تیزی سے بدلتے انسان کی اگلی منزل کیا کوئی اور سیّارہ ہے؟
تقریباً دس ہزار سال پہلے زرعی انقلاب آیا تھا جس نے انسانوں کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ انسان پہاڑوں سے اُتر کر بستیاں آباد کرنے لگا۔ انسان جانوروں کا شکار کرنے کے بجائے انہیں گھر میں پالنے لگا، انسان گوشت خور ہونے کے ساتھ ساتھ سبزیاں اناج اُگانے اور کھانے لگا۔
پیشوں کا جنم ہوا، مذاہب نے معاشرے میں جگہ بنائی، تہذیب پروان چڑھی، حکومتی ڈھانچے تشکیل پائے، قوانین بنے، انسان نے اپنے خیالات اور جذبات کو زبان دی، وہ شاعری کرتا، تاریخ لکھتا، قصے کہانیاں سناتا، اس نے انہیں قلمبند کرنے کے لیے حروفِ تہجی بنائے، پھران کو جوڑ کر الفاظ بنائے اور پھر ان کو جوڑ کر کتابیں لکھیں۔
انسان فطرت سے جب محظوظ ہونے لگا، کسان جب فصل کھیت میں ڈال کر سستاتا تو پرندوں کی بولیاں سنتا۔ فصل میں پانی لگانے کے بعد وہ جھرنے کی چھم چھم سنتا۔
فطرت نے انسان کو موسیقی سکھائی، وہ بانسری پکڑ کر سُر کے ساتھ بجانے لگا، چمڑے کے ڈھول بجانے لگا، وہ تاروں کو کدو کے خالی پھل کے ساتھ باندھ کر ساز بنانے لگا، اب وہ سُروں میں گاتا، ساز بجاتا، انسان اپنی پوری رفتار کے ساتھ ترقی کے زینے چڑھتا رہا۔ اس دوران وہ جنگیں بھی لڑتا رہا۔ پتھروں اور ڈندوں کی لڑائی نے انسان کو لوہے کی دریافت پر لگایا،۔ لوہے کی سختی نے انسان کو مزید حیران کیا،زمینوں میں لوہے کے ہل چلنے لگے۔ لوہے کے آرے لکڑیاں چیرتے، لوہے کی کلہاڑی درخت کاٹتی، مگر لوہا بھی کچا نکلا، جلد زنگ آلود ہو جاتا۔
پھر ایک اور دھات مل گئی، یعنی تانبا، تانبے کا دور بھی تابناک تھا، لوہے سے سخت، تابنے کی تلواروں کے آگے لوہے کی ایک نہ چلتی، اور نہ ہی اس کو زنگ لگتا تھا۔ مگر تانبا بھی نرم نکلا، پھر کانسی کا زمانہ آیا، کیا کمال دھات تھی، نہ مُڑے، نہ ٹوٹے، نہ اسے زنگ لگے، الغرض انسانی تہذیب و تمدن اپنے پورے عروج پر تھا۔
سب سے زیادہ فنون لطیفہ آگے بڑھا، خوبصورت مورتیاں، حقیقت نما مصوری، افسانہ نگاری، ڈرامہ نگاری، اور موسیقی نے خوب دھوم مچائی۔۔
لیکن تین صدیوں قبل آنے والے صنعتی انقلاب نے ایک بار پھر سے انسانوں کو بدل دیا، انسان بستیوں سے نکل کر شہروں میں آباد ہونے لگا، مشینوں نے انسانوں کی جگہ لے لی، رشتے، پیشے، دستکاریاں اور فنونِ لطیفہ اپنی اہمیت کھو بیٹھے، جنگوں کے پرانے طور طریقے بدل گئے، غیر روایتی ہتھیار آگئے۔ ایٹم بم ایجاد ہوئے جو پل بھرمیں بستیاں بھسم کر دیتے تھے۔ زمینی جنگ اب فضا میں لڑی جاتی، آگ برساتے پرندہ نما جہاز، گھن گرج والی توپیں، سمندروں کی لہروں کو چیرتے بحری بیڑے، مچھلیوں کی طرح لہروں کی آغوش میں غوطے کھاتی آبدوزیں، انسان نے جنگوں کے سارے انداز ہی بدل کر رکھ دیے۔ انسانوں نے بڑی بڑی سلطنتیں ختم کر دیں، چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی تشکیل ہوئی۔
ہم اکیسویں صدی میں بیٹھے، موبائل پر ساری دنیا گھوم رہے ہیں، ہوا کے دوش پر سینکڑوں انسان اُڑ رہے ہیں، سمندروں کے سینے چیز چکے، چوٹیاں سر کر چکے، سورج کی روشنی کو توانائی میں بدل دیا، ڈی این اے کی باریکیوں کو سمجھ لیا اور اس میں کرسپر جنوم ایڈیٹنگ کے ذریعے تبدیلیاں لانے لگے۔
یعنی اپنے ہی سافٹ وئیر کو اپڈیٹ کرنے کے چکر میں ہیں، اب ہم اس قابل ہو چکے ہیں کہ ایک انسان کے ڈیزائن میں تبدیلیاں لا سکیں۔ شاید یہ بہت سے لوگوں کو ممکن نہ لگ رہا ہو لیکن آپ جلد اسے دیکھیں گے۔ ہم پودوں کی ساخت میں، ان کے پھل میں، ان کی پیداوار میں من مرضی کی تبدیلیاں لا چکے ہیں۔چھوٹے سے بیکٹریا ، بیچارہ معصوم بیکٹریا، جو عام آنکھ سے نظر نہیں آتا، جو عام مائیکرو سکوپ سے بھی نظر نہیں آتا، اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ انسان اسے بھی گائے ،بھینس اوربکریوں کی طرح گھر میں باندھ کر دودھ اور گوشت نکالے گا۔
انسان بیکٹریا سے دواؤں سمیت اہم غذائی اجزاء اور ویکسینز نکال رہا ہے۔مصنوعی بارشیں ہو رہی ہیں۔کئی صدیوں پہلے ناپید جانداروں کو دوبارہ زندہ کر رہے ہیں، ہزاروں سال پرانی تہذیبیوں کی کھوجیں لگا رہے ہیں۔ صحراؤں میں پی ویٹل اریگیشن سے فصلیں کاشت ہو رہی ہیں، سیاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں، خلاؤں میں ہم نے گھونسلے بنا رکھے ہیں۔
بڑی بڑی ٹیلی سکوپوں سے قدرت کی تخلیق کردہ کہکشاؤں کی جاسوسی کر رہے ہیں۔ مادہ کے سب سے چھوٹے زرّے جسے ایٹم کہا جاتا ہے، اب وہ چھوٹا نہیں رہا اس کے نیوٹران ، پروٹان سے بھی چھوٹے زرّے ڈھونڈ لیے ہیں،۔
حیران کُن فزکس میں ایک اور عجوبہ کوآنٹم مکینکس کے اضافے نے ہمارے نقطہء نظر اور حقیقت کو سمجھنے کے انداز یکسر بدل کر رکھ دیے، اب زرّے محض زرّے نہیں بلکہ روشنی کی لہریں یعنی فوٹون بن گئے، فوٹونز کی کیفیت کیا ہو گئی کوئی نہیں جانتا، یعنی حقیقت کیا ہے کسی کو معلوم نہیں، مصنوعی ذہانت نے انسانوں کے دماغوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔
وہ کام جو کئی دماغ مل کرکرتے تھے اب ایک بٹن کی دوری پر ہیں۔ کوئی لمبا بلاگ لکھنا ہو یا کوئی سکرپٹ، خیالوں میں موجود تصویر کو بنا قلم چلائے، بنا کسی سافٹ وئیر کے، حقیقت میں بدل دیتی ہے یہ مصنوعی ذہانت۔۔۔۔
