آج ہم آپ دوستوں کے سامنے ایک سوال رکھنے جا رہے ہیں ۔ سوال اس طرح ہے کہ شاید ہماری گھٹی میں ایک بات بہت پختگی سے بیٹھ گئی ہے۔ کہ ہماری زندگی، معاشرے یا ملک میں ہونے والا ہر واقعہ کسی نہ کسی سازش کا شاخسانہ ہے ۔ ہم نے اس outlook کو اپنا وطرہ بنا لیا ہے ۔جب ہم نجی یا سماجی زندگی میں ہونے والی ہر موومنٹ/ حرکت یا واقعہ کو سازشی تھیوری کی نظر سے دیکھنے کی عادت بنا لیتے ہیں ۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے ، کہ ہماری objectivity کو بری طرح ضعف پہنچتا ہے ۔ مطلب واقعات / تبدیلی کا معروضی تجزیہ نہیں کر پاتے یا کر پانے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں ۔ حقائق نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ subjectivity غالب آ جاتی ہے ۔ ہم موضوعی نتائج اخذ کرنے لگتے ہیں ۔ انہی کی بنیاد پر اپنی لانگ اور شارٹ ٹرم پالیسیاں بناتے ہیں۔
ہم یہ بلکل نہیں کہہ رہے کہ ہماری ملک ، معاشرے یا دنیا میں vested interest رکھنے والے حکمران طبقات ، سامراجی عمل دخل ، سول ، ملڑی اسٹیبلشمنٹ عوام کے مفادات کے خلاف کام یا سازشیں نہیں کرتے ، بلکل کرتے ہیں ۔ ہم صرف کہنا یہ چاہتے ہیں ، کہ کچھ معروضی حالات یا ہماری اپنی اندرونی، موضوعی کمزوریاں بھی ہوتی ہیں ۔ جن پر ہم ہر وقت سازشی تھیوریوں میں الجھے رہنے کی وجہ سے غوروفکر نہ کر پانےسے درست راستہ، طریقہ کار اختیار نہیں کر پاتے ۔ نتیجتاً ناکامیاں ہمارا مقدر ٹھہرتی ہیں ۔ اسے ہمارا سوال یا رائے سمجھیں ۔ آپ ساتھیوں کا نقطۂ نظر درکار ہے ۔
ہم نے ”سازشی تھیوریاں “ کو ساتھیوں کے سامنے سوال کے طور پر رکھا تھا ۔ حسب معمول کوئی قابل ذکر اضافہ contribution سامنے نہیں آیا ۔ سوال کا مختصر سیاق و سباق دوستوں کی سہولت کی غرض سے ساتھ ہی پیش کر دیا تھا ۔ جب کوئی اضافہ سامنے نہ آیا تو پنجابی کی ایک کہاوت یاد آ گئی ۔ کہ” جیہڑا بولے اوہی کنڈا کھولے “ مطلب دروازہ کھٹکنے پرجو بولے ، وہی کھولے ۔ ہمارے پاس اب زیادہ کچھ کہنے کو تو نہیں ہے ۔ پھر بھی سوال اٹھانے کی کچھ سزا تو بھگتنی پڑے گی ۔ لہذا حاضر ہیں ۔
سوال اٹھانے کے پیچھے سوچ یہ تھی کہ
پاکستان یا دیگر پچھڑے ہوئے معاشروں میں سازشی تھیوریوں پر عوام کا بڑے پیمانے پراندھا اعتقاد سماجی، سیاسی ومعاشی عمل، تبدیلیوں اور معروضی حالات کے سائنسی مطالعے اور تجزیے کے مقبول عام ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔
یہ روش کوئی نئی نہیں بلکہ تقسیم برصغیر سے قبل ایک مشہور سیاسی ومذہبی راہنما کا یہ جملہ زبان ذد عام رہا ہے ، کہ اگر سمندر کی تہہ میں دو مچھلیاں بھی آپس میں لڑتی ہیں تو مچھلیوں کی اس لڑائی کے پیچھے بھی کوئی خفیہ ہاتھ ہوتا ہے۔
گوکہ یہ حقیقت ہے کہ مفاداتی و فشاری گروہ مختلف نوعیت ، اقسام سیاسی سماجی اور معاشی حرکیات و تغیرات میں اعلانیہ خفیہ دخل اندازی کرتے رہتے ہیں ۔ ان عناصر کی یہ مداخلت اپنے مقاصد ، مفادات و مراعات کے حصول کے لیے معروضی حالات کے اندر مخصوص گروہی ، طبقاتی مفادات و ایجنڈے کی تکمیل کی کوشش ہوتی ہے ۔ یہ معروضی حالات کے اندر کچھ موضوعی عناصر کی دخل اندازی کہلاتی ہے ۔ اس دخل کی کامیابی یا ناکامی کی بھی وجوہات اور اثرات ہوتے ہیں ۔ جن کے سائنسی مطالعے اور تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
