ہڑپہ کے کھنڈرات تقریبا 1826ء میں دریافت ہوئے تھے۔ اس کی پہلی کھدائی 1920ء – 1921ء میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی جانب سے کی گئی تھی ۔ جے فلیٹ کو 1912ء میں ہڑپہ کی مہریں اور سکے ملے تھے ۔ جس کے بعد ہونے والی کھدائی کا کام سر جان مارشل کی سربراہی میں رائے بہادر دیارام شاہی اور مدھو سروپ واٹس نے مل کر کیا اور ہڑپہ کی تہذیب کے پورے ثبوت مل گئے ۔
ہڑپہ کی کھدائی کے ذریعے ملنے والی پرانی تہذیب نے ہی ہندو مذہبی کُتب کے ذریعے تاریخ مرتب کرنے کے انداز کو ملیامیٹ کردیا۔ اس کھدائی سے قبل پوری تاریخ کو پنجاب میں پہلے صحیفے رگ وید اور دیگر مذہبی کُتب کے ذریعے پروان چڑھایا جا رہا تھا ۔ ویدوں، اپنشدوں اور پرانوں کے ذریعے برہمنوں کی گھڑی گئی تاریخ مٹی میں مل گئ ۔
ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی کھدائی اور چھان بین سے کوئی مندر یا محل نہیں ملاہے ۔ نہ ہی جنگی ہتھیار: زیادہ سے زیادہ شکار کرنے والے تیر کمان ملے ہیں۔
مگر میسوپوٹیمیا کی کھدائی سے بڑے مندر، محل اورجنگی سامان دریافت ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہڑپائی تہذیب بشمول موہنجوداڑو اور ہڑپائی عہد کی بعد ازاں ہونے والی دیگر کھدائیوں سے میسوپوٹیمیا جیسا مذہب اور حاکم طبقہ نہیں ملا ۔ ہڑپائی تہذیب ( رگ ویدوں سے پہلے کی تھی ) مادی پہلو رکھتی تھی مگر برہمنوں کے رگ وید سے تاریخ شروع کرنے کی لعنت ترک نہ کی گئی۔
ہڑپہ، موہنجوداڑو کی کھدائیوں سے اس علاقہ کی بنیادی تاریخ ہی بدل گئی اور یہ مانا جانے لگا کہ پنجاب اور سندھ کی تہذیب اپنے دور میں سب سے بلند مقام پر تھی ۔
سر جان مارشل اپنی کتاب Mohenjodaro and the indus civilization London 1933 میں رقمطراز ہیں؛
” آریاؤں کا اس وقت کسی نے نام بھی نہیں سنا ہوگا جب پانچ ہزارسال قبل ، اگر باقی ماندہ ہندوستان میں نہیں پنجاب اور سندھ میں تہذیب ایک جیسے رنگ والی بہت روشن خیال آبادی تھی ۔ یہ میسوپوٹیمیا اور مصر کی تہذیبوں جیسی تھی ، بلکہ ان سے بھی اچھی تھی ۔“
پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں؛
” موہنجوداڑو اور ہڑپہ دونوں مقامات سے ایک بات بلا حیل وحجت، بلکل صریح انداز میں سامنے آتی ہے ۔ ان دونوں مقامات پر تہذیب نوزائیدہ نہیں تھی بلکہ یہ کافی استعمال شدہ تھی ۔ صدیوں پرانی تھی اور انسان کی قوتوں کا مظہر تھی ۔۔۔ اسے ایسے ہی تسلیم کیا جانا چاہیے جیسے مصر اور میسوپوٹیمیا کو۔۔۔“
ہڑپہ کی آبادی کے متعلق اندازہ لگایا گیا ہے کہ پوری ترقی کے زمانوں میں وہ 23،500 سے لے کر30،000 نفوس کے لگ بھگ تھی
Encyclopedia Britannica (India, Harappa))
موہنجوداڑو کو40،000 کی آبادی کا شہر کہا گیا ہے ۔ اس زمانے میں یہ بہت بڑی آبادی تھی ۔ گراہم کلارک کا کہنا ہے کہ پتھر کے زمانے میں برطانیہ اور ویلز کی کل آبادی 250 نفوس پر مشتمل تھی جو پتھر کے ابتدائی زمانے میں 4،500 ہوگئی اور پتھر کے نئے زمانے میں 20،000 اور ایک تا دو ہزار سال قبل مسیح میں اس سے دوگنا یعنی 40،000 سے بھی کم تھی ۔
Kosambi p 48
مطلب یہ کہ موہنجوداڑو شہر کی آبادی پورے برطانیہ سے زیادہ تھی ۔
