انقلاب کے امکانات – (آخری قسط -8)
ٹیکنیکی اوراقتصادی انقلابات لوگوں کے سلسلوں ، ابلاغیات کے سلسلوں ، اور فراغت کی مصروفیات کو تبدیل کر رہے ہیں ۔ کمپیوٹر معلومات ، ابلاغیات ا ور ملٹی میڈیا ٹیکنالوجیز اس تبدیلی کا ذریعہ ہیں ۔ اس نئی معیشت کو بعد از صنعتی ( post Fordism) بعد از جدیدیت وغیرہ بھی کہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ منظر نامے میں انقلابی کایا کلپ کی کیا توقعات ہیں؟
نئی ٹیکنالوجی زندگی کے ہر شعبے کو تبدیل کر رہی ہے ۔
افراد کس طرح تحقیق کرتے ہیں سے لے کر لوگ کس طرح تبادلۂ معلومات کرتے ہیں ۔ کس طرح ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں تک لیکن یہ ایک حقیقت اپنی جگہ ہے کہ یہ انقلاب غالب معاشی اور سیاسی قوتوں کے مفادات کو دوام بخشتا ہے ۔ امیروں اور غریبوں میں تقسیم کو شدید بناتا ہے ۔ ایک نئی اور ترقی یافتہ شکل میں عالمی ٹیکنالوجی سرمایہ داری کا نمایاں وصف ہے ۔
ہر چند کہ یہ انوکھا پن اور شدید تبدیلیاں ہیں لیکن پرانی سرمایہ داری کے لازمی اوصاف کا تسلسل بھی ہے۔ جیسے سرمایہ کا ارتکاز ، مقابلہ ، جنس بازار بنا دینے کا عمل استحصال اور کاروباری اُتار چڑھاؤوغیرہ ۔ اس طرح دیکھا جائے تو گلوبلائزیشن اور ٹیکنیکی انقلاب سرمایہ داری کی عالمی ساخت نو ہے ۔ جس میں ٹیکنیکی ترقی اور ہیجان انگیز سماجی ، اقتصادی تبدیلی لازمی طور پر پیوست ہیں ۔
ٹیکنیکی انقلابات ٹیکنیکی سیاست ضروری بنا دیتے ہیں ۔ انقلابیوں کو اسے کرنا سیکھنا ہوگا ۔ جس طرح انہوں نے براڈ کاسٹنگ، ٹیلی گراف، ٹیلی پرنٹنگ وغیرہ استعمال کیں لیکن اشاعتی ذرائع بالمشافہ ملاقاتوں اور روایتی طرز کے سیاسی عملوں کا کوئی بدل نہیں ۔ کمپیوٹر کی وساطت والی ٹیکنالوجی سیاسی جدوجہد کے نئے میدان ان آوازوں اور گروپوں کے لیے کھول دیتی ہے جو رسمی ذرائع ابلاغ سے خارج ہوتے ہیں ۔ یوں مزاحمت اور مخالف گروپوں کی مداخلت بڑھا دیتی ہے ۔ انقلابیوں کو ٹیکنو سیاست ضرور اپنی سٹریٹجی کے حصے کے طور پراسے اپنی جدوجہد کا ایک بازو نہ کہ فی نفسہ مقصد سمجھتے ہوئے شامل کرنی چاہیے۔
خطرہ ہے کہ سوسائٹی کے کمپیوٹری ہونے سے طبقے ، اور جنس کے طاقت کے رشتوں میں حالیہ نابرابری بڑھ جائے گی۔
غالب کارپوریٹ ، ریاستی طاقتیں اور ان کے ساتھ رجعت پسند دائیں بازو کی قوتیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے نئی ٹیکنالوجی استعمال کرتی ہیں ۔
انقلابی جمہوری متحرک کارکنوں کو انٹرنیٹ کے امکانات کو مزاحمت اور سیاسی تعلیم کے فروغ ، عمل اور تنظیم کاری کے لیئے ڈیجیٹل تقسیم کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے استعمال کرنا چاہیے۔
