(گذشتہ سے پیوستہ)
ذاتی مفاد اور مشترکہ مفاد
ذاتی مفاد نے بیشک انسانوں کی اقتصادی، سیاسی، معاشرتی اور تہذیبی ترقی میں بہت بڑا پارٹ ادا کیا ہے۔ مگر مولانا مودودی کے ان خیالات و تصورات کا منبع قرآن و احادیث نہیں بلکہ یورپ کے سرمایہ پرست فلسفیوں کا ”نظریہ انفرادیت“ ہے۔ ان فلسفیوں نے جدید سرمایہ داری کے عہد میں خاندانی رشتوں سمیت تمام رشتوں، ذاتی جوہر، مذہب، اخلاق اور سیاست میں نفع کیلئے لین دین کو کٹھورتا دیکھی اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انسان فطری طور پر خود غرض ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ کائنات کے دوسرے تمام مظاہر کی طرح انسانی فطرت بھی ساکن اور جامد نہیں۔ وہ ماحول کے زیر اثر ہے اور اس کے بدلنے کے ساتھ ہی ساتھ بدلتی رہتی ہے۔
قدیم قبائلی دور میں جبکہ پیداوار کے وسیلے اوّل پتھر کے اوزار اور بعد میں تیر کمان تھے اگر انسان قدرت کی طاقتوں اور جنگلی جانوروں کا مشترک طور پر مقابلہ نہ کرتے تو ان کےلئے زندہ رہنا ناممکن تھا۔ جنگل سے پھل جمع کرنے، رہنے کے گھاس پھونس اور پتوں کا گھر بنانے، نیز جنگلی جانوروں اور ہمسایہ اجنبی قبیلوں سے اپنے آپ کو بچانے کےلئے قبیلے کے ممبروں کا مل جل کر رہنا اور کام کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔ چنانچہ ساتھ مل کر کام کرنے سے پیداوار کے اوزار اور ان اوازوں کی مدد سے مشترک محنت کا پھل دونوں مشترکہ ملکیت تھے۔
قدیم قبائلی معاشرہ کی بنیاد وسائل پیداوار کی مشترکہ ملکیت پر تھی اور انسانوں کے باہمی تعلقات، اخلاق، عقائد اور رسم و رواج اس بنیاد کو مضبوط و مستحکم کرتے تھے۔ انفرادی ملکیت اور طبقہ واری تقسیم کا نام و نشان بلکہ تصور تک نہ تھا۔ ہر فرد کا ذاتی مفاد قبیلے کے مجموعی مفاد سے وابستہ اور اس میں مدغم تھا۔ عربوں کے مشہور شاعر امراءالقیس کا یہ شعر جس کے معنی ”قبیلے کے مفاد پر اپنا ذاتی مفاد قربان کر دو، حتیٰ کہ اپنی محبوبہ کو بھی چھوڑ دو“ ثابت کرتا ہے کہ مشترکہ مفاد، مشترکہ ملکیت، مشترکہ دشمن اور ریگستان کی سخت و دشوار زندگی کے باعث عہد رسالتؐ سے پہلے صحرائے عرب کے قدیم بدو قبیلوں میں بھی قبیلے سے باہر یا اس کے مقابلے میں فرد کی کوئی حیثیت نہ تھی۔
آگ اور دہاتوں کی دریافت سے پتھر کے اوزاروں کی جگہ دہات کے اوزاروں نے لے لی۔ پہلے انسان شکار کھیل کر بسر اوقات کرتے تھے اب انہوں نے مویشی پالنا، کھیتی باڑی کرنا اور دستکاری کی چیزیں بنانا شروع کیا۔ اس سے قدیم اشتراکی سماج تقسیم کار کی بنیادوں پر بٹ گئی اور ایک کی پیدا کی ہوئی یا تیار کی ہوئی چیزوں کا دوسرے کی پیدا یا تیار کی ہوئی چیزوں سے تبادلہ ہونے لگا۔ چنانچہ زیادہ سے زیادہ چیزیں پیدا کرنے یا تیار کرنے کیلئے محنت و مشقت کرنے والے زیادہ سے زیادہ آدمیوں کی ضرورت پڑی اور اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے قبیلے آپس میں جنگ کرکے ایک دوسرے کو غلام بنانے لگے۔ پیداوار کے دوسرے اوزاروں کی طرح غلام بھی پیداوار کے اوزار اور آقاؤں کی ذاتی ملکیت بن گئے۔
غرضیکہ پیداوار کے اوزار بدلنے سے پیداوار کے طریقے بدل گئے۔ ذاتی ملکیت کی نشوونما سے لوگوں کے تعلقات بدل گئے۔ آقا اور غلام پیدا ہونے سے قدیم اشتراکی سماج مخالف طبقوں میں بٹ کر درہم برہم ہو گئی۔ اس کی جگہ ایک نئی سماج نے لی۔ یہ غلام داری سماج تھی۔ پہلے افراد کے ذاتی مفاد قبیلے کے مفاد میں مدغم تھے اور مروجہ رسم و رواج، اخلاقی قدریں اور مذہبی عقائد قبیلے کے مجموعی مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو قربان کر دینے کی تلقین کرتے تھے، اب افراد اپنے ذاتی فائدے بالخصوص وسائل پیداوار کے مالک مٹھی بھر امیر اپنی منفعت کےلئے اکثریت کے مجموعی مفاد کو قربان کرنے لگے۔ جب عملی طور پر یہ کیفیت ایک حقیقت بن کر سامنے آ گئی تو اخلاقی تصورات عقائد، رسم و رواج اور قانون بھی بدل گئے اور انفرادیت پسندی کی حمایت کرنے لگے۔
انفرادیت پسندی غلام داری اور جاگیرداری کے عہد میں بھی تھی مگر اپنے انتہائی عروج تک وہ موجودہ سرمایہ داری دور میں پہنچی ہے۔ موجودہ دور میں فروخت کرکے نفع کمانے کےلئے اشیاءکی پیداوار نے اپنے انتہائی عروج کو پہنچ کر تمام پرانے جاگیری پدر سری قبیلی اور دیہاتی رومانوی تعلقات کو ختم کرکے خاندانی رشتوں سمیت تمام رشتوں کو خالص تن پروری اور محض لین دین کے رشتوں میں تبدیل کر دیا ہے۔
چنانچہ وہ خود غرضی جو آج ہم میں پائی جاتی ہے اور وہ نفسا نفسی جو آج ہم موجود ہے اور ہر روز بڑھ رہی ہے، سرمایہ داری کے نظام پیداوار اور خرید و فروخت کے مخصوص ماحول کا منطقی نتیجہ ہے۔ اشتراکی سماج میں چونکہ وسائل پیداوار سب کی ملکیت ہوں گی اور اشیاءکی پیداوار اور خرید و فروخت نفع کمانے کیلئے نہیں ہو گی، اس لئے افراد کے ذاتی مفاد اور سب کے مشترکہ مفاد میں کوئی تضاد اور ٹکراﺅ نہ ہو گا۔ دونوں مفاد ایک دوسرے میں مدغم ہوں گے۔ سوویت یونین کا ہر شہری اپنی ترقی اور بہتری کیلئے ساری سوویت سماج کی اقتصادی، سیاسی، ساجی اور تہذیبی ترقی کےلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔
شخصی ملکیت اور سرمایہ داری
