ہماری آنکھوں نے بس وہ ہجوم دیکھا جو اس کے استقبال کے لیے اُمنڈ آیا
پر ہماری آنکھوں نے وہ پہاڑ نہیں دیکھے جن کی اونچی چوٹیاں بھی جھکی ہوئی تھیں
ہماری آنکھوں نے تو بس وہ ہاتھ دیکھے جو اس پر پھول کی پتیاں نچھاور کر رہے تھے
پر ہم نے وہ پنکھ نہیں دیکھے جو اس پر دیوانہ وار اُڑتے رہے
ہم نے بس وہ ہونٹ دیکھے جو آگے بڑھ کر اس کا نام لیتے تھے
پر ہم نے وہ تتلیاں نہیں دیکھیں جو اس کا نام چوم لیتی تھیں
ہم نے وہ پیر دیکھے جو اس کے دیدارکو محبت سے آگے بڑھ کر آئے
پر ہم ان پتھروں سے واقف ہی نہیں جو اس کی محبت میں آگے تو نہیں بڑھ پائے اسے دیکھ نہیں پائے پر اس کی محبت میں ایسے نرم پڑ گئے کہ اوس معلوم ہو تے تھے
ہم بس گیتوں،نظموں،نعروں سے واقف ہیں جو اس کے نام کے ساتھ جُڑ گئے ہیں
پر ہم ان گیتوں نے واقف ہی نہیں جو دھرتی کے پرندے اس کے نام پر گاتے ہیں اور اُڑتے ہیں
ہم تو بس ان ناموں سے واقف ہیں جو نام اس کے ساتھ سفر کرتے ہیں اور اپنا غم بیان کرتے ہیں اور وہ ان کے آنسو پونچھتی ہے
پر ہم اس چاند سے واقف ہی نہیں جو اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے پر دور دور بھی رہتا ہے
ہم ان ہواؤں سے واقف نہیں جو اس کے نام پر چلتی ہیں اور پو رے دیس کو خوشبوؤں سے بھر دیتی ہے
ہم ان بارشوں سے واقف نہیں جو اس کے نام پر برستی ہیں اور پو رے دیس کو محبت کے پانیوں سے بھر دیتی ہے۔ہم ان خوشبوؤں سے واقف ہی نہیں جو اس کے نام پر آکاش سے اترتی ہیں اور پورے دیس کو خوشبو ؤں سے بھر دیتی ہے۔ہم شبنم سے واقف ہی نہیں جو اس کے نام پر محبت سے پو ری رات برستی رہتی ہے اور اس نام کا بوسہ لیتی رہتی ہے۔ہم ان پھولوں سے واقف ہی نہیں جن کی خوشبو اس کے نام سے بھری جاتی ہے۔ہم اس سورج سے واقف ہی نہیں جو اس کے نام پر روشن ہوتا ہے اور بہت دور تک دئیے کی ماند جلتا جاتا ہے۔ہم ان ہزاروں دئییوں سے واقف نہیں جو اس کے نام پر جل اُٹھتے ہیں۔ہم انسانی سیلاب سے تو واقف ہیں جو اس کے نام پر آتا ہے اور ہزاروں ہاتھ اُٹھ پڑتے ہیں،پر ہم اس سیلاب سے واقف ہی نہیں جو سمندروں کے سینے میں بند ہے اور چاہتا ہے کہ جلد سے جلد وہ ان سمندروں سے اُٹھے اور اس کے قدموں میں چلا جائے، جن قدموں نے لطیف کے پیروں جتنا سفر کیا ہے،ہم ان دلوں کے سیلاب سے واقف ہی نہیں جو آتا ہے تم تمام دلوں کو بہا لے جاتا ہے۔ہم ان قوس قزح کے رنگوں سے واقف ہی نہیں جو بارش کے بعد نہیں پر بارش سے پہلے طلوع ہو تے ہیں اور اس کے نام کو اپنے رنگوں میں رنگ دیتے ہیں۔ہم اس چاند سے تو واقف ہیں جو چاند مشکے پر طلوع ہوتا ہے اور ہوتا ہوتا تمپ کی گلیوں میں ڈھل جاتا ہے۔پر ہم اس چاند سے واقف ہی نہیں جو بلوچ دھرتی پر طلوع ہوا اور پورے دیس کو اپنی چاندنی میں رنگ گیا،
وہ چاند ماہ رنگ ہے
دھرتی کا چاند
دیس کا چاند
دیس کی گلیوں کا چاند
دیس کے پہاڑوں کا چاند
آزاد چاند
ّآزادی پسندوں کا چاند
جب سے وہ چاند دیس کی گلیوں میں اترا ہے،دیس کے پہاڑ محبت سے جھوم رہے ہیں
کیا وہ جو شہر اقتدار میں رہتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ جب وہ بلوچ دھرتی پہ اترے گی تو
”متان سمجھین آجیان نہ تھیندی؟!“
پر لوگ تو لوگ،ہواؤں سے لیکر،بلند چوٹیوں تک،بارشوں سے لیکر قوس قزع کے رنگوں تک،ساحلوں سے لیکر سمندروں کے نیلگوں پانیوں سے لیکر کناروں تک،سورج،چاند سے لیکر تاروں تک،راہ میں پڑے پتھروں سے لیکر دلوں تک سرمچاروں سے لیکر آزادی تک سب اس کی آجیان کو آئے تھے اور دلبر کا دیس مسکرا اُٹھا،اور بہت دور بلند بالا پہاڑوں کے دامن میں دفن کسی آزادی پسند نے چاند سے بہت آہستے سے کہا کہ؛
”میں نہ کہتا تھا ایک دن آئے کا آپ میری روح دیس کی خوشبوؤں میں ڈھونڈوگے؟!!!
ماہ رنگ میری روح ہے اور دھرتی کے پہاڑ اس خوشبوؤں سے لپٹ رہے ہیں!“
ماہ رنگ بلوچ دھرتی پر محبت کا بوسہ ہے
ماہ رنگ بلوچ دھرتی کا سورج ہے،باقی سب ستارے،جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ایک بھی ستارہ باقی نہیں رہتا!
ماہ رنگ بلوچ نے دیس کے لیے بن منزلوں کے سفر کیے ہیں
تو بلوچ دیس نے ماہ رنگ کو اپنی آنکھوں پر بٹھا لیا ہے
ماہ رنگ دھرتی کی آنکھیں ہے
کاش یہ بات وہ بھی جان پائیں جو سمجھ رہے تھے کہ ماہ رنگ کے رنگ بس شہر اقتدار کی ہواؤں تک محفوظ ہیں،پر وہ نادان تو سمجھتے ہی نہیں کہ وہ پہاڑ اپنی بیٹی کو کیسے بھول سکتے ہیں جس بیٹی نے ہواؤں کا رُخ موڑ دیا،پانی میں ٹھراؤ پیدا کیا،ساحلوں کو بے قرار کیا،رنگوں میں اور رنگ بھر دیے،پہاڑوں کا سر فخر سے بلند کیا۔یہ دیس اپنی بیٹی کو نہیں بھلا سکتا
اب ماہ رنگ بس نعرہ نہیں
یقین ہے،اعتبار ہے اور منزل کا پتا ہے
آج تو بلوچ دیس کے پہاڑ جھوم رہے ہیں
اور کہہ رہے ہیں
ماہ رنگ!بلوچ دھرتی پر محبت کا بوسہ ہے!
—♦—
مصنف کے بارے
محمد خان داؤد نےکراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا ہے،سندھ اور بلوچستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھنے کا یارا رکھتے ہیں۔
محمد خان داؤد نےکراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا ہے،سندھ اور بلوچستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھنے کا یارا رکھتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
ہماری آنکھوں نے بس وہ ہجوم دیکھا جو اس کے استقبال کے لیے اُمنڈ آیا
پر ہماری آنکھوں نے وہ پہاڑ نہیں دیکھے جن کی اونچی چوٹیاں بھی جھکی ہوئی تھیں
ہماری آنکھوں نے تو بس وہ ہاتھ دیکھے جو اس پر پھول کی پتیاں نچھاور کر رہے تھے
پر ہم نے وہ پنکھ نہیں دیکھے جو اس پر دیوانہ وار اُڑتے رہے
ہم نے بس وہ ہونٹ دیکھے جو آگے بڑھ کر اس کا نام لیتے تھے
پر ہم نے وہ تتلیاں نہیں دیکھیں جو اس کا نام چوم لیتی تھیں
ہم نے وہ پیر دیکھے جو اس کے دیدارکو محبت سے آگے بڑھ کر آئے
پر ہم ان پتھروں سے واقف ہی نہیں جو اس کی محبت میں آگے تو نہیں بڑھ پائے اسے دیکھ نہیں پائے پر اس کی محبت میں ایسے نرم پڑ گئے کہ اوس معلوم ہو تے تھے
ہم بس گیتوں،نظموں،نعروں سے واقف ہیں جو اس کے نام کے ساتھ جُڑ گئے ہیں
پر ہم ان گیتوں نے واقف ہی نہیں جو دھرتی کے پرندے اس کے نام پر گاتے ہیں اور اُڑتے ہیں
ہم تو بس ان ناموں سے واقف ہیں جو نام اس کے ساتھ سفر کرتے ہیں اور اپنا غم بیان کرتے ہیں اور وہ ان کے آنسو پونچھتی ہے
پر ہم اس چاند سے واقف ہی نہیں جو اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے پر دور دور بھی رہتا ہے
ہم ان ہواؤں سے واقف نہیں جو اس کے نام پر چلتی ہیں اور پو رے دیس کو خوشبوؤں سے بھر دیتی ہے
ہم ان بارشوں سے واقف نہیں جو اس کے نام پر برستی ہیں اور پو رے دیس کو محبت کے پانیوں سے بھر دیتی ہے۔ہم ان خوشبوؤں سے واقف ہی نہیں جو اس کے نام پر آکاش سے اترتی ہیں اور پورے دیس کو خوشبو ؤں سے بھر دیتی ہے۔ہم شبنم سے واقف ہی نہیں جو اس کے نام پر محبت سے پو ری رات برستی رہتی ہے اور اس نام کا بوسہ لیتی رہتی ہے۔ہم ان پھولوں سے واقف ہی نہیں جن کی خوشبو اس کے نام سے بھری جاتی ہے۔ہم اس سورج سے واقف ہی نہیں جو اس کے نام پر روشن ہوتا ہے اور بہت دور تک دئیے کی ماند جلتا جاتا ہے۔ہم ان ہزاروں دئییوں سے واقف نہیں جو اس کے نام پر جل اُٹھتے ہیں۔ہم انسانی سیلاب سے تو واقف ہیں جو اس کے نام پر آتا ہے اور ہزاروں ہاتھ اُٹھ پڑتے ہیں،پر ہم اس سیلاب سے واقف ہی نہیں جو سمندروں کے سینے میں بند ہے اور چاہتا ہے کہ جلد سے جلد وہ ان سمندروں سے اُٹھے اور اس کے قدموں میں چلا جائے، جن قدموں نے لطیف کے پیروں جتنا سفر کیا ہے،ہم ان دلوں کے سیلاب سے واقف ہی نہیں جو آتا ہے تم تمام دلوں کو بہا لے جاتا ہے۔ہم ان قوس قزح کے رنگوں سے واقف ہی نہیں جو بارش کے بعد نہیں پر بارش سے پہلے طلوع ہو تے ہیں اور اس کے نام کو اپنے رنگوں میں رنگ دیتے ہیں۔ہم اس چاند سے تو واقف ہیں جو چاند مشکے پر طلوع ہوتا ہے اور ہوتا ہوتا تمپ کی گلیوں میں ڈھل جاتا ہے۔پر ہم اس چاند سے واقف ہی نہیں جو بلوچ دھرتی پر طلوع ہوا اور پورے دیس کو اپنی چاندنی میں رنگ گیا،
وہ چاند ماہ رنگ ہے
دھرتی کا چاند
دیس کا چاند
دیس کی گلیوں کا چاند
دیس کے پہاڑوں کا چاند
آزاد چاند
ّآزادی پسندوں کا چاند
جب سے وہ چاند دیس کی گلیوں میں اترا ہے،دیس کے پہاڑ محبت سے جھوم رہے ہیں
کیا وہ جو شہر اقتدار میں رہتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ جب وہ بلوچ دھرتی پہ اترے گی تو
”متان سمجھین آجیان نہ تھیندی؟!“
پر لوگ تو لوگ،ہواؤں سے لیکر،بلند چوٹیوں تک،بارشوں سے لیکر قوس قزع کے رنگوں تک،ساحلوں سے لیکر سمندروں کے نیلگوں پانیوں سے لیکر کناروں تک،سورج،چاند سے لیکر تاروں تک،راہ میں پڑے پتھروں سے لیکر دلوں تک سرمچاروں سے لیکر آزادی تک سب اس کی آجیان کو آئے تھے اور دلبر کا دیس مسکرا اُٹھا،اور بہت دور بلند بالا پہاڑوں کے دامن میں دفن کسی آزادی پسند نے چاند سے بہت آہستے سے کہا کہ؛
”میں نہ کہتا تھا ایک دن آئے کا آپ میری روح دیس کی خوشبوؤں میں ڈھونڈوگے؟!!!
ماہ رنگ میری روح ہے اور دھرتی کے پہاڑ اس خوشبوؤں سے لپٹ رہے ہیں!“
ماہ رنگ بلوچ دھرتی پر محبت کا بوسہ ہے
ماہ رنگ بلوچ دھرتی کا سورج ہے،باقی سب ستارے،جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ایک بھی ستارہ باقی نہیں رہتا!
ماہ رنگ بلوچ نے دیس کے لیے بن منزلوں کے سفر کیے ہیں
تو بلوچ دیس نے ماہ رنگ کو اپنی آنکھوں پر بٹھا لیا ہے
ماہ رنگ دھرتی کی آنکھیں ہے
کاش یہ بات وہ بھی جان پائیں جو سمجھ رہے تھے کہ ماہ رنگ کے رنگ بس شہر اقتدار کی ہواؤں تک محفوظ ہیں،پر وہ نادان تو سمجھتے ہی نہیں کہ وہ پہاڑ اپنی بیٹی کو کیسے بھول سکتے ہیں جس بیٹی نے ہواؤں کا رُخ موڑ دیا،پانی میں ٹھراؤ پیدا کیا،ساحلوں کو بے قرار کیا،رنگوں میں اور رنگ بھر دیے،پہاڑوں کا سر فخر سے بلند کیا۔یہ دیس اپنی بیٹی کو نہیں بھلا سکتا
اب ماہ رنگ بس نعرہ نہیں
یقین ہے،اعتبار ہے اور منزل کا پتا ہے
آج تو بلوچ دیس کے پہاڑ جھوم رہے ہیں
اور کہہ رہے ہیں
ماہ رنگ!بلوچ دھرتی پر محبت کا بوسہ ہے!
—♦—
مصنف کے بارے
محمد خان داؤد نےکراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا ہے،سندھ اور بلوچستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھنے کا یارا رکھتے ہیں۔
محمد خان داؤد نےکراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا ہے،سندھ اور بلوچستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھنے کا یارا رکھتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT