منصور ہویا سرمد ہو صنم ، یا شمس الحق تبریزی ہو
اس تیری گلی میں اے دلبر ہر ایک کا سرقربان ہوا
سَچّل سرمستؔ
وادیِ سندھ ہمارے ماضی کی امین اور مستقبل کی نوید ہے۔ برصغیر کی سب سے قدیم تہذیب کا مولدو مرقد یہی علاقہ ہے جس نے گزشتہ تین چار ہزار سال کی تاریخ میں بڑے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں اور ان گنت قوموں اور مذہبوں کی جولاں گاہ رہا ہے۔ شکتی وادی مسلک کے پابند دراوڑ، ویدک دھرم پر چلنے والے آریا، حکیم زرتشت کے ماننے والے ایرانی، زیوس اور اپالو کے پرستار یونانی، بدھ مت کے پیرو ہن اور کشن اور اسلام کے معتقد عرب، ایرانی، ترک اور افغان سب نے یکے بعد دیگرے اپنی اپنی تہذیبوں کے حسین امتزاج سے۔
مگرایک وقت وہ بھی آیا جب معاشرہ ماضی کی دلدل میں پھنس کر آگے بڑھنے کی صلاحیتیں کھو بیٹھا اور تب ڈھائی پونے تین سو برس گزرے ایک مردِ مجاہد نے اجتماعی طرزِ معیشت کی طرح ڈال کر ہم کو آگے بڑھنے کی راہ دکھائی۔ اُس نے اِس خزاں گزیدہ دیار میں “گلشنِ نا آفریدہ‘‘ کا خواب دیکھا اوراپنے قبل از وقت سنہرے خواب کی تعبیر کے صلے میں شہادت پائی۔ اس نیک نیت بزرگ کا نام شاہ عنایت اللہ تھا۔ جھوک کی بستی میں جو شہر ٹھٹھہ سے 35 میل کے فاصلے پر واقع ہے ان کا مزار آج بھی زیارت گاہِ خاص و عام ہے اور لوگ دُور دُور سے آکر ان کی قبرپر عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں لیکن شاہ عنایت کی شہادت کے اسباب و محرکات کا علم بہت کم لوگوں کو ہے۔
شاہ عنایت کا سنِ ولادت معلوم نہیں لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ سترھویں صدی عیسوی میں شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ٹھٹھہ کے ایک خدار سیدہ خاندان میں پیدا ہوے۔ ان کے جدِ علیٰ مخدوم صدھولا نگاہ موضع نصریہ پرگنہ بٹھورہ ضلع ٹھٹھہ کے رہنے والے تھے۔ وہ ایران توران سے نہیں آئے تھے بلکہ یہیں کی خاک سے اٹھے تھے لنگاہ قو م سے تعلق رکھتے تھے۔
شاہ عنایت کے والد مخدوم فضل اللہ ” بے رِیا درویش ‘‘ تھے۔ میر علی شیر قانع شاہ عنایت کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں خاموش ہیں لیکن لکھتے ہیں کہ ” پیرِ حق شناس، بنیاد شریعت، مرشدوں کے مرشد، ولی زمانہ، مقبولِ بارگاہِ الہیٰ شاہ عنایت اللہ صوفی نے ابتدا میں جستجوئے حق کے لیے بڑی سیرو سیاحت کی اور کافی مدت کے بعد دکن میں جا کر شاہ عبدالملک سے ملاقات کی‘‘۔ ان کی صحبت سے فیض یاب ہونے کے بعد شاہ عنایت نے دہلی کا رخ کیا اور وہاں ایک بزرگ شاہ غلام محمد سے علومِ ظاہری حاصل کیے۔ مگر استاد پر شاگرد کی شخصیت کا اتنا اثر ہوا کہ وہ شاہ عنایت کے ہمراہ ٹھٹھہ چلے آئے۔ شاہ غلام محمد کو شریعت سے طریقت کی راہ زیادہ عزیز تھی لہٰذا ” ٹھٹھے کے علما نے انہیں تعزیر کے لیے شرعی عدالت میں پیش کردیا” کیوں کہ اہل اللہ کو علما سے ہمیشہ اذیتیں پہنچتی ہیں۔‘‘ شاہ عنایت نے شاہ غلام محمد کو دہلی لوٹ جانے کا مشورہ دیا چنانچہ وہ دہلی واپس چلے گئے اور شاہ عنایت نے جھوک میں سکونت اختیار کرلی۔
شاہ عنایت نے جب ہوش سنبھالا تو سلطنت ِ مغلیہ کا آفتاب بڑی تیزی سے مائل بہ زوال تھا۔ اورنگ زیب نے اگرچہ اکبر اعظم کی مانند پچاس برس حکومت کی لیکن اس کی سلطنت کو عہدِ اکبری کا سا امن و استحکام کبھی نصیب نہ ہوا۔ شہنشاہ کا ابتدائی زمانہ باپ اور بھائیوں کو راہ ہٹانے میں گزرا۔ پھر دکن کی مہمیں شروع ہو گئیں۔ اُدھر مرہٹوں، راجپوتوں اور سکھوں نے شورش برپا کی اور جا بجا بغاوتیں ہونے لگیں۔ مرکز کی گرفت کمزور ہوئی تو جاگیری نظام کی تباہ کاریوں نے اپنا رنگ دکھایا۔ ایسی حالت میں سندھ جیسے دُور افتادہ علاقے کا کون پر سانِ حال ہوتا۔ صوبے کا نظم و نسق درہم برہم ہوگیا۔ جاگیرداروں کی بن آئی اور ہر طرف لوٹ مارکا بازار گرم ہوگیا۔
سندھ اُن دنوں دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔
بالائی سندھ جس کا صدر مقام بھکر (سکھر) تھا اور زیریں سندھ جس کا صدر مقام ٹھٹھہ تھا۔ بالائی سندھ کی حیثیت صوبہ ملتان کی چوتھی سرکار کی تھی اور وہاں کا حاکم ملتان کے صوبے دار کے تابع ہوتا تھا۔ وہاں 1574ء اور 1679ء یعنی 105 برس میں پچاس حاکم مقرر ہوئے۔ ان کی مدت ملازمت کا اوسط فی کس دو سال ہوتا ہے۔ اورنگزیب کے عہد میں سلطنت کے ضعف اور سیاسی ابتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1679ء میں فوجی مہموں کی ناکامی کے بعد بالائی سندھ کا علاقہ کلہوڑا سردار میاں یار محمد کے حوالے کردیا گیا اور پھر وہاں کوئی مغل حاکم نہیں آیا۔
زیریں سندھ جہاں مرزا جانی بیگ ترخان کی خود مختار حکومت تھی 1599ء میں اکبر کے حکم سے فتح ہوا تھا مگر دُور اندیش شہنشاہ نے مرزا جانی بیگ سے عہدِ وفاداری لے کر ریاست اس کو واپس کردی تھی۔ مرزا جانی بیگ کی وفات کے بعد اس کا بیٹا مرزا عیسٰی خان ترخان سندھ کی باج گذار ریاست کا مالک تسلیم کرلیا گیا لیکن اس کی وفات کے بعد جہانگیر نے سندھ کو 1614ء میں الگ صوبہ بنا دیا۔
ٹھٹھہ میں 1614ء اور 1732ء (118سال) کے درمیان 67 صوبے دار آئے اور گئے۔ ان کی مدتِ ملازمت کا اوسط ڈیڑھ سال ہوتا ہے۔ بعضوں نے تو دہلی سے ٹھٹھہ آنے کی تکلیف بھی گوارا نہ کی بلکہ اپنے نائب بھیج دیے۔ لاہری بندر کو جو وادیِ سندھ کی واحد بڑی بندرگاہ تھی خالصہ کی ملکیت قرار دے دیا گیا لہٰذا صوبے کی آمدنی گھٹ گئی اور سیاسی اہمیت بھی کم ہو گئی۔ چنانچہ عموماً کم رتبے کے منصب داروں کو ٹھٹھہ کا صوبے دار مقرر کیا جاتھا بلکہ بعض اوقات سیوستان یا بھکر کے کسی فوجدار کو صوبے دار بنا کر ٹھٹھہ بھیج دیا جاتا تھا۔ آخرش صوبہ ٹھٹھہ کا بھی وہی حشر ہوا جو بھکر کا ہوا تھا۔
1732ء میں نواب امیر خان کو پوا صوبہ بطورجاگیر عطا ہوا۔ انھوں نے اس دولت خدادا کو ایک شخص دلیر خان ولد دلیر دلبر خان کو اجارے (ٹھیکے) پر دے دیا اور جب دلیر خان مرگیا تو صادق علی خان کو مستاجر بنا دیا۔ ان موصوف کو اجارے میں ” گھاٹا” ہوا لہٰذا انھوں نے زیریں سندھ کو 1738ء میں خدا یار خان کلہوڑا (نور محمد خان) کے سپرد کردیا۔
ٹھٹھے کا صوبہ چار سرکاروں پر مشتمل تھا۔ ٹھٹھہ ، نصرپور، چاچکاں اور چاکر ہالا۔ صوبے کے حاکم اعلیٰ کو ناظم کہتے تھے۔ سرکار کا حاکم فوجدار اور پرگنے کا حاکم شقہ دار کہلاتا تھا۔ ان کے علاوہ نظم ونسق کے فرائض کی ادائیگی کے لیے دیوان، بخشی، عامل، وقائع نویس، قاضی، محتسب، صدر، مقدم، قانون گو، پٹواری، متصدی، کارکن، سجاول اور ارباب متعین تھے۔ وقائع نویس مرکزی حکومت کا نمائندہ ہوتا تھا۔ اس کا کام مرکز کو علاقے کے نظم و نسق کی خفیہ رپورٹیں بھیجنا ہوتا تھا البتہ یہ پتہ نہیں چلتا بقیہ عہدے داروں کا تقرر بھی مرکز کرتا تھا یا وہ صوبیدار کے نامزد کردہ ہوتے تھے۔
بہرحال قریب قریب سبھی عہدے ترکوں اور ایرانیوں کے لیے مخصوص تھے خواہ وہ براہِ راست دہلی سےآتے یا سندھ میں بسے ہوئے پرانے ترک، ایرانی یا عرب خاندانوں کے افراد ہوتے۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ مقامی باشندے فارسی زبان سے جو سلطنت کی سرکاری زبان تھی شاذو نادر ہی واقف ہوتے تھے۔
زرعی نظام کا اِرتقاء
یہاں کے قدیم سیاسی نظریوں کے مطابق زمین کاشت کاروں کی مشترکہ یا ذاتی ملکیت تسلیم کی جاتی تھی، ریاست کی ملکیت نہیں ہوتی تھی۔ البتہ کاشت کاروں کو پیداوار کا ایک مقررہ حصہ ریاست کے حوالے کرنا پڑتا تھا۔ پیداواری عمل میں گاؤں والے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ واجبات کی وصولی اور ادائیگی گاؤں کے مکھیا کی ذمے داری ہوتی تھی۔
مسلمانوں کے عہد میں (712۔1843ء) سندھ میں یکے بعد دیگرے گیارہ مختلف خاندان برسر اقتدار آئے۔ ان میں سومرا، کلہوڑا اور تالپور خاص مقامی لوگ تھے لیکن نسلی تفاخر کا رحجان ہمارے پڑھے لکھے طبقوں میں چھوت کی بیماری کی طرح پھیلا ہوا ہے ہم کو اس سرزمین سے رشتہ جوڑتے بری شرم محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ ہر شخص یہی کوشش کرتا ہے کہ اپنا نسلی رشتہ عرب، عراق، ایران، ترکستان سے جوڑے اور یہ ثابت کرے کہ ہمارے اجداد باہر سے آئے تھے۔ کوئی شخص یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اس کے پرکھے یہیں کے رہنے والے تھے جو مسلمان ہو گئے تھے۔ افسوس ہے کہ ہمارے مورخین بھی اس مرض سے محفوظ نہ رہ سکے۔ مثلاً مولانا غلام رسول مہر نے ” تاریخِ سندھ عہدِ کلہوڑا” میں 35 صفحے یہ ثابت کرنے میں صرف کیے ہیں کہ کلہوڑا عباسی ہیں؎۔
اسی طرح مولانا اعجاز الحق قدوسی نے تاریخ معصومی ، تاریخ طاہری، مولانا سید سلیمان ندوی، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اور انگریز مورخین کی تمام دلیلوں کو رد کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ” سومرا عرب تھے جو ہندوستان میں آباد ہو گئے تھے”۔ حالانکہ سومرا، سمہ اور کلہوڑا خاندان کے بانیوں کے نام اوران کے قبیلہ داری رسم و رواج ہی ان کے سندھی الاصل ہونے کی ناقابلِ تردید شہادت پیش کرتے ہیں۔ مثلاً بھونگر، دودا، سانگھڑ، پاتھو، گھنرا، چنیسر، گھچن، بہیل وغیرہ۔
مقامی خاندانوں کے دور میں حاکم اور محکوم کا فرق اگرچہ موجود تھا مگر خلیج اتنی وسیع نہیں تھی جتنی غیر ملکی حکمرانوں کے عہد میں ہوئی۔ سومرا ہوں یا سمہ، کلہوڑا اور تالپور ان کا رہن سہن، ان کے رسم و رواج ، ان کی زبان اور تہذیبی قدریں عام باشندوں سے مختلف نہ تھیں لہٰذا رعایا کو بے گانگی کا چنداں احساس نہ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے عہد میں سندھ کی دولت سندھ ہی میں رہتی تھی اور عام لوگوں کو بھی اس سے براہِ راست یا بالواسطہ طور پر مستفید ہونے کا موقع مل جاتا تھ۔ خراج کی شکل میں دمشق، بغداد، غزنی یا دہلی نہیں منتقل ہوتی تھی۔
مثلاً ہیر وڈوٹس لکھتا ہے کہ;
داریوش اعظم کے دور میں سندھ کا صوبہ ایران کو سونے کے 231 من ذرات بطور خراج بھیجتا تھا6؎ اسی طرح خلافتِ بنی امیہ اور بنی عباس کی محکومی میں سندھ کو ہر سال 15 لاکھ درہم خراج ادا کرنے ہوتے تھے۔ تیسری بات یہ ہے کہ ملکی حکومتوں کے زمانے مین سرکاری ملازمتیں مقامی لوگوں کو ملتی تھیں۔ صوبے دار اور شقہ دار باہر سے آکر ان پر مسلط نہیں ہوتے تھے اور نہ فوج کے سالار اور سپاہی غیر سندھی ہوتے تھے۔
ہباری قریش، ارغون اور ترخان ہر چند کے باہر سے آئے تھے لیکن انھوں نے سندھ میں مستقل بودوباش اختیار کرلی تھی۔ شادی بیاہ بھی مقامی خاندانوں میں کرنے لگے تھے اور انھیں میں گھل مل گئے تھے۔ اس کے برعکس سلاطینِ مغلیہ کے عہد میں سندھ کی حیثیت بالکل مفتوحہ علاقے کی تھی۔ تمام ذمہ دار عہدے ترکوں اور ایرانیوں کو سونپے جاتے تھے اور ان کو ہر طرح کی مراعات حاصل تھیں جب کہ سندھ کے حقیقی باشندوں کو صوبے کے نظم و نسق پر کوئی اختیار نہ تھا۔
سندھی اور غیر سندھی خاندانوں کے دورِ حکومت کے اس فرق کے باوجود انگریزوں کی آمد (1843ء) سے پیش تر یہاں کے معاشرے میں ہزار برس کی طویل مدت کے دوران کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوئی۔ حکومتیں بدلتی رہیں لیکن طرزِ حکومت قریب قریب یکساں رہا۔ نہ قبیلہ داری نظام بدلا اور نہ ذرائع پیداوار اور پیداواری رشتوں میں کوئی فرق آیا۔ جو آلات و اوزار گوتم بدھ کے زمانے میں استعمال ہوتے تھے وہی مغلوں کے زمانے میں بھی بدستور استعمال ہوتے رہے۔
حکومتیں آتی رہیں جاتی رہیں مگر دیہات کی زندگی پرانی ڈگر پر چلتی رہی۔ غور سے دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ خالص سندھی حکومتوں کے عہد میں بھی سرکار دربار کی ساری فضا ایرانی تھی۔ دربار میں فارسی بولی جاتی تھی، سرکاری دفتروں کی زبان فارسی تھی، خط و کتابت فارسی مین ہوتی تھی، شعر فارسی میں کہے جاتے تھے، کتابیں فارسی میں لکھی جاتی تھیں، مکتبوں اور مدرسوں میں ذریعہ تعلیم فارسی تھا اور جو خاندان ایران، عراق، ترکستان اور افغانستان سے بھاگ کر یہاں آتے تھے ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا تھا۔ ان کو ملازمتیں اور زمینیں آسانی سے مل جاتی تھیں۔ سندھ میں پیروں اور سیدوں کی فراوانی اہلِ سندھ کی اسی فراخ دلی اور مہمان نوازی کی مرہونِ منت ہے۔
اسلام کی رُو سے زمین کا مالک اللہ ہے لیکن سلف میں زمین اسی شخص کی ملکیت سمجھی جاتی تھی جو اس کو جوتتا تھا۔ مزارعوں یا ہاریوں کے ذریعے کھیتی باڑی کی اجازت نہ تھی۔
چنانچہ ڈاکٹر ضیا الحق نے اپنی محققانہ تصنیف Landlord and Peasant in Early Islam میں اس مسئلے پر بڑی تفصیل سے لکھا ہے اور احادیث کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ آنحضرتؐ نے مزارعت یعنی زمین کو بٹائی پر دینے کی ممانعت فرما دی تھی۔ (ڈاکٹر صاحب کی رائے میں فقط وہ حدیثیں معتبر ہیں جن میں مزارعت کی ممانعت کی گئی ہے اور جن حدیثوں میں مزارعت کی اجازت کا ذکر ہے وہ عباسی دور کی الحاقی اور وضعی حدیثیں ہیں) امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں کاشت کاروں کے حقِ ملکیت کو تسلیم کیا ہے۔
اسلامی مملکتوں میں جاگیری نظام کو سب سے پہلے خلفائے بنی امیہ نے رواج پایا۔ انھوں نے ساسانی اور بازنطینی شہنشاہوں کی مانند زمین کے بڑے بڑے قطعات اپنے خاندان کے افراد اور دوسرے متوسلین کو انعام یا وظیفے کے طورپر سونپ دیے۔8؎ اس طرزِ انتقال کو ” اقطاع” کہتے ہیں۔ “اقطاع” نے سندھ میں بھی بنی امیہ ہی کے زمانے میں اس وقت رواج پایا جب عرب خاندان یہاں آآکر آباد ہونے لگے۔ عباسی خلیفہ المتوکل کے عہد میں (847ء۔861ء) جب فو ج کی ازسرِ نو تنظیم ہوئی تو فوجی کمانداروں کو اقطاع کی زمینیں ان علاقوں میں عطا کی گئیں جہاں وہ نظم و نسق کے سلسلے میں متعین ہوتے تھے۔ 9؎ اقطاع کی یہ نئی شکل تھی کیوں کہ اب تک زمینیں سرکاری عہدیداروں کو فوجی یا انتظامی اخراجات کی کفالت کے لیے یا نقدی مشاہرے کے عوض بھی ملنے لگیں۔
سلاطینِ دہلی کے عہد میں اقطاع کی ابتدا سلطان التمش ( 1210ء۔ 1236ء) نے کی۔10؎ اس کے جانشینوں نے بھی اس کی تقلید کی چنانچہ بلبن نے دہلی کو سرکش میواتیوں سے محفوظ رکھنے کی غرض سے دارالسلطنت کے نواح اور دوآبے میں اقطاع کی آراضیاں دو ہزار پٹھان لشکریوں میں تقسیم کردیں۔ مگر سلطان علاؤالدین خلجی نے جو تخت نشینی سے پہلے کڑا الہٰ آباد کا مقطیع رہ چکا تھا ، لشکریوں کو زمینیں دینے کا طریقہ بند کردیا اور تنخواہیں نقد ادا کرنے کا سلسلہ شروع کیا لیکن فیروز تغلق نے پرانی روایت پھر تازہ کردی۔ اس نے عین الملک کو ملتان کا صوبہ، ملک بیر خان افغان کو بہار کا صوبہ اور ملک افغان خان کو روہیلکھنڈ بطور اقطاع دے دیا۔ لودھیوں کے عہد میں اقطاع میں مزید اضافہ ہوا۔ اقطاع کے عوض مقطیعوں کا فرض تھا کہ وہ اپنے علاقوں میں امن و امان کے تحفظ کے لیے فوج رکھیں اور سلطان کی طلبی پر لشکر سمیت حاضر ہوں، چنانچہ جمال خان لودھی جاگیردار جونپور کے پاس 20 ہزار لشکری تھے۔ تاتار خان جاگیردار پنجاب کے پاس پندرہ ہزار اور اعظم ہمایونی سرونی جاگیردار الہ آباد کے پاس 45 ہزار سوار اور سات سو ہاتھی تھے۔
اقطاع کا سلسلہ اتنا بڑھا کہ برے جاگیر دار اپنی جاگیروں میں چھوٹے چھوٹے جاگیردار مقرر کرنے لگے۔ مثلاً اعظم ہمایوں سروانی نے سیف خان کو چھ ہزاری، دولت خان کو چار ہزاری اور فیروز خان کو چھ ہزاری جاگیردار بنا دیالیکن اسلام شاہ سوری (1545ء۔1553ء) نے بڑے جاگیر داروں کا زور توڑنے کی غرض سے ” جمع ولایت راخالصہ ساختہ‘‘ (بدایونی) یعنی پوری مملکت کو شاہی ملکیت قرار دے دیا اور نقدی ادائیگی کو دوبارہ رائج کرنے کی کوشش کی مگرناکام رہا۔ اس کے عہد میں ” منصب داری ‘‘کی ابتدا ہوئی۔ یہ خالص فوجی عہدہ تھا اور پچاس تا 20 ہزار سپاہیوں کے سردار کو خزانے سے نقد ادائیگی ہوتی تھی جاگیر نہیں دی جاتی تھی۔ (یہی وہ افغان جاگیردار منصب دار تھے جو پہلے بابر اور ہمایوں کے خلاف اور پھر اکبر کے خلاف صف آرا ہوئے تھے اور جن کو کچل کر اکبر نے افغان امرا ءکا اثرو نفوذ ختم کیا تھا ان کی جگہ ترک، مغل اور ایرانی منصب دار مقرر کیے تھے) مغلوں کے دور میں اقطاع کی اصطلاح رفتہ رفتہ متروک ہو گئی اور جاگیر اور منصب کی اصطلاحوں نے رواج پایا۔
منصب داری نظام کی خرابیوں پر ہم اپنی کتاب ” پاکستان میں تہذیب کا ارتقا” میں مفصل تبصرہ کرچکے ہیں۔ ہم نے لکھا تھا کہ برصغیر کے معاشی اور سیاسی انحطاط کی بڑی ذمہ داری اسی فیوڈل نظام پر عائد ہوتی ہے۔ اسی نظام اقتدار کی ہمہ گیری کے باعث ملک میں وہ سماجی حالات پیدا نہ ہو سکے جن میں سرمایہ داری نظام کو فروغ ہوتا۔ نہ صنعت کاروں، مہاجروں اور بیوپاریوں کا طبقہ اتنا مضبوط ہوا کہ وہ سیاسی اقتدار میں شرکت کا مطالبہ کرتا یا طاقت آزمائی کرکے اقتدار پر قابض ہوجاتا اور نہ دست کاری کی صنعتیں خود کار صنعتوں میں تبدیل ہو سکیں جیسا کہ یورپ میں ہوا۔ یہ محاکمہ اپنی جگہ درست سہی لیکن قرونِ وسطیٰ کے تاریخی حالات میں نظم و نسق کا کیا کوئی دوسرا طریقہ ممکن تھا۔ کیا سلاطینِ دہلی خواہ وہ پٹھان تھے یا مغل تاریخ کے جبر سے آزاد ہو سکتے تھے۔
