نامور ترقی پسند ادیب، دانشور، ماہرِ قانون، انسانی حقوق کے علم بردار اور مارکسی راہنما عابد حسن منٹو کی خود نوشت سوانح ”قصہ پون صدی کا“ شائع ہوئی تو بُک کارنر جہلم کے روحِ رواں امر شاہد جی کی کاوش سے ہمیں برطانیہ پہنچ گئی۔ تین سو تینتالیس (343) صفحات اور 8 حصوں میں تقسیم منٹو جی کی اس کتاب کو موضوعات کی مناسبت سے 57 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں اُن کا خاندان، وکلا کی جمہوری جدوجہد اور قیادت، چند مشہور اور دوُر رس اثرات رکھنے والے فیصلے، اکیسویں صدی میں سوشلسٹ نظریات اور عملی سیاست کے خدوخال، سوویت یونین کا انہدام اور بعد کی دُنیا، سوشلزم اور انقلابات کا قومی اور بین الاقوامی تناظر میں تحزیہ، اُن کی سیاسی زندگی اور پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست ، ترقی پسند ادب، پاکستان کی نظریاتی تعمیر اور پاکستان کے سیاسی اِرتقا کے علاوہ اس کتاب میں کچھ دلچسپ اور قابلِ غور ضمیمہ جات بھی شامل کئے گئے ہیں، جن کا ہمارے ملک کی جمہوری بنیادوں اور حکمران اشرافیہ کا جمہور سے روگردانی کرنے کا گہرا رشتہ ہے۔ اس سے قبل ان کے تنقیدی مضامین پر مشتمل پہلی کتاب ”نقطۂ نظر“ 1987ء میں اور انقلابی جدوجہد پر مشتمل ”ہماری جنگ رہے گی“ 2016ء میں شائع ہو چکی ہیں۔
عابد حسن منٹو نے میٹرک کے بعد 48-1946ء میں گورڈن کالج راولپنڈی میں تعلیم حاصل کی۔ چونکہ یہ کالج امریکن مشن کا تھا، اس لیے وہ اور اُن کے ہم خیال طالب علم راہنما اپنے امریکہ مخالف سیاسی خیالات کی وجہ سے کالج کے گیٹ پر آئے دن مظاہرے کرتے رہتے تھے۔ یہ زمانہ اُن کی ذھنی نشوونما کو بھی تھا اور وہ آہستہ اہستہ لڑکپن کی حدود سے جوانی میں قدم رکھ رہے تھے اور لا محالہ طور پر ذہنی طور پر زبردست کنفیوژن کی ذد میں تھے۔ ایک طرف وہ ٹریڈ یونین اور کسان کمیٹی میں کام کرتے تھے اور دوسری طرف ڈرامہ، ایکٹنگ اور فنونِ لطیفہ کا بھی شوق تھا۔ مختلف قسم کے اثرات سے اُن کی طبیعت میں ایک طرح کی رومانویت نے جنم لیا۔ ایک طرف ڈرامہ وغیرہ تو دوسری طرف انقلابی سٹڈی سرکل، مگر ان مختلف اثرات اور رویوں نے اُن کی شخصیت کو نقصان کی بجائے زیادہ متنوع بنا دیا۔ اس کالج میں اُن کے ہم نوا دوست عالی رضوی اور بشیر احمد جاوید تھے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب منٹو جی اور عالی رضوی نہ صرف کیمونسٹ پارٹی کے زیرِ اثر جدلیات اور اس کے سیاق و سباق کے عمل سے آشنا ہوئے، بلکہ اس کو عملی طور پر اپنے مباحثوں میں بھی بیان کرنے لگے۔ ایسی تقریریں اس سے پہلے نہ تو طالب علموں کے مباحثوں میں ہوتی تھیں اور نہ ہی ان مباحثوں میں اُنہیں جانچنے کے لیے بیٹھے جج صاحبان نے کبھی سنی تھیں۔ اُن کے اس اندازِ گفتگو نے اور اُن کی ترقی پسند شناخت نے پاکستان بھر میں اُردو کے مباحثوں کی شکل بدل دی۔ ان مباحثوں کے سلسلے میں اُنہیں کراچی، حیدرآباد، راولپنڈی اور پشاور وغیرہ جانے کا بھی موقع ملا اور یہ دیکھ کے اُنہیں بہت خوشی ہوئی کہ ہر جگہ اُن کے ہم خیال طالب علم اور اساتذہ موجود تھے۔
اُنہوں نے 1949ء میں کیمونسٹ پارٹی پاکستان کا ممبر بننے کے بعد طلبہ میں بائیں بازو کی تنظیم کے قیام کے لیے جدوجہد شروع کی اور بالآخر ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ راولپنڈی کے بعد اس کی تنظیم سازی پنجاب بھر میں ہوئی اور 1951ء کے لگ بھگ کراچی میں بھی اس کی بنیاد رکھ دی گئی۔ بالآخر ایک مرکزی کانفرنس کے نتیجے میں ڈی ایس ایف پاکستان بھر میں طلبہ کی بائیں بازو کے نظریات کی حامل پہلی تنظیم کے طور پر وجود میں آ گئی، جِس کے وہ مرکزی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بے پناہ اثرات مرتب کرنے والے بدنامِ زمانہ راولپنڈی سازش کیس کے منٹو جی بھی ایک گواہ ہیں، جب 1950ء کے دوران اُن کی پارٹی (کیمونسٹ پارٹی) کے یونٹس اور ضلعی اجلاسوں میں ضلعی سیکرٹری پروفیسر خواجہ مسعود ایسے بیانات دیتے جن سے معلوم ہوتا کہ ملک میں کچھ ہونے والا ہے۔ پھر ایک روز منٹو جی کو والد کی کار سمیت یہ کہہ کر طلب کر لیا گیا کہ ایک مہمان کو راولپنڈی کنٹونمنٹ میں ایک گھر تک پہنچانا ہے۔ یہ کامریڈ سجاد ظہیر تھے جو کیمونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے اور جس گھر میں اُنہیں پہنچایا گیا اس کے باہر نام کی تختی پر میجر جنرل اکبر خان لکھا تھا۔
کیمونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کو جنرل اکبر اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے جب یہ پیغام ملا کہ وہ پاکستان کے موجودہ حالات سے دل برداشتہ ہیں، ان میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں پارٹی سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں، تو پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا ایک توسیعی اجلاس منعقد کیا گیا۔
منٹو جی کے مطابق یہ حقیقت ہے کہ پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے ایک سے زیادہ مرتبہ اپنے نمائندے انقلاب برپا کرنے والے فوجیوں کی میٹنگز میں بھیجے۔ آخری میٹنگ میں شمولیت کرنے والے پارٹی راہنماؤں کو پارٹی کی طرف سے یہ مینڈیٹ دیا گیا تھا کہ انقلاب برپا کرنے کے خواہش مند فوجی افسران پر واضع کر دیں کہ پارٹی اس قسم کے کچے انقلاب کی حمایت میں نہیں ہے، اور نہ ہی اس وقت پارٹی اتنی قوت رکھتی ہےکہ اس قسم کا بڑا عمل پاکستان جیسی وسیع آبادی کے ملک میں جاری کرنے کی ذمہ داری لے سکے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پارٹی کے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے اُن فوجی افسران کی آخری میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ انقلاب برپا کرنے کی کوششیں ختم کر دی جائیں اور پاکستان میں ایک ترقی پسند جمہوری سیاست کے لیے جدوجہد کی حمایت کی جائے۔ حیرت ہے کہ جب تبدیلی کا وہ پروگرام ختم کر دیا گیا تو ایک دن اچانک لیاقت علی خان نے گوجرانوالہ ریلوے اسٹیشن پر اعلان کیا کہ حکومت پاکستان نے ایک فوجی کوُ ہونے سے روکا ہے اور سازشیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
