انسانوں کے شُد نجی و مذہبی معاملات کو کھینچ تان کر قانون کی گرفت میں لا کر انتقام کا نشانہ بنانے نے غیر مرئی قوتوں کو ایک ایسا جواز فراہم کیا جسے وہ ہر بار زیادہ زہر آلودہ انداز میں ناپسندیدہ افراد کے خلاف استعمال کریں گے۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف نکاح اور عدت کیس کا فیصلہ عدالتی تاریخ پر ایک اور بدنما داغ ہے جو دھوئے نہ دُھلے گا۔ مرئی مخلوق کسی بھی سیاسی حریف کو بے داغ نہیں رہنے دینا چاہتی۔
عمران خان کے طرز سیاست اور جنرلوں کے لیے ہتھیار کے طور استعمال کے لیے تیار رہنے پر تنقید کا قطعی یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ اس نے جو کچھ کیا اس کے خلاف ہونے والے اسی طرح کے ریاستی دباؤ اور ریشہ دوانیوں کی حمایت کی جائے۔
جیسا کرنا ویسا بھرنا پر مبنی ”سیاسی کرما“ سی خوش فہمی ایک نہ ختم ہونے والے سیاسی انتقام کو جنم دے گی جو جرم کے اصل منبع کو ہی ہر لحظہ تقویت پہنچانے گی۔
سیاست کے میدان میں ہمارے ہاں چور کو چوری کی سزا اس لیے نہیں دی جاتی کہ وہ چور ہے بل کہ اسے اس وقت ملعون و مطعون ٹھہرایا جاتا ہے جب وہ طاقتوروں کی ضرورت نہیں رہتا یا پھر ان کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرتا ہے۔
ماضی قریب میں جس طرح بھٹو اورنواز شریف کو سیاست سے باہر کرنے کے لئے ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیا آج وہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جنہوں نے کل تک اس طرح کے طرزِ عمل کی حمایت کی وہ بھی غلط تھے اور جو آج جاری اس دھونس و دھاندلی پر مریضانہ مسرت کا اظہار کر رہے ہیں وہ بھی جلد ہی اپنے رویے پر نالاں ہوں گے۔
آئین ، قانون یا پھر پارلیمنٹ اور عدالت نے گر خود کو لوگوں کے بیڈ روم کی چادریں سونگھنے اور عقائد اور سیاسی رجحانات جانچنے پر مامور کیا ہوا ہے تو اس کے بھیانک نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔
آپ نے احمدیوں کو مل کر نفرت کا نشانہ بنایا ، ہندو کو دھتکارا، مسیحی کو نیچ گردانہ اور اب سنی ،شیعہ سے ، دیوبندی ،بریلوی سے ، اور یہ سب اہل حدیث سے نفرت کو جزائے ایمان بنائے ہوئے ہے۔ یہی کج روی سیاست کے میدان میں بھی در آئی ہے کہ ایک وقت میں آپ کو مجروح کرنے والا بھی مسیحا دِکھائی دے رہا ہے کہ وہ آپ کے مخالف پر حملہ آور ہے۔
ظالم ،ظالم ہی ہے چاہے وہ آپ پر ظلم کرے یا آپ کے بدترین مخالف پر۔
ظالم کو جو ظالم نہیں کہے گا
نہیں رہےگا ، نہیں رہے گا
—♦—
ناصر منصور نیشنل ٹریڈ یونینز فیڈریشن پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں۔بائیں بازو کے متحرک ساتھی ہیں، پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کے محنت کشوں کو منظم کرنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آپ اکثر سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
انسانوں کے شُد نجی و مذہبی معاملات کو کھینچ تان کر قانون کی گرفت میں لا کر انتقام کا نشانہ بنانے نے غیر مرئی قوتوں کو ایک ایسا جواز فراہم کیا جسے وہ ہر بار زیادہ زہر آلودہ انداز میں ناپسندیدہ افراد کے خلاف استعمال کریں گے۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف نکاح اور عدت کیس کا فیصلہ عدالتی تاریخ پر ایک اور بدنما داغ ہے جو دھوئے نہ دُھلے گا۔ مرئی مخلوق کسی بھی سیاسی حریف کو بے داغ نہیں رہنے دینا چاہتی۔
عمران خان کے طرز سیاست اور جنرلوں کے لیے ہتھیار کے طور استعمال کے لیے تیار رہنے پر تنقید کا قطعی یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ اس نے جو کچھ کیا اس کے خلاف ہونے والے اسی طرح کے ریاستی دباؤ اور ریشہ دوانیوں کی حمایت کی جائے۔
جیسا کرنا ویسا بھرنا پر مبنی ”سیاسی کرما“ سی خوش فہمی ایک نہ ختم ہونے والے سیاسی انتقام کو جنم دے گی جو جرم کے اصل منبع کو ہی ہر لحظہ تقویت پہنچانے گی۔
سیاست کے میدان میں ہمارے ہاں چور کو چوری کی سزا اس لیے نہیں دی جاتی کہ وہ چور ہے بل کہ اسے اس وقت ملعون و مطعون ٹھہرایا جاتا ہے جب وہ طاقتوروں کی ضرورت نہیں رہتا یا پھر ان کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرتا ہے۔
ماضی قریب میں جس طرح بھٹو اورنواز شریف کو سیاست سے باہر کرنے کے لئے ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیا آج وہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جنہوں نے کل تک اس طرح کے طرزِ عمل کی حمایت کی وہ بھی غلط تھے اور جو آج جاری اس دھونس و دھاندلی پر مریضانہ مسرت کا اظہار کر رہے ہیں وہ بھی جلد ہی اپنے رویے پر نالاں ہوں گے۔
آئین ، قانون یا پھر پارلیمنٹ اور عدالت نے گر خود کو لوگوں کے بیڈ روم کی چادریں سونگھنے اور عقائد اور سیاسی رجحانات جانچنے پر مامور کیا ہوا ہے تو اس کے بھیانک نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔
آپ نے احمدیوں کو مل کر نفرت کا نشانہ بنایا ، ہندو کو دھتکارا، مسیحی کو نیچ گردانہ اور اب سنی ،شیعہ سے ، دیوبندی ،بریلوی سے ، اور یہ سب اہل حدیث سے نفرت کو جزائے ایمان بنائے ہوئے ہے۔ یہی کج روی سیاست کے میدان میں بھی در آئی ہے کہ ایک وقت میں آپ کو مجروح کرنے والا بھی مسیحا دِکھائی دے رہا ہے کہ وہ آپ کے مخالف پر حملہ آور ہے۔
ظالم ،ظالم ہی ہے چاہے وہ آپ پر ظلم کرے یا آپ کے بدترین مخالف پر۔
ظالم کو جو ظالم نہیں کہے گا
نہیں رہےگا ، نہیں رہے گا
—♦—
ناصر منصور نیشنل ٹریڈ یونینز فیڈریشن پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں۔بائیں بازو کے متحرک ساتھی ہیں، پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کے محنت کشوں کو منظم کرنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آپ اکثر سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