ہم انسان کہاں سے نکل کر کہاں آ گئے ہیں، ہم کیا تھے کیا ہو گئے ہیں۔ ہم کہاں تک جائیں گے، یہ ہم بھی نہیں جانتے، ارتقاء کے مخالف انسان اس مسلمہ حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتے کہ انسان ہر بدلتے دن کے ساتھ ارتقائی عمل سے گزرتا ہوا ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ انسان نے زیرو سے شروع کیا، جب انسان نے ہوش سنبھالا تو اس کے پاس تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے تھے نہ رہنے کے لیے گھر! وہ غاروں میں رہتا، پتوں سے تن ڈھانپتا،مگر آج انسان فلک شگاف عمارات میں رہتا ہے جہاں ہر طرز کی آسائش میسر ہے۔ آج تن ڈھانپنے کے لیے نت نئے ڈیزائن کے ملبوسات میسر ہیں۔
آج ہم کہاں ہیں اور کل ہم کہاں تھے، یہ دو باتیں تیسری بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ کل ہم کہاں ہوں گے۔۔
اس کے باوجود آنے والے کل کا تصور کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ شاید انسان جس تیزی سے بدل رہا ہے، اگر اس کی رفتار یہی رہی تو ہم زمین سے نکل کر الگ الگ سیّاروں کو اپنا مسکن بنا لیں گے اور پھر وہاں بھی ایسے ہی زیرو سے شروع کرتے ہوئے ترقی کی منازل طے کرتے کرتے پھر الگ سیّارے اور پھر کسی اور سیّارے پر۔۔۔ سیّارے ہماری گردِ راہ ہوں گے۔۔۔!
”ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تُو ہے“
—♦—

اسعد بشیر ، آزاد جموں و کشمیر کے ضلع کوٹلی سے تعلق رکھتے ہیں، آج کل جامعہ کوٹلی آزاد جموں و کشمیر سے بائیو ٹیکنالوجی میں ایم فل کر رہےہیں اوراسی یونیورسٹی میں ہی شعبہ ہیلتھ سائنسز میں بطور وزیٹنگ لیکچرر پڑھا رہے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
تیزی سے بدلتے انسان کی اگلی منزل کیا کوئی اور سیّارہ ہے؟
تقریباً دس ہزار سال پہلے زرعی انقلاب آیا تھا جس نے انسانوں کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ انسان پہاڑوں سے اُتر کر بستیاں آباد کرنے لگا۔ انسان جانوروں کا شکار کرنے کے بجائے انہیں گھر میں پالنے لگا، انسان گوشت خور ہونے کے ساتھ ساتھ سبزیاں اناج اُگانے اور کھانے لگا۔
پیشوں کا جنم ہوا، مذاہب نے معاشرے میں جگہ بنائی، تہذیب پروان چڑھی، حکومتی ڈھانچے تشکیل پائے، قوانین بنے، انسان نے اپنے خیالات اور جذبات کو زبان دی، وہ شاعری کرتا، تاریخ لکھتا، قصے کہانیاں سناتا، اس نے انہیں قلمبند کرنے کے لیے حروفِ تہجی بنائے، پھران کو جوڑ کر الفاظ بنائے اور پھر ان کو جوڑ کر کتابیں لکھیں۔
انسان فطرت سے جب محظوظ ہونے لگا، کسان جب فصل کھیت میں ڈال کر سستاتا تو پرندوں کی بولیاں سنتا۔ فصل میں پانی لگانے کے بعد وہ جھرنے کی چھم چھم سنتا۔
فطرت نے انسان کو موسیقی سکھائی، وہ بانسری پکڑ کر سُر کے ساتھ بجانے لگا، چمڑے کے ڈھول بجانے لگا، وہ تاروں کو کدو کے خالی پھل کے ساتھ باندھ کر ساز بنانے لگا، اب وہ سُروں میں گاتا، ساز بجاتا، انسان اپنی پوری رفتار کے ساتھ ترقی کے زینے چڑھتا رہا۔ اس دوران وہ جنگیں بھی لڑتا رہا۔ پتھروں اور ڈندوں کی لڑائی نے انسان کو لوہے کی دریافت پر لگایا،۔ لوہے کی سختی نے انسان کو مزید حیران کیا،زمینوں میں لوہے کے ہل چلنے لگے۔ لوہے کے آرے لکڑیاں چیرتے، لوہے کی کلہاڑی درخت کاٹتی، مگر لوہا بھی کچا نکلا، جلد زنگ آلود ہو جاتا۔
پھر ایک اور دھات مل گئی، یعنی تانبا، تانبے کا دور بھی تابناک تھا، لوہے سے سخت، تابنے کی تلواروں کے آگے لوہے کی ایک نہ چلتی، اور نہ ہی اس کو زنگ لگتا تھا۔ مگر تانبا بھی نرم نکلا، پھر کانسی کا زمانہ آیا، کیا کمال دھات تھی، نہ مُڑے، نہ ٹوٹے، نہ اسے زنگ لگے، الغرض انسانی تہذیب و تمدن اپنے پورے عروج پر تھا۔
سب سے زیادہ فنون لطیفہ آگے بڑھا، خوبصورت مورتیاں، حقیقت نما مصوری، افسانہ نگاری، ڈرامہ نگاری، اور موسیقی نے خوب دھوم مچائی۔۔
لیکن تین صدیوں قبل آنے والے صنعتی انقلاب نے ایک بار پھر سے انسانوں کو بدل دیا، انسان بستیوں سے نکل کر شہروں میں آباد ہونے لگا، مشینوں نے انسانوں کی جگہ لے لی، رشتے، پیشے، دستکاریاں اور فنونِ لطیفہ اپنی اہمیت کھو بیٹھے، جنگوں کے پرانے طور طریقے بدل گئے، غیر روایتی ہتھیار آگئے۔ ایٹم بم ایجاد ہوئے جو پل بھرمیں بستیاں بھسم کر دیتے تھے۔ زمینی جنگ اب فضا میں لڑی جاتی، آگ برساتے پرندہ نما جہاز، گھن گرج والی توپیں، سمندروں کی لہروں کو چیرتے بحری بیڑے، مچھلیوں کی طرح لہروں کی آغوش میں غوطے کھاتی آبدوزیں، انسان نے جنگوں کے سارے انداز ہی بدل کر رکھ دیے۔ انسانوں نے بڑی بڑی سلطنتیں ختم کر دیں، چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی تشکیل ہوئی۔
ہم اکیسویں صدی میں بیٹھے، موبائل پر ساری دنیا گھوم رہے ہیں، ہوا کے دوش پر سینکڑوں انسان اُڑ رہے ہیں، سمندروں کے سینے چیز چکے، چوٹیاں سر کر چکے، سورج کی روشنی کو توانائی میں بدل دیا، ڈی این اے کی باریکیوں کو سمجھ لیا اور اس میں کرسپر جنوم ایڈیٹنگ کے ذریعے تبدیلیاں لانے لگے۔
یعنی اپنے ہی سافٹ وئیر کو اپڈیٹ کرنے کے چکر میں ہیں، اب ہم اس قابل ہو چکے ہیں کہ ایک انسان کے ڈیزائن میں تبدیلیاں لا سکیں۔ شاید یہ بہت سے لوگوں کو ممکن نہ لگ رہا ہو لیکن آپ جلد اسے دیکھیں گے۔ ہم پودوں کی ساخت میں، ان کے پھل میں، ان کی پیداوار میں من مرضی کی تبدیلیاں لا چکے ہیں۔چھوٹے سے بیکٹریا ، بیچارہ معصوم بیکٹریا، جو عام آنکھ سے نظر نہیں آتا، جو عام مائیکرو سکوپ سے بھی نظر نہیں آتا، اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ انسان اسے بھی گائے ،بھینس اوربکریوں کی طرح گھر میں باندھ کر دودھ اور گوشت نکالے گا۔
انسان بیکٹریا سے دواؤں سمیت اہم غذائی اجزاء اور ویکسینز نکال رہا ہے۔مصنوعی بارشیں ہو رہی ہیں۔کئی صدیوں پہلے ناپید جانداروں کو دوبارہ زندہ کر رہے ہیں، ہزاروں سال پرانی تہذیبیوں کی کھوجیں لگا رہے ہیں۔ صحراؤں میں پی ویٹل اریگیشن سے فصلیں کاشت ہو رہی ہیں، سیاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں، خلاؤں میں ہم نے گھونسلے بنا رکھے ہیں۔
بڑی بڑی ٹیلی سکوپوں سے قدرت کی تخلیق کردہ کہکشاؤں کی جاسوسی کر رہے ہیں۔ مادہ کے سب سے چھوٹے زرّے جسے ایٹم کہا جاتا ہے، اب وہ چھوٹا نہیں رہا اس کے نیوٹران ، پروٹان سے بھی چھوٹے زرّے ڈھونڈ لیے ہیں،۔
حیران کُن فزکس میں ایک اور عجوبہ کوآنٹم مکینکس کے اضافے نے ہمارے نقطہء نظر اور حقیقت کو سمجھنے کے انداز یکسر بدل کر رکھ دیے، اب زرّے محض زرّے نہیں بلکہ روشنی کی لہریں یعنی فوٹون بن گئے، فوٹونز کی کیفیت کیا ہو گئی کوئی نہیں جانتا، یعنی حقیقت کیا ہے کسی کو معلوم نہیں، مصنوعی ذہانت نے انسانوں کے دماغوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔
وہ کام جو کئی دماغ مل کرکرتے تھے اب ایک بٹن کی دوری پر ہیں۔ کوئی لمبا بلاگ لکھنا ہو یا کوئی سکرپٹ، خیالوں میں موجود تصویر کو بنا قلم چلائے، بنا کسی سافٹ وئیر کے، حقیقت میں بدل دیتی ہے یہ مصنوعی ذہانت۔۔۔۔
ہم انسان کہاں سے نکل کر کہاں آ گئے ہیں، ہم کیا تھے کیا ہو گئے ہیں۔ ہم کہاں تک جائیں گے، یہ ہم بھی نہیں جانتے، ارتقاء کے مخالف انسان اس مسلمہ حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتے کہ انسان ہر بدلتے دن کے ساتھ ارتقائی عمل سے گزرتا ہوا ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ انسان نے زیرو سے شروع کیا، جب انسان نے ہوش سنبھالا تو اس کے پاس تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے تھے نہ رہنے کے لیے گھر! وہ غاروں میں رہتا، پتوں سے تن ڈھانپتا،مگر آج انسان فلک شگاف عمارات میں رہتا ہے جہاں ہر طرز کی آسائش میسر ہے۔ آج تن ڈھانپنے کے لیے نت نئے ڈیزائن کے ملبوسات میسر ہیں۔
آج ہم کہاں ہیں اور کل ہم کہاں تھے، یہ دو باتیں تیسری بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ کل ہم کہاں ہوں گے۔۔
اس کے باوجود آنے والے کل کا تصور کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ شاید انسان جس تیزی سے بدل رہا ہے، اگر اس کی رفتار یہی رہی تو ہم زمین سے نکل کر الگ الگ سیّاروں کو اپنا مسکن بنا لیں گے اور پھر وہاں بھی ایسے ہی زیرو سے شروع کرتے ہوئے ترقی کی منازل طے کرتے کرتے پھر الگ سیّارے اور پھر کسی اور سیّارے پر۔۔۔ سیّارے ہماری گردِ راہ ہوں گے۔۔۔!
”ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تُو ہے“
—♦—

اسعد بشیر ، آزاد جموں و کشمیر کے ضلع کوٹلی سے تعلق رکھتے ہیں، آج کل جامعہ کوٹلی آزاد جموں و کشمیر سے بائیو ٹیکنالوجی میں ایم فل کر رہےہیں اوراسی یونیورسٹی میں ہی شعبہ ہیلتھ سائنسز میں بطور وزیٹنگ لیکچرر پڑھا رہے ہیں۔