• Latest

سوشل میڈیا اور انقلاب! – تحریر: رانا اعظم 

اپریل 29, 2024

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
منگل, مئی 20, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home home مضامین

سوشل میڈیا اور انقلاب! – تحریر: رانا اعظم 

غالب کارپوریٹ ، ریاستی طاقتیں اور ان کے ساتھ رجعت پسند دائیں بازو کی قوتیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے نئی ٹیکنالوجی استعمال کرتی  ہیں ۔

للکار نیوز by للکار نیوز
اپریل 29, 2024
in مضامین
A A
0
انقلاب کے امکانات  –     (آخری قسط  -8)
 
 
ٹیکنیکی اوراقتصادی انقلابات  لوگوں کے سلسلوں  ،  ابلاغیات کے سلسلوں ،   اور فراغت کی مصروفیات کو تبدیل کر رہے ہیں ۔  کمپیوٹر معلومات ، ابلاغیات ا ور ملٹی میڈیا ٹیکنالوجیز اس تبدیلی کا ذریعہ ہیں ۔ اس نئی معیشت کو بعد از صنعتی ( post Fordism) بعد از جدیدیت وغیرہ بھی کہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ منظر نامے میں انقلابی کایا کلپ کی کیا توقعات ہیں؟ 
 
نئی ٹیکنالوجی زندگی کے ہر شعبے کو تبدیل کر رہی ہے ۔
 
افراد کس طرح تحقیق کرتے ہیں سے لے کر لوگ کس طرح تبادلۂ معلومات کرتے ہیں ۔ کس طرح ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں تک لیکن یہ ایک حقیقت اپنی جگہ ہے کہ یہ  انقلاب غالب معاشی اور سیاسی قوتوں کے مفادات کو دوام بخشتا ہے ۔ امیروں اور غریبوں میں تقسیم کو شدید بناتا ہے  ۔ ایک نئی اور ترقی یافتہ شکل میں عالمی ٹیکنالوجی سرمایہ داری کا نمایاں وصف ہے ۔
 
ہر چند کہ یہ انوکھا پن اور شدید تبدیلیاں ہیں لیکن پرانی سرمایہ داری کے لازمی اوصاف کا  تسلسل بھی ہے۔ جیسے سرمایہ کا ارتکاز ، مقابلہ ، جنس بازار بنا دینے کا عمل  استحصال اور کاروباری اُتار چڑھاؤوغیرہ ۔ اس طرح دیکھا جائے تو گلوبلائزیشن اور ٹیکنیکی انقلاب  سرمایہ داری کی عالمی ساخت نو ہے ۔ جس میں ٹیکنیکی ترقی اور ہیجان انگیز سماجی ، اقتصادی تبدیلی لازمی طور پر پیوست ہیں ۔
 
ٹیکنیکی انقلابات ٹیکنیکی سیاست ضروری بنا دیتے ہیں ۔ انقلابیوں کو اسے کرنا سیکھنا ہوگا ۔ جس طرح انہوں نے براڈ کاسٹنگ،  ٹیلی گراف،  ٹیلی پرنٹنگ وغیرہ استعمال کیں  لیکن اشاعتی ذرائع بالمشافہ ملاقاتوں اور روایتی طرز کے سیاسی عملوں کا کوئی بدل نہیں ۔ کمپیوٹر کی وساطت والی ٹیکنالوجی سیاسی جدوجہد کے نئے میدان ان آوازوں اور گروپوں کے لیے کھول دیتی ہے جو رسمی ذرائع ابلاغ سے خارج ہوتے ہیں ۔ یوں مزاحمت اور مخالف گروپوں کی مداخلت بڑھا دیتی ہے ۔ انقلابیوں کو ٹیکنو سیاست  ضرور اپنی سٹریٹجی کے حصے کے طور پراسے اپنی جدوجہد کا ایک بازو نہ کہ فی نفسہ مقصد سمجھتے ہوئے شامل کرنی چاہیے۔ 
 
خطرہ ہے کہ سوسائٹی کے کمپیوٹری ہونے سے طبقے ، اور جنس کے طاقت کے رشتوں میں حالیہ نابرابری بڑھ جائے گی۔
 
غالب کارپوریٹ ، ریاستی طاقتیں اور ان کے ساتھ رجعت پسند دائیں بازو کی قوتیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے نئی ٹیکنالوجی استعمال کرتی  ہیں ۔
 
انقلابی جمہوری متحرک کارکنوں کو انٹرنیٹ کے امکانات کو مزاحمت اور سیاسی تعلیم کے فروغ ، عمل اور تنظیم کاری کے لیئے  ڈیجیٹل تقسیم کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے استعمال کرنا چاہیے۔ 
 
