”سارے سُکھی گھرانے ایک جیسے ہو تے ہیں،مگر ہر دُکھی گھرانہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے!“
مشہورِ عالم ناول ”اینا کریننا“ اس جملے سے شروع ہوتی ہے، اس ناول میں اور بھی بہت سی ایسی باتیں ہیں جن باتوں پر رُک کر سوچا جا سکتا ہے، پر اُوپر والی ایسی بات ہے جسے پڑھنے کے بعد بلکل بھی آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ یہ بات اگر گلے کا طوق نہیں تو بھی پیروں کی زنجیر ضرور ہے۔ ایسی زنجیر،جسے شوق سے پیروں میں پہنا جائے،ایسی زنجیر جو ہو بھی اور نہ بھی ہو، ایسی زنجیر جو نظر بھی آئے اور غائب بھی ہویہ بات ایک ماتم ہے، ایک درد ہے، ایک سور ہے، ایک تکلیف ہے جو نظر کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیتی نظر ان ہی الفاظوں میں ٹھہر جاتی ہے کہ؛
”سارے سُکھی گھرانے ایک جیسے ہو تے ہیں، مگر ہر دُکھی گھرانہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے!“
سرفراز بگٹی کا گھر اور زین بگٹی کا گھر ایک جیسا ہو سکتا ہے، ڈاکٹر مالک کا گھر اور اختر مینگل کا گھر ایک جیسا ہو سکتا ہے، زہری کا گھر اور جام کمال کا گھر ایک جیسا ہو سکتا ہے۔ ثناء بلوچ کا گھر اور کاکڑ کا گھر ایک جیسا ہو سکتا ہے۔ ایک سردار کا گھر اور دوسرے سردار کا گھر ایک جیسے ہو سکتے ہیں، مری قبیلے کے سربراہ اور بگٹی قبیلے کے سربراہ کا گھر ایک جیسا ہو سکتا ہے، اسلم رئیسانی اور بزنجو کا گھر ایک جیسا ہو سکتا ہے۔
پر سمی کا گھر اور ماہ رنگ کا گھر ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ سیما بلوچ اور بیبو بلوچ کا گھر ایک جیسا نہیں ہو سکتا، زاہد بلوچ اور ذاکر مجید کا گھر ایک جیسا نہیں ہو سکتا، بالاچ بلوچ کا گھر اور حمل کا گھر ایک جیسا نہیں ہو سکتا، راشد بلوچ کی ماں کا گھر اور فرزانہ مجید کا گھر ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔
مسافر اور عیاش کا گھر ایک جیسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اور مسافر بھی وہ جو درد کے مسافر ہوں جن کے پیروں نے دردیلا سفر کیا ہو اور ان کی بس جوتیاں دھول آلود نہ ہوں پر ان کی مانگیں بھی دھول آلود ہوں۔
عیاش آنکھوں اور رو تی آنکھوں کے گھر ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں،آنکھیں بھی ہو جن آنکھوں میں انتظار طویل شب کی طرح ٹھہر گیا ہو! بےہو دہ ہاتھ اور درد سے چور چور ہاتھ ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں؟ ہاتھ بھی وہ جن ہاتھوں نے بس یا تو کمزور بدنوں کو سہارا دیا ہو یا بس رو تے نینوں سے آنسو پونچھے ہوں؟ خوش باش چہرے اور اداس چہرے ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں؟ چہرے بھی وہ جن چہروں نے بس دوران سفردھوپ کی تمازت سہی ہو؟ راک میوزک سنتے کان اور خامشی میں چیخیں سنتے کان برابر کیسے ہو سکتے ہیں؟ کان بھی وہ جو رات کے آخری پہروں میں ان آوازوں کو سنتے ہوں جن آوازوں کو سنتے زمانہ بیت گیا ہے اور کوئی آکے کان میں کہتا ہے؛
