ چکی تھی جو کل تک مہندرا کی محبت سے کشادہ تھی۔ چِتا کی آگ نے ان ہونٹوں کو راکھ کر دیا تھا جو کل تک اپنی جنبش سے حوصلے دیا کرتے تھے۔
میرے تصورات کہن کی اَمین ہے تو
مرگھٹ کی مقدس سر زمین ہے تو
اک بے وطن اَسیرِ محبت کا سلام لے لے
آرزوِ بہارِ چمن کا سلام لے لے
فطرت تیرے حرم پہ تقدس فشار ہے
تو میرے دل کی خاک کی سرمایہ دار ہے
ویرانیاں تیری مجھے جنت سے کم نہیں
یہ دھوپ مجھ کو سایۂ رحمت سے کم نہیں
سو تیرے راستے میں ہر اک سو ببول ہیں
دامن میں تیرے اس جوانی کے پھول ہیں
جو میری زندگی کی تمنا بنی رہی
زوق نیاز شوق کا کعبہ بنی رہی
حوریں ہیں تیرے پاک مناظر پہ زرقاں
اے ارضِ شوق اے میری اُمیدِ جہاں
مٹی مہک رہی ہے تیری راہ گزار کی
ارتھی گئی ہے یہاں سے عروسِ بہار کی
مہندرا چوہدری کی موت کے بعد لدھیانہ کالج کے ہی دور میں ساحر کی پہلی کتاب تلخیاں شائع ہو چکی تھی اور ساحر ایک مقبول شاعر بن چکے تھے۔ ہمارے سماج کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اگر محبت کی ابتدا لڑکی ہی کرے تب بھی اس کا قصور ہمشہ مرد پہ دھر دیا جاتا ہے۔
ساحر اور اس کی ماں کو جہاں ایک جاگیردار باپ نے گھر سے نکال دیا تھا وہیں وہ مسلسل اس نظام کی بے رحمیوں کا شکار بنتے رہے۔ لہٰذا اس تفریق اور ظلم نے ساحر کو اس نظام کا باغی بنا دیا ان کی تخلیق ایک بغاوت اور سرکشی میں بدل چکی تھی۔ کالج کے پرنسپل نے ساحر پر یہ الزام لگا کر کہ وہ میری لڑکی کے ساتھ تعلق بنانا چاہتا ہے، ساحر کو کالج سے نکال دیا۔ اسی کالج میں 1970ء کو ایک مشاعرہ منعقد کیا گیا جس میں خاص طور پر شِوکُماربٹالویؔ اور ساحر لدھیانویؔ کو مدعو کیا گیا۔
ساحر اپنی نظم کا آغاز ان اشعار سے کرتے ہیں؛
اس سرزمین پے آج ہم اک بار ہی سہی
دنیا ہمارے نام سے بے زار ہی سہی
لیکن ہم ان فضاؤں کے پالے ہوئے تو ہیں
گر یاں نہیں تو یہاں سے نکالے ہوئے تو ہیں
ان سارے واقعات کے بعد ساحر کی نظموں اور غزلوں میں عشق و محبت کا ذکرگَھنگوراندھیرے میں کوندے کی طرح چمک کر غائب ہو جاتا ہے اور وہ ادب و فن سے ایک فعال رشتہ استوار کرتے ہیں۔
ساحر مارکسی نظریات اور ادب و فن کو طبقاتی بنیاد پر ڈال کر ایک مخلص انقلابی کی طرح اپنے خیالِ فن کی تعمیر کرتے ہیں۔
ساحر مارکسی نظریات کی اصل رُوح کو سمجھتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے وہ ذات کے حوالوں سے لے کر معاشرتی و سماجی اور جن طبقاتی تفریقوں کا شکار تھے، انہیں ایک قطعی مصنوعی اور دبے ہوئے سماج نے جنم دیا تھا۔ لیکن لوگوں کی اکثریت ان حقائق کی تفہیم سے چشم پوشی اختیار کرتی ہے جن کے باعث ان کی اصل فطرت مسخ ہو رہی ہے۔
چند کلیاں نشاط کی چن کر
