• Latest

محبوبہ کی ذُلفوں جیسا ذُلف! – تحریر: محمد خان داؤد

جنوری 28, 2024

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
بدھ, جولائی 9, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home home مضامین

محبوبہ کی ذُلفوں جیسا ذُلف! – تحریر: محمد خان داؤد

بائیں بازو کے سیاسی کارکن اور صحافی امام بخش پیرزادہ (زلف پیرزادہ) جنہوں نے‎ ضیاءالحق کے مارشل لاء کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، وہ ہم میں نہیں رہے۔

للکار نیوز by للکار نیوز
جنوری 28, 2024
in پاکستان, مضامین
A A
0
وہ بلکل ایسا تھا جس کے لیے ٹیگور نے لکھا تھا کہ
”بڑے پرندوں کی نہیں چھوٹے پرندوں کی بولی سنو
وہ بولی دل میں اتر کر روح میں سما جاتی ہے،جیسے کہ کوئل!
تم کوؤ کی کاں کاں کاں سے دور رہو
تم کوئل کی کوُک کے قریب رہو،کوئل بارش لا تی ہے
اور بارش آنے سے مہمان جلدی گھروں کو نہیں لو ٹتے
وہ خستہ،کچے،بھربھرے مکانوں میں کچھ روز اور ٹھہر جا تے ہیں!“
وہ بھی کوئل مثل تھا،اس کی آواز میں میٹھی کوُک تھی،ایسی کوُک جیسی کوُک اس جندر میں ہو تی ہے جو جندر چلتا رہتا ہے اور سماں خاموش آواز سے بھرا رہتا ہے۔وہ کوئل ہی تو تھا جو بارش کی دعائیں اخباری پنوں میں لکھتا رہا،ہم اس سے کہتے سائیں آپ دعا مانگتے نہیں تو دعائیں لکھتے کیوں ہیں؟
تو وہ اپنی مخصوص ہنسی ہنس کر کہتا کہ؛
”اس قوم کو ویسے ہی بہت دعاؤں کے پیچھے لگایا ہوا ہے،دعا کرو میں بس دعامیں بس دعا لکھ دیتا ہوں دعائیں مانگتا نہیں کاش یہ قوم دعاؤں سے دامن چھڑا کر عملی کام کرے جب تک یہ قوم عملی کام نہیں کرتی جب تک مجھے بھی دعائیں لکھنی ہیں سو لکھ رہا ہوں“
 
پھر سگریٹ کا کش لگا تے اور لطیف کے رسالے پر نظر جما دیتے اور اچانک کہتے
”ابول!یہ دیکھو قوم کے مرض کا علاج!“
اور اپنا ہاتھ لطیف کے آیاتوں جیسے ابیات پررکھ کر زو ر سے پڑھتے
”جئن کان جیڈیون۔مون وڈا وس کیا!“
اور کہتے کہ سندھی قوم کیا پو رے عالم کے انسان اگر لطیف کی بس یہ لائن سمجھ جائیں تو کبھی خود کشی نہ کریں بس جینے کی آرزو میں جیتے رہیں۔وہ ذلف ٹیگور کی بات اپنے پلوں سے باندھ کر جیتا رہا۔اس نے کبھی بڑے بڑے پرندوں کی آوازوں پر کان نہیں دھرے۔وہ چھوٹی چھوٹی تتلیوں کو دیکھتا رہا۔وہ چھوٹی چھوٹی چڑیوں کو دیکھتا رہا۔وہ کوئل کو سنتا رہا۔وہ پانی سے بھری زمینوں سے تڈ کی تنوار سنتا رہا۔وہ سوکھی زمینوں سے ہجرت کرتے پرندے دیکھتا رہا۔وہ سندھو کنارے ان پرندوں کو دیکھتا رہا جو بھرے کناروں کے سندھو کے ساتھ رہتے ہیں پر جب سندھو سوکھنے لگتا ہے تو وہ جب بھی سندھو کا ساتھ نہیں چھوڑتے رہے۔وہ مہندی کے پھولوں پر بیٹھے ان پنکھ کو دیکھتا رہا جو مہندی کے پھولوں پر بیٹھ کر ہو بہ ہو مہندی کے رنگوں میں رنگ گئے تھے۔وہ آکاش پر اُڑتے بھی ان بڑے پرندوں پر نظر نہیں کرتا تھا پر وہ آکاش پر بھی ان پرندوں کو تاکتا تھا جو ماتھے کی آنکھ سے نظر نہیں آتے تھے پر وہ من کی آنکھ سے دیکھ لیتا تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ بڑا وجود چھوٹے وجود کو چھپا لیتا ہے اور زندگی بڑے وجودوں میں نہیں چھوٹے وجودوں میں ہے،وہ بارشوں کے دنوں میں بھی ان بھیگے پرندوں پر نظر نہیں کرتا تھا پر وہ بارش کے بعد ان گلابی لال بل بوٹیوں کو دیکھتا تھا جو سندھ پر ایسے نمودار ہوآتی تھیں جیسے محبوبہ کے گالوں پر جوانی میں نکلے لال دانے!
وہ محبت کا رفو گر تھا۔وہ اپنے قلم سے سندھ کے پٹھے دامن کی رفو گیری کرتا رہا
وہ محبت کے دھاگے سے سندھ کو سیتا رہا
وہ ہاتھ اب نیچے سِرک گیا اور سندھ کا ان سلا پٹھا دامن بیچ میں رہ گیا!!!
 
جب سندھ کے بھوتار نے بھورو بھیل کی لاش کو سندھ کی مٹی سے نکال کر پھینک دیا تھا جب یہ ذلف ہی تھا جس سے اپنے الفاظوں سے نئے سرے سے بھورو بھیل کا کفن سیا اور پھر اس کفن کو دیکھ کر سندھ نے بس بھورو بھیل کو اپنے دامن میں نہیں سُلایا،پر اس مانگ میں سُلایا جس مانگ میں سونے کے لیے شہید اپنے جسموں کو بارود سے تار تار کر آتے ہیں پھر بھی سندھ ان کو اپنی مانگ کیا پر دامن میں بھی جگا نہیں دیتا!
ذلف نے کارونجھر کے درد کو لکھا۔موروں کے ان نوحوں کو لکھا جب سرکار اپنے بارود سے کارونجھر کی کور کو ڈائینا مائیٹ سے اُڑاتی تھی تو مور کس درد سے گزرتے تھے؟ذلف نے موروں کو زباں دی
جب اک خلق بس موروں کے رقص کو دیکھتی تھی تو جب ذلف موروں کے درد کو دیکھتا تھا
ذلف نے اپنے قلم سے سندھو کا کیس لکھا ذلف نے کئی کئی راتیں ان ملاحوں کے کچی کشتیوں نماں گھروں میں گذاریں جو پانی کے ساتھ جیتے ہیں اور پانی کے ساتھ مرتے ہیں
 
جب ذلف نے ایک آرٹیکل اس عنوان سے بھی لکھا کہ”سومار کہتا ہے میں سندھو کے ساتھ جینا چاہتا ہوں!“
اس آرٹیکل میں سومار ملاح کا وہ درد تھا جس میں وہ کہنا چاہتا تھا کہ جب سندھو نہیں تو کیسا جینا؟!
ذلف نے بس اخباری پنے پر سندھ کی رفو گیری نہیں کہ
ذلف نے اپنا اندر بھی لکھا اور وہ اندر ایسا ہی ہے جیسا اندر انور پیر زادوں نے لکھا تھا کہ
”اے چنڈ بھٹائی کھے چیئجان!!!“
ذلف نے محبت کی باتوں کو نظموں میں بیان کیا اور وہ نظمیں ہی ذلف کا اندر تھا
صاف،شفاف
”کیا تم سمجھتے ہو
میں تمہیں بھول گیا ہوں؟
تو سنو
میں غریب۔ابوجھ۔نا سمجھ ہوں
ڈیجیٹل کیمرہ کیا پر میرے پاس تو پورا اپنا برتن بھی نہیں
جس میں اپنا عکس دیکھوں
پر جب سے تم گئے ہو
تو وہ نقش پا کی مٹی
میں نے اُٹھا کر سنبھال رکھی ہے
بتاؤ!کیا ایسی یادگار بھی کسی اور کے پاس ہوگی؟!!
وہ محبوبہ کی ذلفوں جیسا ذلف!رات زندگی اور موت سے اُلجھ کر رہ گیا!
 

