آج یکم مئی ہے اور سب جانتے ہیں کہ یکم مئی کی عالمی تاریخ و اہمیت کیا ہے؟
یہ بھی جانتے ہیں کہ کس طرح عالمی اور ملکی مزدوروں نے قربانیاں دے کر انسانی محنت کو توقیر بخشی ہے۔
آج کے پاکستانی چینلز دیکھئے گا ۔ بیشتر یوم مئی کا پرسوز راگ الاپ رہے ہونگے۔ آج کے ملکی اخبارات پڑھیے گا۔ ہر بڑے ادارے میں یوم مئی کی حرمت پر بات ہوئی ہوگی۔ مزدور کی محنت پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادائیگی پر مقالے اور طویل تقریریں ہوئی ہوں گی۔
حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ چار پانچ دہائیوں سے ہمارے ہاں ہر اُس بے انصافی کو قانون کی چھتری مہیا ہو رہی ہے ، تاکہ محنت کشوں کے حق کو کیسے کھایا جائے؟
واقع یہ کہ ہر بڑے ادارے میں مزدور کے حق کو پامال کرنے کے لئے براہ راست ملازمت سے اسے محروم کر دیا گیا ہے۔ بینکوں میں، فیکٹریوں میں اور دیگر تمام صنعتی اداروں میں سرمایہ دار و صنعتکار اور اجارہ داروں نے اس کام کو آوٹ سورس کر دیا ہے۔ اب چھوٹے چھوٹے ٹھیکیدار چھوٹی موٹی رجسٹرڈ یا غیر رجسٹرڈ کمپنیوں کی صورت میں انہیں بنا کسی قانونی حق کی ادائیگی ، بنا لیبر ڈیپارٹمنٹ ، ای او بی آئی یا دیگر متعلقہ سرکاری محکموں میں انرول کئے بھرتی کر لیا جاتا ہے۔
یوں صنعتی مزدور ، ٹیکنیشن، وائٹ کالر کلرکس اور ہیلپرز کی جوانی کو سستے داموں بل کہ کوڑیوں مول خریدا جا رہا ہے۔
پینشن ہے نہ صحت عامہ نہ دیگر سرکاری و انسانی مراعات جس کا وہ قانونی حق دار ہے؟
غربت و افلاس اس قدر بڑھ چکی ہے کہ بیشتر مائیں اپنی بچیوں کو مزدوری کی لالچ میں ان اجارہ داروں کے ہاتھ تقریباً بیچ ہی دیتی ہیں۔ ہر عام و خاص گروسری سٹورز میں دس بارہ لڑکے لڑکیوں کو کام کرتے ہوئے میں خود دیکھتا ہوں جو صرف دہاڑی دار مزدور کی طرح برسوں سے ان سٹورز پر کام کر رہے ہیں اور نوکری کی سہولتوں سے محروم ہیں اور قانون خاموش ہے۔
جب کہ دوسری طرف انھی سرمایہ داروں ، صنعت کاروں نے اپنی ایسوسیشینز بنا رکھی ہیں اور ذرا سے معاملے میں حکومت کو بلیک میل کرنے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔
حیران کن بات یہ کہ یہی دہاڑی دار مزدور مرد و خواتین جو ان کی ریگولر سٹرینتھ پر ہوتے ہی نہیں وہی سڑکوں پر مالکان کے لئے جان لڑا رہے ہوتے ہیں۔ اور پھر کروڑوں کےاخباری اشتہارات دیکر یہی صنعت کار اپنے لئے حکومت سے تمام مراعات وصول کر کے گھر آ جاتے ہیں۔
میرا سوال اس ملک کے اہل اقتدار و مالکان سے ہے کہ کیا ہم ان کروڑوں پاکستانی مزدوروں کی محنت کو کبھی حقیقی طور پر عزت و توقیر بخش سکیں گے یا اِس بے انصاف معاشرے میں یہ ظلم جاری رہے گا؟
حیرت تو یہ ہے اس طرح کے عوامی مسائل پر مبینہ اسمبلیاں،سینٹ اور دیگر قانونی باڈیز بالکل خاموش ہیں۔ کیونکہ ان کا اپنا دھندہ جاری و ساری ہے ۔
آج کی کسان کی صورت حال ہی دیکھ لیجیے۔
—♦—
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے سنئیر وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک ملکی و عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے تاحیات ممبر ہیں۔