• Latest

اِنقلاب کیا ہے۔۔؟ – تحریر: ممتاز احمد آرزوؔ

مارچ 1, 2024

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
منگل, ستمبر 16, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home home مضامین

اِنقلاب کیا ہے۔۔؟ – تحریر: ممتاز احمد آرزوؔ

آزادی ہو یا انقلاب دونوں ہی دراصل جبر سے نجات کا راستہ ہیں۔ لیکن یہ نجات کبھی کبھی ہمارے خیال کے مطابق نہیں ہوتی۔

للکار نیوز by للکار نیوز
مارچ 1, 2024
in سماجی مسائل, سیاسی معیشت, مضامین
A A
0

ایک مدت سے ہمارے ہاں انقلاب کے امکانات کو ہی رد کر کیا جا رہا ہے حالانکہ انقلاب ہر لمحے ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ پرانے کی جگہ جس طرح نئی ایجادات و تخلیقات ہوتی ہیں، ایسے ہی ہمارے خیالات بھی بدلتے ہیں۔ ہماری روز مرہ زندگی کے جو طور طریقے کل تھے وہ آج نہیں ہیں اور جو آج ہیں وہ آنے والے کل نہیں ہوں گے۔

دراصل مسئلہ ان خواہشات کا ہے جو ہم اپنے خیال و تصور میں اپنے تائیں تخلیق کرتے جاتے ہیں اور نا جانے اپنے آپ کیا سے کیا شکلیں بناتے رہتے ہیں۔ لیکن انسان جو کچھ سوچتا ہے حقیقت ویسی نہیں ہوتی! اگر انسان حقیقت سے سمجھوتا کر بھی لے تو ضروری نہیں کہ حقیقت اس کی گرفت میں آجائے۔

آزادی ہو یا انقلاب دونوں ہی دراصل جبر سے نجات کا راستہ ہیں۔ لیکن یہ نجات کبھی کبھی ہمارے خیال کے مطابق نہیں ہوتی۔

بعض اوقات اس کے نتائج بہت بھیانک برآمد ہوتے ہیں۔ انقلاب ردِ انقلاب میں بدل جاتے ہیں اور نام نہاد آزادیاں غلامی سے بھی بدتر شکل اختیار کر جاتی ہیں۔ نتیجتاً حاصلات پہلے سے بھی زیادہ مشکل ہو جاتے ہیں۔ ہم تاریخی طور پر اس کی بے شمار مثالیں دے سکتے ہیں؛ جیسے کہ افغانستان، عراق، لیبا اور شام سمیت موجود یا ماضی قریب کی کئی مثالیں ہیں۔

انقلاب کیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے چین کے ایک کہانی کار لوسوں کی یہ تحریر بہت کمال ہے۔ یہ کہانی ہمیں اس حقیقت کو سمجھانے میں بہت مدد گار ثابت ہو گی جس کی وجہ سے ہم انقلاب کے امکانات کو ہی رد کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ کہانی ایک انقلابی سپاہی کی ہے جو محاز پر بُری طرح زخمی ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ وہ غنودگی میں چلاجاتا ہے۔ زخموں کی وجہ سے وہ آنکھیں نہیں کھول پاتا۔

ایک مجاہد لڑکی جب اسے دیکھتی ہے تو وہ اسے اپنی پیٹھ پر لاد کر وقت پے ہسپتال پہنچا دیتی ہے۔ وہ اس کا شکرگزار ہے اور کہتا ہے کہ آج اگر تم مجھے ہسپتال نا پہنچاتی تو میرا بچنا مشکل تھا۔ وہ اس سے باتیں تو ضرور کرتا ہے لیکن وہ چہرے اور آنکھوں کی سوجن کی وجہ سے اسے دیکھ نہیں سکتا۔ جاتے ہوئے وہ لڑکی اس کابیج ساتھ لے جاتی ہے جس پر اس کا نام اور پتہ درج ہوتا ہے۔

