گزشتہ رات ایک غزل سن رہا تھا اتفاق سے وہ غزل مخدوم محی الدین کی غزل تھی جسے را دھکا چوپڑا نے گایا؛
آپکی یاد آتی رہی رات بھر
چشم نم مسکراتی رہی رات بھر
رات پھر درد کی شمع جلتی رہی
غم کی لو تھرتھراتی رہی رات بھر
کوئی دیوانہ گلیوں میں پھرتا رہا
کوئی آواز آتی رہی رات بھر
اتفاق سے صبح مخدوم محی الدین کی ایک پرانی پوسٹ فیس بک والوں نے نشر مقرر کے طور پر دوبارہ شئیر کی سوچا اس بڑے شاعر اور انقلابی پر کچھ لکھنا چاہیے کل ہی ایک دوست سے بلوغت پے بات ہو رہی تھی ہمارے ہاں بلوغت کا مسئلہ بھی دوسرے مسائل کی طرح بہت اہم مسئلہ ہے جو شاعروں ادیبوں میں کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے لیکن یہاں مسئلہ ہر معاملے کی طرح اور بھی الٹ ہے ہمارے ہاں زندگی کے گونا گوں اور معاملات کی طرح شاعر و ادیب بھی اپنے سے بڑا تو دور کی بات اپنے برابر بھی کسی دوسرے شاعر یا ادیب کو نہیں سمجھتے لیکن پھر بھی ہم اپنا درد بھرا ساز بجاتے رہیں گے لکھتے گاتے گنگناتے رہیں گے۔
مخدوم محی الدین جن کا جنم 1908 میں متحدہ ہندوستان کے ضلع میدک میں ہوا جو حیدآباد دکن میں واقع ہے۔ مخدوم کا اصل نام ابو سعید مخدوم محی الدین خزری تھا۔ کم عمری میں ہی باپ کا انتقال ہو گیا اور ماں نے دوسری شادی کر لی لہٰذا ان کی پرورش ان کے چچا نے کی۔ مخدوم اس وقت بہت کم عمر تھے ان کو یہ بھی یاد نا تھا کہ ان کی ماں زندہ ہے یا نہیں ہے۔ وہ جب جواں ہوئے تو معلوم ہوا کہ ان کی ماں زندہ ہے تو ان کو اس کا بڑا دکھ ہوا کیونکہ مخدوم نے اپنے بچپن میں بہت دکھ اٹھائے اور ماں کی ممتا سے محروم رہے۔
سیماب دشی تشنہ لبی باخبری ہے
اس دشت میں گر رخت سفر ہے تو یہی ہے۔
مخدوم نے اپنی تعلیم بھی بہت کھٹن حالات میں حاصل کی اسی کرب اسی درد نے مخدوم کو کچھ کرنے کا شعور دیا مخدوم فقط شاعر ہی نا تھے بلکہ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور انقلابی بھی تھے 1940میں وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے اسی دور میں مخدوم نے 1943ء میں حیدآباد میں راج بہادر گوڈکے، کے ایل مہندر، حیدر حسن، جواد رضوی اور غلام حیدر کے ساتھ مل کر انجمن ترقی پسند مصنفین حیدر آباد کی بنیاد ڈالی وہ شاعر شباب بھی تھے اور شاعرِ انقلاب بھی لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ مخدوم محی الدین کی شاعری اور جدوجہد کو ہمارے نقادوں، ادیبوں اور انقلابی دانشوروں نے وہ مقام نہیں دیا جو ان کا حق تھا۔ اگرچہ اس میں شک نہیں کہ ادبی دنیا میں مخدوم کی غزل ایک کارنامے کے بعد کی پیداوار ہے لیکن ان کی ابتدائی غزلوں اور نظموں میں جو بے باکی ہے وہ دراصل ان کا اپنا ہی ایک وژن ہے اور یہ وژن اسلوبِ حیات کا کام کر رہا ہے۔
حیات لے کے چلو کائنات لے کہ چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کہ چلو
یا اس نظم میں جیسا کہ کہا گیا؛
جانے والے سپاہی سے پوچھو
وہ کہاں جارہا ہے
کون دکھیا ہے جو گارانی ہے
بھوکے بچے کو بہلا رہی ہے
لاش جلنے کی بو آرہی ہے
زندگی ہے کہ چلا رہی ہے
جانے والے سپاہی سے پوچھو
