• Latest

معاشی منزلیں اور نظریات! (انڈس سِولائزیشن- قسط-4) – تحریر: رانا اعظم

مئی 21, 2024

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
منگل, جون 24, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home home مضامین

معاشی منزلیں اور نظریات! (انڈس سِولائزیشن- قسط-4) – تحریر: رانا اعظم

  ترقی کی منزل پر روشن خیال ہڑپہ کے باسی کھیتی باڑی کے سماج اور پسماندہ آریا مویشی پالنے والی ثقافت کے عکاس تھے۔ 

للکار نیوز by للکار نیوز
مئی 21, 2024
in پاکستان, مضامین
A A
0
انسان کی سمجھ بُوجھ کی ابتداء کھیتی باڑی اور مویشی پال معاشی منزل پر جادُو ٹونے سے ہوئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کھیتی باڑی اور مویشی پال سماج کی ابتداء  سے جادُو ٹونے اور دیگر فلسفے کیوں پیدا ہوئے؟ اس بابت تاریخ بتاتی ہے کہ جب انسان جنگل سے خوراک جمع کرکے پیٹ بھرتا تھا یا  شکار سے گزر بسر کرتا تھا تب اس کے پاس سوچنے،  خیالات تخلیق کرنے کی فرصت نہیں تھی۔ جب انسان نے مویشیوں کو سُدھا کر یا بیج بو کرفصل اُگانا شروع کر دی تو قدرت پر اس کے اختیار میں اضافہ ہوگیا۔ اس سے اسےسوچنے کی فُرصت میسر آئی۔ اس نے ڈھونڈنا شروع کیا کہ یہ سب کیسے پیدا ہوتا ہے؟ اور وہ ایسا کیا کرے جس سے پیداوار میں اضافہ ہو سکے، لیکن ساتھ ہی کھیتی باڑی اور مویشی پالنے والے انسانوں کے اعتماد میں فرق کے پیدا ہونے کا سوال کھڑا ہو گیا۔ ایک پہلو سے تو یہ دونوں سماج مادی اشیاء میں اضافے کی کوششوں میں ایک جیسے تھے، مگر کھیتی باڑی میں زیادہ تفکرات درپیش تھے۔ لہٰذا انہیں مادی دنیا اور پیداواری عمل ( کھیتی باڑی) کو جاننے، اپنی قدرت میں لانے کی زیادہ  جلدی تھی۔ ان میں مادی فلسفہ زیادہ غالب رہا۔ اور مویشی پالنے والوں میں سُست رفتاری سے۔ مویشی ایک دفعہ پل جائے تو کئی سال بے فکری کے گزر جاتے ہیں۔ لہٰذا ان میں خیال پرستی حاوی رہی۔

یہ بات ہڑپہ کے باسیوں  اور آریاؤں کے سوچنے کے بنیادی طریقوں میں فرق کو جاننے کے لیے ذہن میں رکھنی ضروری ہے۔  ترقی کی منزل پر روشن خیال ہڑپہ کے باسی کھیتی باڑی کے سماج اور پسماندہ آریا مویشی پالنے والی ثقافت کے عکاس تھے۔ 

ہڑپہ تہذیب سے جو مورتیاں،  مہریں،  سکے اور دیگر اشیاء کھدائی کے دوران ملیں، اس سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ وہ تہذیب مادی تھی، لوگ مادہ پرست تھے اور جادُو ٹونے پر  یقین رکھتے تھے۔ جب کہ آریا مادہ پرست نظریات کو مسترد کرنے والے رگ وید میں دیوتاؤں کی مذہبی خیال پرستی اور ایک پیدا کرنے والے بھگوان کے وجود کو ثابت کرنے میں لگے رہےہیں۔ ایسے گروہ خصوصاً اپنشدوں میں کائنات کے خیالی تصورات کو ڈھونڈتےہیں۔  آج کی تحریر میں ہم بہت تفصیل میں نہیں جا سکتے۔ صرف بنیادی باتوں کی حد تک اپنے آپ کو محدود رکھنے کی کوشش میں ہیں۔  یہاں ہم  ایک مقدمہ برائے گفتگو، مکالمہ یا بحث رکھ رہے ہیں۔  آج سے 4 یا 5 ہزار سال قبل آرین  نے وسط ایشیاء سے دنیا کے مختلف خطوں کی طرف ہجرت کی، جہاں گئے  وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ آرین ہندوستان میں ہی تھوڑا آئے ہیں؟ یورپ وغیرہ میں بھی گئے۔ یہ ان وقتوں کا ایک نارمل عمل ہے۔ قومی سرحدیں وغیرہ تو تھیں نہیں۔ باوجود اس نارمل عمل کے ہم سب آرین مخالف روّیہ اپنائے ہوئے ہیں۔ کیوں؟ ہمارے اپنے اور تمام انسان دوست تہذیب  کے وارثوں کے نزدیک آرین کے آنے سے انسان دوست روشن خیال دراوڑی سماج پیچھے کی طرف گیا۔ آرین یہاں کا حاکم طبقہ ٹھہرا۔ ذات پات کی تقسیم پیدا ہوئی۔ مقامی لوگ شُودر، دَلِت قرار دئیے گئے۔ دراوڑی زبان ناپید ہو گئی۔ عورت سیکنڈری مخلوق بن گئی۔

