• Latest

” سازشی تھیوریاں“  – تحریر: رانا اعظم

فروری 20, 2024

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
منگل, مئی 20, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home home مضامین

” سازشی تھیوریاں“  – تحریر: رانا اعظم

سازشی تھیوریوں پر اندھا یقین سماجی و سیاسی علوم کی ترقی میں ایک رکاوٹ پیدا کرتا ہے ۔ ساتھ سیاسی کارکنوں میں سماجی تبدیلی کی سیاست سے بیگانگی کے روّیے کو بھی جنم دیتا ہے ۔

للکار نیوز by للکار نیوز
فروری 20, 2024
in مضامین
A A
0

 آج ہم آپ دوستوں کے سامنے ایک سوال رکھنے جا رہے ہیں ۔ سوال اس طرح ہے کہ شاید ہماری گھٹی میں ایک بات بہت پختگی سے بیٹھ گئی ہے۔ کہ ہماری زندگی،  معاشرے یا ملک میں  ہونے والا ہر واقعہ کسی نہ کسی سازش کا شاخسانہ ہے ۔ ہم نے اس outlook  کو اپنا وطرہ  بنا لیا ہے ۔جب ہم نجی یا سماجی زندگی میں ہونے والی ہر موومنٹ/ حرکت  یا واقعہ کو سازشی تھیوری کی نظر سے  دیکھنے کی عادت بنا لیتے ہیں ۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے ، کہ ہماری  objectivity کو بری طرح  ضعف پہنچتا ہے ۔ مطلب واقعات / تبدیلی کا معروضی  تجزیہ نہیں کر پاتے یا کر پانے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں ۔ حقائق نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ subjectivity غالب آ جاتی ہے ۔ ہم موضوعی نتائج اخذ کرنے لگتے ہیں ۔  انہی کی بنیاد پر  اپنی لانگ اور شارٹ ٹرم پالیسیاں بناتے ہیں۔

ہم یہ بلکل نہیں کہہ رہے کہ ہماری  ملک ، معاشرے  یا دنیا میں vested interest رکھنے والے حکمران طبقات ،  سامراجی عمل دخل ، سول ، ملڑی اسٹیبلشمنٹ عوام کے مفادات کے خلاف کام یا سازشیں نہیں کرتے ، بلکل کرتے ہیں ۔ ہم صرف کہنا یہ چاہتے ہیں ، کہ کچھ معروضی حالات یا ہماری اپنی اندرونی،  موضوعی کمزوریاں بھی ہوتی ہیں ۔ جن پر ہم ہر وقت سازشی تھیوریوں میں الجھے رہنے کی وجہ سے غوروفکر نہ کر پانےسے درست راستہ،  طریقہ کار اختیار نہیں کر  پاتے ۔ نتیجتاً ناکامیاں ہمارا مقدر ٹھہرتی ہیں ۔  اسے ہمارا سوال یا رائے سمجھیں ۔ آپ ساتھیوں کا نقطۂ نظر درکار ہے ۔

ہم نے  ”سازشی تھیوریاں “ کو ساتھیوں کے سامنے سوال کے طور پر رکھا تھا ۔ حسب معمول کوئی قابل ذکر اضافہ contribution سامنے نہیں آیا ۔ سوال کا مختصر سیاق و سباق دوستوں کی سہولت کی غرض سے ساتھ ہی پیش کر دیا تھا ۔ جب کوئی اضافہ سامنے نہ آیا تو پنجابی کی ایک کہاوت یاد آ گئی ۔ کہ” جیہڑا بولے اوہی کنڈا کھولے “ مطلب دروازہ کھٹکنے پرجو بولے ، وہی کھولے ۔ ہمارے پاس اب زیادہ کچھ کہنے کو تو نہیں ہے ۔ پھر بھی سوال اٹھانے کی کچھ سزا تو بھگتنی پڑے گی ۔ لہذا حاضر ہیں ۔

سوال اٹھانے کے پیچھے سوچ یہ تھی  کہ

پاکستان یا دیگر پچھڑے ہوئے معاشروں میں سازشی تھیوریوں پر عوام کا بڑے پیمانے پراندھا اعتقاد سماجی،   سیاسی ومعاشی عمل، تبدیلیوں اور معروضی حالات کے سائنسی مطالعے اور تجزیے کے مقبول عام ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔

یہ روش کوئی نئی نہیں بلکہ تقسیم برصغیر سے قبل ایک مشہور سیاسی ومذہبی راہنما کا یہ جملہ زبان ذد عام رہا ہے ، کہ اگر سمندر کی تہہ میں دو مچھلیاں بھی آپس میں لڑتی ہیں تو مچھلیوں کی اس لڑائی کے پیچھے بھی کوئی خفیہ ہاتھ ہوتا ہے۔

گوکہ یہ حقیقت ہے کہ مفاداتی و فشاری گروہ مختلف نوعیت ، اقسام سیاسی سماجی اور معاشی حرکیات و تغیرات میں اعلانیہ خفیہ دخل اندازی کرتے رہتے ہیں ۔ ان عناصر کی یہ مداخلت اپنے مقاصد ، مفادات و مراعات کے حصول کے لیے معروضی حالات کے اندر مخصوص گروہی ، طبقاتی مفادات و ایجنڈے کی تکمیل کی کوشش ہوتی ہے ۔ یہ معروضی حالات کے اندر کچھ موضوعی عناصر کی دخل اندازی کہلاتی ہے ۔ اس دخل کی کامیابی یا ناکامی کی بھی وجوہات اور اثرات ہوتے ہیں ۔ جن کے سائنسی مطالعے اور تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے ۔

سازشی تھیوریوں پر اندھا یقین سماجی و سیاسی علوم کی ترقی میں ایک رکاوٹ پیدا کرتا ہے ۔ ساتھ سیاسی کارکنوں میں سماجی تبدیلی کی سیاست سے بیگانگی کے روّیے کو بھی جنم دیتا ہے ۔

اب یہاں سے بالکل ایک نیا برابر کا وزن رکھنے والا موضوع subject احساس بیگانگی sense of alienation شروع ہو جاتا ہے ۔ اس سے ہمارے لیئے دو مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں ۔ پہلی اس موضوع پرقبل ازیں ہم دو ایک بار لکھ چکے ہیں ۔ تکرار مناسب نہیں ہے ۔ دوسری برابر کے دو مختلف موضوعات کا ایک ہی تحریر میں سمونا پڑھنے والے کے لیئے مشکلات پیدا کرنا ہے ۔ پھر بھی عام قاری کی سہولت کے لئے کچھ وضاحتی فقرے لکھنے پڑیں گے ۔

بیگانگی کے رویے کا مطلب سیاسی کارکن سماجی انقلابی تبدیلی یا سماج سدھار کے عمل سے مایوس ہو کر لاتعلقی اختیار کر لیتا ہے ۔ اپنے عمل کی ملکیت اور اعتماد سے دستبردار ہو جاتا ہے ۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ تبدیلی تو کسی اور کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ یہ کوئی اور کون ہے ۔ ہماری حکمران اشرافیہ ، جسے عام طور پرہم بورثوازی بھی لکھتے رہتے ہیں۔ اس حکمران اشرافیہ میں وسائل پیداوار پرقابض طبقات قبائلی سردار ، جاگیردار ، اجارہ دار سرمایہ دار، سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہے ۔ یہ ایک الگ سوال ہے کہ ان میں بالادست سٹیک ہولڈر کون ہے ۔ اس پر پھر کبھی سہی ۔

