ایک مدت سے ہمارے ہاں انقلاب کے امکانات کو ہی رد کر کیا جا رہا ہے حالانکہ انقلاب ہر لمحے ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ پرانے کی جگہ جس طرح نئی ایجادات و تخلیقات ہوتی ہیں، ایسے ہی ہمارے خیالات بھی بدلتے ہیں۔ ہماری روز مرہ زندگی کے جو طور طریقے کل تھے وہ آج نہیں ہیں اور جو آج ہیں وہ آنے والے کل نہیں ہوں گے۔
دراصل مسئلہ ان خواہشات کا ہے جو ہم اپنے خیال و تصور میں اپنے تائیں تخلیق کرتے جاتے ہیں اور نا جانے اپنے آپ کیا سے کیا شکلیں بناتے رہتے ہیں۔ لیکن انسان جو کچھ سوچتا ہے حقیقت ویسی نہیں ہوتی! اگر انسان حقیقت سے سمجھوتا کر بھی لے تو ضروری نہیں کہ حقیقت اس کی گرفت میں آجائے۔
آزادی ہو یا انقلاب دونوں ہی دراصل جبر سے نجات کا راستہ ہیں۔ لیکن یہ نجات کبھی کبھی ہمارے خیال کے مطابق نہیں ہوتی۔
بعض اوقات اس کے نتائج بہت بھیانک برآمد ہوتے ہیں۔ انقلاب ردِ انقلاب میں بدل جاتے ہیں اور نام نہاد آزادیاں غلامی سے بھی بدتر شکل اختیار کر جاتی ہیں۔ نتیجتاً حاصلات پہلے سے بھی زیادہ مشکل ہو جاتے ہیں۔ ہم تاریخی طور پر اس کی بے شمار مثالیں دے سکتے ہیں؛ جیسے کہ افغانستان، عراق، لیبا اور شام سمیت موجود یا ماضی قریب کی کئی مثالیں ہیں۔
انقلاب کیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے چین کے ایک کہانی کار لوسوں کی یہ تحریر بہت کمال ہے۔ یہ کہانی ہمیں اس حقیقت کو سمجھانے میں بہت مدد گار ثابت ہو گی جس کی وجہ سے ہم انقلاب کے امکانات کو ہی رد کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ کہانی ایک انقلابی سپاہی کی ہے جو محاز پر بُری طرح زخمی ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ وہ غنودگی میں چلاجاتا ہے۔ زخموں کی وجہ سے وہ آنکھیں نہیں کھول پاتا۔
ایک مجاہد لڑکی جب اسے دیکھتی ہے تو وہ اسے اپنی پیٹھ پر لاد کر وقت پے ہسپتال پہنچا دیتی ہے۔ وہ اس کا شکرگزار ہے اور کہتا ہے کہ آج اگر تم مجھے ہسپتال نا پہنچاتی تو میرا بچنا مشکل تھا۔ وہ اس سے باتیں تو ضرور کرتا ہے لیکن وہ چہرے اور آنکھوں کی سوجن کی وجہ سے اسے دیکھ نہیں سکتا۔ جاتے ہوئے وہ لڑکی اس کابیج ساتھ لے جاتی ہے جس پر اس کا نام اور پتہ درج ہوتا ہے۔
کچھ دنوں بعد یہ انقلابی نوجوان صحت مند ہوجاتا ہے اور وہ لڑکی اس سے خیریت معلوم کرنے کو خط لکھتی ہے۔ پھر یہ خط و کتابت محبت کے خطوط میں بدل جاتی ہے۔ لڑکا اس سے ملنے کا اسرار کرتا ہے اور ہر دن یہ غائبانہ انسیت بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ انقلابی نوجوان اسے بہت اسرار کرتا ہے کہ وہ اپنی تصویر بھیجے لیکن وہ تصویر نہیں بھیجتی وہ اسے لکھتی ہے کہ اگر تم مجھے خوبصورت سمجھتے ہو تو تمہیں اپنی قسمت پے بہت بھروسہ ہے اور اگر تم مجھے بدصورت سمجھتے ہو تو میرے متعلق تمہارے جذبات محض احسان مندی کے ہیں لیکن مجھے یہ دونوں باتیں پسند نہیں۔
بالآخر بہت اسرار کے بعد وہ لڑکی اس سے ایک سینما گھر میں ملنے آتی ہے۔ سینماگھر میں ملاقات کا وقت مقرر کیا جاتا ہے۔ لڑکی کہتی ہے کہ تم میری آواز پہچانتے ہو اور میری آواز سے ہی تم مجھے پہچانو گے۔ میں خود سے تمہیں نہیں ملوں گی۔ اس دن بارش ہو جاتی ہے سینما گھر میں ٹکٹ لینے والوں کی لمبی قطار لگی ہوئی ہے وہ نوجوان ہر لڑکی کے پاس جاتا ہے اور اس سے بات کرتا ہے کہ کوئی اکسٹرا ٹکٹ ہے؟ مقصد آواز کو سُن کر پہچاننا ہے لیکن کوئی بھی آواز اس لڑکی کی آواز جیسی نہیں ہے۔ بالآخر ٹکٹ گھر بند ہوجاتا ہے، سارے لوگ سینما حال میں فلم دیکھنے چلے جاتے ہیں۔
ایک عام سی شکل و صورت والی لڑکی دروازے کے پاس کھڑی رہ جاتی ہے وہ اس سے بات کرتا ہے یہ وہی لڑکی ہوتی ہے وہ اسے بتاتی ہے کہ میں بہت جلدی آگئی تھی۔ پھر پوچھتی ہے کہ میں آپکو کیسی لگی؟
وہ اسے کہتا ہے کہ انسان ایک سے زیادہ حیثیتوں میں خوبصورت ہو سکتا ہے!
قدرتی طور پر تجھے دیکھنے سے پہلے مجھے تصور میں تماری تصویر بنانی پڑی اور تصویر میں ہمشہ چیزیں مکمل اور موزوں ہوتی ہیں۔ لیکن حقیقت عام طور پر مختلف ہوتی ہے۔ وہ اسے کہتی ہے میں سب سے پہلے آگئی تھی آپ نے جتنی لڑکیوں سے بات کی وہ سب مجھ سے کہیں زیادہ خوبصورت تھیں۔ وہ اسے کہتا ہے کہ میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ میں نے تمہارے متعلق جو تصور قائم کیا تھا تم اس سے کہیں زیادہ خوبصورت ہو!
غالباً اس لیے بھی کہ تم ایک پہلو سے بہت زیادہ خوبصورت ہو لیکن بات بگڑ جاتی ہے محبت بے قراری اور تجسّس کے بدلے لفظوں کا سہارا لینے لگتی ہے اور یہ سب بے اثر ہو چکا ہے اب لفظوں کا جادو اثر نہیں کر سکتا وہ جہتیں تلاش کرنے لگتا ہے اور لڑکی ڈیوٹی کا بہانا کر بس میں بیٹھ کر چلی جاتی ہے۔
دراصل انقلاب بھی اسی طرح کی ایک خواہش ہے، ضروری نہیں کہ وہ خواہش آپ کے تصور کے جیسی ہو۔ جب حقیقت اور تصور آپس میں ٹکراتے ہیں تو حاصل ایک حقیقت بن جاتا ہے! انسان حسین تصور کے تحت خیال کے جوہر کا اظہار کرتا ہے لیکن انسان کی جستجو جب محنت اور جدوجہد سے گزرکر عمل میں داخل ہوتی ہے تب جو حقیقت کھلتی ہے وہ کچھ اور ہوتی ہے اور یہ ضروری نہیں کہ حقیقت اس کے تصور جیسی ہو!
—♦—

ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
ایک مدت سے ہمارے ہاں انقلاب کے امکانات کو ہی رد کر کیا جا رہا ہے حالانکہ انقلاب ہر لمحے ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ پرانے کی جگہ جس طرح نئی ایجادات و تخلیقات ہوتی ہیں، ایسے ہی ہمارے خیالات بھی بدلتے ہیں۔ ہماری روز مرہ زندگی کے جو طور طریقے کل تھے وہ آج نہیں ہیں اور جو آج ہیں وہ آنے والے کل نہیں ہوں گے۔
دراصل مسئلہ ان خواہشات کا ہے جو ہم اپنے خیال و تصور میں اپنے تائیں تخلیق کرتے جاتے ہیں اور نا جانے اپنے آپ کیا سے کیا شکلیں بناتے رہتے ہیں۔ لیکن انسان جو کچھ سوچتا ہے حقیقت ویسی نہیں ہوتی! اگر انسان حقیقت سے سمجھوتا کر بھی لے تو ضروری نہیں کہ حقیقت اس کی گرفت میں آجائے۔
آزادی ہو یا انقلاب دونوں ہی دراصل جبر سے نجات کا راستہ ہیں۔ لیکن یہ نجات کبھی کبھی ہمارے خیال کے مطابق نہیں ہوتی۔
بعض اوقات اس کے نتائج بہت بھیانک برآمد ہوتے ہیں۔ انقلاب ردِ انقلاب میں بدل جاتے ہیں اور نام نہاد آزادیاں غلامی سے بھی بدتر شکل اختیار کر جاتی ہیں۔ نتیجتاً حاصلات پہلے سے بھی زیادہ مشکل ہو جاتے ہیں۔ ہم تاریخی طور پر اس کی بے شمار مثالیں دے سکتے ہیں؛ جیسے کہ افغانستان، عراق، لیبا اور شام سمیت موجود یا ماضی قریب کی کئی مثالیں ہیں۔
انقلاب کیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے چین کے ایک کہانی کار لوسوں کی یہ تحریر بہت کمال ہے۔ یہ کہانی ہمیں اس حقیقت کو سمجھانے میں بہت مدد گار ثابت ہو گی جس کی وجہ سے ہم انقلاب کے امکانات کو ہی رد کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ کہانی ایک انقلابی سپاہی کی ہے جو محاز پر بُری طرح زخمی ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ وہ غنودگی میں چلاجاتا ہے۔ زخموں کی وجہ سے وہ آنکھیں نہیں کھول پاتا۔
ایک مجاہد لڑکی جب اسے دیکھتی ہے تو وہ اسے اپنی پیٹھ پر لاد کر وقت پے ہسپتال پہنچا دیتی ہے۔ وہ اس کا شکرگزار ہے اور کہتا ہے کہ آج اگر تم مجھے ہسپتال نا پہنچاتی تو میرا بچنا مشکل تھا۔ وہ اس سے باتیں تو ضرور کرتا ہے لیکن وہ چہرے اور آنکھوں کی سوجن کی وجہ سے اسے دیکھ نہیں سکتا۔ جاتے ہوئے وہ لڑکی اس کابیج ساتھ لے جاتی ہے جس پر اس کا نام اور پتہ درج ہوتا ہے۔
کچھ دنوں بعد یہ انقلابی نوجوان صحت مند ہوجاتا ہے اور وہ لڑکی اس سے خیریت معلوم کرنے کو خط لکھتی ہے۔ پھر یہ خط و کتابت محبت کے خطوط میں بدل جاتی ہے۔ لڑکا اس سے ملنے کا اسرار کرتا ہے اور ہر دن یہ غائبانہ انسیت بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ انقلابی نوجوان اسے بہت اسرار کرتا ہے کہ وہ اپنی تصویر بھیجے لیکن وہ تصویر نہیں بھیجتی وہ اسے لکھتی ہے کہ اگر تم مجھے خوبصورت سمجھتے ہو تو تمہیں اپنی قسمت پے بہت بھروسہ ہے اور اگر تم مجھے بدصورت سمجھتے ہو تو میرے متعلق تمہارے جذبات محض احسان مندی کے ہیں لیکن مجھے یہ دونوں باتیں پسند نہیں۔
بالآخر بہت اسرار کے بعد وہ لڑکی اس سے ایک سینما گھر میں ملنے آتی ہے۔ سینماگھر میں ملاقات کا وقت مقرر کیا جاتا ہے۔ لڑکی کہتی ہے کہ تم میری آواز پہچانتے ہو اور میری آواز سے ہی تم مجھے پہچانو گے۔ میں خود سے تمہیں نہیں ملوں گی۔ اس دن بارش ہو جاتی ہے سینما گھر میں ٹکٹ لینے والوں کی لمبی قطار لگی ہوئی ہے وہ نوجوان ہر لڑکی کے پاس جاتا ہے اور اس سے بات کرتا ہے کہ کوئی اکسٹرا ٹکٹ ہے؟ مقصد آواز کو سُن کر پہچاننا ہے لیکن کوئی بھی آواز اس لڑکی کی آواز جیسی نہیں ہے۔ بالآخر ٹکٹ گھر بند ہوجاتا ہے، سارے لوگ سینما حال میں فلم دیکھنے چلے جاتے ہیں۔
ایک عام سی شکل و صورت والی لڑکی دروازے کے پاس کھڑی رہ جاتی ہے وہ اس سے بات کرتا ہے یہ وہی لڑکی ہوتی ہے وہ اسے بتاتی ہے کہ میں بہت جلدی آگئی تھی۔ پھر پوچھتی ہے کہ میں آپکو کیسی لگی؟
وہ اسے کہتا ہے کہ انسان ایک سے زیادہ حیثیتوں میں خوبصورت ہو سکتا ہے!
قدرتی طور پر تجھے دیکھنے سے پہلے مجھے تصور میں تماری تصویر بنانی پڑی اور تصویر میں ہمشہ چیزیں مکمل اور موزوں ہوتی ہیں۔ لیکن حقیقت عام طور پر مختلف ہوتی ہے۔ وہ اسے کہتی ہے میں سب سے پہلے آگئی تھی آپ نے جتنی لڑکیوں سے بات کی وہ سب مجھ سے کہیں زیادہ خوبصورت تھیں۔ وہ اسے کہتا ہے کہ میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ میں نے تمہارے متعلق جو تصور قائم کیا تھا تم اس سے کہیں زیادہ خوبصورت ہو!
غالباً اس لیے بھی کہ تم ایک پہلو سے بہت زیادہ خوبصورت ہو لیکن بات بگڑ جاتی ہے محبت بے قراری اور تجسّس کے بدلے لفظوں کا سہارا لینے لگتی ہے اور یہ سب بے اثر ہو چکا ہے اب لفظوں کا جادو اثر نہیں کر سکتا وہ جہتیں تلاش کرنے لگتا ہے اور لڑکی ڈیوٹی کا بہانا کر بس میں بیٹھ کر چلی جاتی ہے۔
دراصل انقلاب بھی اسی طرح کی ایک خواہش ہے، ضروری نہیں کہ وہ خواہش آپ کے تصور کے جیسی ہو۔ جب حقیقت اور تصور آپس میں ٹکراتے ہیں تو حاصل ایک حقیقت بن جاتا ہے! انسان حسین تصور کے تحت خیال کے جوہر کا اظہار کرتا ہے لیکن انسان کی جستجو جب محنت اور جدوجہد سے گزرکر عمل میں داخل ہوتی ہے تب جو حقیقت کھلتی ہے وہ کچھ اور ہوتی ہے اور یہ ضروری نہیں کہ حقیقت اس کے تصور جیسی ہو!
—♦—

ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