مُدتوں محوِ یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اُداس رہتا ہوں
جس طرح فیض نے کہا تھا اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا ساحر نے ایک اور راہ اختیار کی جہاں قدم قدم پر بھوک افلاس ہے انسانیت کی آہ و پکار بے بے کفن لاشوں پڑھی دیکھائی دیتی ہیں افلاس اور غربت کی وجہ سے بچوں کے زرد اور بلکتے ہوئے چہرے ہیں محکومی اور مجبوری ہے اور سب سے زیادہ جاگیردارانہ نظام کی غیر مساوی تقسیم ہے۔ سوچتا ہوں ناکامی
مجھے سوچنے دو خود کشی سے پہلے اور گریز جیسی نظموں میں ساحر نے اردگرد پھیلی ہوئی ہولناک ظلمتوں سے نکل جانے کی کوشش کی لیکن ان کی روح مضحمل ہے، ان کے حوصلے شَل ہیں۔ وہ جب وطن کی غربت مجبوری اور غلامی کو دیکھتے ہیں تو صرف اتنا کہتے ہیں؛
”یہ غم بہت ہیں میری زندگی مٹانے کو“
ساحر یکدم گھبرا کر غیض و غضب کے عالم میں اگلے شعروں میں کہتے ہیں؛
وہ پھر کسانوں کے مجمع پر گن مشینوں سے
حقوق یافتہ طبقے نے آگ برسائی
ساحر کو 1944ء میں بنگال کے قحط نے شدید متاثر کیا، اسی اضطراب میں ساحر نے قحطِ بنگال جیسی نظم لکھی؛
جہانِ کُہنہ کے مفلُوج فلسفہ دانو
نظامِ نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا
کہ ان پہ دیس کی جنتا سِسک سِسک کر مرے
سلسلہ یونہی چلتا رہا اور پھر ساحر کو لدھیانہ کو خیر آباد کہہ کر لاہور آنا پڑا۔ لاہور آنے کے بعد وہ ادبِ لطیف کے ایڈیٹر ہو گئے جس میں ان کی نظمیں چھپنے لگیں۔
پنجابی شاعرہ اَمرتا پریتم ان کے نام سے پہلے ہی واقف تھیں، لیکن ادبِ لطیف کا ایڈیٹر بننے کے بعد وہ ساحر کو مسلسل پڑھتی رہیں۔ اس طرح اَمرتا پریتم کو ساحر سے گہرا لگاؤ ہونے لگا اس وقت ان کی شادی امروز سے ہو چکی تھی۔ لیکن یہ شادی گھر والوں کی پسند سے کی گئی تھی۔
پھر کچھ ایسا ہوا کہ 1943ء پریت نگر لاہور میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا جس میں ساحر بھی موجود تھے اور اسی مشاعرے میں پہلی مرتبہ ساحر کی اَمرتا پریتم سے ملاقات ہوئی اور دونوں نے یہیں پہلی بار اس مشاعرے میں ایک دوسرے کو دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں دل نے دل کی راہ لی۔ اس مشاعرے کے دوران بارش ہوئی اور کھل کر برسی۔ اس بارش کو یاد کرتے ہوئے برسوں بعد امرتا نے کہا؛
”قدرت نے میرے دل میں محبت کا جو بیج بویا تھا اس کی بارش سے آبیاری ہوئی۔“
اور پھر یوں دونوں کے بیچ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جن میں زیادہ وقت ساحرکرسی پر بیٹھے سگریٹ پیتے رہتے، ان کے جانے تک کمرہ سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھر جاتا امرتا اپنے اس تعلق کے بارے میں لکھتی ہیں کہ؛
