قانون یہ ہے کہ سچائی کسی ایک لمحے یا ایک وقت میں ایک ہی ہوتی ہے، لیکن مسئلہ یہ درپیش ہے کہ زندگی فطری ہو یا سماجی، اس ایک سچائی تک کیسے پہنچا جائے۔ نیچر کا معاملہ قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ جلد یا بدیر لیبارٹری تجربہ، سچائی کو ثابت کر دیتا ہے۔ جوکہ نئے پیدا ہونے والے حقائق تک حتمی ہوتی ہے۔ ہم اسے بطور سچائی ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہوتا۔
پیچیدگی سماجی زندگی میں پیش آتی ہے۔ ہمارا موضوع بھی سماجی سچائی کی تلاش ہے۔ سماج میں مادی تبدیلیوں کی رفتار دیگر معاشرتی تبدیلیوں مثلاً لسانی، ثقافتی، نفسیاتی، علم و ادب، اقدار سے آگے ہوتی ہیں، ان کا درمیانی فاصلہ کافی ہونے کی بناء پر بھی سماجی سچائی کی تلاش مشکل سے مشکل تر ہوتی جاتی ہے۔ ہم سماجی تبدیلیوں کے قانون کے لیے دُور نہ بھی جائیں تو ہیگل نے وہ قانون خواہ سر کے بل ہی سہی کھڑا تو ضرور کر دیا۔ جسے بعد ازاں مارکس نے پاؤں کے بل سیدھا کھڑا کرتے ہوئے تاریخی مادیت کا نام دیا۔ ہمارا مسئلہ ابھی بھی حل نہیں ہوا۔
طبقاتی سماج میں مختلف معاندانہ (Antagonistic) مفادات کارفرما ہونے کی بناء پر نظریاتی، دانشورانہ سرگرمیاں مختلف طبقاتی مفادات سے شعوری یا لاشعوری طور پربندھی ہونے کی بناء پر ٹکراؤ پیدا کرتی رہتی ہیں۔
چلیے ہم اپنے سوال کو اور محدود کر لیتے ہیں کہ سماج میں کسی ایک وقت میں ایک ہی طبقہ (محنت کشوں) کی نمائندگی کرنے والی مختلف قوتیں (جماعتیں) برسرِپیکار ہوتی ہیں۔ جیسے کہ ہمارے ہاں ہیں اورسب سچائی کی علمبردار ہونے پر مصر رہتی ہیں۔ جزوی یا غیر جزوی غلطی پر ہونے کی گنجائش نہیں رکھتیں۔ کسی کا سو فیصد سچائی پر ہونے کا دعویٰ عمومی طور پر درست نہیں ہوتا۔ ہو بھی تب بھی مکالمہ کی صورت قائم رہنی چاہیے۔ ایسی صورت سے صرف ہم ہی نہیں دنیا بھر کے محنت کش عوام دوچار ہیں۔ خاص طور پر پسماندہ دنیا تو اس سے نکل ہی نہیں پا رہی۔
پسماندہ دنیا اکثر نظریاتی، تنظیمی، پیٹی بورژوا شخصی مسائل کا شکار رہتی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کے الگ طرح کے مسائل ہیں۔ پھر سچائی کی تلاش کا راستہ کونسا ہو سکتا ہے؟ سماجی سائنس میں تو ایک ہی راستہ ہے کہ عمل کے ساتھ مکالمہ کا دروازہ کھلا رکھا جائے۔ یہی راستہ خود تنقیدی کی راہ بھی دکھاتا ہے۔ اپنے عمل سے سیکھنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے، لیکن اس کے لیئے بھی انسان سے اپنے مقصدکے ساتھ کمٹمنٹ کے بلند معیار کا تقاضا ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ : اس سے پہلے ہم” سچائی “ کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھ چکے ہیں۔ جس میں سچائی کی relative , absolute و دیگر ٹیکنیکل شکلیں بیان کر چکے ہیں۔ ہمارے فیس بک پیج پہ پڑا ہے۔ دوست کہیں تشنگی محسوس کریں تو وہاں سے مدد لے سکتے ہیں۔ حالیہ آرٹیکل کی دو اقساط اسی کا تسلسل تصور کر لیا جائے تو بات شاید کافی حد تک واضح ہو جاتی ہے۔ (مصنف)
—♦—

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
سوشلزم کی آج کے دور ں کیا شکل ہوگی۔۔۔
جناب اکرم سہیل صاحب۔ اس سوال کا جواب سمجھنے کے لئے سوشلزم کو سمجھنا از حد ضروری ہے۔ سوشلزم سماج کو سمجھنے اور اسے تبدیل کرنے کی سائنس ہے۔ سماجی تغیّر کے ساتھ اسے تبدیل کرنے کی حکمت عملی بھی سماجی ضرورتوں کے اعتبار سے تبدیل ہوتی رہے گی۔
سوشلزم کوئی جامد فارمولا ہر گز نہیں اور نہ ہی ڈوگما ہے۔