آج میرے والد کامریڈ چوہدری فتح محمد کی چوتھی برسی ہے۔ وہ پیر 25 مئی 2020ء کوصبح 4٫45 بجےایک ولولہ انگیز، کٹھن اور جدوجہد سے بھرپُور زندگی گزار کر اپنے ساتھیوں، کامریڈوں، دوستوں اور ہم سے جدا ہو گئے تھے۔ ان کی انگاروں پر چلتے گزری قابلِ ستائش زندگی کی کہانی پر نظر ڈالیں تو افسانوی داستانوں سے کم محسوس نہیں ہوتی۔
16 مئی 1923ء کو جالندھر کے ایک دور دراز گاؤں میں محنت کش کسان گھرانے میں آنکھ کھولنے والے فتح محمد نے حوش سنبھالا تو برِصغیر پر برطانوی سامراج کا قبضہ تھا۔ ایک طرف دُنیا بھر میں قومی آزادی کے تحریکیں زوروں پر تھیں اور ہر طرف آزادی کے نعرے بلند ہو رہے تھے تو دوسری طرف دُنیا کے وسیع و عریض خطے پر مشتمل ملک روس کے عوام نے اپنے ملک پر مسلط بادشاہ، زارِ روس کے مظالم سے بغاوت کرتے ہوئے کامریڈ ولادیمیر ایلچ لینن کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے کارل مارکس کے فلسفہ کو عملی شکل دے دی تھی۔
کامریڈ فتح محمد کالج پہنچے تو دوسری عالمی جنگ زوروں پر تھی۔ جنگ کی تباہ کاریاں اس قدر خوف ناک تھیں کہ کروڑوں بچے بھوک سے بِلک رہے تھے۔ منڈیوں کی تلاش اور قدرتی وسائل کی لوٹ کے لیے کمزور ممالک پر قبضے کی حوس نے سرمایہ دار دُنیا کا وحشت ناک رُوپ اُجاگر کر دیا تھا۔
قابض سامراجی قوتوں نے جنگی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اپنے زیرِ قبضہ ممالک میں لگان اور ٹیکسوں کی بھرمار کر دی تھی۔ بے روزگاری آسمانوں کو چھو رہی تھی اور ہر طرف بھوک، ننگ اور بیماریوں کا راج تھا۔ بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے متحدہ ہندوستان کے نہتے عوام کے پاس سامراجی افواج میں بھرتی ہونے کے سوا اورکوئی حل نہ تھا۔ ان حالات نے کامریڈ فتح محمد پر گہرے اثرات مرتب کئے اور وہ کالج کے زمانے میں ہی آزادی کے تحریکوں کا حصہ بننے لگے۔
وہ اُس زمانے انڈین نیشنل کانگریس سے متاثر تھے اور ان میں فاشزم کے خلاف لڑنے کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا۔
انہوں نے بی اے کا امتحان پاس کیا تو فاشزم کے خلاف جنگ میں عملی طور پر حصہ لینے کے لیے برطانوی افواج میں بھرتی ہو کر برطانیہ پہنچ گئے۔
اُس زمانے میں برطانیہ جانے کے لیے بحری جہازوں پر ہی سفر کرنا ہوتا تھا، جو مختلف ممالک میں رکتے رکتے جاتے تھے۔ اس طرح اُنہیں عرب ممالک میں بھوک و افلاس کی انتہا کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، جہاں لوگ بحری جہاز میں آنے والوں سے رفیق پیسہ، رفیق پیسہ کہہ کر بھیک مانگتے اور بدوؤں والی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ مختلف ممالک میں عارضی قیام کرتے کرتے اُن کا بحری جہاز جون 1944 میں برطانیہ کے شہر لیور پول میں لنگرانداز ہوا۔ کیا حسن اتفاق ہے کہ چوہدری فتح محمد نے بھی اپنی ملازمت کا آغاز لیورپول سے کیا تھا، جب راقم 1996ء میں برطانیہ آیا تو اپنی پہلی ملازمت کا آغاز لیورپول کی انجنیرنگ انڈسٹری سے کیا تھا، اور اب میری بیٹی شیزہ فتح نے میڈیکل کا فائنل امتحان پاس کیا ہے اور چند ہفتے بعد اپنے کیرئیر کا آغاز لیورپول سے ہی کرنے جا رہی ہے۔
برطانیہ میں قیام کے دوران چوہدری فتح محمد کی اپنے سینئر آرمی آفیسر رُودرادَت جوشی سے دوستی ہو گئی، جنہوں نے اُنہیں وطن واپس جانے اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے پر آمادہ کر لیا۔ وہ لیورپُول آرمی سینٹر کے انچارج تھے اور ترقی پسند رحجانات رکھتے تھے۔ ایک روز انہوں نے سوویت یونین کے سفیر کو ایک تقریب میں شرکت کی دعوت دی تو چوہدری فتح محمد کو سوشلسٹ نظریات کو بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع ملا۔ تقریباً ایک سال بعد جنگ کا اختتام ہوا تو وہ رُودرادَت جوشی کے اسرار پر وطن واپس آ گئے۔ واپس آ کر اُنہوں نے اپنے گاؤں میں لائبریری بنا کر بچوں کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ان دنوں ملک میں آزادی کی لہر زوروں پر تھی اور ہر طرف انگریز سامراج سے آزادی کی آوازیں اُبھر رہی تھیں۔ اُنہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا اور وکالت کی ڈگری حاصل کر لی۔
جب برصغیر میں آزادی کی تحریک فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوئی تو سامراج نے اپنی ”لڑاؤ اور راج کرو “ کی پالیسی کے تحت ملک میں مذہبی منافرت پھیلا دی، جو جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور اس نے پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
چوہدری فتح محمد کے والد چوہدری امیر الدین کو انتہا پسند سکھوں نے بہت بے دردی سے قتل کر دیا۔ وہ 1947ء میں اپنی ماں، تین بہنوں اور چھوٹے بھائی کو لے کر نقل مکانی کر کے بحفاظت پاکستان پہنچ گئے۔ وہ جالندھر سے لاہور پیدل چل کر آئے، جس سے اُن کے پاؤں چھالوں سے بھر گئے تھے۔ چند ہفتے والٹن لاہور کے کیمپوں میں قیام کیا اور پھر ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک چھوٹے سے دور افتادہ گاؤں چک نمبر 305 گ ب میں آباد ہو گئے، اور وہیں انہیں 25 ایکڑ زمیں الاٹ ہو گئی۔ وہاں آتے ہی اُنہوں نے اپنے گاؤں میں کوآپریٹو سوسائٹی کی بنیاد ڈالی اور وہ اس کے صدر منتخب ہو گئے۔
لائل پور ضلع میں ہندوستان سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کی بہت بڑی تعداد تھی، جو اس امید سے پاکستان آئے تھے کہ یہ ان کا اپنا ملک ہو گا، یہاں ان کی عزت نفس محفوظ ہو گی اور ان کو سماجی برابری اور یکساں انصاف میسر ہو گا۔ جب ان کے خواب بکھرتے اور انہیں در بدر کی ٹھوکریں کھاتے دیکھا تو چوہدری فتح محمد نے ان کی آبادکاری، دیکھ بھال اور متبادل زمینوں کی الاٹمنٹ میں مدد کے لیے تنظیم قائم کر لی اور سماجی کاموں میں لگ گئے۔
ان کا چھوٹا بھائی کاشتکاری کرنے لگ گیا، لیکن ابھی آباد ہوئے پانچ ماہ ہی ہوئے تھے کہ چھوٹے بھائی محمد شفیع کا انتقال ہو گیا اور وہ اپنی تین بہنوں اور بیوہ ماں کا واحد سہارا رہ گئے۔
اسی دوران انہوں نے گاؤں میں کوآپریٹو سوسائٹی قائم کی تا کہ باہمی اتفاق سے اجتماعی فیصلے لینے کو رواج دیا جائے، بعد ازاں سرکار نے انہیں گاؤں کا نمبردار مقرر کر دیا۔
چند ماہ میں ہی اُن کی اپنے قریبی گاؤں کے نمبردار ڈاکٹر محمد عبداللہ سے دوستی ہو گئی، جو کیمونسٹ پارٹی کے راہنما تھے۔ اُنہی کی بدولت چوہدری فتح محمد نے 1948ء کے آغاز میں کسان کمیٹی میں شمولیت اختیار کی تھی، البتہ وہ اپنے چھوٹے بھائی محمد شفع کے اچانک انتقال کی وجہ سے 28 مارچ 1948ء کو منعقد ہونے والی پنجاب کسان کانفرنس میں شرکت نہ کر پائے۔
حکومت نے انہیں قانون کے مطابق نمبرداری کے عوض ساڑھے بارہ ایکڑ مفت زمیں الاٹ کرنا چاہا تو انہوں نے زمین لینے سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ ایک سچے انقلابی تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ان کی تنظیم پاکستان کسان کمیٹی کے منشور میں طے شدہ حد ملکیت کے مطابق 25 ایکڑ زمین پہلے سے ہے، اس لیے وہ اس حد سے زیادہ زمین نہیں رکھ سکتے۔
اُنہوں نے کسانوں کو منظم کرنے کے لیے اس قدر جفاکشی سے کام کیا کہ اسی برس کیمونسٹ پارٹی کے ممبر بن گئے۔ اس زمانے میں کیمونسٹ پارٹی کی ممبر شپ کے لیے کٹھن جدوجہد کرنا پڑتی تھی اور پارٹی کی عوامی تنظیموں میں کام کر کے اپنی کمٹمنٹ اور مسلسل جدوجہد کا ثبوت دینا پڑتا تھا۔
