برِصغیر کے آزادی پسند ہیرو بھگت سنگھ جس نے دیش کی آزادی کی خاطر اپنی جان کی قربانی دی۔ یقیناً وہ ایک حقیقی آزادی پسند اور سوشلسٹ انقلاب کا حامی تھا، جو طبقات سے پاک برابری کی سطح پر قائم ہندوستان میں ایک انصاف پسند معاشرے کا قیام چاہتا تھا۔
بھگت سنگھ 23مارچ 1907ء میں ضلع لائل پور کے موضع بنگہ میں پیدا ہوئے۔ کاما گاٹا جہاز والے اَجیت سنگھ جو ایک انقلابی تھے اُن کے چچا تھے۔
جلیانوالہ باغ قتلِ عام اور عدم تعاون کی تحریک کے خونیں واقعات سے اثر قبول کیا۔ انیس سو اکیس میں سکول چھوڑا اور نیشنل کالج میں تعلیم شروع کی۔ 1927ء میں لاہور میں دسہرہ بم کیس کے سلسلے میں گرفتار ہوئے اور شاہی قلعہ لاہور میں رکھےگئے۔
ضمانت پر رہائی کے بعد نوجوان بھارت سبھا بنائی اور پھر انقلاب پسندوں میں شامل ہو گئے۔ دسمبر 1928 بھگت سنگھ کے ساتھی راج گرو اور شیوراج نے اکیس سالہ برٹش پولیس آفیسر جون سانڈرز کو لاہور میں گولی مار دی، وہ دراصل برٹش انڈیا کے سپرنٹنڈنٹ جیمز سکاٹ کو گولی مارنا چاہتے تھے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ لالہ لاجپت رائے کی موت کا وہی آفیسر ذمہ دار ہے۔
جلیانوالہ باغ میں آزادی پسندوں کے قتل عام کے بعد ہندوستان بھر میں آزادی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس کے یکے بعد دیگرے کئی واقعات رُونما ہوئے، لیکن برٹش انڈیا میں سامراجیوں نے اتنے ظلم شروع کر دئیے کہ کراچی میں برٹش کمانڈ کمشنر پہ حملے کی منصوبہ سازی میں مقامی 20 سپاہیوں کو پکڑا گیا جن کو سکھر لا کر چودہ کو پھانسی دے دی گئی، جبکہ تین کو قتل اور تین کو گولی مار دی گئی۔ ان ساری باتوں کا شدید اثر سارے ہندوستان پر پڑا۔ تاہم بھگت سنکھ اور ان کے ساتھیوں نے دہلی میں عین اس وقت جب مرکزی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا بی کے دت نے اسمبلی ہال میں دھماکا پیدا کرنے والا بم پھینکا۔ دونوں گرفتار کرلیے گئے۔ عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی۔
جیل میں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ تشدد رَوا رکھا ،ناقص کھانے کی وجہ سے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے کئی دن تک بھوک ہڑتال کیے رکھی جس کا اثر جیل سے باہر بھی ہونے لگا ۔ برطانوی سامراج نے جانا ہی تھا کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک تو برطانوی سامراج نو آبادیاتی نظام برقراررکھنے کی بساط کھو چکا تھا اور دوسرا ڈالٹا کانفرنس میں دنیا کو جدید نوآبادیاتی نظام میں جکڑنے کے سارے منصوبے پر دنیا کے طاقتور حکمرانوں نے معاملات کو طے کر لیےتھے کہ کس طرح اب دنیا کے نظام کو چلانا ہے۔
لہٰذا دنیا بھر میں کہیں بھی سچے آزادی پسندوں کے بجائے اس کام کے لیے ایسے لیڈروں کو چُنا گیا جو عالمی مالیاتی سرمائے کے تحفظ کے پہرے دار ہوں اور سامراجی مفادات کا تحفظ کرتے رہیں۔
بدنصیبی سے ہندوستان کے کمیونسٹوں کا روس کی بالشویک پارٹی کے بجائے برطانوی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ رابطے تھے جبکہ برطانوی کمیونسٹ پارٹی کے زیادہ تر لیڈر کمیونسٹوں کے بجائے لبرل ڈیموکریٹ تھے اور وہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستان حقیقی معنوں میں آزادی حاصل کرے۔
لہٰذا بھگت سنکھ، راج گرو اور سُکھ دیو کو 23 مارچ 1931ء کو رات کے اندھیرے میں لاہور سنٹرل جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور ہندوستان میں حقیقی آزادی، برابری اور اشتراکیت کی ایک جاندار آواز کو دبا دیا گیا ۔
بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی پھانسی پر ہندوستان کے نام نہاد آزای پسند گاندھی، نہرو سمیت سارے لیڈر خاموش اور خوش تھے اور پھر وہی ہوا جو سامراج کا منصوبہ تھا! نہ صرف ہندوستان تقسیم ہوا بلکہ آج کے تینوں ملکوں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش کے محنت کش، ہاری اور کسان اسی حالت میں زندہ رہنے پر مجبور کر دئیے گئے جس حالت میں ایک مفتوح قوم بن کر برطانوی سامراجی عہد میں زندہ تھے ۔
ہند، پاک نے کشمیر کو دونوں ملکوں کی اشرفیہ کی کمائی کا ذریعہ بنادیا اور یہاں کے عوام آج بھی کالونیل نظام کی سختیاں جھیلنے پر مجبور ہیں!