جن لوگوں کی گرفتاری کا ذکر ریڈیو پر ہوا اُن میں سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، جنرل اکبر خان اور دیگر فوجی افسر شامل تھے۔ ضلعی پارٹی نے ان گرفتاریوں کے بعد منٹو جی کو لاہور بھیج دیا تا کہ گرفتاری سے بچ کر وہ اپنا سیاسی کام جاری رکھیں۔
اُردو ادب میں ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز 35-1934ء میں ہوا۔ اس سے کچھ عرصہ قبل یورپ میں باضابطہ طور پر ترقی پسند سیاست اور تہذیب کے حوالے سے تحریکوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ مارکسزم کے فکر و عمل کے حوالے سے جو ترقی پسند تحریک پیدا ہوئی، وہ واضع نظریات، مقاصد اور اصولوں کی پابند تھی۔ مارکسی نقطہٗ نظر سماج کا تجزیہ بھی کرتا ہے، اس میں ترقی و تنزل کی قوتوں کی نشان دِہی بھی کرتا ہے اور ترقی کے راستے بھی متعین کرتا ہے۔ بطور ترقی پسند ادیب منٹو جی نے اپنا پہلا مضمون 1949ء میں پاکستان میں زبان کے مسئلے پر مری لٹریری سوسائیٹی میں پڑھا۔ اگرچہ یہ مضمون اُنہوں نے پارٹی کے حکم پر لکھا تھا لیکن اس کا محرک قائدِ اعظم کی وہ تقریر تھی جو اُنہوں نے ڈھاکہ میں کی، جِہاں طلبہ کے اجلاس میں کسی کے سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو اور صرف اُردو ہو گی۔ منٹو جی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ قومی زبانیں وہی ہوں گی جو مختلف پاکستانی قومیتوں کے لوگ بولتے ہیں۔
راولپنڈی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاسوں میں شرکت اور ‘ادبِ لطیف’ جیسے رسالوں میں اُن کے تنقیدی مضامین شائع ہونے کی وجہ سے، نیز لاہور میں ہونے والی ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس میں مضمون پڑھنے کی وجہ سے، وہ ان دنوں طالب علم کم لیکن کچھ ادیب، کچھ سیاسی مقرر اور بائیں بازو کے خیالات سے وابستہ ایک نوجوان کے طور پر زیادہ پہچانے جانے لگے۔ اس کے بعد اُنہیں ایسی ادبی محفلوں اور سیمیناروں میں بہ کثرت بلایا جانے لگا۔
وہ لکھتے ہیں کہ؛
”لاہور لاء کالج کے دور میں ایک بار وہ سٹوڈنٹس یونین کے الیکشن کے دنوں میں کالج کے باہر طالب علموں پر مشتمل ایک چھوٹے سے جلسے میں تقریر کر رہے تھے۔ اس دوران مجمع میں سے کسی شخص نے کہا کہ میں بھی کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ کالج کا طالب علم تو نہیں تھا پھر بھی اُنہوں نے اسے بلا لیا۔ اس نے کہا کہ میں منٹو صاحب کے خلاف اشتہار پڑھ کر یہاں ٹھہر گیا تھا، کیونکہ میں نے سوچا کہ ایسا عجوبہ شخص کون ہے جِس کے بارے میں وسیع پیمانے پر اشتہاری مہم جاری ہے کہ وہ ‘شجرِ پاکستان’کو کاٹ بھی رہا ہے اور یہاں الیکشن بھی لڑ رہا ہے۔ اس نے کہا کہ میں ایک شاعر ہوں اور اپنا نقطۂ نظر نظم کی صورت میں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ یہ شاعر حبیب جالب تھے۔ بس اس کے بعد جلسہ ایک ڈیڑھ گھنٹے تک حبیب جالب کے قبضے میں رہا۔“
یہ جلسہ اُن کا حبیب جالب سے ملنے کا سبب بنا اور اُن سے دوستی کا جو رشتہ اُستوار ہوا وہ ان کی عمر کے آخر تک قائم رہا۔ سٹوڈنٹس یونین کی صدارت کا وہ الیکشن تمام تر ریاستی مشینری کے استعمال اور امریکی قونصلیٹ کی معاونت کے منٹو جی نے جیت لیا تھا۔
پاکستانی سیاست میں مسٹر بھٹو کے کردار بارے لکھتے ہیں کہ ہماری پسماندہ سیاست میں بھٹو کی آمد کی وجہ سے ایک تہلکہ پیدا ہوا، باوجود اس کے کہ بھٹو اپنی سیاست کے آغاز میں تقریباً نو سال ایوب خان کے ساتھ وابستہ رہا۔ شروع میں نظریاتی طور پر وہ ایوب خان سے مختلف نہ تھا۔ جِس چیز کو بھٹو ازم کہا جاتا ہے، وہ بھٹو کا اپنی طرز کا سوشلزم تھا۔ مطلب یہ کہ وہ اپنی سیاست میں بائیں بازو کے رحجانات کا استعمال بھی کرتا تھا، مگر اس کا بنیادی طرزِ سیاست مروّجہ فیوڈل اثرات سے کُلی طور پر آزاد نہ تھا۔
مسٹر بھٹو کی زرعی اصلاحات اور عمومی سیاست ہمارے ملک کے سماجی اور معاشی نظام میں بڑی تبدیلی لانے کے اقدامات نہیں تھے، اور یہ کہ پیپلز پارٹی کی سیاست ایک طرح کی پاپولسٹ سیاست تھی۔ تا ہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پیپلز پارٹی کے ابتدائی زمانے میں پاکستانی سیاست کے منظرنامے پر ایک طلاطم پیدا ہوا اور مروّجہ سیاست کے دائرے سے خارج رہنے والے طبقات کو بھی سیاسی عمل کا حصہ بننے کا موقع ملا۔
پیپلز پارٹی اور قومی اسمبلی میں موجود دوسری جماعتوں نے 1973ء کا آئین بنایا اور منظور کیا۔ یہ آئین معروف جمہوری اُصولوں کی بنیاد پر بنایا گیا تھا، سوائے اس کے کہ اس میں ریاست کا مذہب بھی لکھا گیا اور ایک عمومی شق کے ذریعے یہ تحریر کیا گیا کہ پاکستان میں تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق بنیں گے۔ اس کے نتیجے میں صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی حکومتیں بنیں۔ پھر بلوچستان کی حکومت مسٹر بھٹو کی مرکزی حکومت کے حکم سے کسی معمولی سے تنازع کی وجہ سے تحلیل ہو گئی اور وہاں پر گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ اس اقدام کے نتیجے میں سرحد میں قائم حکومت نے بھی استعفیٰ دے دیا اور وہاں پر بھی گورنر راج نافذ کرنا پڑا۔ صرف یہی نہیں ہوا بلکہ
10 فروری 1975ء کو مسٹر بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کو غیر قانونی قرار دے کر اس کے سرکردہ راہنماؤں کو گرفتار کر لیا، جن میں ولی خان، ارباب سکندر خان خلیل، عطا اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو اور تیس کے قریب مزید سیاست دان جن میں شاعرِ عوام حبیب جالب بھی شامل تھے۔
ان گرفتار شدہ 40 لوگوں کا مقدمہ ایک سپیشل ٹربیونل کے ذریعے حیدرآباد جیل میں قائم کر دیا گیا، جِن کی طرف سے وکلا میں محمود علی قصوری، عابد حسن منٹو قابلِ ذکر ہیں۔ یہ کیس تقریباً دو سال تک حیدرآباد جیل کے اندر چلتا رہا۔ بھٹو دور میں سیکولر جمہوری قوتوں کو دیوار سے لگانے کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں کو پہنچا، جِس کا نتیجہ ہم آج تک بُھگت رہے ہیں۔
