یہ ایک بہت اہم موضوع ہے اور میرا خیال ہے کہ پاکستان میں چند دوستوں کے علاوہ شاید ہی کوئی اس موضوع پر معقول بات کر سکے۔ میں نے پاکستان کے مارکسیوں میں سے ابھی تک کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں دیکھا جو یہ بتا سکے کہ مارکسزم اور مابعدجدیدیت میں کیا فرق ہے۔ البتہ وہ مابعدجدیدیت کے بارے میں سرے سے ہی کچھ نہ جاننے کے باوجود دوسروں کے مارکسی اور پوسٹ ماڈرنسٹ ہونے کا تعین ضرور کرتے ہیں۔ میری کتابیں مارکسزم اور پوسٹ ماڈرن ازم کے تجزیات سے بھری ہوئی ہیں اور احباب جانتے ہیں کہ میں نے کن عوامل کی بنیاد پر مابعدجدیدیت پر تنقید لکھی ہے۔ تاہم اس مختصر تحریر میں میرا مقصد صرف چند بنیادی باتوں کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے، تاکہ عام قاری پر مابعد جدیدیت اور دیگر آئیڈیالوجیز کے درمیان بنیادی فرق عیاں ہو سکے۔ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو اس پر ایک تفصیلی مضمون بعد میں رقم کروں گا۔
سب سے پہلے یہ بات واضح رہے کہ مابعدجدیدیت کا جن ممالک میں ظہور ہوا ان ممالک میں یہ ایک علمیاتی اور ثقافتی مظہر تو ہے لیکن یہ کوئی سیاسی پوزیشن نہ کبھی تھی نہ ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں لیبر پارٹی، لبرل، قدامت پسند، سوشلسٹ ورکرز پارٹی وغیرہ موجود ہیں، اور اسی طرح فرانس اور جرمنی کی صورتحال ہے، لیکن کوئی بھی پوسٹ ماڈرنسٹ سیاسی جماعت کسی بھی ملک میں موجود نہیں ہے۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ مابعدجدیدیت کوئی عملی سیاسی ایجنڈا نہیں رکھتی۔ لہٰذا جب کوئی شخص کسی کو پوسٹ ماڈرنسٹ کہتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اصول تو یہی ہے کہ جو کوئی کسی دوسرے پر یہ لیبل چسپاں کرے اس کا مطلب بھی وہی بیان کرے۔ لیکن یہاں نہ لیبل چسپاں کرنے والا جانتا ہے نہ کوئی دوسرا کہ سوال ہی اٹھا سکے کہ پوسٹ ماڈرن ازم کا لیبل چسپاں کرنے والے کی کیا مراد ہے!
واضح رہے کہ برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ کی ہر سیاسی جماعت میکرو سیاست کرتی ہے۔ لیکن وہ لوگ جو مابعدجدیدیت سے استفادہ کرتے ہیں، وہ اس کو مائیکرو سیاست میں بروئے کار لاتے ہیں، لیکن مغرب میں مائیکرو سیاست کا کوئی وجود نہیں ہے۔ مائیکرو سطح پر مابعد جدید علمیات ہیگلیائی کلیت کو چیلنج کرتی ہے۔ اس کی طرف ہم تھوڑی دیر میں آتے ہیں۔ مائیکرو سیاست میں قومی، لسانی، علاقائی، فرقہ وارانہ، نسلی سیاست شامل ہیں۔ اگر کوئی شخص انہی بنیادوں پر مائیکرو سیاست نہیں کرتا تو وہ پوسٹ ماڈرنسٹ نہیں ہو سکتا۔
لہذا برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ میں میں بھی سیاسی سطح پر پوسٹ ماڈرن ازم کا کوئی وجود نہیں ہے۔ بلکہ مابعد جدیدیت ایک کلچرل کنڈیشن ہے۔ مرکزی دھارے کی ہر سیاسی جماعت اگر پاکستان میں ہے تو وفاق کی سیاست کرے گی، اور اگر برطانیہ، فرانس اور جرمنی وغیرہ کی ہے تو وہ مرکز کی سیاست کرتی ہے۔ مابعد جدیدیت صرف ان سیاسی جماعتوں کے کلیت پسندانہ رجحانات کو ہدف بناتی ہے جس کا اطلاق اگر یہ سیاسی جماعتیں ثقافتی سطح پر مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے گروہوں پر کریں۔ مغرب میں مابعدجدیدیت میں ثقافتی شناخت مابعد جدید مائیکرو شناخت کے تابع ہے۔ کیونکہ مابعدجدیدیت بنیادی طور پر فنی اور ثقافتی تحریک تھی۔ یہی ثقافتی شناخت ہے جس کی کسی بھی بڑے بیانیے کے نامیاتی کلیت پسندانہ رجحان کا میں شدید مخالف ہوں، اور یہی مائیکرو شناخت ہے جس کی کلچرل سطح پر میں کھل کر حمایت کرتا ہوں اور سٹالنسٹ اور سرمایہ دارانہ کلیت پسندی کے ان رجحانات کا مخالف ہوں جس میں ثقافتی سطح پر رنگ، نسل، قوم، زبان، صنف وغیرہ کی بنیاد پر امتیاز روا رکھا جا سکتا ہے یا کسی کلیت پسندانہ آئیڈیالوجی کے تحت کلچرل تنوع اور تکثیریت کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ثقافتی تکثیریت کی حمایت میں جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں وہ سبھی مابعدجدید مفکروں کے پیش کردہ ہیں۔ مارکسزم ہو یا لبرل ازم یا پھر مذہب وہ آخری تجزیے میں کلیت پسندانہ مہا بیانیے ہیں۔ میں کلچرل شناختوں کی تکثیریت کا قائل ہوں، جبکہ سیاسی سطح پر مائیکرو سیاست (قوم پرستی، علاقہ پرستی، رنگ، نسل، زبان وغیرہ) کا میں قائل نہیں ہوں، لیکن ثقافتی سطح پر میں ان شناختوں کی کلی تحلیل کی حمایت میں نہیں ہوں۔ وقت اگر کسی شناخت کی تحلیل کر دے تو میں اس کو برقرار رکھنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ لیکن بحیثیت مجموعی ثقافتی سطح پر میں "اوپن سوسائٹی” کا قائل ہوں۔ جبکہ سیاسی سطح پر میں سمجھتا ہوں کہ مارکسزم وہ واحد آئیڈیالوجی ہے جو سرمایہ داری نظام کا متبادل فراہم کرتی ہے۔ ایک سوشلسٹ سماج کا قیام ازحد ضروری ہے اور اس کے لیے وہ آئیڈیالوجی ضروری ہے جو سرمایہ داری کی اس کی کلیت میں تفہیم کرا سکے اور عملی سطح پر اس کا متبادل ہو۔
سرمایہ داری چونکہ اپنی سرشت میں کلیت پسندانہ رجحان رکھتی ہے، اس لیے ثقافتی سطح پر مابعد جدید مفکروں نے وہ علمیاتی اوزار فراہم کیے ہیں جو سرمایہ داری کلیت کو چیلنج کرتے ہیں۔ پاکستانی مارکسسٹ نہ ہی مابعد جدید "علمیات” سے آگاہ ہیں اور نہ ہی وہ مابعد جدید ثقافتی تنوع کا ہی کوئی فہم رکھتے ہیں۔
ہیگلیائی کلیت، فوکو کی مائکرو تھیوری اور دریدا کی کلیت کے اندر غیر متعین کلیت میں بہت فرق ہے۔ اس حوالے سے فکری سطح پر سب سے اہم جنگ دریدا اور ہیگل کے درمیان لڑی گئی ہے۔ واضح رہے کہ دریدا فوکو اور لیوٹارڈ کی مانند مابعدجدید مفکر نہیں ہے۔ وہ خود کو روشن خیالی سے جوڑتا ہے اور روشن خیالی ریزن پر ہی حملہ کرتا ہے۔ دریدا کا روشن خیالی پر حملہ باہر سے نہیں ہے، جیسا کہ دریدا کہتا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لیے روشن خیالی کے اندر رہتے ہوئے اس کے ان عوامل کو غیر مستحکم کرتا ہے جو علمیاتی اور ثقافتی سطح پر نامیاتی کلیت کو قائم کرتے ہیں۔ اگر کوئی چاہتا ہے تو دریدا کے ہیگل پر اعتراضات کا علمیاتی جواب لے آئے۔ دریدا اور ہیگل کے درمیان فکری پیکار کا نتیجہ وہ مائیکرو سیاست کے لیے جگہ ہموار کرنا نہیں ہے، بلکہ کلیت کے تعینات کو اس کے اندر سے عدم تعینات میں تبدیل کرنا ہے۔ لہذا یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نہیں ہیں، بلکہ ایک مکمل کل ہے، جس کے اندر Sublation کے عمل میں روزن اور شگاف ظاہر ہوتے ہوئے دکھانا ہے، تاکہ تعینات کا وہ سلسلہ التوا میں چلا جانے سے کلیت پسندانہ آمریت کا پہلو جنم ہی نہ لے سکے۔ عقلی معاشروں میں علمیاتی و منطقی مباحث کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ سیاست کب علم الوجود (Ontology) کے زیر اثر ہوتی ہے اور کبھی نہیں، یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