ہمارا خیال ہے کہ ان کے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ بات یہ ہے کہ شخصی حکومتوں کے دور میں کہ نمائندے ادارے سرے سے مفقود ہوتے ہیں۔ تخت و تاج کی سلامتی ہر فرماں روا اپنا بنیادی فریضہ سمجھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ طاقتور سے طاقتور بادشاہ بھی خود تنہا اپنا بچاؤ نہیں کرسکتا بلکہ اس کو کسی نہ کسی طبقے یا گروہ کا تعاو ن حاصل کرنا پڑتا ہے البتہ اس تعاون کی قیمت اختیارات میں شرکت کی شکل میں ادا کرنی ہوتی ہے۔ سلاطینِ دہلی نے یہ تعاون ، یہ وفاداری جاگیر اور منصب عطا کرکے حاصل کی۔
مثال کے طورپر صوبوں کے نظم و نسق پر ہی غورکریں لیکن یہ حقیقت ذہن میں رکھیں کہ سترھویں اٹھارویں صدی میں مرکز اور صوبوں کے درمیان رابطے کی وہ سہولتیں موجود نہ تھیں جو اب ہیں۔ اس وقت نہ موٹریں اور ریل گاڑیاں تھی نہ ہوائی جہاز۔ نہ تار نہ ٹیلی فون نہ وائر لیس، ایسی صورت میں بس یہی ممکن تھا کہ معتبر اور وفادار امرائے دربار کو صوبوں کا نگراں بنایا جائے۔ نقدی ادائیگی ممکن نہ تھی۔ سکوں کا رواج بہت کم تھا۔ کیونکہ جاگیری نظام میں چیزیں بازار میں فروخت ہونے کے لیے بہت کم بنتی تھیں لہٰذا سکوں کی ضرورت نہ تھی۔ سرکاری عہدیداروں کو تنخواہیں لا محالہ زمین یا جنس کی شکل میں ادا کی جاتی تھیں۔
کوئی بادشاہ فیوڈل ازم کے دائرے میں رہ کر بدی کے اس چکر سے نکل ہی نہیں سکتا تھا اور اگر کسی نے کوشش کی بھی تو وہ ناکام ہوا۔ علاؤالدین خلجی، محمد بن تغلق اور اسلام شاہ سوری کے تجربے اسی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے۔
اختیارات میں شرکت کی دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ صوبائی وحدتوں کے حق ِ خود اختیاری کو تسلیم کرلیا جاتا اور ان کا نظم و نسق منتخب شدہ نمائندوں کے سپرد کردیا جاتا جیسے امریکا میں ہوتا ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن تھا جب خود مرکز میں کوئی منتخب شدہ نمائندہ حکومت موجود ہوتی ۔ مگرقرونِ وسطیٰ میں جہاں اقتدارِ اعلیٰ کا سرچشمہ ریاست کے باشندے نہیں بلکہ ایک فردِ واحد کی ذات ہوتی تھی اور باشندوں کی حیثیت شہریوں کی نہیں بلکہ رعایا کی ہوتی تھی اس قسم کی طرزِ حکومت کا تصور بھی ممکن نہ تھا۔ قرونِ وسطیٰ کا ہندو ستان پانچویں صدی قبل مسیح کے یونان سے دو ہزار برس پیچھے تھا۔
سلطنتِ مغلیہ کی عمارت بھی جاگیری نظام پر قائم تھی ۔ ہرچند کہ زمین اُصولاً ریاست کی ملکیت تھی اور ریاست کے سربراہ کو اس پرپورا اختیار حاصل تھا لیکن قبضے کے اعتبار سے زمین کی چار قسمیں تھیں؛
1۔ خالصہ، 2۔ جاگیر، 3۔ سیورغال /مددمعاش/انعام، 4۔ زمینداری۔
1۔خالصہ کی زمینیں بادشاہ کی ذاتی ملکیت ہوتی تھیں۔ سندھ میں مغلوں کے عہد میں خالصہ کی زمینیں بہت کم تھیں۔ اور دو حصوں میں بٹی ہوئی تھیں۔ اول خالصہ سلطانی جس کی آمدنی خزانہ عامرہ میں جمع ہوتی تھی۔ دوئم صوبہ داروں ، فوجداروں اور حاکموں کی کفالت کرنے والی زمینیں لیکن یہ عہدہ دار خود کاشت کرنے کے بجائے زمینوں کو ٹھیکے پر دے دیتے تھے۔ اور ” اس طرح پوری معیشت کی بربادی کا باعث ہوتے تھے”۔ شکایت جائز لیکن سرکاری عہدہ دار نظم و نسق کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی کیسے کرتے۔ وہ زمینیں اجارے پر دینے پر مجبور تھے۔ خالصہ کی زمینیں عموماً بہت زرخیز ہوتی تھیں۔ ان کا مجموعی رقبہ 4/1 اور 11/1 کے درمیان گھٹتا بڑھتا رہتا تھا۔
شاہ جہاں کے عہد میں خالصہ مواضات کی تعداد 75 ہزار اوران کی آمدنی تین کروڑ 15 لاکھ روپیہ تھی۔ شاہ جہاں کے بعد خالصہ کی آراضیاں بھی اجارے (ٹھیکے) پر دی جانے لگیں۔ نظام الملک آصف جاہ نے محمد شاہ (1719ء۔ 1747ء) کو مشورہ دیا تھا کہ ” چوں کہ خالصہ محال کی اجارہ داری نے ملک کو تباہ کردیا ہے لہٰذا اس طریقے کو منسوخ کردیا جائے۔ مگر اس کی شنوائی نہ ہوئی۔
2۔ جاگیر دار طبقہ حکومت کا دستِ راست تھا اور تقریباً تین چوتھائی زمینیں اس کے تصرف میں تھیں۔ مغلوں نے جاگیرداری اور منصب داری کو یک جا کر کے فوجی ریاست کا جو نظام رائج کیا اس کی وجہ سے جاگیردار طبقہ بادشاہ کے لطف و کرم کا محتاج ہوگیا۔ شاہی خاندان کے افراد اور وزرا سے لے کر صوبوں کے ناظم اور ان کے ماتحت عملہ سب کے سب فوجی عہدے دار ہوتے تھے اور منصب دار کہلاتے تھے ۔ یہ منصب داریاں دس ہزاری سے شروع ہو کر دس سواروں پر ختم ہوتی تھیں۔ منصب داروں کے مرتبے کا تعین اسی مناسبت سے ہوتا تھا اور اسی حساب ان کو سرکاری خدمات کی بجا آوری کے لیے نقدی تنخواہ کے عوض جاگیریں دی جاتی تھیں۔ گویا ” وہ فوجی بھی ہوتے تھے، نواب بھی اور سول انتظامیہ کے رکن بھی‘‘۔ منصب داروں کے تبادلے، برطرفی یا موت کی صورت میں ان کی جاگیر ریاست کو منتقل ہو جاتی تھی۔ سرکاری عہدے چوں کہ موروثی نہیں ہوتے تھے لہٰذا جاگیریں بھی موروثی نہیں ہوتی تھیں۔بڑے منصب داروں (مثلاً صوبہ دار) کی تقرری اور تبدیلی بھی کسی قاعدے سے ضابطے کے مطابق نہیں ہوتی تھی بلکہ بادشاہ کی مرضی پر منحصر تھی لہٰذا ان عہدے داروں کو کچھ خبر نہ ہوتی کہ وہ کب تبدیل یا برطرف کردیے جائیں۔ وہ اپنے فرائض بڑی بے یقینی کے عالم میں ادا کرتے تھے۔
بڑے بڑے جاگیر دار شاذو نادر ہی اپنی جاگیروں پر جاتے تھے۔ وہ خود شاہی دربار سے منسلک رہ کر آگرہ، دہلی اور لاہور میں عیش کی زندگی گزارتے اور جاگیر کی دیکھ بھال عاملوں کے سپرد کردیتے۔ ان کو اپنی جاگیر کو ترقی دینے ، پیداوار کو بڑھانے، افتادہ زمینوں کو زیر کاشت لانے یا آب پاشی کے نظام کو بہتر بنانے سے کوئی سروکار نہ تھا۔ وہ سوچتے ہمارا یہ منصب چند روزہ ہے ۔ تبادلے کا حکم نہ جانے کب آجائے پھر ہم کیوں فکر کریں لہٰذا جو وقت ملا ہے اس کو غنیمت جانو اور جتنا مال و متاع سمیٹ سکو جلد از جلد سمیٹ لو۔ وہ اپنی جاگیریں اجارے پر دے دیتے تھے بلکہ حفظِ ماتقدم کے طورپر مستاجروں سے پیشگی رقم وصول کرلیتے تھے۔ یہ رقم ” قبض” کہلاتی تھی۔ شاہ جہاں کے عہدمیں تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ زمین کا سودا ہو جانے کے بعد بھی اگر کوئی شخص قبض کی زیادہ رقم پیش کرتا تو مقرر شدہ مستاجر کو بے دخل کرکے زمین اس کے حوالے کردی جاتی تھی۔ اس بد عہدی اور لاقانونیت کی نہ کوئی داد تھی نہ فریاد۔ پروفیسر عرفان حبیب کی تحقیق کے مطابق سندھ میں جاگیروں کے انتظام میں مقامی لوگوں کو شریک نہیں کیا جاتا تھا حتیٰ کہ خالصہ میں بھی یہی دستور تھا۔ فقط پرگنے کا قانون گو مقامی آدمی ہوتا تھا۔
یہ اجارہ داری سب سے بڑی لعنت تھی جس سے سندھ کا کاشت کار سندھی فرماں رواؤں کے عہد میں بچا ہوا تھا۔ چنانچہ عہدِ شاہ جہانی کا سب سے مستند مؤرخ یوسف میرک جو خود جاگیر دار طبقے سے تھا (اس کے والد میرابوالقاسم نمکین بھکری اور بڑے بھائی میرابو البقاد دونوں صوبہ دار رہ چکے تھے) مرزا عیسیٰ خان ترخان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس سے کہتا کہ فلاں پرگنے کو جس کی مال گذاری بیس ہزار روپیہ ہے ایک لاکھ کے عوض اجارے پر دے دو تو وہ قبول نہ کرتا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ
درعمل اجارہ ویرانیِ ملک است، چراکہ اجارہ داری میں ملک کی ویرانی ہے کیوں کہ
درعملِ اجارہ دست خاکم ازرعیت برآیدو اجارے میں حاکم رعیت سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے
دستِ مستاجر بر آنہا قائم شودو مردم اور مستاجر رعیت پر حاوی ہو جاتا ہے اور
مستاجر حسبِ خواہش خود آنچہ می دانند مستاجر کے آدمی رعیت غریب کے ساتھ جو
بررعیت غریب فی کنند عملِ اجارہ اگرچہ چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ اجارہ داری ابتدا
اول مرتبہ مانند آتش کر درکاہ خشک می گیرد میں سوکھی گھاس میں آگ کی طرح اچھی لگتی
خوشترو روشن می نماید، اماآخرش نتیجہ ہے اور روشنی دیتی ہے مگر آخرکار اس کا
سیاسی و خاکستری مطلق می دہدتیجہ مکمل سیاہی اور خاکستری ہوتا ہے۔
3۔ ” سیور غال‘‘ یا مدد معاش وہ زمینیں تھیں جو مکتبوں اور مدرسوں کے خرچ کے لیے یا علما، فضلا اور خاندانِ سادات کے گزارے کے لیے بطور معافی دی جاتی تھیں۔ علم و دانش کو فروغ دینے کا یہ طریقہ ارغونوں نے شروع کیا تھا۔ ترخانوں نے بھی اس روایت کو قائم رکھا البتہ ” مدد معاش کی ایک شرط تھی کہ وظیفہ خوار حاکمِ وقت کے وفادار رہیں”۔ اس طرح ارغونوں اور ترخانوں نے سندھ میں پڑھے لکھے افراد اور بااثر خاندانوں کا ایک اہم طبقہ پیدا کرلیا تھا جس کا مفاد حکومت سے وابستہ ہوتا تھا۔ مغلوں کے عہد میں ” مدد معاش” کی زمینوں میں اور اضافہ ہوا مثلاً بھکر میں میر عدل کو پچاس ہزار بیگھہ زمین بطور سیورغال عطا ہوئی لیکن اورنگ زیب سے پہلے یہ معافیاں موروثی نہیں ہوتی تھیں اورنگ زیب نے ان کو موروثی کردیا۔ ڈاکٹر انصار زاہد کے اندازے کے مطابق سندھ میں سیورغال زمینوں کا مجموعی رقبہ 25،30 فی صد سے کم نہ تھا۔ سیورغال کو موروثی کردینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ” سندھ میں سابق علما و مشائخ کے خاندانوں کے اثر و نفوذ میں تدریجاً اضافہ ہوتا گیا اور وہ نہایت طاقت ور فیوڈل گروہ بن گئے”۔ ان خاندانوں سے علم و فضل تو ایک دو پشتوں میں رخصت ہوگیا البتہ جاگیریں باقی رہیں اورپیری مریدی کا کاروبار خوب چمکا۔
4۔ چوتھا طبقہ جس کو زمین پر کسی حد تک مالکانہ حقوق حاصل تھے زمینداروں کا تھا۔ یہ اصطلاح بڑی مبہم ہے۔ محمد شاہ کے عہد کا مشہور لغت نویس آنند رام مخلص” مراۃ الاصطلاح ‘‘میں لکھتا ہے کہ زمیندار لغوی اعتبار سے” صاحبِ زمیں‘‘ کو کہتے ہیں لیکن اب وہ ہر شخص زمیندار کہلاتا ہے جو کسی گاؤں یا قصبے میں زمین کا ” مالک‘‘ ہو اور کاشت کرتا ہو۔ زمیندار کی اصطلاح مغلوں کے دور میں بھی استعمال ہوتی تھی چنانچہ ” آئینِ اکبری”اور ” رقعات عالم گیری” دونوں میں زمینداروں کاذکر موجود ہے اور عبدالقادر بد ایوانی بھی منتخب التواریخ میں مالوہ کے کے مشہور ہیرو باز بہادر خان کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ” باز بہادر خان نے جس نے اپنے چند امرا کے ہمراہ راہِ فرار اختیار کرلی تھی دوسرے زمینداروں سے مل کر پیر محمد خان پر حملہ کردیا”۔ ایک اور واقعے کے ضمن میں وہ ” غریب زمینداروں ” کا بھی ذکر کرتا ہے۔
تاریخ مظہر شاہ جہانی کی شہادت اس سے بھی زیادہ معتبر ہے۔ وہ سندھ کے دیہات کے بارے میں لکھتا ہے کہ ” ائمہ ایں دیار چار قسم اند‘‘ ان میں زمینداروں کو وہ چوتھی قسم قرار دیتا ہے۔
مردم زمینداراں اند کہ تعلق بہ چوتھی قسم زمینداروں کی ہے جن کا تعلق
ربابی و مقدمی نیزدارند، وچوں زمیندار ارباب اور مقدموں سے بھی ہے۔ زمیندار
انند زمین ہا خوب پر حاصل از جاہائے ہونے کے باعث وہ اپنے ماتحت چکوں
نیک درتحت چکہائے خود گرفتہ اندومردم قابض ہیں اور رعیت جو ان کی محتاج ہے
و کندن جوئی آب، زمینہائے آنہارا بلاکسی مدد اور آب پاشی کی سہولتوں کے
مزروع نمایند چاں چہ اکثر زمینہائے آں ان زمینداروں کی بیشتر زمینوں
چکہائے خود نمی برند۔۔۔۔میں زراعت ہوتی ہے مگروہ اپنے چکوں کو آباد کرنے کی خود کوئی کوشش نہیں کرتے
تاریخِ مظہر شاہ جہانی کے اس اقتباس سے ظاہر ہوتاہے کہ سندھ کے زمیندار گاؤں میں رہتے تھے اور کاشت کاروں سے ان کا تعلق براہِ راست تھا۔ وہ اپنی زمینوں کے خود مالک تھے مگر خود کاشت کرنے کے بجائے مزارعوں سے کام لیتے تھے۔ بسا اوقات جاگیر دار وں کے ارباب اورمقدم یہی مقامی زمیندار ہوتے تھے لہٰذا قدرتی طورپر ان کا مفاد بھی جاگیر دار طبقے سے وابستہ تھا لیکن وہ جاگیرداروں کے تابع نہیں تھے ۔ مثلاً
یوسف میرک لکھتا ہے کہ؛
