میں نے زندگی بھر محنت کش عوام کو با اختیار بنانے کی جو جدوجہد کی اس میں خیبر پختون خوا کے دوستوں کا قریبی ساتھ رہا ہے جو ایک ایک کر کے الوداع ہوتے جا رہے ہیں۔
موت اَٹل ہے جو آیا ہے اُسے واپس اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے ،مگر بعض لوگ مر کر بھی زندہ رہتےہیں، وہ جو زندگی بھر عوام کے ساتھ ان کے لئے ،مصروف کار رہتے ہیں۔
2 مئی کو مختار باچہ بھی رُخصت ہوئے تو مجھے گزشتہ پچاس سالوں کی کہانی یاد آ گئی جو بھولی تو کبھی نہیں تھی مگر منظر نامہ بدلنے کی وجہ سے دُھندلا گئی تھی۔
سیاسی حوالوں سے پہلا تعلق لالہ لطیف آفریدی سے ہوا تھا۔ 1974ء میں وہ وکالت کرتے تھے ابھی آغاز ہی کیا تھا کہ ٹیلی فون فیکٹری یونین کے حوالہ سے لاہور آئے تھے تو میرے مہمان تھے۔ اور میں انہیں سَیون اَپ فیکٹری میں متحدہ مزدور محاذ کی میٹنگ میں لے کر گیا تھا جس کی صدارت گلزار چوہدری کر رہے تھے۔ لالہ لطیف کو یونس لالہ نے متعارف کرایا تھا۔
دوسری بار پشاور اسی سال گیا تو افضل بنگش سے ملنے گیا یہ 1974ء کی ہی بات ہے جب مزدور مجلسِ عمل ،مزدور کسان پارٹی کی طرف متوجہ ہو رہی تھی۔ افضل بنگش کا دفتر خیبر بازار کے وسط میں تھا اور مسلم باچہ منتظم تھے۔ ان کے سامنے کسان جرگہ کا دفتر تھا جہاں مختار باچہ بیٹھتے تھے۔ میں دو دن بنگش صاحب کا مہمان رہا ، شیر علی باچہ سے بھی ملاقاتیں رہیں اور مختار باچہ سے بھی نشست ہوئی مگر معاندانہ نظروں سے کیونکہ وہ رُوسی ترمیم پسندوں کے نمائندہ تھے اور ہم ان کے سخت مخالفین مگر کسان جرگہ کا بورڈ مجھے ان کے پاس لے گیا۔
لالہ لطیف آفریدی تو پاکستان سٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ ہونے کے ناطے دونوں طرف تھے۔ پشاور میں بھاشانی کی نیپ کے نمائندہ وحید صاحب کی کتابوں کی دوکان صدر پشاور میں ہوتی تھی۔ نظریاتی بھائی کے ناطے وہاں بھی جانا فرض ہوتا تھا۔ یہ پچاس سال قبل کی ملاقاتیں ہیں۔ پھر ہم مزدور کسان پارٹی کا حصہ بن گئے تو زیادہ دوستیاں مردان، ہشت نگر، نوشہرہ کی طرف ہوتی گئیں۔ مگر لالہ لطیف آفریدی سے تعلق قائم رہا، شیر علی باچہ سے بھی قریبی تعلق بنتا گیا، محمد اکبر، محمد علی شاہ،مسلم شاہ، شیریں باچہ ، اسلم قلندر خان ،شائستہ خان ان دنوں کے ساتھی ہیں۔ مسلم شاہ کی شاعری ”دا مزدور کسان وطن دا نہ دے خواں وطن“ ہشت نگر والوں کا ترانہ بن گیا تھا۔
مگر1977ء کے دوران حالات بدل گئے رُوس کی ترمیم پسندی اور سوشل سامراج کا تصور ہی ختم ہو گیا۔ مزدور کسان پارٹی ٹوٹ گئی ہر صوبہ میں تقسیم ہو گئی، میجر اسحاق ،بھچر، کلو صاحبان، لطیف چوہدری وغیرہ اپنےمورچہ پر ڈَٹے رہے مگر امتیاز عالم اپنے نوجوان سنگیوں کے ہمراہ چی گویرا بننے کے زعم میں الگ ہو گئے اور پنجاب لوک پارٹی بنانے کی سعی میں جُت گئے۔