جہاں تک پوسٹ ماڈرن ازم کا تعلق ہے تو وہ میں واضح کر چکا ہوں کہ سرے سے ہی سیاسی پوزیشن نہیں ہے۔ اس لیے سیاسی حوالے سے کوئی شخص پوسٹ ماڈرنسٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ البتہ مابعد جدید "علمیات” کی بنیاد پر "مارکسسٹ” آئیڈیالوجی پر علمی قضایا قائم کیے گئے ہیں جن کے نتیجے میں "پوسٹ مارکسسٹ” سیاسی پوزیشنز لی گئی ہیں۔ لیکن انبکی تنقید تو اسی صورت میں پیش کی جا سکتی ہے جو کوئی اس پوزیشن کو اختیار کرنے کے دلائل پیش کرے، بصورت دیگر یہ خلا میں تیر چلانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ البتہ ثقافتی سطح پر متنوع اور تکثیری معاشرے کو قبول نہ کرنا فسطائیت ہے، خواہ وہ کسی بھی آئیڈیالوجی کے تحت ہو۔ کلیت پسندانہ فسطائیت کے خلاف یہی وہ ثقافتی پوزیشن ہے جسے میں اختیار کرتا ہوں۔
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
یہ ایک بہت اہم موضوع ہے اور میرا خیال ہے کہ پاکستان میں چند دوستوں کے علاوہ شاید ہی کوئی اس موضوع پر معقول بات کر سکے۔ میں نے پاکستان کے مارکسیوں میں سے ابھی تک کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں دیکھا جو یہ بتا سکے کہ مارکسزم اور مابعدجدیدیت میں کیا فرق ہے۔ البتہ وہ مابعدجدیدیت کے بارے میں سرے سے ہی کچھ نہ جاننے کے باوجود دوسروں کے مارکسی اور پوسٹ ماڈرنسٹ ہونے کا تعین ضرور کرتے ہیں۔ میری کتابیں مارکسزم اور پوسٹ ماڈرن ازم کے تجزیات سے بھری ہوئی ہیں اور احباب جانتے ہیں کہ میں نے کن عوامل کی بنیاد پر مابعدجدیدیت پر تنقید لکھی ہے۔ تاہم اس مختصر تحریر میں میرا مقصد صرف چند بنیادی باتوں کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے، تاکہ عام قاری پر مابعد جدیدیت اور دیگر آئیڈیالوجیز کے درمیان بنیادی فرق عیاں ہو سکے۔ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو اس پر ایک تفصیلی مضمون بعد میں رقم کروں گا۔
سب سے پہلے یہ بات واضح رہے کہ مابعدجدیدیت کا جن ممالک میں ظہور ہوا ان ممالک میں یہ ایک علمیاتی اور ثقافتی مظہر تو ہے لیکن یہ کوئی سیاسی پوزیشن نہ کبھی تھی نہ ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں لیبر پارٹی، لبرل، قدامت پسند، سوشلسٹ ورکرز پارٹی وغیرہ موجود ہیں، اور اسی طرح فرانس اور جرمنی کی صورتحال ہے، لیکن کوئی بھی پوسٹ ماڈرنسٹ سیاسی جماعت کسی بھی ملک میں موجود نہیں ہے۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ مابعدجدیدیت کوئی عملی سیاسی ایجنڈا نہیں رکھتی۔ لہٰذا جب کوئی شخص کسی کو پوسٹ ماڈرنسٹ کہتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اصول تو یہی ہے کہ جو کوئی کسی دوسرے پر یہ لیبل چسپاں کرے اس کا مطلب بھی وہی بیان کرے۔ لیکن یہاں نہ لیبل چسپاں کرنے والا جانتا ہے نہ کوئی دوسرا کہ سوال ہی اٹھا سکے کہ پوسٹ ماڈرن ازم کا لیبل چسپاں کرنے والے کی کیا مراد ہے!