کچھ دنوں بعد یہ انقلابی نوجوان صحت مند ہوجاتا ہے اور وہ لڑکی اس سے خیریت معلوم کرنے کو خط لکھتی ہے۔ پھر یہ خط و کتابت محبت کے خطوط میں بدل جاتی ہے۔ لڑکا اس سے ملنے کا اسرار کرتا ہے اور ہر دن یہ غائبانہ انسیت بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ انقلابی نوجوان اسے بہت اسرار کرتا ہے کہ وہ اپنی تصویر بھیجے لیکن وہ تصویر نہیں بھیجتی وہ اسے لکھتی ہے کہ اگر تم مجھے خوبصورت سمجھتے ہو تو تمہیں اپنی قسمت پے بہت بھروسہ ہے اور اگر تم مجھے بدصورت سمجھتے ہو تو میرے متعلق تمہارے جذبات محض احسان مندی کے ہیں لیکن مجھے یہ دونوں باتیں پسند نہیں۔

بالآخر بہت اسرار کے بعد وہ لڑکی اس سے ایک سینما گھر میں ملنے آتی ہے۔ سینماگھر میں ملاقات کا وقت مقرر کیا جاتا ہے۔ لڑکی کہتی ہے کہ تم میری آواز پہچانتے ہو اور میری آواز سے ہی تم مجھے پہچانو گے۔ میں خود سے تمہیں نہیں ملوں گی۔ اس دن بارش ہو جاتی ہے سینما گھر میں ٹکٹ لینے والوں کی لمبی قطار لگی ہوئی ہے وہ نوجوان ہر لڑکی کے پاس جاتا ہے اور اس سے بات کرتا ہے کہ کوئی اکسٹرا ٹکٹ ہے؟ مقصد آواز کو سُن کر پہچاننا ہے لیکن کوئی بھی آواز اس لڑکی کی آواز جیسی نہیں ہے۔ بالآخر ٹکٹ گھر بند ہوجاتا ہے، سارے لوگ سینما حال میں فلم دیکھنے چلے جاتے ہیں۔

ایک عام سی شکل و صورت والی لڑکی دروازے کے پاس کھڑی رہ جاتی ہے وہ اس سے بات کرتا ہے یہ وہی لڑکی ہوتی ہے وہ اسے بتاتی ہے کہ میں بہت جلدی آگئی تھی۔ پھر پوچھتی ہے کہ میں آپکو کیسی لگی؟

وہ اسے کہتا ہے کہ انسان ایک سے زیادہ حیثیتوں میں خوبصورت ہو سکتا ہے!

قدرتی طور پر تجھے دیکھنے سے پہلے مجھے تصور میں تماری تصویر بنانی پڑی اور تصویر میں ہمشہ چیزیں مکمل اور موزوں ہوتی ہیں۔ لیکن حقیقت عام طور پر مختلف ہوتی ہے۔ وہ اسے کہتی ہے میں سب سے پہلے آگئی تھی آپ نے جتنی لڑکیوں سے بات کی وہ سب مجھ سے کہیں زیادہ خوبصورت تھیں۔ وہ اسے کہتا ہے کہ میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ میں نے تمہارے متعلق جو تصور قائم کیا تھا تم اس سے کہیں زیادہ خوبصورت ہو!

غالباً اس لیے بھی کہ تم ایک پہلو سے بہت زیادہ خوبصورت ہو لیکن بات بگڑ جاتی ہے محبت بے قراری اور تجسّس کے بدلے لفظوں کا سہارا لینے لگتی ہے اور یہ سب بے اثر ہو چکا ہے اب لفظوں کا جادو اثر نہیں کر سکتا وہ جہتیں تلاش کرنے لگتا ہے اور لڑکی ڈیوٹی کا بہانا کر بس میں بیٹھ کر چلی جاتی ہے۔

دراصل انقلاب بھی اسی طرح کی ایک خواہش ہے، ضروری نہیں کہ وہ خواہش آپ کے تصور کے جیسی ہو۔ جب حقیقت اور تصور آپس میں ٹکراتے ہیں تو حاصل ایک حقیقت بن جاتا ہے! انسان حسین تصور کے تحت خیال کے جوہر کا اظہار کرتا ہے لیکن انسان کی جستجو جب محنت اور جدوجہد سے گزرکر عمل میں داخل ہوتی ہے تب جو حقیقت کھلتی ہے وہ کچھ اور ہوتی ہے اور یہ ضروری نہیں کہ حقیقت اس کے تصور جیسی ہو!