پنجاب اور سندھ میں تہذیب کے سب سی پہلے جنم ( ارتقاء ) لینے کا بنیادی سبب یہاں چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں پر مشتمل بیلے مطلب ریتلی زمین تھی۔ جنہیں آہنی ہتھیاروں کے بغیر بھی صاف کیا جاسکتا تھا ۔ لوہا بہت بعد میں دریافت ہوا تھا ۔ اس کے بعد تہذیب کا مرکز گنگا جمنا کی وادی ہو گئی ، کیونکہ وہاں کے گھنے جنگلات کو صرف آہنی ہتھیاروں سے صاف کیا جاسکتا تھا ۔ وہاں کی سخت زمین میں لوہے کے پھالے کے ذریعے ہل چلایا جا سکتا تھا۔
ہڑپہ تہذیب کے خاتمہ سے متعلق بھی کئی نظریات ہیں ۔ بیشتر کا اتفاقِ رائے ہے کہ ہڑپہ تہذیب آریاؤں کے آنے سے پہلے ہی دو ہزار قبل مسیح کے لگ بھگ ختم ہو چکی تھی یا خاتمے کے قریب تھی ۔
آرین 2000 سے 1500 قبل مسیح تک ایک بہت بڑا گروہ پنجاب آنا شروع ہوا تھا ۔ جنہیں آ رہا کہا جاتا ہے۔ موجودہ اندازہ یہ ہے کہ یہاں پورے علاقے میں موسموں کی بنیادی تبدیلی سے مون سون کی بارشوں کا نظام اُلٹ گیا ۔ دریائے سندھ میں سیلاب آنا بند ہوگئے کھیتی باڑی ختم ہو گئی اور شہر اُجڑ گئے ۔ ایک اور تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ یہاں 900 سال کا قحط پڑا جس سے اس تہذیب کے شہر اُجڑ گئے ۔ ان وقتوں میں ہڑپہ کے لوگ جنوبی ہندوستان کی طرف جانے لگے اور کئی سو یا کئی ہزاربرس میں وہاں جا کر آباد ہو گئے ۔ ہڑپہ کے لوگ دو راستوں سے جنوب کی طرف گئے ۔ جن میں سے ایک سمندر کے کنارے کنارے جانے کا تھا اور دوسرا اندر سے جانے کا۔ پروفیسر فرینکلن ساؤتھ ورتھ نے مہاراشٹر کے ناموں سے نتیجہ اخذ کیا کہ ہڑپہ کے باشندوں نے جنوب کی طرف جاتے ہوئے راستے میں کئی شہر اور قصبے آباد کیے ۔ جن کے نام کے آخر میں” والی“جیسے (راہ والی ) ہے اور یہ جنوب میں”پالی“ ہوجاتا ہے ۔
جنوب میں جن زبانوں نے فروغ پایا ، ان کی شاخ بروہی بھی ہے جو بلوچستان ، قلات اور جنوبی افغانستان کے چند علاقوں میں بولی جاتی ہے ۔ یہ زبان دراوڑی ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ ہڑپہ کے لوگ شمال سے جنوب کی طرف گئے ۔ کچھ لوگ بروہی کو دراوڑی زبانوں کے سلسلے میں شمار نہیں کرتے ۔
ہڑپہ تہذیب کے بارے ریتا گریوال نے تاریخ کی الگ الگ منازل پر پنجاب کے شہروں کے متعلق بتایا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب، گجرات، راجستھان، سندھ، ہریانہ اور مغربی اُتر پردیش ( یو پی) میں شہری علاقے تھے۔ ہڑپہ تہذیب کے شہروں کے متعلق وہ بتاتی ہیں ؛
”ہڑپہ تہذیب کے زمانے میں نسبتاً زیادہ شہر پنجاب میں تھے ۔ یہ کہا گیا ہے کہ یہ شہرچولستان ، موہنجوداڑو سے شروع ہوکر شمال اور شمال مشرق کی طرف پھیلے ۔۔۔ یہ شہر زرعی سطح پر ترقی یافتہ علاقوں میں تھے ، کیونکہ ان کا وجود اسی بات پرتھا ۔ پنجاب کے دوآبوں میں شہر نہیں تھے ۔ 3 ہیکٹروں کے گاؤں نظر آتے تھے۔ شہروں کے ناموں کی تفصیل بہت لمبی ہو جائے گی ۔“
یہ بات بھی کرتے چلیے کہ ہڑپہ کے معاشرے کے خاتمے کے بعد چھ سو سال تک اندھیروں میں گم ہیں ۔ مگر ویدوں کے زمانے میں جو نیا سماج تشکیل پا رہا تھا ۔ اس زمانے میں پنجاب میں بہت سے پیداواری طریقے نظر آتے ہیں ۔ جن میں جنگل میں خوراک اکٹھی کرنا ، مویشی پالنا اور کھیتی باڑی کرنا شامل ہے ۔
(جاری ہے)
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