”کبھی ایک بار۔۔۔ اس کے ہاتھ کا لمس لینا چاہتی تھی لیکن میرے سامنے میرے ہی رواجی بندھنوں کا فاصلہ تھا جو طے نہیں ہوتا تھا۔۔۔اس کے جانے کے بعد، میں اس کے چھوڑے ہوئے سگریٹوں کے ٹکڑے سنبھال کر الماری میں رکھ لیتی تھی اور پھر ایک ایک ٹکڑے کو تنہائی میں بیٹھ کر جلاتی تھی اور جب ان کو انگلیوں میں پکڑتی تھی تو محسوس ہوتا تھا۔۔۔ جیسے اس کا ہاتھ چُھو رہی ہوں۔ سگریٹ پینے کی عادت مجھے اس وقت پہلی بار پڑی، ہر سگریٹ سُلگاتے ہوئے محسوس ہوتا تھا کہ ساحر میرے پاس ہے۔۔۔ سگریٹ کے دھوئیں میں سے جیسے وہ جن کی طرح نمودار ہوجاتا تھا۔“
امریتا پریتم اور ساحر کی محبت بھی بہت لافانی رہی جس کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا اس کے بارے میں ہم یہاں مختصر ہی بیان کرتے ہیں۔ لیکن ساحر شاید اب اس طبقاتی نظام کے سامنے سینہ سپر ہو کر اپنی بقایا زندگی انہی راہوں پہ گزارنا چاہتے تھے۔
میرے سرکش ترانے سُن کے دنیا یہ سمجھتی ہے
کہ شاید میرے دل کو عشق کے نغموں سے نفرت ہے
مجھے ہنگامۂ جنگ و جدل میں کیف ملتا ہے
میری فطرت کو خون ریزی کے فسانے سے رغبت ہے
وقت گزرتا رہا اور پھر 1947ء کی خون آشام شامیں آگئیں۔ انگریز تو چلا گیا لیکن ایسی آگ لگا کر گیا کہ ہر طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں، بچے یتیم ہو گئے، بہنوں کی عصمتیں تار تار ہوئیں، دین و دھرم کے نام پر وہ خون خرابہ ہوا جس کے زخم شاید صدیاں بھی نہ بھر سکیں۔ تقسیم کے ان ہنگامے پہ ساحر آل انڈیا ریڈیو سے یہ نظم پڑھ رہے ہیں؛
ساتھیو میں نے برسوں تمارے لیے
چاند تاروں بہاروں کے سپنے بنے
حسن عشق کے گیت گاتا رہا
آرزوؤں کے ایوان سجاتا رہا
آج میرے دامنِ چاک میں
گرد راہ سفر کے سوا کچھ نہیں
رفیق چوہدری اپنی کتاب میری دنیا میں لکھتے ہیں کہ تقسیم کے بعد ساحر کی ماں لاہور چلی آئی لہٰذا ماں کے پیچھے ساحر کو بھی لاہور آنا پڑا۔ یہ 1948ء کا دور تھا دونوں طرف بہت بڑی افراتفری تھی مقامی لوگوں میں محنت کشوں کی بڑی تعداد ہمدردانہ پہلو رکھتی تھی لیکن بااثر اور چوہدری ہندوؤں کا مال لوٹنے میں لگے ہوئے تھے۔ اس وقت گجرانوالہ کے کسٹوڈین آفیسر فیض احمد فیض کے بھائی طفیل احمد اس عہدے پر فائز تھے۔ ہم سب شعراء نے مل کر ریفیوجی فنڈز کے لیے ایک مشاعرہ کرنا چاہا اس وقت ٹرانسپورٹ کا بڑا مسئلہ تھا ہندوؤں کی گاڑیوں پر مقامی افرد نے قبضہ کر رکھا تھا، سارا نظام درہم برہم تھا، تاہم ہم نے فیض صاحب کے ریفرنس سے طفیل احمد صاحب سے بات کی تو انہوں نے لاہور جانے کے لیے ہمیں ایک کار دے دی اور کہا اس پر آپ لاہور جاؤ ان دنوں ساحر بھی لاہور میں ہی موجود تھے۔
