• Latest

انقلاب شورش ہے نہ سازش! / انقلاب کے امکانات  (قسط 3) – تحریر: رانا اعظم

اپریل 6, 2024

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
منگل, مئی 20, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home home مضامین

انقلاب شورش ہے نہ سازش! / انقلاب کے امکانات  (قسط 3) – تحریر: رانا اعظم

سماجی انقلابات آخری اقدامات ہوتے ہیں۔ اس لیئے بہت کم واقع ہوتے ہیں۔

للکار نیوز by للکار نیوز
اپریل 6, 2024
in مضامین
A A
0

انقلاب ایک سٹریٹجی ہے جسے کارکن اس وقت استعمال کرتے ہیں جب ترقی پسندانہ تبدیلی کے روایتی واداراتی تمام راستے بند ہو جاتے ہیں۔ دوسرے ادوار کی طرح مارکیٹ اکانومی بھی انقلابات اور ترقی پسندانہ تبدیلیوں کے لئے مواقع اورساتھ ہی رکاوٹیں بھی پیدا کرتی ہے۔ حالیہ ملکی اور عالمی ماحول کے تناظر میں انقلابات کے نمو پانے کے امکانات متعدد پیچیدہ مسائل سے دو چار ہیں۔ انقلاب کے تصور، ریاستی ایجنسیوں کے کرداراور گلوبلائزیشن کے ماحول میں سیاسی طاقت پر سنجیدہ غور وفکر درکار ہے۔ سماجی انقلابات، سیاسی، نظریاتی، سماجی اور اقتصادی عوامل کے تحت قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر خاص انقلابی حالات میں پیدا ہوتے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے انقلابی حالات ہوتے ہیں؟ جو بنیادی سماجی تبدیلی کا مؤجب بنتے ہیں۔

کیا اس کے لیے نابرابری اور معاشی مشکلات کافی نہیں ہیں؟ نہیں کافی نہیں ہیں! بنیادی سماجی تبدیلیوں ( طبقاتی انقلابات) کے وقوع پذیرہونے یا لانے کی پہلی شرط ہے کہ محنت کش عوام اور مڈل کلاس کے لیے موجود نظام کے اندر زندگی گزارنے کے تمام مواقع Exhaust ہو جائیں۔ لاطینی امریکا کی تبدیلیاں بتاتی ہیں کہ وہاں ابھی زندگی گزارنے کے ایسے ترقی پسند امکانات ختم نہیں ہوئے۔ انہی حالات نے وہاں کے انقلابات کو سامراج دشمن اور جمہوری کردار سے آگے بڑھنے کا راستہ نہیں دیا۔

طبقاتی انقلابات کے لیےصرف معاشی مشکلات اور سماجی نابرابری کافی نہیں۔ ایسے انقلابات کے لئے سیاسی شعور، تنظیم اور قیادت بھی ضروری ہے۔

انقلابی شعور کے ساتھ ساتھ شعوری شفافیت کا ہونا بھی شرط اوّل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ورنہ انقلاب ایران رُونما ہوتے ہیں۔ ظلم سے ٹکرانے کے ارادے کو شعور اور تنطیم کے بغیر مضبوط بنانا ممکن نہیں ہوگا۔ انفرادی دُکھوں کو اجتماعی سیاسی عمل کا راستہ دکھانا ہوگا۔ عوام کو اس عمل کے خلاف جدوجہد کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی دشمن ( حاکم طبقے ) کے اپنے اندر اور بین الاقوامی سرمایہ دار دنیا میں تضاد، کشمکش کا اُبھرنا، موجود ہونا لازم ہوتا ہے۔

ہر تاریخی دور کی اپنی قسم کی سماجی ناانصافیوں، سیاسی جبر، اجتماعی اعمال اور قیدوبند سے آزادی کی اُمنگیں ہوتی ہیں۔ سماجی انقلابات کے مستقل خدوخال، بدلتے ہوئے متبادلات ( سماجی تبدیلی ) جو ان کے وقت کے لئے خاص اور موافق ہوتے ہیں کے نتیجے دریافت کرنے ہوں گے۔

کیا گلوبلائزیشن کے تحت منڈی کی جمہوریتیں سماجی انقلابات کے لیے موافقت رکھتی ہیں یا رکاوٹ؟

