موضوع کی غواصی سے قبل اسے تھوڑا کھول لیں۔ تاکہ آگے جا کر گفتگو کرنا اور سمجھنا آسان ہو۔ ہم نے spirit کا اُردو ترجمہ جذبات کیا ہے ۔ جذبات ( broader sense ) میں مادے کی ذہنی شکل میں بُلند سرگرمی اور شعور سے وابستہ غیر مادی شئےکا نام ہے۔ کسی سوسائٹی کی جذباتی زندگی اس کے سماجی شعور کا عکس ہوتی ہے۔ ساتھ ساتھ سماجی شعور، زندگی بشمول جذبات کی فعالیت پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ آپ اِسے جدلی عمل کا نام بھی دے سکتے ہیں۔
اب موضوع کی طرف رُخ کرتے ہیں۔ ہمارا موضوع ”جذبات کی بےحرمتی“ ہر طرح کے Emancipated جذبات کا احاطہ کرتا ہے، لیکن گفتگو کا زیادہ جھکاؤ جنسِ مخالف کی جذباتی کشش کی طرف رہے گا۔
پاکستان یا پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں ایک تضاد( contradiction ) اُبھر رہا ہے۔ یہ تضاد اچانک تو نہیں، سماجی سرگرمی/ عمل کا لازمی نتیجہ، کہیں سُست تو کہیں تیز ہے۔ یہ عمل ہمارے جیسے پسماندہ ممالک میں سُست اور ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں تیزی سے تکمیل پذیری کی طرف رواں دواں ہے ۔
تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں دیگر اسباب و نوآبادیاتی ( Colonialism) لُوٹ کھسوٹ نے اس عمل کو بُری طرح سُست روی کا شکار کیا۔ جب کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں ہماری لوٹی ہوئی دولت نے اس سماجی تضاد کے خاتمہ کے عمل کی رفتار کو تیز تر کر دیا ہے ۔
جاننے کی بات ہے کہ یہ تضاد ہے کیا۔؟ اب ہم صرف پاکستان تک اپنے آپ کو محدود رکھیں گے ۔ پاکستان آج اکیسویں صدی میں بھی ایک طرف نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ سماج ہے ۔ تو دوسری طرف شہری زندگی بھی کافی حد بن رہی ہے ۔ جو تقریباً ملک کی کل آبادی کا چالیس فیصد کے قریب ہے ۔
چندر گُپت موریہ سے لے کر پچاس کی دہائی تک ہمارے دیہات ایک ہی جگہ کھڑے رہے ۔
پچاس کی دہائی میں ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے کے نتیجے میں دیہاتوں میں بھی تبدیلیاں آنا شروع ہوگئیں ۔ سڑکیں، بجلی تعلیم ،ٹیلی-ویژن و دیگر ذرائع کے دین سے کسی حد تک یہ سماجی شعوری تبدیلیاں دیہات میں بھی دیکھنے کو ملیں ۔ جب کہ قبائلیت ، جاگیرداری اور ان کے ملک پر مجموعی کلچرل اثرات ہمارے سماجی شعور( جسے ہم اپنی آسانی کے لیے ذہنی کھلا پن بھی کہہ سکتے ہیں) کی ترقی میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں ۔
یہ تضاد پاکستانی سماج کو ایک سماجی شعوری جذباتی بحران کی طرف دھکیل رہا ہے۔ دوسری طرف شہری زندگی ، تعلیم ۔ میل جول ( social intercourse) آج تو سوشل میڈیا کی ترقی نے ، جس کے سامنے کسی صورت بند نہیں باندھا جا سکتا ۔ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی کی اس تک رسائی ہے ، کے اپنے اثرات ہیں ۔ ان اثرات کی بہت تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔
اس تضاد کا ایک اظہار ہم کوئی دو سال قبل ایک ٹک ٹاکر لڑکی پر مینار پاکستان میں نوجوانوں کے ایک ہجوم کا حیوانیت اور باوَلے پن سے حملہ آور ہونا دیکھ بھی چکے ہیں ۔ تب بھی ہم نے” کیا ہم باولے ہو چکےہیں “ کے عنوان سے لکھا تھا ۔ یہ واقعہ نہ تو رات کے کسی وقت ، کسی موٹروے پر اکیلی عورت کے سفر کا تھا ۔ نہ ہی عورت کے مختصر لباس کا سبب تھا ۔ جو مردوں کے جذبات بھڑکاتا ہے ۔ چونکہ مرد روبوٹ نہیں ہوتے ۔
ہمارے حکمران ایسے عذر پیش کرتے رہتے ہیں ۔ یہ تو دن دہاڑے یاد گار پاکستان پہ "قومی لباس” میں ملبوس ایک لڑکی پر جم غفیر کے جھپٹنے کا ہے۔ جس سے ہم اپنے اجتماعی شعور، جذباتی بحران کو ماپ سکتے ہیں ۔ اور جذبات کے تضاد کا حل ڈھونڈنے کی ضرورت کی طرف توجہ دلاتا ہے
کئی سالوں سے خاص طور پر ہم گلگت بلتستان و دیگر peripheral areas ، جن میں یہ تضاد زیادہ گہرا ہے ، نوجوانوں میں خودکشیوں کے بڑھتے رجحانات بارے پڑھ رہے ہیں۔
ہمارے نزدیک روٹی روز گار کی ضروریات کے ساتھ ساتھ خاص طور پر نوجوان نسل میں جذباتی کشش کے اظہار کے مواقع کی ہمارا فیوڈل سماج جس طرح بے حرمتی کر رہا ہے ۔ نتیجہ باوَلے پن اور خود کشیوں کے سوا کیا ہو سکتا ہے ؟۔ ہمارا پسماندہ سماجی نظام، حکمران طبقہ اور اس کی اتحادی ملائیت اس پسماندگی کے تضاد پر ہر وقت تقدس کا غلاف چڑھانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں ۔ جس نے ہماری جذباتی زندگی کو بری طرح برباد کر رکھا ہے۔

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
موضوع کی غواصی سے قبل اسے تھوڑا کھول لیں۔ تاکہ آگے جا کر گفتگو کرنا اور سمجھنا آسان ہو۔ ہم نے spirit کا اُردو ترجمہ جذبات کیا ہے ۔ جذبات ( broader sense ) میں مادے کی ذہنی شکل میں بُلند سرگرمی اور شعور سے وابستہ غیر مادی شئےکا نام ہے۔ کسی سوسائٹی کی جذباتی زندگی اس کے سماجی شعور کا عکس ہوتی ہے۔ ساتھ ساتھ سماجی شعور، زندگی بشمول جذبات کی فعالیت پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ آپ اِسے جدلی عمل کا نام بھی دے سکتے ہیں۔
اب موضوع کی طرف رُخ کرتے ہیں۔ ہمارا موضوع ”جذبات کی بےحرمتی“ ہر طرح کے Emancipated جذبات کا احاطہ کرتا ہے، لیکن گفتگو کا زیادہ جھکاؤ جنسِ مخالف کی جذباتی کشش کی طرف رہے گا۔
پاکستان یا پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں ایک تضاد( contradiction ) اُبھر رہا ہے۔ یہ تضاد اچانک تو نہیں، سماجی سرگرمی/ عمل کا لازمی نتیجہ، کہیں سُست تو کہیں تیز ہے۔ یہ عمل ہمارے جیسے پسماندہ ممالک میں سُست اور ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں تیزی سے تکمیل پذیری کی طرف رواں دواں ہے ۔
تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں دیگر اسباب و نوآبادیاتی ( Colonialism) لُوٹ کھسوٹ نے اس عمل کو بُری طرح سُست روی کا شکار کیا۔ جب کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں ہماری لوٹی ہوئی دولت نے اس سماجی تضاد کے خاتمہ کے عمل کی رفتار کو تیز تر کر دیا ہے ۔
جاننے کی بات ہے کہ یہ تضاد ہے کیا۔؟ اب ہم صرف پاکستان تک اپنے آپ کو محدود رکھیں گے ۔ پاکستان آج اکیسویں صدی میں بھی ایک طرف نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ سماج ہے ۔ تو دوسری طرف شہری زندگی بھی کافی حد بن رہی ہے ۔ جو تقریباً ملک کی کل آبادی کا چالیس فیصد کے قریب ہے ۔
چندر گُپت موریہ سے لے کر پچاس کی دہائی تک ہمارے دیہات ایک ہی جگہ کھڑے رہے ۔
پچاس کی دہائی میں ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے کے نتیجے میں دیہاتوں میں بھی تبدیلیاں آنا شروع ہوگئیں ۔ سڑکیں، بجلی تعلیم ،ٹیلی-ویژن و دیگر ذرائع کے دین سے کسی حد تک یہ سماجی شعوری تبدیلیاں دیہات میں بھی دیکھنے کو ملیں ۔ جب کہ قبائلیت ، جاگیرداری اور ان کے ملک پر مجموعی کلچرل اثرات ہمارے سماجی شعور( جسے ہم اپنی آسانی کے لیے ذہنی کھلا پن بھی کہہ سکتے ہیں) کی ترقی میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں ۔
یہ تضاد پاکستانی سماج کو ایک سماجی شعوری جذباتی بحران کی طرف دھکیل رہا ہے۔ دوسری طرف شہری زندگی ، تعلیم ۔ میل جول ( social intercourse) آج تو سوشل میڈیا کی ترقی نے ، جس کے سامنے کسی صورت بند نہیں باندھا جا سکتا ۔ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی کی اس تک رسائی ہے ، کے اپنے اثرات ہیں ۔ ان اثرات کی بہت تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔
اس تضاد کا ایک اظہار ہم کوئی دو سال قبل ایک ٹک ٹاکر لڑکی پر مینار پاکستان میں نوجوانوں کے ایک ہجوم کا حیوانیت اور باوَلے پن سے حملہ آور ہونا دیکھ بھی چکے ہیں ۔ تب بھی ہم نے” کیا ہم باولے ہو چکےہیں “ کے عنوان سے لکھا تھا ۔ یہ واقعہ نہ تو رات کے کسی وقت ، کسی موٹروے پر اکیلی عورت کے سفر کا تھا ۔ نہ ہی عورت کے مختصر لباس کا سبب تھا ۔ جو مردوں کے جذبات بھڑکاتا ہے ۔ چونکہ مرد روبوٹ نہیں ہوتے ۔
ہمارے حکمران ایسے عذر پیش کرتے رہتے ہیں ۔ یہ تو دن دہاڑے یاد گار پاکستان پہ "قومی لباس” میں ملبوس ایک لڑکی پر جم غفیر کے جھپٹنے کا ہے۔ جس سے ہم اپنے اجتماعی شعور، جذباتی بحران کو ماپ سکتے ہیں ۔ اور جذبات کے تضاد کا حل ڈھونڈنے کی ضرورت کی طرف توجہ دلاتا ہے
کئی سالوں سے خاص طور پر ہم گلگت بلتستان و دیگر peripheral areas ، جن میں یہ تضاد زیادہ گہرا ہے ، نوجوانوں میں خودکشیوں کے بڑھتے رجحانات بارے پڑھ رہے ہیں۔
ہمارے نزدیک روٹی روز گار کی ضروریات کے ساتھ ساتھ خاص طور پر نوجوان نسل میں جذباتی کشش کے اظہار کے مواقع کی ہمارا فیوڈل سماج جس طرح بے حرمتی کر رہا ہے ۔ نتیجہ باوَلے پن اور خود کشیوں کے سوا کیا ہو سکتا ہے ؟۔ ہمارا پسماندہ سماجی نظام، حکمران طبقہ اور اس کی اتحادی ملائیت اس پسماندگی کے تضاد پر ہر وقت تقدس کا غلاف چڑھانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں ۔ جس نے ہماری جذباتی زندگی کو بری طرح برباد کر رکھا ہے۔

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