 —♦—

Azam
مصنف کے بارے

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">

 آج ہم آپ دوستوں کے سامنے ایک سوال رکھنے جا رہے ہیں ۔ سوال اس طرح ہے کہ شاید ہماری گھٹی میں ایک بات بہت پختگی سے بیٹھ گئی ہے۔ کہ ہماری زندگی،  معاشرے یا ملک میں  ہونے والا ہر واقعہ کسی نہ کسی سازش کا شاخسانہ ہے ۔ ہم نے اس outlook  کو اپنا وطرہ  بنا لیا ہے ۔جب ہم نجی یا سماجی زندگی میں ہونے والی ہر موومنٹ/ حرکت  یا واقعہ کو سازشی تھیوری کی نظر سے  دیکھنے کی عادت بنا لیتے ہیں ۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے ، کہ ہماری  objectivity کو بری طرح  ضعف پہنچتا ہے ۔ مطلب واقعات / تبدیلی کا معروضی  تجزیہ نہیں کر پاتے یا کر پانے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں ۔ حقائق نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ subjectivity غالب آ جاتی ہے ۔ ہم موضوعی نتائج اخذ کرنے لگتے ہیں ۔  انہی کی بنیاد پر  اپنی لانگ اور شارٹ ٹرم پالیسیاں بناتے ہیں۔

ہم یہ بلکل نہیں کہہ رہے کہ ہماری  ملک ، معاشرے  یا دنیا میں vested interest رکھنے والے حکمران طبقات ،  سامراجی عمل دخل ، سول ، ملڑی اسٹیبلشمنٹ عوام کے مفادات کے خلاف کام یا سازشیں نہیں کرتے ، بلکل کرتے ہیں ۔ ہم صرف کہنا یہ چاہتے ہیں ، کہ کچھ معروضی حالات یا ہماری اپنی اندرونی،  موضوعی کمزوریاں بھی ہوتی ہیں ۔ جن پر ہم ہر وقت سازشی تھیوریوں میں الجھے رہنے کی وجہ سے غوروفکر نہ کر پانےسے درست راستہ،  طریقہ کار اختیار نہیں کر  پاتے ۔ نتیجتاً ناکامیاں ہمارا مقدر ٹھہرتی ہیں ۔  اسے ہمارا سوال یا رائے سمجھیں ۔ آپ ساتھیوں کا نقطۂ نظر درکار ہے ۔

ہم نے  ”سازشی تھیوریاں “ کو ساتھیوں کے سامنے سوال کے طور پر رکھا تھا ۔ حسب معمول کوئی قابل ذکر اضافہ contribution سامنے نہیں آیا ۔ سوال کا مختصر سیاق و سباق دوستوں کی سہولت کی غرض سے ساتھ ہی پیش کر دیا تھا ۔ جب کوئی اضافہ سامنے نہ آیا تو پنجابی کی ایک کہاوت یاد آ گئی ۔ کہ” جیہڑا بولے اوہی کنڈا کھولے “ مطلب دروازہ کھٹکنے پرجو بولے ، وہی کھولے ۔ ہمارے پاس اب زیادہ کچھ کہنے کو تو نہیں ہے ۔ پھر بھی سوال اٹھانے کی کچھ سزا تو بھگتنی پڑے گی ۔ لہذا حاضر ہیں ۔

سوال اٹھانے کے پیچھے سوچ یہ تھی  کہ

پاکستان یا دیگر پچھڑے ہوئے معاشروں میں سازشی تھیوریوں پر عوام کا بڑے پیمانے پراندھا اعتقاد سماجی،   سیاسی ومعاشی عمل، تبدیلیوں اور معروضی حالات کے سائنسی مطالعے اور تجزیے کے مقبول عام ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔

یہ روش کوئی نئی نہیں بلکہ تقسیم برصغیر سے قبل ایک مشہور سیاسی ومذہبی راہنما کا یہ جملہ زبان ذد عام رہا ہے ، کہ اگر سمندر کی تہہ میں دو مچھلیاں بھی آپس میں لڑتی ہیں تو مچھلیوں کی اس لڑائی کے پیچھے بھی کوئی خفیہ ہاتھ ہوتا ہے۔