” ایک بار میں نے سہوان کے حاکم کو مشورہ دیا کہ سمیجہ اُونر قوم کے فلاں سرکش گروہ کا قلع قمع فریب اور دھوکے سے حملہ کر کے کیا جائے تو بعض زمیندارانِ سہواں ایں حرف را خوش نہ کردند‘‘ (میری بات سہوان کے بعض زمینداروں کو پسند نہیں آئی) اور حملے کا مشورہ مسترد ہو گیا ۔‘‘
پروفیسر عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ؛
”زمیندار عام کسانوں سے اونچے ہوتے تھے۔ وہ اپنے مزارعوں کو بے د خل کرسکتے تھے۔ ان کی زمینیں موروثی ہوتی تھیں اور وہ ان کو فروخت بھی کرسکتے تھے۔‘‘
جس دیار” بیداد گراں ، ناپرساں اور بیکساں‘‘میں یوسف میرک کے بقول بے شمار ” بھیڑئیے‘‘ اور ” راکشش‘‘ موجود ہوں وہاں غریب کسانوں کی زبوں حالی کا پوچھنا ہی کیا۔ وہ زمین جوتتے بوتے اور فصلیں اُگاتے مگر زمین پر ان کو کسی قسم کا اختیار نہ تھا نہ عارضی نہ مستقل اور جو غلہ وہ اپنے خون پسینے سے پیدا کرتے اس کا بیش تر حصہ جاگیر دار، مستاجر، معافی دار ملا، مشائخ، سادات اور زمیندار لے جاتے۔ جو باقی بچتا اس میں سے متعدد ” رسوم‘‘ ادا کرنے پڑتے۔ نتیجہ یہ کہ پیداوار بڑھانا تو درکنار وہ سرکاری کارندوں اور اجارہ داروں کی لوٹ مارسے تنگ آکر جنگلوں کی راہ لیتے اور ڈاکو، راہ زن بن کر دوسروں کو لوٹنا شروع کردیتے تھے۔
سندھ میں عموماً ” غلہ بخشی‘‘ یعنی بٹائی کا رواج تھا چنانچہ ترخانوں کے عہد میں کسانوں سے زمین کی زرخیزی اور آب پاشی کی سہولتوں کی مناسبت سے فصل 2/1 ،3/1 اور 4/1 وصول کیا جاتا تھا لہٰذا بقول یوسف میرک ” ملک آباد تھا اور رعیت پر قوت تھی لیکن جاگیر داروں کے دور میں کسانوں کو ” خراجِ مقاسمہ‘‘(2/1) کے علاوہ ان گنت ” رسوم‘‘ ادا کرنے پڑتے تھے جن کو ” ستم شریکی‘‘ یا ” فروعی واجبات‘‘یا ”سائرجہات‘‘ کہتے تھے۔ قانوناً یہ واجبات سراسر ناجائز تھے لیکن قانون کے محافظ جب خود یہ ناجائز رقمیں وصول کرتے تو کسانوں کی کون سنتا چنانچہ۔
” بہ تہمت ہائے باطلہ سکان ایں دیار را از آزاد ہائے گونا گوں دادہ ، زیادہ از جریم آنہا جرمانہ کہ از طاقتِ بشر دُور است مقررمی سازند چنا ں چہ مردم ہلاک می گردند‘‘۔
” انہوں نے ناجائز واجبات وصول کرکے اس ملک کے باشندوں کو طرح طرح کی تکلیفوں میں پھنسا رکھا ہے۔ وہ اتنا جرمانہ لگاتے ہیں جس کی ادائیگی بشر کی طاقت سے دور ہوتی ہے لہٰذا لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔‘‘
سکونت کے اعتبار سے سندھ کی دیہی آبادی دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ حضری اور بدوی۔ وہ گاؤں جو دریائے سندھ کے آس پاس مستقل طورپر بسے ہوئے تھے لاندھی یا گوٹھ کہلاتے تھے۔ زیادہ آبادی انہیں علاقوں میں تھی اور آب باشی کی سہولتوں کی وجہ سے یہاں پیداوار بھی اچھی ہوتی تھی۔ اس کے برعکس کوہستانی اور ریگستانی علاقے جہاں گلہ بان قومیں رہتی تھیں بہت پسماندہ تھے۔ ان صحرا نورد قوموں کا کوئی مستقبل ٹھکانہ نہ تھا بلکہ وہ اپنے اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کو ساتھ لیے چارہ گھاس کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ مارے پھرتے رہتے تھے۔ ان کی عارضی بستیوں کو تھانہ یا گدھان کہتے تھے۔ یہ گھاس پھوس کی جھونپڑیاں یا اون کی چھول داریاں ہوتی تھیں جن کو بری آسانی سے جانوروں پر لادا جا سکتا تھا۔ جھونپڑیوں اور خیموں کے جھنڈ کو تومان کہتے تھے جو یک جدی خاندانوں (خیل) کا مسکن ہوتا تھا۔ تومان کا بزرگ تومان دار کہلاتا تھا۔ یہ خانہ بدوش قبیلے زیادہ تر بلوچ تھے جن کی مہمان نوازی، جفاکشی اور دلیری ضرب لمثل تھی۔ ہر تومان میں ایک مہمان خانہ ضرور ہوتا تھا اور تو مان کے ہر فرد کو مہمان داری کے مصارف کے لیے تومان دار کو شیشک (6/1) ادا کرنی پڑتی تھی۔ (شیشک کا رواج بلوچستان میں چند سال پیش تر تک تھا) یہ بلوچ قبیلے بھکر اور ٹھٹھہ کے مغرب میں کوہستانی علاقوں میں رہتے تھے۔ کلہوڑا سردار انھیں کی مدد سے برسرِ اقتدار آئے۔
شاہ جہان کے آخری ایام میں حاکموں کے ظلم و جور اور جاگیرداروں کے بے دریغ استحصال کی وجہ سے سندھ کی اقتصادی حالت خراب سے خراب تر ہوتی گئی اور رعایا میں بے چینی بڑھتی گئی۔ کئی قومیں مثلاً سمیچہ، بلوچ اور نہمردی ایسی تھیں جنہوں نے مغلوں کی اطاعت کبھی قبول نہیں کی تھی۔ ان کی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے صوبہ داروں کو مسلسل فوجی طاقت استعمال کرنی پڑتی تھی ۔
چنانچہ یوسف میرک کی کتاب اِن ” سرکش‘‘ قوموں کی سرکوبی کی خونیں داستان سے پُر ہے۔ بد امنی کا یہ حال تھا کہ شہر سہوان کا حاکم قلعے سے باہر نکلنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا اور قلعے کی دیوار کے نیچے دن دہاڑے قتل اور لوٹ مار کی وارداتیں ہوتی رہتی تھی۔ لاہری بندر اورٹھٹھے کے درمیان تجارتی قافلے تیس میل کا سفر فوج کی نگرانی میں طے کرتے تھے۔
سندھ میں بارش برائے نام ہوتی ہے لہٰذا زراعت کا انحصار پانی کی فراہمی پر ہے۔ جس حکمران نے نہریں نکا کر اس مسئلے کو حل کرلیا وہ کامیاب رہا اور جس نے نہروں کی طرف سے غفلت برتی وہ ناکام ہوگیا۔ مغلوں نے یہ اہم فریضہ جاگیر داروں کے سپرد کردیا تھا حالاں کہ اتنا بڑا کام ان کی استطاعت سے باہر تھا۔ اگر نہریں نکال کر اُفتادہ زمینوں کو قابلِ کاشت بنایا جاتا تو ملک قحط کی بار بار آفتوں سے بچ جاتا اور خانہ بدوش قبیلے بھی آباد ہو کر پر امن زندگی بسر کرنے لگتے۔ حیرت ہے کہ اورنگ زیب کا سا عاقل شخص بھی سندھیوں کی بے چینی اور سرکشی کے اصل سبب کو سمجھنے سے قاصر رہا۔ اس نے بھی یہ نہ دیکھا کہ سمیچہ یا نہمروی جن کو اس نے بزورِ شمشیر مطیع و فرماں بردار بنانے کا عزم کررکھا تھا تلاشِ معاش کے سلسلے میں مجبور ہو کر مزروعہ علاقوں کا رخ کرتے تھے اور یوسف میرک کا سا صاحبِ فہم مؤرخ بھی شاہ جہاں کو یہی مشورہ دیتا ہے کہ ” مردُمِ مفسدو متمر دغیر از ضربت شمیشر بہ طریقِ نیک رام نمی شوند‘‘ (مفسد اور سرکش عناصر کو نیک طریقوں کے بجائے تلوار ہی کے زور سے رام کیا جا سکتا ہے) حالاں کہ وہ خود معترف ہے کہ اگرکسی دُور اندیش جاگیردار یا حاکم نے غیر آباد علاقوں میں آب پاشی کا بندوبست کردیا یا سرکش قبیلوں کو زمین دے کر بسا دیا تو حالات سدھر گئے۔ مثلاً پرگنہ چندوکہ (لاڑکانہ) میں میرابرہ نے ایک بڑی نہر نکالی (جو اب بھی موجود ہے) تو ویران اور غیر آباد علاقہ سرسبز و شاداب ہوگیا اور وہاں کئی شہر بس گئے۔ اسی طرح سمیجہ ، ابرہ اور سانگی قوموں نے خود نہریں کھودیں تو نئے دیہات وجود میں آگئے اور کسان جوق درجوق آکر وہاں آباد ہوگئے اور مزروعہ زمین ایک لاکھ جریب سے زیادہ ہوگئی اور سرکاری لگان بھی 30،40 فیصد بڑھ گئی۔
اورنگزیب نے 1707ء میں اورنگ آباد دکن میں بڑی مایوسی کے عالم میں انتقال کیا۔ اس کے بعد تختِ شاہی کے لیے خانہ جنگی شروع ہو گئی اور ملک میں طوائف الملوکی پھیلی اس سے تاریخ کا ہر طالبِ علم واقف ہے۔ اورنگ زیب نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ تینوں بیٹے سلطنت کو آپس میں تقسیم کرلیں لیکن خود اس نے اپنے باپ اور بھائیوں کے ساتھ جو سلوک کیا تھا اس کے پیشِ نظر بیٹوں سے توقع رکھنا کہ وہ باپ کی وصیت پر عمل کریں تے عبث فعل تھا۔ شہزادہ اعظم شہزادہ معظم کے خلاف لڑتا ہوا مارا گیا۔ پھر کام بخش کا کام تمام ہوا اور شہزادہ معظم شاہ عالم اول کے لقب سے تخت پر بیٹھا لیکن چار سال بعد وفات پاگیا اور اس کے چاروں بیٹے جہاں دار شاہ، عظیم الشان، جہاں شاہ اور رفیع الشان آپس میں آمادہ پیکار ہوئے۔ جہاں دار شاہ تینوں بھائیوں کو قتل کر کے بادشاہ بنا مگر ایک سال بعد عظیم الشان کے بیٹے فرخ سیر نے لال قلعہ دلی میں چچا کا گلا گھونٹ کر ہلاک کردیا اور خود بادشاہ بن بیٹھا (1713ء) چھ سال کی مختصر مدت میں تخت کے چھ دعوے دار مارے گئے اور فقط ایک قدرتی موت مرا۔
یہی پُرآشوب زمانہ صوفی شاہ عنایت کا بھی ہے۔
زوالِ سلطنت کے اسباب
سلطنتِ مغلیہ کا عروج جتنا پر شکوہ تھا زوال اتنا ہی المناک ثابت ہوا۔ یوں لگا گویا یہ عظیم عمارت ریت کا گھروندہ تھی جو ہوا کے تیز جھونکے کی بھی تاب نہ لا سکی۔ مگر زوال کے آثار اورنگ زیب کے آخری ایام ہی میں ظاہر ہونے لگے تھے۔ اُدھر بوڑھا شہنشاہ اپنی ساری قوت دکن مہموں میں صرف کررہا تھا اِدھر سلطنت کے پرانے رفقا یکے بعد دیگرے اس سے کنارہ کش ہوتے جارہے تھے۔ بیٹے، امرائے دربار، ایرانی، جاٹ بندیلے، راٹھور، سی سوڈیا غرضیکہ کوئی بھی بادشاہ کی سیاسی حکمتِ عملی سے خوش نہ تھا۔ اس قحط الرجال کی وجہ سے کی وجہ سے سلطنت کے نظم و نسق میں جو خلل پڑ رہا تھا سلطان اس سے بخوبی آگاہ تھا چنانچہ شکایت کرتا ہے کہ ” ازنایابیِ آدم کار آہ، آہ تس ‘‘پروزیر سعد اللہ خان عرض کرتا ہے کہ ”جہاں پناہ، لائق آدمیوں سےس کوئی زمانہ خالی نہیں ہوتا البتہ خود غرضوں کی تہمتوں اور الزام تراشیوں پر کان دھرے بغیر، ان کا دل جیتنا اور ان کے ذریعے امورِ سلطنت سرانجام دینا، عقل مند آقاؤں کا شیوہ ہے‘‘۔ اورنگ زیب کو اپنی اس مردم ناشناسی کا احساس ہے اور وہ سعد اللہ خان کی عرضداشت کی صداقت کو تسلیم کرتا ہے مگر پانی سے اونچا ہو چکا تھا۔ مسلک میں تبدیلی اب اس کے اختیار میں نہ تھی۔
اورنگ زیب کے مشہور مؤرخ سر جادو ناتھ سرکار نے زوالِ سلطنت کے متعدد اسباب بیان کیے ہیں۔ مثلاً؛
اورنگ زیب کی غلط حکمتِ عملی، اس کے جانشینوں کا پست کردار اور امرائے دربار کی نااہلی اور خود غرضی لیکن جاگیری نظام کی فرسودگی پر حیرت ہے کہ اس کی نظر نہیں پڑی حالاں کہ تمام خرابیوں کی جڑ یہی نظام تھا جو اپنا تاریخی کردار ادا کرچکا تھا اوراب اس میں مزید ترقی کی گنجائش نہ تھی۔
لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سلطنت کے زوال میں اورنگ زیب کے جانشینوں کے پست کردار کو بھی بڑا دخل ہے۔ نازو نعم کی گود میں پلے ہوئے یہ عیش پسند شہزادے جن کو نہ امورِ سلطنت کی تعلیم دی گئی تھی اور نہ نظم و نسق کی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں، مسخروں، بھانڈوں ، اور خوشامدی مصاحبوں میں گھرے رنگ رلیوں میں مصروف رہتے تھے اور برسراقتدار آنے پر بھی ان مشغلوں کو ترک نہ کرتے تھے۔ چنانچہ مورخ لکھتا ہے کہ اٹھارویں صدی میں تخت دہلی کے ورثا کی تربیت اس ڈھنگ سے ہوئی کہ بڑے ہو کر وہ انتہائی بے بسی کے عالم میں دوسروں پر تکیہ کرنے کے عادی ہو گئے۔ وہ آزادی سے نہ خود فیصلہ کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی صلاحیت رہ گئی تھی۔ اُن کے ذہن کند ہو چکے تھے اور ان کی روحیں مردہ لہٰذا وقت گزاری کے لیے وہ حرم سرا کی عورتوں ، مسخروں اور خوشامدیوں کی صحبت میں پناہ لیتے اور تخت نشین ہو کر حکومت کی باگ وزیروں کے سپرد کردیتے تھے جس کی وجہ سے امرا میں باہمی رقابتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا اور جب وہ کسی طاقت ور وزیر کے اثرو اقتدار سے خوف زدہ ہو کر اس کو گرانے کی غرض سے کسی دوسرے وزیر کی حوصلہ افزائی کرتے تو آخر کار اس کے دامِ اختیار میں پھنس جاتے۔
شخصی حکومت کا سب سے بڑا نقص ہی یہ تھا (اور ہے) کہ ریاست کی بقا و ترقی کا دارو مدار سر براہ کی شخصیت، اہلیت اور مردم شناسی پر ہوتا تھا۔ بادشاہ میں حکومت کرنے کی صلاحیت ہوتی تو نظم و نسق درست رہتا،ریاست کو لائق وزرا اور حکام میسر آتے اور رعایا بھی ظالموں کی دست برد سے کسی حد تک محفوظ رہتی لیکن بادشاہ نا اہل ہوتا تو سلطنت کا وہی حشر ہوتا جو سلطنتِ مغلیہ یا اس سے پیش تر کی سلطنتوں کا ہوا۔ شخصی اور مطلق العنان بادشاہتوں کی تاریخ اسی نشیب و فراز کا آئینہ ہے۔ خواہ وہ رومتہ الکبریٰ ہو یا بنی عباس یا خاندانِ مغلیہ کی سلطنتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اورنگ زیب کے کسی جانشین میں معمولی ضلع کے نظم و نسق کی صلاحیت نہ تھی چہ جائیکہ اتنی وسیع و عریض سلطنت کا لنگر سنبھالنا جو کابل سے چاٹگام اور کشمیر سے راس کمار تک پھیلی ہوئی تھی اور آبادی و رقبہ میں پورے یورپ کے برابر تھی۔