اس کا تعین ہر ایک کیس میں علیحدہ ہوگا۔ اس کا جواب بھی مفروضاتی ہی ہوگا۔

اقتصادی بحران، رشوت ستانی جمہوری اداروں کا جابرانہ رد عمل عوامی بغاوتوں اور کبھی کبھار حکومتوں کے خاتمہ کا باعث تو بن جاتا ہے لیکن انقلابی عامل ( سماجی تبدیلی منظم کرنے یا لانے والی قوت ) کی غیر حاضری کے باعث پیدا شدہ خلا پر نہیں ہو پاتا۔ لہٰذا محض عوام کا حکومت مخالف غصہ کافی نہیں ہے۔ کچھ اور بھی چاہیے۔ انقلابی طاقت کی تعمیر اور قوتوں کو مجتمع کرنا دُور رَس زاویۂ نظر کا تقاضا کرتے ہیں۔

سماجی انقلابات آخری اقدامات ہوتے ہیں۔ اس لیئے بہت کم واقع ہوتے ہیں۔

سماجی انقلابات نیچے سے ہونے والے بڑے ترقی پسندانہ سلسلے ہیں جو طاقت کے ڈھانچوں کے پورے نظام کا سامنا کرتے ہیں۔ انقلابیوں اور حکومتوں، ہر دو کے لیے سیاسی کامیابی ایک ایسا اَمر ہے جو دوسرے اُمور سے منسلک ہے۔ اس کے لئے اس پر بے تکان کام کرنے کی ضرورت ہے پھر بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کامیاب نہ ہو۔ ناکامیوں سے سیکھنا مستقبل کی کامیابیوں کا باعث ہو سکتا ہے۔ جیسے رُوس میں 1905ء کی ناکامی 1917ء کی مشق ثابت ہوئی۔

(جاری ہے)

—♦—

Azam
مصنف کے بارے

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">

انقلاب ایک سٹریٹجی ہے جسے کارکن اس وقت استعمال کرتے ہیں جب ترقی پسندانہ تبدیلی کے روایتی واداراتی تمام راستے بند ہو جاتے ہیں۔ دوسرے ادوار کی طرح مارکیٹ اکانومی بھی انقلابات اور ترقی پسندانہ تبدیلیوں کے لئے مواقع اورساتھ ہی رکاوٹیں بھی پیدا کرتی ہے۔ حالیہ ملکی اور عالمی ماحول کے تناظر میں انقلابات کے نمو پانے کے امکانات متعدد پیچیدہ مسائل سے دو چار ہیں۔ انقلاب کے تصور، ریاستی ایجنسیوں کے کرداراور گلوبلائزیشن کے ماحول میں سیاسی طاقت پر سنجیدہ غور وفکر درکار ہے۔ سماجی انقلابات، سیاسی، نظریاتی، سماجی اور اقتصادی عوامل کے تحت قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر خاص انقلابی حالات میں پیدا ہوتے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے انقلابی حالات ہوتے ہیں؟ جو بنیادی سماجی تبدیلی کا مؤجب بنتے ہیں۔

کیا اس کے لیے نابرابری اور معاشی مشکلات کافی نہیں ہیں؟ نہیں کافی نہیں ہیں! بنیادی سماجی تبدیلیوں ( طبقاتی انقلابات) کے وقوع پذیرہونے یا لانے کی پہلی شرط ہے کہ محنت کش عوام اور مڈل کلاس کے لیے موجود نظام کے اندر زندگی گزارنے کے تمام مواقع Exhaust ہو جائیں۔ لاطینی امریکا کی تبدیلیاں بتاتی ہیں کہ وہاں ابھی زندگی گزارنے کے ایسے ترقی پسند امکانات ختم نہیں ہوئے۔ انہی حالات نے وہاں کے انقلابات کو سامراج دشمن اور جمہوری کردار سے آگے بڑھنے کا راستہ نہیں دیا۔

طبقاتی انقلابات کے لیےصرف معاشی مشکلات اور سماجی نابرابری کافی نہیں۔ ایسے انقلابات کے لئے سیاسی شعور، تنظیم اور قیادت بھی ضروری ہے۔

انقلابی شعور کے ساتھ ساتھ شعوری شفافیت کا ہونا بھی شرط اوّل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ورنہ انقلاب ایران رُونما ہوتے ہیں۔ ظلم سے ٹکرانے کے ارادے کو شعور اور تنطیم کے بغیر مضبوط بنانا ممکن نہیں ہوگا۔ انفرادی دُکھوں کو اجتماعی سیاسی عمل کا راستہ دکھانا ہوگا۔ عوام کو اس عمل کے خلاف جدوجہد کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی دشمن ( حاکم طبقے ) کے اپنے اندر اور بین الاقوامی سرمایہ دار دنیا میں تضاد، کشمکش کا اُبھرنا، موجود ہونا لازم ہوتا ہے۔

ہر تاریخی دور کی اپنی قسم کی سماجی ناانصافیوں، سیاسی جبر، اجتماعی اعمال اور قیدوبند سے آزادی کی اُمنگیں ہوتی ہیں۔ سماجی انقلابات کے مستقل خدوخال، بدلتے ہوئے متبادلات ( سماجی تبدیلی ) جو ان کے وقت کے لئے خاص اور موافق ہوتے ہیں کے نتیجے دریافت کرنے ہوں گے۔

کیا گلوبلائزیشن کے تحت منڈی کی جمہوریتیں سماجی انقلابات کے لیے موافقت رکھتی ہیں یا رکاوٹ؟

اس کا تعین ہر ایک کیس میں علیحدہ ہوگا۔ اس کا جواب بھی مفروضاتی ہی ہوگا۔

اقتصادی بحران، رشوت ستانی جمہوری اداروں کا جابرانہ رد عمل عوامی بغاوتوں اور کبھی کبھار حکومتوں کے خاتمہ کا باعث تو بن جاتا ہے لیکن انقلابی عامل ( سماجی تبدیلی منظم کرنے یا لانے والی قوت ) کی غیر حاضری کے باعث پیدا شدہ خلا پر نہیں ہو پاتا۔ لہٰذا محض عوام کا حکومت مخالف غصہ کافی نہیں ہے۔ کچھ اور بھی چاہیے۔ انقلابی طاقت کی تعمیر اور قوتوں کو مجتمع کرنا دُور رَس زاویۂ نظر کا تقاضا کرتے ہیں۔

سماجی انقلابات آخری اقدامات ہوتے ہیں۔ اس لیئے بہت کم واقع ہوتے ہیں۔

سماجی انقلابات نیچے سے ہونے والے بڑے ترقی پسندانہ سلسلے ہیں جو طاقت کے ڈھانچوں کے پورے نظام کا سامنا کرتے ہیں۔ انقلابیوں اور حکومتوں، ہر دو کے لیے سیاسی کامیابی ایک ایسا اَمر ہے جو دوسرے اُمور سے منسلک ہے۔ اس کے لئے اس پر بے تکان کام کرنے کی ضرورت ہے پھر بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کامیاب نہ ہو۔ ناکامیوں سے سیکھنا مستقبل کی کامیابیوں کا باعث ہو سکتا ہے۔ جیسے رُوس میں 1905ء کی ناکامی 1917ء کی مشق ثابت ہوئی۔

(جاری ہے)

—♦—

Azam
مصنف کے بارے

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Tags: Class StruggleHistoryPhilosophyRevolutionsRussian Revolution
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

by للکار نیوز
اپریل 6, 2025
0
0

اگرچہ بظاہر استعماریت کا خاتمہ گزشتہ صدی میں ہو چکا ہے، لیکن حقیقت میں مغربی طاقتیں اپنی سابقہ نوآبادیات پر...

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

by للکار نیوز
اکتوبر 13, 2024
0
0

پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں...

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

by للکار نیوز
اکتوبر 5, 2024
1
0

پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد...

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

by للکار نیوز
ستمبر 27, 2024
0
0

پانچ دہائیوں تک ہندوستان کی قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برِصغیر کے نامور مارکسی مفکر، انقلابی تحریکوں...

بلوچ جدوجہد اور بلوچوں کی تاریخی حقیقت؟ – تحریر:ممتاز احمد آرزو

by للکار نیوز
ستمبر 26, 2024
0
0

ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا...

کالے کوئلے کو سفید بنانے والی ”دانائی“ اور ماحولیاتی سوال! – تحریر:بخشل تھلہو

by للکار نیوز
ستمبر 8, 2024
0
0

اس اگست کی دو تاریخ کو نصیر میمن صاحب نے اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ کی، جس میں...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.