• Latest

”جذبات کی بے حرمتی“۔ – تحریر: رانا اعظم 

جنوری 26, 2024

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
بدھ, جولائی 9, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home home مضامین

”جذبات کی بے حرمتی“۔ – تحریر: رانا اعظم 

تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں دیگر اسباب و نوآبادیاتی ( Colonialism) لُوٹ کھسوٹ نے اس عمل کو بُری طرح سُست روی کا شکار کیا۔ جب کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں ہماری لوٹی ہوئی دولت نے اس سماجی تضاد کے خاتمہ کے عمل کی رفتار کو تیز تر کر دیا ہے ۔

للکار نیوز by للکار نیوز
جنوری 26, 2024
in پاکستان, سماجی مسائل, سیاسی معیشت, مضامین
A A
0

موضوع کی غواصی سے قبل اسے تھوڑا کھول لیں۔ تاکہ آگے جا کر گفتگو کرنا اور سمجھنا آسان ہو۔ ہم نے spirit کا اُردو ترجمہ جذبات کیا ہے ۔ جذبات  ( broader sense ) میں مادے کی ذہنی شکل میں بُلند سرگرمی اور شعور سے وابستہ غیر مادی شئےکا نام ہے۔ کسی سوسائٹی کی جذباتی زندگی اس کے سماجی شعور کا عکس ہوتی ہے۔ ساتھ ساتھ سماجی شعور، زندگی بشمول جذبات کی فعالیت پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ آپ اِسے جدلی عمل کا نام بھی دے سکتے ہیں۔

اب موضوع کی طرف رُخ کرتے ہیں۔ ہمارا موضوع ”جذبات کی بےحرمتی“ ہر طرح کے Emancipated جذبات کا احاطہ کرتا ہے، لیکن گفتگو کا زیادہ جھکاؤ جنسِ مخالف کی جذباتی کشش کی طرف رہے گا۔

پاکستان یا پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں ایک تضاد( contradiction ) اُبھر رہا ہے۔ یہ تضاد اچانک تو نہیں، سماجی سرگرمی/ عمل کا لازمی نتیجہ، کہیں سُست تو کہیں تیز ہے۔ یہ عمل ہمارے جیسے پسماندہ ممالک میں سُست اور ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں تیزی سے تکمیل پذیری کی طرف رواں دواں ہے ۔

تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں دیگر اسباب و نوآبادیاتی ( Colonialism) لُوٹ کھسوٹ نے اس عمل کو بُری طرح سُست روی کا شکار کیا۔ جب کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں ہماری لوٹی ہوئی دولت نے اس سماجی تضاد کے خاتمہ کے عمل کی رفتار کو تیز تر کر دیا ہے ۔

جاننے کی بات ہے کہ یہ تضاد ہے کیا۔؟       اب ہم صرف پاکستان تک اپنے آپ کو محدود رکھیں گے ۔ پاکستان آج اکیسویں صدی میں بھی ایک طرف نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ سماج ہے ۔ تو دوسری طرف شہری زندگی بھی کافی حد بن رہی ہے ۔ جو تقریباً ملک کی کل آبادی کا چالیس فیصد کے قریب ہے ۔

چندر گُپت موریہ سے لے کر پچاس کی دہائی تک ہمارے دیہات ایک ہی جگہ کھڑے رہے ۔

پچاس کی دہائی میں ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے کے نتیجے میں دیہاتوں میں بھی تبدیلیاں آنا شروع ہوگئیں ۔ سڑکیں، بجلی تعلیم ،ٹیلی-ویژن و دیگر ذرائع کے دین سے کسی حد تک یہ سماجی شعوری تبدیلیاں دیہات میں بھی دیکھنے کو ملیں ۔ جب کہ قبائلیت ، جاگیرداری اور ان کے ملک پر مجموعی کلچرل اثرات ہمارے سماجی شعور( جسے ہم اپنی آسانی کے لیے ذہنی کھلا پن بھی کہہ سکتے ہیں) کی ترقی میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں ۔

یہ تضاد پاکستانی سماج کو ایک سماجی شعوری جذباتی بحران کی طرف دھکیل رہا ہے۔ دوسری طرف شہری زندگی ، تعلیم ۔ میل جول ( social intercourse)   آج تو سوشل میڈیا کی ترقی نے ، جس کے سامنے کسی صورت بند نہیں باندھا جا سکتا ۔  پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی کی اس تک رسائی ہے ، کے اپنے اثرات ہیں ۔ ان اثرات کی بہت تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔

اس تضاد کا ایک اظہار ہم کوئی دو سال قبل ایک ٹک ٹاکر لڑکی پر مینار پاکستان میں نوجوانوں کے ایک ہجوم کا حیوانیت اور باوَلے پن سے حملہ آور ہونا دیکھ بھی چکے ہیں ۔ تب بھی ہم نے” کیا ہم باولے ہو چکےہیں “ کے عنوان سے لکھا تھا ۔ یہ واقعہ نہ تو رات کے کسی وقت ، کسی موٹروے پر اکیلی عورت کے سفر کا تھا ۔  نہ ہی عورت کے مختصر لباس کا سبب تھا ۔ جو مردوں کے جذبات بھڑکاتا ہے ۔ چونکہ مرد روبوٹ نہیں ہوتے ۔

ہمارے حکمران ایسے عذر پیش کرتے رہتے ہیں ۔ یہ تو دن دہاڑے یاد گار پاکستان پہ "قومی لباس” میں ملبوس ایک لڑکی پر جم غفیر کے جھپٹنے کا ہے۔ جس سے ہم اپنے اجتماعی شعور، جذباتی بحران کو ماپ سکتے ہیں ۔ اور جذبات کے تضاد کا حل ڈھونڈنے کی ضرورت کی طرف توجہ دلاتا ہے

کئی سالوں سے خاص طور پر ہم گلگت بلتستان و دیگر peripheral areas ، جن میں یہ تضاد زیادہ گہرا ہے ، نوجوانوں میں خودکشیوں کے بڑھتے رجحانات بارے پڑھ رہے ہیں۔

ہمارے نزدیک روٹی روز گار کی ضروریات کے ساتھ ساتھ خاص طور پر نوجوان نسل میں جذباتی کشش کے اظہار کے مواقع کی ہمارا فیوڈل سماج جس طرح بے حرمتی کر رہا ہے ۔ نتیجہ باوَلے پن اور خود کشیوں کے سوا کیا ہو سکتا ہے ؟۔ ہمارا پسماندہ سماجی نظام، حکمران طبقہ اور اس کی اتحادی ملائیت اس پسماندگی کے تضاد پر ہر وقت تقدس کا غلاف چڑھانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں ۔ جس نے ہماری جذباتی زندگی کو بری طرح برباد کر رکھا ہے۔

—♦—
Azam
مصنف کے بارے

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">

موضوع کی غواصی سے قبل اسے تھوڑا کھول لیں۔ تاکہ آگے جا کر گفتگو کرنا اور سمجھنا آسان ہو۔ ہم نے spirit کا اُردو ترجمہ جذبات کیا ہے ۔ جذبات  ( broader sense ) میں مادے کی ذہنی شکل میں بُلند سرگرمی اور شعور سے وابستہ غیر مادی شئےکا نام ہے۔ کسی سوسائٹی کی جذباتی زندگی اس کے سماجی شعور کا عکس ہوتی ہے۔ ساتھ ساتھ سماجی شعور، زندگی بشمول جذبات کی فعالیت پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ آپ اِسے جدلی عمل کا نام بھی دے سکتے ہیں۔

اب موضوع کی طرف رُخ کرتے ہیں۔ ہمارا موضوع ”جذبات کی بےحرمتی“ ہر طرح کے Emancipated جذبات کا احاطہ کرتا ہے، لیکن گفتگو کا زیادہ جھکاؤ جنسِ مخالف کی جذباتی کشش کی طرف رہے گا۔

پاکستان یا پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں ایک تضاد( contradiction ) اُبھر رہا ہے۔ یہ تضاد اچانک تو نہیں، سماجی سرگرمی/ عمل کا لازمی نتیجہ، کہیں سُست تو کہیں تیز ہے۔ یہ عمل ہمارے جیسے پسماندہ ممالک میں سُست اور ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں تیزی سے تکمیل پذیری کی طرف رواں دواں ہے ۔

تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں دیگر اسباب و نوآبادیاتی ( Colonialism) لُوٹ کھسوٹ نے اس عمل کو بُری طرح سُست روی کا شکار کیا۔ جب کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں ہماری لوٹی ہوئی دولت نے اس سماجی تضاد کے خاتمہ کے عمل کی رفتار کو تیز تر کر دیا ہے ۔

جاننے کی بات ہے کہ یہ تضاد ہے کیا۔؟       اب ہم صرف پاکستان تک اپنے آپ کو محدود رکھیں گے ۔ پاکستان آج اکیسویں صدی میں بھی ایک طرف نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ سماج ہے ۔ تو دوسری طرف شہری زندگی بھی کافی حد بن رہی ہے ۔ جو تقریباً ملک کی کل آبادی کا چالیس فیصد کے قریب ہے ۔

چندر گُپت موریہ سے لے کر پچاس کی دہائی تک ہمارے دیہات ایک ہی جگہ کھڑے رہے ۔

پچاس کی دہائی میں ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے کے نتیجے میں دیہاتوں میں بھی تبدیلیاں آنا شروع ہوگئیں ۔ سڑکیں، بجلی تعلیم ،ٹیلی-ویژن و دیگر ذرائع کے دین سے کسی حد تک یہ سماجی شعوری تبدیلیاں دیہات میں بھی دیکھنے کو ملیں ۔ جب کہ قبائلیت ، جاگیرداری اور ان کے ملک پر مجموعی کلچرل اثرات ہمارے سماجی شعور( جسے ہم اپنی آسانی کے لیے ذہنی کھلا پن بھی کہہ سکتے ہیں) کی ترقی میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں ۔

یہ تضاد پاکستانی سماج کو ایک سماجی شعوری جذباتی بحران کی طرف دھکیل رہا ہے۔ دوسری طرف شہری زندگی ، تعلیم ۔ میل جول ( social intercourse)   آج تو سوشل میڈیا کی ترقی نے ، جس کے سامنے کسی صورت بند نہیں باندھا جا سکتا ۔  پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی کی اس تک رسائی ہے ، کے اپنے اثرات ہیں ۔ ان اثرات کی بہت تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔

اس تضاد کا ایک اظہار ہم کوئی دو سال قبل ایک ٹک ٹاکر لڑکی پر مینار پاکستان میں نوجوانوں کے ایک ہجوم کا حیوانیت اور باوَلے پن سے حملہ آور ہونا دیکھ بھی چکے ہیں ۔ تب بھی ہم نے” کیا ہم باولے ہو چکےہیں “ کے عنوان سے لکھا تھا ۔ یہ واقعہ نہ تو رات کے کسی وقت ، کسی موٹروے پر اکیلی عورت کے سفر کا تھا ۔  نہ ہی عورت کے مختصر لباس کا سبب تھا ۔ جو مردوں کے جذبات بھڑکاتا ہے ۔ چونکہ مرد روبوٹ نہیں ہوتے ۔

ہمارے حکمران ایسے عذر پیش کرتے رہتے ہیں ۔ یہ تو دن دہاڑے یاد گار پاکستان پہ "قومی لباس” میں ملبوس ایک لڑکی پر جم غفیر کے جھپٹنے کا ہے۔ جس سے ہم اپنے اجتماعی شعور، جذباتی بحران کو ماپ سکتے ہیں ۔ اور جذبات کے تضاد کا حل ڈھونڈنے کی ضرورت کی طرف توجہ دلاتا ہے

کئی سالوں سے خاص طور پر ہم گلگت بلتستان و دیگر peripheral areas ، جن میں یہ تضاد زیادہ گہرا ہے ، نوجوانوں میں خودکشیوں کے بڑھتے رجحانات بارے پڑھ رہے ہیں۔

ہمارے نزدیک روٹی روز گار کی ضروریات کے ساتھ ساتھ خاص طور پر نوجوان نسل میں جذباتی کشش کے اظہار کے مواقع کی ہمارا فیوڈل سماج جس طرح بے حرمتی کر رہا ہے ۔ نتیجہ باوَلے پن اور خود کشیوں کے سوا کیا ہو سکتا ہے ؟۔ ہمارا پسماندہ سماجی نظام، حکمران طبقہ اور اس کی اتحادی ملائیت اس پسماندگی کے تضاد پر ہر وقت تقدس کا غلاف چڑھانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں ۔ جس نے ہماری جذباتی زندگی کو بری طرح برباد کر رکھا ہے۔

—♦—
Azam
مصنف کے بارے

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Tags: CapitalismFeudalismPakistanPoliticsPower PoliticsSocial BackwardnessTribalismYouth
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

by للکار نیوز
اپریل 6, 2025
0
0

اگرچہ بظاہر استعماریت کا خاتمہ گزشتہ صدی میں ہو چکا ہے، لیکن حقیقت میں مغربی طاقتیں اپنی سابقہ نوآبادیات پر...

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

by للکار نیوز
اکتوبر 13, 2024
0
0

پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں...

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

by للکار نیوز
اکتوبر 5, 2024
1
0

پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد...

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

by للکار نیوز
ستمبر 27, 2024
0
0

پانچ دہائیوں تک ہندوستان کی قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برِصغیر کے نامور مارکسی مفکر، انقلابی تحریکوں...

بلوچ جدوجہد اور بلوچوں کی تاریخی حقیقت؟ – تحریر:ممتاز احمد آرزو

by للکار نیوز
ستمبر 26, 2024
0
0

ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا...

کالے کوئلے کو سفید بنانے والی ”دانائی“ اور ماحولیاتی سوال! – تحریر:بخشل تھلہو

by للکار نیوز
ستمبر 8, 2024
0
0

اس اگست کی دو تاریخ کو نصیر میمن صاحب نے اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ کی، جس میں...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.