”اماں آپ نہ روئیں میں زندہ ہوں!“
اور وہ مائیں پاگلوں کی طرح ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھیں! بیکن ہاؤس جا تے بچے اور ماؤں کا دامن تھامیں مسافر بچے ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں؟بچے بھی ہو جن بچوں نے پہلے ماؤں کی گودوں پر بیٹھ کر سفر کیے،پھر اپنے معصوم پیروں سے چلے اب سخت سردی میں اداس کیمپوں کے باہر بیٹھ کر دھند میں ڈوبے امیروں کے شہر کو دیکھتے ہیں رات کے آخری پہروں میں اپنے چہروں سے میک اپ اتارتی بے ہودہ بوڑھیاں۔اور رات کے آخری پہروں میں اپنی آنکھوں سے ان پھٹتی اداس تصویروں کو اپنی آنکھوں پر رکھ کر نیند کی اداکاری کرتی مائیں ایک جیسی کیسے ہو سکتی ہیں۔
مائیں بھی وہ جو کم جئیں ہیں اور زیا دہ مری ہیں۔
دن کے اُجالے میں اپنے چہروں پر لپ اسٹیک لگا تے ہونٹ اور خوف میں کانپتے ہونٹ ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں؟ہونٹ بھی وہ جو ہزاروں بار اپنے گم شدہ بھائی اور بابا کا نام لے چکے ہیں خوش باش اور غمگین میں کچھ بھی یکساں نہیں سفر سے لیکر نیند تک،دن کے اجالے سے لیکر رات کی تاریکی تک ایسے میں دوستو وسکی کے ناول کی پہلی پہلی بات بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ؛
”سارے سُکھی گھرانے ایک جیسے ہو تے ہیں،مگر ہر دُکھی گھرانہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے!“
یہ بات نہ تو کاکڑ سمجھ سکے گا،نہ سرفراز بگٹی اور نہ ہی زین بگٹی یہ بات ہی کچھ اور ہے ہاں یہ بات عمران ریاض خان سمجھ سکتا ہے جو پہلے درد کا مذاق اُڑاتا تھا اب ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگتا نظر آتا ہے۔ درد،درد سے واقف کرتا ہے۔جب درد دامن گیر ہوتا ہے تو بہت کچھ سمجھ آنے لگتا ہے۔
دوستو وسکی کی یہ بات بزنجو،ثناء،اور اختر مینگل بھی نہیں سمجھ پائیں گے،یہ بات وہ بوڑھی ماں ضرور سمجھ پائے گی جس کی آدھی عمر انتظار میں کٹ گئی اور آدھی عمر سفر میں۔
مسافر ہی سمجھ پاتا ہے کہ سسئی کا درد کیا تھا اور سسئی کی محبت کیا ہے؟
ایک سسئی وندر سے بہت آگے گئی
اور ایک سسئی شہر ِاقتدار سے بھی بہت آگے جا چکی ہے
ہم سب نے شب ِ بقا ءِ نور کو دیکھا ہے
ہم طویل شبِ ہجر اں سے واقف نہیں
ہم نے جلتے چاند کو دیکھا ہے
ہم نے ڈوبتے چاند کو نہیں دیکھا
ہم بولتی سسیوں سے واقف ہیں
ہم سسکتی سسیوں سے واقف نہیں
ہم بقاءِ نور میں برستی بارش سے واقف ہیں
ہم طویل شبِ ہجر میں جلتی بارش سے واقف نہیں
ہم اُداس کیمپوں میں بیٹھی ماؤں سے واقف ہیں
ان اُداس کیمپوں میں ماتم کرتی ماؤں سے واقف نہیں
سب کچھ ایک جیسا ہو سکتا ہے
خوشبوؤں سے لیکر فاسٹ فوڈز تک، پر۔۔۔۔۔۔؟!!!
”سارے سُکھی گھرانے ایک جیسے ہو تے ہیں،مگر ہر دُکھی گھرانہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے!“
یہ بات طویل شبِ ہجر کی ہے
آنکھوں دیکھی اور کانوں سُنی
ناتمام!!!!

محمد خان داؤد نےکراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا ہے،سندھ اور بلوچستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھنے کا یارا رکھتے ہیں۔
Comments 2
جواب دیں جواب منسوخ کریں
”سارے سُکھی گھرانے ایک جیسے ہو تے ہیں،مگر ہر دُکھی گھرانہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے!“
مشہورِ عالم ناول ”اینا کریننا“ اس جملے سے شروع ہوتی ہے، اس ناول میں اور بھی بہت سی ایسی باتیں ہیں جن باتوں پر رُک کر سوچا جا سکتا ہے، پر اُوپر والی ایسی بات ہے جسے پڑھنے کے بعد بلکل بھی آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ یہ بات اگر گلے کا طوق نہیں تو بھی پیروں کی زنجیر ضرور ہے۔ ایسی زنجیر،جسے شوق سے پیروں میں پہنا جائے،ایسی زنجیر جو ہو بھی اور نہ بھی ہو، ایسی زنجیر جو نظر بھی آئے اور غائب بھی ہویہ بات ایک ماتم ہے، ایک درد ہے، ایک سور ہے، ایک تکلیف ہے جو نظر کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیتی نظر ان ہی الفاظوں میں ٹھہر جاتی ہے کہ؛
”سارے سُکھی گھرانے ایک جیسے ہو تے ہیں، مگر ہر دُکھی گھرانہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے!“
سرفراز بگٹی کا گھر اور زین بگٹی کا گھر ایک جیسا ہو سکتا ہے، ڈاکٹر مالک کا گھر اور اختر مینگل کا گھر ایک جیسا ہو سکتا ہے، زہری کا گھر اور جام کمال کا گھر ایک جیسا ہو سکتا ہے۔ ثناء بلوچ کا گھر اور کاکڑ کا گھر ایک جیسا ہو سکتا ہے۔ ایک سردار کا گھر اور دوسرے سردار کا گھر ایک جیسے ہو سکتے ہیں، مری قبیلے کے سربراہ اور بگٹی قبیلے کے سربراہ کا گھر ایک جیسا ہو سکتا ہے، اسلم رئیسانی اور بزنجو کا گھر ایک جیسا ہو سکتا ہے۔
پر سمی کا گھر اور ماہ رنگ کا گھر ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ سیما بلوچ اور بیبو بلوچ کا گھر ایک جیسا نہیں ہو سکتا، زاہد بلوچ اور ذاکر مجید کا گھر ایک جیسا نہیں ہو سکتا، بالاچ بلوچ کا گھر اور حمل کا گھر ایک جیسا نہیں ہو سکتا، راشد بلوچ کی ماں کا گھر اور فرزانہ مجید کا گھر ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔
مسافر اور عیاش کا گھر ایک جیسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اور مسافر بھی وہ جو درد کے مسافر ہوں جن کے پیروں نے دردیلا سفر کیا ہو اور ان کی بس جوتیاں دھول آلود نہ ہوں پر ان کی مانگیں بھی دھول آلود ہوں۔
عیاش آنکھوں اور رو تی آنکھوں کے گھر ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں،آنکھیں بھی ہو جن آنکھوں میں انتظار طویل شب کی طرح ٹھہر گیا ہو! بےہو دہ ہاتھ اور درد سے چور چور ہاتھ ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں؟ ہاتھ بھی وہ جن ہاتھوں نے بس یا تو کمزور بدنوں کو سہارا دیا ہو یا بس رو تے نینوں سے آنسو پونچھے ہوں؟ خوش باش چہرے اور اداس چہرے ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں؟ چہرے بھی وہ جن چہروں نے بس دوران سفردھوپ کی تمازت سہی ہو؟ راک میوزک سنتے کان اور خامشی میں چیخیں سنتے کان برابر کیسے ہو سکتے ہیں؟ کان بھی وہ جو رات کے آخری پہروں میں ان آوازوں کو سنتے ہوں جن آوازوں کو سنتے زمانہ بیت گیا ہے اور کوئی آکے کان میں کہتا ہے؛
”اماں آپ نہ روئیں میں زندہ ہوں!“