سازشی تھیوریوں پر اندھا یقین سماجی و سیاسی علوم کی ترقی میں ایک رکاوٹ پیدا کرتا ہے ۔ ساتھ سیاسی کارکنوں میں سماجی تبدیلی کی سیاست سے بیگانگی کے روّیے کو بھی جنم دیتا ہے ۔
اب یہاں سے بالکل ایک نیا برابر کا وزن رکھنے والا موضوع subject احساس بیگانگی sense of alienation شروع ہو جاتا ہے ۔ اس سے ہمارے لیئے دو مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں ۔ پہلی اس موضوع پرقبل ازیں ہم دو ایک بار لکھ چکے ہیں ۔ تکرار مناسب نہیں ہے ۔ دوسری برابر کے دو مختلف موضوعات کا ایک ہی تحریر میں سمونا پڑھنے والے کے لیئے مشکلات پیدا کرنا ہے ۔ پھر بھی عام قاری کی سہولت کے لئے کچھ وضاحتی فقرے لکھنے پڑیں گے ۔
بیگانگی کے رویے کا مطلب سیاسی کارکن سماجی انقلابی تبدیلی یا سماج سدھار کے عمل سے مایوس ہو کر لاتعلقی اختیار کر لیتا ہے ۔ اپنے عمل کی ملکیت اور اعتماد سے دستبردار ہو جاتا ہے ۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ تبدیلی تو کسی اور کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ یہ کوئی اور کون ہے ۔ ہماری حکمران اشرافیہ ، جسے عام طور پرہم بورثوازی بھی لکھتے رہتے ہیں۔ اس حکمران اشرافیہ میں وسائل پیداوار پرقابض طبقات قبائلی سردار ، جاگیردار ، اجارہ دار سرمایہ دار، سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہے ۔ یہ ایک الگ سوال ہے کہ ان میں بالادست سٹیک ہولڈر کون ہے ۔ اس پر پھر کبھی سہی ۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
آج ہم آپ دوستوں کے سامنے ایک سوال رکھنے جا رہے ہیں ۔ سوال اس طرح ہے کہ شاید ہماری گھٹی میں ایک بات بہت پختگی سے بیٹھ گئی ہے۔ کہ ہماری زندگی، معاشرے یا ملک میں ہونے والا ہر واقعہ کسی نہ کسی سازش کا شاخسانہ ہے ۔ ہم نے اس outlook کو اپنا وطرہ بنا لیا ہے ۔جب ہم نجی یا سماجی زندگی میں ہونے والی ہر موومنٹ/ حرکت یا واقعہ کو سازشی تھیوری کی نظر سے دیکھنے کی عادت بنا لیتے ہیں ۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے ، کہ ہماری objectivity کو بری طرح ضعف پہنچتا ہے ۔ مطلب واقعات / تبدیلی کا معروضی تجزیہ نہیں کر پاتے یا کر پانے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں ۔ حقائق نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ subjectivity غالب آ جاتی ہے ۔ ہم موضوعی نتائج اخذ کرنے لگتے ہیں ۔ انہی کی بنیاد پر اپنی لانگ اور شارٹ ٹرم پالیسیاں بناتے ہیں۔
ہم یہ بلکل نہیں کہہ رہے کہ ہماری ملک ، معاشرے یا دنیا میں vested interest رکھنے والے حکمران طبقات ، سامراجی عمل دخل ، سول ، ملڑی اسٹیبلشمنٹ عوام کے مفادات کے خلاف کام یا سازشیں نہیں کرتے ، بلکل کرتے ہیں ۔ ہم صرف کہنا یہ چاہتے ہیں ، کہ کچھ معروضی حالات یا ہماری اپنی اندرونی، موضوعی کمزوریاں بھی ہوتی ہیں ۔ جن پر ہم ہر وقت سازشی تھیوریوں میں الجھے رہنے کی وجہ سے غوروفکر نہ کر پانےسے درست راستہ، طریقہ کار اختیار نہیں کر پاتے ۔ نتیجتاً ناکامیاں ہمارا مقدر ٹھہرتی ہیں ۔ اسے ہمارا سوال یا رائے سمجھیں ۔ آپ ساتھیوں کا نقطۂ نظر درکار ہے ۔