واضح رہے کہ برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ کی ہر سیاسی جماعت میکرو سیاست کرتی ہے۔ لیکن وہ لوگ جو مابعدجدیدیت سے استفادہ کرتے ہیں، وہ اس کو مائیکرو سیاست میں بروئے کار لاتے ہیں، لیکن مغرب میں مائیکرو سیاست کا کوئی وجود نہیں ہے۔ مائیکرو سطح پر مابعد جدید علمیات ہیگلیائی کلیت کو چیلنج کرتی ہے۔ اس کی طرف ہم تھوڑی دیر میں آتے ہیں۔ مائیکرو سیاست میں قومی، لسانی، علاقائی، فرقہ وارانہ، نسلی سیاست شامل ہیں۔ اگر کوئی شخص انہی بنیادوں پر مائیکرو سیاست نہیں کرتا تو وہ پوسٹ ماڈرنسٹ نہیں ہو سکتا۔
لہذا برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ میں میں بھی سیاسی سطح پر پوسٹ ماڈرن ازم کا کوئی وجود نہیں ہے۔ بلکہ مابعد جدیدیت ایک کلچرل کنڈیشن ہے۔ مرکزی دھارے کی ہر سیاسی جماعت اگر پاکستان میں ہے تو وفاق کی سیاست کرے گی، اور اگر برطانیہ، فرانس اور جرمنی وغیرہ کی ہے تو وہ مرکز کی سیاست کرتی ہے۔ مابعد جدیدیت صرف ان سیاسی جماعتوں کے کلیت پسندانہ رجحانات کو ہدف بناتی ہے جس کا اطلاق اگر یہ سیاسی جماعتیں ثقافتی سطح پر مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے گروہوں پر کریں۔ مغرب میں مابعدجدیدیت میں ثقافتی شناخت مابعد جدید مائیکرو شناخت کے تابع ہے۔ کیونکہ مابعدجدیدیت بنیادی طور پر فنی اور ثقافتی تحریک تھی۔ یہی ثقافتی شناخت ہے جس کی کسی بھی بڑے بیانیے کے نامیاتی کلیت پسندانہ رجحان کا میں شدید مخالف ہوں، اور یہی مائیکرو شناخت ہے جس کی کلچرل سطح پر میں کھل کر حمایت کرتا ہوں اور سٹالنسٹ اور سرمایہ دارانہ کلیت پسندی کے ان رجحانات کا مخالف ہوں جس میں ثقافتی سطح پر رنگ، نسل، قوم، زبان، صنف وغیرہ کی بنیاد پر امتیاز روا رکھا جا سکتا ہے یا کسی کلیت پسندانہ آئیڈیالوجی کے تحت کلچرل تنوع اور تکثیریت کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ثقافتی تکثیریت کی حمایت میں جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں وہ سبھی مابعدجدید مفکروں کے پیش کردہ ہیں۔ مارکسزم ہو یا لبرل ازم یا پھر مذہب وہ آخری تجزیے میں کلیت پسندانہ مہا بیانیے ہیں۔ میں کلچرل شناختوں کی تکثیریت کا قائل ہوں، جبکہ سیاسی سطح پر مائیکرو سیاست (قوم پرستی، علاقہ پرستی، رنگ، نسل، زبان وغیرہ) کا میں قائل نہیں ہوں، لیکن ثقافتی سطح پر میں ان شناختوں کی کلی تحلیل کی حمایت میں نہیں ہوں۔ وقت اگر کسی شناخت کی تحلیل کر دے تو میں اس کو برقرار رکھنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ لیکن بحیثیت مجموعی ثقافتی سطح پر میں "اوپن سوسائٹی” کا قائل ہوں۔ جبکہ سیاسی سطح پر میں سمجھتا ہوں کہ مارکسزم وہ واحد آئیڈیالوجی ہے جو سرمایہ داری نظام کا متبادل فراہم کرتی ہے۔ ایک سوشلسٹ سماج کا قیام ازحد ضروری ہے اور اس کے لیے وہ آئیڈیالوجی ضروری ہے جو سرمایہ داری کی اس کی کلیت میں تفہیم کرا سکے اور عملی سطح پر اس کا متبادل ہو۔
