انقلاب کے امکانات – (قسط-7 )
عالمی سرمایہ داری نظام کی تشکیل نو نے تصادم کی نئی سیاست کا اجراء کیا ہے ۔ تیسری دنیا کے قرضے کا بحران، ساختیاتی توافق کے پروگرام، ضوابط سے آزاد شرائط کے تحت تجارت اور سرمایہ کاری کا پھیلاو عالمی انتظامی ، ایجنسیوں اور معاہدوں کا عروج اور ان پیشرفتوں کے خلاف قومی، بین الاقوامی عوامی ردعمل۔۔۔ مختصر یہ کہ یہ نیولبرل پالیسیوں اورعالمی تحریکوں کا دور ہے ۔
تصادموں کی نئی شکلیں ابھر رہی ہیں ۔ عالمی متبادل تحریکیں زیادہ اہم ہو رہی ہیں ۔ نا برابریاں اور ترقی میں کمیاں ترقی یافتہ لوگوں کو بھی متاثر کر رہی ہیں ۔عالمی متبادل تحریکوں کا مطالعہ بین الاقوامی سیاسی معیشت سے شروع ہونا چاہئے:
ان شرائط اور حدوں سے جو لاگو کرتی ہے اور پھر علاقائی، قومی اور مقامی کی طرف۔ گلوبلائزیش تلے کارفرما قوتیں مختلف گروپوں، طبقوں آور آبادیوں کو مختلف طرح متاثر کرتی ہیں ۔ یہ قوتیں اتنے متفرق گروپوں جیسے ہندوستانی کسانوں، لاطینی امریکا کے جھگی پاڑوں میں بسنے والوں، پورپ کے سبزوں Greens اور امریکا کی مزدور یونینوں کو متاثر کرتی ہیں ۔ چونکہ متاثرہ گروپ مختلف ہوتے ہیں اس لیے ان کے تصادم کے حالات بھی مختلف ہوتے ہیں ۔ سیاسی مہارتوں ، ذرائع اور میسر مواقع میں فرق کے باوجود بے طاقت لوگ حرکت میں ہیں ۔ سماجی تحریکیں سماجی طور پر تشکیل پائی ہوتی ہیں نہ کہ شعوری انتخاب سے ۔ ان عالمی متبادل تحریکوں میں ایک بات مشترک ہے ۔ لوگوں کی بہبود کو خطرہ ( پاکستان میں آئی ایم ایف کے مطالبات عوامی بہبود کے خطرے کو ظاہر کر رہے ہیں ) ۔
نئی عالمی معیشت کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی تحریکوں اور ٹیکنالوجی کے ذریعے جڑت کی بدولت نیا سیاسی شعور بھی پیدا ہو رہا ہے۔
ایک سرگرم کارکن ہونے کا مطلب ہے اپنے گردوپیش میں ہونے والے واقعات سے باخبر ہونے کے ساتھ اس سے متعلق اپنے احساسات سےقریبی تعلق رکھنا ۔۔۔۔۔۔ اپنے غصے ، اپنی ہیجانی کیفیت، اپنے تجسّس، اپنے بیچارگی اور طاقت کا احساس ہونا ۔ سماجی تبدیلی کے جذباتی پہلوؤں، آزادی کی نفسیات سے باخبر ہونا ۔ ایک سرگرم کارکن ہونا اپنی خواہش کو اپنانا ہے ۔ سیاسی کارکنوں کو پرانے اور نئے خیالات، آدرشوں اور نظریات کے بہترین معنوں میں نئے آمیزے گھڑنے ہوں گے ۔ سماجی تحریکوں کی شعوری انقلابی سماجی تحریکوں میں Transformation کا فریضہ بھی سرانجام دینا ہوگا ۔ دوسری طرف اس سیاسی شعور کےرد میں مزدور کسان ، طلباء یونینوں و دیگر مزاحمتی تنظیموں پر پابندیاں اور توڑ پھوڑ کا عمل بھی جاری رہتا ہے ۔