 —♦—

Daud
مصنف کے بارے

محمد خان داؤد نےکراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا ہے،سندھ اور بلوچستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھنے کا یارا رکھتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
وہ بلکل ایسا تھا جس کے لیے ٹیگور نے لکھا تھا کہ
”بڑے پرندوں کی نہیں چھوٹے پرندوں کی بولی سنو
وہ بولی دل میں اتر کر روح میں سما جاتی ہے،جیسے کہ کوئل!
تم کوؤ کی کاں کاں کاں سے دور رہو
تم کوئل کی کوُک کے قریب رہو،کوئل بارش لا تی ہے
اور بارش آنے سے مہمان جلدی گھروں کو نہیں لو ٹتے
وہ خستہ،کچے،بھربھرے مکانوں میں کچھ روز اور ٹھہر جا تے ہیں!“
وہ بھی کوئل مثل تھا،اس کی آواز میں میٹھی کوُک تھی،ایسی کوُک جیسی کوُک اس جندر میں ہو تی ہے جو جندر چلتا رہتا ہے اور سماں خاموش آواز سے بھرا رہتا ہے۔وہ کوئل ہی تو تھا جو بارش کی دعائیں اخباری پنوں میں لکھتا رہا،ہم اس سے کہتے سائیں آپ دعا مانگتے نہیں تو دعائیں لکھتے کیوں ہیں؟
تو وہ اپنی مخصوص ہنسی ہنس کر کہتا کہ؛
”اس قوم کو ویسے ہی بہت دعاؤں کے پیچھے لگایا ہوا ہے،دعا کرو میں بس دعامیں بس دعا لکھ دیتا ہوں دعائیں مانگتا نہیں کاش یہ قوم دعاؤں سے دامن چھڑا کر عملی کام کرے جب تک یہ قوم عملی کام نہیں کرتی جب تک مجھے بھی دعائیں لکھنی ہیں سو لکھ رہا ہوں“
 
پھر سگریٹ کا کش لگا تے اور لطیف کے رسالے پر نظر جما دیتے اور اچانک کہتے
”ابول!یہ دیکھو قوم کے مرض کا علاج!“
اور اپنا ہاتھ لطیف کے آیاتوں جیسے ابیات پررکھ کر زو ر سے پڑھتے
”جئن کان جیڈیون۔مون وڈا وس کیا!“
اور کہتے کہ سندھی قوم کیا پو رے عالم کے انسان اگر لطیف کی بس یہ لائن سمجھ جائیں تو کبھی خود کشی نہ کریں بس جینے کی آرزو میں جیتے رہیں۔وہ ذلف ٹیگور کی بات اپنے پلوں سے باندھ کر جیتا رہا۔اس نے کبھی بڑے بڑے پرندوں کی آوازوں پر کان نہیں دھرے۔وہ چھوٹی چھوٹی تتلیوں کو دیکھتا رہا۔وہ چھوٹی چھوٹی چڑیوں کو دیکھتا رہا۔وہ کوئل کو سنتا رہا۔وہ پانی سے بھری زمینوں سے تڈ کی تنوار سنتا رہا۔وہ سوکھی زمینوں سے ہجرت کرتے پرندے دیکھتا رہا۔وہ سندھو کنارے ان پرندوں کو دیکھتا رہا جو بھرے کناروں کے سندھو کے ساتھ رہتے ہیں پر جب سندھو سوکھنے لگتا ہے تو وہ جب بھی سندھو کا ساتھ نہیں چھوڑتے رہے۔وہ مہندی کے پھولوں پر بیٹھے ان پنکھ کو دیکھتا رہا جو مہندی کے پھولوں پر بیٹھ کر ہو بہ ہو مہندی کے رنگوں میں رنگ گئے تھے۔وہ آکاش پر اُڑتے بھی ان بڑے پرندوں پر نظر نہیں کرتا تھا پر وہ آکاش پر بھی ان پرندوں کو تاکتا تھا جو ماتھے کی آنکھ سے نظر نہیں آتے تھے پر وہ من کی آنکھ سے دیکھ لیتا تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ بڑا وجود چھوٹے وجود کو چھپا لیتا ہے اور زندگی بڑے وجودوں میں نہیں چھوٹے وجودوں میں ہے،وہ بارشوں کے دنوں میں بھی ان بھیگے پرندوں پر نظر نہیں کرتا تھا پر وہ بارش کے بعد ان گلابی لال بل بوٹیوں کو دیکھتا تھا جو سندھ پر ایسے نمودار ہوآتی تھیں جیسے محبوبہ کے گالوں پر جوانی میں نکلے لال دانے!
وہ محبت کا رفو گر تھا۔وہ اپنے قلم سے سندھ کے پٹھے دامن کی رفو گیری کرتا رہا
وہ محبت کے دھاگے سے سندھ کو سیتا رہا
وہ ہاتھ اب نیچے سِرک گیا اور سندھ کا ان سلا پٹھا دامن بیچ میں رہ گیا!!!
 