پختون دوست بھی ٹوٹ گئے کھیت مزدوروں کے نمائندہ جم کر شیر علی باچہ ہشت نگری کسانوں کے ہمراہ مزدور کسان پارٹی ہی بنائے رکھے۔ اس دوران افغان انقلاب کی بدولت پختون ماؤاِسٹ والوں کا رُخ بھی بدل گیا ۔ 1979ء میں ہشت نگر میں قومی الوسی کانفرنس ہوئی جس میں لالہ لطیف آفریدی، لالہ ستار، شیر علی باچہ اور میاں شاہین شاہ قریب آ گئے۔
اس وقت کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں پختون حاوی ہو گئے۔بقول ڈاکٹر شیر افضل؛
” قیادت پاجامہ سے نِکل کر شلواروں میں آ گئی۔“
اس کا اثر یہ ہوا کہ ہم سب لوگ بھی مختار باچہ کے قریب ہوتے گئے۔ لاہور میں عرفان اور حسن ملک، شمیم اشرف ملک بھی اس میں بنیادی کردار تھے مگر سوشلسٹ پارٹی بھی سوشل سامراج بُھلا چکی تھی۔حسن رفیق کا بھی بہت کردار ہے اس میں۔ یوں کہہ لیں یہ سارے سابقہ چین نواز اب مکمل طور پر عالمی اشتراکی کیمپ کی طرف مائل ہو چکے تھے۔
1980ء میں شیر علی باچہ اور امتیاز عالم مہمند ایجنسی کا دورہ کرتے گرفتار ہو گئے۔ ان کے ہمراہ لیاقت بھڈوال بھی تھے مگر وہ بچ گئے تھے۔ ان دونوں کو چند روزہ قلعہ بالا حصارمیں رکھنے کے بعدہری پور جیل شفٹ کر دیا گیا جہاں ٹیلی فون فیکٹری یونین کے دوست یونس،ضیافت زمان، ابرار شاہ، منظور احمد بھی موجود تھے اور جیل کے اندر لطیف آفریدی، مولانا فضل الرحمٰن بھی تھے اور مجھےہرہفتہ قانونی اور دیگر پیروی کیلئے جانا پڑتا تھا۔ اس لئے ہمارا سارا گروپ پاکستان نیشنل پارٹی کے قریب ہو گیا۔ میں اور رمضان صاحب کوئٹہ گئے اور پنجاب لوک پارٹی اور پی این پی کا ادغام ہو گیا، وہاں لطیف آفریدی ،شمیم اشرف ملک اور ڈاکٹر م ۔ر۔حسان پہلے سے موجود تھے ۔ اسی دوران کمیونسٹ پارٹی کے دوست بھی شامل ہو گئے۔
1984ء میں پی این پی میں چھ مارکسسٹ گروپ اکٹھے ہو گئے تو حسب ِعادت مارکسسٹ کوآرڈینیشن کمیٹی بنا لی جس کے کنوینئیر مختار باچہ مقرر ہوئے جبکہ ممبران میں م۔ر۔حسان، شمیم ملک۔شرف علی۔ڈاکٹر شاہجہاں، زاہد اِسلام، لطیف آفریدی شامل تھے۔جبکہ شاہد شاہ کا گروپ الگ تھا۔ مگر ہمارے ساتھ سی سی سی میں بھی شامل تھا جہاں عزیز طمانچی اور شفیق قریشی اور ڈاکٹر ارباب خاور کے گروپ بھی شامل تھے۔ یہ الگ داستان ہے ! کرتے کراتے کچھ نہیں تھے سارا وقت پی این پی کے اُمور چلانے کی منصوبہ بندی ہوتی تھی۔
مختار باچہ کی کاوشیں تھیں کہ ملک صاحب کی واپسی ہوئی ،لطیف آفریدی اور ہم لوگ سی پی پی کا حصہ بن گئے اور میں ملک سے باہر چلا گیا۔حسان صاحب اور شرف علی الگ ہو گئے بعد ازاں پی این پی سے بھی کنارہ کشی کی طرف گئے جبکہ اختر حسین اور بابر ایاز اپنے اپنے محاذوں پر لگے رہے۔
مختار باچہ اس سارے عرصہ میں بہت سرگرم رہے اور غالب بھی رہے۔ اس کا فائدہ ہوا کہ پارٹی کے اندر نظریاتی محاذ آرائی تیز ہو گئی اور اقلیت و اکثریت کے گروپ بن گئے۔ مختار باچہ اکثریتی گروپ کے راہنما بن گئے۔
مختار باچہ اس وقت پارٹی کے پولٹ بیو رو کے ممبر تھے جب پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔
باچہ کا ساتھ دینے والوں میں خیبر پختون خوا کے ساتھی تھے ، پنجاب سے امتیاز عالم، لیاقت بھڈوال ، یعقوب وغیرہ بہت کم لوگ تھے، جبکہ منظور بوھڑ ، رمضان نے خودکشی، اور شمیم ملک کے دوست پی این پی میں رہ گئے جبکہ مختار باچہ، لطیف آفریدی اور افراسیاب سب ہی ولی خان کےساتھ عوامی نیشنل پارٹی میں چلے گئے جہاں رسول بخش پلیجو اور پروفیسر عزیز الدین، سردار شوکت علی بھی شریک ہوئے مگریہ اتحاد ایک سال تک ہی قائم رہا اور پھر سارے بکھر گئے۔ایک اور پارٹی قومی انقلابی پارٹی بنانے کیلئے چل نکلے۔ مختار باچہ کی یہ اندازے کی غلطی تھی جس سے ترقی پسند تحریک کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔پی این پی اچھی قوت تھی جب اسے توڑا گیا اور پھر واپسی! منطق سمجھ سے بالا ہے!
اس حادثہ کے بعد مختار باچہ سنبھل نہ پائے۔لطیف آفریدی اور افراسیاب ساتھ چھوڑ گئے وہ دو نوں اے این پی میں واپس چلے گئے تو مختار باچہ بے بسی سے نیا کچھ کرنے کا عزم لے کر نکل پڑے ۔ عدل چارٹر کی شکل میں نئی فکری تحریک کی بنیاد رکھ دی مگر کام نہ چلا تو پھر واپس نیشنل پارٹی میں پناہ ملی اور وہیں جان سپردِ خدا ہوئی۔
مختار باچہ بڑے دوست نواز شخص تھے میں گو کہ سب کچھ چھوڑ کر این جی او میں کام کرتا تھا مگر مختار باچہ کی دوستی قائم رہی بلکہ ایک دوسرے کے مدد گار بھی رہے۔ کیا عجب شخصیت تھے۔
—♦—
زاہد اِسلام بائیں بازو کے سینئر ساتھی ہیں اورلاہور میں مقیم ہیں۔ آپ بائیں بازو کے اُن چند دوستوں میں سے ہیں جنہوں نے ایوب آمریت کے خلاف تحریک سے لے کر اگلی تین دہائیوں تک پاکستان کے سیاسی اُفق کے تمام اُتار چڑھاؤ میں صفِ اول میں کھڑے رہ کر مقابلہ کیا ۔ آپ گذشتہ دو دہائیوں سے ایک غیر سرکاری سماجی تنظیم ” سنگت ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن“ چلا رہے ہیں ۔ آپ نے کسان تحریکوں، مزدور تحریکوں، طلباء تحریکوں، لوکل گورنمنٹ سسٹم اور دیگر کئی اہم موضوعات پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