سرمایہ داری چونکہ اپنی سرشت میں کلیت پسندانہ رجحان رکھتی ہے، اس لیے ثقافتی سطح پر مابعد جدید مفکروں نے وہ علمیاتی اوزار فراہم کیے ہیں جو سرمایہ داری کلیت کو چیلنج کرتے ہیں۔ پاکستانی مارکسسٹ نہ ہی مابعد جدید "علمیات” سے آگاہ ہیں اور نہ ہی وہ مابعد جدید ثقافتی تنوع کا ہی کوئی فہم رکھتے ہیں۔
ہیگلیائی کلیت، فوکو کی مائکرو تھیوری اور دریدا کی کلیت کے اندر غیر متعین کلیت میں بہت فرق ہے۔ اس حوالے سے فکری سطح پر سب سے اہم جنگ دریدا اور ہیگل کے درمیان لڑی گئی ہے۔ واضح رہے کہ دریدا فوکو اور لیوٹارڈ کی مانند مابعدجدید مفکر نہیں ہے۔ وہ خود کو روشن خیالی سے جوڑتا ہے اور روشن خیالی ریزن پر ہی حملہ کرتا ہے۔ دریدا کا روشن خیالی پر حملہ باہر سے نہیں ہے، جیسا کہ دریدا کہتا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لیے روشن خیالی کے اندر رہتے ہوئے اس کے ان عوامل کو غیر مستحکم کرتا ہے جو علمیاتی اور ثقافتی سطح پر نامیاتی کلیت کو قائم کرتے ہیں۔ اگر کوئی چاہتا ہے تو دریدا کے ہیگل پر اعتراضات کا علمیاتی جواب لے آئے۔ دریدا اور ہیگل کے درمیان فکری پیکار کا نتیجہ وہ مائیکرو سیاست کے لیے جگہ ہموار کرنا نہیں ہے، بلکہ کلیت کے تعینات کو اس کے اندر سے عدم تعینات میں تبدیل کرنا ہے۔ لہذا یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نہیں ہیں، بلکہ ایک مکمل کل ہے، جس کے اندر Sublation کے عمل میں روزن اور شگاف ظاہر ہوتے ہوئے دکھانا ہے، تاکہ تعینات کا وہ سلسلہ التوا میں چلا جانے سے کلیت پسندانہ آمریت کا پہلو جنم ہی نہ لے سکے۔ عقلی معاشروں میں علمیاتی و منطقی مباحث کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ سیاست کب علم الوجود (Ontology) کے زیر اثر ہوتی ہے اور کبھی نہیں، یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
جہاں تک پوسٹ ماڈرن ازم کا تعلق ہے تو وہ میں واضح کر چکا ہوں کہ سرے سے ہی سیاسی پوزیشن نہیں ہے۔ اس لیے سیاسی حوالے سے کوئی شخص پوسٹ ماڈرنسٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ البتہ مابعد جدید "علمیات” کی بنیاد پر "مارکسسٹ” آئیڈیالوجی پر علمی قضایا قائم کیے گئے ہیں جن کے نتیجے میں "پوسٹ مارکسسٹ” سیاسی پوزیشنز لی گئی ہیں۔ لیکن انبکی تنقید تو اسی صورت میں پیش کی جا سکتی ہے جو کوئی اس پوزیشن کو اختیار کرنے کے دلائل پیش کرے، بصورت دیگر یہ خلا میں تیر چلانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ البتہ ثقافتی سطح پر متنوع اور تکثیری معاشرے کو قبول نہ کرنا فسطائیت ہے، خواہ وہ کسی بھی آئیڈیالوجی کے تحت ہو۔ کلیت پسندانہ فسطائیت کے خلاف یہی وہ ثقافتی پوزیشن ہے جسے میں اختیار کرتا ہوں۔
">
ADVERTISEMENT