گوکہ یہ حقیقت ہے کہ مفاداتی و فشاری گروہ مختلف نوعیت ، اقسام سیاسی سماجی اور معاشی حرکیات و تغیرات میں اعلانیہ خفیہ دخل اندازی کرتے رہتے ہیں ۔ ان عناصر کی یہ مداخلت اپنے مقاصد ، مفادات و مراعات کے حصول کے لیے معروضی حالات کے اندر مخصوص گروہی ، طبقاتی مفادات و ایجنڈے کی تکمیل کی کوشش ہوتی ہے ۔ یہ معروضی حالات کے اندر کچھ موضوعی عناصر کی دخل اندازی کہلاتی ہے ۔ اس دخل کی کامیابی یا ناکامی کی بھی وجوہات اور اثرات ہوتے ہیں ۔ جن کے سائنسی مطالعے اور تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے ۔

سازشی تھیوریوں پر اندھا یقین سماجی و سیاسی علوم کی ترقی میں ایک رکاوٹ پیدا کرتا ہے ۔ ساتھ سیاسی کارکنوں میں سماجی تبدیلی کی سیاست سے بیگانگی کے روّیے کو بھی جنم دیتا ہے ۔

اب یہاں سے بالکل ایک نیا برابر کا وزن رکھنے والا موضوع subject احساس بیگانگی sense of alienation شروع ہو جاتا ہے ۔ اس سے ہمارے لیئے دو مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں ۔ پہلی اس موضوع پرقبل ازیں ہم دو ایک بار لکھ چکے ہیں ۔ تکرار مناسب نہیں ہے ۔ دوسری برابر کے دو مختلف موضوعات کا ایک ہی تحریر میں سمونا پڑھنے والے کے لیئے مشکلات پیدا کرنا ہے ۔ پھر بھی عام قاری کی سہولت کے لئے کچھ وضاحتی فقرے لکھنے پڑیں گے ۔

بیگانگی کے رویے کا مطلب سیاسی کارکن سماجی انقلابی تبدیلی یا سماج سدھار کے عمل سے مایوس ہو کر لاتعلقی اختیار کر لیتا ہے ۔ اپنے عمل کی ملکیت اور اعتماد سے دستبردار ہو جاتا ہے ۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ تبدیلی تو کسی اور کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ یہ کوئی اور کون ہے ۔ ہماری حکمران اشرافیہ ، جسے عام طور پرہم بورثوازی بھی لکھتے رہتے ہیں۔ اس حکمران اشرافیہ میں وسائل پیداوار پرقابض طبقات قبائلی سردار ، جاگیردار ، اجارہ دار سرمایہ دار، سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہے ۔ یہ ایک الگ سوال ہے کہ ان میں بالادست سٹیک ہولڈر کون ہے ۔ اس پر پھر کبھی سہی ۔

 —♦—

Azam
مصنف کے بارے

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Tags: Conspiracy TheoriesElite CaptureEstablishmentIdeasPoliticsSocietyStruggle
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

by للکار نیوز
اپریل 6, 2025
0
0

اگرچہ بظاہر استعماریت کا خاتمہ گزشتہ صدی میں ہو چکا ہے، لیکن حقیقت میں مغربی طاقتیں اپنی سابقہ نوآبادیات پر...

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

by للکار نیوز
اکتوبر 13, 2024
0
0

پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں...

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

by للکار نیوز
اکتوبر 5, 2024
1
0

پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد...

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

by للکار نیوز
ستمبر 27, 2024
0
0

پانچ دہائیوں تک ہندوستان کی قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برِصغیر کے نامور مارکسی مفکر، انقلابی تحریکوں...

بلوچ جدوجہد اور بلوچوں کی تاریخی حقیقت؟ – تحریر:ممتاز احمد آرزو

by للکار نیوز
ستمبر 26, 2024
0
0

ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا...

کالے کوئلے کو سفید بنانے والی ”دانائی“ اور ماحولیاتی سوال! – تحریر:بخشل تھلہو

by للکار نیوز
ستمبر 8, 2024
0
0

اس اگست کی دو تاریخ کو نصیر میمن صاحب نے اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ کی، جس میں...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.