ہم لوگ گجرانوالہ سے لاہور پہنچے رات رہنے کا کوئی انتظام نہ تھا اور چار آدمیوں نے رات گزارنی تھی ہمارے ایک شاعر دوست جن کی سائیکلوں کی دوکان تھی مزنگ چونگی قبرستان کے پاس رہتے تھے، ہم ان کے پاس چلے گئے۔ دوکان کے سامنے کھلی جگہ تھی انہوں نے ہمیں وہاں چارپائیاں بچھا کر دیں اور ہم وہاں سو گئے اور ساتھ ہی کچھ دُور گاڑی بھی کھڑی کر دی۔ ہمارا وہ دوست بڑا ہنس مُکھ اور بے تکلف انسان تھا رات کے پچھلے پہر کسی نے آکر ہمیں جگایا سامنے ایک پولیس والا اور ہمارا میزبان کھڑا تھا۔ پولیس والے نے پوچھا یہ گاڑی کس کی ہے تو ہم نے کہا یہ ہماری گاڑی ہے۔ پولیس والے نے ثبوت مانگا تو ہم نے کسٹوڈین کی مہر لگی چٹ دِکھا دی وہ ہمارے میزبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا یہ گاڑی ہم واہگہ سے لائے ہیں اس نے یہ گاڑی بیچ دی تھی لیکن بروقت ہم نے اسے پکڑ لیا، ہم حیران رہ گئے کہ یہ سب کیا ہوا اور اسی وقت وہاں سے گاڑی لے کر نکل پڑے۔
جیسے تیسے رات گزاری اور ہم سیدھے انارکلی حافظ امرتسری کے پاس پہنچ گئے جن کی انار کلی میں بٹنوں کی دوکان تھی ان سے بات کی وہ خود بھی شاعر تھے اور ہر شاعر کے ساتھ ان کے رابطے تھے۔ انہوں نے تاثیر،صوفی تبسم، حفیظ جالندھری، ساحر، ندیم ظہیر اور قتیل شفائی جیسے شعراء سمیت کافی اور شاعروں کو گجرانوالہ مشاعرے میں جانے کے لیے راضی کر لیا۔ اعجاز بٹالوی سے بھی براڈ کاسٹنگ کے لیے بات ہو گئی۔ اب مسئلہ ان سارے شعراء کو گجرانوالہ لے جانے کا تھا جو ملا جلا کہ چالیس سے زیادہ لوگ تھے۔
ہم نے گجرانوالہ کے ایک ٹرانسپورٹر دوست کو پکڑا اور کہا بھائی اتنی بسوں پر قبضہ کر رکھا ہے ہمیں ریفیوجی فنڈز کے لیے گجرانوالہ میں ایک مشاعرہ کرنا ہے ہمیں بھی گجرانوالہ پہنچا دو تو اس نے پوچھا کہ ساحر ہیں؟ تو ہم نے کہا جی ساحر بھی ہیں تو اس نے کہا ایک شرطِ پر لے جاؤنگا کہ ساحر فرنٹ سیٹ پر میرے ساتھ بیٹھیں گے۔ ہم نے اس کی شرط مان لی اور وہ گاڑی لے کر ہمارے ساتھ آ گئے۔
سارے شاعر اکٹھے ہو گئے گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر احسان دانش اور حفیظ جالندھری کو بٹھا دیا گیا وہ بزرگ شاعر تھے گاڑی شاعروں سے بھر گئی لیکن ڈرائیور ایک طرف منہ پھلا کر بیٹھ گیا ہم نے کہا کیا مسئلہ ہے بھائی؟ تو وہ بولا کہ جب تک ساحر میرے پاس نہیں بیٹھے گا گاڑی نہیں چلے گی! ہم نے بڑی منت سماجت کی لیکن وہ نہیں مانا بالآخر ساحر نے اسے سمجھایا کہ وہ اُستاد شاعر ہیں میں کیسے ان کے ہوتے ہوئے آگے بیٹھ سکتا ہوں، پھر وہ کہنے لگا اگر گاڑی نے گڑ بڑ کی تو میں ذمہ دار نہیں۔ ہم پریشان ہو گئے کیونکہ رات دس بجے مشاعرہ تھا بالآخر اس نے اس شرط پہ مانا کہ میرے پیچھے والی سیٹ پر ساحر بیٹھے گا پورے راستے ساحر اپنا ہاتھ ڈرائیور کے کندھے پر رکھ کر باتیں کرتے رہے اور ڈرائیور بس چلاتا رہا۔
