وہ بلکل ایسا تھا جس کے لیے ٹیگور نے لکھا تھا کہ
”بڑے پرندوں کی نہیں چھوٹے پرندوں کی بولی سنو
وہ بولی دل میں اتر کر روح میں سما جاتی ہے،جیسے کہ کوئل!
تم کوؤ کی کاں کاں کاں سے دور رہو
تم کوئل کی کوُک کے قریب رہو،کوئل بارش لا تی ہے
اور بارش آنے سے مہمان جلدی گھروں کو نہیں لو ٹتے
وہ خستہ،کچے،بھربھرے مکانوں میں کچھ روز اور ٹھہر جا تے ہیں!“
وہ بھی کوئل مثل تھا،اس کی آواز میں میٹھی کوُک تھی،ایسی کوُک جیسی کوُک اس جندر میں ہو تی ہے جو جندر چلتا رہتا ہے اور سماں خاموش آواز سے بھرا رہتا ہے۔وہ کوئل ہی تو تھا جو بارش کی دعائیں اخباری پنوں میں لکھتا رہا،ہم اس سے کہتے سائیں آپ دعا مانگتے نہیں تو دعائیں لکھتے کیوں ہیں؟
تو وہ اپنی مخصوص ہنسی ہنس کر کہتا کہ؛
”اس قوم کو ویسے ہی بہت دعاؤں کے پیچھے لگایا ہوا ہے،دعا کرو میں بس دعامیں بس دعا لکھ دیتا ہوں دعائیں مانگتا نہیں کاش یہ قوم دعاؤں سے دامن چھڑا کر عملی کام کرے جب تک یہ قوم عملی کام نہیں کرتی جب تک مجھے بھی دعائیں لکھنی ہیں سو لکھ رہا ہوں“
پھر سگریٹ کا کش لگا تے اور لطیف کے رسالے پر نظر جما دیتے اور اچانک کہتے
”ابول!یہ دیکھو قوم کے مرض کا علاج!“
اور اپنا ہاتھ لطیف کے آیاتوں جیسے ابیات پررکھ کر زو ر سے پڑھتے
”جئن کان جیڈیون۔مون وڈا وس کیا!“
اور کہتے کہ سندھی قوم کیا پو رے عالم کے انسان اگر لطیف کی بس یہ لائن سمجھ جائیں تو کبھی خود کشی نہ کریں بس جینے کی آرزو میں جیتے رہیں۔وہ ذلف ٹیگور کی بات اپنے پلوں سے باندھ کر جیتا رہا۔اس نے کبھی بڑے بڑے پرندوں کی آوازوں پر کان نہیں دھرے۔وہ چھوٹی چھوٹی تتلیوں کو دیکھتا رہا۔وہ چھوٹی چھوٹی چڑیوں کو دیکھتا رہا۔وہ کوئل کو سنتا رہا۔وہ پانی سے بھری زمینوں سے تڈ کی تنوار سنتا رہا۔وہ سوکھی زمینوں سے ہجرت کرتے پرندے دیکھتا رہا۔وہ سندھو کنارے ان پرندوں کو دیکھتا رہا جو بھرے کناروں کے سندھو کے ساتھ رہتے ہیں پر جب سندھو سوکھنے لگتا ہے تو وہ جب بھی سندھو کا ساتھ نہیں چھوڑتے رہے۔وہ مہندی کے پھولوں پر بیٹھے ان پنکھ کو دیکھتا رہا جو مہندی کے پھولوں پر بیٹھ کر ہو بہ ہو مہندی کے رنگوں میں رنگ گئے تھے۔وہ آکاش پر اُڑتے بھی ان بڑے پرندوں پر نظر نہیں کرتا تھا پر وہ آکاش پر بھی ان پرندوں کو تاکتا تھا جو ماتھے کی آنکھ سے نظر نہیں آتے تھے پر وہ من کی آنکھ سے دیکھ لیتا تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ بڑا وجود چھوٹے وجود کو چھپا لیتا ہے اور زندگی بڑے وجودوں میں نہیں چھوٹے وجودوں میں ہے،وہ بارشوں کے دنوں میں بھی ان بھیگے پرندوں پر نظر نہیں کرتا تھا پر وہ بارش کے بعد ان گلابی لال بل بوٹیوں کو دیکھتا تھا جو سندھ پر ایسے نمودار ہوآتی تھیں جیسے محبوبہ کے گالوں پر جوانی میں نکلے لال دانے!