بعد ازاں 1949ء کے آغاز میں انہوں نے ایک کل وقتی کارکن کے طور پر کاسانوں میں کام شروع کر دیا تھا، البتہ اس کا پارٹی سے معاوضہ لینے کی بجائے سیلف پیڈ ہول ٹائمر بن کر کام کرتے رہے۔ بعدازاں پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کا قیام عمل میں آ یا اور اپریل 1949ء میں اس کا پہلا کنونشن منعقد ہوا تو اُنہیں اس کی مرکزی کمیٹی کا رکن منتخب کر لیا گیا۔ فیڈریشن کے صدر مرزا محمد ابراہیم اور نائب صدر فیض احمد فیض تھے۔ اسی کانفرنس میں انہوں نے پہلی بار فیڈریشن کے راہنماؤں اور سی آر اسلم سے ملاقات کی تھی۔
بعد ازاں 2 اپریل 1950ء کو دوسری پنجاب کسان کانفرنس بھی ضلع لائل پور میں ہی منعقد ہوئی، جِس میں نامور مزدور راہنما مرزا محمد ابراہیم، سی۔آر-اسلم کے علاوہ ادیبوں اور شاعروں کا قافلہ بھی تشریف لایا، جِس کی قیادت احمد راہی، مظہر علی خان، پروفیسر صفدر میر، عارف عبدالمتین اور دیگر کر رہے تھے۔
اس کانفرنس سے قبل پارٹی راہنما عبدالعزیز قاصر کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو گئے تھے اور وہ رُوپوش ہو چکے تھے۔ اس زمانے میں پارٹی کی پالیسی تھی کہ گرفتاری سے ہر صورت بچا جائے اور دیگر علاقوں میں جا کر پارٹی کام کو جری رکھ جائے۔ اس کانفرنس کی جانب جانے والے راستے پر گیٹ بنایا گیا تھا جِس کو عبدالعزیز قاصر کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ اسی کسان کانفرنس میں چوہدری فتح محمد کو کسان کمیٹی پنجاب کا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا تھا۔
چونکہ چوہدری فتح محمد نے 1949ء میں ایک کل وقتی پارٹی کارکن کے طور پر کام شروع کر دیا تھا اور کسانوں کو منظم کرنے، گاؤں گاؤں جلسے کرنے کے لیے ہفتوں گھر سے باہر رہتے تھے۔ ایک روز میرے دادی ’ماں بسری‘ کو گاؤں کے لوگوں نے مشورہ دیا کہ قریبی گاؤں میں ایک پہنچے ہوئے مولوی ہیں، ان سے تعویز کروا تا کہ آپ کا بیٹا سیاست چھوڑ کر گھر بیٹھے اور زمیندارے پر توجہ دے۔ ایک روز میری دادی نے ایسا ہی کیا اور تعویز بنوا کر ان کے تکئے میں چھپا دیا۔
مولوی کی بد قسمتی کہ چند روز بعد ہی چوہدری فتح محمد کے وارنٹ گرفتاری آ گئے اور پارٹی کی ہدایات کے مطابق اُنہیں رُوپوش ہو کر خانیوال، ملتان، وہاڑی اور گوجرانوالہ کے علاقوں میں کسانوں میں کام جاری رکھنے کا کہا گیا۔ اس زمانے میں کمیونیکیشن کا نظام نہ ہونے کے برابر تھا اس لیے گھر والوں کو بھی ان کی جائے رہائش کی کوئی خبر نہ تھی۔ پھر میری دادی جی نے اس مولوی کے ہاں جا کر طوفان برپا کر دیا اور مذہب کی آڑ میں رچائے گئے فریبوں کا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا۔ اب میں اعلیٰ تعلیم یافتہ، ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لینے والوں کو ان پڑھ، فریبی، دین فروش ملاؤں کے آگے گڑگڑاتے دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کی ان جیسے لوگوں نے ڈگریاں تو لے لی ہیں، لیکن ان کا شعوری لیول تو پرانے وقتوں کے سادہ لوح ان پڑھ لوگوں سے بھی کم ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ہمارہ ملک فروری 1956ء تک بغیر آئین کے ہی چلتا رہا اور انگریز سامراج کے بنائے ہوئے قوانین پر اکتفا کیا گیا۔ البتہ گاہے بگاہے صوبائی سطح کے بالواسطہ انتخابات منعقدہوتے رہے۔
جب 31 مارچ 1951ء کو پاکستان میں پہلے صوبائی انتخابات پنجاب میں منعقد ہوئے تو پارٹی نے چوہدری فتح محمد کو امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا، جو ان دنوں رُوپوش تھے۔ حلقہ پورا ضلع لائل پور پر مشتمل تھا اور جھنگ بازار میں واقع پارٹی دفتر میں انتخابی سرگرمیوں کی قیادت کے لیے لاہور سے پارٹی نے مظہر علی خان اور پروفیسر صفدر میر کو بھیج رکھا تھا۔
وہ ضلع بھر کے دیہاتوں میں جا کر کسانوں کے جلسوں سے خطاب کرتے اور شام کو دفتر واپس آ کر مرکزی دفتر کے لیے رپورٹ مرتب کرتے اور اگلے پروگرامز کو ترتیب دیتے تھے۔ وارنٹ گرفتاری کی وجہ سے چوہدری فتح محمد بھی اچانک جلسوں میں نمودار ہوتے اور ہدایات کے مطابق تقریر کر کے غائب ہو جاتے۔
چوہدری فتح محمد وہ انتخابات 26 ووٹوں سے ہار گئے تھے، البتہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کسان تحریک کی جو بنیادیں اس زمانے میں رکھی گئیں اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔
ان کی نظریاتی اور سیاسی تربیت میں اس زمانے کے نامور انقلابی پروفیسر ایرک سیپرین کا بہت ہاتھ تھا اور وہ جب بھی رُوپوش ہوتے تو ان کے ہاں ٹوبہ ٹیک سنگھ آ جاتے تھے۔ 1952ء میں تو انہوں نے ایک لمبا عرصہ چوہدری فتح محمد کے ہاں گزارا تھا۔ وہ مختلف دیہاتوں اور شہروں میں ان کے ساتھ سٹڈی سرکلز لینے جاتے تھے۔
ساٹھ کی دہائی میں شائع ہونے والی چوہدری فتح محمد کی مشہور کتاب ”پاکستان کے زرعی مسائل“ کے لیے سرکاری دفتروں میں جا کر اعدادوشمار اکٹھے کرنے کی تربیت بھی انہیں کامریڈ ایرک سیپرین نے ہی دی تھی۔
اس کتاب کی اشاعت کے بعد چوہدری فتح محمد کو پاکستان کے زرعی مسائل اور زرعی ڈھانچے کی ڈکشنری تصور کیا جانے لگا۔ جب مئی 2020ء میں چوہدری فتح محمد کا انتقال ہوا تو انسانی حقوق کے نامور علمبردار آئی اے رحمان نے ان کی تعزیتی ریفرنس میں بتایا کہ امروز و پاکستان ٹائمز کے زمانے میں ان کے ادارے نے جب بھی زرعی مسائل پر مضامین شائع کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ اس کے لیے اعدادوشمار چوہدری فتح محمد سے ہی لیتے تھے۔ وہ جب بھی انہیں بلاتے تو وہ لاہور آ کر اخبار کے دفتر میں تفصیل سے سمجھاتے تھے۔
جب 1954ء میں وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش کے الزام میں پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن، پاکستان کسان کمیٹی، انجمن ترقی پسند مصنفین اور دیگر عوامی تنظیموں سمیت کیمونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی تو انہیں ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا۔
رہائی کے بعد چوہدری فتح محمد نے دیگر ترقی پسند ساتھیوں کے ساتھ مل کر آزاد پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور سیاسی کام کا دوبارہ آغاز کر دیا اور میاں افتخارالدین کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگے۔
بعد ازاں 25 جولائی 1957ء کو چوہدری فتح محمد ڈھاکہ میں منعقدہ ہونے والے کنونشن میں شریک تھے جس میں نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی، جو پاکستان کی پہلی وسیع البنیاد ترقی پسند جمہوری پارٹی تھی جس کی جڑیں مشرقی پاکستان سمیت مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں میں موجود تھیں۔ اس کنونشن میں میاں افتخارالدین، عبدالحمید بھاشانی، شیخ عبدالمجید سندھی، عبدالصمد اچکزئی، غوث بخش بزنجو، میر گل خان نصیر، خان عبدالغفار خان، جی ایم سید، سی آر اسلم، سید قسور گردیزی، میاں محمود علی قصوری، حیدر بخش جتوئی جیسے قد آور رہنما شامل تھے۔
نیشنل عوامی پارٹی کا بنیادی ہدف ون یونٹ کو ختم کر کے پاکستان کے وفاق کو جمہوری اور منصفانہ بنیادوں پر استوار کرنا اور عالمی سطح پر بیرونی قرضوں اور غیر ملکی تسلط سے آزادی حاصل کر کے غیرجانبدارانہ پالیسی اپنانا شامل تھے۔
ڈکٹیٹر ایوب کا مارشل لا لگا تو چوہدری فتح محمد کو ایک مرتبہ پھر گرفتار کر کے لائل پور جیل اور پھر شاہی قلعہ لاہور کے عقوبت خانے پہنچا دیا گیا۔ بعد ازاں 1960 ء میں نیشنل عوامی پارٹی کے نوجوان رہنما حسن ناصر کو اذیتیں دے کر لاہور کے شاہی قلعے میں شہید کیا گیا تو اس وقت چوہدری فتح محمد بھی اس بدنام زمانہ عقوبت خانے میں تشدد برداشت کر رہے تھے اور اپنی سیاسی وابستگی کی قیمت ادا کر رہے تھے۔ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے لئے بدترین ایذا رسانی اور ناکردہ گناہوں کے اعتراف کے لئے شرمناک ہتھکنڈوں کی دہشت ناک شہرت رکھنے والا یہ عقوبت خانہ برطانوی حکومت نے 1924ء میں برصغیر میں تحریک آزادی کو کچلنے اور اس کے راہنماؤں کو اذیتیں دینے کے لیے قائم کیا تھا۔ بعد ازاں انہیں لاہور جیل منتقل کر دیا گیا، جہاں ان کے ساتھ فیض احمد فیض بھی تھے۔ پھر انہیں چند ماہ لائل پور جیل رکھنے کے بعد 2 سال 4 ماہ کے لیے ان کے گھر پر نظر بند رکھا گیا۔