ساحر کے ساتھ عام لوگوں کی محبت دیدنی تھی اس مشاعرے میں سب سے زیادہ روپے حفیظ جالندھری نے لیے اور مشاعرہ کے پانچھ سو روپے وصول کیے جبکہ احسان دانش نے تین سو ساحر کا نام چھتیس روپے معاوضے والے شاعروں میں لکھا گیا ساحر کی جیب خالی تھی لیکن ساحر نے وہ چھتیس روپے ریفیوجی فنڈز میں دے دیے ساحر ہندوؤں اور سکھوں کا مال لوٹنے والوں کو دیکھ کر حیران ہو رہیے تھے کہ کسطرح گدھ کی طرح جھپٹ جھپٹ کر مال کو لوٹ رہیے ہیں بے اختیار ساحر نے کہا؛
یہ منظر کون سا منظر ہے پہچانا نہیں جاتا
سیاہ خانوں سے کچھ پوچھو شبستانوں پے کیا گزری
چلو وہ کفر کے گھر سے سلامت آگئے لیکن
خدا کی مملکت میں سوختہ جانوں پہ کیا گزری
ایک مرتبہ پھر ساحر لاہور چھوڑ کر بمبئی جا بسے بمبئی میں ساحر نے بہت مشکل وقت دیکھا وہ اندھیری میں کرشن چندر کے فلمی آفس میں بھی رہتے رہے ابراہیم جلیسؔ لکھتے ہیں کہ ساحر کے بمبئی میں ان ابتدائی ایام میں مالی حالات بہت خراب تھے وہ جب بمبئی کے بوری بند اسٹیشن پر ہمارے دوستوں کو رخصت کرنے آئے تو بوری بند اسٹیشن پر ایک مزدور یہ گیت گاتا ہوا جارہا تھا۔
او جانے والے بالموا لوٹ آ لوٹ آ۔۔۔
تو ساحر نے کہا ابراہیم جلیسؔ جب تم دوسری مرتبہ بمبئی آؤ گے تو مزدور میرے گیت گاتے ہوئے ملیں گے یہ بات اس وقت مجھے افسانہ لگی لیکن ٹھیک دس سال بعد جب میں دوبارہ بمبئی گیا تو واقعی ساحر کے حالات بدلے ہوئے تھے اس کے گیت ہندوستان بھر میں گونج رہے تھے جب واپسی پر ساحر ہمیں بوری بند اسٹیشن چھوڑنے آئے تو پورٹ کے مزدور گا رہے تھے؛
ساتھی ہاتھ بڑھانا
ایک اکیلا تھک جائے گا مل کر بوجھ اٹھانا
ہم محنت والوں نے جب بھی مل کر قدم بڑھایا
ساگر نے راستہ چھوڑا پربت نے سیس جھکایا
فولادی ہیں سینے اپنے فولادی ہیں بانہیں
ہم چاہیں تو پیدا کر دیں چٹانوں میں راہیں
ساتھی ہاتھ بڑھانا۔۔۔
25 اکتوبر 1980ء کو غمِ دوراں اور غمِ جاناں جھیلتے جھیلتے اس شاعر کا ممبئی میں انتقال ہوا اور وہیں بمبئی کے ایک قبرستان میں ان کی تدفین کی گئی۔ ان کی قبر پر ان کے چاہنے والوں نے ایک مقبرہ بھی تعمیر کرایا لیکن جنوری 2010ء میں اسے منہدم کر دیا گیا۔ اب ان کی قبر کا بھی نشان نہیں ملتا۔
انسان کے شدتِ احساس نے شاعری کو جنم دیا۔ تفکر کی گہرائی نے اسے پروان چڑھایا۔ مشاہدے کی ہمہ گیری اور ماحول کے اثر نے اس میں رنگ بھرے۔ ساحر دنیا سے چلا گیا لیکن وہ آج بھی ہر جگہ اپنی توانا آواز اور عظیم خیالات لیے زندہ ہے؛
میں پل دو پل کا شاعر ہوں
پل دو پل میری ہستی ہے
پل دو پل میری جوانی ہے
—♦—
ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