مُنّو بھائی اُس نسل کے سرکردہ لوگوں میں سے تھے جو اپنے عہد کا ضمیر ہوا کرتے تھے! عوامی اُمنگیں اُن کے فکر و فن کا اثاثہ جبکہ عوامی مصائب ان کی جرآتِ قلم ہوتے تھے۔ اپنے قلم سے عوامی مسائل کو زباں دیتے یہ لوگ اس صدی میں ناپید ہوں گے۔
مُنّو بھائی 19 جنوری 2018ء کو اِس جہانِ خراب کو درست کرنے کی سعی کرتے الوداع کہہ گئے۔ اور آنے والی نسلوں کے ذِمے حِرص و ہوس سے پاک اور باہمی تعاون پر مبنی انسانی معاشرے کی تعمیر کا فریضہ سونپ گئے۔
مُنّو بھائی جن کا اصل نام منیر احمد قریشی تھا ، 6 فروری 1933ءکو وزیر آباد پیدا ہوئے اور 19 جنوری 2018ء کو ریواز گارڈن لاہور میں85 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
مُنو بھائی کو طلبہ سیاست میں سرگرم ہونے کی پاداش میں کالج سے نکال دیا گیا۔ یوں اُنہیں اپنی رسمی تعلیم کو مزید جاری رکھنے سے محروم ہونا پڑا۔ اُن کے والد نےاُنہیں ریلوے میں بھرتی کرادیا۔ نوکری کا تقرر نامہ بھی آگیا۔ لیکن اُنہیں یہ پسند نہیں آیا۔ گھر سے نکل کر اپنے کالج کے دوست اور ساتھی شفقت تنویر مرزا کے پاس راولپنڈی آگئے۔
1950ء کی دہائی کے اواخر میں راولپنڈی کے اخبار تعمیر میں پچاس روپے ماہوار پر نوکری کی۔ اور اسی اخبار سے ’’اوٹ پٹانگ‘‘ کے عنوان سے کالم نگاری کا آغاز کیا۔ اُس عہد کے معروف ترقی پسند اخبار اَمروز میں نظم بھیجی تو اُس وقت کے ایڈیٹر احمد ندیم قاسمی نے اُنہیں قلمی نام مُنّو بھائی عطا کیا۔ جو اُن کے اصل نام کی بجائے ان کی شناخت بنا، اِسی نام سے ہی اُنہوں نے کالم لکھے اور ڈرامہ نگاری بھی کی۔
مُنّو بھائی کے ترقی پسند نظریات سے متاثر ہو کر احمد ندیم قاسمی اُنہیں’’تعمیر‘‘ سے ’’امروز‘‘ میں لاہور لے آئے۔ یہاں مُنّو بھائی نے دیگر صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ ’’گریبان‘‘ کے نام سے کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔
حکومت سے صحافیوں کے معاوضے کے جھگڑے پر سزا کے طور پر مُنّو بھائی کا تبادلہ ’’امروز‘‘ ملتان میں کر دیا گیا، جہاں سے ذوالفقار علی بھٹو انہیں مساوات میں لے آئے۔ 7 جولائی 1970ء کو مساوات میں ان کا پہلا کالم چھپا۔ بعد ازاں مُنّو بھائی مساوات سے روزنامہ جنگ لاہور میں آ گئے۔
ڈرامہ نگاری بھی مُنّو بھائی کی شخصیت کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ اُنہوں نے پی ٹی وی کے لیے سونا چاندی، جھوک سیال، دشت اور عجائب گھر جیسے شاہکار ڈرامے لکھے۔ کالم نویسی کی طرح اپنے ڈراموں میں بھی انہوں نے محنت کشوں اور محروم طبقات کی زندگی اور مسائل پیش کیے۔ ٹی وی کے لیے ڈرامہ نویسی کی طرف اُنہیں معروف ترقی پسند براڈ کاسٹر اسلم اظہر لائے۔
مُنّو بھائی کی تصانیف میں سے چند درج ذیل ہیں؛
- اجے قیامت نئیں آئی (پنجابی شاعری کا مجموعہ)
- جنگل اداس ہے (منتخب کالم)
- فلسطین فلسطین
- محبت کی ایک سو ایک نظمیں
- انسانی منظر نامہ (تراجم)