وہ محبت کا رفو گر تھا۔وہ اپنے قلم سے سندھ کے پٹھے دامن کی رفو گیری کرتا رہا
وہ محبت کے دھاگے سے سندھ کو سیتا رہا
وہ ہاتھ اب نیچے سِرک گیا اور سندھ کا ان سلا پٹھا دامن بیچ میں رہ گیا!!!
جب سندھ کے بھوتار نے بھورو بھیل کی لاش کو سندھ کی مٹی سے نکال کر پھینک دیا تھا جب یہ ذلف ہی تھا جس سے اپنے الفاظوں سے نئے سرے سے بھورو بھیل کا کفن سیا اور پھر اس کفن کو دیکھ کر سندھ نے بس بھورو بھیل کو اپنے دامن میں نہیں سُلایا،پر اس مانگ میں سُلایا جس مانگ میں سونے کے لیے شہید اپنے جسموں کو بارود سے تار تار کر آتے ہیں پھر بھی سندھ ان کو اپنی مانگ کیا پر دامن میں بھی جگا نہیں دیتا!
ذلف نے کارونجھر کے درد کو لکھا۔موروں کے ان نوحوں کو لکھا جب سرکار اپنے بارود سے کارونجھر کی کور کو ڈائینا مائیٹ سے اُڑاتی تھی تو مور کس درد سے گزرتے تھے؟ذلف نے موروں کو زباں دی
جب اک خلق بس موروں کے رقص کو دیکھتی تھی تو جب ذلف موروں کے درد کو دیکھتا تھا
ذلف نے اپنے قلم سے سندھو کا کیس لکھا ذلف نے کئی کئی راتیں ان ملاحوں کے کچی کشتیوں نماں گھروں میں گذاریں جو پانی کے ساتھ جیتے ہیں اور پانی کے ساتھ مرتے ہیں
جب ذلف نے ایک آرٹیکل اس عنوان سے بھی لکھا کہ”سومار کہتا ہے میں سندھو کے ساتھ جینا چاہتا ہوں!“
اس آرٹیکل میں سومار ملاح کا وہ درد تھا جس میں وہ کہنا چاہتا تھا کہ جب سندھو نہیں تو کیسا جینا؟!
ذلف نے بس اخباری پنے پر سندھ کی رفو گیری نہیں کہ
ذلف نے اپنا اندر بھی لکھا اور وہ اندر ایسا ہی ہے جیسا اندر انور پیر زادوں نے لکھا تھا کہ
”اے چنڈ بھٹائی کھے چیئجان!!!“
ذلف نے محبت کی باتوں کو نظموں میں بیان کیا اور وہ نظمیں ہی ذلف کا اندر تھا
صاف،شفاف
”کیا تم سمجھتے ہو
میں تمہیں بھول گیا ہوں؟
تو سنو
میں غریب۔ابوجھ۔نا سمجھ ہوں
ڈیجیٹل کیمرہ کیا پر میرے پاس تو پورا اپنا برتن بھی نہیں
جس میں اپنا عکس دیکھوں
پر جب سے تم گئے ہو
تو وہ نقش پا کی مٹی
میں نے اُٹھا کر سنبھال رکھی ہے
بتاؤ!کیا ایسی یادگار بھی کسی اور کے پاس ہوگی؟!!
وہ محبوبہ کی ذلفوں جیسا ذلف!رات زندگی اور موت سے اُلجھ کر رہ گیا!
—♦—
مصنف کے بارے
محمد خان داؤد نےکراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا ہے،سندھ اور بلوچستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھنے کا یارا رکھتے ہیں۔
محمد خان داؤد نےکراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا ہے،سندھ اور بلوچستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھنے کا یارا رکھتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
وہ بلکل ایسا تھا جس کے لیے ٹیگور نے لکھا تھا کہ
”بڑے پرندوں کی نہیں چھوٹے پرندوں کی بولی سنو
وہ بولی دل میں اتر کر روح میں سما جاتی ہے،جیسے کہ کوئل!
تم کوؤ کی کاں کاں کاں سے دور رہو
تم کوئل کی کوُک کے قریب رہو،کوئل بارش لا تی ہے
اور بارش آنے سے مہمان جلدی گھروں کو نہیں لو ٹتے
وہ خستہ،کچے،بھربھرے مکانوں میں کچھ روز اور ٹھہر جا تے ہیں!“
وہ بھی کوئل مثل تھا،اس کی آواز میں میٹھی کوُک تھی،ایسی کوُک جیسی کوُک اس جندر میں ہو تی ہے جو جندر چلتا رہتا ہے اور سماں خاموش آواز سے بھرا رہتا ہے۔وہ کوئل ہی تو تھا جو بارش کی دعائیں اخباری پنوں میں لکھتا رہا،ہم اس سے کہتے سائیں آپ دعا مانگتے نہیں تو دعائیں لکھتے کیوں ہیں؟
تو وہ اپنی مخصوص ہنسی ہنس کر کہتا کہ؛
”اس قوم کو ویسے ہی بہت دعاؤں کے پیچھے لگایا ہوا ہے،دعا کرو میں بس دعامیں بس دعا لکھ دیتا ہوں دعائیں مانگتا نہیں کاش یہ قوم دعاؤں سے دامن چھڑا کر عملی کام کرے جب تک یہ قوم عملی کام نہیں کرتی جب تک مجھے بھی دعائیں لکھنی ہیں سو لکھ رہا ہوں“
پھر سگریٹ کا کش لگا تے اور لطیف کے رسالے پر نظر جما دیتے اور اچانک کہتے
”ابول!یہ دیکھو قوم کے مرض کا علاج!“
اور اپنا ہاتھ لطیف کے آیاتوں جیسے ابیات پررکھ کر زو ر سے پڑھتے
”جئن کان جیڈیون۔مون وڈا وس کیا!“
اور کہتے کہ سندھی قوم کیا پو رے عالم کے انسان اگر لطیف کی بس یہ لائن سمجھ جائیں تو کبھی خود کشی نہ کریں بس جینے کی آرزو میں جیتے رہیں۔وہ ذلف ٹیگور کی بات اپنے پلوں سے باندھ کر جیتا رہا۔اس نے کبھی بڑے بڑے پرندوں کی آوازوں پر کان نہیں دھرے۔وہ چھوٹی چھوٹی تتلیوں کو دیکھتا رہا۔وہ چھوٹی چھوٹی چڑیوں کو دیکھتا رہا۔وہ کوئل کو سنتا رہا۔وہ پانی سے بھری زمینوں سے تڈ کی تنوار سنتا رہا۔وہ سوکھی زمینوں سے ہجرت کرتے پرندے دیکھتا رہا۔وہ سندھو کنارے ان پرندوں کو دیکھتا رہا جو بھرے کناروں کے سندھو کے ساتھ رہتے ہیں پر جب سندھو سوکھنے لگتا ہے تو وہ جب بھی سندھو کا ساتھ نہیں چھوڑتے رہے۔وہ مہندی کے پھولوں پر بیٹھے ان پنکھ کو دیکھتا رہا جو مہندی کے پھولوں پر بیٹھ کر ہو بہ ہو مہندی کے رنگوں میں رنگ گئے تھے۔وہ آکاش پر اُڑتے بھی ان بڑے پرندوں پر نظر نہیں کرتا تھا پر وہ آکاش پر بھی ان پرندوں کو تاکتا تھا جو ماتھے کی آنکھ سے نظر نہیں آتے تھے پر وہ من کی آنکھ سے دیکھ لیتا تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ بڑا وجود چھوٹے وجود کو چھپا لیتا ہے اور زندگی بڑے وجودوں میں نہیں چھوٹے وجودوں میں ہے،وہ بارشوں کے دنوں میں بھی ان بھیگے پرندوں پر نظر نہیں کرتا تھا پر وہ بارش کے بعد ان گلابی لال بل بوٹیوں کو دیکھتا تھا جو سندھ پر ایسے نمودار ہوآتی تھیں جیسے محبوبہ کے گالوں پر جوانی میں نکلے لال دانے!
