کل ہمارے دوست معروف نقاد ڈاکٹر احمد سہیل (امریکا) نے فیس بک پر پوچھا کہ ۱۹۶۵ کی پاک بھارت جنگ میں کس ملک کی فتح ہوئی تھی۔ میرا جواب تھا کہ ’’ شاستری کا معاہدے پر دستخط کرتے ہی تاشقند میں انتقال کر جانا بذات خود ایک واضح ثبوت ہے کی جیت کس کی ہوئی؟ ‘‘
خیر اِن کے سوال کو ایک جملہ معترضہ ہی سمجھیے ۔
دو قوموں کے درمیان جنگیں ہمیشہ بڑے مالی و جانی نقصان کی حامل ہوتی ہیں۔ تاہم کون جیتا کون ہارا سے زیادہ اہم یہ ہوتا ہے کہ بعد از جنگ آنے والا عہد یا پوسٹ وار زمانہ قوموں کے لئے کیا سبق سامنے لاتا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ سنہ ۶۵ میں میَں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ انِ دنوں ہم گوجرانوالہ میں رہ رہے تھے۔ گوندلانوالہ روڈ پر مشہور زمانہ پیلی کوٹھی کا ایک حصہ ہماری پوری فیملی کے تصرف میں تھا۔ باہر کونے پر نذیر ٹی سٹال ہوا کرتا تھا جس پر سارا دن بڑے بزرگ بیٹھے سیاست پر گفتگو کرتے رہتے۔ شام میں نذیر ٹی سٹال کا مالک چاچا نذیر بی بی سی ریڈیو اونچی آواز میں لگا دیتا تو راہ گزر بھی لمحہ بھر کو رک کر خبریں سنتے اور حسبِ خبر تبصرے کرتے۔
اسکول سے گھر پہنچنے اور کھانا کھانے کے بعد میں اکثر محلے کے تقریباً ہم عمر لڑکوں کے ساتھ شام تک سامنے کرشن نگر میں مونجی خشک کرنے کے بڑے بڑے میدانوں میں کھیلتا رہتا۔
اسکول کا کام ہم سب بہن بھائیوں نے ابا کے گھر آجانے پر اِن کے سامنے کرنا ہوتا تھا۔ سو شامیں کھیل کود کے لئے فارغ ہی تھیں۔
چھ ستمبر ۶۵ کو سوموار کا دن تھا شائد۔ میں جب اپنے چند کلاس فیلوز کے ساتھ سول لائنز گِل روڈ پر اپنے پبلک ماڈل ہائی اسکول پہنچا تو کچھ خبر نہ تھی ‘ تاہم کچھ دیر بعد ہی اسکول اچانک بند کر دیا گیا۔ خبریں اڑ رہی تھیں کہ ہندوستان نے حملہ کر دیا ہے اور جنگ لگ گئی ہے۔ خیر ہم سب نے اسکول بند ہونے پر واپسی کی راہ لی۔ راستے بھر ہم دوست باتیں کرتے رہے کہ:
جنگ کیسی ہوتی ہے؟
کیسے کی جاتی ہے؟
کھیلتے کودتے جب گھر پہنچے تو حالات معمول کے مطابق تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ اب واپسی تک گلی گلی میں جنگ ہو رہی ہوگی اور بھارتی فوجی ہمیں آکر ماریں گے۔ ہمارے اسکول دوستوں میں ایک بڑے قد کا لڑکا تھا۔ وہ نویں جماعت میں پڑھتا تھا اور ہم پر اکثر اپنے بڑے پن اور علم کا مظاہرہ کیا کرتا۔ چونکہ وہ محلے میں ساتھ والی گلی میں ہی رہتا تھا سو اکثر اکھٹے ہی اسکول جاتے اور واپس آتے۔ ہم اس کی انٹ شنٹ باتوں کو بھی بہت اہم سمجھتے اور یقین کر لیا کرتے تھے۔ اسی نے ہمیں بتلایا کہ اب دیکھنا ہمیں بہت کام کرنا ہوگا۔