تاریخ پر نظر ڈالیں تو حملہ آور جہاں بھی گئے مقامیوں کے ساتھ عمومی طور پر یہی سلوک ہوا۔ اسی لئے حملہ آوروں کو ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے  دیکھا گیا ہے۔ 

آرین کو کل ہی کسی دوست نے سامراج لکھا۔ ہمارے نزدیک تمام تر انسان دوست تہذیبی زوال کے باوجود بھی ہم آرین کو سامراج نہیں کہہ سکتے۔ ایک تو سامراج سرمایہ داری کے بعد کا مرحلہ ہے۔ دوسرا وہ لُوٹ مار کرکے ہندوستان  سے باہر تھوڑی لے گئے۔  تاریخ آرین سے روشن خیال تہذیبی زوال پذیری کا حساب لیتی رہے گی۔ ہمارے نزدیک اس وقت کا سب سے اہم سوال تو ہماری آج کی اشرافیہ سے پوچھنے کا ہے کہ آپ کب تک  آرین کے پیچھے چھپتے رہیں گے؟ پانچ  ہزار سال بعد تو ہم اپنے معاشی، سماجی،  تہذیبی استحصال کا  سوال آپ سے پوچھنے اور آواز اُٹھانے کا حق رکھتے ہیں۔  

—♦—

Azam
مصنف کے بارے

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
انسان کی سمجھ بُوجھ کی ابتداء کھیتی باڑی اور مویشی پال معاشی منزل پر جادُو ٹونے سے ہوئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کھیتی باڑی اور مویشی پال سماج کی ابتداء  سے جادُو ٹونے اور دیگر فلسفے کیوں پیدا ہوئے؟ اس بابت تاریخ بتاتی ہے کہ جب انسان جنگل سے خوراک جمع کرکے پیٹ بھرتا تھا یا  شکار سے گزر بسر کرتا تھا تب اس کے پاس سوچنے،  خیالات تخلیق کرنے کی فرصت نہیں تھی۔ جب انسان نے مویشیوں کو سُدھا کر یا بیج بو کرفصل اُگانا شروع کر دی تو قدرت پر اس کے اختیار میں اضافہ ہوگیا۔ اس سے اسےسوچنے کی فُرصت میسر آئی۔ اس نے ڈھونڈنا شروع کیا کہ یہ سب کیسے پیدا ہوتا ہے؟ اور وہ ایسا کیا کرے جس سے پیداوار میں اضافہ ہو سکے، لیکن ساتھ ہی کھیتی باڑی اور مویشی پالنے والے انسانوں کے اعتماد میں فرق کے پیدا ہونے کا سوال کھڑا ہو گیا۔ ایک پہلو سے تو یہ دونوں سماج مادی اشیاء میں اضافے کی کوششوں میں ایک جیسے تھے، مگر کھیتی باڑی میں زیادہ تفکرات درپیش تھے۔ لہٰذا انہیں مادی دنیا اور پیداواری عمل ( کھیتی باڑی) کو جاننے، اپنی قدرت میں لانے کی زیادہ  جلدی تھی۔ ان میں مادی فلسفہ زیادہ غالب رہا۔ اور مویشی پالنے والوں میں سُست رفتاری سے۔ مویشی ایک دفعہ پل جائے تو کئی سال بے فکری کے گزر جاتے ہیں۔ لہٰذا ان میں خیال پرستی حاوی رہی۔

یہ بات ہڑپہ کے باسیوں  اور آریاؤں کے سوچنے کے بنیادی طریقوں میں فرق کو جاننے کے لیے ذہن میں رکھنی ضروری ہے۔  ترقی کی منزل پر روشن خیال ہڑپہ کے باسی کھیتی باڑی کے سماج اور پسماندہ آریا مویشی پالنے والی ثقافت کے عکاس تھے۔ 