عابد حسن منٹو جی نے اپنی وکالت کے روزِ اوّل سے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی وکالت میں ہر مقدمہ صرف فیس ملنے کی بنیاد پر نہیں کریں گے۔ یہ اُن کی سیاسی ٹریننگ کا حصہ تھا کہ وہ مزدوروں اور محنت کشوں کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں لڑیں گے اور جہاں تک ممکن ہو گا وہ اس طبقے کا ہم نوا بن کر وکالت کریں گے۔ اس طرح اُن کی وکالت میں روپے پیسے کی فراوانی تو نہیں ہو سکتی تھی، کیونکہ اُنہوں نے جن لوگوں کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا تھا وہ وکیلوں کی بڑی بڑی فیسیں نہیں دے سکتے تھے، اور اُن کے انہی نظریات کی وجہ سے بڑی کمپنیاں اُنہیں اپنا وکیل بنانے کے لیے تیار نہیں ہو سکتی تھیں۔ اس کے باوجود ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ وکالت کا پیشہ اختیار کر کے کنگال رہے۔ منٹو جی نے ضیائی مارشل لاء کے خلاف تحریک میں اہم کردار ادا کیا اور 1981ء کے لاہور وکلا کنونشن کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں بالخصوص کراچی، حیدرآباد، ملتان، راولپنڈی اور پشاور میں متعدد وکلا کنونشن منعقد کرانے کے لیے جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس کے سربراہ بھی وہی منتخب ہوئے تھے۔
چنانچہ وکلا کنونشنوں کی اس ساری تحریک کے سلسلے میں اُنہیں بار بار مختلف شہروں میں جانا پڑا۔ اسی تحریک کا ایک پہلو یہ بھی ہے کی فروری 1981ء میں مارشل لاء مخالف سیاسی جماعتوں کا جو نمائندہ اجلاس کراچی میں ہوا، اس میں تحریکِ بحالیِ جمہوریت (ایم آر ڈی) کی بنیاد رکھی گئی۔ اس سیاسی جدوجہد کے پیچھے وکلا کی تحریک اور جگہ جگہ اُن کے کنونشنوں کا گہرہ ہاتھ تھا، جِس کے وہ اہم راہنما تھے۔ وہ اس لیے کہ وکیلوں میں مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود تھے، اس لیے جو فیصلے وکلا تحریک نے وقتاً فوقتاً کیے، اُن کے مطابق ان سیاسی پارٹیوں میں موجود وکیلوں کے نمائندوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اپنی پارٹیوں میں جمہوریت کی جدوجہد کے لیے اور مارشل لاء کے خاتمے کے لیے ایک وسیع تر متحدہ محاذ قائم کریں۔
ڈکٹیٹر ضیاء کے مارشل لاء کے زمانۂ نفاذ، یعنی 79-1978ء میں پاکستان کے دو ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران میں بھی انقلابات وقوع پذیر ہوئے۔ گویا پاکستان میں یہ سارا وقت ایک طرح کے سیاسی طلاطم کا زمانہ رہا ہے۔
وہ اس سیاسی طلاطم میں ایک وکیل راہنما اور پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے کردار ادا کرتے رہے۔ منٹو جی لکھتے ہیں کہ یہ عجیب بات ہے کہ جب بھی پاکستان میں مارشل لاء نافظ ہوا، آزاد کشمیر کی حکومت بھی تبدیل کر دی گئی اور وہاں بھی آئین معطل کر دیا گیا۔ کہنے کو آزاد جموں و کشمیر کا علاقہ پاکستان کا حصہ نہیں اور وہاں کے انتظام کے لیے ایک آئینی یا قانونی ڈحانچہ بھی نافظ ہے، لیکن عملاً آزاد کشمیر کی حکومت کی حیثیت کسی لوکل باڈی سے زیادہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے وکلا نے پاکستان کی مارشل لاء مخالف تحریک میں ہمارے ساتھ مسلسل حصہ لیا۔
پاکستان کے ترقی پسند اور جمہوری وکلا نے نام ڈیموکریٹک لائرز ایسوسی ایشن کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی، جِس کا الحاق انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک لائرز (آئی اے ڈی ایل) کے ساتھ ہو گیا تھا۔ جمہوریت پسند وکلا نے یہ عالمی تنظیم اپنے ترقی پسند جمہوری نظریات کے اظہار کے لیے قائم کی تھی کیونکہ اس سے پہلے ایک عالمی وکلا تنظیم موجود تھی جِس کی بنیاد امریکہ میں رکھی گئی۔ اس کے بارے سمجھا جاتا تھا کہ وہ بائیں بازو کے خیالات اور رحجانات کے وکلا کے خلاف ایک محاذ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
ڈیموکریٹک لائرز ایسوسی ایشن کی عالمی تنظیم مختلف ملکوں میں اپنی کانفرنسیں منعقد کرتی تھی۔ ایسی ہی ایک کانفرنس سپین کے شہر بارسلونا میں ہوئی تو منٹو جی بھی اس میں شرکت کے لیے گئے۔ اسی کانفرنس میں اُنہیں اگلے پانچ سال کے لیے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک لائرز کا نائب صدر منتخب کر لیا گیا۔ اس کانفرنس میں انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک لائرز کی صدارت کے لیے نیلسن منڈیلا کا نام تجویز کیا گیا جو انہی دنوں طویل نظربندی اور قید سے رہا ہوئے تھے۔ گو کہ اُس کانفرنس میں نیلسن منڈیلا خود موجود نہیں تھے لیکن پُر جوش تالیوں میں اُنہیں تنظیم کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ نیلسن منڈیلا سے منٹو جی کی ملاقات بعد ازاں انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک لائرز کی کانفرنس میں ہوئی جو 1995ء میں جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں منعقد ہوئی تھی۔
ضیاء الحق نے 81-1980ء میں آئینِ پاکستان کے تحت قائم شدہ عدالتوں کے نظام میں بعض ترامیم و اضافے کر دیے، ان میں خاص طور پر وہ اضافہ شامل ہے جس کے ذریعے شرعی عدالتیں قائم کی گئیں۔ تعزیزات کے بہت سے مقدمات شرعی عدالتوں کے دائرۂ اختیار میں چلے گئے۔
اس نئے عدالتی نظام سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پاکستان کے مختلف بڑے زمین داروں نے، جن کی زمینیں زرعی اصلاحات کی گرفت میں آئی تھیں، فیڈرل شریعت کورٹ مین یہ پٹیشن دائر کر دی کہ زرعی اصلاحات یا باالفاظِ دیگر اُن کی ملکیتی اراضی کو زبردستی بحقِ سرکار ضبط کرنا اور پھر مزراعین وغیرہ میں تقسیم کرنا غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے۔ منٹو جی نے 2011ء میں اپنی پارٹی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل (3) 184 کی بنیاد پر پٹیشن دائر کی، جو سپریم کورٹ کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ کسی ایسے معاملے میں جِس میں بنیادی حقوق کے نفاذ کا مسئلہ درپیش ہو اور جو عمومی اہمیت کا حامل ہو، اس کی شنوائی کر سکتا ہے۔ یہ مقدمہ ابتدا میں دو ججوں نے سنا، پھر تین ججوں کے سامنے پیش ہوا اور پھر پانچ اور بالآخر نو ججوں نے سنا اور اس پٹیشن کو قانونی طور پر سماعت کے لیے منظور کر لیا۔ اس وقت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری تھے، جو ریٹائر ہو گئے تو ایک دو تاریخوں پر بحث کے بعد یہ مقدمہ سرد خانوں میں ڈال دیا گیا اور کسی چیف جسٹس کو عوامی اہمیت کے اس اہم مسئلے پر مقدمہ سننے کی توفیق نہ ہوئی۔