اپنے گاؤں نظر بندی کے دوران انہیں اپنی زمین تک جانے کی آزادی تھی، اس لیے وہ کھیتوں پر کاشتکاری کی دیکھ بھال کرنے لگے۔ پھر رات کے اندھیرے میں سیاسی ساتھیوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا، جن میں سید مطلبی فرید آبادی، سردار شوکت علی، راؤ مہروز اختر خان، سید محمد قسور گردیزی، سی۔آر۔اسلم، میاں محمد اکرم، میاں محمود احمد قابل ذکر تھے۔
اس عرصہ میں پاکستان کے نامور سیاسی رہنماء اور چوہدری فتح محمد کے قریبی دوست سید قسور گردیزی نے انہیں کھیتوں میں کینو اور آم کا باغ لگانے کی ترغیب دی اور ملتان سے نرسری کے پودے بھیجنا شروع کر دیے۔ وہ ایک کل وقتی کارکن کی حیثیت سے کام کرتے تھے لیکن کبھی بھی پارٹی سے معاوضہ یا تنخواہ نہیں لیتے تھے۔ اس لیے قسور گردیزی کا کہنا تھا کہ بچے بڑے ہو رہے ہیں اور باغ لگانے سے بچوں کی تعلیم اور گھر کے اخراجات کا بندوبست ہو جائے گا۔
رہائی کے بعد ان میں ایک نئی انرجی آ گئی اور انہوں نے سید مطلبی فرید آبادی، سردار شوکت علی، راؤ مہروز اختر، سی آر اسلم اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر خلاف قانون دی گئی پاکستان کسان کمیٹی کو دوبارہ منظرِ عام پر لانے کا فیصلہ کیا۔ اُنہوں نے دیہاتوں میں جگہ جگہ جا کر کسان کمیٹیاں بنائیں اور 1963 ء میں ملتان میں کسان کانفرنس منعقد کر کے پاکستان کسان کمیٹی کی نئے سرے سے تنظیم سازی کرنے کا آغاز کر دیا۔ ملتان میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کے انتظامات کے لیے انہیں ایک ماہ تک ملتان میں سید قسور گردیزی کے گھر ہی قیام کرنا پڑا۔ ان کے بیٹے زاہد حسین گردیزی کے بقول چوہدری فتح محمد ان کے چچا جی تھےاور ان کے بچپن کی بہت سی یادیں ان کے ساتھ وابستہ ہیں۔
اِس کسان کانفرنس کی کامیابی کے باعث ایک طرف تو ملک بھر میں کسانوں کو بڑے پیمانے پر منظم کرنے میں مدد ملی تو دوسری طرف کسان کانفرنسیں منعقد کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس طرح رحیم یار خان، خانیوال، چنی گوٹھ، ٹانڈہ، لودھراں، خانپور، سرائے عالمگیر، سبی، پشاور اور ملک کے دوسرے حصوں میں بڑی کسان کانفرنسیں منعقد کی گئیں، جن کی بدولت 1970ء کی تاریخ ساز کسان کانفرنس کا انعقاد ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ممکن ہوسکا۔
پاکستان میں صنعت تو نہ ہونے کے برابر تھی، اس لیے پارٹی اور اس کی عوام تنظیمیں، بالخصوص انجمن ترقی پسند مصنفین اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے راہنما کسان تحریک میں بڑھ چڑھ کر معاونت کرتے تھے۔ اُدھر حکمران طبقات بھی اس بات سے بخوبی واقف تھے اور کسان تحریک کے راہنماؤں کو سرکاری مہمان بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان سے لے کر 2009ء تک پاکستان میں ماسوائے بےنظیر بھٹو کے، ہر حکمران نے اُنہیں عقوبت خانوں میں رکھا۔ اس میں عوامی رہنما کہلوانے والے ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے، جنہوں نے اپنی پارٹی میں سمولیت کے عوض اُنہیں وزارتِ زراعت دینے کے لیے کسان کمیٹی ضلع لاہور کے سابق سیکرٹری اور پیپلز پارٹی کے وائس چیرمیں شیخ رسید کو بھیجا تھا۔
چوہدری فتح محمد نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقوں میں پنچایت کا ایک ایسا مضبوط نظام قائم کیا تھا کہ جس کی وجہ سے کوئی پولیس افسر وہاں کے تھانوں میں آنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا، کیونکہ وہ زیادہ تر تنازعات پنچایت کے ذریعے حل کروا دیتے تھے۔ تھانہ۔ مزید برآں وہ کچہری، محکمہ مال اور نہری نظام میں رشوت ستانی کے خلاف جلسے، جلوس اور احتجاج بڑے تواتر سے کرتے تھے تا کہ لوگ سیاسی عمل میں پوری طرح سے شامل رہیں اور ان کے شعور اور آگہی میں اضافہ ہو۔
قیام پاکستان سے ہی ہمارے ملک میں سوشلزم کے خلاف پراپیگنڈہ اس تواتر سے کیا گیا ہے کہ اس سے اچھا خاصا پڑھا لکھا انسان بھی ذہنی طور پر متاثر ہوا ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
حالانکہ سوشلزم برابری کی بنیاد پر تمام مذاہب کا احترام کرنا سکھاتا ہے اور دوسروں کے مذہبی معاملات میں مداخلت سے روکتا ہے۔ سوشلزم ہی نہیں بلکہ سیکولرازم اور عام جمہوری روایات بھی یہی کہتی ہیں۔ چوہدری فتح محمد کی سیاسی جدوجہد کا محور چونکہ دیہاتوں کے سادہ لوح انسان تھے، اس لیے وہ مذہبی بنیادوں پر گفتگو سے نہ صرف پرہیز کرتے تھے بلکہ دوسرے ساتھیوں بالخصوص شہری ساتھیوں کو بھی ایسا کرنے سے روکتے تھے۔
اگر انہیں مذہبی لوگوں سے واسطہ پڑ جاتا تو ان کی پچ پر کھیلنے کی بجائے ان کو طبقاتی ظلم، جبر اور استحصال کے موضوع پر لے آتے تھے۔ اس لیے مذہبی لوگ نہ صرف ان کا احترام کرتے تھے بلکہ ان کے ساتھ تعلقات خوش گوار رکھتے تھے۔ ایک دفعہ وہ اپنی روپوشی کے دوران گوجرہ کے قریب چنڈ و بٹالہ میں ایک کسان کارکن کے ہاں رہ رہے تھے تو وہاں کے امام مسجد مولوی عبداللہ ساتھ والے گھر میں رہتے تھے۔ انہوں نے چند ملاقاتوں میں ہی اسے سرگرم کسان کارکن بنا لیا۔
1993ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک کسان کانفرنس منعقد ہوئی تو اس میں لاہور کے دانشور صفدر صدیقی نے بھی شرکت کی تھی اور اسی مولوی عبداللہ نے وہاں انقلابی نعت پڑھی، کِدوں مُکے گی جاگیرداری یا رسول اللہ، کِدوں آوے گی کساناں دی باری یا رسول اللہ، تو صفدر صدیقی نے واپس جا کر اس نظم کو اپنے ماہنامہ کے ٹائٹل پر سجایا۔
ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے مارشل لاء کے سیاہ دور میں جب چوہدری فتح محمد جیل گئے تو تمام ترقی پسندوں کو قائل کیا کہ سب مل کر ایک متحدہ پارٹی کا قیام عمل میں لائیں۔ رہائی کے بعد مزدور کسان پارٹی کے رہنماؤں میجر اسحاق محمد، غلام نبی کلو اور لطیف چوہدری نے ان کے گاؤں جا کر بائیں بازو کے اتحاد اور متحدہ پارٹی کے قیام کے لیے تمام تفصیلات طے کیں اور لاہور میں ایک بڑے اجلاس کا فیصلہ کیا، لیکن بد قسمتی سے ایک ہفتہ بعد ہی میجر اسحاق محمد کا انتقال ہو گیا۔
ملکی سیاسی روایت تو یہی ہے کہ سیاسی لوگ جیل یاترا کے بعد گھریلو معاملات سدہارنے میں الجھ جاتے ہیں، لیکن چوہدری فتح محمد اس کے بالکل برعکس تھے، اور ان میں جیل یاترا کے بعد ایک نئی انرجی آ جاتی تھی۔
ضیاء مارشل لاء کے 6 ماہ فیصل آباد اور پھر جہلم جیل میں گزارنے کے بعد انہوں نے ملک بھی میں ایک بار پھر کسان کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کر دیا، جس نے ایک طرف ترقی پسند سیاسی کارکنوں میں جمود کو توڑا تو دوسری طرف بائیں بازو کی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی راہ ہموار کی۔
اسی دوران 1983ء میں کبیر والہ میں پاکستان کسان کمیٹی کا ڈیلیگیٹ کنونشن منعقد ہوا تو اُس میں نامور دانشور عبدالحفیظ کاردار اور مسعود کھدرپوش نے بھی مہمان کے طور پر شرکت کی۔ اُس کنونشن میں چویدری فتح محمد نے زرعی رپورٹ پیش کی تو اُس کی بنیاد پر حفیظ کاردار نے ملک کے نامور معیشت دانوں کی تنظیم گروپ 78 کے پلیٹ فارم سے ملک کے زرعی مسائل پر سیمیناروں کو سلسلہ شروع کر دیا، جِس میں شاہد کاردار، مسعود کھدرپوش، ڈاکٹر تجمل حسین، عمر اصغر خان، ملک معراج خالد اور آئی اے رحمان نے کسان تحریک کو شہری دانشوروں اور معیشت دانوں کے ساتھ جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے کبیروالا، وہاڑی، خانیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، نارووال، شیخوپورہ، اڈہ لاڑ ملتان، سانگھڑ، سبی اور جھنگ میں کسان کانفرنسیں منعقد کیں۔ 23 مارچ 2005 ء کو ٹوبہ ٹیک سنگھ کانفرنس کے بعد بائیں بازو کی جماعتوں کا وہیں اجلاس رکھا گیا تھا جس کے اگلے اجلاس میں عوامی جمہوری تحریک کے نام سے متحدہ محاذ کی بنیاد رکھی گئی، جو بعد ازاں بائیں بازو کے مرجرز کر کے 2010ء میں ورکرز پارٹی اور 2012 ء میں عوامی ورکرز پارٹی کی بنیاد بنی۔ 2011 ء میں وہ ہمارے پاس برطانیہ آئے تو انہیں فیض احمد فیض کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر فیض ایوارڈ سے نوازا گیا، جو فیض صاحب کی بیٹی سلیمہ ہاشمی نے لندن میں ایک بڑی تقریب میں انہیں پیش کیا۔
چوہدری فتح محمد کی زندگی اور جدوجہد پر جن لوگوں نے سب سے زیادہ اثرات ڈالے ان میں برطانیہ قیام کے دوران رودرادت جوشی اور قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر محمد عبداللہ، پروفیسر ایرک سیپرین، سید مطلبی فرید آبادی اور سی آر اسلم شامل تھے۔ ان کی یہ خوبی تھی کہ تمام ترقی پسند انہیں اپنا مشترکہ اثاثہ گردانتے تھے۔
اسی لیے 90 کی دہائی میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی اختلافات کا شکار ہوئی اور دو حصوں میں بٹ گئی تو چند برسوں میں ہی انہوں نے سی آر اسلم کو قائل کر کے دوبارہ انضمام کے ذریعے پارٹی بنانے پر آمادہ کر لیا۔ وہ اپنے وطن، اس کی مٹی اور اس کے عوام سے بے پناہ محبت کرتے تھے،اسی لیے قیامِ پاکستان کے بعد جب لوگوں کے آزادی کے خواب چکنا چور ہونے لگے اور وہ وڈیرے، جاگیردار اور قبائیلی سردار، جو ہمارے وطن کر غدار اور انگریز سامراج کے کارندے تھے، وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سازباز کر کے ملک پر قابض ہو گئے تو چوہدری فتح محمد اور ان کے ساتھیوں نے ملکی آزادی کی تکمیل اور محکوم عوام کے حقوق کی جدوجہد کو ہی اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنایا۔
چوہدری فتح محمد نے جن سیاسی راہنماؤں کے ساتھ مل کر بھرپور جدوجہد کی ان میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی، میاں افتخارالدین، سی آر اسلم، سردار شوکت علی، مرزا محمد ابراہیم، عابد حسن منٹو، سید مطلبی فریدآبادی، پروفیسر ایرک سیپرین، راؤ مہروز اختر خان، انیس ہاشمی، کنیز فاطمہ، میجر اسحاق محمد، شاھین شاہ، کامریڈ عبدالسلام، محمد علی بھارا، اختر حسین، حسن عسکری، اسحاق مانگریو، رب نواز چاون، اور دیگر شامل تھے۔ وہ اصولوں کے پابند اور سچائی کا پرچار کرنے والے سچے انقلابی تھے۔ وہ بہت پرعزم اور جہدمسلسل کی علامت تھے اور اپنے نظریات پر اپنی آخری سانس تک ڈٹے رہے۔ ان کی خدمات کو آنے والی نسلیں یاد رکھیں گیں اور وہ ہمیشہ انقلابی تحریکوں میں آنے والی نسلوں کی رہنمائی کرتے ان کے درمیان رہیں گے۔
چوہدری فتح محمد اپنی غلطیوں کو ہمیشہ کھلے دل سے تسلیم کرتے تھے اور اپنے سے عمر میں چھوٹے سے بھی بڑے خلوص کے ساتھ معافی مانگ لیتے تھے۔ اس کی ایک جھلک ان کے خود نوشت سوانح عمری، جو ہم پہ گزری میں بھی ملتی ہے۔ جس میں انھوں نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ عمر کے اس حصے میں انہیں 2010ء میں پارٹی پنجاب کی صدارت قبول نہیں کرنا چاہیے تھی، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر ان کی زندگی میں متبادل قیادت ابھر کر سامنے نہ آ سکی تو یہ ان کی ناکامی ہوگی۔
وہ 2011ء میں ہمارے پاس برطانیہ آئے تو اُنہوں نے لیڈز سے پروفیسر محسن ذوالفقار، بریڈفورڈ سے پروفیسر محمد نذیر تبسم، لندن سے ڈاکٹر افتخار محمود، کیلیفورنیا سے اعجاز سید اور سویڈن سے مسعود پنجابی کے اسرار اپنی خود نوشت سوانح ‘جو ہم پہ گزری’ تحریر کرنے کا آغاز کر دیا۔ محسن ذوالفقار تو ایک رود لکھنے کے لیے نوٹ بک اور بال پینز کا پیکٹ لے آئے، جبکہ پروفیسر نذیر تبسم نے اُردو کمپوزنگ کی ذمہ داری لے لی۔ بالآخر کتاب شائع ہو کر قارئین کے ہاتھوں میں آ گئی، جِس نے سوانح کی شکل میں سیاسی تاریخ تحریر کرنے کی ریت ڈالی۔ اس کتاب میں عابد حسن منٹو، آئی اے رحمان، پروفیسر عزیزالدین احمد، پروفیسر محمد نذیر تبسم اور میاں محمد اکرم کے ریویو، مضامین بھی شامل کئے گئے ہیں، جسے سانجھ پبلیکیشنز لاہور نے شائع کیا تھا۔
چوہدری فتح محمد ذاتیات، شخصیت پرستی، گروہ بندی دوہرے چہرے اور دوہرے معیار کے قائل نہیں تھے اور خود پرستی کو فلسفیانہ موشگافیوں میں الجھا کر نظریاتی رنگ دینے کے خلاف تھے، بلکہ اسے جاگیردارانہ سوچ کے اثرات اور تحریک کے لئے نقصان دہ سمجھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ سماجی تبدیلی ایک وسیع تر ترقی پسند تحریک پیدا کیے بغیر ممکن نہیں، جس کے لیے ہر اس عمل کی نفی کرنا ہو گی جو باہمی نفاق پیدا کرتا ہے اور غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے۔
بقول بزرگ سوشلسٹ راہنما عابد حسن منٹو کے، چوہدری فتح محمد پاکستان میں کسانوں، مزدوروں، مظلوم و محکوم اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی تحریک کے سالار تھے اور زندگی بھر اپنے آدرشوں اور نظریات کے ساتھ عملی طور پر وابستہ رہے۔ وہ پڑھے لکھے، باہوش اور باکردار انسان تھے۔
انھوں نے صرف کتابی علم حاصل نہیں کیا بلکہ عملی طور پر زمین کے ساتھ جڑت پیدا کر کے لوگوں کے درمیاں رہتے ہوئے اپنے علم کو استعمال کیا۔ انہوں نے نہ صرف دیہاتوں میں کسانوں، مزارعین، اور کھیت مزدوروں کی تربیت کر کے ایک مضبوط اور دیرپا تحریک کو منظم کیا بلکہ شہروں کے نچلے درمیانہ طبقہ، دانشوروں، خواتین، طلباء اور نوجوانوں کو بھی متاثر اور منظم کیا، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مظلوم و محکوم اور استحصال کے شکار طبقات کو وسیع پیمانے پر منظم کیے بغیر سماجی تبدیلیی ممکن نہیں۔
آج چوہدری فتح محمد کی چوتھی برسی ہے اور ان کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم ان کے مشن کو آگے بڑھائیں اور تمام ترقی پسند، انسان دوست اور جمہوریت پسند قوتوں کو اکٹھا کریں اور اس نیم آزاد، جدید نوآبادیاتی، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کو تیز کریں۔
چوہدری فتح محمد نے اپنی خود نوشت سوانح جو ہم پہ گزری میں کیا خوب لکھا ہے کہ میں نے پاکستان میں ہزاروں، لاکھوں دوستوں اور کامریڈوں کے ساتھ مل کر اس ملک میں سماجی تبدیلی کا خواب دیکھا تھا اور ہم سب مل کر یہ تبدیلی لانے کے لیے ساری زندگی مقدور بھر کوشش کرتے رہے، لیکن ہماری کوششیں ہماری آرزووں اور تمناؤں کے مطابق نتیجہ خیز نہ ہو سکیں۔ اس کے باوجود نہ تو کوئی پشیمانی ہے اور نہ ہی کسی قسم کا پچھتاوہ ہے، کیوں کہ ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت۔ سماجی تبدیلیاں بسا اوقات، بقول لینن، صدیوں میں نہیں آتیں اور جب آنے لگتی ہیں تو عشروں میں رونما ہو جاتی ہیں۔
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صورتِ ہزار کا موسم
—♦—
پرویز فتح بائیں بازو کے سینئر ساتھی ہیں اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ آپ عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے راہنما ہیں اور برطانیہ میں بائیں بازو کے انتہائی متحرک دوستوں میں سے ہیں۔ آپ اکثر سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
آج میرے والد کامریڈ چوہدری فتح محمد کی چوتھی برسی ہے۔ وہ پیر 25 مئی 2020ء کوصبح 4٫45 بجےایک ولولہ انگیز، کٹھن اور جدوجہد سے بھرپُور زندگی گزار کر اپنے ساتھیوں، کامریڈوں، دوستوں اور ہم سے جدا ہو گئے تھے۔ ان کی انگاروں پر چلتے گزری قابلِ ستائش زندگی کی کہانی پر نظر ڈالیں تو افسانوی داستانوں سے کم محسوس نہیں ہوتی۔
16 مئی 1923ء کو جالندھر کے ایک دور دراز گاؤں میں محنت کش کسان گھرانے میں آنکھ کھولنے والے فتح محمد نے حوش سنبھالا تو برِصغیر پر برطانوی سامراج کا قبضہ تھا۔ ایک طرف دُنیا بھر میں قومی آزادی کے تحریکیں زوروں پر تھیں اور ہر طرف آزادی کے نعرے بلند ہو رہے تھے تو دوسری طرف دُنیا کے وسیع و عریض خطے پر مشتمل ملک روس کے عوام نے اپنے ملک پر مسلط بادشاہ، زارِ روس کے مظالم سے بغاوت کرتے ہوئے کامریڈ ولادیمیر ایلچ لینن کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے کارل مارکس کے فلسفہ کو عملی شکل دے دی تھی۔
کامریڈ فتح محمد کالج پہنچے تو دوسری عالمی جنگ زوروں پر تھی۔ جنگ کی تباہ کاریاں اس قدر خوف ناک تھیں کہ کروڑوں بچے بھوک سے بِلک رہے تھے۔ منڈیوں کی تلاش اور قدرتی وسائل کی لوٹ کے لیے کمزور ممالک پر قبضے کی حوس نے سرمایہ دار دُنیا کا وحشت ناک رُوپ اُجاگر کر دیا تھا۔
قابض سامراجی قوتوں نے جنگی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اپنے زیرِ قبضہ ممالک میں لگان اور ٹیکسوں کی بھرمار کر دی تھی۔ بے روزگاری آسمانوں کو چھو رہی تھی اور ہر طرف بھوک، ننگ اور بیماریوں کا راج تھا۔ بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے متحدہ ہندوستان کے نہتے عوام کے پاس سامراجی افواج میں بھرتی ہونے کے سوا اورکوئی حل نہ تھا۔ ان حالات نے کامریڈ فتح محمد پر گہرے اثرات مرتب کئے اور وہ کالج کے زمانے میں ہی آزادی کے تحریکوں کا حصہ بننے لگے۔
وہ اُس زمانے انڈین نیشنل کانگریس سے متاثر تھے اور ان میں فاشزم کے خلاف لڑنے کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا۔
انہوں نے بی اے کا امتحان پاس کیا تو فاشزم کے خلاف جنگ میں عملی طور پر حصہ لینے کے لیے برطانوی افواج میں بھرتی ہو کر برطانیہ پہنچ گئے۔
اُس زمانے میں برطانیہ جانے کے لیے بحری جہازوں پر ہی سفر کرنا ہوتا تھا، جو مختلف ممالک میں رکتے رکتے جاتے تھے۔ اس طرح اُنہیں عرب ممالک میں بھوک و افلاس کی انتہا کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، جہاں لوگ بحری جہاز میں آنے والوں سے رفیق پیسہ، رفیق پیسہ کہہ کر بھیک مانگتے اور بدوؤں والی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ مختلف ممالک میں عارضی قیام کرتے کرتے اُن کا بحری جہاز جون 1944 میں برطانیہ کے شہر لیور پول میں لنگرانداز ہوا۔ کیا حسن اتفاق ہے کہ چوہدری فتح محمد نے بھی اپنی ملازمت کا آغاز لیورپول سے کیا تھا، جب راقم 1996ء میں برطانیہ آیا تو اپنی پہلی ملازمت کا آغاز لیورپول کی انجنیرنگ انڈسٹری سے کیا تھا، اور اب میری بیٹی شیزہ فتح نے میڈیکل کا فائنل امتحان پاس کیا ہے اور چند ہفتے بعد اپنے کیرئیر کا آغاز لیورپول سے ہی کرنے جا رہی ہے۔
برطانیہ میں قیام کے دوران چوہدری فتح محمد کی اپنے سینئر آرمی آفیسر رُودرادَت جوشی سے دوستی ہو گئی، جنہوں نے اُنہیں وطن واپس جانے اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے پر آمادہ کر لیا۔ وہ لیورپُول آرمی سینٹر کے انچارج تھے اور ترقی پسند رحجانات رکھتے تھے۔ ایک روز انہوں نے سوویت یونین کے سفیر کو ایک تقریب میں شرکت کی دعوت دی تو چوہدری فتح محمد کو سوشلسٹ نظریات کو بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع ملا۔ تقریباً ایک سال بعد جنگ کا اختتام ہوا تو وہ رُودرادَت جوشی کے اسرار پر وطن واپس آ گئے۔ واپس آ کر اُنہوں نے اپنے گاؤں میں لائبریری بنا کر بچوں کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ان دنوں ملک میں آزادی کی لہر زوروں پر تھی اور ہر طرف انگریز سامراج سے آزادی کی آوازیں اُبھر رہی تھیں۔ اُنہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا اور وکالت کی ڈگری حاصل کر لی۔
جب برصغیر میں آزادی کی تحریک فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوئی تو سامراج نے اپنی ”لڑاؤ اور راج کرو “ کی پالیسی کے تحت ملک میں مذہبی منافرت پھیلا دی، جو جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور اس نے پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
چوہدری فتح محمد کے والد چوہدری امیر الدین کو انتہا پسند سکھوں نے بہت بے دردی سے قتل کر دیا۔ وہ 1947ء میں اپنی ماں، تین بہنوں اور چھوٹے بھائی کو لے کر نقل مکانی کر کے بحفاظت پاکستان پہنچ گئے۔ وہ جالندھر سے لاہور پیدل چل کر آئے، جس سے اُن کے پاؤں چھالوں سے بھر گئے تھے۔ چند ہفتے والٹن لاہور کے کیمپوں میں قیام کیا اور پھر ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک چھوٹے سے دور افتادہ گاؤں چک نمبر 305 گ ب میں آباد ہو گئے، اور وہیں انہیں 25 ایکڑ زمیں الاٹ ہو گئی۔ وہاں آتے ہی اُنہوں نے اپنے گاؤں میں کوآپریٹو سوسائٹی کی بنیاد ڈالی اور وہ اس کے صدر منتخب ہو گئے۔
لائل پور ضلع میں ہندوستان سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کی بہت بڑی تعداد تھی، جو اس امید سے پاکستان آئے تھے کہ یہ ان کا اپنا ملک ہو گا، یہاں ان کی عزت نفس محفوظ ہو گی اور ان کو سماجی برابری اور یکساں انصاف میسر ہو گا۔ جب ان کے خواب بکھرتے اور انہیں در بدر کی ٹھوکریں کھاتے دیکھا تو چوہدری فتح محمد نے ان کی آبادکاری، دیکھ بھال اور متبادل زمینوں کی الاٹمنٹ میں مدد کے لیے تنظیم قائم کر لی اور سماجی کاموں میں لگ گئے۔
ان کا چھوٹا بھائی کاشتکاری کرنے لگ گیا، لیکن ابھی آباد ہوئے پانچ ماہ ہی ہوئے تھے کہ چھوٹے بھائی محمد شفیع کا انتقال ہو گیا اور وہ اپنی تین بہنوں اور بیوہ ماں کا واحد سہارا رہ گئے۔
اسی دوران انہوں نے گاؤں میں کوآپریٹو سوسائٹی قائم کی تا کہ باہمی اتفاق سے اجتماعی فیصلے لینے کو رواج دیا جائے، بعد ازاں سرکار نے انہیں گاؤں کا نمبردار مقرر کر دیا۔
چند ماہ میں ہی اُن کی اپنے قریبی گاؤں کے نمبردار ڈاکٹر محمد عبداللہ سے دوستی ہو گئی، جو کیمونسٹ پارٹی کے راہنما تھے۔ اُنہی کی بدولت چوہدری فتح محمد نے 1948ء کے آغاز میں کسان کمیٹی میں شمولیت اختیار کی تھی، البتہ وہ اپنے چھوٹے بھائی محمد شفع کے اچانک انتقال کی وجہ سے 28 مارچ 1948ء کو منعقد ہونے والی پنجاب کسان کانفرنس میں شرکت نہ کر پائے۔
حکومت نے انہیں قانون کے مطابق نمبرداری کے عوض ساڑھے بارہ ایکڑ مفت زمیں الاٹ کرنا چاہا تو انہوں نے زمین لینے سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ ایک سچے انقلابی تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ان کی تنظیم پاکستان کسان کمیٹی کے منشور میں طے شدہ حد ملکیت کے مطابق 25 ایکڑ زمین پہلے سے ہے، اس لیے وہ اس حد سے زیادہ زمین نہیں رکھ سکتے۔
اُنہوں نے کسانوں کو منظم کرنے کے لیے اس قدر جفاکشی سے کام کیا کہ اسی برس کیمونسٹ پارٹی کے ممبر بن گئے۔ اس زمانے میں کیمونسٹ پارٹی کی ممبر شپ کے لیے کٹھن جدوجہد کرنا پڑتی تھی اور پارٹی کی عوامی تنظیموں میں کام کر کے اپنی کمٹمنٹ اور مسلسل جدوجہد کا ثبوت دینا پڑتا تھا۔
بعد ازاں 1949ء کے آغاز میں انہوں نے ایک کل وقتی کارکن کے طور پر کاسانوں میں کام شروع کر دیا تھا، البتہ اس کا پارٹی سے معاوضہ لینے کی بجائے سیلف پیڈ ہول ٹائمر بن کر کام کرتے رہے۔ بعدازاں پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کا قیام عمل میں آ یا اور اپریل 1949ء میں اس کا پہلا کنونشن منعقد ہوا تو اُنہیں اس کی مرکزی کمیٹی کا رکن منتخب کر لیا گیا۔ فیڈریشن کے صدر مرزا محمد ابراہیم اور نائب صدر فیض احمد فیض تھے۔ اسی کانفرنس میں انہوں نے پہلی بار فیڈریشن کے راہنماؤں اور سی آر اسلم سے ملاقات کی تھی۔
بعد ازاں 2 اپریل 1950ء کو دوسری پنجاب کسان کانفرنس بھی ضلع لائل پور میں ہی منعقد ہوئی، جِس میں نامور مزدور راہنما مرزا محمد ابراہیم، سی۔آر-اسلم کے علاوہ ادیبوں اور شاعروں کا قافلہ بھی تشریف لایا، جِس کی قیادت احمد راہی، مظہر علی خان، پروفیسر صفدر میر، عارف عبدالمتین اور دیگر کر رہے تھے۔
اس کانفرنس سے قبل پارٹی راہنما عبدالعزیز قاصر کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو گئے تھے اور وہ رُوپوش ہو چکے تھے۔ اس زمانے میں پارٹی کی پالیسی تھی کہ گرفتاری سے ہر صورت بچا جائے اور دیگر علاقوں میں جا کر پارٹی کام کو جری رکھ جائے۔ اس کانفرنس کی جانب جانے والے راستے پر گیٹ بنایا گیا تھا جِس کو عبدالعزیز قاصر کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ اسی کسان کانفرنس میں چوہدری فتح محمد کو کسان کمیٹی پنجاب کا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا تھا۔
چونکہ چوہدری فتح محمد نے 1949ء میں ایک کل وقتی پارٹی کارکن کے طور پر کام شروع کر دیا تھا اور کسانوں کو منظم کرنے، گاؤں گاؤں جلسے کرنے کے لیے ہفتوں گھر سے باہر رہتے تھے۔ ایک روز میرے دادی ’ماں بسری‘ کو گاؤں کے لوگوں نے مشورہ دیا کہ قریبی گاؤں میں ایک پہنچے ہوئے مولوی ہیں، ان سے تعویز کروا تا کہ آپ کا بیٹا سیاست چھوڑ کر گھر بیٹھے اور زمیندارے پر توجہ دے۔ ایک روز میری دادی نے ایسا ہی کیا اور تعویز بنوا کر ان کے تکئے میں چھپا دیا۔
مولوی کی بد قسمتی کہ چند روز بعد ہی چوہدری فتح محمد کے وارنٹ گرفتاری آ گئے اور پارٹی کی ہدایات کے مطابق اُنہیں رُوپوش ہو کر خانیوال، ملتان، وہاڑی اور گوجرانوالہ کے علاقوں میں کسانوں میں کام جاری رکھنے کا کہا گیا۔ اس زمانے میں کمیونیکیشن کا نظام نہ ہونے کے برابر تھا اس لیے گھر والوں کو بھی ان کی جائے رہائش کی کوئی خبر نہ تھی۔ پھر میری دادی جی نے اس مولوی کے ہاں جا کر طوفان برپا کر دیا اور مذہب کی آڑ میں رچائے گئے فریبوں کا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا۔ اب میں اعلیٰ تعلیم یافتہ، ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لینے والوں کو ان پڑھ، فریبی، دین فروش ملاؤں کے آگے گڑگڑاتے دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کی ان جیسے لوگوں نے ڈگریاں تو لے لی ہیں، لیکن ان کا شعوری لیول تو پرانے وقتوں کے سادہ لوح ان پڑھ لوگوں سے بھی کم ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ہمارہ ملک فروری 1956ء تک بغیر آئین کے ہی چلتا رہا اور انگریز سامراج کے بنائے ہوئے قوانین پر اکتفا کیا گیا۔ البتہ گاہے بگاہے صوبائی سطح کے بالواسطہ انتخابات منعقدہوتے رہے۔
جب 31 مارچ 1951ء کو پاکستان میں پہلے صوبائی انتخابات پنجاب میں منعقد ہوئے تو پارٹی نے چوہدری فتح محمد کو امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا، جو ان دنوں رُوپوش تھے۔ حلقہ پورا ضلع لائل پور پر مشتمل تھا اور جھنگ بازار میں واقع پارٹی دفتر میں انتخابی سرگرمیوں کی قیادت کے لیے لاہور سے پارٹی نے مظہر علی خان اور پروفیسر صفدر میر کو بھیج رکھا تھا۔
وہ ضلع بھر کے دیہاتوں میں جا کر کسانوں کے جلسوں سے خطاب کرتے اور شام کو دفتر واپس آ کر مرکزی دفتر کے لیے رپورٹ مرتب کرتے اور اگلے پروگرامز کو ترتیب دیتے تھے۔ وارنٹ گرفتاری کی وجہ سے چوہدری فتح محمد بھی اچانک جلسوں میں نمودار ہوتے اور ہدایات کے مطابق تقریر کر کے غائب ہو جاتے۔
چوہدری فتح محمد وہ انتخابات 26 ووٹوں سے ہار گئے تھے، البتہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کسان تحریک کی جو بنیادیں اس زمانے میں رکھی گئیں اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔
ان کی نظریاتی اور سیاسی تربیت میں اس زمانے کے نامور انقلابی پروفیسر ایرک سیپرین کا بہت ہاتھ تھا اور وہ جب بھی رُوپوش ہوتے تو ان کے ہاں ٹوبہ ٹیک سنگھ آ جاتے تھے۔ 1952ء میں تو انہوں نے ایک لمبا عرصہ چوہدری فتح محمد کے ہاں گزارا تھا۔ وہ مختلف دیہاتوں اور شہروں میں ان کے ساتھ سٹڈی سرکلز لینے جاتے تھے۔
ساٹھ کی دہائی میں شائع ہونے والی چوہدری فتح محمد کی مشہور کتاب ”پاکستان کے زرعی مسائل“ کے لیے سرکاری دفتروں میں جا کر اعدادوشمار اکٹھے کرنے کی تربیت بھی انہیں کامریڈ ایرک سیپرین نے ہی دی تھی۔
اس کتاب کی اشاعت کے بعد چوہدری فتح محمد کو پاکستان کے زرعی مسائل اور زرعی ڈھانچے کی ڈکشنری تصور کیا جانے لگا۔ جب مئی 2020ء میں چوہدری فتح محمد کا انتقال ہوا تو انسانی حقوق کے نامور علمبردار آئی اے رحمان نے ان کی تعزیتی ریفرنس میں بتایا کہ امروز و پاکستان ٹائمز کے زمانے میں ان کے ادارے نے جب بھی زرعی مسائل پر مضامین شائع کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ اس کے لیے اعدادوشمار چوہدری فتح محمد سے ہی لیتے تھے۔ وہ جب بھی انہیں بلاتے تو وہ لاہور آ کر اخبار کے دفتر میں تفصیل سے سمجھاتے تھے۔
جب 1954ء میں وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش کے الزام میں پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن، پاکستان کسان کمیٹی، انجمن ترقی پسند مصنفین اور دیگر عوامی تنظیموں سمیت کیمونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی تو انہیں ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا۔
رہائی کے بعد چوہدری فتح محمد نے دیگر ترقی پسند ساتھیوں کے ساتھ مل کر آزاد پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور سیاسی کام کا دوبارہ آغاز کر دیا اور میاں افتخارالدین کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگے۔
بعد ازاں 25 جولائی 1957ء کو چوہدری فتح محمد ڈھاکہ میں منعقدہ ہونے والے کنونشن میں شریک تھے جس میں نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی، جو پاکستان کی پہلی وسیع البنیاد ترقی پسند جمہوری پارٹی تھی جس کی جڑیں مشرقی پاکستان سمیت مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں میں موجود تھیں۔ اس کنونشن میں میاں افتخارالدین، عبدالحمید بھاشانی، شیخ عبدالمجید سندھی، عبدالصمد اچکزئی، غوث بخش بزنجو، میر گل خان نصیر، خان عبدالغفار خان، جی ایم سید، سی آر اسلم، سید قسور گردیزی، میاں محمود علی قصوری، حیدر بخش جتوئی جیسے قد آور رہنما شامل تھے۔
نیشنل عوامی پارٹی کا بنیادی ہدف ون یونٹ کو ختم کر کے پاکستان کے وفاق کو جمہوری اور منصفانہ بنیادوں پر استوار کرنا اور عالمی سطح پر بیرونی قرضوں اور غیر ملکی تسلط سے آزادی حاصل کر کے غیرجانبدارانہ پالیسی اپنانا شامل تھے۔
ڈکٹیٹر ایوب کا مارشل لا لگا تو چوہدری فتح محمد کو ایک مرتبہ پھر گرفتار کر کے لائل پور جیل اور پھر شاہی قلعہ لاہور کے عقوبت خانے پہنچا دیا گیا۔ بعد ازاں 1960 ء میں نیشنل عوامی پارٹی کے نوجوان رہنما حسن ناصر کو اذیتیں دے کر لاہور کے شاہی قلعے میں شہید کیا گیا تو اس وقت چوہدری فتح محمد بھی اس بدنام زمانہ عقوبت خانے میں تشدد برداشت کر رہے تھے اور اپنی سیاسی وابستگی کی قیمت ادا کر رہے تھے۔ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے لئے بدترین ایذا رسانی اور ناکردہ گناہوں کے اعتراف کے لئے شرمناک ہتھکنڈوں کی دہشت ناک شہرت رکھنے والا یہ عقوبت خانہ برطانوی حکومت نے 1924ء میں برصغیر میں تحریک آزادی کو کچلنے اور اس کے راہنماؤں کو اذیتیں دینے کے لیے قائم کیا تھا۔ بعد ازاں انہیں لاہور جیل منتقل کر دیا گیا، جہاں ان کے ساتھ فیض احمد فیض بھی تھے۔ پھر انہیں چند ماہ لائل پور جیل رکھنے کے بعد 2 سال 4 ماہ کے لیے ان کے گھر پر نظر بند رکھا گیا۔
