آج کے عنوان کا موضوع ہے، کیا ہماری سیاست کے اُصول کوئی ٹھوس حقیقت رکھتے ہیں، یا صرف ذاتی جذبہ و احساس، پسند ناپسند یا man to man کی بنیاد پر تبدیل ہوتے رہتے ہیں ؟۔ ہم نے سیاست کا لفظ لکھ کر اپنی گفتگو کا حدود اربعہ مقرر کر دیا ہے۔
ہماری گفتگو بائیں بازو کی سیاست کے اُصولوں تک محدود رہے گی۔ ساتھ ہی ہم اُصول کے معنی بھی بیان کرتے جائیں، حالانکہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض الفاظ، اصطلاحات اور ان کے معنی اتنے مستعمل ہوتے ہیں۔ ان کی تعریف و تشریح مزید اُلجھاؤ پیدا کر دیتی ہے۔ بھر بھی کچھ دوست اور کچھ نہیں ملتا تو اس قسم کے غیر ضروری سوالات اُٹھا دیتے ہی۔ جیسا کہ گزشتہ ایک مضمون بعنوان ” ہم یاسیت کی عیاشی کے متحمل نہیں ہو سکتے!“ پر یاسیت کی تعریف کے نہ ہونے کا اُٹھا دیا۔ ورنہ مایوسی کی مزید کیا تعریف ؟ ۔ جب کہ گفتگو کا موضوع بھی واضع ہو۔ سوائے مزید ابہام پیدا کرنے کے۔
ہم اُصول کو کسی بھی نظام، وقوعہ اور مظہر کا بنیادی منطقی لیڈنگ آئیڈیا، طور طریق، طرزِ عمل کے معنی میں لے رہے ہیں۔
جیسا کہ عرض کر چکے ہیں کہ ہم پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کے اندر رہ کر گفتگو کرنے کی کوشش کریں گے۔ ممکن ہے دورانِ مکالمہ کہیں پارٹی کا حوالہ آ جائے۔ تو ہم اپنے ذمہ لے لیں گے۔ ہمیں کسی دوسری پارٹی پر بات کرنے کا حق نہیں ہے۔ ورنہ تو سب ایک جیسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ دوسرے دوست جانیں ان کا کام جانے۔ ہماری بحث بہت بنیادی ہے۔
کیا ہم لیفٹ کی سیاست کر رہے ہیں ؟، اگر جواب ہاں میں ہے تو ہماری سیاست غیر طبقاتی سماج کے قیام کی ہے ، جو طبقاتی جدوجہد کے بغیر ناممکن ہے۔ طبقاتی جدوجہد، سامراج دشمنی، اجارہ دار سرمایہ داری کا خاتمہ و دیگر۔
ہر ملک/سماج کے اپنے مخصوص تضادات بھی ہوتے ہیں ، جیسے ہمارے ہاں پاکستان ایک کثیرالقومی نیم سرمایہ دارانہ ریاست ہونے کی بنا پر قومی سوال، نیم قبائلی، نیم جاگیردارانہ کی بنیاد پر خواتین کی سوشیواکنامک برابری ، سیکولر ازم ، چین ، انڈیا، ایران، افغانستان اور خطے کے دیگر پڑوسی ممالک سے دوستی، تجارت کے سوالات ہماری سیاست کے salient features ہیں۔ ہاں اور بھی بہت سے تضادات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ جن سے انکار ممکن نہ ہو۔
اب ہم جب ان کو سیاسی دستاویز میں لکھنے پر اتفاق کر لیتے ہیں۔ تب سٹریٹجی اور لائحہ عمل کا مرحلہ آتا ہے ۔ ہم پھر اپنی اپنی ڈگڈگی بجانے لگ جاتے ہیں ۔ خاص طور پر سوویت ناکامی اور فری مارکیٹ کے بعد ہم کچھ جنریشنز سے محروم ، ورکنگ کلاس سے باہر اور نظریاتی طور پر مفلوک الحال ، لبرل ازم سے بار بار دھوکہ کھانے کے باوجود دم چھلہ بنے رہنے سے باز نہیں آتے ۔
مڈل کلاس، مڈل کلاس کھیل کی وجہ سے پیٹی بورژوا رجحانات حاوی ہو جاتے ہیں ۔ قیادتوں پر قبضہ کی الگ سے خباثتیں ہیں۔ سامراجی مالی مفادات میں اتنی مقناطیسی کشش ہوتی ہے۔
ہم ان کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں ۔ NGOs سمیت دیگر سو قسم کے ذرائع موجود ہیں ۔
جب پارٹیوں کے اندر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ تو نظریاتی کمزوریاں اور سامراجی مالی مفادات گروہی سیاست کو جنم دیتے ہیں۔ معروضی نگاہ کی بجائے فرد ، گروہ اور موضوعیت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔ پارٹیاں مزید انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں۔

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
آج کے عنوان کا موضوع ہے، کیا ہماری سیاست کے اُصول کوئی ٹھوس حقیقت رکھتے ہیں، یا صرف ذاتی جذبہ و احساس، پسند ناپسند یا man to man کی بنیاد پر تبدیل ہوتے رہتے ہیں ؟۔ ہم نے سیاست کا لفظ لکھ کر اپنی گفتگو کا حدود اربعہ مقرر کر دیا ہے۔
ہماری گفتگو بائیں بازو کی سیاست کے اُصولوں تک محدود رہے گی۔ ساتھ ہی ہم اُصول کے معنی بھی بیان کرتے جائیں، حالانکہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض الفاظ، اصطلاحات اور ان کے معنی اتنے مستعمل ہوتے ہیں۔ ان کی تعریف و تشریح مزید اُلجھاؤ پیدا کر دیتی ہے۔ بھر بھی کچھ دوست اور کچھ نہیں ملتا تو اس قسم کے غیر ضروری سوالات اُٹھا دیتے ہی۔ جیسا کہ گزشتہ ایک مضمون بعنوان ” ہم یاسیت کی عیاشی کے متحمل نہیں ہو سکتے!“ پر یاسیت کی تعریف کے نہ ہونے کا اُٹھا دیا۔ ورنہ مایوسی کی مزید کیا تعریف ؟ ۔ جب کہ گفتگو کا موضوع بھی واضع ہو۔ سوائے مزید ابہام پیدا کرنے کے۔
ہم اُصول کو کسی بھی نظام، وقوعہ اور مظہر کا بنیادی منطقی لیڈنگ آئیڈیا، طور طریق، طرزِ عمل کے معنی میں لے رہے ہیں۔
جیسا کہ عرض کر چکے ہیں کہ ہم پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کے اندر رہ کر گفتگو کرنے کی کوشش کریں گے۔ ممکن ہے دورانِ مکالمہ کہیں پارٹی کا حوالہ آ جائے۔ تو ہم اپنے ذمہ لے لیں گے۔ ہمیں کسی دوسری پارٹی پر بات کرنے کا حق نہیں ہے۔ ورنہ تو سب ایک جیسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ دوسرے دوست جانیں ان کا کام جانے۔ ہماری بحث بہت بنیادی ہے۔
کیا ہم لیفٹ کی سیاست کر رہے ہیں ؟، اگر جواب ہاں میں ہے تو ہماری سیاست غیر طبقاتی سماج کے قیام کی ہے ، جو طبقاتی جدوجہد کے بغیر ناممکن ہے۔ طبقاتی جدوجہد، سامراج دشمنی، اجارہ دار سرمایہ داری کا خاتمہ و دیگر۔
ہر ملک/سماج کے اپنے مخصوص تضادات بھی ہوتے ہیں ، جیسے ہمارے ہاں پاکستان ایک کثیرالقومی نیم سرمایہ دارانہ ریاست ہونے کی بنا پر قومی سوال، نیم قبائلی، نیم جاگیردارانہ کی بنیاد پر خواتین کی سوشیواکنامک برابری ، سیکولر ازم ، چین ، انڈیا، ایران، افغانستان اور خطے کے دیگر پڑوسی ممالک سے دوستی، تجارت کے سوالات ہماری سیاست کے salient features ہیں۔ ہاں اور بھی بہت سے تضادات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ جن سے انکار ممکن نہ ہو۔
اب ہم جب ان کو سیاسی دستاویز میں لکھنے پر اتفاق کر لیتے ہیں۔ تب سٹریٹجی اور لائحہ عمل کا مرحلہ آتا ہے ۔ ہم پھر اپنی اپنی ڈگڈگی بجانے لگ جاتے ہیں ۔ خاص طور پر سوویت ناکامی اور فری مارکیٹ کے بعد ہم کچھ جنریشنز سے محروم ، ورکنگ کلاس سے باہر اور نظریاتی طور پر مفلوک الحال ، لبرل ازم سے بار بار دھوکہ کھانے کے باوجود دم چھلہ بنے رہنے سے باز نہیں آتے ۔
مڈل کلاس، مڈل کلاس کھیل کی وجہ سے پیٹی بورژوا رجحانات حاوی ہو جاتے ہیں ۔ قیادتوں پر قبضہ کی الگ سے خباثتیں ہیں۔ سامراجی مالی مفادات میں اتنی مقناطیسی کشش ہوتی ہے۔
ہم ان کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں ۔ NGOs سمیت دیگر سو قسم کے ذرائع موجود ہیں ۔
جب پارٹیوں کے اندر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ تو نظریاتی کمزوریاں اور سامراجی مالی مفادات گروہی سیاست کو جنم دیتے ہیں۔ معروضی نگاہ کی بجائے فرد ، گروہ اور موضوعیت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔ پارٹیاں مزید انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں۔

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