گذشتہ کچھ عرصے سے ہم پاکستان میں طاقت کے واحد مرکز( خاکی اسٹیبلشمنٹ) کو بلیک اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اُبھرتے چیلنج کا منظر نامہ دیکھ رہے ہیں۔ چیلنج لفظ درست بھی ہے کہ نہیں اس کو فی الحال چھوڑ دیتے ہیں۔ پاکستان کی 76 سالہ زندگی میں تو ہم نے ان کے درمیان ایسی کوئی چپقلش نہیں دیکھی، بلکہ اس سارے وقت میں دونوں نے مل کر پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کو کُھڈے لائن لگانے کے مشترکہ پراجیکٹ کی تکمیل کی ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کے اپنے لچھن بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ یہاں منیر نیازی کا شعر یاد آ رہا ہے؛
کُجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن
کُجھ سانوں مَرن دا شوق وی سی
ایسا ہی کچھ کالے عمال والی سول بیوروکریسی کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ اب جب ان سے فارغ ہوگئے ہیں اور کسی حد تک بلیک اسٹیبلشمنٹ نے بھی اعتماد حاصل کرلیا ہے اور یہ کہنے کے قابل ہو گئی ہے کہ ? where is cat یہ سوال اُٹھانے لگ گئی ہے کہ ہمارے کاموں میں مداخلت بند کرو۔ بظاہر یہ بات دل کو بھاتی ہے کہ پاکستان میں طاقت کا یک قطبی ( Unipolar ) کی بجائے دو قطبی (bipolar) نظام متعارف ہو رہا ہے۔
غالب کےبقول؛
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
ہمارے نزدیک بھی بس اس چیلنج کی اتنی ہی حقیقت ہے۔ یہ لڑائی عوام کے بنیادی حقوق کی نہیں ہے۔ کیک کے شیئر میں اضافے کی ہے، ورنہ مطالبہ صرف حد تک نہ ہوتا کہ ہمارے کاموں میں مداخلت نہ کی جائے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر باقی چوبیس کروڑ عوام کی زندگیوں میں مداخلت جاری رہے گی، تو کیا آپ کسی دوسرے planet کی مخلوق ہیں کہ آپ کے کاموں میں مداخلت نہیں ہوگی۔
آپ کو ان کی کارپوریٹ ایمپائر پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بس آپ کے پلاٹوں، پلازوں اور vested معاملات کی فائلیں نہ بنائیں۔ یہ ممکن نہیں ہے!
آپ ملزم کو رات اپنے گھر میں پناہ دیں اور صبح اس کا مقدمہ بھی خود ہی سنیں، پھر کہیں کہ آپ کے ٹیلی-فون ٹیپ نہ ہوں۔ چوپڑیاں نالے دو دو ۔ اپنے Perks and Privileges کی حفاظت بھی کرنی ہے اور بندوق والوں سے لڑنا بھی ہے۔ No کی ایک قیمت ہوتی ہے جو ہر کوئی ادا نہیں کر سکتا، جو کر جاتا ہے امر ہو جاتا ہے۔ ہاں آپ کے کچھ لوگ، جو ان عمال میں نہیں پڑے ہوں گے۔ وہ انفرادی طور پر بچ نکلے۔ اسی طرح کے رویوں کی بنا پر ہماری سول بیوروکریسی اور سیاسی Elite مار کھا گئی۔ آپ بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ آپ کو میرٹ پہ آنا ہوگا، لیکن ہمارے جیسے پسماندہ جاگیردارانہ معاشروں میں میرٹ کہاں ہوتا ہے؟
ہمارے نزدیک یہ کام بنیادی طور پر اس ملک کی سیاسی جماعتوں کا ہے کہ وہ عوام کی طاقت سے مزاحمت کریں، لیکن آپ کے مشترکہ پراجیکٹ نے سیاسی جماعتوں کو ( جیسی بھی ہیں جاگیردارانہ معاشروں میں ایسی ہوتی ہیں ) اپنے پاؤں پر کھڑے ہی نہیں ہونے دیا۔
جاگیرداری کے خاتمہ میں یہاں سیاسی اشرافیہ رُکاوٹ بنی ہوئی ہے، وہاں آپ نے بھی قزلباش ٹرسٹ جیسے کیسوں میں جاگیرداری کا تحفظ کیا۔
اس کے خلاف محترم عابد حسن منٹو صاحب کی طرف سے دائر کردہ، ورکرز پارٹی کی پٹیشن تقریباً گزشتہ 20 سال سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سرد خانے میں پڑی ہے۔ آپ سننے کی ضرورت ہی نہیں سمجھ رہے۔ آپ جیسے ادارے تودنیا میں جمہوریت کی دین ہیں۔ یہاں جمہوریت پنپنے ہی نہیں دی جاتی۔ عوام کی پشت مضبوط نہیں ہو پاتی، جو بنیادی سماجی تبدیلی کا سرچشمہ ہیں۔
بقول فیض صاحب؛
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اُچھالے جائیں گے
یہ منظر دیکھنے کے لئے عوام کے شعور کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں منظم کرنا پڑے گا، جو حکمران طبقہ کرنا نہیں چاہتا۔ انہوں نے خود بھی یہی”کام“ کرنے ہوتے ہیں اور آج تک کرتے آئے ہیں۔ ہم جیسے جو کرنا چاہتے ہیں ان کے پلے کچھ نہیں ۔ ان سب کو اسی خاکی کی جھولی میں بیٹھنے کا بہت شوق ہے۔ ہماری آج کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کہلوانے کا شوق رکھنے اور مزاحمت کا استعارہ سمجھے جانے والے بھی اسی خاکی کے در دولت پر حاضری، انہیں کی انگلی اٹھنے کے منتظر رہتے ہیں۔ ہم کسی ایک بات نہیں کر رہے۔ اس حمام میں سب۔۔۔ یہ ہے ہمارے حکمران طبقہ کا دوغلا پن۔ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی جنگ عوام کی طاقت کے بغیر نہیں لڑی جا سکتی، جیتنی تو در کنار۔ جیتنے کے لیئے تو مگرمچھ کو دریا سے نکالنا پڑے گا۔ ورنہ اپنے اپنے جزیروں کو مضبوط و محفوظ بنانے کا شوق سب رائیگاں جائے گا۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