مگر مولانا مودودی ساری دنیا کے سرمایہ پرست فلاسفروں، مفکروں، سیاستدانوں اور رہنماؤں کی طرح وسائل پیداوار کی شخصی ملکیت اور دولت کمانے کے حقوق کو انسان کے فطری حقوق قرار دیتے ہیں اور ان حقوق سے محروم کرنے کو ”انسانی فطرت کے خلاف جنگ“ کے مترادف سمجھتے ہیں۔ وہ مالکانہ حقوق کا ”احترام“ کرتے ہیں اور کسی حکومت یا کسی مجلس قانون ساز کو اجتماعی بہتری کےلئے بھی ان مالکانہ حقوق کو چھیننے یا ان میں کمی کو شرعاً ”ناجائز“ اور ”ظلم“ قرار دیتے ہیں۔ (”اسلام کا نظام حیات“ مصنفہ سید ابو الاعلیٰ مودودی۔ دیکھئے باب ”اسلام کا اقتصادی نظام“)
ہر سرمایہ دار اور سرمایہ داری نظام کا حامی مالکانہ حقوق کو ”ابدی“ اور ”فطری“ حقوق قرار دیتا ہے۔ مگر یہ حقوق ”ابدی“ اور ”فطری“ اس لئے نہیں کہ ہماری تہذیب کے ابتدائی ادوار میں وسائل پیداوار شخصی ملکیت نہیں بلکہ مشترکہ ملکیت تھے۔
عہد رسالتؐ سے پہلے عربوں میں بھی چشمے، چراگاہیں، کھجور کے درخت حتیٰ کہ بعض قبیلوں میں مویشی بھی عرب قبیلوں کی مشترکہ ملکیت تھے۔ شخصی ملکیت کا تعلق ”انسانی فطرت“ سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق وسائل پیداوار کے اوزاروں اور وسیلوں میں ایک مخصوص ترقی اور تبدیلی سے ہے۔
موجودہ سرمایہ داری نظام کی بنیادی وسائل پیداوار (زمین، کارخانے، اوزار، مکانات، کانیں اور باغات وغیرہ) کی شخصی ملکیت اور زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کےلئے اشیاءکی پیداوار پر ہے۔ چنانچہ اس عہد میں سرمایہ داروں نے نفع کما کر زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کیلئے سائنس کے نئے نئے انکشاف کی بنا پر نئی نئی دیو ہیکل مشینیں ایجاد کرکے پیداوار کے وسیلے اور طریقے بدل دیئے ہیں اور معیشت کی سب بنیادیں تبدیل کر دی ہیں۔ پہلے ایک شخص ایک چیز تیار کرتا تھا۔ اب ایک چیز تیار کرنے میں ساری دنیا کے مزدور حصہ لیتے ہیں۔ پہلے کسان اپنے کھیتوں، دستکار اپنے اوزاروں اور چھوٹی چھوٹی ورکشاپوں اور تاجر اپنی چھوٹی چھوٹی دکانوں کا مالک تھا۔ اب یہ سب کے سب یعنی 98 فیصدی افراد اپنے وسائل پیداوار کی ملکیت سے محروم ہو کر اپنی طاقت محنت فروخت کرکے روزی کمانے والے مزدوروں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔ اتنا ہی نہیں جو دو فیصد افراد وسائل پیداوار کے اس وقت مالک ہیں، وہ بھی انفرادی طور پر نہیں، مشترکہ طور پر ان کے مالک ہیں۔ ساری اقتصادیات چند بڑے بڑے صنعتی اداروں (ٹرسٹوں، کارپوریشنوں وغیرہ) اور بنکوں کے قبضہ میں میں ہے اور یہ بڑے بڑے صنعتی ادارے اور بنک چند دولت مند خاندانوں کی مشترکہ ملکیت ہیں۔
چنانچہ خود سرمایہ داری نے جس کی بنیادیں وسائل پیداوار کی شخصی ملکیت پر ہیں، ترقی کے وسائل پیداوار کی انفرادی ملکیت اور اشیا تیار کرنے کیلئے ان کے انفرادی طور پر استعمال دونوں کو ختم کر دیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس وغیرہ بڑے بڑے سرمایہ دار ملکوں میں عملی طور پر حالت یہی ہے۔ ان ملکوں میں تمام وسائل پیداوار چند امیر خاندانوں کی مشترکہ ملکیت ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان ایسے پسماندہ زرعی ملکوں میں اگرچہ حالات اس نوبت کو نہیں پہنچے۔ مگر یہ پسماندہ ممالک بھی اس منزل کی طرف جا رہے ہیں۔
اشتراکیت اور حقوق ملکیت
غرضیکہ جدید سرمایہ داری نظام خود ہی وسائل پیداوار کی شخصی ملکیت کو ختم کرکے دو فیصد افراد کی مشترکہ ملکیت بنا رہا ہے۔ کمیونسٹوں کا ”جرم“ صرف یہ ہے کہ وہ وسائل پیداوار کو دو فیصد افراد کی مشترکہ ملکیت کے بجائے، سب کی مشترکہ ملکیت بنانے کےلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ حقوق ملکیت کو چھیننا نہیں چاہتے بلکہ ان سب کو بھی مالک بنانا چاہتے ہیں، جنہیں سرمایہ داروں نے اپنے سرمایہ کی قوت سے ملکیت کے حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ وہ وسائل پیداوار کو سب مشترکہ ملکیت اس لئے بنا چاہتے ہیں کہ محنت کش عوام کے گاڑھے پینے پسینے کی کمائی نفع کی شکل میں ان چند امیروں کی جیبوں میں نہ جائے، جو کوئی کام نہیں کرتے اور زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کیلئے عوام کے معیار زندگی کو نیچے سے نیچے گرا رہے ہیں۔ وسائل پیداوار پر چند افراد کے قبضہ نے پیداواری طاقتوں کو قید کر رکھا ہے اور جب تک وہ آزاد نہ ہوں عوام کا معیار زندگی بلند نہیں ہو سکتا۔ سب کو روٹی، روزگار اور آرام میسر نہیں ہو سکتا۔ جس طرح انسانی ترقی اور بہبودی کےلئے قدیم زمانے میں قبیلوں کی مشترکہ ملکیت کا خاتمہ ضروری تھا۔ اسی طرح آج حالات وسائل پیداوار کی مشترکہ ملکیت کا تقاضا کرتے ہیں۔
مگر جماعت اسلامی انسانیت کی ترقی اور فلاح کےلئے موجودہ دور کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ وہ دو فیصد آبادی کے وسائل پیداوار کی ملکیت چھیننے کو شرعاً ”ناجائز“ اور ”ظلم“ قرار دیتی ہے۔
مولانا مودودی ”معاشی زندگی میں ہر فرد کے شخصی مفاد کا تمام افراد کے اجتماعی مفاد سے گہرا رابطہ چاہتے ہیں، مگر کسی ایسی سیاسی یا معاشی تنظیم کو پسند نہیں کرتے جو فرد کو جماعت میں گم کر دے اور اس کےلئے وہ آزادی باقی نہ چھوڑے جو اس کی شخصیت کی صحیح نشوونما کےلئے ضروری ہے۔“