بھگت سنگھ ایک انسان دوست تھا جس کے خواب انسانی معاشرے کے برابری کی بنیاد پر دیکھنے کے خواب تھے ۔وہ آج بھی ادھورے ہیں۔ وہ خواب نہ ہندوستان کے مزدور ،کسان ،خواتین ،طلباء یا عام آدمی کے پورے ہو سکے نہ پاکستان کے اور نہ ہی بنگلہ دیش و کشمیر کے پورے ہو سکے۔ آج بھی ہند ،پاک کے بے بس کروڑوں عام لوگوں کی آشائیں اُمیدیں اور وہ سپنے جو بھگت سنگھ نے دیکھے تھے ادھورے ہیں۔
بھگت سنگھ پھانسی کو گلے لگا کر امر ہو گیا لیکن یہاں کے لوگ آج بھی کسی بھگت سنگھ کی تلاش میں ہیں۔ کسی ایسے جانباز جیالے حریت پسند اور انقلابی کی تلاش میں ہیں جو اس نرک سے گندے سماج سے نکال کر ان کو جینے کے لیے ایک انصاف پسند معاشرہ دے ، ایک حوصلہ دے ۔ بھوک اور بے کاری کا کوئی دھرم نہیں ہوتا ،کوئی زبان نہیں ہوتی، کوئی سیما نہیں ہوتی ،لیکن دھرم کے نام پر اس دھرتی کے عوام کو کس قدر قتل و غارت گری کے ساتھ تقسیم کیا گیا ،بھگت سنگھ کی لڑائی اس سب کے خلاف تھی ! بھگت سنگھ آج بھی زندہ ہے اور اس سمے تک زندہ رہے گا جب تک ہم سب محنت کش ،مزدور، ہاری ،کسان اور عام لوگ اس طبقاتی نظام کو جڑھ سے اکھاڑ کر نہیں پھنک دیتے۔
آج خصوصاً ہمارا ملک جس معاشی، سیاسی و اقتصادی بحران کا شکار ہے ہمیں کل سے کہیں زیادہ ایک انصاف پسند معاشرے کے قیام کی ضرورت ہے۔
ہماری تمام آشاؤں کو برباد کرنے والی یہ وہی سامراجی اشرفیہ ہے جس نے اس دھرتی کے محنت کش ہاریوں اور کسانوں کی رگ وجاں سے خون نچوڑ کر ایک ایسے مقام افسوس پر لا کھڑا کر دیا ہے جہاں چاروں اَور بربادی ہے ،تباہی ہے،نا انصافی ہے۔ کیونکہ یہ سامراجی طاقتوں کے وہ آلۂ کار ہیں جو مالیاتی اداروں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے رکھوالے ہیں ان کو اپنے عوام کی کوئی پرواہ نہیں۔
آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں سے سخت معاہدوں کی صورت میں عوام سے ٹیکس وصول کر کے ان کو سود ادا کیا جا رہا ہے جبکہ یہ قرضے ان کی عیاشیوں پرخرچ ہوئے ہیں۔ ہمیں آج کل سے کہیں زیادہ ایک انصاف پسند معاشرے کی ضرورت ہے جس کا خواب بھگت سنگھ اور اس کے انصاف پسند ساتھیوں نے دیکھا تھا۔ ہم ساؤتھ ایشیاء میں امن اور خوشحالی کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے۔
بھگت سنگھ کے نظریات و خیالات کل بھی زندہ تھے وہ آج بھی زندہ ہیں، بھگت ہمیشہ اَمر ہے اور اَمر رہے گا!
—♦—

ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