میں نے زندگی بھر محنت کش عوام کو با اختیار بنانے کی جو جدوجہد کی اس میں خیبر پختون خوا کے دوستوں کا قریبی ساتھ رہا ہے جو ایک ایک کر کے الوداع ہوتے جا رہے ہیں۔
موت اَٹل ہے جو آیا ہے اُسے واپس اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے ،مگر بعض لوگ مر کر بھی زندہ رہتےہیں، وہ جو زندگی بھر عوام کے ساتھ ان کے لئے ،مصروف کار رہتے ہیں۔
2 مئی کو مختار باچہ بھی رُخصت ہوئے تو مجھے گزشتہ پچاس سالوں کی کہانی یاد آ گئی جو بھولی تو کبھی نہیں تھی مگر منظر نامہ بدلنے کی وجہ سے دُھندلا گئی تھی۔
سیاسی حوالوں سے پہلا تعلق لالہ لطیف آفریدی سے ہوا تھا۔ 1974ء میں وہ وکالت کرتے تھے ابھی آغاز ہی کیا تھا کہ ٹیلی فون فیکٹری یونین کے حوالہ سے لاہور آئے تھے تو میرے مہمان تھے۔ اور میں انہیں سَیون اَپ فیکٹری میں متحدہ مزدور محاذ کی میٹنگ میں لے کر گیا تھا جس کی صدارت گلزار چوہدری کر رہے تھے۔ لالہ لطیف کو یونس لالہ نے متعارف کرایا تھا۔
دوسری بار پشاور اسی سال گیا تو افضل بنگش سے ملنے گیا یہ 1974ء کی ہی بات ہے جب مزدور مجلسِ عمل ،مزدور کسان پارٹی کی طرف متوجہ ہو رہی تھی۔ افضل بنگش کا دفتر خیبر بازار کے وسط میں تھا اور مسلم باچہ منتظم تھے۔ ان کے سامنے کسان جرگہ کا دفتر تھا جہاں مختار باچہ بیٹھتے تھے۔ میں دو دن بنگش صاحب کا مہمان رہا ، شیر علی باچہ سے بھی ملاقاتیں رہیں اور مختار باچہ سے بھی نشست ہوئی مگر معاندانہ نظروں سے کیونکہ وہ رُوسی ترمیم پسندوں کے نمائندہ تھے اور ہم ان کے سخت مخالفین مگر کسان جرگہ کا بورڈ مجھے ان کے پاس لے گیا۔
لالہ لطیف آفریدی تو پاکستان سٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ ہونے کے ناطے دونوں طرف تھے۔ پشاور میں بھاشانی کی نیپ کے نمائندہ وحید صاحب کی کتابوں کی دوکان صدر پشاور میں ہوتی تھی۔ نظریاتی بھائی کے ناطے وہاں بھی جانا فرض ہوتا تھا۔ یہ پچاس سال قبل کی ملاقاتیں ہیں۔ پھر ہم مزدور کسان پارٹی کا حصہ بن گئے تو زیادہ دوستیاں مردان، ہشت نگر، نوشہرہ کی طرف ہوتی گئیں۔ مگر لالہ لطیف آفریدی سے تعلق قائم رہا، شیر علی باچہ سے بھی قریبی تعلق بنتا گیا، محمد اکبر، محمد علی شاہ،مسلم شاہ، شیریں باچہ ، اسلم قلندر خان ،شائستہ خان ان دنوں کے ساتھی ہیں۔ مسلم شاہ کی شاعری ”دا مزدور کسان وطن دا نہ دے خواں وطن“ ہشت نگر والوں کا ترانہ بن گیا تھا۔
مگر1977ء کے دوران حالات بدل گئے رُوس کی ترمیم پسندی اور سوشل سامراج کا تصور ہی ختم ہو گیا۔ مزدور کسان پارٹی ٹوٹ گئی ہر صوبہ میں تقسیم ہو گئی، میجر اسحاق ،بھچر، کلو صاحبان، لطیف چوہدری وغیرہ اپنےمورچہ پر ڈَٹے رہے مگر امتیاز عالم اپنے نوجوان سنگیوں کے ہمراہ چی گویرا بننے کے زعم میں الگ ہو گئے اور پنجاب لوک پارٹی بنانے کی سعی میں جُت گئے۔