وہ کہاں جارہا ہے
دراصل مخدوم نے جدید اسالیب اور جدید طرزِ احساس سے روشنی اخذ کر کے اپنے شرار کو شعلوں میں بدل دیا اور اپنے معاصرین کی اسلوبیاتی تبدیلی جدید تر نسلوں کے نئے تخلیقی روّیوں کے ساتھ ساتھ اپنے فن کو بھی بدل دیا جس طرح کہ فیض، فراق، گورکھپوری، جان نثار اختر اور دوسرے شعراء کی مشترک تعمیم تھی انہوں نے ہجر کے تجربوں کو بڑی فنکاری سے ازسرِنو دریافت کیا جس طرح فراق کی فضا سازی میں بھی پایا جاتا ہے۔ ہر چند وہ مجروح سے بھی متاثر ہوئے لیکن ان کی زبان زیادہ سیال اور رواں دواں ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں ان کی اپنی واردات چھلکتی ہے اور ایک المناکی کی فضا غزل پے چھا جاتی ہے۔
اس شہر میں اک آہوئے خوش چشم سے ہم کو
کم کم ہی سہی نسبت پیمانہ رہی ہے
بزم سے دور وہ گاتا رہا تنہا تنہا
سو گیا ساز پے سر رکھ کے سحر سے پہلے
مخدوم نے 1946میں جب پارٹی کے طور پر یوم استحصال بنانے کا اعلان ہوا تو بے شمار مصائب کی وجہ سے روپوشی اختیار کر لی جو 1956تک رہی اس کے بعد وہ قانون ساز کونسل کے ممبر بنے اور انہوں نے چین، روس، یورپ، امریکہ اور افریکہ کا دورہ کیا۔ 25اگست 1969کو انکا انتقال ہوا اور وہ حیدرآباد شاہ خاموش کے احاطہ میں دفن ہیں۔
کوئی جلتا ہی نہیں کوئی پگھلتا ہی نہیں
موم بن جاؤ پگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے
کوہِ غم گراں اور گراں اور گراں
غم زود تیشے کو چمکاؤ کہ کچھ رات کٹے
—♦—
ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
گزشتہ رات ایک غزل سن رہا تھا اتفاق سے وہ غزل مخدوم محی الدین کی غزل تھی جسے را دھکا چوپڑا نے گایا؛
آپکی یاد آتی رہی رات بھر
چشم نم مسکراتی رہی رات بھر
رات پھر درد کی شمع جلتی رہی
غم کی لو تھرتھراتی رہی رات بھر
کوئی دیوانہ گلیوں میں پھرتا رہا
کوئی آواز آتی رہی رات بھر
اتفاق سے صبح مخدوم محی الدین کی ایک پرانی پوسٹ فیس بک والوں نے نشر مقرر کے طور پر دوبارہ شئیر کی سوچا اس بڑے شاعر اور انقلابی پر کچھ لکھنا چاہیے کل ہی ایک دوست سے بلوغت پے بات ہو رہی تھی ہمارے ہاں بلوغت کا مسئلہ بھی دوسرے مسائل کی طرح بہت اہم مسئلہ ہے جو شاعروں ادیبوں میں کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے لیکن یہاں مسئلہ ہر معاملے کی طرح اور بھی الٹ ہے ہمارے ہاں زندگی کے گونا گوں اور معاملات کی طرح شاعر و ادیب بھی اپنے سے بڑا تو دور کی بات اپنے برابر بھی کسی دوسرے شاعر یا ادیب کو نہیں سمجھتے لیکن پھر بھی ہم اپنا درد بھرا ساز بجاتے رہیں گے لکھتے گاتے گنگناتے رہیں گے۔
مخدوم محی الدین جن کا جنم 1908 میں متحدہ ہندوستان کے ضلع میدک میں ہوا جو حیدآباد دکن میں واقع ہے۔ مخدوم کا اصل نام ابو سعید مخدوم محی الدین خزری تھا۔ کم عمری میں ہی باپ کا انتقال ہو گیا اور ماں نے دوسری شادی کر لی لہٰذا ان کی پرورش ان کے چچا نے کی۔ مخدوم اس وقت بہت کم عمر تھے ان کو یہ بھی یاد نا تھا کہ ان کی ماں زندہ ہے یا نہیں ہے۔ وہ جب جواں ہوئے تو معلوم ہوا کہ ان کی ماں زندہ ہے تو ان کو اس کا بڑا دکھ ہوا کیونکہ مخدوم نے اپنے بچپن میں بہت دکھ اٹھائے اور ماں کی ممتا سے محروم رہے۔
