">
ADVERTISEMENT

تصورکی جڑیں تمام تر تجریدی و انطباقی تشکیلات سے جڑی ہوئی ہے۔ مثلاً: عالم مظاہر میں پہلے سے موجود جنہیں ہم تجربے میں لا چکے ہیں ان چیزوں کا؛ یا ہمارے مجتمع ادراکات کا منبع لا شعور(Unconscious mind) میں جاگزیں تصویروں کا دوبارہ شعور کے خانے میں ابھر آنا تصور کہلاتا ہے۔
تحقیق و تجربے سے مزین، نظریات کی بنیاد ”تخیل“ چاہے مادی ہو، نظریاتی ہو، سائنسی ہو، یا ریاضیاتی فارمولوں کی صورت میں ہوں اس کا براہ راست تعلق(بالاتر از علم) تخلیق سے جڑتا ہے۔ تخیل وہ اختراعی طرزِفکر ہے جس میں خالصتاً شعور کی مرکزیت بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
نظریات وہ متعین فکری لائحہ عمل ہے، جسے فرد یا افراد مادی یا تاریخی حالتوں میں اپناتے ہیں۔ ریاضی اور بالخصوص سائنسی علوم میں اس کی ہیئت فارمولوں یا مسلمہ اصولوں کی شکل میں ہوتی ہیں۔ نظریات کوئی اٹل فیصلے نہیں ہیں جن میں ترامیم محال ہوں اس لئے ان میں ترمیمات مزید کی گنجائش ہمہ وقت موجود رہتی ہیں۔
افلاطون کی غیر مادی تمثال نگاری:
اگر میں آپ سے یہ پوچھوں کہ: کیا آپ نے کبھی مگرمچھ دیکھا ہے؟ تو یقینا آپ کا جواب ’ہاں‘ میں ہوگا اور ساتھ میں مختلف مگرمچھوں کے تصورات آپ کے ذہن میں پانی میں سکون کے ساتھ تیرتے اور شکار پر پھرتی سے حملہ کرتے گردش کرنے لگیں گے۔ اب اگر دوسری بار میں آپ سے یہ جاننا چاہوں کہ کیا آپ نے ہاتھی بھی دیکھا ہے؟ تو آپ کا جواب اب بھی ’ہاں‘ میں ہوگا اور بعینہٖ مختلف عظیم الجثہ ہاتھیوں کے تصورات آپ کے ذہن میں دوڑتے اور چھنگاڑتے ابھر آئیں گے۔ اس مرتبہ میں آپ سے ایک غیرمتوقع اور غیر موجود چیز کے بارے میں سوال پوچھتا ہوں کہ: کیا آپ نے کبھی ”مگرہتھ“ دیکھا ہے؟ (ایسا جانور جس کا آدھا جسم مگر مچھ کا ہو اور آدھا ہاتھی کا!) تو یقینا اس موقع پر آپ کا دماغ سٹپٹا جائے گا کیونکہ ایسا کوئی عجیب و غریب جانور کا تصور آپ کے لاشعور میں پہلے سے موجود نہیں ہے جسے آپ کا شعور اپنے پردہ سمیں پر نمودار کر سکے۔ اس طرح مادی حالتوں میں پہلے سے موجود الگ الگ دونوں اجسام کو آپس میں غیرمادی طور پرآپ کا تخیل قطعاً نہیں جوڑ سکے گا بلکہ تمام عمر اس عجیب و غریب جانور کی تصویر کشی میں وہ ناکام رہے گا۔ کیونکہ آپ نے ہاتھی کو پھرتی کے ساتھ شکار کھیلتے اور مگر مچھ کو چھنگاڑتے کبھی نہیں دیکھا ہے۔
اب کی بار میں آپ کو کچھ دنوں بعد ایک ایسا مووی دکھاتا ہوں جس میں کمپیوٹر گرافکس کے ذریعے کسی آپریٹر نے ان اجسام کو جوڑ کر غیرمادی ”تخیلاتی مگرہتھ“ بنا کر دکھایا ہو۔ اس مووی کو دیکھنے کے بعد مگرہتھ کی وہ فرضی اور مصنوعی تصویر آپ کے لاشعور میں تصورات کے طور پر شامل ہو جائے گی جو افلاطون کی طرح اس کمپیوٹر گرافکس آپریٹر کے تخیل کی تمثالی نقل ہوں گی۔ بعدازیں جب بھی آپ سے مگرہتھ کے بارے میں پوچھا جائے گا تو یقینا آپ کے شعور کے پردے پر وہی مووی والا مگر ہتھ آپ کے لاشعور کے تصورات سے برآمد ہو گا، نہ کہ کوئی اور تصویر!
افلاطون نے اسی فارمولے کو غیرمادی بنیادوں پر استوار کرکے عینی تخیل کی اوّلیت اور مشمولِ خیال تصور کی ثانویت کو مقابل رکھ کر اپنی عالم امثال کو روشناس کروایا تھا۔ درج بالا تمثیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تخیل چاہے سائنسی اور ریاضیاتی شکل میں ہوں یا فلسفیانہ نظریات کی شکل میں ہوں، مادی ہو یا تمثالی پوچ بافیاں ہوں، پہلے آتا ہے اور تصور بعد میں بنتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح مادی کائنات کے مظاہر پہلے وجود پذیر ہوئے ہیں اور ان کے تصورات بعد میں تشکیل پائے ہیں۔ اسی لئے تمام مادیت پسند مادے کو شعور یا ذہن پر مقدم تسلیم کرتے ہیں۔
Advertisement. Scroll to continue reading.
">