اس مقدمے میں ان کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ شریعت اپیلٹ بنچ کے فیصلے کو کالعدم کر کے زرعی اصلاحات کے دونوں قوانین، یعنی 1972ء کا قانون اور اُس کے بعد 1977ء کی اسمبلی کے ایکٹ کو بحال کیا جائے، جِن کے ذریعے تحدیدِ ملکیت کے اُصول طے کیے گئے تھے۔
عابد حسن منٹو سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کا وہ تصور، جو مغرب اور تقریباً ساری دُنیا میں رائج ہے، اس کی ترویج و تشکیل اس نئے سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ساتھ ہوئی ہے جو یورپ کے پرانے فیوڈل نظام کے خاتمے اور صنعتی ارتقاء اور اس پر قائم نئے معاشی رشتوں کا لازمی نتیجہ تھا۔ گویا ہم جمہوریت کو سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے تھے، اسی لیے اس جمہوریت کو سرمایہ دارانہ جمہوریت کہتے تھے۔ یعنی ایک ایسی جمہوریت جس میں ایک حد تک جمہور کی شمولیت ہوتی ہے لیکن جِس میں اختیار و قوت بالادست طبقوں یعنی سرمایہ داروں کا ہی رہتا ہے۔ یہ معاملہ مزید تفصیل کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ بعض سوشلسٹ ابھی بھی سمجھتے ہیں کہ محنت کش طبقے کی ڈکٹیٹرشپ کا قیام ہی سوشلزم کا سیاسی نظام ہے۔سوچ کا یہ انداز اور اور محنت کش طبقے کی آمریت اور جمہوریت کے درمیان یہ تفریق صرف ایک محدود سچائی کا اظہار کرتے ہیں۔
سچائی یہ ہے کہ سوشلزم سرمایہ دارانہ رشتوں کو توڑتا ہے، سرمایہ داری رشتوں کو تخلیق کرنے والے پیداواری نظام کا خاتمہ کرتا ہے اور پیداواری قوتوں اور نظام کو سرمایہ دارانہ قبضے سے آزاد کراتا ہے۔
اس کا مقصد محنت کش طبقات، جو درحقیقت وسیع تر عوام کا دوسرا نام ہے، کی بالادستی کو تسلیم کرتا اور نئے سماجی اور معاشی رشتوں کی بنیاد پر نیا سیاسی نظام قائم کرتا ہے۔ اس نئے نظام کو چلانے کے لیے قائم کردہ سیاسی نظام میں چونکہ حاکمیت نچلے طبقوں کی قائم ہوتی ہے، اس لیے اسے سرمایہ دارانہ ڈکٹیٹرشپ کے برعکس محنت کش طبقے کی ڈکٹیٹرشپ کہا جاتا ہے۔ اگر کسی سوشلسٹ کا یہ خیال ہے کہ اس کا مقصد واقعی کوئی آمریت قائم کرنا ہے یا اس کا مفہوم یہ ہے کہ محنت کشوں کی پارٹی کیمونسٹ پارٹی ہے اور اس کی حاکمیت ہی محنت کشوں کی آمریت ہوتی ہے، تو پھر وہ ایک بڑی سچائی سے انحراف کر رہا ہے۔
سچائی یہ ہے کہ سوشلزم بالادست طبقات کی حاکمیت سے نجات دلا کر محنت کش طبقات کو حاکم بناتا ہے اور اس حاکمیت کے لیے جو طرزِ حکومت وضع کی جاتی ہے وہ بہرحال جمہوری طریقوں کی مرہونِ منت ہوتی ہے، کیونکہ کیمونسٹ پارٹی وسیع تر محنت کش طبقات کو خود اپنا حاکم بننے کی قوت اور اہلیت بخشتی ہے۔
یہی وہ چیز ہے جو سوویت یونین میں، بالخصوص 45-1939ء کے دوران چھ سالہ دوسری عالمی جنگ کے دوران پیدا ہونے والے رویوں نے ناپید کر دی تھی، اور پارٹی کی اپنے ملک اور عوام پر بڑہتی ہوئی گرفت سوویت کیمونسٹ پارٹی اور سوویت عوام کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی خلیج کا باعث بن گئی۔
عابد حسن منٹو نے اپنی رسمی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1956ء سے راولپنڈی میں وکالت شروع کی۔ 1982ء میں لاہور ہائی کورٹ بار اور 1997ء میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے۔ وہ کئی برس تک پاکستان بار کونسل کے رکن اور پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں وزیٹنگ فیکلٹی بھی رہے۔ اُن کی سیاسی زندگی کا آغاز 1949ء میں کیمونسٹ پارٹی میں شمولیت سے ہوا۔ پہلے ڈسٹرکٹ کمیٹی راولپنڈی کے ممبر اور پھر دو سال تک سیکرٹری رہے۔ وہ 1954ء میں کیمونسٹ پارٹی کے غیر قانونی قرار دیئے جانے کے بعد کیمونسٹ پارٹی کے انڈرگراونڈ سیل اور بعد ازاں نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) کی مرکزی کمیٹی کے رکن بنے۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ ٹریڈ یونین اور کسان کمیٹی میں کام کرتے رہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1972ء میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی قائم ہوئی تو اُس کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔
1982ء میں ضیائی مارشل لاء کے ایام میں وہ لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر منتخب ہوئے اور ملک بھر کے وکلاء کا لاہور میں ایک کنوینشن منعقد کیا، جِس نے ایم آر ڈی کے قیام کی راہ ہموار کی۔ اس کنونشن میں مارشل لاء مخالف قراردادیں منظور کی گئیں اور مال روڈ پر مارچ کر کے ماشل لاء کے خلاف وکلاء تحریک کا آغاز کیا گیا۔ ایسے ہی وکلاء کنوینشن کراچی، راولپنڈی، اور پشاور میں بھی منعقد کئے گئے اور 1983ء میں وکلاء نے اس تحریک کو جاری رکھنے کے لیے ایک کل پاکستان وکلاء کمیٹی قائم کی جِس کے وہ صدر منتخب ہوئے۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے بھی فعال رکن رہے اور اُن کے تنقیدی مضامین پر مبنی کتاب ” نقطۂ نظر“ 1986ء میں شائع ہوئی۔ سیاسی سرگرمیوں کے دوران 1972ء سے 2012ء تک پاکستان بھر میں موجود دوسری بائیں بازو کی پارٹیوں، مختلف گروپوں اور دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور پاکستان میں ایک نمائندہ اور متحرک بائیں بازو کی سیاسی پارٹی بنانے میں قلیدی کردار ادا کیا۔ جب 2012ء میں عوامی ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو وہ اس کے صدر منتخب ہوئے۔
محنت کشوں کی سیاست پر مبنی سماجی تبدیلی کی جنگ میں اُنہوں نے جن لوگوں کے ساتھ بھرپُور جدوجہد کی اُن میں مولانا بھاشانی، سی آر اسلم، مرزا محمد ابراہیم، سردار شوکت علی، پروفیسر ایرک سپرین، انیس ہاشمی، سید مطلبی فریدآبادی، زیارت گُل، چوہدری فتح محمد اور کامریڈ عبدالسلام شامل تھے۔ اپنے زمانۂ طالب علمی میں وہ جن سوشلسٹ نظریات سے وابستہ ہوئے اور اُن کے حصول کیلیے جدوجہد کرتے رہے، آج 92 برس کی عمر تک پہنچ کر بھی ان کا یقین غیر متزلزل ہے، اور ان کا وجود انقلابی کارکنوں کے جذبوں کو جِلا بخشتا ہے۔
—♦—

پرویز فتح بائیں بازو کے سینئر ساتھی ہیں اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ آپ عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے راہنما ہیں اور برطانیہ میں بائیں بازو کے انتہائی متحرک دوستوں میں سے ہیں۔ آپ اکثر سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
نامور ترقی پسند ادیب، دانشور، ماہرِ قانون، انسانی حقوق کے علم بردار اور مارکسی راہنما عابد حسن منٹو کی خود نوشت سوانح ”قصہ پون صدی کا“ شائع ہوئی تو بُک کارنر جہلم کے روحِ رواں امر شاہد جی کی کاوش سے ہمیں برطانیہ پہنچ گئی۔ تین سو تینتالیس (343) صفحات اور 8 حصوں میں تقسیم منٹو جی کی اس کتاب کو موضوعات کی مناسبت سے 57 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں اُن کا خاندان، وکلا کی جمہوری جدوجہد اور قیادت، چند مشہور اور دوُر رس اثرات رکھنے والے فیصلے، اکیسویں صدی میں سوشلسٹ نظریات اور عملی سیاست کے خدوخال، سوویت یونین کا انہدام اور بعد کی دُنیا، سوشلزم اور انقلابات کا قومی اور بین الاقوامی تناظر میں تحزیہ، اُن کی سیاسی زندگی اور پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست ، ترقی پسند ادب، پاکستان کی نظریاتی تعمیر اور پاکستان کے سیاسی اِرتقا کے علاوہ اس کتاب میں کچھ دلچسپ اور قابلِ غور ضمیمہ جات بھی شامل کئے گئے ہیں، جن کا ہمارے ملک کی جمہوری بنیادوں اور حکمران اشرافیہ کا جمہور سے روگردانی کرنے کا گہرا رشتہ ہے۔ اس سے قبل ان کے تنقیدی مضامین پر مشتمل پہلی کتاب ”نقطۂ نظر“ 1987ء میں اور انقلابی جدوجہد پر مشتمل ”ہماری جنگ رہے گی“ 2016ء میں شائع ہو چکی ہیں۔
عابد حسن منٹو نے میٹرک کے بعد 48-1946ء میں گورڈن کالج راولپنڈی میں تعلیم حاصل کی۔ چونکہ یہ کالج امریکن مشن کا تھا، اس لیے وہ اور اُن کے ہم خیال طالب علم راہنما اپنے امریکہ مخالف سیاسی خیالات کی وجہ سے کالج کے گیٹ پر آئے دن مظاہرے کرتے رہتے تھے۔ یہ زمانہ اُن کی ذھنی نشوونما کو بھی تھا اور وہ آہستہ اہستہ لڑکپن کی حدود سے جوانی میں قدم رکھ رہے تھے اور لا محالہ طور پر ذہنی طور پر زبردست کنفیوژن کی ذد میں تھے۔ ایک طرف وہ ٹریڈ یونین اور کسان کمیٹی میں کام کرتے تھے اور دوسری طرف ڈرامہ، ایکٹنگ اور فنونِ لطیفہ کا بھی شوق تھا۔ مختلف قسم کے اثرات سے اُن کی طبیعت میں ایک طرح کی رومانویت نے جنم لیا۔ ایک طرف ڈرامہ وغیرہ تو دوسری طرف انقلابی سٹڈی سرکل، مگر ان مختلف اثرات اور رویوں نے اُن کی شخصیت کو نقصان کی بجائے زیادہ متنوع بنا دیا۔ اس کالج میں اُن کے ہم نوا دوست عالی رضوی اور بشیر احمد جاوید تھے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب منٹو جی اور عالی رضوی نہ صرف کیمونسٹ پارٹی کے زیرِ اثر جدلیات اور اس کے سیاق و سباق کے عمل سے آشنا ہوئے، بلکہ اس کو عملی طور پر اپنے مباحثوں میں بھی بیان کرنے لگے۔ ایسی تقریریں اس سے پہلے نہ تو طالب علموں کے مباحثوں میں ہوتی تھیں اور نہ ہی ان مباحثوں میں اُنہیں جانچنے کے لیے بیٹھے جج صاحبان نے کبھی سنی تھیں۔ اُن کے اس اندازِ گفتگو نے اور اُن کی ترقی پسند شناخت نے پاکستان بھر میں اُردو کے مباحثوں کی شکل بدل دی۔ ان مباحثوں کے سلسلے میں اُنہیں کراچی، حیدرآباد، راولپنڈی اور پشاور وغیرہ جانے کا بھی موقع ملا اور یہ دیکھ کے اُنہیں بہت خوشی ہوئی کہ ہر جگہ اُن کے ہم خیال طالب علم اور اساتذہ موجود تھے۔
اُنہوں نے 1949ء میں کیمونسٹ پارٹی پاکستان کا ممبر بننے کے بعد طلبہ میں بائیں بازو کی تنظیم کے قیام کے لیے جدوجہد شروع کی اور بالآخر ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ راولپنڈی کے بعد اس کی تنظیم سازی پنجاب بھر میں ہوئی اور 1951ء کے لگ بھگ کراچی میں بھی اس کی بنیاد رکھ دی گئی۔ بالآخر ایک مرکزی کانفرنس کے نتیجے میں ڈی ایس ایف پاکستان بھر میں طلبہ کی بائیں بازو کے نظریات کی حامل پہلی تنظیم کے طور پر وجود میں آ گئی، جِس کے وہ مرکزی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بے پناہ اثرات مرتب کرنے والے بدنامِ زمانہ راولپنڈی سازش کیس کے منٹو جی بھی ایک گواہ ہیں، جب 1950ء کے دوران اُن کی پارٹی (کیمونسٹ پارٹی) کے یونٹس اور ضلعی اجلاسوں میں ضلعی سیکرٹری پروفیسر خواجہ مسعود ایسے بیانات دیتے جن سے معلوم ہوتا کہ ملک میں کچھ ہونے والا ہے۔ پھر ایک روز منٹو جی کو والد کی کار سمیت یہ کہہ کر طلب کر لیا گیا کہ ایک مہمان کو راولپنڈی کنٹونمنٹ میں ایک گھر تک پہنچانا ہے۔ یہ کامریڈ سجاد ظہیر تھے جو کیمونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے اور جس گھر میں اُنہیں پہنچایا گیا اس کے باہر نام کی تختی پر میجر جنرل اکبر خان لکھا تھا۔
کیمونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کو جنرل اکبر اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے جب یہ پیغام ملا کہ وہ پاکستان کے موجودہ حالات سے دل برداشتہ ہیں، ان میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں پارٹی سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں، تو پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا ایک توسیعی اجلاس منعقد کیا گیا۔
منٹو جی کے مطابق یہ حقیقت ہے کہ پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے ایک سے زیادہ مرتبہ اپنے نمائندے انقلاب برپا کرنے والے فوجیوں کی میٹنگز میں بھیجے۔ آخری میٹنگ میں شمولیت کرنے والے پارٹی راہنماؤں کو پارٹی کی طرف سے یہ مینڈیٹ دیا گیا تھا کہ انقلاب برپا کرنے کے خواہش مند فوجی افسران پر واضع کر دیں کہ پارٹی اس قسم کے کچے انقلاب کی حمایت میں نہیں ہے، اور نہ ہی اس وقت پارٹی اتنی قوت رکھتی ہےکہ اس قسم کا بڑا عمل پاکستان جیسی وسیع آبادی کے ملک میں جاری کرنے کی ذمہ داری لے سکے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پارٹی کے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے اُن فوجی افسران کی آخری میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ انقلاب برپا کرنے کی کوششیں ختم کر دی جائیں اور پاکستان میں ایک ترقی پسند جمہوری سیاست کے لیے جدوجہد کی حمایت کی جائے۔ حیرت ہے کہ جب تبدیلی کا وہ پروگرام ختم کر دیا گیا تو ایک دن اچانک لیاقت علی خان نے گوجرانوالہ ریلوے اسٹیشن پر اعلان کیا کہ حکومت پاکستان نے ایک فوجی کوُ ہونے سے روکا ہے اور سازشیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
جن لوگوں کی گرفتاری کا ذکر ریڈیو پر ہوا اُن میں سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، جنرل اکبر خان اور دیگر فوجی افسر شامل تھے۔ ضلعی پارٹی نے ان گرفتاریوں کے بعد منٹو جی کو لاہور بھیج دیا تا کہ گرفتاری سے بچ کر وہ اپنا سیاسی کام جاری رکھیں۔
اُردو ادب میں ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز 35-1934ء میں ہوا۔ اس سے کچھ عرصہ قبل یورپ میں باضابطہ طور پر ترقی پسند سیاست اور تہذیب کے حوالے سے تحریکوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ مارکسزم کے فکر و عمل کے حوالے سے جو ترقی پسند تحریک پیدا ہوئی، وہ واضع نظریات، مقاصد اور اصولوں کی پابند تھی۔ مارکسی نقطہٗ نظر سماج کا تجزیہ بھی کرتا ہے، اس میں ترقی و تنزل کی قوتوں کی نشان دِہی بھی کرتا ہے اور ترقی کے راستے بھی متعین کرتا ہے۔ بطور ترقی پسند ادیب منٹو جی نے اپنا پہلا مضمون 1949ء میں پاکستان میں زبان کے مسئلے پر مری لٹریری سوسائیٹی میں پڑھا۔ اگرچہ یہ مضمون اُنہوں نے پارٹی کے حکم پر لکھا تھا لیکن اس کا محرک قائدِ اعظم کی وہ تقریر تھی جو اُنہوں نے ڈھاکہ میں کی، جِہاں طلبہ کے اجلاس میں کسی کے سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو اور صرف اُردو ہو گی۔ منٹو جی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ قومی زبانیں وہی ہوں گی جو مختلف پاکستانی قومیتوں کے لوگ بولتے ہیں۔
راولپنڈی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاسوں میں شرکت اور ‘ادبِ لطیف’ جیسے رسالوں میں اُن کے تنقیدی مضامین شائع ہونے کی وجہ سے، نیز لاہور میں ہونے والی ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس میں مضمون پڑھنے کی وجہ سے، وہ ان دنوں طالب علم کم لیکن کچھ ادیب، کچھ سیاسی مقرر اور بائیں بازو کے خیالات سے وابستہ ایک نوجوان کے طور پر زیادہ پہچانے جانے لگے۔ اس کے بعد اُنہیں ایسی ادبی محفلوں اور سیمیناروں میں بہ کثرت بلایا جانے لگا۔
وہ لکھتے ہیں کہ؛
”لاہور لاء کالج کے دور میں ایک بار وہ سٹوڈنٹس یونین کے الیکشن کے دنوں میں کالج کے باہر طالب علموں پر مشتمل ایک چھوٹے سے جلسے میں تقریر کر رہے تھے۔ اس دوران مجمع میں سے کسی شخص نے کہا کہ میں بھی کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ کالج کا طالب علم تو نہیں تھا پھر بھی اُنہوں نے اسے بلا لیا۔ اس نے کہا کہ میں منٹو صاحب کے خلاف اشتہار پڑھ کر یہاں ٹھہر گیا تھا، کیونکہ میں نے سوچا کہ ایسا عجوبہ شخص کون ہے جِس کے بارے میں وسیع پیمانے پر اشتہاری مہم جاری ہے کہ وہ ‘شجرِ پاکستان’کو کاٹ بھی رہا ہے اور یہاں الیکشن بھی لڑ رہا ہے۔ اس نے کہا کہ میں ایک شاعر ہوں اور اپنا نقطۂ نظر نظم کی صورت میں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ یہ شاعر حبیب جالب تھے۔ بس اس کے بعد جلسہ ایک ڈیڑھ گھنٹے تک حبیب جالب کے قبضے میں رہا۔“
یہ جلسہ اُن کا حبیب جالب سے ملنے کا سبب بنا اور اُن سے دوستی کا جو رشتہ اُستوار ہوا وہ ان کی عمر کے آخر تک قائم رہا۔ سٹوڈنٹس یونین کی صدارت کا وہ الیکشن تمام تر ریاستی مشینری کے استعمال اور امریکی قونصلیٹ کی معاونت کے منٹو جی نے جیت لیا تھا۔
پاکستانی سیاست میں مسٹر بھٹو کے کردار بارے لکھتے ہیں کہ ہماری پسماندہ سیاست میں بھٹو کی آمد کی وجہ سے ایک تہلکہ پیدا ہوا، باوجود اس کے کہ بھٹو اپنی سیاست کے آغاز میں تقریباً نو سال ایوب خان کے ساتھ وابستہ رہا۔ شروع میں نظریاتی طور پر وہ ایوب خان سے مختلف نہ تھا۔ جِس چیز کو بھٹو ازم کہا جاتا ہے، وہ بھٹو کا اپنی طرز کا سوشلزم تھا۔ مطلب یہ کہ وہ اپنی سیاست میں بائیں بازو کے رحجانات کا استعمال بھی کرتا تھا، مگر اس کا بنیادی طرزِ سیاست مروّجہ فیوڈل اثرات سے کُلی طور پر آزاد نہ تھا۔
مسٹر بھٹو کی زرعی اصلاحات اور عمومی سیاست ہمارے ملک کے سماجی اور معاشی نظام میں بڑی تبدیلی لانے کے اقدامات نہیں تھے، اور یہ کہ پیپلز پارٹی کی سیاست ایک طرح کی پاپولسٹ سیاست تھی۔ تا ہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پیپلز پارٹی کے ابتدائی زمانے میں پاکستانی سیاست کے منظرنامے پر ایک طلاطم پیدا ہوا اور مروّجہ سیاست کے دائرے سے خارج رہنے والے طبقات کو بھی سیاسی عمل کا حصہ بننے کا موقع ملا۔
پیپلز پارٹی اور قومی اسمبلی میں موجود دوسری جماعتوں نے 1973ء کا آئین بنایا اور منظور کیا۔ یہ آئین معروف جمہوری اُصولوں کی بنیاد پر بنایا گیا تھا، سوائے اس کے کہ اس میں ریاست کا مذہب بھی لکھا گیا اور ایک عمومی شق کے ذریعے یہ تحریر کیا گیا کہ پاکستان میں تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق بنیں گے۔ اس کے نتیجے میں صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی حکومتیں بنیں۔ پھر بلوچستان کی حکومت مسٹر بھٹو کی مرکزی حکومت کے حکم سے کسی معمولی سے تنازع کی وجہ سے تحلیل ہو گئی اور وہاں پر گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ اس اقدام کے نتیجے میں سرحد میں قائم حکومت نے بھی استعفیٰ دے دیا اور وہاں پر بھی گورنر راج نافذ کرنا پڑا۔ صرف یہی نہیں ہوا بلکہ
10 فروری 1975ء کو مسٹر بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کو غیر قانونی قرار دے کر اس کے سرکردہ راہنماؤں کو گرفتار کر لیا، جن میں ولی خان، ارباب سکندر خان خلیل، عطا اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو اور تیس کے قریب مزید سیاست دان جن میں شاعرِ عوام حبیب جالب بھی شامل تھے۔
ان گرفتار شدہ 40 لوگوں کا مقدمہ ایک سپیشل ٹربیونل کے ذریعے حیدرآباد جیل میں قائم کر دیا گیا، جِن کی طرف سے وکلا میں محمود علی قصوری، عابد حسن منٹو قابلِ ذکر ہیں۔ یہ کیس تقریباً دو سال تک حیدرآباد جیل کے اندر چلتا رہا۔ بھٹو دور میں سیکولر جمہوری قوتوں کو دیوار سے لگانے کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں کو پہنچا، جِس کا نتیجہ ہم آج تک بُھگت رہے ہیں۔
عابد حسن منٹو جی نے اپنی وکالت کے روزِ اوّل سے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی وکالت میں ہر مقدمہ صرف فیس ملنے کی بنیاد پر نہیں کریں گے۔ یہ اُن کی سیاسی ٹریننگ کا حصہ تھا کہ وہ مزدوروں اور محنت کشوں کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں لڑیں گے اور جہاں تک ممکن ہو گا وہ اس طبقے کا ہم نوا بن کر وکالت کریں گے۔ اس طرح اُن کی وکالت میں روپے پیسے کی فراوانی تو نہیں ہو سکتی تھی، کیونکہ اُنہوں نے جن لوگوں کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا تھا وہ وکیلوں کی بڑی بڑی فیسیں نہیں دے سکتے تھے، اور اُن کے انہی نظریات کی وجہ سے بڑی کمپنیاں اُنہیں اپنا وکیل بنانے کے لیے تیار نہیں ہو سکتی تھیں۔ اس کے باوجود ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ وکالت کا پیشہ اختیار کر کے کنگال رہے۔ منٹو جی نے ضیائی مارشل لاء کے خلاف تحریک میں اہم کردار ادا کیا اور 1981ء کے لاہور وکلا کنونشن کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں بالخصوص کراچی، حیدرآباد، ملتان، راولپنڈی اور پشاور میں متعدد وکلا کنونشن منعقد کرانے کے لیے جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس کے سربراہ بھی وہی منتخب ہوئے تھے۔
چنانچہ وکلا کنونشنوں کی اس ساری تحریک کے سلسلے میں اُنہیں بار بار مختلف شہروں میں جانا پڑا۔ اسی تحریک کا ایک پہلو یہ بھی ہے کی فروری 1981ء میں مارشل لاء مخالف سیاسی جماعتوں کا جو نمائندہ اجلاس کراچی میں ہوا، اس میں تحریکِ بحالیِ جمہوریت (ایم آر ڈی) کی بنیاد رکھی گئی۔ اس سیاسی جدوجہد کے پیچھے وکلا کی تحریک اور جگہ جگہ اُن کے کنونشنوں کا گہرہ ہاتھ تھا، جِس کے وہ اہم راہنما تھے۔ وہ اس لیے کہ وکیلوں میں مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود تھے، اس لیے جو فیصلے وکلا تحریک نے وقتاً فوقتاً کیے، اُن کے مطابق ان سیاسی پارٹیوں میں موجود وکیلوں کے نمائندوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اپنی پارٹیوں میں جمہوریت کی جدوجہد کے لیے اور مارشل لاء کے خاتمے کے لیے ایک وسیع تر متحدہ محاذ قائم کریں۔
ڈکٹیٹر ضیاء کے مارشل لاء کے زمانۂ نفاذ، یعنی 79-1978ء میں پاکستان کے دو ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران میں بھی انقلابات وقوع پذیر ہوئے۔ گویا پاکستان میں یہ سارا وقت ایک طرح کے سیاسی طلاطم کا زمانہ رہا ہے۔
وہ اس سیاسی طلاطم میں ایک وکیل راہنما اور پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے کردار ادا کرتے رہے۔ منٹو جی لکھتے ہیں کہ یہ عجیب بات ہے کہ جب بھی پاکستان میں مارشل لاء نافظ ہوا، آزاد کشمیر کی حکومت بھی تبدیل کر دی گئی اور وہاں بھی آئین معطل کر دیا گیا۔ کہنے کو آزاد جموں و کشمیر کا علاقہ پاکستان کا حصہ نہیں اور وہاں کے انتظام کے لیے ایک آئینی یا قانونی ڈحانچہ بھی نافظ ہے، لیکن عملاً آزاد کشمیر کی حکومت کی حیثیت کسی لوکل باڈی سے زیادہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے وکلا نے پاکستان کی مارشل لاء مخالف تحریک میں ہمارے ساتھ مسلسل حصہ لیا۔
پاکستان کے ترقی پسند اور جمہوری وکلا نے نام ڈیموکریٹک لائرز ایسوسی ایشن کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی، جِس کا الحاق انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک لائرز (آئی اے ڈی ایل) کے ساتھ ہو گیا تھا۔ جمہوریت پسند وکلا نے یہ عالمی تنظیم اپنے ترقی پسند جمہوری نظریات کے اظہار کے لیے قائم کی تھی کیونکہ اس سے پہلے ایک عالمی وکلا تنظیم موجود تھی جِس کی بنیاد امریکہ میں رکھی گئی۔ اس کے بارے سمجھا جاتا تھا کہ وہ بائیں بازو کے خیالات اور رحجانات کے وکلا کے خلاف ایک محاذ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
ڈیموکریٹک لائرز ایسوسی ایشن کی عالمی تنظیم مختلف ملکوں میں اپنی کانفرنسیں منعقد کرتی تھی۔ ایسی ہی ایک کانفرنس سپین کے شہر بارسلونا میں ہوئی تو منٹو جی بھی اس میں شرکت کے لیے گئے۔ اسی کانفرنس میں اُنہیں اگلے پانچ سال کے لیے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک لائرز کا نائب صدر منتخب کر لیا گیا۔ اس کانفرنس میں انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک لائرز کی صدارت کے لیے نیلسن منڈیلا کا نام تجویز کیا گیا جو انہی دنوں طویل نظربندی اور قید سے رہا ہوئے تھے۔ گو کہ اُس کانفرنس میں نیلسن منڈیلا خود موجود نہیں تھے لیکن پُر جوش تالیوں میں اُنہیں تنظیم کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ نیلسن منڈیلا سے منٹو جی کی ملاقات بعد ازاں انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک لائرز کی کانفرنس میں ہوئی جو 1995ء میں جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں منعقد ہوئی تھی۔
ضیاء الحق نے 81-1980ء میں آئینِ پاکستان کے تحت قائم شدہ عدالتوں کے نظام میں بعض ترامیم و اضافے کر دیے، ان میں خاص طور پر وہ اضافہ شامل ہے جس کے ذریعے شرعی عدالتیں قائم کی گئیں۔ تعزیزات کے بہت سے مقدمات شرعی عدالتوں کے دائرۂ اختیار میں چلے گئے۔
اس نئے عدالتی نظام سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پاکستان کے مختلف بڑے زمین داروں نے، جن کی زمینیں زرعی اصلاحات کی گرفت میں آئی تھیں، فیڈرل شریعت کورٹ مین یہ پٹیشن دائر کر دی کہ زرعی اصلاحات یا باالفاظِ دیگر اُن کی ملکیتی اراضی کو زبردستی بحقِ سرکار ضبط کرنا اور پھر مزراعین وغیرہ میں تقسیم کرنا غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے۔ منٹو جی نے 2011ء میں اپنی پارٹی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل (3) 184 کی بنیاد پر پٹیشن دائر کی، جو سپریم کورٹ کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ کسی ایسے معاملے میں جِس میں بنیادی حقوق کے نفاذ کا مسئلہ درپیش ہو اور جو عمومی اہمیت کا حامل ہو، اس کی شنوائی کر سکتا ہے۔ یہ مقدمہ ابتدا میں دو ججوں نے سنا، پھر تین ججوں کے سامنے پیش ہوا اور پھر پانچ اور بالآخر نو ججوں نے سنا اور اس پٹیشن کو قانونی طور پر سماعت کے لیے منظور کر لیا۔ اس وقت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری تھے، جو ریٹائر ہو گئے تو ایک دو تاریخوں پر بحث کے بعد یہ مقدمہ سرد خانوں میں ڈال دیا گیا اور کسی چیف جسٹس کو عوامی اہمیت کے اس اہم مسئلے پر مقدمہ سننے کی توفیق نہ ہوئی۔
اس مقدمے میں ان کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ شریعت اپیلٹ بنچ کے فیصلے کو کالعدم کر کے زرعی اصلاحات کے دونوں قوانین، یعنی 1972ء کا قانون اور اُس کے بعد 1977ء کی اسمبلی کے ایکٹ کو بحال کیا جائے، جِن کے ذریعے تحدیدِ ملکیت کے اُصول طے کیے گئے تھے۔
عابد حسن منٹو سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کا وہ تصور، جو مغرب اور تقریباً ساری دُنیا میں رائج ہے، اس کی ترویج و تشکیل اس نئے سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ساتھ ہوئی ہے جو یورپ کے پرانے فیوڈل نظام کے خاتمے اور صنعتی ارتقاء اور اس پر قائم نئے معاشی رشتوں کا لازمی نتیجہ تھا۔ گویا ہم جمہوریت کو سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے تھے، اسی لیے اس جمہوریت کو سرمایہ دارانہ جمہوریت کہتے تھے۔ یعنی ایک ایسی جمہوریت جس میں ایک حد تک جمہور کی شمولیت ہوتی ہے لیکن جِس میں اختیار و قوت بالادست طبقوں یعنی سرمایہ داروں کا ہی رہتا ہے۔ یہ معاملہ مزید تفصیل کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ بعض سوشلسٹ ابھی بھی سمجھتے ہیں کہ محنت کش طبقے کی ڈکٹیٹرشپ کا قیام ہی سوشلزم کا سیاسی نظام ہے۔سوچ کا یہ انداز اور اور محنت کش طبقے کی آمریت اور جمہوریت کے درمیان یہ تفریق صرف ایک محدود سچائی کا اظہار کرتے ہیں۔
سچائی یہ ہے کہ سوشلزم سرمایہ دارانہ رشتوں کو توڑتا ہے، سرمایہ داری رشتوں کو تخلیق کرنے والے پیداواری نظام کا خاتمہ کرتا ہے اور پیداواری قوتوں اور نظام کو سرمایہ دارانہ قبضے سے آزاد کراتا ہے۔
اس کا مقصد محنت کش طبقات، جو درحقیقت وسیع تر عوام کا دوسرا نام ہے، کی بالادستی کو تسلیم کرتا اور نئے سماجی اور معاشی رشتوں کی بنیاد پر نیا سیاسی نظام قائم کرتا ہے۔ اس نئے نظام کو چلانے کے لیے قائم کردہ سیاسی نظام میں چونکہ حاکمیت نچلے طبقوں کی قائم ہوتی ہے، اس لیے اسے سرمایہ دارانہ ڈکٹیٹرشپ کے برعکس محنت کش طبقے کی ڈکٹیٹرشپ کہا جاتا ہے۔ اگر کسی سوشلسٹ کا یہ خیال ہے کہ اس کا مقصد واقعی کوئی آمریت قائم کرنا ہے یا اس کا مفہوم یہ ہے کہ محنت کشوں کی پارٹی کیمونسٹ پارٹی ہے اور اس کی حاکمیت ہی محنت کشوں کی آمریت ہوتی ہے، تو پھر وہ ایک بڑی سچائی سے انحراف کر رہا ہے۔
سچائی یہ ہے کہ سوشلزم بالادست طبقات کی حاکمیت سے نجات دلا کر محنت کش طبقات کو حاکم بناتا ہے اور اس حاکمیت کے لیے جو طرزِ حکومت وضع کی جاتی ہے وہ بہرحال جمہوری طریقوں کی مرہونِ منت ہوتی ہے، کیونکہ کیمونسٹ پارٹی وسیع تر محنت کش طبقات کو خود اپنا حاکم بننے کی قوت اور اہلیت بخشتی ہے۔
یہی وہ چیز ہے جو سوویت یونین میں، بالخصوص 45-1939ء کے دوران چھ سالہ دوسری عالمی جنگ کے دوران پیدا ہونے والے رویوں نے ناپید کر دی تھی، اور پارٹی کی اپنے ملک اور عوام پر بڑہتی ہوئی گرفت سوویت کیمونسٹ پارٹی اور سوویت عوام کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی خلیج کا باعث بن گئی۔
عابد حسن منٹو نے اپنی رسمی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1956ء سے راولپنڈی میں وکالت شروع کی۔ 1982ء میں لاہور ہائی کورٹ بار اور 1997ء میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے۔ وہ کئی برس تک پاکستان بار کونسل کے رکن اور پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں وزیٹنگ فیکلٹی بھی رہے۔ اُن کی سیاسی زندگی کا آغاز 1949ء میں کیمونسٹ پارٹی میں شمولیت سے ہوا۔ پہلے ڈسٹرکٹ کمیٹی راولپنڈی کے ممبر اور پھر دو سال تک سیکرٹری رہے۔ وہ 1954ء میں کیمونسٹ پارٹی کے غیر قانونی قرار دیئے جانے کے بعد کیمونسٹ پارٹی کے انڈرگراونڈ سیل اور بعد ازاں نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) کی مرکزی کمیٹی کے رکن بنے۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ ٹریڈ یونین اور کسان کمیٹی میں کام کرتے رہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1972ء میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی قائم ہوئی تو اُس کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔
1982ء میں ضیائی مارشل لاء کے ایام میں وہ لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر منتخب ہوئے اور ملک بھر کے وکلاء کا لاہور میں ایک کنوینشن منعقد کیا، جِس نے ایم آر ڈی کے قیام کی راہ ہموار کی۔ اس کنونشن میں مارشل لاء مخالف قراردادیں منظور کی گئیں اور مال روڈ پر مارچ کر کے ماشل لاء کے خلاف وکلاء تحریک کا آغاز کیا گیا۔ ایسے ہی وکلاء کنوینشن کراچی، راولپنڈی، اور پشاور میں بھی منعقد کئے گئے اور 1983ء میں وکلاء نے اس تحریک کو جاری رکھنے کے لیے ایک کل پاکستان وکلاء کمیٹی قائم کی جِس کے وہ صدر منتخب ہوئے۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے بھی فعال رکن رہے اور اُن کے تنقیدی مضامین پر مبنی کتاب ” نقطۂ نظر“ 1986ء میں شائع ہوئی۔ سیاسی سرگرمیوں کے دوران 1972ء سے 2012ء تک پاکستان بھر میں موجود دوسری بائیں بازو کی پارٹیوں، مختلف گروپوں اور دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور پاکستان میں ایک نمائندہ اور متحرک بائیں بازو کی سیاسی پارٹی بنانے میں قلیدی کردار ادا کیا۔ جب 2012ء میں عوامی ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو وہ اس کے صدر منتخب ہوئے۔
محنت کشوں کی سیاست پر مبنی سماجی تبدیلی کی جنگ میں اُنہوں نے جن لوگوں کے ساتھ بھرپُور جدوجہد کی اُن میں مولانا بھاشانی، سی آر اسلم، مرزا محمد ابراہیم، سردار شوکت علی، پروفیسر ایرک سپرین، انیس ہاشمی، سید مطلبی فریدآبادی، زیارت گُل، چوہدری فتح محمد اور کامریڈ عبدالسلام شامل تھے۔ اپنے زمانۂ طالب علمی میں وہ جن سوشلسٹ نظریات سے وابستہ ہوئے اور اُن کے حصول کیلیے جدوجہد کرتے رہے، آج 92 برس کی عمر تک پہنچ کر بھی ان کا یقین غیر متزلزل ہے، اور ان کا وجود انقلابی کارکنوں کے جذبوں کو جِلا بخشتا ہے۔
—♦—

پرویز فتح بائیں بازو کے سینئر ساتھی ہیں اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ آپ عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے راہنما ہیں اور برطانیہ میں بائیں بازو کے انتہائی متحرک دوستوں میں سے ہیں۔ آپ اکثر سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