اسکول تو بند ہو گئے ہیں سو اب ہم سب کو فوج کے ساتھ مل کر دشمن سے جنگ کرنی ہوگی۔ شام تک وہ کہیں سے خبر لے آیا کہ سول ڈیفنس کا محکمہ نوجوانوں کو بھرتی کے لئے بلا رہا ہے۔ چلو سب چل کر اپنا اپنا نام جنگ کے لئے لکھواتے ہیں۔ شام کو ہم چار پانچ لڑکے مل کر کرشن نگر کے سول ڈیفنس کے دفتر چلے گئے۔ خبر درست تھی ۔ سول ڈیفنس والے وردیاں پہنے سینوں پر رنگ برنگے بیج لگائے محلے کے اکثر نوجوانوں کو منتخب کر کے نام کا اندراج کر رہے تھے۔ ہم پانچ لڑکوں میں سے صرف دو کو منتخب کیا گیا۔ میں منتخب نہ ہونے پر سخت غصے میں تھا تو مجھے ایک بڑے افسر نے سمجھایا کہ تم ابھی چھوٹے ہو ۔ اگلے سال تمہیں منتخب کر لیں گے۔ یہ بات سچ ہے کہ میرا قد آٹھویں جماعت تک کافی چھوٹا تھا۔ صحیح معنوں میں میرا قد دسویں جماعت میں بڑھا تھا۔
اس اثنا میں جنگ جاری تھی۔ جذبہ جنوں و جنگ روز بروز بڑھنے لگا۔ ریڈیو اور سینہ گزٹ سے خبریں مل رہی تھیں کہ ہم نے دشمن کے چھکے چھڑا دئیے ہیں۔ ہماری مدد کے لئے فرشتے آسمانوں سے نیچے اتر آئے ہیں اور راوی کے پل پر کھڑے ہوکر بھارتیوں کے پھینکے گئے بم کیچ کر رہے ہیں ۔ جس سے بھارتیوں کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ اِس اثنا میں ہم تین غیر منتخب دوستوں نے سول ڈیفنس کی وردی جیسے لباس خود ہی بنا لئے تھے اور رات بھر پہن کر گلی گلی اپنے گھروں کی حفاظت کے لئے گھومتے رہتے۔ کبھی خبر آ جاتی کہ فلاں محلے میں ایک بھارتی جاسوس پکڑا گیا ہے۔تو ہم خواہش کرتے کہ اللہ کرے کہ ہمارے ہاتھ بھی کوئی بھارتی جاسوس لگ جائے تو ہمارا نام روشن ہو جائے۔
خیر جاسوس تو ہاتھ نا آیا البتہ رات کو گھر سے باہر رہنے کی ایک عادت سی بن گئی جس نے بعد کی زندگی میں کافی اعتماد دیا۔ جنگ اور دشمن کے نام سے آشنائی نے جہاں ذات میں اعتماد پیدا کیا وہیں ہم نوجوانوں میں خوابوں سے نکل کر راست سوچنے کی عادت بھی پختہ کی۔ جس سے کتابیں پڑھنے اور علم کی روشنی حاصل کرنے میں مدد ملی۔
یہ بات مجھے تب سمجھ آئی جب سنہ ۷۲ میں یورپ گیا تو بعد از جنگ عظیم دوئم یورپ کی ترقی کرتی اکانومی اور شہروں کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ جنگ کے ہولناک مناظر کے بعد حقیقی قومیں یک جا‘ یک قدم ‘ یک جان ہوکر ملک کی کیسے کایا پلٹ دیتے ہیں۔ ہمارے سامنے بنگلہ دیش ہی دیکھ لیجئے۔
مجھے کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم ایک آخری جنگ کی ضرورت ہے اس کے بعد ہی شاید ہم سنبھل سکیں گے. ہو سکتا ہے کہ آخری جنگ ہمیں خود اپنے ساتھ کرنی پڑے۔
( ۶ ستمبر ۲۰۲۳ کی صبح لکھا گیا اظہاریہ)
—♦—
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے سنئیر وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک ملکی و عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے تاحیات ممبر ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
کل ہمارے دوست معروف نقاد ڈاکٹر احمد سہیل (امریکا) نے فیس بک پر پوچھا کہ ۱۹۶۵ کی پاک بھارت جنگ میں کس ملک کی فتح ہوئی تھی۔ میرا جواب تھا کہ ’’ شاستری کا معاہدے پر دستخط کرتے ہی تاشقند میں انتقال کر جانا بذات خود ایک واضح ثبوت ہے کی جیت کس کی ہوئی؟ ‘‘
خیر اِن کے سوال کو ایک جملہ معترضہ ہی سمجھیے ۔
دو قوموں کے درمیان جنگیں ہمیشہ بڑے مالی و جانی نقصان کی حامل ہوتی ہیں۔ تاہم کون جیتا کون ہارا سے زیادہ اہم یہ ہوتا ہے کہ بعد از جنگ آنے والا عہد یا پوسٹ وار زمانہ قوموں کے لئے کیا سبق سامنے لاتا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ سنہ ۶۵ میں میَں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ انِ دنوں ہم گوجرانوالہ میں رہ رہے تھے۔ گوندلانوالہ روڈ پر مشہور زمانہ پیلی کوٹھی کا ایک حصہ ہماری پوری فیملی کے تصرف میں تھا۔ باہر کونے پر نذیر ٹی سٹال ہوا کرتا تھا جس پر سارا دن بڑے بزرگ بیٹھے سیاست پر گفتگو کرتے رہتے۔ شام میں نذیر ٹی سٹال کا مالک چاچا نذیر بی بی سی ریڈیو اونچی آواز میں لگا دیتا تو راہ گزر بھی لمحہ بھر کو رک کر خبریں سنتے اور حسبِ خبر تبصرے کرتے۔
اسکول سے گھر پہنچنے اور کھانا کھانے کے بعد میں اکثر محلے کے تقریباً ہم عمر لڑکوں کے ساتھ شام تک سامنے کرشن نگر میں مونجی خشک کرنے کے بڑے بڑے میدانوں میں کھیلتا رہتا۔
اسکول کا کام ہم سب بہن بھائیوں نے ابا کے گھر آجانے پر اِن کے سامنے کرنا ہوتا تھا۔ سو شامیں کھیل کود کے لئے فارغ ہی تھیں۔
چھ ستمبر ۶۵ کو سوموار کا دن تھا شائد۔ میں جب اپنے چند کلاس فیلوز کے ساتھ سول لائنز گِل روڈ پر اپنے پبلک ماڈل ہائی اسکول پہنچا تو کچھ خبر نہ تھی ‘ تاہم کچھ دیر بعد ہی اسکول اچانک بند کر دیا گیا۔ خبریں اڑ رہی تھیں کہ ہندوستان نے حملہ کر دیا ہے اور جنگ لگ گئی ہے۔ خیر ہم سب نے اسکول بند ہونے پر واپسی کی راہ لی۔ راستے بھر ہم دوست باتیں کرتے رہے کہ:
جنگ کیسی ہوتی ہے؟
کیسے کی جاتی ہے؟
کھیلتے کودتے جب گھر پہنچے تو حالات معمول کے مطابق تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ اب واپسی تک گلی گلی میں جنگ ہو رہی ہوگی اور بھارتی فوجی ہمیں آکر ماریں گے۔ ہمارے اسکول دوستوں میں ایک بڑے قد کا لڑکا تھا۔ وہ نویں جماعت میں پڑھتا تھا اور ہم پر اکثر اپنے بڑے پن اور علم کا مظاہرہ کیا کرتا۔ چونکہ وہ محلے میں ساتھ والی گلی میں ہی رہتا تھا سو اکثر اکھٹے ہی اسکول جاتے اور واپس آتے۔ ہم اس کی انٹ شنٹ باتوں کو بھی بہت اہم سمجھتے اور یقین کر لیا کرتے تھے۔ اسی نے ہمیں بتلایا کہ اب دیکھنا ہمیں بہت کام کرنا ہوگا۔
اسکول تو بند ہو گئے ہیں سو اب ہم سب کو فوج کے ساتھ مل کر دشمن سے جنگ کرنی ہوگی۔ شام تک وہ کہیں سے خبر لے آیا کہ سول ڈیفنس کا محکمہ نوجوانوں کو بھرتی کے لئے بلا رہا ہے۔ چلو سب چل کر اپنا اپنا نام جنگ کے لئے لکھواتے ہیں۔ شام کو ہم چار پانچ لڑکے مل کر کرشن نگر کے سول ڈیفنس کے دفتر چلے گئے۔ خبر درست تھی ۔ سول ڈیفنس والے وردیاں پہنے سینوں پر رنگ برنگے بیج لگائے محلے کے اکثر نوجوانوں کو منتخب کر کے نام کا اندراج کر رہے تھے۔ ہم پانچ لڑکوں میں سے صرف دو کو منتخب کیا گیا۔ میں منتخب نہ ہونے پر سخت غصے میں تھا تو مجھے ایک بڑے افسر نے سمجھایا کہ تم ابھی چھوٹے ہو ۔ اگلے سال تمہیں منتخب کر لیں گے۔ یہ بات سچ ہے کہ میرا قد آٹھویں جماعت تک کافی چھوٹا تھا۔ صحیح معنوں میں میرا قد دسویں جماعت میں بڑھا تھا۔
اس اثنا میں جنگ جاری تھی۔ جذبہ جنوں و جنگ روز بروز بڑھنے لگا۔ ریڈیو اور سینہ گزٹ سے خبریں مل رہی تھیں کہ ہم نے دشمن کے چھکے چھڑا دئیے ہیں۔ ہماری مدد کے لئے فرشتے آسمانوں سے نیچے اتر آئے ہیں اور راوی کے پل پر کھڑے ہوکر بھارتیوں کے پھینکے گئے بم کیچ کر رہے ہیں ۔ جس سے بھارتیوں کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ اِس اثنا میں ہم تین غیر منتخب دوستوں نے سول ڈیفنس کی وردی جیسے لباس خود ہی بنا لئے تھے اور رات بھر پہن کر گلی گلی اپنے گھروں کی حفاظت کے لئے گھومتے رہتے۔ کبھی خبر آ جاتی کہ فلاں محلے میں ایک بھارتی جاسوس پکڑا گیا ہے۔تو ہم خواہش کرتے کہ اللہ کرے کہ ہمارے ہاتھ بھی کوئی بھارتی جاسوس لگ جائے تو ہمارا نام روشن ہو جائے۔
خیر جاسوس تو ہاتھ نا آیا البتہ رات کو گھر سے باہر رہنے کی ایک عادت سی بن گئی جس نے بعد کی زندگی میں کافی اعتماد دیا۔ جنگ اور دشمن کے نام سے آشنائی نے جہاں ذات میں اعتماد پیدا کیا وہیں ہم نوجوانوں میں خوابوں سے نکل کر راست سوچنے کی عادت بھی پختہ کی۔ جس سے کتابیں پڑھنے اور علم کی روشنی حاصل کرنے میں مدد ملی۔
یہ بات مجھے تب سمجھ آئی جب سنہ ۷۲ میں یورپ گیا تو بعد از جنگ عظیم دوئم یورپ کی ترقی کرتی اکانومی اور شہروں کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ جنگ کے ہولناک مناظر کے بعد حقیقی قومیں یک جا‘ یک قدم ‘ یک جان ہوکر ملک کی کیسے کایا پلٹ دیتے ہیں۔ ہمارے سامنے بنگلہ دیش ہی دیکھ لیجئے۔
مجھے کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم ایک آخری جنگ کی ضرورت ہے اس کے بعد ہی شاید ہم سنبھل سکیں گے. ہو سکتا ہے کہ آخری جنگ ہمیں خود اپنے ساتھ کرنی پڑے۔
( ۶ ستمبر ۲۰۲۳ کی صبح لکھا گیا اظہاریہ)
—♦—