دُنیا کیسے وجود میں آئی؟ پہلے کیا تھا؟ کیا کسی لفظ سے اس کا سفر شروع ہوا؟ ان سوالوں کا جواب مذہبی صحیفے اپنی طرح سے دیتے ہیں اورسائنسدان اپنی طرح سے۔ سائنسدانوں نے کائنات کے ان اسرار و رموز کو جو ہنوز پردۂ راز میں ہیں، کو بے نقاب کرنے کی ٹھان لی ہے ان رازہائے کائنات کو آشکارہ کرنے کے لئے جنیوا میں ریسرچ و تحقیق سے متعلقہ اداره سی ای آر این نے دنیا کا انتہائی پُر تجسّس اور تاریخی تجربہ شروع کر دیا ہے،
اس تجربہ کے لئے 4 سے آٹھ مہینے درکار ہونگے، سائنسدانوں کے حساب سے اس پروجیکٹ پر 10 بلین ڈالرز اخراجات آئے ہیں۔ 85 ممالک کے 8 ہزار سے زائد سائنسدان اس تجرباتی عمل سے وابستہ ہیں جس میں ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے 200 سائنسدان بھی شامل ہیں۔
بھارت نے خود بھی اس پروجیکٹ کے لئے 41 ملین ڈالرز کے مالی وسائل اور آلات فراہم کیے ہیں۔ اس تجربۂ کائنات کو لارج ہیڈرون کولائیڈر( LARGE HADRON COLIDER) یعنی ایل ایچ سی کا نام دیا گیا ہے یہ تجربہ کو لائیڈر کے اطرف 27 کلو میٹر طویل سُرنگ میں سطح زمین سے 100 میٹر نیچے شروع کیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کائنات کے راز جانئے کے لئے روشنی کا پہلا ٹکراؤ آئندہ برس 8 اکتوبر سے 5 نومبر کے درمیان کسی وقت متوقع ہے۔
کائنات جمع ہے کا ئنہ کی اور کائنہ کے معنی ایسی چیز کا وجود میں لانا ہے جس کا پہلے سے کوئی نمونہ یا ماڈل موجود نہ ہو ۔
ایک سائنسی اندازے کے مطابق کائنات کی وُسعت 126 اَرب نوری سال ہے۔ نوری سال روشنی کی رفتار سے وجود میں آنے والی پیمائش ہے اور روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ86 ہز ار میل کا فاصلہ طے کرتی۔ اس حساب سے روشنی صرف دس سیکنڈ میں 18لاکھ 0 6 ہزار میل کا فاصلہ طے کرے گی ، یعنی آپ نے دس بار سانس لیا ہو گا کہ روشنی 18لاکھ 0 6 ہزار میل آگے بڑھ چکی ہو گی۔ اسی طرح صرف ایک منٹ میں روشنی کا سفر ایک کروڑ 11 لاکھ 60 ہزار میل طے ہو گا ۔
اب آپ ایک نوری سال، سونوری سال، ایک ہزار نوری سال، ایک لا کھ نوری سال، ایک کروڑ نوری سال، ایک ارب نوری سال اور پھر 26 ارب نوری سال کا حساب خود کر لیجئے کہ میں زرا حساب کتاب میں کمزور واقع ہوا ہوں۔ کائنات کی وُسعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں ہماری زمین اس قدر چھوٹی ہے کہ صرف ایک سورج میں ہماری زمین جیسی 13 لا کھ زمینیں سما سکتی ہیں۔
ہمارا یہ نظام شمسی (Solar System) جس میں سورج، چاند، ستارے، زمین اور معتد دسیارے ہیں ایک بڑے نظام ِکہکشاں (GALAXY) یعنی جُھرمٹ کا، جس کا نام ANDROMEDA ہے کا ایک بہت ہی چھوٹا حصہ ہے ۔
سائنس دانوں کے مطابق اوسط کہکشاں کی لمبائی 87لاکھ کھرب کلومیٹر ہے جبکہ ہماری اس کہکشاں کے علاوہ بھی ماہرین فلکیات کے مطابق 50 کروڑ مزید کہکشائیں ہیں اور ہر کہکشاں میں اوسطاً ایک کھرب ستارے ،سورج کی مانند موجود ہیں۔ خود ہماری کہکشاں میں دو کھرب سے زیادہ ستارے موجود ہیں۔