ہم نے ”سازشی تھیوریاں “ کو ساتھیوں کے سامنے سوال کے طور پر رکھا تھا ۔ حسب معمول کوئی قابل ذکر اضافہ contribution سامنے نہیں آیا ۔ سوال کا مختصر سیاق و سباق دوستوں کی سہولت کی غرض سے ساتھ ہی پیش کر دیا تھا ۔ جب کوئی اضافہ سامنے نہ آیا تو پنجابی کی ایک کہاوت یاد آ گئی ۔ کہ” جیہڑا بولے اوہی کنڈا کھولے “ مطلب دروازہ کھٹکنے پرجو بولے ، وہی کھولے ۔ ہمارے پاس اب زیادہ کچھ کہنے کو تو نہیں ہے ۔ پھر بھی سوال اٹھانے کی کچھ سزا تو بھگتنی پڑے گی ۔ لہذا حاضر ہیں ۔
سوال اٹھانے کے پیچھے سوچ یہ تھی کہ
پاکستان یا دیگر پچھڑے ہوئے معاشروں میں سازشی تھیوریوں پر عوام کا بڑے پیمانے پراندھا اعتقاد سماجی، سیاسی ومعاشی عمل، تبدیلیوں اور معروضی حالات کے سائنسی مطالعے اور تجزیے کے مقبول عام ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔
یہ روش کوئی نئی نہیں بلکہ تقسیم برصغیر سے قبل ایک مشہور سیاسی ومذہبی راہنما کا یہ جملہ زبان ذد عام رہا ہے ، کہ اگر سمندر کی تہہ میں دو مچھلیاں بھی آپس میں لڑتی ہیں تو مچھلیوں کی اس لڑائی کے پیچھے بھی کوئی خفیہ ہاتھ ہوتا ہے۔
گوکہ یہ حقیقت ہے کہ مفاداتی و فشاری گروہ مختلف نوعیت ، اقسام سیاسی سماجی اور معاشی حرکیات و تغیرات میں اعلانیہ خفیہ دخل اندازی کرتے رہتے ہیں ۔ ان عناصر کی یہ مداخلت اپنے مقاصد ، مفادات و مراعات کے حصول کے لیے معروضی حالات کے اندر مخصوص گروہی ، طبقاتی مفادات و ایجنڈے کی تکمیل کی کوشش ہوتی ہے ۔ یہ معروضی حالات کے اندر کچھ موضوعی عناصر کی دخل اندازی کہلاتی ہے ۔ اس دخل کی کامیابی یا ناکامی کی بھی وجوہات اور اثرات ہوتے ہیں ۔ جن کے سائنسی مطالعے اور تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
سازشی تھیوریوں پر اندھا یقین سماجی و سیاسی علوم کی ترقی میں ایک رکاوٹ پیدا کرتا ہے ۔ ساتھ سیاسی کارکنوں میں سماجی تبدیلی کی سیاست سے بیگانگی کے روّیے کو بھی جنم دیتا ہے ۔
اب یہاں سے بالکل ایک نیا برابر کا وزن رکھنے والا موضوع subject احساس بیگانگی sense of alienation شروع ہو جاتا ہے ۔ اس سے ہمارے لیئے دو مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں ۔ پہلی اس موضوع پرقبل ازیں ہم دو ایک بار لکھ چکے ہیں ۔ تکرار مناسب نہیں ہے ۔ دوسری برابر کے دو مختلف موضوعات کا ایک ہی تحریر میں سمونا پڑھنے والے کے لیئے مشکلات پیدا کرنا ہے ۔ پھر بھی عام قاری کی سہولت کے لئے کچھ وضاحتی فقرے لکھنے پڑیں گے ۔
بیگانگی کے رویے کا مطلب سیاسی کارکن سماجی انقلابی تبدیلی یا سماج سدھار کے عمل سے مایوس ہو کر لاتعلقی اختیار کر لیتا ہے ۔ اپنے عمل کی ملکیت اور اعتماد سے دستبردار ہو جاتا ہے ۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ تبدیلی تو کسی اور کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ یہ کوئی اور کون ہے ۔ ہماری حکمران اشرافیہ ، جسے عام طور پرہم بورثوازی بھی لکھتے رہتے ہیں۔ اس حکمران اشرافیہ میں وسائل پیداوار پرقابض طبقات قبائلی سردار ، جاگیردار ، اجارہ دار سرمایہ دار، سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہے ۔ یہ ایک الگ سوال ہے کہ ان میں بالادست سٹیک ہولڈر کون ہے ۔ اس پر پھر کبھی سہی ۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