جب ٹوقوئل Tocqueville یہ کہتا ہے کہ ہو سکتا ہے فرانس، رُوس، چین، کیوبا جیسےانقلابات کم ہو جائیں لیکن جب تک استحصال، نابرابری، ناانصافی اور ظلم و جبر جاری ہیں لوگ آزادی، برابری اور انصاف کے لیے دستیاب وسائل کے ذریعے جدوجہد کرتے رہیں گے۔
انقلابات گہری انسانی تخلیق ہوتے ہیں نہ کہ ناگزیر قدرتی افعال ۔۔۔
انقلابات آتے نہیں بلکہ لائے ( کیے ) جاتے ہیں۔ تو ٹھیک ہی کہتا ہے!
بیسویں صدی اور حالیہ لاطینی امریکا کے سامراج دشمن انقلابات سمیت دوسری عالمی جنگ سے قبل کی دو صدیوں کے انقلابات پرنظر ڈالیں تو آپ کے سامنے ان کی ایک سے زائد اشکال آتی ہیں۔ فرانسیسی ، سوویت، اور میکسیکن ۔ سرد جنگ کے دور میں چار انقلابات ویتنام ، الجیریا ، انگولا ، اور موزمبیق وقوع پذیر ہوئے جو بنیادی طور پر نوآبادیاتی جنگ ِآزادی کا ثمر ہیں ۔ دو انقلابات شخصی آمریتوں کے خلاف کیوبا ، نکاراگوا، اگر ہم ایران کو بھی شامل کرلیں تو تین ۔ ایران کے بارے نظریاتی اختلاف کو فی الحال بالائے طاق رکھتے ہیں۔ یہ تینوں انقلاب بنیادی طور پر بالائے طبقہ تھے ۔ مشرقی یورپ کی صورت بلکل مختلف تھی ۔ دوسری عالمی جنگ میں سوویت فتح کا نتیجہ ۔
لاطینی امریکہ کے حالیہ انقلابات سامراجی غلبے ، استحصال اور ظلم و تشدد کے خلاف سامراج دشمن اور جمہوری رہے ہیں۔ ہم ان انقلابات کا طبقاتی بنیادوں پر مطالعہ نہیں کر سکتے۔ ان انقلابات کے حمایتی اکثر اوقات سماج کی تمام پرتوں سے اپنے سامراج دشمن مفادات کی بنیاد پر آتے رہے ہیں لیکن محنت کش طبقوں کی سماجی انصاف کی مانگ کی بنیاد پر بڑی شمولیت نے انہیں انقلابی شکل دے دی ۔ محنت کشوں کی ان انقلابات سے اُمیدیں کس حد تک بر آئیں ؟ یہ سوال الگ اور بنیادی بھی ہے ۔
انتخابی شکل میں غیر طبقاتی بنیادوں پر آنے والی تبدیلیاں عوام دشمن ریاستی اداروں ، سامراجی معاہدوں ، کثیرالقومی تنظیمیں ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف وغیرہ اور سرمائے کے اڑان کے امکانات کی موجودگی میں کس حد تک محنت کشوں کی اُمیدیں پوری کر سکتی تھیں یا ہو سکی ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جسے انقلابات کی کامیابی کی کنجی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ یہی سوال ہمارے اپنے لیے بھی ہمیشہ dilemma بنا رہا ہے ۔ جس کا آج بھی کوئی حل سجھائی نہیں دیتا ۔
ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ انقلابی سلسلوں کی کوئی ایک روایت نہیں ہے۔ ہر انقلاب کے اپنے مدعی تھے جنہوں نے مختلف اوقات ومقامات میں مختلف وجوہات کی بنا پر مختلف طریقوں سے عمل اور رد ِعمل کیا ۔ ان میں یکسانیاں تلاش کرتے ہوئے ہمیں ان کے درمیان فرق/ اختلافات دریافت کرنے اور سمجھنے بھی چاہئیں ۔
ایرک سیلبین کا خیال ہے کہ اس کی جڑیں زیادہ گہری ، زیادہ پرانی اور بہت پھیلی ہوئی ہیں ۔
لبرل جمہوریت/ حالیہ سرمایہ داری، انقلابی بلاوے اور دعوے دبا نہیں سکے گی ۔
جبر ، ناانصافیوں اور مزاحمت کی ماضی کی مشترک علامتیں؛ چی گویرا ، ٹی شرٹ زپاٹسٹا گھوڑا اور پراسرار قصے کہانیاں ،تصورات مختلف انقلابات میں اُبھرتے اور پھر اُبھرتے ہیں ، سے انکار نہیں جو عوام کی لفظیات کو عملی نظریے میں ڈھال لیتے ہیں ۔