وہ محبت کا رفو گر تھا۔وہ اپنے قلم سے سندھ کے پٹھے دامن کی رفو گیری کرتا رہا
وہ محبت کے دھاگے سے سندھ کو سیتا رہا
وہ ہاتھ اب نیچے سِرک گیا اور سندھ کا ان سلا پٹھا دامن بیچ میں رہ گیا!!!
جب سندھ کے بھوتار نے بھورو بھیل کی لاش کو سندھ کی مٹی سے نکال کر پھینک دیا تھا جب یہ ذلف ہی تھا جس سے اپنے الفاظوں سے نئے سرے سے بھورو بھیل کا کفن سیا اور پھر اس کفن کو دیکھ کر سندھ نے بس بھورو بھیل کو اپنے دامن میں نہیں سُلایا،پر اس مانگ میں سُلایا جس مانگ میں سونے کے لیے شہید اپنے جسموں کو بارود سے تار تار کر آتے ہیں پھر بھی سندھ ان کو اپنی مانگ کیا پر دامن میں بھی جگا نہیں دیتا!
ذلف نے کارونجھر کے درد کو لکھا۔موروں کے ان نوحوں کو لکھا جب سرکار اپنے بارود سے کارونجھر کی کور کو ڈائینا مائیٹ سے اُڑاتی تھی تو مور کس درد سے گزرتے تھے؟ذلف نے موروں کو زباں دی
جب اک خلق بس موروں کے رقص کو دیکھتی تھی تو جب ذلف موروں کے درد کو دیکھتا تھا
ذلف نے اپنے قلم سے سندھو کا کیس لکھا ذلف نے کئی کئی راتیں ان ملاحوں کے کچی کشتیوں نماں گھروں میں گذاریں جو پانی کے ساتھ جیتے ہیں اور پانی کے ساتھ مرتے ہیں
جب ذلف نے ایک آرٹیکل اس عنوان سے بھی لکھا کہ”سومار کہتا ہے میں سندھو کے ساتھ جینا چاہتا ہوں!“
اس آرٹیکل میں سومار ملاح کا وہ درد تھا جس میں وہ کہنا چاہتا تھا کہ جب سندھو نہیں تو کیسا جینا؟!
ذلف نے بس اخباری پنے پر سندھ کی رفو گیری نہیں کہ
ذلف نے اپنا اندر بھی لکھا اور وہ اندر ایسا ہی ہے جیسا اندر انور پیر زادوں نے لکھا تھا کہ
”اے چنڈ بھٹائی کھے چیئجان!!!“
ذلف نے محبت کی باتوں کو نظموں میں بیان کیا اور وہ نظمیں ہی ذلف کا اندر تھا
صاف،شفاف
”کیا تم سمجھتے ہو
میں تمہیں بھول گیا ہوں؟
تو سنو
میں غریب۔ابوجھ۔نا سمجھ ہوں
ڈیجیٹل کیمرہ کیا پر میرے پاس تو پورا اپنا برتن بھی نہیں
جس میں اپنا عکس دیکھوں
پر جب سے تم گئے ہو
تو وہ نقش پا کی مٹی
میں نے اُٹھا کر سنبھال رکھی ہے
بتاؤ!کیا ایسی یادگار بھی کسی اور کے پاس ہوگی؟!!
وہ محبوبہ کی ذلفوں جیسا ذلف!رات زندگی اور موت سے اُلجھ کر رہ گیا!
—♦—
مصنف کے بارے
محمد خان داؤد نےکراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا ہے،سندھ اور بلوچستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھنے کا یارا رکھتے ہیں۔
محمد خان داؤد نےکراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا ہے،سندھ اور بلوچستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھنے کا یارا رکھتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT