">
ADVERTISEMENT
انسان کی سمجھ بُوجھ کی ابتداء کھیتی باڑی اور مویشی پال معاشی منزل پر جادُو ٹونے سے ہوئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کھیتی باڑی اور مویشی پال سماج کی ابتداء سے جادُو ٹونے اور دیگر فلسفے کیوں پیدا ہوئے؟ اس بابت تاریخ بتاتی ہے کہ جب انسان جنگل سے خوراک جمع کرکے پیٹ بھرتا تھا یا شکار سے گزر بسر کرتا تھا تب اس کے پاس سوچنے، خیالات تخلیق کرنے کی فرصت نہیں تھی۔ جب انسان نے مویشیوں کو سُدھا کر یا بیج بو کرفصل اُگانا شروع کر دی تو قدرت پر اس کے اختیار میں اضافہ ہوگیا۔ اس سے اسےسوچنے کی فُرصت میسر آئی۔ اس نے ڈھونڈنا شروع کیا کہ یہ سب کیسے پیدا ہوتا ہے؟ اور وہ ایسا کیا کرے جس سے پیداوار میں اضافہ ہو سکے، لیکن ساتھ ہی کھیتی باڑی اور مویشی پالنے والے انسانوں کے اعتماد میں فرق کے پیدا ہونے کا سوال کھڑا ہو گیا۔
ایک پہلو سے تو یہ دونوں سماج مادی اشیاء میں اضافے کی کوششوں میں ایک جیسے تھے، مگر کھیتی باڑی میں زیادہ تفکرات درپیش تھے۔ لہٰذا انہیں مادی دنیا اور پیداواری عمل ( کھیتی باڑی) کو جاننے، اپنی قدرت میں لانے کی زیادہ جلدی تھی۔ ان میں مادی فلسفہ زیادہ غالب رہا۔ اور مویشی پالنے والوں میں سُست رفتاری سے۔ مویشی ایک دفعہ پل جائے تو کئی سال بے فکری کے گزر جاتے ہیں۔ لہٰذا ان میں خیال پرستی حاوی رہی۔
یہ بات ہڑپہ کے باسیوں اور آریاؤں کے سوچنے کے بنیادی طریقوں میں فرق کو جاننے کے لیے ذہن میں رکھنی ضروری ہے۔ ترقی کی منزل پر روشن خیال ہڑپہ کے باسی کھیتی باڑی کے سماج اور پسماندہ آریا مویشی پالنے والی ثقافت کے عکاس تھے۔
ہڑپہ تہذیب سے جو مورتیاں، مہریں، سکے اور دیگر اشیاء کھدائی کے دوران ملیں، اس سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ وہ تہذیب مادی تھی، لوگ مادہ پرست تھے اور جادُو ٹونے پر یقین رکھتے تھے۔ جب کہ آریا مادہ پرست نظریات کو مسترد کرنے والے رگ وید میں دیوتاؤں کی مذہبی خیال پرستی اور ایک پیدا کرنے والے بھگوان کے وجود کو ثابت کرنے میں لگے رہےہیں۔ ایسے گروہ خصوصاً اپنشدوں میں کائنات کے خیالی تصورات کو ڈھونڈتےہیں۔ آج کی تحریر میں ہم بہت تفصیل میں نہیں جا سکتے۔ صرف بنیادی باتوں کی حد تک اپنے آپ کو محدود رکھنے کی کوشش میں ہیں۔ یہاں ہم ایک مقدمہ برائے گفتگو، مکالمہ یا بحث رکھ رہے ہیں۔ آج سے 4 یا 5 ہزار سال قبل آرین نے وسط ایشیاء سے دنیا کے مختلف خطوں کی طرف ہجرت کی، جہاں گئے وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ آرین ہندوستان میں ہی تھوڑا آئے ہیں؟ یورپ وغیرہ میں بھی گئے۔ یہ ان وقتوں کا ایک نارمل عمل ہے۔ قومی سرحدیں وغیرہ تو تھیں نہیں۔ باوجود اس نارمل عمل کے ہم سب آرین مخالف روّیہ اپنائے ہوئے ہیں۔ کیوں؟ ہمارے اپنے اور تمام انسان دوست تہذیب کے وارثوں کے نزدیک آرین کے آنے سے انسان دوست روشن خیال دراوڑی سماج پیچھے کی طرف گیا۔ آرین یہاں کا حاکم طبقہ ٹھہرا۔ ذات پات کی تقسیم پیدا ہوئی۔ مقامی لوگ شُودر، دَلِت قرار دئیے گئے۔ دراوڑی زبان ناپید ہو گئی۔ عورت سیکنڈری مخلوق بن گئی۔تاریخ پر نظر ڈالیں تو حملہ آور جہاں بھی گئے مقامیوں کے ساتھ عمومی طور پر یہی سلوک ہوا۔ اسی لئے حملہ آوروں کو ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔
آرین کو کل ہی کسی دوست نے سامراج لکھا۔ ہمارے نزدیک تمام تر انسان دوست تہذیبی زوال کے باوجود بھی ہم آرین کو سامراج نہیں کہہ سکتے۔ ایک تو سامراج سرمایہ داری کے بعد کا مرحلہ ہے۔ دوسرا وہ لُوٹ مار کرکے ہندوستان سے باہر تھوڑی لے گئے۔ تاریخ آرین سے روشن خیال تہذیبی زوال پذیری کا حساب لیتی رہے گی۔ ہمارے نزدیک اس وقت کا سب سے اہم سوال تو ہماری آج کی اشرافیہ سے پوچھنے کا ہے کہ آپ کب تک آرین کے پیچھے چھپتے رہیں گے؟ پانچ ہزار سال بعد تو ہم اپنے معاشی، سماجی، تہذیبی استحصال کا سوال آپ سے پوچھنے اور آواز اُٹھانے کا حق رکھتے ہیں۔—♦—

مصنف کے بارے
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
Advertisement. Scroll to continue reading.
">