ہڑپہ کے کھنڈرات تقریبا 1826ء میں دریافت ہوئے تھے۔ اس کی پہلی کھدائی 1920ء – 1921ء میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی جانب سے کی گئی تھی ۔ جے فلیٹ کو 1912ء میں ہڑپہ کی مہریں اور سکے ملے تھے ۔ جس کے بعد ہونے والی کھدائی کا کام سر جان مارشل کی سربراہی میں رائے بہادر دیارام شاہی اور مدھو سروپ واٹس نے مل کر کیا اور ہڑپہ کی تہذیب کے پورے ثبوت مل گئے ۔
ہڑپہ کی کھدائی کے ذریعے ملنے والی پرانی تہذیب نے ہی ہندو مذہبی کُتب کے ذریعے تاریخ مرتب کرنے کے انداز کو ملیامیٹ کردیا۔ اس کھدائی سے قبل پوری تاریخ کو پنجاب میں پہلے صحیفے رگ وید اور دیگر مذہبی کُتب کے ذریعے پروان چڑھایا جا رہا تھا ۔ ویدوں، اپنشدوں اور پرانوں کے ذریعے برہمنوں کی گھڑی گئی تاریخ مٹی میں مل گئ ۔
ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی کھدائی اور چھان بین سے کوئی مندر یا محل نہیں ملاہے ۔ نہ ہی جنگی ہتھیار: زیادہ سے زیادہ شکار کرنے والے تیر کمان ملے ہیں۔
مگر میسوپوٹیمیا کی کھدائی سے بڑے مندر، محل اورجنگی سامان دریافت ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہڑپائی تہذیب بشمول موہنجوداڑو اور ہڑپائی عہد کی بعد ازاں ہونے والی دیگر کھدائیوں سے میسوپوٹیمیا جیسا مذہب اور حاکم طبقہ نہیں ملا ۔ ہڑپائی تہذیب ( رگ ویدوں سے پہلے کی تھی ) مادی پہلو رکھتی تھی مگر برہمنوں کے رگ وید سے تاریخ شروع کرنے کی لعنت ترک نہ کی گئی۔
ہڑپہ، موہنجوداڑو کی کھدائیوں سے اس علاقہ کی بنیادی تاریخ ہی بدل گئی اور یہ مانا جانے لگا کہ پنجاب اور سندھ کی تہذیب اپنے دور میں سب سے بلند مقام پر تھی ۔
سر جان مارشل اپنی کتاب Mohenjodaro and the indus civilization London 1933 میں رقمطراز ہیں؛
” آریاؤں کا اس وقت کسی نے نام بھی نہیں سنا ہوگا جب پانچ ہزارسال قبل ، اگر باقی ماندہ ہندوستان میں نہیں پنجاب اور سندھ میں تہذیب ایک جیسے رنگ والی بہت روشن خیال آبادی تھی ۔ یہ میسوپوٹیمیا اور مصر کی تہذیبوں جیسی تھی ، بلکہ ان سے بھی اچھی تھی ۔“
پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں؛
” موہنجوداڑو اور ہڑپہ دونوں مقامات سے ایک بات بلا حیل وحجت، بلکل صریح انداز میں سامنے آتی ہے ۔ ان دونوں مقامات پر تہذیب نوزائیدہ نہیں تھی بلکہ یہ کافی استعمال شدہ تھی ۔ صدیوں پرانی تھی اور انسان کی قوتوں کا مظہر تھی ۔۔۔ اسے ایسے ہی تسلیم کیا جانا چاہیے جیسے مصر اور میسوپوٹیمیا کو۔۔۔“
ہڑپہ کی آبادی کے متعلق اندازہ لگایا گیا ہے کہ پوری ترقی کے زمانوں میں وہ 23،500 سے لے کر30،000 نفوس کے لگ بھگ تھی
Encyclopedia Britannica (India, Harappa))
موہنجوداڑو کو40،000 کی آبادی کا شہر کہا گیا ہے ۔ اس زمانے میں یہ بہت بڑی آبادی تھی ۔ گراہم کلارک کا کہنا ہے کہ پتھر کے زمانے میں برطانیہ اور ویلز کی کل آبادی 250 نفوس پر مشتمل تھی جو پتھر کے ابتدائی زمانے میں 4،500 ہوگئی اور پتھر کے نئے زمانے میں 20،000 اور ایک تا دو ہزار سال قبل مسیح میں اس سے دوگنا یعنی 40،000 سے بھی کم تھی ۔
Kosambi p 48
مطلب یہ کہ موہنجوداڑو شہر کی آبادی پورے برطانیہ سے زیادہ تھی ۔
پنجاب اور سندھ میں تہذیب کے سب سی پہلے جنم ( ارتقاء ) لینے کا بنیادی سبب یہاں چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں پر مشتمل بیلے مطلب ریتلی زمین تھی۔ جنہیں آہنی ہتھیاروں کے بغیر بھی صاف کیا جاسکتا تھا ۔ لوہا بہت بعد میں دریافت ہوا تھا ۔ اس کے بعد تہذیب کا مرکز گنگا جمنا کی وادی ہو گئی ، کیونکہ وہاں کے گھنے جنگلات کو صرف آہنی ہتھیاروں سے صاف کیا جاسکتا تھا ۔ وہاں کی سخت زمین میں لوہے کے پھالے کے ذریعے ہل چلایا جا سکتا تھا۔
ہڑپہ تہذیب کے خاتمہ سے متعلق بھی کئی نظریات ہیں ۔ بیشتر کا اتفاقِ رائے ہے کہ ہڑپہ تہذیب آریاؤں کے آنے سے پہلے ہی دو ہزار قبل مسیح کے لگ بھگ ختم ہو چکی تھی یا خاتمے کے قریب تھی ۔
آرین 2000 سے 1500 قبل مسیح تک ایک بہت بڑا گروہ پنجاب آنا شروع ہوا تھا ۔ جنہیں آ رہا کہا جاتا ہے۔ موجودہ اندازہ یہ ہے کہ یہاں پورے علاقے میں موسموں کی بنیادی تبدیلی سے مون سون کی بارشوں کا نظام اُلٹ گیا ۔ دریائے سندھ میں سیلاب آنا بند ہوگئے کھیتی باڑی ختم ہو گئی اور شہر اُجڑ گئے ۔ ایک اور تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ یہاں 900 سال کا قحط پڑا جس سے اس تہذیب کے شہر اُجڑ گئے ۔ ان وقتوں میں ہڑپہ کے لوگ جنوبی ہندوستان کی طرف جانے لگے اور کئی سو یا کئی ہزاربرس میں وہاں جا کر آباد ہو گئے ۔ ہڑپہ کے لوگ دو راستوں سے جنوب کی طرف گئے ۔ جن میں سے ایک سمندر کے کنارے کنارے جانے کا تھا اور دوسرا اندر سے جانے کا۔ پروفیسر فرینکلن ساؤتھ ورتھ نے مہاراشٹر کے ناموں سے نتیجہ اخذ کیا کہ ہڑپہ کے باشندوں نے جنوب کی طرف جاتے ہوئے راستے میں کئی شہر اور قصبے آباد کیے ۔ جن کے نام کے آخر میں” والی“جیسے (راہ والی ) ہے اور یہ جنوب میں”پالی“ ہوجاتا ہے ۔
جنوب میں جن زبانوں نے فروغ پایا ، ان کی شاخ بروہی بھی ہے جو بلوچستان ، قلات اور جنوبی افغانستان کے چند علاقوں میں بولی جاتی ہے ۔ یہ زبان دراوڑی ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ ہڑپہ کے لوگ شمال سے جنوب کی طرف گئے ۔ کچھ لوگ بروہی کو دراوڑی زبانوں کے سلسلے میں شمار نہیں کرتے ۔
ہڑپہ تہذیب کے بارے ریتا گریوال نے تاریخ کی الگ الگ منازل پر پنجاب کے شہروں کے متعلق بتایا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب، گجرات، راجستھان، سندھ، ہریانہ اور مغربی اُتر پردیش ( یو پی) میں شہری علاقے تھے۔ ہڑپہ تہذیب کے شہروں کے متعلق وہ بتاتی ہیں ؛
”ہڑپہ تہذیب کے زمانے میں نسبتاً زیادہ شہر پنجاب میں تھے ۔ یہ کہا گیا ہے کہ یہ شہرچولستان ، موہنجوداڑو سے شروع ہوکر شمال اور شمال مشرق کی طرف پھیلے ۔۔۔ یہ شہر زرعی سطح پر ترقی یافتہ علاقوں میں تھے ، کیونکہ ان کا وجود اسی بات پرتھا ۔ پنجاب کے دوآبوں میں شہر نہیں تھے ۔ 3 ہیکٹروں کے گاؤں نظر آتے تھے۔ شہروں کے ناموں کی تفصیل بہت لمبی ہو جائے گی ۔“
یہ بات بھی کرتے چلیے کہ ہڑپہ کے معاشرے کے خاتمے کے بعد چھ سو سال تک اندھیروں میں گم ہیں ۔ مگر ویدوں کے زمانے میں جو نیا سماج تشکیل پا رہا تھا ۔ اس زمانے میں پنجاب میں بہت سے پیداواری طریقے نظر آتے ہیں ۔ جن میں جنگل میں خوراک اکٹھی کرنا ، مویشی پالنا اور کھیتی باڑی کرنا شامل ہے ۔
(جاری ہے)
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