ہم عصر دور کی سیاست کے لیے سوشلزم کے خیالات اب بھی بر محل ہیں ۔ سوشلسٹ سیاست ڈیجیٹل تقسیم پر قابو پا سکتی ہے ۔ایک سوشلسٹ حکومت کم ترقی یافتہ سوسائٹیوں میں اپنے سب شہریوں کو ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ فراہم کر سکتی ہے۔
گلوبلائزیشن اور انٹرنیٹ کے دور میں سیاسی جدوجہدیں ایک دم مقامی اور عالمی ہیں ۔ اب ذہنی طبقاتی ہم آہنگی اور دوستی سرحدوں کے پار وجود میں آ رہی ہیں۔ یہ ماضی کی تحریکوں اور جدوجہدوں کے تسلسل اور عدم تسلسل ہیں۔ اس کے ساتھ سیاست کے نئے تصورات اور سماجی تبدیلی کے لئے نئی حکمت عملیاں وضع کر سکتے ہیں۔
ماضی کے آدرش مستقبل کے انقلابی تصورات میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن نئے آدرش ، اقدار اور روز مرہ زندگی کی نئی شکلیں بلاشبہ اُبھریں گی ۔ انقلاب کا مستقبل اس لیے کھلا ہے اور نئی تھیوری اور عمل کا متقاضی ہے اوراس کے ساتھ ماضی کے بہترین ترقی پسند ورثے کے انجذاب کا۔
ہمارا نہیں خیال کہ انقلاب کا کبھی اختتام ہوگا ۔ یہ انسانی حالت میں پیوست ہے ۔ یہ مظہر نسل در نسل جاری ہے ۔ ہر نسل جدوجہد کی ایک وراثت چھوڑتی ہے جو بعد میں آنے والی نسل اپنی ضرورتوں اور حالات کے مطابق موافق بنا لیتی ہے ۔ جس بات کی اہمیت ہے وہ ہے ہم کیا چھوڑتے ہیں ۔ سماجی انصاف کی تلاش کا خیال ایسی چیز نہیں کہ آپ کے پاس ہو ، یہ ایسی چیز ہے جس کے لیے آپ کو ہر وقت اور ہمیشہ محنت کرنی پڑتی ہے۔
—♦—

مصنف کے بارے
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
انقلاب کے امکانات – (آخری قسط -8)
ٹیکنیکی اوراقتصادی انقلابات لوگوں کے سلسلوں ، ابلاغیات کے سلسلوں ، اور فراغت کی مصروفیات کو تبدیل کر رہے ہیں ۔ کمپیوٹر معلومات ، ابلاغیات ا ور ملٹی میڈیا ٹیکنالوجیز اس تبدیلی کا ذریعہ ہیں ۔ اس نئی معیشت کو بعد از صنعتی ( post Fordism) بعد از جدیدیت وغیرہ بھی کہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ منظر نامے میں انقلابی کایا کلپ کی کیا توقعات ہیں؟
نئی ٹیکنالوجی زندگی کے ہر شعبے کو تبدیل کر رہی ہے ۔
افراد کس طرح تحقیق کرتے ہیں سے لے کر لوگ کس طرح تبادلۂ معلومات کرتے ہیں ۔ کس طرح ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں تک لیکن یہ ایک حقیقت اپنی جگہ ہے کہ یہ انقلاب غالب معاشی اور سیاسی قوتوں کے مفادات کو دوام بخشتا ہے ۔ امیروں اور غریبوں میں تقسیم کو شدید بناتا ہے ۔ ایک نئی اور ترقی یافتہ شکل میں عالمی ٹیکنالوجی سرمایہ داری کا نمایاں وصف ہے ۔
ہر چند کہ یہ انوکھا پن اور شدید تبدیلیاں ہیں لیکن پرانی سرمایہ داری کے لازمی اوصاف کا تسلسل بھی ہے۔ جیسے سرمایہ کا ارتکاز ، مقابلہ ، جنس بازار بنا دینے کا عمل استحصال اور کاروباری اُتار چڑھاؤوغیرہ ۔ اس طرح دیکھا جائے تو گلوبلائزیشن اور ٹیکنیکی انقلاب سرمایہ داری کی عالمی ساخت نو ہے ۔ جس میں ٹیکنیکی ترقی اور ہیجان انگیز سماجی ، اقتصادی تبدیلی لازمی طور پر پیوست ہیں ۔