مُنّو بھائی اور ان کے قبیل کے دیگر احباب جو صحیح اور غلط کو اجتماعی سماجی شعور پر پرکھتے ، اور ذاتی آسودگی پر سماجی بہتری کو ترجیح دیتے تھے، سماج کے محروم طبقات کے لئے ان کے وکیل بن کر اپنے فن پاروں کو غاصب حاکمین کے خلاف چارج شیٹ مرتب کرتے تھے۔ یہ وہ نسل تھی جو ادب کو ’’ذہنی عیاشی‘‘کے بجائے سماجی تبدیلی کا اہم ذریعہ سمجھتی تھی۔
عہدِ حاضر کی کمرشلائزیشن کے آگے سرنگوں انسانی اقدار و احساسات کے نتیجے میں نسلِ نو بنیادی انسانی جذبوں سے عاری ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں مُنّو بھائی اور اُن کے رُفقاء کی کمی زیادہ شدت کے ساتھ محسوس ہوتی رہے گی۔ ذاتی فوائد سے مبّرا پچھلی صدی کی اس نسل کا گویا سانچا ہی مختلف تھا۔
عصر حاضر کی غمازی کرتی ہوئی عزیز دوست اور ترقی پسند شاعر واصف اخترؔ کی نظم ’’جہانِ معنی ‘‘ سے اقتباس؛
مُنّو بھائی اور ان کی نسل کے زیادہ تر لوگ اپنے سماجی وجود کے اِدراک سے مسلح، اپنے قلم کو تقدیسِ انسانیت کی حُرمت سے لیس کیے غمِ دوراں کو زباں دیتے رہے۔ اس نسل نے آنے والی نسلوں کے لئے تَرکے میں سماجی زندگی کو اجتماعی طور پر بہتر بنانے کی جہد کا اثاثہ چھوڑا ہے۔
انسان کا سماجی وجود تاریخ کی گردشوں میں کہیں کھو تا جا رہا ہے۔
موجودہ معاشی نظام کا شاید تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان اپنے سماجی وجود سے بیگانہ محض انفرادی بقاء کے لئے شب و روز سر پھینکے عذابِ مشقت جھیلتا رہے۔
مُنّو بھائی کی نسل کے ہر ذی شعور نے جو راز تاریخ کی ورق گردانی سے پایا تھا وہ یہ کہ ؛
’’انسان کا سماجی وجود ہی اس کی انفرادی بقاء کا ضامن ہے۔‘‘
منو بھائی نے پنجابی میں شاعری کی، ان کی پنجابی زبان میں کئی نظموں کو شہرت و مقبولیت ملی۔
- نمونہِ کلام
- او ہ وی خوب دیہاڑے سن
- بُھکھ لگدی سی منگ لیندے ساں
- مل جاندا سی کھا لیندے ساں
- نئیں سی ملدا تے رو پیندے ساں
- روندے روندے سوں رہندے ساں
- ایہہ وی خوب دیہاڑے نیں
- بھک لگدی اے منگ نیں سکدے
- ملدا اے تے کھا نیں سکدے
- نئیں ملدا تے رو نئیں سکدے
- نہ روئیے تے سوں نئیں سکدے
پاکستان کی موجودہ معاشی و سیاسی صورتِ حال میں مُنّو بھائی کے قبیل کی کمی شدت سے محسوس ہوگی۔ جو اپنے قلم کو محروم اور استحصال زدہ عوام کے مصائب کی سیاہی سے بھر کر استحصالی حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق لکھتے ، اور عوام میں سیاسی شعور کی آبیاری کرتے رہتے تھے۔
- —♦—

طارق شہزاد ڈیلی للکار کے ایڈیٹر ہیں، اورگزشتہ 25 سالوں سے بائیں بازو کی تحریک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاکستان میں محنت کشوں اور محروم طبقات کی نمائندہ سیاسی جماعت کے قیام کی کاوشیں کرتے چلے آرہے ہیں۔ آپ بائیں بازو کے متحرک نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور سیاسی، سماجی ، معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
مُنّو بھائی اُس نسل کے سرکردہ لوگوں میں سے تھے جو اپنے عہد کا ضمیر ہوا کرتے تھے! عوامی اُمنگیں اُن کے فکر و فن کا اثاثہ جبکہ عوامی مصائب ان کی جرآتِ قلم ہوتے تھے۔ اپنے قلم سے عوامی مسائل کو زباں دیتے یہ لوگ اس صدی میں ناپید ہوں گے۔
مُنّو بھائی 19 جنوری 2018ء کو اِس جہانِ خراب کو درست کرنے کی سعی کرتے الوداع کہہ گئے۔ اور آنے والی نسلوں کے ذِمے حِرص و ہوس سے پاک اور باہمی تعاون پر مبنی انسانی معاشرے کی تعمیر کا فریضہ سونپ گئے۔
مُنّو بھائی جن کا اصل نام منیر احمد قریشی تھا ، 6 فروری 1933ءکو وزیر آباد پیدا ہوئے اور 19 جنوری 2018ء کو ریواز گارڈن لاہور میں85 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
مُنو بھائی کو طلبہ سیاست میں سرگرم ہونے کی پاداش میں کالج سے نکال دیا گیا۔ یوں اُنہیں اپنی رسمی تعلیم کو مزید جاری رکھنے سے محروم ہونا پڑا۔ اُن کے والد نےاُنہیں ریلوے میں بھرتی کرادیا۔ نوکری کا تقرر نامہ بھی آگیا۔ لیکن اُنہیں یہ پسند نہیں آیا۔ گھر سے نکل کر اپنے کالج کے دوست اور ساتھی شفقت تنویر مرزا کے پاس راولپنڈی آگئے۔
1950ء کی دہائی کے اواخر میں راولپنڈی کے اخبار تعمیر میں پچاس روپے ماہوار پر نوکری کی۔ اور اسی اخبار سے ’’اوٹ پٹانگ‘‘ کے عنوان سے کالم نگاری کا آغاز کیا۔ اُس عہد کے معروف ترقی پسند اخبار اَمروز میں نظم بھیجی تو اُس وقت کے ایڈیٹر احمد ندیم قاسمی نے اُنہیں قلمی نام مُنّو بھائی عطا کیا۔ جو اُن کے اصل نام کی بجائے ان کی شناخت بنا، اِسی نام سے ہی اُنہوں نے کالم لکھے اور ڈرامہ نگاری بھی کی۔
مُنّو بھائی کے ترقی پسند نظریات سے متاثر ہو کر احمد ندیم قاسمی اُنہیں’’تعمیر‘‘ سے ’’امروز‘‘ میں لاہور لے آئے۔ یہاں مُنّو بھائی نے دیگر صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ ’’گریبان‘‘ کے نام سے کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔
حکومت سے صحافیوں کے معاوضے کے جھگڑے پر سزا کے طور پر مُنّو بھائی کا تبادلہ ’’امروز‘‘ ملتان میں کر دیا گیا، جہاں سے ذوالفقار علی بھٹو انہیں مساوات میں لے آئے۔ 7 جولائی 1970ء کو مساوات میں ان کا پہلا کالم چھپا۔ بعد ازاں مُنّو بھائی مساوات سے روزنامہ جنگ لاہور میں آ گئے۔
ڈرامہ نگاری بھی مُنّو بھائی کی شخصیت کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ اُنہوں نے پی ٹی وی کے لیے سونا چاندی، جھوک سیال، دشت اور عجائب گھر جیسے شاہکار ڈرامے لکھے۔ کالم نویسی کی طرح اپنے ڈراموں میں بھی انہوں نے محنت کشوں اور محروم طبقات کی زندگی اور مسائل پیش کیے۔ ٹی وی کے لیے ڈرامہ نویسی کی طرف اُنہیں معروف ترقی پسند براڈ کاسٹر اسلم اظہر لائے۔
مُنّو بھائی کی تصانیف میں سے چند درج ذیل ہیں؛
- اجے قیامت نئیں آئی (پنجابی شاعری کا مجموعہ)
- جنگل اداس ہے (منتخب کالم)
- فلسطین فلسطین
- محبت کی ایک سو ایک نظمیں
- انسانی منظر نامہ (تراجم)
مُنّو بھائی اور ان کے قبیل کے دیگر احباب جو صحیح اور غلط کو اجتماعی سماجی شعور پر پرکھتے ، اور ذاتی آسودگی پر سماجی بہتری کو ترجیح دیتے تھے، سماج کے محروم طبقات کے لئے ان کے وکیل بن کر اپنے فن پاروں کو غاصب حاکمین کے خلاف چارج شیٹ مرتب کرتے تھے۔ یہ وہ نسل تھی جو ادب کو ’’ذہنی عیاشی‘‘کے بجائے سماجی تبدیلی کا اہم ذریعہ سمجھتی تھی۔
عہدِ حاضر کی کمرشلائزیشن کے آگے سرنگوں انسانی اقدار و احساسات کے نتیجے میں نسلِ نو بنیادی انسانی جذبوں سے عاری ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں مُنّو بھائی اور اُن کے رُفقاء کی کمی زیادہ شدت کے ساتھ محسوس ہوتی رہے گی۔ ذاتی فوائد سے مبّرا پچھلی صدی کی اس نسل کا گویا سانچا ہی مختلف تھا۔
عصر حاضر کی غمازی کرتی ہوئی عزیز دوست اور ترقی پسند شاعر واصف اخترؔ کی نظم ’’جہانِ معنی ‘‘ سے اقتباس؛
مُنّو بھائی اور ان کی نسل کے زیادہ تر لوگ اپنے سماجی وجود کے اِدراک سے مسلح، اپنے قلم کو تقدیسِ انسانیت کی حُرمت سے لیس کیے غمِ دوراں کو زباں دیتے رہے۔ اس نسل نے آنے والی نسلوں کے لئے تَرکے میں سماجی زندگی کو اجتماعی طور پر بہتر بنانے کی جہد کا اثاثہ چھوڑا ہے۔
انسان کا سماجی وجود تاریخ کی گردشوں میں کہیں کھو تا جا رہا ہے۔
موجودہ معاشی نظام کا شاید تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان اپنے سماجی وجود سے بیگانہ محض انفرادی بقاء کے لئے شب و روز سر پھینکے عذابِ مشقت جھیلتا رہے۔
مُنّو بھائی کی نسل کے ہر ذی شعور نے جو راز تاریخ کی ورق گردانی سے پایا تھا وہ یہ کہ ؛
’’انسان کا سماجی وجود ہی اس کی انفرادی بقاء کا ضامن ہے۔‘‘
منو بھائی نے پنجابی میں شاعری کی، ان کی پنجابی زبان میں کئی نظموں کو شہرت و مقبولیت ملی۔
- نمونہِ کلام
- او ہ وی خوب دیہاڑے سن
- بُھکھ لگدی سی منگ لیندے ساں
- مل جاندا سی کھا لیندے ساں
- نئیں سی ملدا تے رو پیندے ساں
- روندے روندے سوں رہندے ساں
- ایہہ وی خوب دیہاڑے نیں
- بھک لگدی اے منگ نیں سکدے
- ملدا اے تے کھا نیں سکدے
- نئیں ملدا تے رو نئیں سکدے
- نہ روئیے تے سوں نئیں سکدے
پاکستان کی موجودہ معاشی و سیاسی صورتِ حال میں مُنّو بھائی کے قبیل کی کمی شدت سے محسوس ہوگی۔ جو اپنے قلم کو محروم اور استحصال زدہ عوام کے مصائب کی سیاہی سے بھر کر استحصالی حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق لکھتے ، اور عوام میں سیاسی شعور کی آبیاری کرتے رہتے تھے۔
- —♦—

طارق شہزاد ڈیلی للکار کے ایڈیٹر ہیں، اورگزشتہ 25 سالوں سے بائیں بازو کی تحریک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاکستان میں محنت کشوں اور محروم طبقات کی نمائندہ سیاسی جماعت کے قیام کی کاوشیں کرتے چلے آرہے ہیں۔ آپ بائیں بازو کے متحرک نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور سیاسی، سماجی ، معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