لندن کی ایک حالیہ خبر کے مطابق برطانیہ میں جبری شادی کروانےکا ایک اور مقدمہ سامنے آیا ہے۔ 18اپریل کو سنائی جانے والی سزا کے مجرم والدین اپنی 19 سالہ بیٹی کی شادی اُس کے کزن سے کرنا چاہتے تھے جو اسے ہر گز منظور نہیں تھا۔ لڑکی کے انکار پر اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا جس پر لیڈز کراؤن کورٹ نے والدین کو مجرم قرار دے دیا۔ یہ شادی ان دنوں برطانیہ کے سیاسی وسماجی حلقوں میں زیرِ بحث بنی ہوئی ہے، جبکہ ہر سال برطانیہ میں 300 سے ایک ہزار تک جبری شادیوں کے کیس سامنے آتے ہیں۔
برطانیہ اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کی ایشیائی کمیونٹی میں جبری اور بے جوڑ نہ میں جبری اور بے جوڑ شادیوں کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہاہے ، ایک اندازے کے مطابق صرف سکاٹ لینڈ میں ہر برس قریباً تین سو ایشیائی جن میں پاکستانیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، شادیاں ہو تی ہیں جن میں پچاس فیصد شادیاں جبری یا بے جوڑ شادیوں کے زمرے میں آتی ہیں۔ اس قسم کی صورتحال سےجوڑے کے علاوہ ان خاندان بلکہ نسلی تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں ۔
کو نسل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 88 فیصد شادیوں میں ایک فریق کا تعلق ”غیر ملک“ سے تھا ۔ 79 فصد شادیاں بے جوڑ اور مفادات پر مبنی تھیں جبکہ 21 فیصد جبری تھیں ۔
شادی کرنے والی خواتین کا تناسب 62 فیصد اور مردوں کا تناسب 38 فیصدتھا ، 35 فیصد کو ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑا ۔ جبری شادی پر مجبور کیے جانے والی خواتین کی عمریں 16 سے 20 سال کے درمیان تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطا نیہ، سکارٹ لینڈ اور آئر لینڈ میں مرضی اور منشاء کے خلاف زبردستی کی شادیوں کے نتیجہ میں بعض لڑکیاں خود کشی تک کر بیٹھتی ہیں اور یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ خود کشی کی شرح ایشیائی لڑکیوں میں دیگر خواتین کی نسبت دو سے تین گنا زیادہ ہے ۔
ادھر جرمن حکام نے مسلم تارکین وطن کیلئے جبری شادیاں روکنے کیلئے نیا پلان بنا لیا ہے، اس حوالے سے جر من حکام نے اپنی خصوصی مہم بھی تیز کر دی ہے۔ ایک سروے کے مطابق جرمنی میں مسلمان تارکین وطن اپنی بچیوں اور عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
اور ان کی زبردستی اور جبری شادی کرنے کا رواج بھی زور پکڑتا جارہا ہے جس کے سدِباب کے لئے حکومت نے ان (متاثرین کو) کو ریلیف دینے اور روک تھام کے لئے آن لائن سروس شروع کر دی ہے۔ فیملی افیئرز کی جرمن وزیر نے برلن میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ترکی، پاکستانی، لبنانی، شامی، کوسووا، ایرانی اور عراقی تارکین وطن ہر سال 900 سے ایک ہزار تک جبری شادیاں کرتے ہیں اور کچھ لوگ کی جانب سے جبری طور پر اپنی بچیوں کو آبائی وطن واپس بھیجا جاتا ہے، ان میں غیر قانونی تارکین وطن بھی شامل ہیں۔
گذشتہ ماہ شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کو برطانیہ میں سکونت اختیار کرنے کے لئے بھی جبری شادی، بوگس شادی اور سہولت کی شادی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے صرف برطانیہ میں ایک برس کے اندر چار سوفیصد اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال 2712 شادیوں میں سے 51 فیصد جبری شادیاں تھیں۔
حکومت نے ایک قانون وضع کیا ہے جس کی رُو سے مستقبل بھی یورپ سےباہر بات سے آنے والے کسی بھی فرد کو یہاں شادی کیلئے سپیشل سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا ہو گا۔ رجسٹرار، ہوم آفس کی انٹری کلیئرنس یا دستاویز کے بغیر شادی سے انکار کرسکیں گے۔
پچھلے برس تحقیقاتی ٹیم نے 60 شادیوں کو غیر قانونی قرار دے کر 110افراد کو حراست میں لیاتھا۔ ان تحقیقاتی ٹیم اور امیگریشن حکام نے بوگس اور جبری شادیوں کے خلاف کاروائی شروع کر دی ہے اور عین اس روز جب ہوم سیکرٹری نے رجسٹراروں کو اختیار دیا کہ وه جعلی شادی رجسٹرڈ کرنے سے انکار کر سکتے ہیں، مختلف مقامات پر چھا پے مار کر دس افراد کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
حکومت نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سے غیر ملکیوں کی شادی ایک اسپیشل رجسٹریشن آفس کیا کرے گا، جہاں شادی سے قبل جوڑے سے امیگریشن کے حوالے سے انٹرویو لیا جائے گا۔
ایک رپورٹ کے مطابق لندن میں گذشتہ سال 21 فیصد شادیاں بوگس اورجعلی تھیں جو منظم گروہ بیرون ملک سے مردوں کو بلا کر کرواتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جعلی شادیاں ملک میں عام ہو رہی ہیں اور دس ہزار پونڈز فی کسی تک کی رقم وصول کی جاتی ہے۔
چرج رجسٹراروں نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں مزید اختیارات دیئے جائیں جن کو استعمال کرکے وہ یہ بوگس شادیاں روک سکیں۔ انہوں نے ہوم سیکرٹری سے مزید اختیارات کا مطالبہ کیا ہے تا کہ وہ کسی بھی مشتبہ ”شادی“ کو روک سکیں۔
رجسٹراروں کی سوسائٹی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لندن میں ہر پانچ میں سے ایک شادی منظم گروہ غیر قانونی تارکین وطن کے برطانیہ میں قیام کے لیے بھاری رقم کے عوض ترتیب دیتے ہیں۔ جوڑے یہ بات چھپانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں اور رجسٹرار اس صورت حال سے سخت اضطراب کا شکار ہیں۔ تاہم برطانوی حکومت نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ ہم سرمایہ کاروں، ورکروں، حقیقی طلبا اور دیگر ممالک سے دوستوں کی آمد روک نہیں سکتے اور نہ ہی ان کیلئے اس ملک کے دروازے بند کر سکتے ہیں، لیکن ہمیں ایسے لوگوں کو جو برطانیہ میں داخل ہو کر بوگس شادی یا سہولت کی شادی کے ذریعے مستقل قیام کرنا چاہتے ہیں ان کو روکنے کیلئے اپنے امیگریشن اور چرچ رجسٹر آفس کو مزید اختیار دینے کی پالیسی اپنا رہے ہیں۔
؎ یہ کافی ہے کہ ہم دُشمن نہیں ہیں
وفاداری کا وعدہ کیوں کریں ہم
—♦—
اسد مفتی معروف پاکستانی / ڈچ ترقی پسند صحافی ہیں جو عرصہ دراز سے یورپ میں مقیم ہیں۔ مارکسسٹ، لیننسٹ سوچ رکھنے والے سینئر صحافی اسد مفتی کی تحریروں سے عوام بخوبی واقف ہیں۔
انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز (1969) روزنامہ امروز لاہور سے کیا تھا۔ فیض احمد فیض، سبط حسن،حمید اختر، کلدیپ نیر اور آئی کے گجرال کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔
آپ ڈیلی للکار کے لئے ہفتہ وار کالم ”پانچواں موسم“ کے نام سے لکھتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