لوگ بھوکے ہیں ۔ امیروں اور غریبوں میں بڑھتا ہوا فرق ، نیو لبرل ازم کے جھوٹے وعدے بھوکے عوام کےغصے کو کم نہیں کر سکتے ۔ جب کہ محنت کش بغاوت اور انقلاب کے ماضی کے تاریخی بیانیوں سے مالامال بھی ہوں ۔ یہ تاریخی بیانیے جب ایسے ہیروز لینن ، ماؤزے تنگ ، ہوچی منہہ ، فیڈل کاسترو ، چی گویرا کے گرد بنے ہوئے ہوں ۔ یہ بیانیے، کہانیاں از خود بہت سے سوالوں کا جواب ہوتے ہیں ۔ کہانیاں ماضی کو زندہ رکھتی ہیں ۔ ماضی حال میں یاد کیئے جاتے ہیں ۔ اور ہماری حالیہ خواہشیں ہمارے مستقبل کو خیال میں لاتی ہیں ۔ ماضی حال اور مستقبل ہمارے ذہن میں مل جاتے ہیں۔ ان سے آدمی اپنے مقام کا تعین کرتا ہے ۔
کہانیاں ماضی حال اور مستقبل کی نسلوں پر ذمے داریاں عائد کرتی ہیں جن میں ہر نسل کی جدوجہدوں کا دفاع کرنا اور مستقبل کا فرض نبھانا ہے ۔ انقلابی لوگ ماضی اور حال کے درمیان حرکت کرنا چاہتے ہیں ۔ انقلابی سورماؤں اور شہدا کو دعائیہ بلاوا انقلابیوں کے لیئے ایک طاقتور ترغیبی اوزار ہے ۔ وہ انہیں استعمال کرتے ہیں ۔ دوسری طرف رجعتی لوگ اس سے دفع بلیات بلاؤں کو دُور کرتے ہیں تاکہ انقلاب کو کند کر سکیں ۔ عوام اپنی زندگیوں کو اپنے مقامی ، مادی اور نظریاتی حالتوں، بصیرتوں، اُمنگوں کے مطابق انہیں ترقی دینے کے لیئے۔۔۔
ان کی تکمیل تک مزاحمت ، بغاوت اور انقلاب کی اُمید زندہ رکھیں گے۔
(جاری ہے)
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 2
جواب دیں جواب منسوخ کریں
جب ٹوقوئل Tocqueville یہ کہتا ہے کہ ہو سکتا ہے فرانس، رُوس، چین، کیوبا جیسےانقلابات کم ہو جائیں لیکن جب تک استحصال، نابرابری، ناانصافی اور ظلم و جبر جاری ہیں لوگ آزادی، برابری اور انصاف کے لیے دستیاب وسائل کے ذریعے جدوجہد کرتے رہیں گے۔
انقلابات گہری انسانی تخلیق ہوتے ہیں نہ کہ ناگزیر قدرتی افعال ۔۔۔
انقلابات آتے نہیں بلکہ لائے ( کیے ) جاتے ہیں۔ تو ٹھیک ہی کہتا ہے!
بیسویں صدی اور حالیہ لاطینی امریکا کے سامراج دشمن انقلابات سمیت دوسری عالمی جنگ سے قبل کی دو صدیوں کے انقلابات پرنظر ڈالیں تو آپ کے سامنے ان کی ایک سے زائد اشکال آتی ہیں۔ فرانسیسی ، سوویت، اور میکسیکن ۔ سرد جنگ کے دور میں چار انقلابات ویتنام ، الجیریا ، انگولا ، اور موزمبیق وقوع پذیر ہوئے جو بنیادی طور پر نوآبادیاتی جنگ ِآزادی کا ثمر ہیں ۔ دو انقلابات شخصی آمریتوں کے خلاف کیوبا ، نکاراگوا، اگر ہم ایران کو بھی شامل کرلیں تو تین ۔ ایران کے بارے نظریاتی اختلاف کو فی الحال بالائے طاق رکھتے ہیں۔ یہ تینوں انقلاب بنیادی طور پر بالائے طبقہ تھے ۔ مشرقی یورپ کی صورت بلکل مختلف تھی ۔ دوسری عالمی جنگ میں سوویت فتح کا نتیجہ ۔
لاطینی امریکہ کے حالیہ انقلابات سامراجی غلبے ، استحصال اور ظلم و تشدد کے خلاف سامراج دشمن اور جمہوری رہے ہیں۔ ہم ان انقلابات کا طبقاتی بنیادوں پر مطالعہ نہیں کر سکتے۔ ان انقلابات کے حمایتی اکثر اوقات سماج کی تمام پرتوں سے اپنے سامراج دشمن مفادات کی بنیاد پر آتے رہے ہیں لیکن محنت کش طبقوں کی سماجی انصاف کی مانگ کی بنیاد پر بڑی شمولیت نے انہیں انقلابی شکل دے دی ۔ محنت کشوں کی ان انقلابات سے اُمیدیں کس حد تک بر آئیں ؟ یہ سوال الگ اور بنیادی بھی ہے ۔
انتخابی شکل میں غیر طبقاتی بنیادوں پر آنے والی تبدیلیاں عوام دشمن ریاستی اداروں ، سامراجی معاہدوں ، کثیرالقومی تنظیمیں ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف وغیرہ اور سرمائے کے اڑان کے امکانات کی موجودگی میں کس حد تک محنت کشوں کی اُمیدیں پوری کر سکتی تھیں یا ہو سکی ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جسے انقلابات کی کامیابی کی کنجی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ یہی سوال ہمارے اپنے لیے بھی ہمیشہ dilemma بنا رہا ہے ۔ جس کا آج بھی کوئی حل سجھائی نہیں دیتا ۔
ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ انقلابی سلسلوں کی کوئی ایک روایت نہیں ہے۔ ہر انقلاب کے اپنے مدعی تھے جنہوں نے مختلف اوقات ومقامات میں مختلف وجوہات کی بنا پر مختلف طریقوں سے عمل اور رد ِعمل کیا ۔ ان میں یکسانیاں تلاش کرتے ہوئے ہمیں ان کے درمیان فرق/ اختلافات دریافت کرنے اور سمجھنے بھی چاہئیں ۔
ایرک سیلبین کا خیال ہے کہ اس کی جڑیں زیادہ گہری ، زیادہ پرانی اور بہت پھیلی ہوئی ہیں ۔
لبرل جمہوریت/ حالیہ سرمایہ داری، انقلابی بلاوے اور دعوے دبا نہیں سکے گی ۔
جبر ، ناانصافیوں اور مزاحمت کی ماضی کی مشترک علامتیں؛ چی گویرا ، ٹی شرٹ زپاٹسٹا گھوڑا اور پراسرار قصے کہانیاں ،تصورات مختلف انقلابات میں اُبھرتے اور پھر اُبھرتے ہیں ، سے انکار نہیں جو عوام کی لفظیات کو عملی نظریے میں ڈھال لیتے ہیں ۔
لوگ بھوکے ہیں ۔ امیروں اور غریبوں میں بڑھتا ہوا فرق ، نیو لبرل ازم کے جھوٹے وعدے بھوکے عوام کےغصے کو کم نہیں کر سکتے ۔ جب کہ محنت کش بغاوت اور انقلاب کے ماضی کے تاریخی بیانیوں سے مالامال بھی ہوں ۔ یہ تاریخی بیانیے جب ایسے ہیروز لینن ، ماؤزے تنگ ، ہوچی منہہ ، فیڈل کاسترو ، چی گویرا کے گرد بنے ہوئے ہوں ۔ یہ بیانیے، کہانیاں از خود بہت سے سوالوں کا جواب ہوتے ہیں ۔ کہانیاں ماضی کو زندہ رکھتی ہیں ۔ ماضی حال میں یاد کیئے جاتے ہیں ۔ اور ہماری حالیہ خواہشیں ہمارے مستقبل کو خیال میں لاتی ہیں ۔ ماضی حال اور مستقبل ہمارے ذہن میں مل جاتے ہیں۔ ان سے آدمی اپنے مقام کا تعین کرتا ہے ۔
کہانیاں ماضی حال اور مستقبل کی نسلوں پر ذمے داریاں عائد کرتی ہیں جن میں ہر نسل کی جدوجہدوں کا دفاع کرنا اور مستقبل کا فرض نبھانا ہے ۔ انقلابی لوگ ماضی اور حال کے درمیان حرکت کرنا چاہتے ہیں ۔ انقلابی سورماؤں اور شہدا کو دعائیہ بلاوا انقلابیوں کے لیئے ایک طاقتور ترغیبی اوزار ہے ۔ وہ انہیں استعمال کرتے ہیں ۔ دوسری طرف رجعتی لوگ اس سے دفع بلیات بلاؤں کو دُور کرتے ہیں تاکہ انقلاب کو کند کر سکیں ۔ عوام اپنی زندگیوں کو اپنے مقامی ، مادی اور نظریاتی حالتوں، بصیرتوں، اُمنگوں کے مطابق انہیں ترقی دینے کے لیئے۔۔۔
ان کی تکمیل تک مزاحمت ، بغاوت اور انقلاب کی اُمید زندہ رکھیں گے۔
(جاری ہے)
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 2
-
MAHMOODSARWAR says:
I have been reading a book recently and it gives the similar message as is discussed in the post. Freedom is a constant struggle’ – Angela Y. Davis.
-
للکار نیوز says:
Dear Mahmood Sarwar Sahab, Glad to know this, you should write a review when you finish the reading or can write an article on the topic to enlighten other fellows.
-
I have been reading a book recently and it gives the similar message as is discussed in the post. Freedom is a constant struggle’ – Angela Y. Davis.
Dear Mahmood Sarwar Sahab, Glad to know this, you should write a review when you finish the reading or can write an article on the topic to enlighten other fellows.