   —♦—

Arzoo
مصنف کے بارے

ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق  انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">

ایک مدت سے ہمارے ہاں انقلاب کے امکانات کو ہی رد کر کیا جا رہا ہے حالانکہ انقلاب ہر لمحے ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ پرانے کی جگہ جس طرح نئی ایجادات و تخلیقات ہوتی ہیں، ایسے ہی ہمارے خیالات بھی بدلتے ہیں۔ ہماری روز مرہ زندگی کے جو طور طریقے کل تھے وہ آج نہیں ہیں اور جو آج ہیں وہ آنے والے کل نہیں ہوں گے۔

دراصل مسئلہ ان خواہشات کا ہے جو ہم اپنے خیال و تصور میں اپنے تائیں تخلیق کرتے جاتے ہیں اور نا جانے اپنے آپ کیا سے کیا شکلیں بناتے رہتے ہیں۔ لیکن انسان جو کچھ سوچتا ہے حقیقت ویسی نہیں ہوتی! اگر انسان حقیقت سے سمجھوتا کر بھی لے تو ضروری نہیں کہ حقیقت اس کی گرفت میں آجائے۔

آزادی ہو یا انقلاب دونوں ہی دراصل جبر سے نجات کا راستہ ہیں۔ لیکن یہ نجات کبھی کبھی ہمارے خیال کے مطابق نہیں ہوتی۔

بعض اوقات اس کے نتائج بہت بھیانک برآمد ہوتے ہیں۔ انقلاب ردِ انقلاب میں بدل جاتے ہیں اور نام نہاد آزادیاں غلامی سے بھی بدتر شکل اختیار کر جاتی ہیں۔ نتیجتاً حاصلات پہلے سے بھی زیادہ مشکل ہو جاتے ہیں۔ ہم تاریخی طور پر اس کی بے شمار مثالیں دے سکتے ہیں؛ جیسے کہ افغانستان، عراق، لیبا اور شام سمیت موجود یا ماضی قریب کی کئی مثالیں ہیں۔

انقلاب کیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے چین کے ایک کہانی کار لوسوں کی یہ تحریر بہت کمال ہے۔ یہ کہانی ہمیں اس حقیقت کو سمجھانے میں بہت مدد گار ثابت ہو گی جس کی وجہ سے ہم انقلاب کے امکانات کو ہی رد کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ کہانی ایک انقلابی سپاہی کی ہے جو محاز پر بُری طرح زخمی ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ وہ غنودگی میں چلاجاتا ہے۔ زخموں کی وجہ سے وہ آنکھیں نہیں کھول پاتا۔

ایک مجاہد لڑکی جب اسے دیکھتی ہے تو وہ اسے اپنی پیٹھ پر لاد کر وقت پے ہسپتال پہنچا دیتی ہے۔ وہ اس کا شکرگزار ہے اور کہتا ہے کہ آج اگر تم مجھے ہسپتال نا پہنچاتی تو میرا بچنا مشکل تھا۔ وہ اس سے باتیں تو ضرور کرتا ہے لیکن وہ چہرے اور آنکھوں کی سوجن کی وجہ سے اسے دیکھ نہیں سکتا۔ جاتے ہوئے وہ لڑکی اس کابیج ساتھ لے جاتی ہے جس پر اس کا نام اور پتہ درج ہوتا ہے۔

کچھ دنوں بعد یہ انقلابی نوجوان صحت مند ہوجاتا ہے اور وہ لڑکی اس سے خیریت معلوم کرنے کو خط لکھتی ہے۔ پھر یہ خط و کتابت محبت کے خطوط میں بدل جاتی ہے۔ لڑکا اس سے ملنے کا اسرار کرتا ہے اور ہر دن یہ غائبانہ انسیت بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ انقلابی نوجوان اسے بہت اسرار کرتا ہے کہ وہ اپنی تصویر بھیجے لیکن وہ تصویر نہیں بھیجتی وہ اسے لکھتی ہے کہ اگر تم مجھے خوبصورت سمجھتے ہو تو تمہیں اپنی قسمت پے بہت بھروسہ ہے اور اگر تم مجھے بدصورت سمجھتے ہو تو میرے متعلق تمہارے جذبات محض احسان مندی کے ہیں لیکن مجھے یہ دونوں باتیں پسند نہیں۔

بالآخر بہت اسرار کے بعد وہ لڑکی اس سے ایک سینما گھر میں ملنے آتی ہے۔ سینماگھر میں ملاقات کا وقت مقرر کیا جاتا ہے۔ لڑکی کہتی ہے کہ تم میری آواز پہچانتے ہو اور میری آواز سے ہی تم مجھے پہچانو گے۔ میں خود سے تمہیں نہیں ملوں گی۔ اس دن بارش ہو جاتی ہے سینما گھر میں ٹکٹ لینے والوں کی لمبی قطار لگی ہوئی ہے وہ نوجوان ہر لڑکی کے پاس جاتا ہے اور اس سے بات کرتا ہے کہ کوئی اکسٹرا ٹکٹ ہے؟ مقصد آواز کو سُن کر پہچاننا ہے لیکن کوئی بھی آواز اس لڑکی کی آواز جیسی نہیں ہے۔ بالآخر ٹکٹ گھر بند ہوجاتا ہے، سارے لوگ سینما حال میں فلم دیکھنے چلے جاتے ہیں۔

ایک عام سی شکل و صورت والی لڑکی دروازے کے پاس کھڑی رہ جاتی ہے وہ اس سے بات کرتا ہے یہ وہی لڑکی ہوتی ہے وہ اسے بتاتی ہے کہ میں بہت جلدی آگئی تھی۔ پھر پوچھتی ہے کہ میں آپکو کیسی لگی؟

وہ اسے کہتا ہے کہ انسان ایک سے زیادہ حیثیتوں میں خوبصورت ہو سکتا ہے!

قدرتی طور پر تجھے دیکھنے سے پہلے مجھے تصور میں تماری تصویر بنانی پڑی اور تصویر میں ہمشہ چیزیں مکمل اور موزوں ہوتی ہیں۔ لیکن حقیقت عام طور پر مختلف ہوتی ہے۔ وہ اسے کہتی ہے میں سب سے پہلے آگئی تھی آپ نے جتنی لڑکیوں سے بات کی وہ سب مجھ سے کہیں زیادہ خوبصورت تھیں۔ وہ اسے کہتا ہے کہ میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ میں نے تمہارے متعلق جو تصور قائم کیا تھا تم اس سے کہیں زیادہ خوبصورت ہو!

غالباً اس لیے بھی کہ تم ایک پہلو سے بہت زیادہ خوبصورت ہو لیکن بات بگڑ جاتی ہے محبت بے قراری اور تجسّس کے بدلے لفظوں کا سہارا لینے لگتی ہے اور یہ سب بے اثر ہو چکا ہے اب لفظوں کا جادو اثر نہیں کر سکتا وہ جہتیں تلاش کرنے لگتا ہے اور لڑکی ڈیوٹی کا بہانا کر بس میں بیٹھ کر چلی جاتی ہے۔

دراصل انقلاب بھی اسی طرح کی ایک خواہش ہے، ضروری نہیں کہ وہ خواہش آپ کے تصور کے جیسی ہو۔ جب حقیقت اور تصور آپس میں ٹکراتے ہیں تو حاصل ایک حقیقت بن جاتا ہے! انسان حسین تصور کے تحت خیال کے جوہر کا اظہار کرتا ہے لیکن انسان کی جستجو جب محنت اور جدوجہد سے گزرکر عمل میں داخل ہوتی ہے تب جو حقیقت کھلتی ہے وہ کچھ اور ہوتی ہے اور یہ ضروری نہیں کہ حقیقت اس کے تصور جیسی ہو!

   —♦—

Arzoo
مصنف کے بارے

ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق  انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

by للکار نیوز
اپریل 6, 2025
0
0

اگرچہ بظاہر استعماریت کا خاتمہ گزشتہ صدی میں ہو چکا ہے، لیکن حقیقت میں مغربی طاقتیں اپنی سابقہ نوآبادیات پر...

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

by للکار نیوز
اکتوبر 13, 2024
0
0

پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں...

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

by للکار نیوز
اکتوبر 5, 2024
1
0

پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد...

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

by للکار نیوز
ستمبر 27, 2024
0
0

پانچ دہائیوں تک ہندوستان کی قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برِصغیر کے نامور مارکسی مفکر، انقلابی تحریکوں...

بلوچ جدوجہد اور بلوچوں کی تاریخی حقیقت؟ – تحریر:ممتاز احمد آرزو

by للکار نیوز
ستمبر 26, 2024
0
0

ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا...

کالے کوئلے کو سفید بنانے والی ”دانائی“ اور ماحولیاتی سوال! – تحریر:بخشل تھلہو

by للکار نیوز
ستمبر 8, 2024
0
0

اس اگست کی دو تاریخ کو نصیر میمن صاحب نے اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ کی، جس میں...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.