ہڑپہ تہذیب سے جو مورتیاں،  مہریں،  سکے اور دیگر اشیاء کھدائی کے دوران ملیں، اس سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ وہ تہذیب مادی تھی، لوگ مادہ پرست تھے اور جادُو ٹونے پر  یقین رکھتے تھے۔ جب کہ آریا مادہ پرست نظریات کو مسترد کرنے والے رگ وید میں دیوتاؤں کی مذہبی خیال پرستی اور ایک پیدا کرنے والے بھگوان کے وجود کو ثابت کرنے میں لگے رہےہیں۔ ایسے گروہ خصوصاً اپنشدوں میں کائنات کے خیالی تصورات کو ڈھونڈتےہیں۔  آج کی تحریر میں ہم بہت تفصیل میں نہیں جا سکتے۔ صرف بنیادی باتوں کی حد تک اپنے آپ کو محدود رکھنے کی کوشش میں ہیں۔  یہاں ہم  ایک مقدمہ برائے گفتگو، مکالمہ یا بحث رکھ رہے ہیں۔  آج سے 4 یا 5 ہزار سال قبل آرین  نے وسط ایشیاء سے دنیا کے مختلف خطوں کی طرف ہجرت کی، جہاں گئے  وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ آرین ہندوستان میں ہی تھوڑا آئے ہیں؟ یورپ وغیرہ میں بھی گئے۔ یہ ان وقتوں کا ایک نارمل عمل ہے۔ قومی سرحدیں وغیرہ تو تھیں نہیں۔ باوجود اس نارمل عمل کے ہم سب آرین مخالف روّیہ اپنائے ہوئے ہیں۔ کیوں؟ ہمارے اپنے اور تمام انسان دوست تہذیب  کے وارثوں کے نزدیک آرین کے آنے سے انسان دوست روشن خیال دراوڑی سماج پیچھے کی طرف گیا۔ آرین یہاں کا حاکم طبقہ ٹھہرا۔ ذات پات کی تقسیم پیدا ہوئی۔ مقامی لوگ شُودر، دَلِت قرار دئیے گئے۔ دراوڑی زبان ناپید ہو گئی۔ عورت سیکنڈری مخلوق بن گئی۔

تاریخ پر نظر ڈالیں تو حملہ آور جہاں بھی گئے مقامیوں کے ساتھ عمومی طور پر یہی سلوک ہوا۔ اسی لئے حملہ آوروں کو ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے  دیکھا گیا ہے۔ 

آرین کو کل ہی کسی دوست نے سامراج لکھا۔ ہمارے نزدیک تمام تر انسان دوست تہذیبی زوال کے باوجود بھی ہم آرین کو سامراج نہیں کہہ سکتے۔ ایک تو سامراج سرمایہ داری کے بعد کا مرحلہ ہے۔ دوسرا وہ لُوٹ مار کرکے ہندوستان  سے باہر تھوڑی لے گئے۔  تاریخ آرین سے روشن خیال تہذیبی زوال پذیری کا حساب لیتی رہے گی۔ ہمارے نزدیک اس وقت کا سب سے اہم سوال تو ہماری آج کی اشرافیہ سے پوچھنے کا ہے کہ آپ کب تک  آرین کے پیچھے چھپتے رہیں گے؟ پانچ  ہزار سال بعد تو ہم اپنے معاشی، سماجی،  تہذیبی استحصال کا  سوال آپ سے پوچھنے اور آواز اُٹھانے کا حق رکھتے ہیں۔  

—♦—

Azam
مصنف کے بارے

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Tags: Agrarian SocietyAryanDarawarHarrappaIndiaIndus CivilizationMoenjo Daro
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

by للکار نیوز
اپریل 6, 2025
0
0

اگرچہ بظاہر استعماریت کا خاتمہ گزشتہ صدی میں ہو چکا ہے، لیکن حقیقت میں مغربی طاقتیں اپنی سابقہ نوآبادیات پر...

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

by للکار نیوز
اکتوبر 13, 2024
0
0

پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں...

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

by للکار نیوز
اکتوبر 5, 2024
1
0

پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد...

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

by للکار نیوز
ستمبر 27, 2024
0
0

پانچ دہائیوں تک ہندوستان کی قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برِصغیر کے نامور مارکسی مفکر، انقلابی تحریکوں...

بلوچ جدوجہد اور بلوچوں کی تاریخی حقیقت؟ – تحریر:ممتاز احمد آرزو

by للکار نیوز
ستمبر 26, 2024
0
0

ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا...

کالے کوئلے کو سفید بنانے والی ”دانائی“ اور ماحولیاتی سوال! – تحریر:بخشل تھلہو

by للکار نیوز
ستمبر 8, 2024
0
0

اس اگست کی دو تاریخ کو نصیر میمن صاحب نے اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ کی، جس میں...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.