• Latest

بلیک (عدالتی) بمقابلہ خاکی اسٹیبلشمنٹ – تحریر: رانا اعظم

مئی 16, 2024

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
منگل, جون 24, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home home مضامین

بلیک (عدالتی) بمقابلہ خاکی اسٹیبلشمنٹ – تحریر: رانا اعظم

آپ کو ان کی کارپوریٹ ایمپائر پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بس آپ کے پلاٹوں، پلازوں اور vested معاملات کی فائلیں نہ بنائیں۔ یہ ممکن نہیں ہے!

للکار نیوز by للکار نیوز
مئی 16, 2024
in مضامین
A A
0

گذشتہ کچھ عرصے سے ہم پاکستان میں طاقت کے واحد مرکز( خاکی اسٹیبلشمنٹ) کو بلیک اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اُبھرتے چیلنج کا منظر نامہ دیکھ رہے ہیں۔ چیلنج لفظ درست بھی ہے کہ نہیں اس کو فی الحال چھوڑ دیتے ہیں۔ پاکستان کی 76 سالہ زندگی میں تو ہم نے ان کے درمیان ایسی کوئی چپقلش نہیں دیکھی، بلکہ اس سارے وقت میں دونوں نے مل کر پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کو کُھڈے لائن لگانے کے مشترکہ پراجیکٹ کی تکمیل کی ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کے اپنے لچھن بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ یہاں منیر نیازی کا شعر یاد آ رہا ہے؛

کُجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن
کُجھ سانوں مَرن دا شوق وی سی

ایسا ہی کچھ کالے عمال والی سول بیوروکریسی کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ اب جب ان سے فارغ ہوگئے ہیں اور کسی حد تک بلیک اسٹیبلشمنٹ نے بھی اعتماد حاصل کرلیا ہے اور یہ کہنے کے قابل ہو گئی ہے کہ ? where is cat یہ سوال اُٹھانے لگ گئی ہے کہ ہمارے کاموں میں مداخلت بند کرو۔ بظاہر یہ بات دل کو بھاتی ہے کہ پاکستان میں طاقت کا یک قطبی ( Unipolar ) کی بجائے دو قطبی (bipolar)  نظام متعارف ہو رہا ہے۔

غالب کےبقول؛

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

ہمارے نزدیک بھی بس اس چیلنج کی اتنی ہی حقیقت ہے۔ یہ لڑائی عوام کے بنیادی حقوق کی نہیں ہے۔ کیک کے شیئر میں اضافے کی ہے، ورنہ مطالبہ صرف حد تک نہ ہوتا کہ ہمارے کاموں میں مداخلت نہ کی جائے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر باقی چوبیس کروڑ عوام کی زندگیوں میں مداخلت جاری رہے گی، تو کیا آپ کسی دوسرے planet کی مخلوق ہیں کہ آپ کے کاموں میں مداخلت نہیں ہوگی۔

آپ کو ان کی کارپوریٹ ایمپائر پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بس آپ کے پلاٹوں، پلازوں اور vested معاملات کی فائلیں نہ بنائیں۔ یہ ممکن نہیں ہے!

آپ ملزم کو رات اپنے گھر میں پناہ دیں اور صبح اس کا مقدمہ بھی خود ہی سنیں، پھر کہیں کہ آپ کے ٹیلی-فون ٹیپ نہ ہوں۔ چوپڑیاں نالے دو دو ۔ اپنے Perks and Privileges کی حفاظت بھی کرنی ہے اور بندوق والوں سے لڑنا بھی ہے۔ No کی ایک قیمت ہوتی ہے جو ہر کوئی ادا نہیں کر سکتا، جو کر جاتا ہے امر ہو جاتا ہے۔ ہاں آپ کے کچھ لوگ، جو ان عمال میں نہیں پڑے ہوں گے۔ وہ انفرادی طور پر بچ نکلے۔ اسی طرح کے رویوں کی بنا پر ہماری سول بیوروکریسی اور سیاسی Elite مار کھا گئی۔ آپ بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ آپ کو میرٹ پہ آنا ہوگا، لیکن ہمارے جیسے پسماندہ جاگیردارانہ معاشروں میں میرٹ کہاں ہوتا ہے؟

ہمارے نزدیک یہ کام بنیادی طور پر اس ملک کی سیاسی جماعتوں کا ہے کہ وہ عوام کی طاقت سے مزاحمت کریں، لیکن آپ کے مشترکہ پراجیکٹ نے سیاسی جماعتوں کو ( جیسی بھی ہیں جاگیردارانہ معاشروں میں ایسی ہوتی ہیں ) اپنے پاؤں پر کھڑے ہی نہیں ہونے دیا۔

جاگیرداری کے خاتمہ میں یہاں سیاسی اشرافیہ رُکاوٹ بنی ہوئی ہے، وہاں آپ نے بھی قزلباش ٹرسٹ جیسے کیسوں میں جاگیرداری کا تحفظ کیا۔

اس کے خلاف محترم عابد حسن منٹو صاحب کی طرف سے دائر کردہ، ورکرز پارٹی کی پٹیشن تقریباً گزشتہ 20 سال سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سرد خانے میں پڑی ہے۔ آپ سننے کی ضرورت ہی نہیں سمجھ رہے۔ آپ جیسے ادارے تودنیا میں جمہوریت کی دین ہیں۔ یہاں جمہوریت پنپنے ہی نہیں دی جاتی۔ عوام کی پشت مضبوط نہیں ہو پاتی، جو بنیادی سماجی تبدیلی کا سرچشمہ ہیں۔

بقول فیض صاحب؛

جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اُچھالے جائیں گے

یہ منظر دیکھنے کے لئے عوام کے شعور کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں منظم کرنا پڑے گا، جو حکمران طبقہ کرنا نہیں چاہتا۔ انہوں نے خود بھی یہی”کام“ کرنے ہوتے ہیں اور آج تک کرتے آئے ہیں۔ ہم جیسے جو کرنا چاہتے ہیں ان کے پلے کچھ نہیں ۔ ان سب کو اسی خاکی کی جھولی میں بیٹھنے کا بہت شوق ہے۔ ہماری آج کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کہلوانے کا شوق رکھنے اور مزاحمت کا استعارہ سمجھے جانے والے بھی اسی خاکی کے در دولت پر حاضری، انہیں کی انگلی اٹھنے کے منتظر رہتے ہیں۔ ہم کسی ایک بات نہیں کر رہے۔ اس حمام میں سب۔۔۔ یہ ہے ہمارے حکمران طبقہ کا دوغلا پن۔ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی جنگ عوام کی طاقت کے بغیر نہیں لڑی جا سکتی، جیتنی تو در کنار۔ جیتنے کے لیئے تو مگرمچھ کو دریا سے نکالنا پڑے گا۔ ورنہ اپنے اپنے جزیروں کو مضبوط و محفوظ بنانے کا شوق سب رائیگاں جائے گا۔

—♦—

Azam
مصنف کے بارے

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">

گذشتہ کچھ عرصے سے ہم پاکستان میں طاقت کے واحد مرکز( خاکی اسٹیبلشمنٹ) کو بلیک اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اُبھرتے چیلنج کا منظر نامہ دیکھ رہے ہیں۔ چیلنج لفظ درست بھی ہے کہ نہیں اس کو فی الحال چھوڑ دیتے ہیں۔ پاکستان کی 76 سالہ زندگی میں تو ہم نے ان کے درمیان ایسی کوئی چپقلش نہیں دیکھی، بلکہ اس سارے وقت میں دونوں نے مل کر پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کو کُھڈے لائن لگانے کے مشترکہ پراجیکٹ کی تکمیل کی ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کے اپنے لچھن بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ یہاں منیر نیازی کا شعر یاد آ رہا ہے؛

کُجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن
کُجھ سانوں مَرن دا شوق وی سی

ایسا ہی کچھ کالے عمال والی سول بیوروکریسی کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ اب جب ان سے فارغ ہوگئے ہیں اور کسی حد تک بلیک اسٹیبلشمنٹ نے بھی اعتماد حاصل کرلیا ہے اور یہ کہنے کے قابل ہو گئی ہے کہ ? where is cat یہ سوال اُٹھانے لگ گئی ہے کہ ہمارے کاموں میں مداخلت بند کرو۔ بظاہر یہ بات دل کو بھاتی ہے کہ پاکستان میں طاقت کا یک قطبی ( Unipolar ) کی بجائے دو قطبی (bipolar)  نظام متعارف ہو رہا ہے۔

غالب کےبقول؛

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

ہمارے نزدیک بھی بس اس چیلنج کی اتنی ہی حقیقت ہے۔ یہ لڑائی عوام کے بنیادی حقوق کی نہیں ہے۔ کیک کے شیئر میں اضافے کی ہے، ورنہ مطالبہ صرف حد تک نہ ہوتا کہ ہمارے کاموں میں مداخلت نہ کی جائے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر باقی چوبیس کروڑ عوام کی زندگیوں میں مداخلت جاری رہے گی، تو کیا آپ کسی دوسرے planet کی مخلوق ہیں کہ آپ کے کاموں میں مداخلت نہیں ہوگی۔

آپ کو ان کی کارپوریٹ ایمپائر پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بس آپ کے پلاٹوں، پلازوں اور vested معاملات کی فائلیں نہ بنائیں۔ یہ ممکن نہیں ہے!

آپ ملزم کو رات اپنے گھر میں پناہ دیں اور صبح اس کا مقدمہ بھی خود ہی سنیں، پھر کہیں کہ آپ کے ٹیلی-فون ٹیپ نہ ہوں۔ چوپڑیاں نالے دو دو ۔ اپنے Perks and Privileges کی حفاظت بھی کرنی ہے اور بندوق والوں سے لڑنا بھی ہے۔ No کی ایک قیمت ہوتی ہے جو ہر کوئی ادا نہیں کر سکتا، جو کر جاتا ہے امر ہو جاتا ہے۔ ہاں آپ کے کچھ لوگ، جو ان عمال میں نہیں پڑے ہوں گے۔ وہ انفرادی طور پر بچ نکلے۔ اسی طرح کے رویوں کی بنا پر ہماری سول بیوروکریسی اور سیاسی Elite مار کھا گئی۔ آپ بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ آپ کو میرٹ پہ آنا ہوگا، لیکن ہمارے جیسے پسماندہ جاگیردارانہ معاشروں میں میرٹ کہاں ہوتا ہے؟

ہمارے نزدیک یہ کام بنیادی طور پر اس ملک کی سیاسی جماعتوں کا ہے کہ وہ عوام کی طاقت سے مزاحمت کریں، لیکن آپ کے مشترکہ پراجیکٹ نے سیاسی جماعتوں کو ( جیسی بھی ہیں جاگیردارانہ معاشروں میں ایسی ہوتی ہیں ) اپنے پاؤں پر کھڑے ہی نہیں ہونے دیا۔

جاگیرداری کے خاتمہ میں یہاں سیاسی اشرافیہ رُکاوٹ بنی ہوئی ہے، وہاں آپ نے بھی قزلباش ٹرسٹ جیسے کیسوں میں جاگیرداری کا تحفظ کیا۔

اس کے خلاف محترم عابد حسن منٹو صاحب کی طرف سے دائر کردہ، ورکرز پارٹی کی پٹیشن تقریباً گزشتہ 20 سال سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سرد خانے میں پڑی ہے۔ آپ سننے کی ضرورت ہی نہیں سمجھ رہے۔ آپ جیسے ادارے تودنیا میں جمہوریت کی دین ہیں۔ یہاں جمہوریت پنپنے ہی نہیں دی جاتی۔ عوام کی پشت مضبوط نہیں ہو پاتی، جو بنیادی سماجی تبدیلی کا سرچشمہ ہیں۔

بقول فیض صاحب؛

جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اُچھالے جائیں گے

یہ منظر دیکھنے کے لئے عوام کے شعور کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں منظم کرنا پڑے گا، جو حکمران طبقہ کرنا نہیں چاہتا۔ انہوں نے خود بھی یہی”کام“ کرنے ہوتے ہیں اور آج تک کرتے آئے ہیں۔ ہم جیسے جو کرنا چاہتے ہیں ان کے پلے کچھ نہیں ۔ ان سب کو اسی خاکی کی جھولی میں بیٹھنے کا بہت شوق ہے۔ ہماری آج کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کہلوانے کا شوق رکھنے اور مزاحمت کا استعارہ سمجھے جانے والے بھی اسی خاکی کے در دولت پر حاضری، انہیں کی انگلی اٹھنے کے منتظر رہتے ہیں۔ ہم کسی ایک بات نہیں کر رہے۔ اس حمام میں سب۔۔۔ یہ ہے ہمارے حکمران طبقہ کا دوغلا پن۔ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی جنگ عوام کی طاقت کے بغیر نہیں لڑی جا سکتی، جیتنی تو در کنار۔ جیتنے کے لیئے تو مگرمچھ کو دریا سے نکالنا پڑے گا۔ ورنہ اپنے اپنے جزیروں کو مضبوط و محفوظ بنانے کا شوق سب رائیگاں جائے گا۔

—♦—

Azam
مصنف کے بارے

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Tags: EstablishmentFeudalismMilitary EstablishmentMovementPakistanPower Corridor
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

by للکار نیوز
اپریل 6, 2025
0
0

اگرچہ بظاہر استعماریت کا خاتمہ گزشتہ صدی میں ہو چکا ہے، لیکن حقیقت میں مغربی طاقتیں اپنی سابقہ نوآبادیات پر...

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

by للکار نیوز
اکتوبر 13, 2024
0
0

پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں...

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

by للکار نیوز
اکتوبر 5, 2024
1
0

پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد...

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

by للکار نیوز
ستمبر 27, 2024
0
0

پانچ دہائیوں تک ہندوستان کی قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برِصغیر کے نامور مارکسی مفکر، انقلابی تحریکوں...

بلوچ جدوجہد اور بلوچوں کی تاریخی حقیقت؟ – تحریر:ممتاز احمد آرزو

by للکار نیوز
ستمبر 26, 2024
0
0

ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا...

کالے کوئلے کو سفید بنانے والی ”دانائی“ اور ماحولیاتی سوال! – تحریر:بخشل تھلہو

by للکار نیوز
ستمبر 8, 2024
0
0

اس اگست کی دو تاریخ کو نصیر میمن صاحب نے اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ کی، جس میں...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.