اپنے گاؤں نظر بندی کے دوران انہیں اپنی زمین تک جانے کی آزادی تھی، اس لیے وہ کھیتوں پر کاشتکاری کی دیکھ بھال کرنے لگے۔ پھر رات کے اندھیرے میں سیاسی ساتھیوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا، جن میں سید مطلبی فرید آبادی، سردار شوکت علی، راؤ مہروز اختر خان، سید محمد قسور گردیزی، سی۔آر۔اسلم، میاں محمد اکرم، میاں محمود احمد قابل ذکر تھے۔
اس عرصہ میں پاکستان کے نامور سیاسی رہنماء اور چوہدری فتح محمد کے قریبی دوست سید قسور گردیزی نے انہیں کھیتوں میں کینو اور آم کا باغ لگانے کی ترغیب دی اور ملتان سے نرسری کے پودے بھیجنا شروع کر دیے۔ وہ ایک کل وقتی کارکن کی حیثیت سے کام کرتے تھے لیکن کبھی بھی پارٹی سے معاوضہ یا تنخواہ نہیں لیتے تھے۔ اس لیے قسور گردیزی کا کہنا تھا کہ بچے بڑے ہو رہے ہیں اور باغ لگانے سے بچوں کی تعلیم اور گھر کے اخراجات کا بندوبست ہو جائے گا۔
رہائی کے بعد ان میں ایک نئی انرجی آ گئی اور انہوں نے سید مطلبی فرید آبادی، سردار شوکت علی، راؤ مہروز اختر، سی آر اسلم اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر خلاف قانون دی گئی پاکستان کسان کمیٹی کو دوبارہ منظرِ عام پر لانے کا فیصلہ کیا۔ اُنہوں نے دیہاتوں میں جگہ جگہ جا کر کسان کمیٹیاں بنائیں اور 1963 ء میں ملتان میں کسان کانفرنس منعقد کر کے پاکستان کسان کمیٹی کی نئے سرے سے تنظیم سازی کرنے کا آغاز کر دیا۔ ملتان میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کے انتظامات کے لیے انہیں ایک ماہ تک ملتان میں سید قسور گردیزی کے گھر ہی قیام کرنا پڑا۔ ان کے بیٹے زاہد حسین گردیزی کے بقول چوہدری فتح محمد ان کے چچا جی تھےاور ان کے بچپن کی بہت سی یادیں ان کے ساتھ وابستہ ہیں۔
اِس کسان کانفرنس کی کامیابی کے باعث ایک طرف تو ملک بھر میں کسانوں کو بڑے پیمانے پر منظم کرنے میں مدد ملی تو دوسری طرف کسان کانفرنسیں منعقد کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس طرح رحیم یار خان، خانیوال، چنی گوٹھ، ٹانڈہ، لودھراں، خانپور، سرائے عالمگیر، سبی، پشاور اور ملک کے دوسرے حصوں میں بڑی کسان کانفرنسیں منعقد کی گئیں، جن کی بدولت 1970ء کی تاریخ ساز کسان کانفرنس کا انعقاد ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ممکن ہوسکا۔
پاکستان میں صنعت تو نہ ہونے کے برابر تھی، اس لیے پارٹی اور اس کی عوام تنظیمیں، بالخصوص انجمن ترقی پسند مصنفین اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے راہنما کسان تحریک میں بڑھ چڑھ کر معاونت کرتے تھے۔ اُدھر حکمران طبقات بھی اس بات سے بخوبی واقف تھے اور کسان تحریک کے راہنماؤں کو سرکاری مہمان بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان سے لے کر 2009ء تک پاکستان میں ماسوائے بےنظیر بھٹو کے، ہر حکمران نے اُنہیں عقوبت خانوں میں رکھا۔ اس میں عوامی رہنما کہلوانے والے ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے، جنہوں نے اپنی پارٹی میں سمولیت کے عوض اُنہیں وزارتِ زراعت دینے کے لیے کسان کمیٹی ضلع لاہور کے سابق سیکرٹری اور پیپلز پارٹی کے وائس چیرمیں شیخ رسید کو بھیجا تھا۔
چوہدری فتح محمد نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقوں میں پنچایت کا ایک ایسا مضبوط نظام قائم کیا تھا کہ جس کی وجہ سے کوئی پولیس افسر وہاں کے تھانوں میں آنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا، کیونکہ وہ زیادہ تر تنازعات پنچایت کے ذریعے حل کروا دیتے تھے۔ تھانہ۔ مزید برآں وہ کچہری، محکمہ مال اور نہری نظام میں رشوت ستانی کے خلاف جلسے، جلوس اور احتجاج بڑے تواتر سے کرتے تھے تا کہ لوگ سیاسی عمل میں پوری طرح سے شامل رہیں اور ان کے شعور اور آگہی میں اضافہ ہو۔
قیام پاکستان سے ہی ہمارے ملک میں سوشلزم کے خلاف پراپیگنڈہ اس تواتر سے کیا گیا ہے کہ اس سے اچھا خاصا پڑھا لکھا انسان بھی ذہنی طور پر متاثر ہوا ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
حالانکہ سوشلزم برابری کی بنیاد پر تمام مذاہب کا احترام کرنا سکھاتا ہے اور دوسروں کے مذہبی معاملات میں مداخلت سے روکتا ہے۔ سوشلزم ہی نہیں بلکہ سیکولرازم اور عام جمہوری روایات بھی یہی کہتی ہیں۔ چوہدری فتح محمد کی سیاسی جدوجہد کا محور چونکہ دیہاتوں کے سادہ لوح انسان تھے، اس لیے وہ مذہبی بنیادوں پر گفتگو سے نہ صرف پرہیز کرتے تھے بلکہ دوسرے ساتھیوں بالخصوص شہری ساتھیوں کو بھی ایسا کرنے سے روکتے تھے۔
اگر انہیں مذہبی لوگوں سے واسطہ پڑ جاتا تو ان کی پچ پر کھیلنے کی بجائے ان کو طبقاتی ظلم، جبر اور استحصال کے موضوع پر لے آتے تھے۔ اس لیے مذہبی لوگ نہ صرف ان کا احترام کرتے تھے بلکہ ان کے ساتھ تعلقات خوش گوار رکھتے تھے۔ ایک دفعہ وہ اپنی روپوشی کے دوران گوجرہ کے قریب چنڈ و بٹالہ میں ایک کسان کارکن کے ہاں رہ رہے تھے تو وہاں کے امام مسجد مولوی عبداللہ ساتھ والے گھر میں رہتے تھے۔ انہوں نے چند ملاقاتوں میں ہی اسے سرگرم کسان کارکن بنا لیا۔
1993ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک کسان کانفرنس منعقد ہوئی تو اس میں لاہور کے دانشور صفدر صدیقی نے بھی شرکت کی تھی اور اسی مولوی عبداللہ نے وہاں انقلابی نعت پڑھی، کِدوں مُکے گی جاگیرداری یا رسول اللہ، کِدوں آوے گی کساناں دی باری یا رسول اللہ، تو صفدر صدیقی نے واپس جا کر اس نظم کو اپنے ماہنامہ کے ٹائٹل پر سجایا۔
ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے مارشل لاء کے سیاہ دور میں جب چوہدری فتح محمد جیل گئے تو تمام ترقی پسندوں کو قائل کیا کہ سب مل کر ایک متحدہ پارٹی کا قیام عمل میں لائیں۔ رہائی کے بعد مزدور کسان پارٹی کے رہنماؤں میجر اسحاق محمد، غلام نبی کلو اور لطیف چوہدری نے ان کے گاؤں جا کر بائیں بازو کے اتحاد اور متحدہ پارٹی کے قیام کے لیے تمام تفصیلات طے کیں اور لاہور میں ایک بڑے اجلاس کا فیصلہ کیا، لیکن بد قسمتی سے ایک ہفتہ بعد ہی میجر اسحاق محمد کا انتقال ہو گیا۔
ملکی سیاسی روایت تو یہی ہے کہ سیاسی لوگ جیل یاترا کے بعد گھریلو معاملات سدہارنے میں الجھ جاتے ہیں، لیکن چوہدری فتح محمد اس کے بالکل برعکس تھے، اور ان میں جیل یاترا کے بعد ایک نئی انرجی آ جاتی تھی۔
ضیاء مارشل لاء کے 6 ماہ فیصل آباد اور پھر جہلم جیل میں گزارنے کے بعد انہوں نے ملک بھی میں ایک بار پھر کسان کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کر دیا، جس نے ایک طرف ترقی پسند سیاسی کارکنوں میں جمود کو توڑا تو دوسری طرف بائیں بازو کی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی راہ ہموار کی۔
اسی دوران 1983ء میں کبیر والہ میں پاکستان کسان کمیٹی کا ڈیلیگیٹ کنونشن منعقد ہوا تو اُس میں نامور دانشور عبدالحفیظ کاردار اور مسعود کھدرپوش نے بھی مہمان کے طور پر شرکت کی۔ اُس کنونشن میں چویدری فتح محمد نے زرعی رپورٹ پیش کی تو اُس کی بنیاد پر حفیظ کاردار نے ملک کے نامور معیشت دانوں کی تنظیم گروپ 78 کے پلیٹ فارم سے ملک کے زرعی مسائل پر سیمیناروں کو سلسلہ شروع کر دیا، جِس میں شاہد کاردار، مسعود کھدرپوش، ڈاکٹر تجمل حسین، عمر اصغر خان، ملک معراج خالد اور آئی اے رحمان نے کسان تحریک کو شہری دانشوروں اور معیشت دانوں کے ساتھ جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے کبیروالا، وہاڑی، خانیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، نارووال، شیخوپورہ، اڈہ لاڑ ملتان، سانگھڑ، سبی اور جھنگ میں کسان کانفرنسیں منعقد کیں۔ 23 مارچ 2005 ء کو ٹوبہ ٹیک سنگھ کانفرنس کے بعد بائیں بازو کی جماعتوں کا وہیں اجلاس رکھا گیا تھا جس کے اگلے اجلاس میں عوامی جمہوری تحریک کے نام سے متحدہ محاذ کی بنیاد رکھی گئی، جو بعد ازاں بائیں بازو کے مرجرز کر کے 2010ء میں ورکرز پارٹی اور 2012 ء میں عوامی ورکرز پارٹی کی بنیاد بنی۔ 2011 ء میں وہ ہمارے پاس برطانیہ آئے تو انہیں فیض احمد فیض کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر فیض ایوارڈ سے نوازا گیا، جو فیض صاحب کی بیٹی سلیمہ ہاشمی نے لندن میں ایک بڑی تقریب میں انہیں پیش کیا۔
چوہدری فتح محمد کی زندگی اور جدوجہد پر جن لوگوں نے سب سے زیادہ اثرات ڈالے ان میں برطانیہ قیام کے دوران رودرادت جوشی اور قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر محمد عبداللہ، پروفیسر ایرک سیپرین، سید مطلبی فرید آبادی اور سی آر اسلم شامل تھے۔ ان کی یہ خوبی تھی کہ تمام ترقی پسند انہیں اپنا مشترکہ اثاثہ گردانتے تھے۔
اسی لیے 90 کی دہائی میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی اختلافات کا شکار ہوئی اور دو حصوں میں بٹ گئی تو چند برسوں میں ہی انہوں نے سی آر اسلم کو قائل کر کے دوبارہ انضمام کے ذریعے پارٹی بنانے پر آمادہ کر لیا۔ وہ اپنے وطن، اس کی مٹی اور اس کے عوام سے بے پناہ محبت کرتے تھے،اسی لیے قیامِ پاکستان کے بعد جب لوگوں کے آزادی کے خواب چکنا چور ہونے لگے اور وہ وڈیرے، جاگیردار اور قبائیلی سردار، جو ہمارے وطن کر غدار اور انگریز سامراج کے کارندے تھے، وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سازباز کر کے ملک پر قابض ہو گئے تو چوہدری فتح محمد اور ان کے ساتھیوں نے ملکی آزادی کی تکمیل اور محکوم عوام کے حقوق کی جدوجہد کو ہی اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنایا۔
چوہدری فتح محمد نے جن سیاسی راہنماؤں کے ساتھ مل کر بھرپور جدوجہد کی ان میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی، میاں افتخارالدین، سی آر اسلم، سردار شوکت علی، مرزا محمد ابراہیم، عابد حسن منٹو، سید مطلبی فریدآبادی، پروفیسر ایرک سیپرین، راؤ مہروز اختر خان، انیس ہاشمی، کنیز فاطمہ، میجر اسحاق محمد، شاھین شاہ، کامریڈ عبدالسلام، محمد علی بھارا، اختر حسین، حسن عسکری، اسحاق مانگریو، رب نواز چاون، اور دیگر شامل تھے۔ وہ اصولوں کے پابند اور سچائی کا پرچار کرنے والے سچے انقلابی تھے۔ وہ بہت پرعزم اور جہدمسلسل کی علامت تھے اور اپنے نظریات پر اپنی آخری سانس تک ڈٹے رہے۔ ان کی خدمات کو آنے والی نسلیں یاد رکھیں گیں اور وہ ہمیشہ انقلابی تحریکوں میں آنے والی نسلوں کی رہنمائی کرتے ان کے درمیان رہیں گے۔
چوہدری فتح محمد اپنی غلطیوں کو ہمیشہ کھلے دل سے تسلیم کرتے تھے اور اپنے سے عمر میں چھوٹے سے بھی بڑے خلوص کے ساتھ معافی مانگ لیتے تھے۔ اس کی ایک جھلک ان کے خود نوشت سوانح عمری، جو ہم پہ گزری میں بھی ملتی ہے۔ جس میں انھوں نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ عمر کے اس حصے میں انہیں 2010ء میں پارٹی پنجاب کی صدارت قبول نہیں کرنا چاہیے تھی، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر ان کی زندگی میں متبادل قیادت ابھر کر سامنے نہ آ سکی تو یہ ان کی ناکامی ہوگی۔
وہ 2011ء میں ہمارے پاس برطانیہ آئے تو اُنہوں نے لیڈز سے پروفیسر محسن ذوالفقار، بریڈفورڈ سے پروفیسر محمد نذیر تبسم، لندن سے ڈاکٹر افتخار محمود، کیلیفورنیا سے اعجاز سید اور سویڈن سے مسعود پنجابی کے اسرار اپنی خود نوشت سوانح ‘جو ہم پہ گزری’ تحریر کرنے کا آغاز کر دیا۔ محسن ذوالفقار تو ایک رود لکھنے کے لیے نوٹ بک اور بال پینز کا پیکٹ لے آئے، جبکہ پروفیسر نذیر تبسم نے اُردو کمپوزنگ کی ذمہ داری لے لی۔ بالآخر کتاب شائع ہو کر قارئین کے ہاتھوں میں آ گئی، جِس نے سوانح کی شکل میں سیاسی تاریخ تحریر کرنے کی ریت ڈالی۔ اس کتاب میں عابد حسن منٹو، آئی اے رحمان، پروفیسر عزیزالدین احمد، پروفیسر محمد نذیر تبسم اور میاں محمد اکرم کے ریویو، مضامین بھی شامل کئے گئے ہیں، جسے سانجھ پبلیکیشنز لاہور نے شائع کیا تھا۔
چوہدری فتح محمد ذاتیات، شخصیت پرستی، گروہ بندی دوہرے چہرے اور دوہرے معیار کے قائل نہیں تھے اور خود پرستی کو فلسفیانہ موشگافیوں میں الجھا کر نظریاتی رنگ دینے کے خلاف تھے، بلکہ اسے جاگیردارانہ سوچ کے اثرات اور تحریک کے لئے نقصان دہ سمجھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ سماجی تبدیلی ایک وسیع تر ترقی پسند تحریک پیدا کیے بغیر ممکن نہیں، جس کے لیے ہر اس عمل کی نفی کرنا ہو گی جو باہمی نفاق پیدا کرتا ہے اور غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے۔
بقول بزرگ سوشلسٹ راہنما عابد حسن منٹو کے، چوہدری فتح محمد پاکستان میں کسانوں، مزدوروں، مظلوم و محکوم اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی تحریک کے سالار تھے اور زندگی بھر اپنے آدرشوں اور نظریات کے ساتھ عملی طور پر وابستہ رہے۔ وہ پڑھے لکھے، باہوش اور باکردار انسان تھے۔
انھوں نے صرف کتابی علم حاصل نہیں کیا بلکہ عملی طور پر زمین کے ساتھ جڑت پیدا کر کے لوگوں کے درمیاں رہتے ہوئے اپنے علم کو استعمال کیا۔ انہوں نے نہ صرف دیہاتوں میں کسانوں، مزارعین، اور کھیت مزدوروں کی تربیت کر کے ایک مضبوط اور دیرپا تحریک کو منظم کیا بلکہ شہروں کے نچلے درمیانہ طبقہ، دانشوروں، خواتین، طلباء اور نوجوانوں کو بھی متاثر اور منظم کیا، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مظلوم و محکوم اور استحصال کے شکار طبقات کو وسیع پیمانے پر منظم کیے بغیر سماجی تبدیلیی ممکن نہیں۔
آج چوہدری فتح محمد کی چوتھی برسی ہے اور ان کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم ان کے مشن کو آگے بڑھائیں اور تمام ترقی پسند، انسان دوست اور جمہوریت پسند قوتوں کو اکٹھا کریں اور اس نیم آزاد، جدید نوآبادیاتی، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کو تیز کریں۔
چوہدری فتح محمد نے اپنی خود نوشت سوانح جو ہم پہ گزری میں کیا خوب لکھا ہے کہ میں نے پاکستان میں ہزاروں، لاکھوں دوستوں اور کامریڈوں کے ساتھ مل کر اس ملک میں سماجی تبدیلی کا خواب دیکھا تھا اور ہم سب مل کر یہ تبدیلی لانے کے لیے ساری زندگی مقدور بھر کوشش کرتے رہے، لیکن ہماری کوششیں ہماری آرزووں اور تمناؤں کے مطابق نتیجہ خیز نہ ہو سکیں۔ اس کے باوجود نہ تو کوئی پشیمانی ہے اور نہ ہی کسی قسم کا پچھتاوہ ہے، کیوں کہ ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت۔ سماجی تبدیلیاں بسا اوقات، بقول لینن، صدیوں میں نہیں آتیں اور جب آنے لگتی ہیں تو عشروں میں رونما ہو جاتی ہیں۔
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صورتِ ہزار کا موسم
—♦—
پرویز فتح بائیں بازو کے سینئر ساتھی ہیں اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ آپ عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے راہنما ہیں اور برطانیہ میں بائیں بازو کے انتہائی متحرک دوستوں میں سے ہیں۔ آپ اکثر سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