گلوبلائزیشن نے قومی ریاست کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو زیادہ سوراخ دار بنا دیا ہے۔ طبقہ بطور تجزیاتی اوزار اور انقلابی تحریکوں کے لئے طبقاتی جدوجہد بطور متحرک کرنے والی سٹریٹجی کے سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ تجارتی بلاکوں اور فوجی اتحادوں کی تشکیل ان تحریکوں کو کنٹرول کرنے کی دھمکی دیتی ہے۔ کیونکہ یہ ان کے مفادات کو چیلنج کرتی ہیں۔ ریاست کی حالات کو قابو میں رکھنے کی گھٹتی ہوئی اہلیت ریاست کو ہدف کے طور پر دھندلا کر دیتی ہے۔
سوشلسٹ ریاستوں کے انہدام سے متعلق سرمایہ داری کے ”تاریخ کا خاتمہ“ کے فلسفہ نے انقلابات کے بے کار ہونے کا سوال کھڑا کر دیا تھا۔ ہم نے اس لئے لکھا ہے کہ ”تاریخ کا خاتمہ“ رقم کرنے والے فوکویاما نے ہی اپنے اس فلسفہ کو غلط تسلیم کر لیا ہے۔ باوجود ان تمام پیش رفتوں کے، انقلاب کے نظریے کو اب بھی دبایا جا رہا ہے۔ اب لامحالہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا انقلاب کا کوئی امکان ہے؟
لہٰذا ہم اپنے اسی سوال سے بات آگے بڑھاتےہیں کہ انقلاب کا کوئی امکان ہے؟
وہ تمام ناانصافیاں جو ماضی کے انقلابات کا محرک بنیں نہ صرف مضبوطی سے اپنی جگہ موجود ہیں بلکہ بڑھ رہی ہیں۔۔۔ اس لیے مختصر امکانی جواب ہے کہ ہاں۔ یہ جواب ہم عصردنیا کے جیو۔۔۔ تاریخی جائزے کا تقاضا کرتا ہے ۔ گرامچی کے مطابق دو انقلابی منظر نامے ہیں۔
”مورچہ بندی کی جنگ اور مؤقف کی جنگ“۔ یہاں ایک وضاحتی بیان دیتے چلیں کہ ( گرامچی خود فرینکفرٹ سکول کے فلسفہ نیو مارکسزم سے متاثر رہا ہے )۔ ابھی بھی مورچہ بندی جنگ کے دائرے میں آزادی اور انصاف کے لئے جدوجہدیں جاری ہیں۔ اس کا فیصلہ ہر جنگ کو اپنے حالات و واقعات ( زماں ومکاں) کے مطابق کرنا پڑے گا۔ خاص طور پرسامراج سے آزادی کی جنگوں میں۔
گلوبلائزیشن مورچہ بندی کی جنگ کے ذریعے انقلابات کے امکان کو کم کر رہی ہے۔ اس لیے مستقبل کا راستہ مؤقف کی جنگ کے ذریعے ہوگا لیکن مؤقف کی جنگ میں دشمن کا تعین،کس کے خلاف جدوجہد کی جائے۔ کس مقصد کے لیے، واضح ہونا ضروری ہے۔ اگر ہمیں یہ نہ پتا ہو کہ پینترے بازی ( war of maneuver) کی جنگ کیا ہے اور کیسے لڑی جاتی ہے؟ تو پھر یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ مؤقف کی جنگ ( War of position) کیسے لڑی جاتی ہے۔ دشمن کی چالوں کو دیکھتے ہوئے حالات و واقعات کے تحت جنگ کے ہر راستہ کو کھلا رکھنا پڑے گا۔
ماضی کے انقلابات کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم نوٹ کرتے ہیں، گو کہ جدیدیت کی دنیا کو عقل، ترقی، کلچر اور جمہوریت کے گرد تشکیل دینے کی کوششوں پر پرشور تبصرے ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ سب ان تضادات کی خونی مداخلتوں کے ذریعے حل کرنے کے لیے جو سرمایہ داری جدیدیت کی غیر ہموار ترقی سے پیدا ہوتی ہے۔ جدیدیت کے راستے ہی ثابت ہوتے ہیں۔ ان تضادات کو حل کرنے کے لیے عجب طنزیہ بات ہے، کہ وہ سرمایہ داری کے مددگار ثابت ہوئے اسے سکیڑنے کے لیے نہیں، پھیلانے کے لیے۔