ہم بہت ہی حالیہ اور مقامی تنظیموں کی توڑپھوڑ آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ کس طرح این جی اوز کے ذریعے لیبر قومی موومنٹ فیصل آباد، انجمن مزارعین اوکاڑہ کا ستیاناس کیا گیا ۔
ایک دوسرا بہت ہی خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ دو نسلیں قبل تبدیلی کے کارندے ( ایجنٹ ) پارٹی، ہراول دستہ، محنت کش طبقہ گردانے جاتے تھے۔ اب پارٹی کو سماجی تحریکوں اور عارضی اتحادوں کے مبہم خیالات پیچھے Backbenchers میں بدل دی گیا ہے۔ طبقے کو انقلابی مکالمے میں ثانوی جگہ دی گئ ہے ۔ چند ماہ پہلے ہم نے پاکستان میں اس کی مثال Mediators کے نام سے دیکھی۔
گلوبلائزیشن/ فری مارکیٹ اکانومی نے ایک ایسی دنیا تخلیق کر دی ہے جو پچھلی کسی بھی دنیا سے غربت اور امارت کے تفاوت کے اعتبار سے سب سے زیادہ غیر ہموار ہے۔
اس میں نئے عناصر سرمائے اور تجارت کا بہاو ہیں ۔ ضوابط کا خاتمہ اور معلوماتی ٹیکنالوجی ۔۔۔ گلوبلائزیشن صرف دنیا میں ساختیاتی نابرابری کی شکلوں پر ہی تعمیر نہیں ہوتی بلکہ رویوں پر ، داخلی ریاستی ڈھانچوں اور دنیا کی دو سو سوسائٹیوں میں سے ہر ایک میں ان تبدیلیوں سےموافقت یا عدم مواقت پر ۔ یہ عالمی سرمایہ داری کا حالیہ ترین درجہ ہے۔
—♦—

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
انقلاب کے امکانات – (قسط-7 )
عالمی سرمایہ داری نظام کی تشکیل نو نے تصادم کی نئی سیاست کا اجراء کیا ہے ۔ تیسری دنیا کے قرضے کا بحران، ساختیاتی توافق کے پروگرام، ضوابط سے آزاد شرائط کے تحت تجارت اور سرمایہ کاری کا پھیلاو عالمی انتظامی ، ایجنسیوں اور معاہدوں کا عروج اور ان پیشرفتوں کے خلاف قومی، بین الاقوامی عوامی ردعمل۔۔۔ مختصر یہ کہ یہ نیولبرل پالیسیوں اورعالمی تحریکوں کا دور ہے ۔
تصادموں کی نئی شکلیں ابھر رہی ہیں ۔ عالمی متبادل تحریکیں زیادہ اہم ہو رہی ہیں ۔ نا برابریاں اور ترقی میں کمیاں ترقی یافتہ لوگوں کو بھی متاثر کر رہی ہیں ۔عالمی متبادل تحریکوں کا مطالعہ بین الاقوامی سیاسی معیشت سے شروع ہونا چاہئے:
ان شرائط اور حدوں سے جو لاگو کرتی ہے اور پھر علاقائی، قومی اور مقامی کی طرف۔ گلوبلائزیش تلے کارفرما قوتیں مختلف گروپوں، طبقوں آور آبادیوں کو مختلف طرح متاثر کرتی ہیں ۔ یہ قوتیں اتنے متفرق گروپوں جیسے ہندوستانی کسانوں، لاطینی امریکا کے جھگی پاڑوں میں بسنے والوں، پورپ کے سبزوں Greens اور امریکا کی مزدور یونینوں کو متاثر کرتی ہیں ۔ چونکہ متاثرہ گروپ مختلف ہوتے ہیں اس لیے ان کے تصادم کے حالات بھی مختلف ہوتے ہیں ۔ سیاسی مہارتوں ، ذرائع اور میسر مواقع میں فرق کے باوجود بے طاقت لوگ حرکت میں ہیں ۔ سماجی تحریکیں سماجی طور پر تشکیل پائی ہوتی ہیں نہ کہ شعوری انتخاب سے ۔ ان عالمی متبادل تحریکوں میں ایک بات مشترک ہے ۔ لوگوں کی بہبود کو خطرہ ( پاکستان میں آئی ایم ایف کے مطالبات عوامی بہبود کے خطرے کو ظاہر کر رہے ہیں ) ۔
نئی عالمی معیشت کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی تحریکوں اور ٹیکنالوجی کے ذریعے جڑت کی بدولت نیا سیاسی شعور بھی پیدا ہو رہا ہے۔
ایک سرگرم کارکن ہونے کا مطلب ہے اپنے گردوپیش میں ہونے والے واقعات سے باخبر ہونے کے ساتھ اس سے متعلق اپنے احساسات سےقریبی تعلق رکھنا ۔۔۔۔۔۔ اپنے غصے ، اپنی ہیجانی کیفیت، اپنے تجسّس، اپنے بیچارگی اور طاقت کا احساس ہونا ۔ سماجی تبدیلی کے جذباتی پہلوؤں، آزادی کی نفسیات سے باخبر ہونا ۔ ایک سرگرم کارکن ہونا اپنی خواہش کو اپنانا ہے ۔ سیاسی کارکنوں کو پرانے اور نئے خیالات، آدرشوں اور نظریات کے بہترین معنوں میں نئے آمیزے گھڑنے ہوں گے ۔ سماجی تحریکوں کی شعوری انقلابی سماجی تحریکوں میں Transformation کا فریضہ بھی سرانجام دینا ہوگا ۔ دوسری طرف اس سیاسی شعور کےرد میں مزدور کسان ، طلباء یونینوں و دیگر مزاحمتی تنظیموں پر پابندیاں اور توڑ پھوڑ کا عمل بھی جاری رہتا ہے ۔
ہم بہت ہی حالیہ اور مقامی تنظیموں کی توڑپھوڑ آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ کس طرح این جی اوز کے ذریعے لیبر قومی موومنٹ فیصل آباد، انجمن مزارعین اوکاڑہ کا ستیاناس کیا گیا ۔
ایک دوسرا بہت ہی خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ دو نسلیں قبل تبدیلی کے کارندے ( ایجنٹ ) پارٹی، ہراول دستہ، محنت کش طبقہ گردانے جاتے تھے۔ اب پارٹی کو سماجی تحریکوں اور عارضی اتحادوں کے مبہم خیالات پیچھے Backbenchers میں بدل دی گیا ہے۔ طبقے کو انقلابی مکالمے میں ثانوی جگہ دی گئ ہے ۔ چند ماہ پہلے ہم نے پاکستان میں اس کی مثال Mediators کے نام سے دیکھی۔
گلوبلائزیشن/ فری مارکیٹ اکانومی نے ایک ایسی دنیا تخلیق کر دی ہے جو پچھلی کسی بھی دنیا سے غربت اور امارت کے تفاوت کے اعتبار سے سب سے زیادہ غیر ہموار ہے۔
اس میں نئے عناصر سرمائے اور تجارت کا بہاو ہیں ۔ ضوابط کا خاتمہ اور معلوماتی ٹیکنالوجی ۔۔۔ گلوبلائزیشن صرف دنیا میں ساختیاتی نابرابری کی شکلوں پر ہی تعمیر نہیں ہوتی بلکہ رویوں پر ، داخلی ریاستی ڈھانچوں اور دنیا کی دو سو سوسائٹیوں میں سے ہر ایک میں ان تبدیلیوں سےموافقت یا عدم مواقت پر ۔ یہ عالمی سرمایہ داری کا حالیہ ترین درجہ ہے۔
—♦—

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