ہم عصر دور کی سیاست کے لیے سوشلزم کے خیالات اب بھی بر محل ہیں ۔  سوشلسٹ سیاست ڈیجیٹل تقسیم پر قابو پا سکتی ہے ۔ایک سوشلسٹ حکومت کم ترقی یافتہ سوسائٹیوں میں اپنے سب شہریوں کو ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ فراہم کر سکتی ہے۔
 
گلوبلائزیشن اور انٹرنیٹ کے دور میں سیاسی جدوجہدیں ایک دم مقامی اور عالمی ہیں ۔ اب ذہنی طبقاتی ہم آہنگی اور دوستی سرحدوں کے پار وجود میں آ رہی ہیں۔ یہ ماضی کی تحریکوں اور جدوجہدوں کے تسلسل اور عدم تسلسل ہیں۔  اس کے ساتھ سیاست کے نئے تصورات اور سماجی تبدیلی کے لئے نئی حکمت عملیاں وضع کر سکتے ہیں۔ 
 
ماضی کے آدرش مستقبل کے انقلابی تصورات میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن نئے آدرش ، اقدار اور روز مرہ  زندگی کی نئی شکلیں بلاشبہ اُبھریں گی ۔ انقلاب کا مستقبل اس لیے کھلا ہے اور نئی تھیوری اور عمل کا متقاضی ہے اوراس کے ساتھ ماضی کے بہترین ترقی پسند ورثے کے انجذاب کا۔
 
ہمارا نہیں خیال کہ انقلاب کا کبھی اختتام ہوگا ۔ یہ انسانی حالت میں پیوست ہے ۔ یہ مظہر نسل در نسل جاری ہے ۔ ہر نسل جدوجہد کی ایک وراثت چھوڑتی ہے جو بعد میں  آنے والی نسل اپنی ضرورتوں اور حالات کے مطابق موافق بنا لیتی ہے ۔ جس بات کی اہمیت ہے وہ ہے ہم کیا چھوڑتے ہیں ۔ سماجی انصاف کی تلاش کا خیال ایسی چیز نہیں کہ آپ کے پاس ہو ، یہ ایسی چیز ہے جس کے لیے آپ کو ہر وقت اور ہمیشہ محنت کرنی پڑتی ہے۔

 —♦—
Azam
مصنف کے بارے

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
انقلاب کے امکانات  –     (آخری قسط  -8)
 
 
ٹیکنیکی اوراقتصادی انقلابات  لوگوں کے سلسلوں  ،  ابلاغیات کے سلسلوں ،   اور فراغت کی مصروفیات کو تبدیل کر رہے ہیں ۔  کمپیوٹر معلومات ، ابلاغیات ا ور ملٹی میڈیا ٹیکنالوجیز اس تبدیلی کا ذریعہ ہیں ۔ اس نئی معیشت کو بعد از صنعتی ( post Fordism) بعد از جدیدیت وغیرہ بھی کہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ منظر نامے میں انقلابی کایا کلپ کی کیا توقعات ہیں؟ 
 
نئی ٹیکنالوجی زندگی کے ہر شعبے کو تبدیل کر رہی ہے ۔
 
افراد کس طرح تحقیق کرتے ہیں سے لے کر لوگ کس طرح تبادلۂ معلومات کرتے ہیں ۔ کس طرح ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں تک لیکن یہ ایک حقیقت اپنی جگہ ہے کہ یہ  انقلاب غالب معاشی اور سیاسی قوتوں کے مفادات کو دوام بخشتا ہے ۔ امیروں اور غریبوں میں تقسیم کو شدید بناتا ہے  ۔ ایک نئی اور ترقی یافتہ شکل میں عالمی ٹیکنالوجی سرمایہ داری کا نمایاں وصف ہے ۔
 
ہر چند کہ یہ انوکھا پن اور شدید تبدیلیاں ہیں لیکن پرانی سرمایہ داری کے لازمی اوصاف کا  تسلسل بھی ہے۔ جیسے سرمایہ کا ارتکاز ، مقابلہ ، جنس بازار بنا دینے کا عمل  استحصال اور کاروباری اُتار چڑھاؤوغیرہ ۔ اس طرح دیکھا جائے تو گلوبلائزیشن اور ٹیکنیکی انقلاب  سرمایہ داری کی عالمی ساخت نو ہے ۔ جس میں ٹیکنیکی ترقی اور ہیجان انگیز سماجی ، اقتصادی تبدیلی لازمی طور پر پیوست ہیں ۔
 
ٹیکنیکی انقلابات ٹیکنیکی سیاست ضروری بنا دیتے ہیں ۔ انقلابیوں کو اسے کرنا سیکھنا ہوگا ۔ جس طرح انہوں نے براڈ کاسٹنگ،  ٹیلی گراف،  ٹیلی پرنٹنگ وغیرہ استعمال کیں  لیکن اشاعتی ذرائع بالمشافہ ملاقاتوں اور روایتی طرز کے سیاسی عملوں کا کوئی بدل نہیں ۔ کمپیوٹر کی وساطت والی ٹیکنالوجی سیاسی جدوجہد کے نئے میدان ان آوازوں اور گروپوں کے لیے کھول دیتی ہے جو رسمی ذرائع ابلاغ سے خارج ہوتے ہیں ۔ یوں مزاحمت اور مخالف گروپوں کی مداخلت بڑھا دیتی ہے ۔ انقلابیوں کو ٹیکنو سیاست  ضرور اپنی سٹریٹجی کے حصے کے طور پراسے اپنی جدوجہد کا ایک بازو نہ کہ فی نفسہ مقصد سمجھتے ہوئے شامل کرنی چاہیے۔ 
 
