قدیم و جدید تحقیق سے ثابت شدہ ہے کہ ہندوستان میں تہذیب کی بنیاد پنجاب، سندھ اور اس کے گردونواح سے رکھی گئی تھی۔ اس بات کی وضاحت کی خیر کوئی ضرورت تو نہیں ہونی چاہیئے لیکن کر دی جائے تو بہتر ہوگا ، کہ بات جدید پنجاب کی نہیں ہو رہی ۔ 4 سے 5 ہزارسال قبل مسیح کے پنجاب کا ریفرنس ہے۔ یہ ریفرنس پنجابی زبان کے حوالے سے نہیں ہے خطے کی بات ہے ۔ اب کوئی بھی اس بات پرمعترص نہیں ہے کہ ہندوستان میں لکھی گئی اولین کتاب، رگ وید ( 1700-110BC) پنجاب میں ہی لکھی گئی ۔ تاریخ پنجاب لکھنے کے لیے ایک اور قدیم تصنیف’مہا بھارت ‘(چھٹی صدی قبل مسیح ) سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس بات پر بھی اتفاق تھا کہ 4 سے 5 ہزار سال قبل مسیح ہڑپہ کی تہذیب مروج تھی ، جو کسی وجہ سے ختم ہوگئی اور اس کی جگہ وسط ایشیا ءسے آنے والے آریاؤں نے لے لی۔
کھدائی کے دوران ہڑپہ کی تہذیب کے دو بڑے شہروں، ہڑپہ اور موہنجوداڑو ( دونوں ایک ہی تہذیب کے شہر ہیں ہڑپہ یا انڈس ویلی ) کے رہن سہن کے متعلق کافی معلومات ملتی ہیں مگر پڑھی نہیں جا سکیں ۔ اس لئے تمام محققین آریاؤں کی عبادات کی کتاب رگ وید اور دیگر مذہبی کتب سے ہی بنیادی شہادتیں لیتے ہیں۔
ہمیں ہڑپہ تہذیب کی بجائے پنجاب اس وجہ سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ اب ہڑپہ کے علاوہ اور بھی بہت سی ہڑپائی عہد کی بستیاں دریافت ہو چکی ہیں ۔ ہڑپہ کی کھدائی چونکہ سب سے پہلے ہوئی ۔ وہی انڈس سولائزیشن کی بنیاد بنی۔ یقیناً یہ بنیاد مہرگڑھ سے ہی شروع ہوگی اور کرنی پڑے گی ۔ آگے نئی نئی دریافتیں ، معلومات مہیا ہوتی چلی گئیں ۔
پنجاب کی تاریخ کے متعلق معلومات اور تجزیے نے تین بڑی منازل طے کی ہیں۔ پہلا دور تو ہڑپہ کی کھدائی سے پہلے کا ہے۔ جس میں یہاں کی تاریخ کا سارا اندازہ رگ وید اور دیگر مذہبی کتب سے لگایا گیا۔ اس دور میں سب کچھ سنسکرت کی پرانی کتب ، شلوکوں اور کہانیوں پر مبنی ہے۔
یہ سب کچھ مذہبی تحاریر اور خرافات سے لگایا گیا تھا ۔ دوسرے دور کی ابتداء ہڑپہ کی کھدائی سے ہوئی جس میں مذہبی تفاسیر جمود کا شکار ہو گئیں اور سات ہزار سال قبل کے جدید سماج کو سامنے رکھتے ہوئے اس علاقے کی تاریخ کی از سر نو تصنیف شروع ہوئی ۔ نئی تاریخ کی تصنیف میں بنیادی مسئلہ یہ تھا ، کہ آریا مقامی تھے یا غیر مقامی۔ گزشتہ دو عشروں میں کئی تحقیقات میں یہ ثابت کیا گیا کہ آریاؤں کےباہر سے آنے کی کہانی غلط ہے یا اس میں نقائص ہیں۔
تاریخ پنجاب کے تجزیے کا تیسرا دور گزشتہ چند برسوں میں جینیاتی سائنس Genetics کے ذریعے ہوا۔ جس میں مسلمہ طور پر یہ ثابت ہوگیا کہ تقریبا 1500 سے 1300 سال قبل مسیح وسط ایشیا ء سے ایک بہت بڑا گروہ پنجاب آیا اور یہاں کی آبادی میں جوہری تبدیلیوں کے ساتھ نیا تہذیبی ارتقاء ہوا ۔ جینیاتی سائنس نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔
آرین مویشی پال وقت میں آئے ۔ خاص طور پر گائے ، گھوڑا ساتھ لائے ۔ آرین یہاں حکمران ٹھہرے ، لہٰذا گائے کی پوجا اور گھوڑا خاندانی برتری کی علامت بنا ۔ آریاؤں کی زبان سنسکرت کو پوجا پاٹ کی مقدس زبان کا درجہ ملا۔ ذات پات کا نظام اور مقامیوں( دراوڑوں) کو شودر کا گھٹیا ترین درجہ انہی کا دین ہے ۔
آریاؤں کا رنگ سفید، اونچا ناک، جسم دراوڑوں کے مقابل خوبصورت تھا ۔ تہذیبی ارتقاء کے پس منظر میں دیکھیں تو نئے فکری خیالات کے دباؤ میں وارث شاہ نے بھی رانجھے کی صورت میں نئے کرشن کو تلاش کیا۔
تبدیل شدہ حالات کی وجہ سے رانجھے کو کالا کی بجائے سفید ل دکھایا گیا ۔ مگر اس کی باقی صفات کرشن والی رکھی گئیں۔ حالانکہ دراوڑوں کا بھگوان کرشن تو کالے رنگ کا تھا ۔ پوری پنجابی شاعری میں رانجھا کرشن کی طرح بھگوان ہے ۔ اسی لئے وارث شاہ کی کرشن کے انداز میں رانجھے کی کردار کشی نے اس کی تصنیف کو مقبول ترین سطح پر پہنچا دیا ۔
چار مختلف لوگوں نے ہیر لکھی لیکن دوام وارث شاہ کی لکھی ہیر کو ملا ۔ وارث شاہ ہیر کی آنکھوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں”جلا نیناں دی دھار وچ پھب ریہا، چڑھیا ہند تے کٹک پنجاب دا جی ۔“ وارث شاہ مقامی سماجی بنت کے بہت قریب رہا ۔ صرف وارث شاہ نے نہ صرف ہیر رانجھے کا جسمانی ملاپ کروایا ہے بلکہ ملاپ کی خوبصورت منظر کشی کرتے ہوئے کئی ایک بند بھی لکھے ۔
جہاں تک آرین کے مقامی، غیر مقامی ہونے کے سوال پر تنازعے کا تعلق ہے ۔ بعض اوقات مخالف سیاسی نظریات رکھنے والی قوتوں کےمفادات ایک ہو جاتے ہیں ۔ ایسا کچھ آرین کے سوال پر بھی ہوا ہے ۔ آریاؤں کے باہر سے آنے کی کہانی کو غلط ثابت کر نا ہندوستانی اشرافیہ، ہندوتوا اور قوم پرست قوتوں کو اکٹھے کر دیتا ہے۔ ہندوستانی اشرافیہ کا اپنا تعلق آرین سے ہے ۔ آرین کا سیاسی ، مذہبی اور معاشرتی فلسفہ ہندوتوا کے مذہبی puritanism کو بنیاد فراہم کرتا ہے ۔ قوم پرست قوتوں کا نسلی puritanism ایک قوم کا جواز بنتا ہے۔ قوم پرست قوتوں کا بنیادی فریضہ ہی ایک قوم کے نام پر بورژوازی کےمفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ حکمران اپنی حکمرانی برقرار رکھنے اور اس کا دائرہ اثر وسیع کرنے کے لیے تاریخی، لسانی، ثقافتی ، سائنسی، قومی اور نسلی حقائق کو اچھالتے، گھماتے ، چھپاتے ، دباتے اور مسخ کرتے آئے ہیں اور مستقبل قریب میں بھی ایسا کرتے رہیں گے ۔
(جاری ہے)
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
قدیم و جدید تحقیق سے ثابت شدہ ہے کہ ہندوستان میں تہذیب کی بنیاد پنجاب، سندھ اور اس کے گردونواح سے رکھی گئی تھی۔ اس بات کی وضاحت کی خیر کوئی ضرورت تو نہیں ہونی چاہیئے لیکن کر دی جائے تو بہتر ہوگا ، کہ بات جدید پنجاب کی نہیں ہو رہی ۔ 4 سے 5 ہزارسال قبل مسیح کے پنجاب کا ریفرنس ہے۔ یہ ریفرنس پنجابی زبان کے حوالے سے نہیں ہے خطے کی بات ہے ۔ اب کوئی بھی اس بات پرمعترص نہیں ہے کہ ہندوستان میں لکھی گئی اولین کتاب، رگ وید ( 1700-110BC) پنجاب میں ہی لکھی گئی ۔ تاریخ پنجاب لکھنے کے لیے ایک اور قدیم تصنیف’مہا بھارت ‘(چھٹی صدی قبل مسیح ) سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس بات پر بھی اتفاق تھا کہ 4 سے 5 ہزار سال قبل مسیح ہڑپہ کی تہذیب مروج تھی ، جو کسی وجہ سے ختم ہوگئی اور اس کی جگہ وسط ایشیا ءسے آنے والے آریاؤں نے لے لی۔
کھدائی کے دوران ہڑپہ کی تہذیب کے دو بڑے شہروں، ہڑپہ اور موہنجوداڑو ( دونوں ایک ہی تہذیب کے شہر ہیں ہڑپہ یا انڈس ویلی ) کے رہن سہن کے متعلق کافی معلومات ملتی ہیں مگر پڑھی نہیں جا سکیں ۔ اس لئے تمام محققین آریاؤں کی عبادات کی کتاب رگ وید اور دیگر مذہبی کتب سے ہی بنیادی شہادتیں لیتے ہیں۔
ہمیں ہڑپہ تہذیب کی بجائے پنجاب اس وجہ سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ اب ہڑپہ کے علاوہ اور بھی بہت سی ہڑپائی عہد کی بستیاں دریافت ہو چکی ہیں ۔ ہڑپہ کی کھدائی چونکہ سب سے پہلے ہوئی ۔ وہی انڈس سولائزیشن کی بنیاد بنی۔ یقیناً یہ بنیاد مہرگڑھ سے ہی شروع ہوگی اور کرنی پڑے گی ۔ آگے نئی نئی دریافتیں ، معلومات مہیا ہوتی چلی گئیں ۔
پنجاب کی تاریخ کے متعلق معلومات اور تجزیے نے تین بڑی منازل طے کی ہیں۔ پہلا دور تو ہڑپہ کی کھدائی سے پہلے کا ہے۔ جس میں یہاں کی تاریخ کا سارا اندازہ رگ وید اور دیگر مذہبی کتب سے لگایا گیا۔ اس دور میں سب کچھ سنسکرت کی پرانی کتب ، شلوکوں اور کہانیوں پر مبنی ہے۔
یہ سب کچھ مذہبی تحاریر اور خرافات سے لگایا گیا تھا ۔ دوسرے دور کی ابتداء ہڑپہ کی کھدائی سے ہوئی جس میں مذہبی تفاسیر جمود کا شکار ہو گئیں اور سات ہزار سال قبل کے جدید سماج کو سامنے رکھتے ہوئے اس علاقے کی تاریخ کی از سر نو تصنیف شروع ہوئی ۔ نئی تاریخ کی تصنیف میں بنیادی مسئلہ یہ تھا ، کہ آریا مقامی تھے یا غیر مقامی۔ گزشتہ دو عشروں میں کئی تحقیقات میں یہ ثابت کیا گیا کہ آریاؤں کےباہر سے آنے کی کہانی غلط ہے یا اس میں نقائص ہیں۔
تاریخ پنجاب کے تجزیے کا تیسرا دور گزشتہ چند برسوں میں جینیاتی سائنس Genetics کے ذریعے ہوا۔ جس میں مسلمہ طور پر یہ ثابت ہوگیا کہ تقریبا 1500 سے 1300 سال قبل مسیح وسط ایشیا ء سے ایک بہت بڑا گروہ پنجاب آیا اور یہاں کی آبادی میں جوہری تبدیلیوں کے ساتھ نیا تہذیبی ارتقاء ہوا ۔ جینیاتی سائنس نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔
آرین مویشی پال وقت میں آئے ۔ خاص طور پر گائے ، گھوڑا ساتھ لائے ۔ آرین یہاں حکمران ٹھہرے ، لہٰذا گائے کی پوجا اور گھوڑا خاندانی برتری کی علامت بنا ۔ آریاؤں کی زبان سنسکرت کو پوجا پاٹ کی مقدس زبان کا درجہ ملا۔ ذات پات کا نظام اور مقامیوں( دراوڑوں) کو شودر کا گھٹیا ترین درجہ انہی کا دین ہے ۔
آریاؤں کا رنگ سفید، اونچا ناک، جسم دراوڑوں کے مقابل خوبصورت تھا ۔ تہذیبی ارتقاء کے پس منظر میں دیکھیں تو نئے فکری خیالات کے دباؤ میں وارث شاہ نے بھی رانجھے کی صورت میں نئے کرشن کو تلاش کیا۔
تبدیل شدہ حالات کی وجہ سے رانجھے کو کالا کی بجائے سفید ل دکھایا گیا ۔ مگر اس کی باقی صفات کرشن والی رکھی گئیں۔ حالانکہ دراوڑوں کا بھگوان کرشن تو کالے رنگ کا تھا ۔ پوری پنجابی شاعری میں رانجھا کرشن کی طرح بھگوان ہے ۔ اسی لئے وارث شاہ کی کرشن کے انداز میں رانجھے کی کردار کشی نے اس کی تصنیف کو مقبول ترین سطح پر پہنچا دیا ۔
چار مختلف لوگوں نے ہیر لکھی لیکن دوام وارث شاہ کی لکھی ہیر کو ملا ۔ وارث شاہ ہیر کی آنکھوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں”جلا نیناں دی دھار وچ پھب ریہا، چڑھیا ہند تے کٹک پنجاب دا جی ۔“ وارث شاہ مقامی سماجی بنت کے بہت قریب رہا ۔ صرف وارث شاہ نے نہ صرف ہیر رانجھے کا جسمانی ملاپ کروایا ہے بلکہ ملاپ کی خوبصورت منظر کشی کرتے ہوئے کئی ایک بند بھی لکھے ۔
جہاں تک آرین کے مقامی، غیر مقامی ہونے کے سوال پر تنازعے کا تعلق ہے ۔ بعض اوقات مخالف سیاسی نظریات رکھنے والی قوتوں کےمفادات ایک ہو جاتے ہیں ۔ ایسا کچھ آرین کے سوال پر بھی ہوا ہے ۔ آریاؤں کے باہر سے آنے کی کہانی کو غلط ثابت کر نا ہندوستانی اشرافیہ، ہندوتوا اور قوم پرست قوتوں کو اکٹھے کر دیتا ہے۔ ہندوستانی اشرافیہ کا اپنا تعلق آرین سے ہے ۔ آرین کا سیاسی ، مذہبی اور معاشرتی فلسفہ ہندوتوا کے مذہبی puritanism کو بنیاد فراہم کرتا ہے ۔ قوم پرست قوتوں کا نسلی puritanism ایک قوم کا جواز بنتا ہے۔ قوم پرست قوتوں کا بنیادی فریضہ ہی ایک قوم کے نام پر بورژوازی کےمفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ حکمران اپنی حکمرانی برقرار رکھنے اور اس کا دائرہ اثر وسیع کرنے کے لیے تاریخی، لسانی، ثقافتی ، سائنسی، قومی اور نسلی حقائق کو اچھالتے، گھماتے ، چھپاتے ، دباتے اور مسخ کرتے آئے ہیں اور مستقبل قریب میں بھی ایسا کرتے رہیں گے ۔
(جاری ہے)
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