ہم اکثر ادیبوں شاعروں کی محفل میں جاتے اور کبھی کبھی ان کی محفلوں کو سجانے کے ساتھ ساتھ ان کو احترام بھی دیتے ہیں یقین یہ قابل احترام لوگ ہیں کیونکہ ان کے پاس لفظوں کو پرہونے کا ہنر ہے یہ لفظوں پے نقطہ چینی بھی کرتے ہیں اور ادبی تحریروں و شعر کو خوبصورت بھی بناتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ادب فقط لفظوں پر نقطہ چینی کا نام ہے یا ادب اس سے آگے بھی کوئی اور حقیقت رکھتا ہے؟
ہمارے اکثر ادیبوں و شاعروں نے آج بھی شعر سخن و دوسری ادبی تخلیقات کی مرمت کا کام سنبھالا ہوا ہے۔
جبکہ مغرب میں اس کام کا آغاز سترہویں صدی میں ہوا تھا اس کے بعد کہیں اُتار چڑھاؤ آئے سترہویں صدی سے قبل ادب کا مقصد سچ کی تلاش کرنا تھا لیکن سترہویں صدی میں ادب کا مقصد سچ کے بجائے حسن کی تلاش کرنا مقصود ہوا، سچ کی تلاش کا نظریہ افلاطونی نظریہ تھا جو دوہزار سال تک قائم رہا لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یورپ کے معاشرے میں اس کو بدلنے کی ضرورت کیونکر پیش آئی اور پھر بعد کی صدیوں میں ادب میں اور کیا کیا تبدیلیاں ہوئیں؟ اس کی وجوہات کیا تھیں؟ کیا یہ یونہی ہوا یا سماجی طور پر خیالات پے پڑنے والے اثرات کچھ اور تھے؟ ہمارے اکثر ادیب و شاعر آج بھی ادب میں سچ کے بجائے حسن کو تلاش کرتے پھرتے ہیں یہاں تک کہ ایک عہد میں غالب جیسے شاعرو کو بھی اُستاد کی ضرورت پڑی تاکہ ادبی برادری میں ساکھ بحال رہیے۔
یہ رواج دراصل یورپ میں تھا جسے ڈرائنیڈن نے آکر توڑا پھر انقلاب فرانس کے بعد صورتحال یکسر بدل گئی انیسویں صدی آتے آتے تمام دیرینہ قدریں ٹوٹ گئیں۔ خصوصاً ڈارون کی تخلیقات نے نا صرف پرانے عقائد کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں بلکہ اس طرح کی تمام تر نفسیات کو سرد پانی میں بہا کہ رکھ دیا۔
اسی طرح فرائیڈ کی نفسیات اور مارکس کی جدلیات نے سوچنے اور سمجھنے کے سارے زاویے ہی بدل کر رکھ دیے۔
دراصل یہ ساری کہانی ایک ٹوٹے اور بکھرے ہوئے معاشرے کی ہے جہاں سوچ کے ساتھ ساتھ صنعتی انقلاب کے آنے سے پیدواری رشتے بھی بدلے یعنی
یورپ کا معاشرہ آج اگر ہمیں اس مقام پے نظر آرہا ہے تو اس کے کہیں بڑے اسباب کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تبدیلی ان پیدواری رشتوں کے بدلنے کی تھی جو ہمارے ہاں آج بھی جوں کے توں چل رہیے ہیں۔
ہمارے آج کے غالبوں کی جزو بندی میں ان کے آگے پیچھے آج بھی وہی کعبہ و کلیسا ہے وہی مندر ہیں اور یہ ان کے دوار کھڑے گھنٹے بجا رہیے ہیں اور بھجن گا رہیے ہیں۔ ان کی سوچ کے ساگر آج بھی ملہار گاتے ہیں درخت آہیں بھرتے ہیں، پرندے ساز بجاتے ہیں اور سمندر لوریاں دیتے ہیں۔
یہ صدیوں کے جابر قبائلی اور جاگیرداری نظام کے کرداروں کے گیت گاتے اور ان کی ثناہی کرتے نظر آتے ہیں جبکہ دنیا اس گامڑ پن سے نکل کر بہت آگے چلی گئی اب فرسودہ عہد کے نظام اور اس کے کرداروں پر یہ دنیا نہیں چل سکتی۔
حقیقت یہ ہے کہ آج کا احساس آج کا خیال اور تجربہ کسی نئی ہئیت اور نئے سانچے کا مطالبہ کرتا ہے۔ فن اپنی فطرت میں ایک اختراع ہے۔
ایک بڑا قلم کار اس لیے بڑا نہیں ہوتا کہ اس کے آگے پیچھے اس کی چلم بھرنے والے کتنے لوگ ہیں ایک بڑا قلم کار یا فنکار اس لیے بڑا ہوتا ہے کہ اس نے کس قدر روایت شکنی سے کام لیا۔
ہمارے ادیبوں شاعروں اور قلم کاروں کو ان صدیوں کے فرسودہ نظاموں کو سرے سے مسترد کرنا ہو گا یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے ہم قبائلی اور جاگیرداری عہد اور اس کے کرداروں کو اس عہد میں ہیرو بنا کر دراصل اس ظالم نظام اور اس کے پروردہ کرداروں فوجی اور سول بیوروکریسی سمیت عالمی سامراجی قوتوں کو ایک مرتبہ پھر زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کیونکہ یہ قبائلی اور جاگیرداری نظام ان ظالموں کے لیے آکسیجن ہے جن کے جبڑوں پے ہم بے حالوں کا خون لگا ہوا ہے ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم توہمات کو ختم کرنے کے لیے نئی توہمات کو تخلیق تو نہیں کر رہیے؟
ایسی ساری آزادیاں جھوٹی ہیں جو ان فرسودہ نظاموں کے ہوتے ہوئے لی جائیں یہاں فقط قومیتی یا طبقاتی جبر ہی نہیں سماجی جبر اس سے بھی بڑی لعنت ہے۔
لیکن اس پے ہمارے ادیبوں اور شاعروں کے قلم خاموش ہیں ان سارے عذابوں سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ یہاں پیداواری رشتوں کو بدلنے کی جدوجہد کی جائے۔ بے کاری اور افلاس سے نکلنے کا ایک یہی راستہ ہے کہ ترقی کے لیے آواز اٹھائی جائے ہر ترقی ہمارے لیے خیر ہے اور فرسودہ نظام زہر۔
اس ترقی کو مساوی بنیادوں پر لانے کے لیے جدوجہد کی جائے ہم ایک بچھڑی ہوئی تہذیب ہیں جسے ترقی دینے کے لیے ہمیں شعوری فہم فراست سے ایک صبر آزما وقت سے گزرنا ہو گا جو جلدی میں ہیں انھیں عراق اور لیبیا کو دیکھنا ہوگا کہ وہاں کیا ہوا ایک بات سمجھنے کی ہے کہ یہ لڑائی اب دو طاقتوں کی لڑائی ہے۔
—♦—

ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