پختون دوست بھی ٹوٹ گئے کھیت مزدوروں کے نمائندہ جم کر شیر علی باچہ ہشت نگری کسانوں کے ہمراہ مزدور کسان پارٹی ہی بنائے رکھے۔ اس دوران افغان انقلاب کی بدولت پختون ماؤاِسٹ والوں کا رُخ بھی بدل گیا ۔ 1979ء میں ہشت نگر میں قومی الوسی کانفرنس ہوئی جس میں لالہ لطیف آفریدی، لالہ ستار، شیر علی باچہ اور میاں شاہین شاہ قریب آ گئے۔
اس وقت کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں پختون حاوی ہو گئے۔بقول ڈاکٹر شیر افضل؛
” قیادت پاجامہ سے نِکل کر شلواروں میں آ گئی۔“
اس کا اثر یہ ہوا کہ ہم سب لوگ بھی مختار باچہ کے قریب ہوتے گئے۔ لاہور میں عرفان اور حسن ملک، شمیم اشرف ملک بھی اس میں بنیادی کردار تھے مگر سوشلسٹ پارٹی بھی سوشل سامراج بُھلا چکی تھی۔حسن رفیق کا بھی بہت کردار ہے اس میں۔ یوں کہہ لیں یہ سارے سابقہ چین نواز اب مکمل طور پر عالمی اشتراکی کیمپ کی طرف مائل ہو چکے تھے۔
1980ء میں شیر علی باچہ اور امتیاز عالم مہمند ایجنسی کا دورہ کرتے گرفتار ہو گئے۔ ان کے ہمراہ لیاقت بھڈوال بھی تھے مگر وہ بچ گئے تھے۔ ان دونوں کو چند روزہ قلعہ بالا حصارمیں رکھنے کے بعدہری پور جیل شفٹ کر دیا گیا جہاں ٹیلی فون فیکٹری یونین کے دوست یونس،ضیافت زمان، ابرار شاہ، منظور احمد بھی موجود تھے اور جیل کے اندر لطیف آفریدی، مولانا فضل الرحمٰن بھی تھے اور مجھےہرہفتہ قانونی اور دیگر پیروی کیلئے جانا پڑتا تھا۔ اس لئے ہمارا سارا گروپ پاکستان نیشنل پارٹی کے قریب ہو گیا۔ میں اور رمضان صاحب کوئٹہ گئے اور پنجاب لوک پارٹی اور پی این پی کا ادغام ہو گیا، وہاں لطیف آفریدی ،شمیم اشرف ملک اور ڈاکٹر م ۔ر۔حسان پہلے سے موجود تھے ۔ اسی دوران کمیونسٹ پارٹی کے دوست بھی شامل ہو گئے۔
1984ء میں پی این پی میں چھ مارکسسٹ گروپ اکٹھے ہو گئے تو حسب ِعادت مارکسسٹ کوآرڈینیشن کمیٹی بنا لی جس کے کنوینئیر مختار باچہ مقرر ہوئے جبکہ ممبران میں م۔ر۔حسان، شمیم ملک۔شرف علی۔ڈاکٹر شاہجہاں، زاہد اِسلام، لطیف آفریدی شامل تھے۔جبکہ شاہد شاہ کا گروپ الگ تھا۔ مگر ہمارے ساتھ سی سی سی میں بھی شامل تھا جہاں عزیز طمانچی اور شفیق قریشی اور ڈاکٹر ارباب خاور کے گروپ بھی شامل تھے۔ یہ الگ داستان ہے ! کرتے کراتے کچھ نہیں تھے سارا وقت پی این پی کے اُمور چلانے کی منصوبہ بندی ہوتی تھی۔
مختار باچہ کی کاوشیں تھیں کہ ملک صاحب کی واپسی ہوئی ،لطیف آفریدی اور ہم لوگ سی پی پی کا حصہ بن گئے اور میں ملک سے باہر چلا گیا۔حسان صاحب اور شرف علی الگ ہو گئے بعد ازاں پی این پی سے بھی کنارہ کشی کی طرف گئے جبکہ اختر حسین اور بابر ایاز اپنے اپنے محاذوں پر لگے رہے۔
مختار باچہ اس سارے عرصہ میں بہت سرگرم رہے اور غالب بھی رہے۔ اس کا فائدہ ہوا کہ پارٹی کے اندر نظریاتی محاذ آرائی تیز ہو گئی اور اقلیت و اکثریت کے گروپ بن گئے۔ مختار باچہ اکثریتی گروپ کے راہنما بن گئے۔
مختار باچہ اس وقت پارٹی کے پولٹ بیو رو کے ممبر تھے جب پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔
باچہ کا ساتھ دینے والوں میں خیبر پختون خوا کے ساتھی تھے ، پنجاب سے امتیاز عالم، لیاقت بھڈوال ، یعقوب وغیرہ بہت کم لوگ تھے، جبکہ منظور بوھڑ ، رمضان نے خودکشی، اور شمیم ملک کے دوست پی این پی میں رہ گئے جبکہ مختار باچہ، لطیف آفریدی اور افراسیاب سب ہی ولی خان کےساتھ عوامی نیشنل پارٹی میں چلے گئے جہاں رسول بخش پلیجو اور پروفیسر عزیز الدین، سردار شوکت علی بھی شریک ہوئے مگریہ اتحاد ایک سال تک ہی قائم رہا اور پھر سارے بکھر گئے۔ایک اور پارٹی قومی انقلابی پارٹی بنانے کیلئے چل نکلے۔ مختار باچہ کی یہ اندازے کی غلطی تھی جس سے ترقی پسند تحریک کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔پی این پی اچھی قوت تھی جب اسے توڑا گیا اور پھر واپسی! منطق سمجھ سے بالا ہے!
اس حادثہ کے بعد مختار باچہ سنبھل نہ پائے۔لطیف آفریدی اور افراسیاب ساتھ چھوڑ گئے وہ دو نوں اے این پی میں واپس چلے گئے تو مختار باچہ بے بسی سے نیا کچھ کرنے کا عزم لے کر نکل پڑے ۔ عدل چارٹر کی شکل میں نئی فکری تحریک کی بنیاد رکھ دی مگر کام نہ چلا تو پھر واپس نیشنل پارٹی میں پناہ ملی اور وہیں جان سپردِ خدا ہوئی۔
مختار باچہ بڑے دوست نواز شخص تھے میں گو کہ سب کچھ چھوڑ کر این جی او میں کام کرتا تھا مگر مختار باچہ کی دوستی قائم رہی بلکہ ایک دوسرے کے مدد گار بھی رہے۔ کیا عجب شخصیت تھے۔
—♦—
زاہد اِسلام بائیں بازو کے سینئر ساتھی ہیں اورلاہور میں مقیم ہیں۔ آپ بائیں بازو کے اُن چند دوستوں میں سے ہیں جنہوں نے ایوب آمریت کے خلاف تحریک سے لے کر اگلی تین دہائیوں تک پاکستان کے سیاسی اُفق کے تمام اُتار چڑھاؤ میں صفِ اول میں کھڑے رہ کر مقابلہ کیا ۔ آپ گذشتہ دو دہائیوں سے ایک غیر سرکاری سماجی تنظیم ” سنگت ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن“ چلا رہے ہیں ۔ آپ نے کسان تحریکوں، مزدور تحریکوں، طلباء تحریکوں، لوکل گورنمنٹ سسٹم اور دیگر کئی اہم موضوعات پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