غرضیکہ وہ کسی ایسی سیاسی یا معاشی تنظیم کو پسندہی نہیں کرتے جو زرداروں کےلئے دوسروں کی محنت غصب کرکے دولت کمانے کی آزادی باقی نہ چھوڑے۔ وہ سماج میں کروڑ پتیوں اور ناداروں کی موجودگی بھی چاہتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے یہ بھی چاہتے ہیں کہ دونوں کے مفاد میں اتحاد اور یکجہتی ہو۔ یہ خواہش صرف مولانا مودودی کی نہیں ہر سرمایہ دار کی ہے۔
مساوات اور جماعت اسلامی
جماعت اسلامی کے علماءباتیں وہی کہتے ہیں جو جدید علوم سے ناواقف دقیانوسی مولوی زرداروں کی حمایت میں کہتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کی طرز تحریر جدید ہے اور وہ جدید سائنٹیفک اصطلاحات کو بڑی مہارت سے غلط مصرف کےلئے مسخ کرکے استعمال کرتے ہیں۔ پرانی قسم کے مولوی امیری اور غریبوں کو خدا کی طرف منسوب کرکے ”خدا پنج انگشت یکساں نہ کرو“ کی دلیل پیش کرتے ہیں اور مولانا مودودی اسلام کے اقتصادی نظام کی وضاحت فرماتے ہوئے ”رزق میں مساوات“ کو ”غیر فطری“ اور ”زبردستی“ کی ”مصنوعی مساوات“ قرار دے کر اس کی مذمت کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
”خدا کی بنائی ہوئی فطرت خود اس بات کی متقاضی ہے کہ انسانوں کے درمیان رزق میں تفاوت ہو لہٰذا وہ تمام تدبیریں اسلامی نقطہ نظر سے مقصد اور اصول میں غلط ہیں، جو انسانوں کے درمیان ایک مصنوعی معاشی مساوات قائم کرنے کیلئے اختیار کی جائیں۔ اسلام جس مساوات کا قائل ہے، وہ رزق میں مساوات نہیں بلکہ حصول رزق کی جدوجہد کے مواقع میں مساوات ہے۔ فطرت سے قریب تر نظام وہی ہو سکتا ہے جس میں ہر شخص معیشت کے میدان میں اپنی دوڑ کی ابتداءاسی مقام اور اسی حالت سے کرے جس پر خدا نے اسے پیدا کیا ہے۔
(”اسلام کا نظام حیات“ صفحہ 46)
غرضیکہ مولانا مودودی کے نزدیک اسلامی مساوات ہزار ہا ایکڑ زمین کے مالک ایک جاگیردار کو جو ایک پیسہ خرچ کئے بغیر گھر بیٹھے اپنی زمین کی کل پیداوار کے دو تہائی حصہ سے زیادہ کا مالک بن جاتا ہے اور اس کے مزارعہ کو جو دس بارہ ایکڑ زمین کاشت کیلئے لے کر اپنی گرہ سے خرید کر بیچ ڈالتا ہے اور اپنے مویشیوں کی مدد سے خون پسینہ ایک کرکے زمین کی کاشت کرتا ہے، مگر پیداوار کے ایک تہائی حصہ سے زیادہ کا مالک نہیں بن سکتا، دونوں کو معیشت کے میدان میں اپنے اپنے مقام سے دوڑ کی ابتداءکرنے اور دولت کمانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا پورا موقعہ دیتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
”جو موٹر لئے ہوئے آیا ہے وہ موٹر ہی پر چلے۔ جو صرف دو پاؤں لایا ہے وہ پیدل ہی چلے اور جو لنگڑا پیدا ہوا ہے وہ لنگڑا کر ہی چلنا شروع کر دے۔“
(اسلام کا نظام حیات، صفحہ 4)
مولانا مودودی کے نزدیک یہ ہے حصول رزق کی جدوجہد کے مواقع کی اسلامی مساوات! معیشت کے میدان میں ”کھلی اور بے لاگ“ دوڑ جسے مولانا مودودی نے”حصول رزق کی جدوجہد کے مواقع میں مساوات“ کا نام دیا ہے، نظام سرمایہ داری میں اب بھی موجود ہے۔ نظری اعتبار سے جاگیردار اور مزارعہ، سرمایہ دار اور مزدور غرضیکہ ہر فرد و بشر کو معیشت کے میدان میں دوڑ لگانے کا حق حاصل ہے۔ مگر عملی طور پر اس ”دوڑ“ میں امیر زیادہ امیر اور غریب زیادہ غریب ہو رہے ہےں۔ محنت و مشقت کرنے کے باوجود آج کے نچلے طبقوں یعنی نچلے درمیانہ طبقوں، دستکاروں، مالک کاشتکاروں اور چھوٹے تاجروں کے قبضہ سے مکان زمینیں، چھوٹے چھوٹے کارخانے اور دیگر وسائل پیداوار نکل کر چند دولت مندوں کے قبضہ میں جا رہے ہیں۔
جس قسم کی ”مساوات“ کو مولانا مودودی ”اسلامی مساوات“ کہتے ہیں وہ اب بھی موجود ہے مگر اس ”مساوات“ نے 1924ءسے 1939ءتک متحدہ برطانوی پنجاب میں بیس ہزار کے قریب مالک کاشتکاروں کو اپنی زمینیں فروخت کرکے مزارعوں اور کھیت مزدوروں کی صف میں شامل ہونے پر مجبور کیا، حالانکہ اس عرصہ میں اس صوبہ کی زیر کاشت زمین میں تقریباً بیس لاکھ ایکڑ کا اضافہ ہوا تھا۔ صرف یہی نہیں یہ ”مساوات“ پچاس ایکڑ تک زمین کے مالکوں کے قبضہ سے لاکھ ایکڑ زمین بھی نکالنے کا باعث بنی، حالانکہ ان کی تعداد میں بارہ ہزار کا اضافہ بھی ہوا۔ برعکس اس کے اس ”مساوات“ نے اس عرصہ میں پچاس ایکڑ سے زیادہ زمین کے مالکوں کی تعداد بتیس ہزار کے قریب کم کر دی۔ مگر جو پچاس ایکڑ سے زیادہ زمین کے مالک رہے، ان کے قبضہ میں 43 لاکھ ایکڑ زمین کا اضافہ کر دیا۔
مساوات اور کمیونسٹ
یہ ”مساوات“ ایک طرف دولت اور پیداوار کے تمام وسیلوں کو چند ہاتھوں میں مرکوز کر رہی ہے اور دوسری طرف مفلسی، ناداری اور بے روزگاری کو عوام میں پھیلا رہی ہے۔ کمیونسٹوں کا مساوات کے متعلق نظریہ مختلف ہے۔ سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی سترویں کانگریس کی رپورٹ میں سٹالین نے ان کے نظریہ کی اچھی طرح وضاحت کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
”مساوات سے مارکسزم کی مراد انفرادی ضرورتوں اور انفرادی زندگی میں یکسانیت اور مساوات نہیں ہے بلکہ طبقات کو ختم کرنا ہے۔
(1) سرمایہ داروں کا تختہ الٹنے اور ان کی املاک کو ضبط کرنے کے بعد تمام محنت کشوں کو مساوی طور پر لوٹ کھسوٹ سے نجات دلانا۔