ٹیکنیکی انقلابات ٹیکنیکی سیاست ضروری بنا دیتے ہیں ۔ انقلابیوں کو اسے کرنا سیکھنا ہوگا ۔ جس طرح انہوں نے براڈ کاسٹنگ، ٹیلی گراف، ٹیلی پرنٹنگ وغیرہ استعمال کیں لیکن اشاعتی ذرائع بالمشافہ ملاقاتوں اور روایتی طرز کے سیاسی عملوں کا کوئی بدل نہیں ۔ کمپیوٹر کی وساطت والی ٹیکنالوجی سیاسی جدوجہد کے نئے میدان ان آوازوں اور گروپوں کے لیے کھول دیتی ہے جو رسمی ذرائع ابلاغ سے خارج ہوتے ہیں ۔ یوں مزاحمت اور مخالف گروپوں کی مداخلت بڑھا دیتی ہے ۔ انقلابیوں کو ٹیکنو سیاست ضرور اپنی سٹریٹجی کے حصے کے طور پراسے اپنی جدوجہد کا ایک بازو نہ کہ فی نفسہ مقصد سمجھتے ہوئے شامل کرنی چاہیے۔
خطرہ ہے کہ سوسائٹی کے کمپیوٹری ہونے سے طبقے ، اور جنس کے طاقت کے رشتوں میں حالیہ نابرابری بڑھ جائے گی۔
غالب کارپوریٹ ، ریاستی طاقتیں اور ان کے ساتھ رجعت پسند دائیں بازو کی قوتیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے نئی ٹیکنالوجی استعمال کرتی ہیں ۔
انقلابی جمہوری متحرک کارکنوں کو انٹرنیٹ کے امکانات کو مزاحمت اور سیاسی تعلیم کے فروغ ، عمل اور تنظیم کاری کے لیئے ڈیجیٹل تقسیم کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے استعمال کرنا چاہیے۔
ہم عصر دور کی سیاست کے لیے سوشلزم کے خیالات اب بھی بر محل ہیں ۔ سوشلسٹ سیاست ڈیجیٹل تقسیم پر قابو پا سکتی ہے ۔ایک سوشلسٹ حکومت کم ترقی یافتہ سوسائٹیوں میں اپنے سب شہریوں کو ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ فراہم کر سکتی ہے۔
گلوبلائزیشن اور انٹرنیٹ کے دور میں سیاسی جدوجہدیں ایک دم مقامی اور عالمی ہیں ۔ اب ذہنی طبقاتی ہم آہنگی اور دوستی سرحدوں کے پار وجود میں آ رہی ہیں۔ یہ ماضی کی تحریکوں اور جدوجہدوں کے تسلسل اور عدم تسلسل ہیں۔ اس کے ساتھ سیاست کے نئے تصورات اور سماجی تبدیلی کے لئے نئی حکمت عملیاں وضع کر سکتے ہیں۔
ماضی کے آدرش مستقبل کے انقلابی تصورات میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن نئے آدرش ، اقدار اور روز مرہ زندگی کی نئی شکلیں بلاشبہ اُبھریں گی ۔ انقلاب کا مستقبل اس لیے کھلا ہے اور نئی تھیوری اور عمل کا متقاضی ہے اوراس کے ساتھ ماضی کے بہترین ترقی پسند ورثے کے انجذاب کا۔
ہمارا نہیں خیال کہ انقلاب کا کبھی اختتام ہوگا ۔ یہ انسانی حالت میں پیوست ہے ۔ یہ مظہر نسل در نسل جاری ہے ۔ ہر نسل جدوجہد کی ایک وراثت چھوڑتی ہے جو بعد میں آنے والی نسل اپنی ضرورتوں اور حالات کے مطابق موافق بنا لیتی ہے ۔ جس بات کی اہمیت ہے وہ ہے ہم کیا چھوڑتے ہیں ۔ سماجی انصاف کی تلاش کا خیال ایسی چیز نہیں کہ آپ کے پاس ہو ، یہ ایسی چیز ہے جس کے لیے آپ کو ہر وقت اور ہمیشہ محنت کرنی پڑتی ہے۔
—♦—

مصنف کے بارے
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT