”اڃان پئي جيئن ،سڄڻ ساريو نہ مرين!“
”ارے!ابھی تک زندہ ہو محبوب کو یاد کر کے مرکیوں نہیں جاتی؟!“
لطیف بھی حیران ہے۔ میں بھی حیران ہوں۔ تم بھی حیران ہو۔جہاں بھی حیران ہے۔ اور وہ بھی حیران ہیں جو اس سارے قضیے کے ذمہ دار ہیں۔ کہ وہ اب تک کیوں زندہ ہے؟ پر خوش قسمتی سے وہ ابھی تک زندہ ہے۔
اس کا دل جل گیا ہے۔ ایسا جلا ہے۔جس کے لیے غالبؔ نے خبردار کیا تھا کہ؛
”جلا ہے جسم تو دل بھی جل گیا ہوگا کُریدتے کیا ہو، جستجو کیا ہے؟!“
اس کا دامن جل گیا ہے۔ اس کے منتظر نین جل گئے ہیں۔ اس کی مانگ جل گئی ہے۔ اس کی رُوح جل گئی ہے۔ اس کے پیر سسئی کے پیروں سے بھی زیا دہ گھائل ہیں۔اس کا سفر سسئی کے سفر سے بھی طویل ہے۔اس کا درد سسئی کے درد سے بھی گہرا ہے۔ محبوبہ کا وچھوڑا تو شاعروں نے گایا ہے۔ پر دل اور درد کا وچھوڑا کون گائے؟
سسئی اپنے محبوب پنہوں کی متلاشی تھی۔ پر اس کی تلاش سسئی کے پنہوں سے بھی آگے کی ہے۔سسئی نے تو سورج کو یہ کہا تھا کہ؛
”میں اپنے محبوب سے نہیں مل پائی اور تم ڈوب رہے ہو؟!“
پر اس کے سامنے تو کئی سورج ڈوبے اور کئی سورج طلوع ہوئے اگر نہیں ڈوبتا تو درد کا سورج، اور اگر نہیں طلوع ہوتا تو اُمید کا سورج! سسئی نے تو محبوب کی تلاش میں پتھروں سے کہا تھا کہ؛
”ڈونگر مون سین روءِ کڈھی پار پنہوں جا!“
(پتھرو! میرے محبوب کو یاد کر کے میرے ساتھ روؤ!“)
پر یہ کس سے کہے کہ محبوب کو یاد کر کے میرے ساتھ روؤ، اس کے درد کے زمانے میں تو لوگ اندھے،بہرے،گونگے ہو ہی چکے ہیں پر پتھر بھی گونگے ہو چکے ہیں۔تو یہ کس سے کہے کہ ”میرے محبوب کو یاد کر کے روؤ“ جب درد دامن گیر ہو۔جب درد کی شامیں اُتریں۔ جب درد کے سویرے طلوع ہوں۔جب درد کی راتیں طویل ہو جائیں۔جب درد کی راتیں ٹہر جائیں۔جب درد کی بارشیں برسیں۔جب درد کی ہوائیں چلیں۔ جب درد دل میں سما جائے۔ جب درد رُوح میں کسی بھالے کی ماند اُتر جائے۔ جب درد گولی بن کر وجود کے آر پار ہو جائے۔ جب درد سفر ہو۔جب دردکُوک ہو۔جب درد ”دانھن“ ہو۔جب درد التجا ہو۔جب درد انتظار ہو،وہ بھی طویل تر!
جب درد اُداس نینوں کو گھیر لے۔ جب دل رونا چاہے اور اشک بہہ نہ پائیں۔جب دل کچھ کہنا چاہے اور کہہ نہ پائے۔جب آنکھیں سو نا چاہیں اور سو نہ پائیں ، جب آنکھیں دل کے ساتھ جاگتی رہیں اور دل آنکھوں کے رتجگے کے عذاب کو جھیلتی رہیں اور آنکھوں کے ساتھ ساتھ گھر کی ہر چیز جاگنے کے عذاب سے گزر رہی ہو تو دل کی کیفیت کیسی ہوگی؟ اسی کیفیت کو دیکھ کر اور درد کو دامن گیر ہوتے دیکھ کر ہی لطیف نے اس ماں کو کہا ہے کہ؛
”اڃان پئي جيئن ،سڄڻ ساريو نہ مرين!“
”ارے!ابھی تک زندہ ہو محبوب کو یاد کر کے مرکیوں نہیں جاتی؟!“
پر وہ ماں مری نہیں۔ اس نے اپنے محبوب جیسے بیٹے کو جنم دیا۔اس سے محبت کی۔ اس کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرا۔اس کے گال چومے۔ اسے گھر کے آنگن میں دوڑتے دیکھا۔ بانہوں میں بھرا۔ اپنی آغوش میں سُلایا۔ اپنی آنکھو ں سے اسے جوان ہو تے دیکھا۔اس کے محبت بھرے ناز سہے۔ اس کے پیار بھرے پسینے کی خوشبو کو محسوس کیا۔ اسے چوما۔اس سے روٹھی۔ اسے منایا۔اس کے گیت گائے۔ اس کے خواب دکھے۔ اور اب درد جھیل رہی ہے! اب تو وہ خوابوں میں بھی نہیں آتا۔
وہ خوابوں میں کیسے آئے جب ماں کو نیند ہی نہیں آتی۔ جب اسے ماں سے محبت تھی تو دل کو درد دامن گیر نہیں تھا۔جب اسے پہاڑوں سے محبت ہوئی تو درد ماں کو دامن گیر ہوا اور ماں اپنا مقدمہ اب پہاڑوں کے پاس لے آئی ہے۔
درد کا مقدمہ
وچھوڑے کی ایف آئی آر!
انتظار ی کا کیس
اداس شاموں کا نوحہ
بے خبری صبحوں کا درد
ماتمی راتوں کا قصہ
اداس سفروں کا درد
گیلے نینوں کا نوحہ
اُلجھی اُلھی مانگ کا درد
روتی آنکھو ں کا بیان
روتی،ماتم کرتی دل کا حال
اور اس سے بھی آگے کا درد
جو نہ تو ان پنوں میں سمیٹا جا سکتا ہے
اور نہ ان آنکھوں سے پڑھا جا سکتا ہے
وہ سارے کا سارا درد
سسئی جیسی ماں اپنے پنہوں کا مقدمہ
ان پہاڑوں کے سامنے پیش کر رہی ہے
جن پہاڑوں نے پہلے اس ماں کے پنہوں کو اپنے عشق میں مبتلا کیا
اور اب اس ماں کے ساتھ روتے بھی نہیں
کون کہتا ہے کہ سسئی کے درد کی داستان قصۂ ماضی بنی؟
پہلے اک سسئی پہاڑوں کے سامنے اپنا مقدمہ بیان کرنے کو کیچ چلی
اور اب اک ماں اپنا درد پہاڑوں کے سامنے پیش کر رہی ہے
پہلے سسئی پتھروں سے فریاد کر رہی تھی
اب اک ماں پہاڑوں سے فریاد کر رہی ہے
عشق درد ہوتا ہے
اور درد ناسور ہوتا ہے
پہلے سسئی کو عشق ہوا اور ناسور درد سے آشنا ہو ئی
اب وہ ماں درد جیسے ناسور سے آشنا ہے
ایسا نہیں کہ اس ماں کو عشق ہوا ہو نہیں!
اس ماں نے بس پنہوں جنا
اور اس پنہوں کو اپنے دیس سے۔
دیس کے لوگوں سے۔
دیس کے ندی نالوں ،جھرنوں سے۔
اور بلند پہاڑوں سے عشق ہوا
اور عشق نے اسے وہ سزا دی کہ
ماں سسئی بن کر پہاڑوں میں رُل گئی
اب وہ ماں اپنا مقدمہ پہاڑوں پر پیش نہ کرے تو کہاں جائے
جب کہ ایسا درد دیکھ کر لطیف بھی حیران ہے
اور سوچتا ہے کہ یہ ماں اب تک زندہ ہے!
”اڃان پئي جيئن ،سڄڻ ساريو نہ مرين!“
”ارے!ابھی تک زندہ ہو محبوب کو یاد کر کے مرکیوں نہیں جاتی؟!“
—♦—
محمد خان داؤد نےکراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا ہے،سندھ اور بلوچستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھنے کا یارا رکھتے ہیں۔