خلائی سیّاروں اور طاقتور دُور بینوں کے ذریعے اب تک صرف تیس ارب ستاروں کی تصاویر لی جا چکی ہیں۔ حال ہی میں جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ میں انٹرنیشنل آسٹرو نو میکل یونین کے اجلاس میں شریک ما ہرین فلکیات نظام شمسی کی نئی شکل پر متفق ہو گئے ہیں کہ اس نظام میں شامل سیّاروں کی تعداد 8سے بڑھ کر 12 ہو سکتی ہے۔ اور اگر نظام شمسی کی نئی شکل پر اتفاق رائے ہو گیا تو پھر دنیا بھر کا سائنسی نظام بھی تبدیل کرنا پڑے گا۔
آج تک کائنات کے وجود میں آنے اور ختم ہونے کی ایک مقبول تھیوری ”دی بِگ بینگ تھیوری“ (THE BIG BANG) ہے، جس کے مطابق تقریبا 20 ارب سال پہلے ایک ایسا دھماکہ ہوا جس سے اس کائنات کی ہر شے وجود میں آئی اور آرہی ہے۔ یعنی ہمارے نظام کی طرح کروڑوں نظام شمسی ظہور میں آتے جا رہے ہیں! ایک اندازے کے مطابق یہ سلسلہ کروڑوں یا اربوں برسوں تک چلتا رہے گا لیکن اسی تھیوری اور نظریہ کے مطابق ایک وقت ایسا آئے گا جب اس کا ئنات کے پھیلاؤ میں سُست روی آتی جائے گی اور پھر یہ بالکل رُک جائے گی یہاں سے اُلٹا سفر شروع ہو جائے گا۔ یعنی تمام نظام شمسی آپس میں ٹکرانے لگیں گے اورچکنا چُور ہونے لگیں گے، یہاں تک کہ سب کچھ تحلیل ہو جائے گا اور جس طرح کائنات نفی سے شروع ہوئی تھی اسی طرح پھر مکمل نفی ہو جائے گی۔
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ یہ جو ہماری زمین ہے لاکھوں برس پہلے آگ کا ایک گولہ تھی، کیونکہ وہ سورج کا ایک حصہ تھی اور اس سے ٹوٹ کر الگ ہو گئی تھی، اس آگ کے گولے کو ٹھنڈا ہونے میں کروڑوں برس لگ گئے اور جب یہ ٹھنڈا ہوا تو زمین کی شکل اختیار کر لی اور اس طرح سورج کی روشنی یا حرارت زمین پر موجود ہر شے اپنے اندر جذب کرتی رہتی ہے۔
بساطِ کا ئنات میں پھیلے ہوئے اَن گِنت سیّارے اور ستارے کھربوں سال سے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ ان کے اجسام سے انرجی کے اخراج سے ان کے اندر ایک تاریک خلاء سا پیدا ہوتا ہے اور یہ خلاء پھیلتا رہتا ہے، جسے سائنسی اصطلاح میں بلیک ہول (BLACK HOLE) کہتے ہیں۔
اور یہ بات سائنسدانوں کے مشاہدے میں آئی ہے کہ جب کوئی چھوٹا سیّارہ کسی بڑے سیّارے کے قریب سے گزرتا ہے تو بڑے سیّارے میں موجود بلیک ہول اسے بل اسے اپنے اندر کھینچ لیتا ہے۔
یہ سب کیسے اور کیونکر ہوتا ہے؟ یہی اہم راز منکشف کرنے کے لئے8 ہزار سائنسدان گذشتہ 6 برس سے کامیابی کےلئے کوشاں ہیں۔ سائنسدان ہاپکنس نے بگ بینگ تھیوری کے طور پر جو نتائج اخذ کئے تھے اس کو مدِنظر رکھ کر مزید رازوں سے پردہ اُٹھانے کی جنیوا میں کوششیں کی جا رہی ہیں۔
مزید معلومات اور علم حاصل کیا جارہا ہے۔ سائنس کا مفہوم ہے اُصول یا نظریہ جسے ہم تھیوری کہتے ہیں اگر یہ نہ ہو تو علم، علم نہیں ہے، اوہام پرستی، وجدان یا گیان کہلاتا ہے۔ علم اس آگہی و اِدراک کا نام ہے جس کی بنیار تھیوری یا نظریہ پر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ دنیا گیان یا وجدان یا صحیفوں کے فرمان ”کُن فیاکون“ سے وجود میں آئی یا سائنسی حقائق سے۔؟ میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئے ۔۔۔!
؎ تو نے یہ کیا غضب کیا مجھکوہی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھاسینۂ کائنات میں
—♦—
اسد مفتی معروف پاکستانی / ڈچ ترقی پسند صحافی ہیں جو عرصہ دراز سے یورپ میں مقیم ہیں۔ مارکسسٹ، لیننسٹ سوچ رکھنے والے سینئر صحافی اسد مفتی کی تحریروں سے عوام بخوبی واقف ہیں۔
انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز (1969) روزنامہ امروز لاہور سے کیا تھا۔ فیض احمد فیض، سبط حسن،حمید اختر، کلدیپ نیر اور آئی کے گجرال کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔
آپ ڈیلی للکار کے لئے ہفتہ وار کالم ”پانچواں موسم“ کے نام سے لکھتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
دُنیا کیسے وجود میں آئی؟ پہلے کیا تھا؟ کیا کسی لفظ سے اس کا سفر شروع ہوا؟ ان سوالوں کا جواب مذہبی صحیفے اپنی طرح سے دیتے ہیں اورسائنسدان اپنی طرح سے۔ سائنسدانوں نے کائنات کے ان اسرار و رموز کو جو ہنوز پردۂ راز میں ہیں، کو بے نقاب کرنے کی ٹھان لی ہے ان رازہائے کائنات کو آشکارہ کرنے کے لئے جنیوا میں ریسرچ و تحقیق سے متعلقہ اداره سی ای آر این نے دنیا کا انتہائی پُر تجسّس اور تاریخی تجربہ شروع کر دیا ہے،
اس تجربہ کے لئے 4 سے آٹھ مہینے درکار ہونگے، سائنسدانوں کے حساب سے اس پروجیکٹ پر 10 بلین ڈالرز اخراجات آئے ہیں۔ 85 ممالک کے 8 ہزار سے زائد سائنسدان اس تجرباتی عمل سے وابستہ ہیں جس میں ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے 200 سائنسدان بھی شامل ہیں۔
بھارت نے خود بھی اس پروجیکٹ کے لئے 41 ملین ڈالرز کے مالی وسائل اور آلات فراہم کیے ہیں۔ اس تجربۂ کائنات کو لارج ہیڈرون کولائیڈر( LARGE HADRON COLIDER) یعنی ایل ایچ سی کا نام دیا گیا ہے یہ تجربہ کو لائیڈر کے اطرف 27 کلو میٹر طویل سُرنگ میں سطح زمین سے 100 میٹر نیچے شروع کیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کائنات کے راز جانئے کے لئے روشنی کا پہلا ٹکراؤ آئندہ برس 8 اکتوبر سے 5 نومبر کے درمیان کسی وقت متوقع ہے۔
کائنات جمع ہے کا ئنہ کی اور کائنہ کے معنی ایسی چیز کا وجود میں لانا ہے جس کا پہلے سے کوئی نمونہ یا ماڈل موجود نہ ہو ۔
ایک سائنسی اندازے کے مطابق کائنات کی وُسعت 126 اَرب نوری سال ہے۔ نوری سال روشنی کی رفتار سے وجود میں آنے والی پیمائش ہے اور روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ86 ہز ار میل کا فاصلہ طے کرتی۔ اس حساب سے روشنی صرف دس سیکنڈ میں 18لاکھ 0 6 ہزار میل کا فاصلہ طے کرے گی ، یعنی آپ نے دس بار سانس لیا ہو گا کہ روشنی 18لاکھ 0 6 ہزار میل آگے بڑھ چکی ہو گی۔ اسی طرح صرف ایک منٹ میں روشنی کا سفر ایک کروڑ 11 لاکھ 60 ہزار میل طے ہو گا ۔
اب آپ ایک نوری سال، سونوری سال، ایک ہزار نوری سال، ایک لا کھ نوری سال، ایک کروڑ نوری سال، ایک ارب نوری سال اور پھر 26 ارب نوری سال کا حساب خود کر لیجئے کہ میں زرا حساب کتاب میں کمزور واقع ہوا ہوں۔ کائنات کی وُسعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں ہماری زمین اس قدر چھوٹی ہے کہ صرف ایک سورج میں ہماری زمین جیسی 13 لا کھ زمینیں سما سکتی ہیں۔
ہمارا یہ نظام شمسی (Solar System) جس میں سورج، چاند، ستارے، زمین اور معتد دسیارے ہیں ایک بڑے نظام ِکہکشاں (GALAXY) یعنی جُھرمٹ کا، جس کا نام ANDROMEDA ہے کا ایک بہت ہی چھوٹا حصہ ہے ۔
سائنس دانوں کے مطابق اوسط کہکشاں کی لمبائی 87لاکھ کھرب کلومیٹر ہے جبکہ ہماری اس کہکشاں کے علاوہ بھی ماہرین فلکیات کے مطابق 50 کروڑ مزید کہکشائیں ہیں اور ہر کہکشاں میں اوسطاً ایک کھرب ستارے ،سورج کی مانند موجود ہیں۔ خود ہماری کہکشاں میں دو کھرب سے زیادہ ستارے موجود ہیں۔
خلائی سیّاروں اور طاقتور دُور بینوں کے ذریعے اب تک صرف تیس ارب ستاروں کی تصاویر لی جا چکی ہیں۔ حال ہی میں جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ میں انٹرنیشنل آسٹرو نو میکل یونین کے اجلاس میں شریک ما ہرین فلکیات نظام شمسی کی نئی شکل پر متفق ہو گئے ہیں کہ اس نظام میں شامل سیّاروں کی تعداد 8سے بڑھ کر 12 ہو سکتی ہے۔ اور اگر نظام شمسی کی نئی شکل پر اتفاق رائے ہو گیا تو پھر دنیا بھر کا سائنسی نظام بھی تبدیل کرنا پڑے گا۔
آج تک کائنات کے وجود میں آنے اور ختم ہونے کی ایک مقبول تھیوری ”دی بِگ بینگ تھیوری“ (THE BIG BANG) ہے، جس کے مطابق تقریبا 20 ارب سال پہلے ایک ایسا دھماکہ ہوا جس سے اس کائنات کی ہر شے وجود میں آئی اور آرہی ہے۔ یعنی ہمارے نظام کی طرح کروڑوں نظام شمسی ظہور میں آتے جا رہے ہیں! ایک اندازے کے مطابق یہ سلسلہ کروڑوں یا اربوں برسوں تک چلتا رہے گا لیکن اسی تھیوری اور نظریہ کے مطابق ایک وقت ایسا آئے گا جب اس کا ئنات کے پھیلاؤ میں سُست روی آتی جائے گی اور پھر یہ بالکل رُک جائے گی یہاں سے اُلٹا سفر شروع ہو جائے گا۔ یعنی تمام نظام شمسی آپس میں ٹکرانے لگیں گے اورچکنا چُور ہونے لگیں گے، یہاں تک کہ سب کچھ تحلیل ہو جائے گا اور جس طرح کائنات نفی سے شروع ہوئی تھی اسی طرح پھر مکمل نفی ہو جائے گی۔
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ یہ جو ہماری زمین ہے لاکھوں برس پہلے آگ کا ایک گولہ تھی، کیونکہ وہ سورج کا ایک حصہ تھی اور اس سے ٹوٹ کر الگ ہو گئی تھی، اس آگ کے گولے کو ٹھنڈا ہونے میں کروڑوں برس لگ گئے اور جب یہ ٹھنڈا ہوا تو زمین کی شکل اختیار کر لی اور اس طرح سورج کی روشنی یا حرارت زمین پر موجود ہر شے اپنے اندر جذب کرتی رہتی ہے۔
بساطِ کا ئنات میں پھیلے ہوئے اَن گِنت سیّارے اور ستارے کھربوں سال سے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ ان کے اجسام سے انرجی کے اخراج سے ان کے اندر ایک تاریک خلاء سا پیدا ہوتا ہے اور یہ خلاء پھیلتا رہتا ہے، جسے سائنسی اصطلاح میں بلیک ہول (BLACK HOLE) کہتے ہیں۔
اور یہ بات سائنسدانوں کے مشاہدے میں آئی ہے کہ جب کوئی چھوٹا سیّارہ کسی بڑے سیّارے کے قریب سے گزرتا ہے تو بڑے سیّارے میں موجود بلیک ہول اسے بل اسے اپنے اندر کھینچ لیتا ہے۔
یہ سب کیسے اور کیونکر ہوتا ہے؟ یہی اہم راز منکشف کرنے کے لئے8 ہزار سائنسدان گذشتہ 6 برس سے کامیابی کےلئے کوشاں ہیں۔ سائنسدان ہاپکنس نے بگ بینگ تھیوری کے طور پر جو نتائج اخذ کئے تھے اس کو مدِنظر رکھ کر مزید رازوں سے پردہ اُٹھانے کی جنیوا میں کوششیں کی جا رہی ہیں۔
مزید معلومات اور علم حاصل کیا جارہا ہے۔ سائنس کا مفہوم ہے اُصول یا نظریہ جسے ہم تھیوری کہتے ہیں اگر یہ نہ ہو تو علم، علم نہیں ہے، اوہام پرستی، وجدان یا گیان کہلاتا ہے۔ علم اس آگہی و اِدراک کا نام ہے جس کی بنیار تھیوری یا نظریہ پر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ دنیا گیان یا وجدان یا صحیفوں کے فرمان ”کُن فیاکون“ سے وجود میں آئی یا سائنسی حقائق سے۔؟ میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئے ۔۔۔!
؎ تو نے یہ کیا غضب کیا مجھکوہی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھاسینۂ کائنات میں
—♦—
اسد مفتی معروف پاکستانی / ڈچ ترقی پسند صحافی ہیں جو عرصہ دراز سے یورپ میں مقیم ہیں۔ مارکسسٹ، لیننسٹ سوچ رکھنے والے سینئر صحافی اسد مفتی کی تحریروں سے عوام بخوبی واقف ہیں۔
انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز (1969) روزنامہ امروز لاہور سے کیا تھا۔ فیض احمد فیض، سبط حسن،حمید اختر، کلدیپ نیر اور آئی کے گجرال کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔
آپ ڈیلی للکار کے لئے ہفتہ وار کالم ”پانچواں موسم“ کے نام سے لکھتے ہیں۔