جب سندھ کے بھوتار نے بھورو بھیل کی لاش کو سندھ کی مٹی سے نکال کر پھینک دیا تھا جب یہ ذلف ہی تھا جس سے اپنے الفاظوں سے نئے سرے سے بھورو بھیل کا کفن سیا اور پھر اس کفن کو دیکھ کر سندھ نے بس بھورو بھیل کو اپنے دامن میں نہیں سُلایا،پر اس مانگ میں سُلایا جس مانگ میں سونے کے لیے شہید اپنے جسموں کو بارود سے تار تار کر آتے ہیں پھر بھی سندھ ان کو اپنی مانگ کیا پر دامن میں بھی جگا نہیں دیتا!
ذلف نے کارونجھر کے درد کو لکھا۔موروں کے ان نوحوں کو لکھا جب سرکار اپنے بارود سے کارونجھر کی کور کو ڈائینا مائیٹ سے اُڑاتی تھی تو مور کس درد سے گزرتے تھے؟ذلف نے موروں کو زباں دی
جب اک خلق بس موروں کے رقص کو دیکھتی تھی تو جب ذلف موروں کے درد کو دیکھتا تھا
ذلف نے اپنے قلم سے سندھو کا کیس لکھا ذلف نے کئی کئی راتیں ان ملاحوں کے کچی کشتیوں نماں گھروں میں گذاریں جو پانی کے ساتھ جیتے ہیں اور پانی کے ساتھ مرتے ہیں
 
جب ذلف نے ایک آرٹیکل اس عنوان سے بھی لکھا کہ”سومار کہتا ہے میں سندھو کے ساتھ جینا چاہتا ہوں!“
اس آرٹیکل میں سومار ملاح کا وہ درد تھا جس میں وہ کہنا چاہتا تھا کہ جب سندھو نہیں تو کیسا جینا؟!
ذلف نے بس اخباری پنے پر سندھ کی رفو گیری نہیں کہ
ذلف نے اپنا اندر بھی لکھا اور وہ اندر ایسا ہی ہے جیسا اندر انور پیر زادوں نے لکھا تھا کہ
”اے چنڈ بھٹائی کھے چیئجان!!!“
ذلف نے محبت کی باتوں کو نظموں میں بیان کیا اور وہ نظمیں ہی ذلف کا اندر تھا
صاف،شفاف
”کیا تم سمجھتے ہو
میں تمہیں بھول گیا ہوں؟
تو سنو
میں غریب۔ابوجھ۔نا سمجھ ہوں
ڈیجیٹل کیمرہ کیا پر میرے پاس تو پورا اپنا برتن بھی نہیں
جس میں اپنا عکس دیکھوں
پر جب سے تم گئے ہو
تو وہ نقش پا کی مٹی
میں نے اُٹھا کر سنبھال رکھی ہے
بتاؤ!کیا ایسی یادگار بھی کسی اور کے پاس ہوگی؟!!
وہ محبوبہ کی ذلفوں جیسا ذلف!رات زندگی اور موت سے اُلجھ کر رہ گیا!
 

 —♦—

Daud
مصنف کے بارے

محمد خان داؤد نےکراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا ہے،سندھ اور بلوچستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھنے کا یارا رکھتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Tags: JournalistLeftistSindhZulf
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

by للکار نیوز
اپریل 6, 2025
0
0

اگرچہ بظاہر استعماریت کا خاتمہ گزشتہ صدی میں ہو چکا ہے، لیکن حقیقت میں مغربی طاقتیں اپنی سابقہ نوآبادیات پر...

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

by للکار نیوز
اکتوبر 13, 2024
0
0

پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں...

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

by للکار نیوز
اکتوبر 5, 2024
1
0

پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد...

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

by للکار نیوز
ستمبر 27, 2024
0
0

پانچ دہائیوں تک ہندوستان کی قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برِصغیر کے نامور مارکسی مفکر، انقلابی تحریکوں...

بلوچ جدوجہد اور بلوچوں کی تاریخی حقیقت؟ – تحریر:ممتاز احمد آرزو

by للکار نیوز
ستمبر 26, 2024
0
0

ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا...

کالے کوئلے کو سفید بنانے والی ”دانائی“ اور ماحولیاتی سوال! – تحریر:بخشل تھلہو

by للکار نیوز
ستمبر 8, 2024
0
0

اس اگست کی دو تاریخ کو نصیر میمن صاحب نے اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ کی، جس میں...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.