اب ضرورت ایسی تھیوری کی ہے جو انقلاب کی تشریح پر نہیں رکتی بلکہ آگے جاتی ہے اور اس کے طریق عمل، سمتوں، فوری کامیابیوں اور انقلاب کے دُوررَس نتائج کی وضاحت کرتی ہو ۔ اس کے لیے ان تاریخی سلسلوں کے مطالعہ کی ضرورت ہے۔ ماضی کے انقلابات کا اس طرح مطالعہ کیا جائے تو پانچ بڑے تضادات سامنے آتے ہیں سوشیواکنامک( طبقاتی)، سامراجی، قومی، سرمایہ دار دنیا کے اپنے اندرونی، اشرافیہ کے باہمی معاشی، سیاسی ثقافتی تضادات سامنے آتے ہیں۔ ان سماجی تضادات کو بڑھانے کے لیے سماجی تبدیلی کی متبادل سیاست، مکالموں کی، عوام کو خاص سماجی مسائل پر طاقتوں یا اداروں کے حق میں یا خلاف متحرک کرنے کی کافی گنجائش تھی۔ لیکن متبادل کے معنی پر Focus ہونا انتہائی اہم ہے۔ متبادل کو مبہم چھوڑنا محنت کش عوام کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔
ہم نے اوپر یا اکثر سماجی تضادات کو ترتیب دیتے وقت پرنسپل پوزیشن لیتے ہوئے ان ترجیحات کی ترتیب لگائی ہے۔ ماضی کے انقلابات ان پانچ تضادات کے درمیان کا تعامل یہ جانچنے میں مدد کرتا ہے کہ تضادات کا کونسا مجموعہ انقلاب برپا کرنے میں فیصلہ کن تھا یا کس نے بعد ازاں انقلاب کے منظر نامے کو متعین کرنے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ اس کی گنجائش ہمیشہ باقی رہنی چاہیے۔ تضادات کی ترجیحات اور ترتیب پرنسپل ہیں نہ کہ مکینیکل۔ مقامی اور عالمی حالیہ اور تاریخی عوامل ۔۔۔ انہوں نے کس طرح حالات کو اپنے وقت کے سب سے بڑے تضاد کے طور پر متاثر کیا۔ بعد ازاں عالمی جنگ دوئم کالونی مخالف جدوجہد میں قومی آزادی کی تحریکیں سرد جنگ وغیرہ پس منظر میں گھات لگائے ہوئے تھیں۔ ان مطالعات کے پس منظر میں سماجی تبدیلی کے امکانات کا بہتر اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
(جاری ہے)
مصنف کا نوٹ: اب ہم”انقلاب کے امکانات “ کے سلسلہ وار تحریروں کو سمیٹنے جا رہے ہیں۔ آپ بھی تھک گئے ہوں گے ہم بھی۔ بکھیرنا آسان ہے سمیٹنا مشکل۔ ایک آدھ اور قسط رہ گئ ہو گی۔ ہم اپنی تمام تحریروں بارے ایک بات concede کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں بہت سی کمیاں کوتاہیاں ہوں گی۔ ان کی جو وجہ ہمیں نظر آتی ہے کہ ہمیں یہ کام تن تنہا کرنا پڑا۔ ہمیں ذاتی یا پارٹی سطح پر دوستوں کی کوئی مشاورت حاصل نہیں رہی۔ ہم اجتماعی دانش کی سر بلندی کے قائل ہیں۔
—♦—
مصنف کے بارے
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
گلوبلائزیشن نے قومی ریاست کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو زیادہ سوراخ دار بنا دیا ہے۔ طبقہ بطور تجزیاتی اوزار اور انقلابی تحریکوں کے لئے طبقاتی جدوجہد بطور متحرک کرنے والی سٹریٹجی کے سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ تجارتی بلاکوں اور فوجی اتحادوں کی تشکیل ان تحریکوں کو کنٹرول کرنے کی دھمکی دیتی ہے۔ کیونکہ یہ ان کے مفادات کو چیلنج کرتی ہیں۔ ریاست کی حالات کو قابو میں رکھنے کی گھٹتی ہوئی اہلیت ریاست کو ہدف کے طور پر دھندلا کر دیتی ہے۔
سوشلسٹ ریاستوں کے انہدام سے متعلق سرمایہ داری کے ”تاریخ کا خاتمہ“ کے فلسفہ نے انقلابات کے بے کار ہونے کا سوال کھڑا کر دیا تھا۔ ہم نے اس لئے لکھا ہے کہ ”تاریخ کا خاتمہ“ رقم کرنے والے فوکویاما نے ہی اپنے اس فلسفہ کو غلط تسلیم کر لیا ہے۔ باوجود ان تمام پیش رفتوں کے، انقلاب کے نظریے کو اب بھی دبایا جا رہا ہے۔ اب لامحالہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا انقلاب کا کوئی امکان ہے؟
لہٰذا ہم اپنے اسی سوال سے بات آگے بڑھاتےہیں کہ انقلاب کا کوئی امکان ہے؟
وہ تمام ناانصافیاں جو ماضی کے انقلابات کا محرک بنیں نہ صرف مضبوطی سے اپنی جگہ موجود ہیں بلکہ بڑھ رہی ہیں۔۔۔ اس لیے مختصر امکانی جواب ہے کہ ہاں۔ یہ جواب ہم عصردنیا کے جیو۔۔۔ تاریخی جائزے کا تقاضا کرتا ہے ۔ گرامچی کے مطابق دو انقلابی منظر نامے ہیں۔
”مورچہ بندی کی جنگ اور مؤقف کی جنگ“۔ یہاں ایک وضاحتی بیان دیتے چلیں کہ ( گرامچی خود فرینکفرٹ سکول کے فلسفہ نیو مارکسزم سے متاثر رہا ہے )۔ ابھی بھی مورچہ بندی جنگ کے دائرے میں آزادی اور انصاف کے لئے جدوجہدیں جاری ہیں۔ اس کا فیصلہ ہر جنگ کو اپنے حالات و واقعات ( زماں ومکاں) کے مطابق کرنا پڑے گا۔ خاص طور پرسامراج سے آزادی کی جنگوں میں۔
گلوبلائزیشن مورچہ بندی کی جنگ کے ذریعے انقلابات کے امکان کو کم کر رہی ہے۔ اس لیے مستقبل کا راستہ مؤقف کی جنگ کے ذریعے ہوگا لیکن مؤقف کی جنگ میں دشمن کا تعین،کس کے خلاف جدوجہد کی جائے۔ کس مقصد کے لیے، واضح ہونا ضروری ہے۔ اگر ہمیں یہ نہ پتا ہو کہ پینترے بازی ( war of maneuver) کی جنگ کیا ہے اور کیسے لڑی جاتی ہے؟ تو پھر یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ مؤقف کی جنگ ( War of position) کیسے لڑی جاتی ہے۔ دشمن کی چالوں کو دیکھتے ہوئے حالات و واقعات کے تحت جنگ کے ہر راستہ کو کھلا رکھنا پڑے گا۔
ماضی کے انقلابات کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم نوٹ کرتے ہیں، گو کہ جدیدیت کی دنیا کو عقل، ترقی، کلچر اور جمہوریت کے گرد تشکیل دینے کی کوششوں پر پرشور تبصرے ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ سب ان تضادات کی خونی مداخلتوں کے ذریعے حل کرنے کے لیے جو سرمایہ داری جدیدیت کی غیر ہموار ترقی سے پیدا ہوتی ہے۔ جدیدیت کے راستے ہی ثابت ہوتے ہیں۔ ان تضادات کو حل کرنے کے لیے عجب طنزیہ بات ہے، کہ وہ سرمایہ داری کے مددگار ثابت ہوئے اسے سکیڑنے کے لیے نہیں، پھیلانے کے لیے۔
اب ضرورت ایسی تھیوری کی ہے جو انقلاب کی تشریح پر نہیں رکتی بلکہ آگے جاتی ہے اور اس کے طریق عمل، سمتوں، فوری کامیابیوں اور انقلاب کے دُوررَس نتائج کی وضاحت کرتی ہو ۔ اس کے لیے ان تاریخی سلسلوں کے مطالعہ کی ضرورت ہے۔ ماضی کے انقلابات کا اس طرح مطالعہ کیا جائے تو پانچ بڑے تضادات سامنے آتے ہیں سوشیواکنامک( طبقاتی)، سامراجی، قومی، سرمایہ دار دنیا کے اپنے اندرونی، اشرافیہ کے باہمی معاشی، سیاسی ثقافتی تضادات سامنے آتے ہیں۔ ان سماجی تضادات کو بڑھانے کے لیے سماجی تبدیلی کی متبادل سیاست، مکالموں کی، عوام کو خاص سماجی مسائل پر طاقتوں یا اداروں کے حق میں یا خلاف متحرک کرنے کی کافی گنجائش تھی۔ لیکن متبادل کے معنی پر Focus ہونا انتہائی اہم ہے۔ متبادل کو مبہم چھوڑنا محنت کش عوام کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔
ہم نے اوپر یا اکثر سماجی تضادات کو ترتیب دیتے وقت پرنسپل پوزیشن لیتے ہوئے ان ترجیحات کی ترتیب لگائی ہے۔ ماضی کے انقلابات ان پانچ تضادات کے درمیان کا تعامل یہ جانچنے میں مدد کرتا ہے کہ تضادات کا کونسا مجموعہ انقلاب برپا کرنے میں فیصلہ کن تھا یا کس نے بعد ازاں انقلاب کے منظر نامے کو متعین کرنے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ اس کی گنجائش ہمیشہ باقی رہنی چاہیے۔ تضادات کی ترجیحات اور ترتیب پرنسپل ہیں نہ کہ مکینیکل۔ مقامی اور عالمی حالیہ اور تاریخی عوامل ۔۔۔ انہوں نے کس طرح حالات کو اپنے وقت کے سب سے بڑے تضاد کے طور پر متاثر کیا۔ بعد ازاں عالمی جنگ دوئم کالونی مخالف جدوجہد میں قومی آزادی کی تحریکیں سرد جنگ وغیرہ پس منظر میں گھات لگائے ہوئے تھیں۔ ان مطالعات کے پس منظر میں سماجی تبدیلی کے امکانات کا بہتر اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
(جاری ہے)
مصنف کا نوٹ: اب ہم”انقلاب کے امکانات “ کے سلسلہ وار تحریروں کو سمیٹنے جا رہے ہیں۔ آپ بھی تھک گئے ہوں گے ہم بھی۔ بکھیرنا آسان ہے سمیٹنا مشکل۔ ایک آدھ اور قسط رہ گئ ہو گی۔ ہم اپنی تمام تحریروں بارے ایک بات concede کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں بہت سی کمیاں کوتاہیاں ہوں گی۔ ان کی جو وجہ ہمیں نظر آتی ہے کہ ہمیں یہ کام تن تنہا کرنا پڑا۔ ہمیں ذاتی یا پارٹی سطح پر دوستوں کی کوئی مشاورت حاصل نہیں رہی۔ ہم اجتماعی دانش کی سر بلندی کے قائل ہیں۔
—♦—
مصنف کے بارے
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT