انقلاب ایک سٹریٹجی ہے جسے کارکن اس وقت استعمال کرتے ہیں جب ترقی پسندانہ تبدیلی کے روایتی واداراتی تمام راستے بند ہو جاتے ہیں۔ دوسرے ادوار کی طرح مارکیٹ اکانومی بھی انقلابات اور ترقی پسندانہ تبدیلیوں کے لئے مواقع اورساتھ ہی رکاوٹیں بھی پیدا کرتی ہے۔ حالیہ ملکی اور عالمی ماحول کے تناظر میں انقلابات کے نمو پانے کے امکانات متعدد پیچیدہ مسائل سے دو چار ہیں۔ انقلاب کے تصور، ریاستی ایجنسیوں کے کرداراور گلوبلائزیشن کے ماحول میں سیاسی طاقت پر سنجیدہ غور وفکر درکار ہے۔ سماجی انقلابات، سیاسی، نظریاتی، سماجی اور اقتصادی عوامل کے تحت قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر خاص انقلابی حالات میں پیدا ہوتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے انقلابی حالات ہوتے ہیں؟ جو بنیادی سماجی تبدیلی کا مؤجب بنتے ہیں۔
کیا اس کے لیے نابرابری اور معاشی مشکلات کافی نہیں ہیں؟ نہیں کافی نہیں ہیں! بنیادی سماجی تبدیلیوں ( طبقاتی انقلابات) کے وقوع پذیرہونے یا لانے کی پہلی شرط ہے کہ محنت کش عوام اور مڈل کلاس کے لیے موجود نظام کے اندر زندگی گزارنے کے تمام مواقع Exhaust ہو جائیں۔ لاطینی امریکا کی تبدیلیاں بتاتی ہیں کہ وہاں ابھی زندگی گزارنے کے ایسے ترقی پسند امکانات ختم نہیں ہوئے۔ انہی حالات نے وہاں کے انقلابات کو سامراج دشمن اور جمہوری کردار سے آگے بڑھنے کا راستہ نہیں دیا۔
طبقاتی انقلابات کے لیےصرف معاشی مشکلات اور سماجی نابرابری کافی نہیں۔ ایسے انقلابات کے لئے سیاسی شعور، تنظیم اور قیادت بھی ضروری ہے۔
انقلابی شعور کے ساتھ ساتھ شعوری شفافیت کا ہونا بھی شرط اوّل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ورنہ انقلاب ایران رُونما ہوتے ہیں۔ ظلم سے ٹکرانے کے ارادے کو شعور اور تنطیم کے بغیر مضبوط بنانا ممکن نہیں ہوگا۔ انفرادی دُکھوں کو اجتماعی سیاسی عمل کا راستہ دکھانا ہوگا۔ عوام کو اس عمل کے خلاف جدوجہد کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی دشمن ( حاکم طبقے ) کے اپنے اندر اور بین الاقوامی سرمایہ دار دنیا میں تضاد، کشمکش کا اُبھرنا، موجود ہونا لازم ہوتا ہے۔
ہر تاریخی دور کی اپنی قسم کی سماجی ناانصافیوں، سیاسی جبر، اجتماعی اعمال اور قیدوبند سے آزادی کی اُمنگیں ہوتی ہیں۔ سماجی انقلابات کے مستقل خدوخال، بدلتے ہوئے متبادلات ( سماجی تبدیلی ) جو ان کے وقت کے لئے خاص اور موافق ہوتے ہیں کے نتیجے دریافت کرنے ہوں گے۔
کیا گلوبلائزیشن کے تحت منڈی کی جمہوریتیں سماجی انقلابات کے لیے موافقت رکھتی ہیں یا رکاوٹ؟
اس کا تعین ہر ایک کیس میں علیحدہ ہوگا۔ اس کا جواب بھی مفروضاتی ہی ہوگا۔
اقتصادی بحران، رشوت ستانی جمہوری اداروں کا جابرانہ رد عمل عوامی بغاوتوں اور کبھی کبھار حکومتوں کے خاتمہ کا باعث تو بن جاتا ہے لیکن انقلابی عامل ( سماجی تبدیلی منظم کرنے یا لانے والی قوت ) کی غیر حاضری کے باعث پیدا شدہ خلا پر نہیں ہو پاتا۔ لہٰذا محض عوام کا حکومت مخالف غصہ کافی نہیں ہے۔ کچھ اور بھی چاہیے۔ انقلابی طاقت کی تعمیر اور قوتوں کو مجتمع کرنا دُور رَس زاویۂ نظر کا تقاضا کرتے ہیں۔
سماجی انقلابات آخری اقدامات ہوتے ہیں۔ اس لیئے بہت کم واقع ہوتے ہیں۔
سماجی انقلابات نیچے سے ہونے والے بڑے ترقی پسندانہ سلسلے ہیں جو طاقت کے ڈھانچوں کے پورے نظام کا سامنا کرتے ہیں۔ انقلابیوں اور حکومتوں، ہر دو کے لیے سیاسی کامیابی ایک ایسا اَمر ہے جو دوسرے اُمور سے منسلک ہے۔ اس کے لئے اس پر بے تکان کام کرنے کی ضرورت ہے پھر بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کامیاب نہ ہو۔ ناکامیوں سے سیکھنا مستقبل کی کامیابیوں کا باعث ہو سکتا ہے۔ جیسے رُوس میں 1905ء کی ناکامی 1917ء کی مشق ثابت ہوئی۔
(جاری ہے)
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
انقلاب ایک سٹریٹجی ہے جسے کارکن اس وقت استعمال کرتے ہیں جب ترقی پسندانہ تبدیلی کے روایتی واداراتی تمام راستے بند ہو جاتے ہیں۔ دوسرے ادوار کی طرح مارکیٹ اکانومی بھی انقلابات اور ترقی پسندانہ تبدیلیوں کے لئے مواقع اورساتھ ہی رکاوٹیں بھی پیدا کرتی ہے۔ حالیہ ملکی اور عالمی ماحول کے تناظر میں انقلابات کے نمو پانے کے امکانات متعدد پیچیدہ مسائل سے دو چار ہیں۔ انقلاب کے تصور، ریاستی ایجنسیوں کے کرداراور گلوبلائزیشن کے ماحول میں سیاسی طاقت پر سنجیدہ غور وفکر درکار ہے۔ سماجی انقلابات، سیاسی، نظریاتی، سماجی اور اقتصادی عوامل کے تحت قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر خاص انقلابی حالات میں پیدا ہوتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے انقلابی حالات ہوتے ہیں؟ جو بنیادی سماجی تبدیلی کا مؤجب بنتے ہیں۔
کیا اس کے لیے نابرابری اور معاشی مشکلات کافی نہیں ہیں؟ نہیں کافی نہیں ہیں! بنیادی سماجی تبدیلیوں ( طبقاتی انقلابات) کے وقوع پذیرہونے یا لانے کی پہلی شرط ہے کہ محنت کش عوام اور مڈل کلاس کے لیے موجود نظام کے اندر زندگی گزارنے کے تمام مواقع Exhaust ہو جائیں۔ لاطینی امریکا کی تبدیلیاں بتاتی ہیں کہ وہاں ابھی زندگی گزارنے کے ایسے ترقی پسند امکانات ختم نہیں ہوئے۔ انہی حالات نے وہاں کے انقلابات کو سامراج دشمن اور جمہوری کردار سے آگے بڑھنے کا راستہ نہیں دیا۔
طبقاتی انقلابات کے لیےصرف معاشی مشکلات اور سماجی نابرابری کافی نہیں۔ ایسے انقلابات کے لئے سیاسی شعور، تنظیم اور قیادت بھی ضروری ہے۔
انقلابی شعور کے ساتھ ساتھ شعوری شفافیت کا ہونا بھی شرط اوّل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ورنہ انقلاب ایران رُونما ہوتے ہیں۔ ظلم سے ٹکرانے کے ارادے کو شعور اور تنطیم کے بغیر مضبوط بنانا ممکن نہیں ہوگا۔ انفرادی دُکھوں کو اجتماعی سیاسی عمل کا راستہ دکھانا ہوگا۔ عوام کو اس عمل کے خلاف جدوجہد کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی دشمن ( حاکم طبقے ) کے اپنے اندر اور بین الاقوامی سرمایہ دار دنیا میں تضاد، کشمکش کا اُبھرنا، موجود ہونا لازم ہوتا ہے۔
ہر تاریخی دور کی اپنی قسم کی سماجی ناانصافیوں، سیاسی جبر، اجتماعی اعمال اور قیدوبند سے آزادی کی اُمنگیں ہوتی ہیں۔ سماجی انقلابات کے مستقل خدوخال، بدلتے ہوئے متبادلات ( سماجی تبدیلی ) جو ان کے وقت کے لئے خاص اور موافق ہوتے ہیں کے نتیجے دریافت کرنے ہوں گے۔
کیا گلوبلائزیشن کے تحت منڈی کی جمہوریتیں سماجی انقلابات کے لیے موافقت رکھتی ہیں یا رکاوٹ؟
اس کا تعین ہر ایک کیس میں علیحدہ ہوگا۔ اس کا جواب بھی مفروضاتی ہی ہوگا۔
اقتصادی بحران، رشوت ستانی جمہوری اداروں کا جابرانہ رد عمل عوامی بغاوتوں اور کبھی کبھار حکومتوں کے خاتمہ کا باعث تو بن جاتا ہے لیکن انقلابی عامل ( سماجی تبدیلی منظم کرنے یا لانے والی قوت ) کی غیر حاضری کے باعث پیدا شدہ خلا پر نہیں ہو پاتا۔ لہٰذا محض عوام کا حکومت مخالف غصہ کافی نہیں ہے۔ کچھ اور بھی چاہیے۔ انقلابی طاقت کی تعمیر اور قوتوں کو مجتمع کرنا دُور رَس زاویۂ نظر کا تقاضا کرتے ہیں۔
سماجی انقلابات آخری اقدامات ہوتے ہیں۔ اس لیئے بہت کم واقع ہوتے ہیں۔
سماجی انقلابات نیچے سے ہونے والے بڑے ترقی پسندانہ سلسلے ہیں جو طاقت کے ڈھانچوں کے پورے نظام کا سامنا کرتے ہیں۔ انقلابیوں اور حکومتوں، ہر دو کے لیے سیاسی کامیابی ایک ایسا اَمر ہے جو دوسرے اُمور سے منسلک ہے۔ اس کے لئے اس پر بے تکان کام کرنے کی ضرورت ہے پھر بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کامیاب نہ ہو۔ ناکامیوں سے سیکھنا مستقبل کی کامیابیوں کا باعث ہو سکتا ہے۔ جیسے رُوس میں 1905ء کی ناکامی 1917ء کی مشق ثابت ہوئی۔
(جاری ہے)
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