اور وہ مائیں پاگلوں کی طرح ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھیں! بیکن ہاؤس جا تے بچے اور ماؤں کا دامن تھامیں مسافر بچے ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں؟بچے بھی ہو جن بچوں نے پہلے ماؤں کی گودوں پر بیٹھ کر سفر کیے،پھر اپنے معصوم پیروں سے چلے اب سخت سردی میں اداس کیمپوں کے باہر بیٹھ کر دھند میں ڈوبے امیروں کے شہر کو دیکھتے ہیں رات کے آخری پہروں میں اپنے چہروں سے میک اپ اتارتی بے ہودہ بوڑھیاں۔اور رات کے آخری پہروں میں اپنی آنکھوں سے ان پھٹتی اداس تصویروں کو اپنی آنکھوں پر رکھ کر نیند کی اداکاری کرتی مائیں ایک جیسی کیسے ہو سکتی ہیں۔
مائیں بھی وہ جو کم جئیں ہیں اور زیا دہ مری ہیں۔
دن کے اُجالے میں اپنے چہروں پر لپ اسٹیک لگا تے ہونٹ اور خوف میں کانپتے ہونٹ ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں؟ہونٹ بھی وہ جو ہزاروں بار اپنے گم شدہ بھائی اور بابا کا نام لے چکے ہیں خوش باش اور غمگین میں کچھ بھی یکساں نہیں سفر سے لیکر نیند تک،دن کے اجالے سے لیکر رات کی تاریکی تک ایسے میں دوستو وسکی کے ناول کی پہلی پہلی بات بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ؛
”سارے سُکھی گھرانے ایک جیسے ہو تے ہیں،مگر ہر دُکھی گھرانہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے!“
یہ بات نہ تو کاکڑ سمجھ سکے گا،نہ سرفراز بگٹی اور نہ ہی زین بگٹی یہ بات ہی کچھ اور ہے ہاں یہ بات عمران ریاض خان سمجھ سکتا ہے جو پہلے درد کا مذاق اُڑاتا تھا اب ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگتا نظر آتا ہے۔ درد،درد سے واقف کرتا ہے۔جب درد دامن گیر ہوتا ہے تو بہت کچھ سمجھ آنے لگتا ہے۔
دوستو وسکی کی یہ بات بزنجو،ثناء،اور اختر مینگل بھی نہیں سمجھ پائیں گے،یہ بات وہ بوڑھی ماں ضرور سمجھ پائے گی جس کی آدھی عمر انتظار میں کٹ گئی اور آدھی عمر سفر میں۔
مسافر ہی سمجھ پاتا ہے کہ سسئی کا درد کیا تھا اور سسئی کی محبت کیا ہے؟
ایک سسئی وندر سے بہت آگے گئی
اور ایک سسئی شہر ِاقتدار سے بھی بہت آگے جا چکی ہے
ہم سب نے شب ِ بقا ءِ نور کو دیکھا ہے
ہم طویل شبِ ہجر اں سے واقف نہیں
ہم نے جلتے چاند کو دیکھا ہے
ہم نے ڈوبتے چاند کو نہیں دیکھا
ہم بولتی سسیوں سے واقف ہیں
ہم سسکتی سسیوں سے واقف نہیں
ہم بقاءِ نور میں برستی بارش سے واقف ہیں
ہم طویل شبِ ہجر میں جلتی بارش سے واقف نہیں
ہم اُداس کیمپوں میں بیٹھی ماؤں سے واقف ہیں
ان اُداس کیمپوں میں ماتم کرتی ماؤں سے واقف نہیں
سب کچھ ایک جیسا ہو سکتا ہے
خوشبوؤں سے لیکر فاسٹ فوڈز تک، پر۔۔۔۔۔۔؟!!!
”سارے سُکھی گھرانے ایک جیسے ہو تے ہیں،مگر ہر دُکھی گھرانہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے!“
یہ بات طویل شبِ ہجر کی ہے
آنکھوں دیکھی اور کانوں سُنی
ناتمام!!!!

محمد خان داؤد نےکراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا ہے،سندھ اور بلوچستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھنے کا یارا رکھتے ہیں۔
تحریر اچھی ہے ڈایس پر کھڑے مقرر کا گمان ہوتا ہے وہ بھ تقریری مقابلے کے لیے۔
املاء درست کرنے کی ضرورت ہے۔
الفاظوں کیا ہے
لفظ کی جمع الفاظ ہے
لپ اسٹیک . ❌
لپ اسٹک
جی شکریہ الوینہ صاحبہ۔ آپ نے درست نشاندہی کی ہے ہم آئندہ املاء کا خاص خیال رکھیں گے۔ جو دوست سندھ سے تصانیف بھیجتے ہیں۔ اُن میں ایسے الفاظ کا بکثرت استعمال ہوتا ہے تو بعض اوقات نظر انداز ہو جاتی ہیں۔