خطرہ ہے کہ سوسائٹی کے کمپیوٹری ہونے سے طبقے ، اور جنس کے طاقت کے رشتوں میں حالیہ نابرابری بڑھ جائے گی۔
 
غالب کارپوریٹ ، ریاستی طاقتیں اور ان کے ساتھ رجعت پسند دائیں بازو کی قوتیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے نئی ٹیکنالوجی استعمال کرتی  ہیں ۔
 
انقلابی جمہوری متحرک کارکنوں کو انٹرنیٹ کے امکانات کو مزاحمت اور سیاسی تعلیم کے فروغ ، عمل اور تنظیم کاری کے لیئے  ڈیجیٹل تقسیم کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے استعمال کرنا چاہیے۔ 
 
ہم عصر دور کی سیاست کے لیے سوشلزم کے خیالات اب بھی بر محل ہیں ۔  سوشلسٹ سیاست ڈیجیٹل تقسیم پر قابو پا سکتی ہے ۔ایک سوشلسٹ حکومت کم ترقی یافتہ سوسائٹیوں میں اپنے سب شہریوں کو ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ فراہم کر سکتی ہے۔
 
گلوبلائزیشن اور انٹرنیٹ کے دور میں سیاسی جدوجہدیں ایک دم مقامی اور عالمی ہیں ۔ اب ذہنی طبقاتی ہم آہنگی اور دوستی سرحدوں کے پار وجود میں آ رہی ہیں۔ یہ ماضی کی تحریکوں اور جدوجہدوں کے تسلسل اور عدم تسلسل ہیں۔  اس کے ساتھ سیاست کے نئے تصورات اور سماجی تبدیلی کے لئے نئی حکمت عملیاں وضع کر سکتے ہیں۔ 
 
ماضی کے آدرش مستقبل کے انقلابی تصورات میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن نئے آدرش ، اقدار اور روز مرہ  زندگی کی نئی شکلیں بلاشبہ اُبھریں گی ۔ انقلاب کا مستقبل اس لیے کھلا ہے اور نئی تھیوری اور عمل کا متقاضی ہے اوراس کے ساتھ ماضی کے بہترین ترقی پسند ورثے کے انجذاب کا۔
 
ہمارا نہیں خیال کہ انقلاب کا کبھی اختتام ہوگا ۔ یہ انسانی حالت میں پیوست ہے ۔ یہ مظہر نسل در نسل جاری ہے ۔ ہر نسل جدوجہد کی ایک وراثت چھوڑتی ہے جو بعد میں  آنے والی نسل اپنی ضرورتوں اور حالات کے مطابق موافق بنا لیتی ہے ۔ جس بات کی اہمیت ہے وہ ہے ہم کیا چھوڑتے ہیں ۔ سماجی انصاف کی تلاش کا خیال ایسی چیز نہیں کہ آپ کے پاس ہو ، یہ ایسی چیز ہے جس کے لیے آپ کو ہر وقت اور ہمیشہ محنت کرنی پڑتی ہے۔

 —♦—
Azam
مصنف کے بارے

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Tags: Information TechnologyMovementsRevolutionSocial ChangeSocial Media
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

by للکار نیوز
اپریل 6, 2025
0
0

اگرچہ بظاہر استعماریت کا خاتمہ گزشتہ صدی میں ہو چکا ہے، لیکن حقیقت میں مغربی طاقتیں اپنی سابقہ نوآبادیات پر...

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

by للکار نیوز
اکتوبر 13, 2024
0
0

پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں...

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

by للکار نیوز
اکتوبر 5, 2024
1
0

پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد...

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

by للکار نیوز
ستمبر 27, 2024
0
0

پانچ دہائیوں تک ہندوستان کی قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برِصغیر کے نامور مارکسی مفکر، انقلابی تحریکوں...

بلوچ جدوجہد اور بلوچوں کی تاریخی حقیقت؟ – تحریر:ممتاز احمد آرزو

by للکار نیوز
ستمبر 26, 2024
0
0

ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا...

کالے کوئلے کو سفید بنانے والی ”دانائی“ اور ماحولیاتی سوال! – تحریر:بخشل تھلہو

by للکار نیوز
ستمبر 8, 2024
0
0

اس اگست کی دو تاریخ کو نصیر میمن صاحب نے اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ کی، جس میں...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.