(2) پیداوار کے ذرائع (زمین، فیٹری اور کارخانے، جنگل، معدنیات اور دریا وغیرہ۔ مترجم) کو پوری سوسائٹی کی ملکیت میں بدلنا (اب تک ذرائع پیداوار سرمایہ دار ملکوں میں ذاتی ملکیت ہیں۔ مترجم) اور پھر ذرائع پیداوار کی حد تک ذاتی ملکیت کو سب کیلئے مساوی طور پر منسوخ کرنا۔
(3) اپنی قابلیت کے مطابق کام کرنا سب کا مساوی فرض ہو گا اور تمام محنت کشوں کو ان کے کام کی مقدار کے مطابق معاوضہ پانے کا مساوی حق حاصل ہو گا۔ (یہ سوشلسٹ سوسائٹی ممکن ہو گا)۔
(4) اپنی قابلیت کے مطابق کام کرنے کا مساوی فرض اور تمام محنت کشوں کو اپنی ضرورتوں کے مطابق معاوضہ پانے کا مساوی حق (یہ کمیونسٹ سوسائٹی میں ممکن ہو گا) مزید یہ کہ مارکسزم اس مفروضے کو مان کر آگے بڑھتا ہے کہ لوگوں کے مذاق اور ان کی ضرورتیں (نہ صفات اور نہ مقدار میں) یکساں اور مساوی نہیں ہوتیں اور نہ ہو سکتی ہیں۔ نہ سوشلزم کے دور میں اور نہ کمیونزم کے دور میں۔“ یہ ہے مساوات کا مارکسی تصور۔ مارکسزم نے کسی دوسری قسم کی مساوات کو کبھی تسلیم نہیں کیا ہے اور نہ آج تسلیم کرتا ہے۔
”اس سے (یعنی مساوات کے مارکسی تصور سے مترجم) یہ نتیجہ نکالنا کہ سوشلزم یکسانیت اور برابری چاہتی ہے، سوسائٹی کے تمام افراد کی ضرورتوں کو برابر کر دینا چاہتا ہے۔ ان کے مذاق اور ان کی ذاتی زندگیوں کو یکساں اور ہموار کر دینا چاہتا ہے۔ یعنی مارکسیوں کی تجویز ہے کہ سب لوگ ایک ہی سے کپڑے پہنیں اور ایک جیسا کھانا کھائیں اور وہ بھی مساوی مقدار میں۔ ایسی باتیں کہنا اپنی گھٹیا ذہنیت کا ثبوت دینا ہے اور مارکسزم کو بدنام کرنا ہے۔
”وقت آ گیا ہے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ مارکسزم ہمواریت (EQUALISATION) کا دشمن ہے۔ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے کمیونسٹ مینی فسٹو میں بھی پرانے خیالی سوشلزم پر کڑی تنقید کی اور اسے رجعت پسند کہا کیونکہ خیالی سوشلزم ”عالمگیر قلندری اور انتہائی بھونڈی قسم کی سماجی ہمواریت“ کا پرچار کرتا تھا۔ اینگلز نے اپنی کتاب قاطع ڈوہرنگ میں ایک پورا باب انقلابی ہمواریت پسند سوشلزم کی رو پر صرف کیا۔ ڈوہرنگ نے مارکسی سوشلزم کے جواب میں ہمواریت پسند سوشلزم کی تلقین کی تھی۔ اینگلز نے لکھا ہے کہ مساوات کے پرولتاری مطالبے کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ طبقات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ مساوات کا کوئی دوسرا مطالبہ جو اس مطالبے کے آگے جائے لغو ہے۔
”لینن نے بھی یہی کہی ہے۔ اینگلز نے یہ بالکل سچ کہا کہ مساوات کا کوئی تصور جو طبقات کو ختم کرنے سے تجاوز کرے، ایک احمقانہ اور لغو تعصب ہے۔ اس ضمن میں سرمایہ دار عالموں نے ہم پر یہ الزام لگانے کی کوشش کی ہے کہ ہم سب لوگوں کو ایک دوسرے کے برابر کرنا چاہتے ہیں۔ سرمایہ دار عالموں نے خود ہی مساوات کا یہ مہم تصور باندھا اور اب وہ اس کا الزام ہم پر تھوپتے ہیں۔ لیکن اپنی جہالت کے باعث وہ یہ نہ جان سکے کہ سوشلسٹوں نے جدید علمی سوشلزم کے بانیوں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے کہا ہے کہ اگر مساوات کے معنی طبقوں کے خاتمے کے نہ ہوں تو مساوات ایک کھوکھلا لفظ ہے۔ ہم طبقات کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم مساوات کے علمبردار ہیں لیکن یہ دعویٰ کہ ہم سب لوگوں کو ایک دوسرے کے برابر کرنا چاہتے ہیں ایک کھوکھلا دعویٰ ہے۔ سرمایہ دار دانشوروں کے ذہن کی ایک احمقانہ ایجاد ہے۔“
(لینن کی تقریر ”آزادی اور مساوات کے نعروں کے ذریعہ لوگوں کو دھوکا دینا“ کا اقتباس) (لینن ازم کے مسائل: از سٹالن صفحہ 3، 2 مطبوعہ ماسکو 1947ء)
مولانا مودودی زرداروں کی معاشرت و معیشت میں ”بے لگامی“ اور دولت کے چند ہاتھوں میں سمٹاﺅ کی مذمت کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس کی اس بات پر بار بار زور دیتے ہیں کہ ”اسلامی طرز معیشت کسی کو کروڑ پتی بننے سے نہیں روکتا۔“ آپ فرماتے ہیں کہ ”اسلامی طرز معیشت کچھ ایسی اخلاقی اور قانونی پابندیاں عائد کرتا ہے جن کا مقصد یہ ہے کہ کسی جگہ وسائل ثروت کا غیر معمولی اجتماع نہ ہو سکے، ثروت اور اس کے وسائل ہمیشہ گردش کرتے ہیں اور گردش ایسی ہو کہ جماعت کے ہر فرد کو اس کا متناسب حصہ مل سکے۔“ یہ اخلاقی، مذہبی اور قانونی پابندیاں سود کی ممانعت، زکوٰة، خیرات، حج اور جائیداد کی ورثا میں تقسیم ہیں۔
(جاری ہے)
دادا فیروز الدین منصور برِ صغیر کے نامور انقلابی راہنما اور دانشور تھے۔ آپ کا سیاسی سفر تحریک خلافت کی ہجرت سے شروع ہوا۔ سوویت یونین میں اشتراکی انقلاب کی تعلیم سے بھگت سنگھ کی رفاقت تک پہنچا۔ دادا فیروز الدین منصور کو برطانوی سامراج کی قید و بند نے کم عمری ہی میں دمہ اور دوسرے امراض بخش دیے تھے۔ ایوب خان کی آمد کے بعددادا فیروز الدین منصورکو گرفتار کر لیا گیا۔ جیل کے ڈاکٹروں کی تجویز پر فروری 1959 میں انہیں رہا کر دیا گیا۔ چند ماہ بعد جون 1959 میں دادا فیروز الدین منصور کا شیخوپورہ میں انتقال ہوا۔ وہ مرتے دم تک پاکستان اور دنیا بھر کے انسانوں کی استحصالی نظام سے نجات کے لیے کوشاں رہے۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
(گذشتہ سے پیوستہ)
ذاتی مفاد اور مشترکہ مفاد
ذاتی مفاد نے بیشک انسانوں کی اقتصادی، سیاسی، معاشرتی اور تہذیبی ترقی میں بہت بڑا پارٹ ادا کیا ہے۔ مگر مولانا مودودی کے ان خیالات و تصورات کا منبع قرآن و احادیث نہیں بلکہ یورپ کے سرمایہ پرست فلسفیوں کا ”نظریہ انفرادیت“ ہے۔ ان فلسفیوں نے جدید سرمایہ داری کے عہد میں خاندانی رشتوں سمیت تمام رشتوں، ذاتی جوہر، مذہب، اخلاق اور سیاست میں نفع کیلئے لین دین کو کٹھورتا دیکھی اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انسان فطری طور پر خود غرض ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ کائنات کے دوسرے تمام مظاہر کی طرح انسانی فطرت بھی ساکن اور جامد نہیں۔ وہ ماحول کے زیر اثر ہے اور اس کے بدلنے کے ساتھ ہی ساتھ بدلتی رہتی ہے۔
قدیم قبائلی دور میں جبکہ پیداوار کے وسیلے اوّل پتھر کے اوزار اور بعد میں تیر کمان تھے اگر انسان قدرت کی طاقتوں اور جنگلی جانوروں کا مشترک طور پر مقابلہ نہ کرتے تو ان کےلئے زندہ رہنا ناممکن تھا۔ جنگل سے پھل جمع کرنے، رہنے کے گھاس پھونس اور پتوں کا گھر بنانے، نیز جنگلی جانوروں اور ہمسایہ اجنبی قبیلوں سے اپنے آپ کو بچانے کےلئے قبیلے کے ممبروں کا مل جل کر رہنا اور کام کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔ چنانچہ ساتھ مل کر کام کرنے سے پیداوار کے اوزار اور ان اوازوں کی مدد سے مشترک محنت کا پھل دونوں مشترکہ ملکیت تھے۔
قدیم قبائلی معاشرہ کی بنیاد وسائل پیداوار کی مشترکہ ملکیت پر تھی اور انسانوں کے باہمی تعلقات، اخلاق، عقائد اور رسم و رواج اس بنیاد کو مضبوط و مستحکم کرتے تھے۔ انفرادی ملکیت اور طبقہ واری تقسیم کا نام و نشان بلکہ تصور تک نہ تھا۔ ہر فرد کا ذاتی مفاد قبیلے کے مجموعی مفاد سے وابستہ اور اس میں مدغم تھا۔ عربوں کے مشہور شاعر امراءالقیس کا یہ شعر جس کے معنی ”قبیلے کے مفاد پر اپنا ذاتی مفاد قربان کر دو، حتیٰ کہ اپنی محبوبہ کو بھی چھوڑ دو“ ثابت کرتا ہے کہ مشترکہ مفاد، مشترکہ ملکیت، مشترکہ دشمن اور ریگستان کی سخت و دشوار زندگی کے باعث عہد رسالتؐ سے پہلے صحرائے عرب کے قدیم بدو قبیلوں میں بھی قبیلے سے باہر یا اس کے مقابلے میں فرد کی کوئی حیثیت نہ تھی۔
آگ اور دہاتوں کی دریافت سے پتھر کے اوزاروں کی جگہ دہات کے اوزاروں نے لے لی۔ پہلے انسان شکار کھیل کر بسر اوقات کرتے تھے اب انہوں نے مویشی پالنا، کھیتی باڑی کرنا اور دستکاری کی چیزیں بنانا شروع کیا۔ اس سے قدیم اشتراکی سماج تقسیم کار کی بنیادوں پر بٹ گئی اور ایک کی پیدا کی ہوئی یا تیار کی ہوئی چیزوں کا دوسرے کی پیدا یا تیار کی ہوئی چیزوں سے تبادلہ ہونے لگا۔ چنانچہ زیادہ سے زیادہ چیزیں پیدا کرنے یا تیار کرنے کیلئے محنت و مشقت کرنے والے زیادہ سے زیادہ آدمیوں کی ضرورت پڑی اور اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے قبیلے آپس میں جنگ کرکے ایک دوسرے کو غلام بنانے لگے۔ پیداوار کے دوسرے اوزاروں کی طرح غلام بھی پیداوار کے اوزار اور آقاؤں کی ذاتی ملکیت بن گئے۔
غرضیکہ پیداوار کے اوزار بدلنے سے پیداوار کے طریقے بدل گئے۔ ذاتی ملکیت کی نشوونما سے لوگوں کے تعلقات بدل گئے۔ آقا اور غلام پیدا ہونے سے قدیم اشتراکی سماج مخالف طبقوں میں بٹ کر درہم برہم ہو گئی۔ اس کی جگہ ایک نئی سماج نے لی۔ یہ غلام داری سماج تھی۔ پہلے افراد کے ذاتی مفاد قبیلے کے مفاد میں مدغم تھے اور مروجہ رسم و رواج، اخلاقی قدریں اور مذہبی عقائد قبیلے کے مجموعی مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو قربان کر دینے کی تلقین کرتے تھے، اب افراد اپنے ذاتی فائدے بالخصوص وسائل پیداوار کے مالک مٹھی بھر امیر اپنی منفعت کےلئے اکثریت کے مجموعی مفاد کو قربان کرنے لگے۔ جب عملی طور پر یہ کیفیت ایک حقیقت بن کر سامنے آ گئی تو اخلاقی تصورات عقائد، رسم و رواج اور قانون بھی بدل گئے اور انفرادیت پسندی کی حمایت کرنے لگے۔
انفرادیت پسندی غلام داری اور جاگیرداری کے عہد میں بھی تھی مگر اپنے انتہائی عروج تک وہ موجودہ سرمایہ داری دور میں پہنچی ہے۔ موجودہ دور میں فروخت کرکے نفع کمانے کےلئے اشیاءکی پیداوار نے اپنے انتہائی عروج کو پہنچ کر تمام پرانے جاگیری پدر سری قبیلی اور دیہاتی رومانوی تعلقات کو ختم کرکے خاندانی رشتوں سمیت تمام رشتوں کو خالص تن پروری اور محض لین دین کے رشتوں میں تبدیل کر دیا ہے۔
چنانچہ وہ خود غرضی جو آج ہم میں پائی جاتی ہے اور وہ نفسا نفسی جو آج ہم موجود ہے اور ہر روز بڑھ رہی ہے، سرمایہ داری کے نظام پیداوار اور خرید و فروخت کے مخصوص ماحول کا منطقی نتیجہ ہے۔ اشتراکی سماج میں چونکہ وسائل پیداوار سب کی ملکیت ہوں گی اور اشیاءکی پیداوار اور خرید و فروخت نفع کمانے کیلئے نہیں ہو گی، اس لئے افراد کے ذاتی مفاد اور سب کے مشترکہ مفاد میں کوئی تضاد اور ٹکراﺅ نہ ہو گا۔ دونوں مفاد ایک دوسرے میں مدغم ہوں گے۔ سوویت یونین کا ہر شہری اپنی ترقی اور بہتری کیلئے ساری سوویت سماج کی اقتصادی، سیاسی، ساجی اور تہذیبی ترقی کےلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔
شخصی ملکیت اور سرمایہ داری
مگر مولانا مودودی ساری دنیا کے سرمایہ پرست فلاسفروں، مفکروں، سیاستدانوں اور رہنماؤں کی طرح وسائل پیداوار کی شخصی ملکیت اور دولت کمانے کے حقوق کو انسان کے فطری حقوق قرار دیتے ہیں اور ان حقوق سے محروم کرنے کو ”انسانی فطرت کے خلاف جنگ“ کے مترادف سمجھتے ہیں۔ وہ مالکانہ حقوق کا ”احترام“ کرتے ہیں اور کسی حکومت یا کسی مجلس قانون ساز کو اجتماعی بہتری کےلئے بھی ان مالکانہ حقوق کو چھیننے یا ان میں کمی کو شرعاً ”ناجائز“ اور ”ظلم“ قرار دیتے ہیں۔ (”اسلام کا نظام حیات“ مصنفہ سید ابو الاعلیٰ مودودی۔ دیکھئے باب ”اسلام کا اقتصادی نظام“)
ہر سرمایہ دار اور سرمایہ داری نظام کا حامی مالکانہ حقوق کو ”ابدی“ اور ”فطری“ حقوق قرار دیتا ہے۔ مگر یہ حقوق ”ابدی“ اور ”فطری“ اس لئے نہیں کہ ہماری تہذیب کے ابتدائی ادوار میں وسائل پیداوار شخصی ملکیت نہیں بلکہ مشترکہ ملکیت تھے۔
عہد رسالتؐ سے پہلے عربوں میں بھی چشمے، چراگاہیں، کھجور کے درخت حتیٰ کہ بعض قبیلوں میں مویشی بھی عرب قبیلوں کی مشترکہ ملکیت تھے۔ شخصی ملکیت کا تعلق ”انسانی فطرت“ سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق وسائل پیداوار کے اوزاروں اور وسیلوں میں ایک مخصوص ترقی اور تبدیلی سے ہے۔
موجودہ سرمایہ داری نظام کی بنیادی وسائل پیداوار (زمین، کارخانے، اوزار، مکانات، کانیں اور باغات وغیرہ) کی شخصی ملکیت اور زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کےلئے اشیاءکی پیداوار پر ہے۔ چنانچہ اس عہد میں سرمایہ داروں نے نفع کما کر زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کیلئے سائنس کے نئے نئے انکشاف کی بنا پر نئی نئی دیو ہیکل مشینیں ایجاد کرکے پیداوار کے وسیلے اور طریقے بدل دیئے ہیں اور معیشت کی سب بنیادیں تبدیل کر دی ہیں۔ پہلے ایک شخص ایک چیز تیار کرتا تھا۔ اب ایک چیز تیار کرنے میں ساری دنیا کے مزدور حصہ لیتے ہیں۔ پہلے کسان اپنے کھیتوں، دستکار اپنے اوزاروں اور چھوٹی چھوٹی ورکشاپوں اور تاجر اپنی چھوٹی چھوٹی دکانوں کا مالک تھا۔ اب یہ سب کے سب یعنی 98 فیصدی افراد اپنے وسائل پیداوار کی ملکیت سے محروم ہو کر اپنی طاقت محنت فروخت کرکے روزی کمانے والے مزدوروں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔ اتنا ہی نہیں جو دو فیصد افراد وسائل پیداوار کے اس وقت مالک ہیں، وہ بھی انفرادی طور پر نہیں، مشترکہ طور پر ان کے مالک ہیں۔ ساری اقتصادیات چند بڑے بڑے صنعتی اداروں (ٹرسٹوں، کارپوریشنوں وغیرہ) اور بنکوں کے قبضہ میں میں ہے اور یہ بڑے بڑے صنعتی ادارے اور بنک چند دولت مند خاندانوں کی مشترکہ ملکیت ہیں۔
چنانچہ خود سرمایہ داری نے جس کی بنیادیں وسائل پیداوار کی شخصی ملکیت پر ہیں، ترقی کے وسائل پیداوار کی انفرادی ملکیت اور اشیا تیار کرنے کیلئے ان کے انفرادی طور پر استعمال دونوں کو ختم کر دیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس وغیرہ بڑے بڑے سرمایہ دار ملکوں میں عملی طور پر حالت یہی ہے۔ ان ملکوں میں تمام وسائل پیداوار چند امیر خاندانوں کی مشترکہ ملکیت ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان ایسے پسماندہ زرعی ملکوں میں اگرچہ حالات اس نوبت کو نہیں پہنچے۔ مگر یہ پسماندہ ممالک بھی اس منزل کی طرف جا رہے ہیں۔
اشتراکیت اور حقوق ملکیت
غرضیکہ جدید سرمایہ داری نظام خود ہی وسائل پیداوار کی شخصی ملکیت کو ختم کرکے دو فیصد افراد کی مشترکہ ملکیت بنا رہا ہے۔ کمیونسٹوں کا ”جرم“ صرف یہ ہے کہ وہ وسائل پیداوار کو دو فیصد افراد کی مشترکہ ملکیت کے بجائے، سب کی مشترکہ ملکیت بنانے کےلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ حقوق ملکیت کو چھیننا نہیں چاہتے بلکہ ان سب کو بھی مالک بنانا چاہتے ہیں، جنہیں سرمایہ داروں نے اپنے سرمایہ کی قوت سے ملکیت کے حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ وہ وسائل پیداوار کو سب مشترکہ ملکیت اس لئے بنا چاہتے ہیں کہ محنت کش عوام کے گاڑھے پینے پسینے کی کمائی نفع کی شکل میں ان چند امیروں کی جیبوں میں نہ جائے، جو کوئی کام نہیں کرتے اور زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کیلئے عوام کے معیار زندگی کو نیچے سے نیچے گرا رہے ہیں۔ وسائل پیداوار پر چند افراد کے قبضہ نے پیداواری طاقتوں کو قید کر رکھا ہے اور جب تک وہ آزاد نہ ہوں عوام کا معیار زندگی بلند نہیں ہو سکتا۔ سب کو روٹی، روزگار اور آرام میسر نہیں ہو سکتا۔ جس طرح انسانی ترقی اور بہبودی کےلئے قدیم زمانے میں قبیلوں کی مشترکہ ملکیت کا خاتمہ ضروری تھا۔ اسی طرح آج حالات وسائل پیداوار کی مشترکہ ملکیت کا تقاضا کرتے ہیں۔
مگر جماعت اسلامی انسانیت کی ترقی اور فلاح کےلئے موجودہ دور کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ وہ دو فیصد آبادی کے وسائل پیداوار کی ملکیت چھیننے کو شرعاً ”ناجائز“ اور ”ظلم“ قرار دیتی ہے۔
مولانا مودودی ”معاشی زندگی میں ہر فرد کے شخصی مفاد کا تمام افراد کے اجتماعی مفاد سے گہرا رابطہ چاہتے ہیں، مگر کسی ایسی سیاسی یا معاشی تنظیم کو پسند نہیں کرتے جو فرد کو جماعت میں گم کر دے اور اس کےلئے وہ آزادی باقی نہ چھوڑے جو اس کی شخصیت کی صحیح نشوونما کےلئے ضروری ہے۔“
غرضیکہ وہ کسی ایسی سیاسی یا معاشی تنظیم کو پسندہی نہیں کرتے جو زرداروں کےلئے دوسروں کی محنت غصب کرکے دولت کمانے کی آزادی باقی نہ چھوڑے۔ وہ سماج میں کروڑ پتیوں اور ناداروں کی موجودگی بھی چاہتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے یہ بھی چاہتے ہیں کہ دونوں کے مفاد میں اتحاد اور یکجہتی ہو۔ یہ خواہش صرف مولانا مودودی کی نہیں ہر سرمایہ دار کی ہے۔
مساوات اور جماعت اسلامی
جماعت اسلامی کے علماءباتیں وہی کہتے ہیں جو جدید علوم سے ناواقف دقیانوسی مولوی زرداروں کی حمایت میں کہتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کی طرز تحریر جدید ہے اور وہ جدید سائنٹیفک اصطلاحات کو بڑی مہارت سے غلط مصرف کےلئے مسخ کرکے استعمال کرتے ہیں۔ پرانی قسم کے مولوی امیری اور غریبوں کو خدا کی طرف منسوب کرکے ”خدا پنج انگشت یکساں نہ کرو“ کی دلیل پیش کرتے ہیں اور مولانا مودودی اسلام کے اقتصادی نظام کی وضاحت فرماتے ہوئے ”رزق میں مساوات“ کو ”غیر فطری“ اور ”زبردستی“ کی ”مصنوعی مساوات“ قرار دے کر اس کی مذمت کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
”خدا کی بنائی ہوئی فطرت خود اس بات کی متقاضی ہے کہ انسانوں کے درمیان رزق میں تفاوت ہو لہٰذا وہ تمام تدبیریں اسلامی نقطہ نظر سے مقصد اور اصول میں غلط ہیں، جو انسانوں کے درمیان ایک مصنوعی معاشی مساوات قائم کرنے کیلئے اختیار کی جائیں۔ اسلام جس مساوات کا قائل ہے، وہ رزق میں مساوات نہیں بلکہ حصول رزق کی جدوجہد کے مواقع میں مساوات ہے۔ فطرت سے قریب تر نظام وہی ہو سکتا ہے جس میں ہر شخص معیشت کے میدان میں اپنی دوڑ کی ابتداءاسی مقام اور اسی حالت سے کرے جس پر خدا نے اسے پیدا کیا ہے۔
(”اسلام کا نظام حیات“ صفحہ 46)
غرضیکہ مولانا مودودی کے نزدیک اسلامی مساوات ہزار ہا ایکڑ زمین کے مالک ایک جاگیردار کو جو ایک پیسہ خرچ کئے بغیر گھر بیٹھے اپنی زمین کی کل پیداوار کے دو تہائی حصہ سے زیادہ کا مالک بن جاتا ہے اور اس کے مزارعہ کو جو دس بارہ ایکڑ زمین کاشت کیلئے لے کر اپنی گرہ سے خرید کر بیچ ڈالتا ہے اور اپنے مویشیوں کی مدد سے خون پسینہ ایک کرکے زمین کی کاشت کرتا ہے، مگر پیداوار کے ایک تہائی حصہ سے زیادہ کا مالک نہیں بن سکتا، دونوں کو معیشت کے میدان میں اپنے اپنے مقام سے دوڑ کی ابتداءکرنے اور دولت کمانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا پورا موقعہ دیتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
”جو موٹر لئے ہوئے آیا ہے وہ موٹر ہی پر چلے۔ جو صرف دو پاؤں لایا ہے وہ پیدل ہی چلے اور جو لنگڑا پیدا ہوا ہے وہ لنگڑا کر ہی چلنا شروع کر دے۔“
(اسلام کا نظام حیات، صفحہ 4)
مولانا مودودی کے نزدیک یہ ہے حصول رزق کی جدوجہد کے مواقع کی اسلامی مساوات! معیشت کے میدان میں ”کھلی اور بے لاگ“ دوڑ جسے مولانا مودودی نے”حصول رزق کی جدوجہد کے مواقع میں مساوات“ کا نام دیا ہے، نظام سرمایہ داری میں اب بھی موجود ہے۔ نظری اعتبار سے جاگیردار اور مزارعہ، سرمایہ دار اور مزدور غرضیکہ ہر فرد و بشر کو معیشت کے میدان میں دوڑ لگانے کا حق حاصل ہے۔ مگر عملی طور پر اس ”دوڑ“ میں امیر زیادہ امیر اور غریب زیادہ غریب ہو رہے ہےں۔ محنت و مشقت کرنے کے باوجود آج کے نچلے طبقوں یعنی نچلے درمیانہ طبقوں، دستکاروں، مالک کاشتکاروں اور چھوٹے تاجروں کے قبضہ سے مکان زمینیں، چھوٹے چھوٹے کارخانے اور دیگر وسائل پیداوار نکل کر چند دولت مندوں کے قبضہ میں جا رہے ہیں۔
جس قسم کی ”مساوات“ کو مولانا مودودی ”اسلامی مساوات“ کہتے ہیں وہ اب بھی موجود ہے مگر اس ”مساوات“ نے 1924ءسے 1939ءتک متحدہ برطانوی پنجاب میں بیس ہزار کے قریب مالک کاشتکاروں کو اپنی زمینیں فروخت کرکے مزارعوں اور کھیت مزدوروں کی صف میں شامل ہونے پر مجبور کیا، حالانکہ اس عرصہ میں اس صوبہ کی زیر کاشت زمین میں تقریباً بیس لاکھ ایکڑ کا اضافہ ہوا تھا۔ صرف یہی نہیں یہ ”مساوات“ پچاس ایکڑ تک زمین کے مالکوں کے قبضہ سے لاکھ ایکڑ زمین بھی نکالنے کا باعث بنی، حالانکہ ان کی تعداد میں بارہ ہزار کا اضافہ بھی ہوا۔ برعکس اس کے اس ”مساوات“ نے اس عرصہ میں پچاس ایکڑ سے زیادہ زمین کے مالکوں کی تعداد بتیس ہزار کے قریب کم کر دی۔ مگر جو پچاس ایکڑ سے زیادہ زمین کے مالک رہے، ان کے قبضہ میں 43 لاکھ ایکڑ زمین کا اضافہ کر دیا۔
مساوات اور کمیونسٹ
یہ ”مساوات“ ایک طرف دولت اور پیداوار کے تمام وسیلوں کو چند ہاتھوں میں مرکوز کر رہی ہے اور دوسری طرف مفلسی، ناداری اور بے روزگاری کو عوام میں پھیلا رہی ہے۔ کمیونسٹوں کا مساوات کے متعلق نظریہ مختلف ہے۔ سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی سترویں کانگریس کی رپورٹ میں سٹالین نے ان کے نظریہ کی اچھی طرح وضاحت کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
”مساوات سے مارکسزم کی مراد انفرادی ضرورتوں اور انفرادی زندگی میں یکسانیت اور مساوات نہیں ہے بلکہ طبقات کو ختم کرنا ہے۔
(1) سرمایہ داروں کا تختہ الٹنے اور ان کی املاک کو ضبط کرنے کے بعد تمام محنت کشوں کو مساوی طور پر لوٹ کھسوٹ سے نجات دلانا۔
(2) پیداوار کے ذرائع (زمین، فیٹری اور کارخانے، جنگل، معدنیات اور دریا وغیرہ۔ مترجم) کو پوری سوسائٹی کی ملکیت میں بدلنا (اب تک ذرائع پیداوار سرمایہ دار ملکوں میں ذاتی ملکیت ہیں۔ مترجم) اور پھر ذرائع پیداوار کی حد تک ذاتی ملکیت کو سب کیلئے مساوی طور پر منسوخ کرنا۔
(3) اپنی قابلیت کے مطابق کام کرنا سب کا مساوی فرض ہو گا اور تمام محنت کشوں کو ان کے کام کی مقدار کے مطابق معاوضہ پانے کا مساوی حق حاصل ہو گا۔ (یہ سوشلسٹ سوسائٹی ممکن ہو گا)۔
(4) اپنی قابلیت کے مطابق کام کرنے کا مساوی فرض اور تمام محنت کشوں کو اپنی ضرورتوں کے مطابق معاوضہ پانے کا مساوی حق (یہ کمیونسٹ سوسائٹی میں ممکن ہو گا) مزید یہ کہ مارکسزم اس مفروضے کو مان کر آگے بڑھتا ہے کہ لوگوں کے مذاق اور ان کی ضرورتیں (نہ صفات اور نہ مقدار میں) یکساں اور مساوی نہیں ہوتیں اور نہ ہو سکتی ہیں۔ نہ سوشلزم کے دور میں اور نہ کمیونزم کے دور میں۔“ یہ ہے مساوات کا مارکسی تصور۔ مارکسزم نے کسی دوسری قسم کی مساوات کو کبھی تسلیم نہیں کیا ہے اور نہ آج تسلیم کرتا ہے۔
”اس سے (یعنی مساوات کے مارکسی تصور سے مترجم) یہ نتیجہ نکالنا کہ سوشلزم یکسانیت اور برابری چاہتی ہے، سوسائٹی کے تمام افراد کی ضرورتوں کو برابر کر دینا چاہتا ہے۔ ان کے مذاق اور ان کی ذاتی زندگیوں کو یکساں اور ہموار کر دینا چاہتا ہے۔ یعنی مارکسیوں کی تجویز ہے کہ سب لوگ ایک ہی سے کپڑے پہنیں اور ایک جیسا کھانا کھائیں اور وہ بھی مساوی مقدار میں۔ ایسی باتیں کہنا اپنی گھٹیا ذہنیت کا ثبوت دینا ہے اور مارکسزم کو بدنام کرنا ہے۔
”وقت آ گیا ہے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ مارکسزم ہمواریت (EQUALISATION) کا دشمن ہے۔ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے کمیونسٹ مینی فسٹو میں بھی پرانے خیالی سوشلزم پر کڑی تنقید کی اور اسے رجعت پسند کہا کیونکہ خیالی سوشلزم ”عالمگیر قلندری اور انتہائی بھونڈی قسم کی سماجی ہمواریت“ کا پرچار کرتا تھا۔ اینگلز نے اپنی کتاب قاطع ڈوہرنگ میں ایک پورا باب انقلابی ہمواریت پسند سوشلزم کی رو پر صرف کیا۔ ڈوہرنگ نے مارکسی سوشلزم کے جواب میں ہمواریت پسند سوشلزم کی تلقین کی تھی۔ اینگلز نے لکھا ہے کہ مساوات کے پرولتاری مطالبے کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ طبقات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ مساوات کا کوئی دوسرا مطالبہ جو اس مطالبے کے آگے جائے لغو ہے۔
”لینن نے بھی یہی کہی ہے۔ اینگلز نے یہ بالکل سچ کہا کہ مساوات کا کوئی تصور جو طبقات کو ختم کرنے سے تجاوز کرے، ایک احمقانہ اور لغو تعصب ہے۔ اس ضمن میں سرمایہ دار عالموں نے ہم پر یہ الزام لگانے کی کوشش کی ہے کہ ہم سب لوگوں کو ایک دوسرے کے برابر کرنا چاہتے ہیں۔ سرمایہ دار عالموں نے خود ہی مساوات کا یہ مہم تصور باندھا اور اب وہ اس کا الزام ہم پر تھوپتے ہیں۔ لیکن اپنی جہالت کے باعث وہ یہ نہ جان سکے کہ سوشلسٹوں نے جدید علمی سوشلزم کے بانیوں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے کہا ہے کہ اگر مساوات کے معنی طبقوں کے خاتمے کے نہ ہوں تو مساوات ایک کھوکھلا لفظ ہے۔ ہم طبقات کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم مساوات کے علمبردار ہیں لیکن یہ دعویٰ کہ ہم سب لوگوں کو ایک دوسرے کے برابر کرنا چاہتے ہیں ایک کھوکھلا دعویٰ ہے۔ سرمایہ دار دانشوروں کے ذہن کی ایک احمقانہ ایجاد ہے۔“
(لینن کی تقریر ”آزادی اور مساوات کے نعروں کے ذریعہ لوگوں کو دھوکا دینا“ کا اقتباس) (لینن ازم کے مسائل: از سٹالن صفحہ 3، 2 مطبوعہ ماسکو 1947ء)
مولانا مودودی زرداروں کی معاشرت و معیشت میں ”بے لگامی“ اور دولت کے چند ہاتھوں میں سمٹاﺅ کی مذمت کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس کی اس بات پر بار بار زور دیتے ہیں کہ ”اسلامی طرز معیشت کسی کو کروڑ پتی بننے سے نہیں روکتا۔“ آپ فرماتے ہیں کہ ”اسلامی طرز معیشت کچھ ایسی اخلاقی اور قانونی پابندیاں عائد کرتا ہے جن کا مقصد یہ ہے کہ کسی جگہ وسائل ثروت کا غیر معمولی اجتماع نہ ہو سکے، ثروت اور اس کے وسائل ہمیشہ گردش کرتے ہیں اور گردش ایسی ہو کہ جماعت کے ہر فرد کو اس کا متناسب حصہ مل سکے۔“ یہ اخلاقی، مذہبی اور قانونی پابندیاں سود کی ممانعت، زکوٰة، خیرات، حج اور جائیداد کی ورثا میں تقسیم ہیں۔
(جاری ہے)
دادا فیروز الدین منصور برِ صغیر کے نامور انقلابی راہنما اور دانشور تھے۔ آپ کا سیاسی سفر تحریک خلافت کی ہجرت سے شروع ہوا۔ سوویت یونین میں اشتراکی انقلاب کی تعلیم سے بھگت سنگھ کی رفاقت تک پہنچا۔ دادا فیروز الدین منصور کو برطانوی سامراج کی قید و بند نے کم عمری ہی میں دمہ اور دوسرے امراض بخش دیے تھے۔ ایوب خان کی آمد کے بعددادا فیروز الدین منصورکو گرفتار کر لیا گیا۔ جیل کے ڈاکٹروں کی تجویز پر فروری 1959 میں انہیں رہا کر دیا گیا۔ چند ماہ بعد جون 1959 میں دادا فیروز الدین منصور کا شیخوپورہ میں انتقال ہوا۔ وہ مرتے دم تک پاکستان اور دنیا بھر کے انسانوں کی استحصالی نظام سے نجات کے لیے کوشاں رہے۔