سیماب دشی تشنہ لبی باخبری ہے
اس دشت میں گر رخت سفر ہے تو یہی ہے۔
مخدوم نے اپنی تعلیم بھی بہت کھٹن حالات میں حاصل کی اسی کرب اسی درد نے مخدوم کو کچھ کرنے کا شعور دیا مخدوم فقط شاعر ہی نا تھے بلکہ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور انقلابی بھی تھے 1940میں وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے اسی دور میں مخدوم نے 1943ء میں حیدآباد میں راج بہادر گوڈکے، کے ایل مہندر، حیدر حسن، جواد رضوی اور غلام حیدر کے ساتھ مل کر انجمن ترقی پسند مصنفین حیدر آباد کی بنیاد ڈالی وہ شاعر شباب بھی تھے اور شاعرِ انقلاب بھی لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ مخدوم محی الدین کی شاعری اور جدوجہد کو ہمارے نقادوں، ادیبوں اور انقلابی دانشوروں نے وہ مقام نہیں دیا جو ان کا حق تھا۔ اگرچہ اس میں شک نہیں کہ ادبی دنیا میں مخدوم کی غزل ایک کارنامے کے بعد کی پیداوار ہے لیکن ان کی ابتدائی غزلوں اور نظموں میں جو بے باکی ہے وہ دراصل ان کا اپنا ہی ایک وژن ہے اور یہ وژن اسلوبِ حیات کا کام کر رہا ہے۔
حیات لے کے چلو کائنات لے کہ چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کہ چلو
یا اس نظم میں جیسا کہ کہا گیا؛
جانے والے سپاہی سے پوچھو
وہ کہاں جارہا ہے
کون دکھیا ہے جو گارانی ہے
بھوکے بچے کو بہلا رہی ہے
لاش جلنے کی بو آرہی ہے
زندگی ہے کہ چلا رہی ہے
جانے والے سپاہی سے پوچھو
وہ کہاں جارہا ہے
دراصل مخدوم نے جدید اسالیب اور جدید طرزِ احساس سے روشنی اخذ کر کے اپنے شرار کو شعلوں میں بدل دیا اور اپنے معاصرین کی اسلوبیاتی تبدیلی جدید تر نسلوں کے نئے تخلیقی روّیوں کے ساتھ ساتھ اپنے فن کو بھی بدل دیا جس طرح کہ فیض، فراق، گورکھپوری، جان نثار اختر اور دوسرے شعراء کی مشترک تعمیم تھی انہوں نے ہجر کے تجربوں کو بڑی فنکاری سے ازسرِنو دریافت کیا جس طرح فراق کی فضا سازی میں بھی پایا جاتا ہے۔ ہر چند وہ مجروح سے بھی متاثر ہوئے لیکن ان کی زبان زیادہ سیال اور رواں دواں ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں ان کی اپنی واردات چھلکتی ہے اور ایک المناکی کی فضا غزل پے چھا جاتی ہے۔
اس شہر میں اک آہوئے خوش چشم سے ہم کو
کم کم ہی سہی نسبت پیمانہ رہی ہے
بزم سے دور وہ گاتا رہا تنہا تنہا
سو گیا ساز پے سر رکھ کے سحر سے پہلے
مخدوم نے 1946میں جب پارٹی کے طور پر یوم استحصال بنانے کا اعلان ہوا تو بے شمار مصائب کی وجہ سے روپوشی اختیار کر لی جو 1956تک رہی اس کے بعد وہ قانون ساز کونسل کے ممبر بنے اور انہوں نے چین، روس، یورپ، امریکہ اور افریکہ کا دورہ کیا۔ 25اگست 1969کو انکا انتقال ہوا اور وہ حیدرآباد شاہ خاموش کے احاطہ میں دفن ہیں۔
کوئی جلتا ہی نہیں کوئی پگھلتا ہی نہیں
موم بن جاؤ پگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے
کوہِ غم گراں اور گراں اور گراں
غم زود تیشے کو چمکاؤ کہ کچھ رات کٹے
—♦—
ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