لندن کی ایک حالیہ خبر کے مطابق برطانیہ میں جبری شادی کروانےکا ایک اور مقدمہ سامنے آیا ہے۔ 18اپریل کو سنائی جانے والی سزا کے مجرم والدین اپنی 19 سالہ بیٹی کی شادی اُس کے کزن سے کرنا چاہتے تھے جو اسے ہر گز منظور نہیں تھا۔ لڑکی کے انکار پر اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا جس پر لیڈز کراؤن کورٹ نے والدین کو مجرم قرار دے دیا۔ یہ شادی ان دنوں برطانیہ کے سیاسی وسماجی حلقوں میں زیرِ بحث بنی ہوئی ہے، جبکہ ہر سال برطانیہ میں 300 سے ایک ہزار تک جبری شادیوں کے کیس سامنے آتے ہیں۔
برطانیہ اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کی ایشیائی کمیونٹی میں جبری اور بے جوڑ نہ میں جبری اور بے جوڑ شادیوں کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہاہے ، ایک اندازے کے مطابق صرف سکاٹ لینڈ میں ہر برس قریباً تین سو ایشیائی جن میں پاکستانیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، شادیاں ہو تی ہیں جن میں پچاس فیصد شادیاں جبری یا بے جوڑ شادیوں کے زمرے میں آتی ہیں۔ اس قسم کی صورتحال سےجوڑے کے علاوہ ان خاندان بلکہ نسلی تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں ۔
کو نسل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 88 فیصد شادیوں میں ایک فریق کا تعلق ”غیر ملک“ سے تھا ۔ 79 فصد شادیاں بے جوڑ اور مفادات پر مبنی تھیں جبکہ 21 فیصد جبری تھیں ۔
شادی کرنے والی خواتین کا تناسب 62 فیصد اور مردوں کا تناسب 38 فیصدتھا ، 35 فیصد کو ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑا ۔ جبری شادی پر مجبور کیے جانے والی خواتین کی عمریں 16 سے 20 سال کے درمیان تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطا نیہ، سکارٹ لینڈ اور آئر لینڈ میں مرضی اور منشاء کے خلاف زبردستی کی شادیوں کے نتیجہ میں بعض لڑکیاں خود کشی تک کر بیٹھتی ہیں اور یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ خود کشی کی شرح ایشیائی لڑکیوں میں دیگر خواتین کی نسبت دو سے تین گنا زیادہ ہے ۔
ادھر جرمن حکام نے مسلم تارکین وطن کیلئے جبری شادیاں روکنے کیلئے نیا پلان بنا لیا ہے، اس حوالے سے جر من حکام نے اپنی خصوصی مہم بھی تیز کر دی ہے۔ ایک سروے کے مطابق جرمنی میں مسلمان تارکین وطن اپنی بچیوں اور عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
اور ان کی زبردستی اور جبری شادی کرنے کا رواج بھی زور پکڑتا جارہا ہے جس کے سدِباب کے لئے حکومت نے ان (متاثرین کو) کو ریلیف دینے اور روک تھام کے لئے آن لائن سروس شروع کر دی ہے۔ فیملی افیئرز کی جرمن وزیر نے برلن میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ترکی، پاکستانی، لبنانی، شامی، کوسووا، ایرانی اور عراقی تارکین وطن ہر سال 900 سے ایک ہزار تک جبری شادیاں کرتے ہیں اور کچھ لوگ کی جانب سے جبری طور پر اپنی بچیوں کو آبائی وطن واپس بھیجا جاتا ہے، ان میں غیر قانونی تارکین وطن بھی شامل ہیں۔
گذشتہ ماہ شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کو برطانیہ میں سکونت اختیار کرنے کے لئے بھی جبری شادی، بوگس شادی اور سہولت کی شادی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے صرف برطانیہ میں ایک برس کے اندر چار سوفیصد اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال 2712 شادیوں میں سے 51 فیصد جبری شادیاں تھیں۔
حکومت نے ایک قانون وضع کیا ہے جس کی رُو سے مستقبل بھی یورپ سےباہر بات سے آنے والے کسی بھی فرد کو یہاں شادی کیلئے سپیشل سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا ہو گا۔ رجسٹرار، ہوم آفس کی انٹری کلیئرنس یا دستاویز کے بغیر شادی سے انکار کرسکیں گے۔
پچھلے برس تحقیقاتی ٹیم نے 60 شادیوں کو غیر قانونی قرار دے کر 110افراد کو حراست میں لیاتھا۔ ان تحقیقاتی ٹیم اور امیگریشن حکام نے بوگس اور جبری شادیوں کے خلاف کاروائی شروع کر دی ہے اور عین اس روز جب ہوم سیکرٹری نے رجسٹراروں کو اختیار دیا کہ وه جعلی شادی رجسٹرڈ کرنے سے انکار کر سکتے ہیں، مختلف مقامات پر چھا پے مار کر دس افراد کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
حکومت نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سے غیر ملکیوں کی شادی ایک اسپیشل رجسٹریشن آفس کیا کرے گا، جہاں شادی سے قبل جوڑے سے امیگریشن کے حوالے سے انٹرویو لیا جائے گا۔
ایک رپورٹ کے مطابق لندن میں گذشتہ سال 21 فیصد شادیاں بوگس اورجعلی تھیں جو منظم گروہ بیرون ملک سے مردوں کو بلا کر کرواتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جعلی شادیاں ملک میں عام ہو رہی ہیں اور دس ہزار پونڈز فی کسی تک کی رقم وصول کی جاتی ہے۔
چرج رجسٹراروں نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں مزید اختیارات دیئے جائیں جن کو استعمال کرکے وہ یہ بوگس شادیاں روک سکیں۔ انہوں نے ہوم سیکرٹری سے مزید اختیارات کا مطالبہ کیا ہے تا کہ وہ کسی بھی مشتبہ ”شادی“ کو روک سکیں۔
رجسٹراروں کی سوسائٹی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لندن میں ہر پانچ میں سے ایک شادی منظم گروہ غیر قانونی تارکین وطن کے برطانیہ میں قیام کے لیے بھاری رقم کے عوض ترتیب دیتے ہیں۔ جوڑے یہ بات چھپانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں اور رجسٹرار اس صورت حال سے سخت اضطراب کا شکار ہیں۔ تاہم برطانوی حکومت نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ ہم سرمایہ کاروں، ورکروں، حقیقی طلبا اور دیگر ممالک سے دوستوں کی آمد روک نہیں سکتے اور نہ ہی ان کیلئے اس ملک کے دروازے بند کر سکتے ہیں، لیکن ہمیں ایسے لوگوں کو جو برطانیہ میں داخل ہو کر بوگس شادی یا سہولت کی شادی کے ذریعے مستقل قیام کرنا چاہتے ہیں ان کو روکنے کیلئے اپنے امیگریشن اور چرچ رجسٹر آفس کو مزید اختیار دینے کی پالیسی اپنا رہے ہیں۔
؎ یہ کافی ہے کہ ہم دُشمن نہیں ہیں
وفاداری کا وعدہ کیوں کریں ہم
—♦—
اسد مفتی معروف پاکستانی / ڈچ ترقی پسند صحافی ہیں جو عرصہ دراز سے یورپ میں مقیم ہیں۔ مارکسسٹ، لیننسٹ سوچ رکھنے والے سینئر صحافی اسد مفتی کی تحریروں سے عوام بخوبی واقف ہیں۔
انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز (1969) روزنامہ امروز لاہور سے کیا تھا۔ فیض احمد فیض، سبط حسن،حمید اختر، کلدیپ نیر اور آئی کے گجرال کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔
آپ ڈیلی للکار کے لئے ہفتہ وار کالم ”پانچواں موسم“ کے نام سے لکھتے ہیں۔