• Latest

انقلاب سنجیدہ تنقیدی مطالعہ اورتحرک قوت متخیلہ کی شادی کے متقاضی ہوتے ہیں! – تحریر: رانا اعظم

اپریل 4, 2024

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
منگل, مئی 20, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home home مضامین

انقلاب سنجیدہ تنقیدی مطالعہ اورتحرک قوت متخیلہ کی شادی کے متقاضی ہوتے ہیں! – تحریر: رانا اعظم

انقلابات گہری انسانی تخلیق ہوتے ہیں نہ کہ ناگزیر قدرتی افعال ۔۔۔ انقلابات آتے نہیں بلکہ لائے ( کیے ) جاتے ہیں۔

للکار نیوز by للکار نیوز
اپریل 4, 2024
in مضامین
A A
2

جب ٹوقوئل Tocqueville یہ کہتا ہے کہ ہو سکتا ہے فرانس، رُوس، چین، کیوبا جیسےانقلابات کم ہو جائیں لیکن جب تک استحصال، نابرابری، ناانصافی اور ظلم و جبر جاری ہیں لوگ آزادی، برابری اور انصاف کے لیے دستیاب وسائل کے ذریعے جدوجہد کرتے رہیں گے۔

انقلابات گہری انسانی تخلیق ہوتے ہیں نہ کہ ناگزیر قدرتی افعال ۔۔۔

انقلابات آتے نہیں بلکہ لائے ( کیے ) جاتے ہیں۔ تو ٹھیک ہی کہتا ہے!

بیسویں صدی اور حالیہ لاطینی امریکا کے سامراج دشمن انقلابات سمیت دوسری عالمی جنگ سے قبل کی دو صدیوں کے انقلابات پرنظر ڈالیں تو آپ کے سامنے ان کی ایک سے زائد اشکال آتی ہیں۔ فرانسیسی ، سوویت، اور میکسیکن ۔ سرد جنگ کے دور میں چار انقلابات ویتنام ، الجیریا ، انگولا ، اور موزمبیق وقوع پذیر ہوئے جو بنیادی طور پر نوآبادیاتی جنگ ِآزادی کا ثمر ہیں ۔ دو انقلابات شخصی آمریتوں کے خلاف کیوبا ، نکاراگوا، اگر ہم ایران کو بھی شامل کرلیں تو تین ۔ ایران کے بارے نظریاتی اختلاف کو فی الحال بالائے طاق رکھتے ہیں۔ یہ تینوں انقلاب بنیادی طور پر بالائے طبقہ تھے ۔ مشرقی یورپ کی صورت بلکل مختلف تھی ۔ دوسری عالمی جنگ میں سوویت فتح کا نتیجہ ۔

لاطینی امریکہ کے حالیہ انقلابات سامراجی غلبے ، استحصال اور ظلم و تشدد کے خلاف سامراج دشمن اور جمہوری رہے ہیں۔ ہم ان انقلابات کا طبقاتی بنیادوں پر مطالعہ نہیں کر سکتے۔ ان انقلابات کے حمایتی اکثر اوقات سماج کی تمام پرتوں سے اپنے سامراج دشمن مفادات کی بنیاد پر آتے رہے ہیں لیکن محنت کش طبقوں کی سماجی انصاف کی مانگ کی بنیاد پر بڑی شمولیت نے انہیں انقلابی شکل دے دی ۔ محنت کشوں کی ان انقلابات سے اُمیدیں کس حد تک بر آئیں ؟ یہ سوال الگ اور بنیادی بھی ہے ۔

انتخابی شکل میں غیر طبقاتی بنیادوں پر آنے والی تبدیلیاں عوام دشمن ریاستی اداروں ، سامراجی معاہدوں ، کثیرالقومی تنظیمیں ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف وغیرہ اور سرمائے کے اڑان کے امکانات کی موجودگی میں کس حد تک محنت کشوں کی اُمیدیں پوری کر سکتی تھیں یا ہو سکی ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جسے انقلابات کی کامیابی کی کنجی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ یہی سوال ہمارے اپنے لیے بھی ہمیشہ dilemma بنا رہا ہے ۔ جس کا آج بھی کوئی حل سجھائی نہیں دیتا ۔

ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ انقلابی سلسلوں کی کوئی ایک روایت نہیں ہے۔ ہر انقلاب کے اپنے مدعی تھے جنہوں نے مختلف اوقات ومقامات میں مختلف وجوہات کی بنا پر مختلف طریقوں سے عمل اور رد ِعمل کیا ۔ ان میں یکسانیاں تلاش کرتے ہوئے ہمیں ان کے درمیان فرق/ اختلافات دریافت کرنے اور سمجھنے بھی چاہئیں ۔

ایرک سیلبین کا خیال ہے کہ اس کی جڑیں زیادہ گہری ، زیادہ پرانی اور بہت پھیلی ہوئی ہیں ۔

لبرل جمہوریت/ حالیہ سرمایہ داری، انقلابی بلاوے اور دعوے دبا نہیں سکے گی ۔

جبر ، ناانصافیوں اور مزاحمت کی ماضی کی مشترک علامتیں؛ چی گویرا ، ٹی شرٹ زپاٹسٹا گھوڑا اور پراسرار قصے کہانیاں ،تصورات مختلف انقلابات میں اُبھرتے اور پھر اُبھرتے ہیں ، سے انکار نہیں جو عوام کی لفظیات کو عملی نظریے میں ڈھال لیتے ہیں ۔

لوگ بھوکے ہیں ۔ امیروں اور غریبوں میں بڑھتا ہوا فرق ، نیو لبرل ازم کے جھوٹے وعدے بھوکے عوام کےغصے کو کم نہیں کر سکتے ۔ جب کہ محنت کش بغاوت اور انقلاب کے ماضی کے تاریخی بیانیوں سے مالامال بھی ہوں ۔ یہ تاریخی بیانیے جب ایسے ہیروز لینن ، ماؤزے تنگ ، ہوچی منہہ ، فیڈل کاسترو ، چی گویرا کے گرد بنے ہوئے ہوں ۔ یہ بیانیے، کہانیاں از خود بہت سے سوالوں کا جواب ہوتے ہیں ۔ کہانیاں ماضی کو زندہ رکھتی ہیں ۔ ماضی حال میں یاد کیئے جاتے ہیں ۔ اور ہماری حالیہ خواہشیں ہمارے مستقبل کو خیال میں لاتی ہیں ۔ ماضی حال اور مستقبل ہمارے ذہن میں مل جاتے ہیں۔ ان سے آدمی اپنے مقام کا تعین کرتا ہے ۔

کہانیاں ماضی حال اور مستقبل کی نسلوں پر ذمے داریاں عائد کرتی ہیں جن میں ہر نسل کی جدوجہدوں کا دفاع کرنا اور مستقبل کا فرض نبھانا ہے ۔ انقلابی لوگ ماضی اور حال کے درمیان حرکت کرنا چاہتے ہیں ۔ انقلابی سورماؤں اور شہدا کو دعائیہ بلاوا انقلابیوں کے لیئے ایک طاقتور ترغیبی اوزار ہے ۔ وہ انہیں استعمال کرتے ہیں ۔ دوسری طرف رجعتی لوگ اس سے دفع بلیات بلاؤں کو دُور کرتے ہیں تاکہ انقلاب کو کند کر سکیں ۔ عوام اپنی زندگیوں کو اپنے مقامی ، مادی اور نظریاتی حالتوں، بصیرتوں، اُمنگوں کے مطابق انہیں ترقی دینے کے لیئے۔۔۔

ان کی تکمیل تک مزاحمت ، بغاوت اور انقلاب کی اُمید زندہ رکھیں گے۔

(جاری ہے)

 —♦—

 
Azam
مصنف کے بارے

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

Comments 2

  1. MAHMOODSARWAR says:
    1 سال ago

    I have been reading a book recently and it gives the similar message as is discussed in the post. Freedom is a constant struggle’ – Angela Y. Davis.

    جواب دیں
    • للکار نیوز says:
      1 سال ago

      Dear Mahmood Sarwar Sahab, Glad to know this, you should write a review when you finish the reading or can write an article on the topic to enlighten other fellows.

      جواب دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">

جب ٹوقوئل Tocqueville یہ کہتا ہے کہ ہو سکتا ہے فرانس، رُوس، چین، کیوبا جیسےانقلابات کم ہو جائیں لیکن جب تک استحصال، نابرابری، ناانصافی اور ظلم و جبر جاری ہیں لوگ آزادی، برابری اور انصاف کے لیے دستیاب وسائل کے ذریعے جدوجہد کرتے رہیں گے۔

انقلابات گہری انسانی تخلیق ہوتے ہیں نہ کہ ناگزیر قدرتی افعال ۔۔۔

انقلابات آتے نہیں بلکہ لائے ( کیے ) جاتے ہیں۔ تو ٹھیک ہی کہتا ہے!

بیسویں صدی اور حالیہ لاطینی امریکا کے سامراج دشمن انقلابات سمیت دوسری عالمی جنگ سے قبل کی دو صدیوں کے انقلابات پرنظر ڈالیں تو آپ کے سامنے ان کی ایک سے زائد اشکال آتی ہیں۔ فرانسیسی ، سوویت، اور میکسیکن ۔ سرد جنگ کے دور میں چار انقلابات ویتنام ، الجیریا ، انگولا ، اور موزمبیق وقوع پذیر ہوئے جو بنیادی طور پر نوآبادیاتی جنگ ِآزادی کا ثمر ہیں ۔ دو انقلابات شخصی آمریتوں کے خلاف کیوبا ، نکاراگوا، اگر ہم ایران کو بھی شامل کرلیں تو تین ۔ ایران کے بارے نظریاتی اختلاف کو فی الحال بالائے طاق رکھتے ہیں۔ یہ تینوں انقلاب بنیادی طور پر بالائے طبقہ تھے ۔ مشرقی یورپ کی صورت بلکل مختلف تھی ۔ دوسری عالمی جنگ میں سوویت فتح کا نتیجہ ۔

لاطینی امریکہ کے حالیہ انقلابات سامراجی غلبے ، استحصال اور ظلم و تشدد کے خلاف سامراج دشمن اور جمہوری رہے ہیں۔ ہم ان انقلابات کا طبقاتی بنیادوں پر مطالعہ نہیں کر سکتے۔ ان انقلابات کے حمایتی اکثر اوقات سماج کی تمام پرتوں سے اپنے سامراج دشمن مفادات کی بنیاد پر آتے رہے ہیں لیکن محنت کش طبقوں کی سماجی انصاف کی مانگ کی بنیاد پر بڑی شمولیت نے انہیں انقلابی شکل دے دی ۔ محنت کشوں کی ان انقلابات سے اُمیدیں کس حد تک بر آئیں ؟ یہ سوال الگ اور بنیادی بھی ہے ۔

انتخابی شکل میں غیر طبقاتی بنیادوں پر آنے والی تبدیلیاں عوام دشمن ریاستی اداروں ، سامراجی معاہدوں ، کثیرالقومی تنظیمیں ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف وغیرہ اور سرمائے کے اڑان کے امکانات کی موجودگی میں کس حد تک محنت کشوں کی اُمیدیں پوری کر سکتی تھیں یا ہو سکی ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جسے انقلابات کی کامیابی کی کنجی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ یہی سوال ہمارے اپنے لیے بھی ہمیشہ dilemma بنا رہا ہے ۔ جس کا آج بھی کوئی حل سجھائی نہیں دیتا ۔

ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ انقلابی سلسلوں کی کوئی ایک روایت نہیں ہے۔ ہر انقلاب کے اپنے مدعی تھے جنہوں نے مختلف اوقات ومقامات میں مختلف وجوہات کی بنا پر مختلف طریقوں سے عمل اور رد ِعمل کیا ۔ ان میں یکسانیاں تلاش کرتے ہوئے ہمیں ان کے درمیان فرق/ اختلافات دریافت کرنے اور سمجھنے بھی چاہئیں ۔

ایرک سیلبین کا خیال ہے کہ اس کی جڑیں زیادہ گہری ، زیادہ پرانی اور بہت پھیلی ہوئی ہیں ۔

لبرل جمہوریت/ حالیہ سرمایہ داری، انقلابی بلاوے اور دعوے دبا نہیں سکے گی ۔

جبر ، ناانصافیوں اور مزاحمت کی ماضی کی مشترک علامتیں؛ چی گویرا ، ٹی شرٹ زپاٹسٹا گھوڑا اور پراسرار قصے کہانیاں ،تصورات مختلف انقلابات میں اُبھرتے اور پھر اُبھرتے ہیں ، سے انکار نہیں جو عوام کی لفظیات کو عملی نظریے میں ڈھال لیتے ہیں ۔

لوگ بھوکے ہیں ۔ امیروں اور غریبوں میں بڑھتا ہوا فرق ، نیو لبرل ازم کے جھوٹے وعدے بھوکے عوام کےغصے کو کم نہیں کر سکتے ۔ جب کہ محنت کش بغاوت اور انقلاب کے ماضی کے تاریخی بیانیوں سے مالامال بھی ہوں ۔ یہ تاریخی بیانیے جب ایسے ہیروز لینن ، ماؤزے تنگ ، ہوچی منہہ ، فیڈل کاسترو ، چی گویرا کے گرد بنے ہوئے ہوں ۔ یہ بیانیے، کہانیاں از خود بہت سے سوالوں کا جواب ہوتے ہیں ۔ کہانیاں ماضی کو زندہ رکھتی ہیں ۔ ماضی حال میں یاد کیئے جاتے ہیں ۔ اور ہماری حالیہ خواہشیں ہمارے مستقبل کو خیال میں لاتی ہیں ۔ ماضی حال اور مستقبل ہمارے ذہن میں مل جاتے ہیں۔ ان سے آدمی اپنے مقام کا تعین کرتا ہے ۔

کہانیاں ماضی حال اور مستقبل کی نسلوں پر ذمے داریاں عائد کرتی ہیں جن میں ہر نسل کی جدوجہدوں کا دفاع کرنا اور مستقبل کا فرض نبھانا ہے ۔ انقلابی لوگ ماضی اور حال کے درمیان حرکت کرنا چاہتے ہیں ۔ انقلابی سورماؤں اور شہدا کو دعائیہ بلاوا انقلابیوں کے لیئے ایک طاقتور ترغیبی اوزار ہے ۔ وہ انہیں استعمال کرتے ہیں ۔ دوسری طرف رجعتی لوگ اس سے دفع بلیات بلاؤں کو دُور کرتے ہیں تاکہ انقلاب کو کند کر سکیں ۔ عوام اپنی زندگیوں کو اپنے مقامی ، مادی اور نظریاتی حالتوں، بصیرتوں، اُمنگوں کے مطابق انہیں ترقی دینے کے لیئے۔۔۔

ان کی تکمیل تک مزاحمت ، بغاوت اور انقلاب کی اُمید زندہ رکھیں گے۔

(جاری ہے)

 —♦—

 
Azam
مصنف کے بارے

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

Comments 2

  1. MAHMOODSARWAR says:
    1 سال ago

    I have been reading a book recently and it gives the similar message as is discussed in the post. Freedom is a constant struggle’ – Angela Y. Davis.

    جواب دیں
    • للکار نیوز says:
      1 سال ago

      Dear Mahmood Sarwar Sahab, Glad to know this, you should write a review when you finish the reading or can write an article on the topic to enlighten other fellows.

      جواب دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Tags: Che GuevaraFidel CastroHistoryHuo Chi MinhLeninMaoRevolutions
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

by للکار نیوز
اپریل 6, 2025
0
0

اگرچہ بظاہر استعماریت کا خاتمہ گزشتہ صدی میں ہو چکا ہے، لیکن حقیقت میں مغربی طاقتیں اپنی سابقہ نوآبادیات پر...

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

by للکار نیوز
اکتوبر 13, 2024
0
0

پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں...

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

by للکار نیوز
اکتوبر 5, 2024
1
0

پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد...

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

by للکار نیوز
ستمبر 27, 2024
0
0

پانچ دہائیوں تک ہندوستان کی قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برِصغیر کے نامور مارکسی مفکر، انقلابی تحریکوں...

بلوچ جدوجہد اور بلوچوں کی تاریخی حقیقت؟ – تحریر:ممتاز احمد آرزو

by للکار نیوز
ستمبر 26, 2024
0
0

ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا...

کالے کوئلے کو سفید بنانے والی ”دانائی“ اور ماحولیاتی سوال! – تحریر:بخشل تھلہو

by للکار نیوز
ستمبر 8, 2024
0
0

اس اگست کی دو تاریخ کو نصیر میمن صاحب نے اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ کی، جس میں...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.