طبقہ اُمرا میں بھی، جن سے نظم و نسق چلتا تھا اب پرانا سا دم دم خم باقی نہ تھا۔ اورنگ زیب سے پہلے اعلیٰ سرکاری عہدوں کے لیے بھرتی تین حلقوں سے ہوتی تھی۔ اول ترکستان اور ایران سے آنے والے قسمت آزما خاندان جن کا پیشہ سپہ گری تھا یا جو اپنی ذہانت اورلیاقت سے سرکار دربار میں رسائی حاصل کرلیتے تھے ۔
دوئم مقامی نو مسلم خاندان کے امرا و شرفا اور سوئم راجپوت اور کایتھ۔ اورنگ زیب کے طرزِ عمل سے بیرونِ ملک سے آمد کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ راجپوت امرا بھی ایک ایک کر کے علیحدہ ہوتے گئے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی مسلمانوں کے طبقہ امرا اور تورانی نژاد امرا میں اقتدار کی خاطر رسہ کشی ہونے لگی۔ اونگ زیب کے بعد تو اِن رقابتوں نے باقاعدہ کشت و خون کی صورت اختیار کرلی۔ مثلاً نظام الملک آصف جاہ دکن کی صوبہ داری پر اپنے تین حریفوں کو شکست دے کر قابض ہوا۔ اسی طرح گجرات کی صوبے داری کی خاطر شجاعت خان اور سر بلند خان اور ستم خان کے مابین جنگ چھڑ ی۔ شجاعت خان اور سربلند خان مارے گئے اور رستم علی خان نے شکست کھائی۔
سندھ میں نواب عطر خان، فرخ سیر کے عہد میں ٹھٹھہ کا صوبے دار مقرر ہو کر آیا مگر اس کو میر لطف علی خان سے مقابلہ کرنا پڑا۔ دونوں ایک سال تک لڑتے رہے یہاں تک کہ عطر خان قتل ہوا اور میر لطف علی خان نے سندھ کی صوبے داری پر قبضہ کرلیا۔ لطف یہ ہے کہ شاہی احکام کی اس باغیانہ خلاف ورزی کے با وصف فرخ سیر نے میر لطف علی خان کو شجاعت خان کے خطاب سے نوازا32؎ غرضیکہ دہلی دربار مختلف گروہوں کی سازشوں کا اڈا بن گیا تھا۔ تورانی، ایرانی اور ہندوستانی امرا دن رات اپنے ذاتی مفاد کی خاطر سیاسی داؤں پیچ میں مصروف رہتے تھے۔ کسی کو سلطنت کے مستقبل کی فکر نہ تھی۔ اس کے علاوہ عالیم گیری عہد کے بہت سے امرا شہزادوں کی معرکہ آرائیوں میں پہلے ہی جان نذر کرچکے تھے۔ جو بچ رہے تھے انھوں نے دربار کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی۔
فرخ سیر(1713۔1719ء) نہایت ظالم، ناکارہ اور عیش پرست ثابت ہوا۔ اس نے چچا کے قتل پر اکتفا نہ کیا بلکہ جس شخص کی طرف سے بھی خطرہ محسوس ہوا اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ امیرالامرا ذوالفقار خان اور اجہ سبھ چند دیوان کی زبانیں کٹوا دیں۔ جہاں دار شاہ کے عہد کے بہت سے امرا کو تہ تیغ کیا۔ جہاں دار شاہ کے بیٹے اعزالدین اور اعظم شاہ کے بیٹے اوراپنے چھوٹے بھائی ہمایوں بخت کو اندھا کرکے قیدخانے میں ڈلوا دیا۔ شہر کیا میدان حشر تھا جس میں کوئی کسی کا پرسانِ حال نہ تھا اور نہ کسی کی جان و مال، عزت، آبرو سلامت تھی۔ انھیں حالات سے غم زدہ ہو کر شاہ حاتم دہلوی نے جو شہر آشوب لکھا وہ نظم و نسق کی ابتری، طبقہ امرا کے انحطاط اور شہریوں کی مالی پریشانیوں کی بڑی سچی تصویر ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
شہوں کے بیچ عدالت کی کچھ نشانی نہیں
امیروں بیچ سپاہی کی قدر دانی نہیں
بزرگوں بیچ کہیں بوئے مہربانی نہیں
تواضع کھانے کی چاہو کہیں تو پانی نہیں
گویا جہان سے جارہا سخاوت و پیار
امیرزادے ہیں حیران اپنے حال کے بیچ
تھے آفتاب پر اب آگئے زوال کے بیچ
پھرے ہیں چرغے سے ہر دن تلاشِ مال کے بیچ
وہی گھمنڈ امارت ہے پر خیال کے بیچ
خدا جو چاہے تو پھر ہو، پر اب تو ہے دشوار
میر جعفر زٹلّی(پیدائش1657ء) اس دور کے ایک ہزل گو شاعر تھے جو ہنس ہنسا کر لوگوں کو خوش کرتے اور اپنا پیٹ پالتے تھے لیکن حالات اتنے بگڑ گئے تھے کہ وہ بھی ضبط نہ کرسکے۔ وہ اپنی ہزلوں میں کبھی شہزادوں کی نا اہلیوں اور آپس کی رقابتوں پر فقرے چست کرتے ہیں اور کبھی معاشرتی افراتفری کا ماتم کرتے ہیں۔ شہزادہ معظم شاہ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ:
نخستیں کلاں، ترکہ برکھنڈ کرو اول بڑے بیٹے نے سب کھنڈت کردی
ہمہ کاروبارِ پدر بھنڈ کرو باپ کا سارا کاروبار بھنڈ کردیا
چناں لوٹ شد بستیِ بھگ نگر حیدرآباد میں وہ لوٹ مچی
نہ خذ ما صفا ماند نہ ماکدر کہ اچھا برا کچھ نہ بچا
جہاں ہووے ایسے کلچھن سپوت لگے خلق کے منھ کو کالک بھبوت
محمد اعظم شاہ کا ذکر یوں کرتے ہیں،
دگرشاہ واعظم ہمہ کندور بہ رسوائی انداخت کارپدر
بہ خوش دامن و حسپورہ ساختہ بہ للو پتو کارِ درباختہ
ساس اور سالے کے ساتھ مل کر اور ایروں غیروں میں وقت صرف کرنے لگا
فرسذایں ناں بہ شب پان پھول ملا کر کیا کام سب خاک دُھول
عوام کی پریشان حالی کا حال یوں بیان کرتے ہیں۔
زلت کے آنسوؤں جگ روتا ہے نہ میٹھی نیند کوئی سوتا ہے
صدائے توپ و بندوق است ہرسو بسر اسباب و بندوق است ہرسو
دو ادوہر طرف بھاگڑ پڑی ہے بچہ در گود، سر کھٹیا پڑی ہے
کٹاکٹ و لٹالٹ ہست ہرسو جھٹا جھٹ و پھٹا پھٹ ہست ہرسو
برہر سو مار مار دھاڑ دھاڑاست اُچل چال و تبر خنجر کٹاراست
فرخ سیر تخت نشین ہوا تو اس کے سکے پر یہ شعر کندہ کیا گیا؎
میر جعفر زٹلّی نے سکے کو ہجو میں بدل کر کہا
سکہ زدبرگندم و موٹھ و مٹر مچھر ماربادشاہ فرخ سیر نے گندم
بادشاہ پستہ کش فرخ سیر موٹھ اور مٹر پر مہر لگا دی ہے
بد نصیب شاعر کو کیا خبر تھی کہ کم ظرف بادشاہ ایک بے ضرر شعر کی پاداش میں اس کو قتل کروادے گا۔ جعفرزٹلّی اردو کا واحد شاعر ہے جس کو ایک شعر کے عوض جان دینی پڑی۔ صوفی شاہ عنایت بھی فرخ سیر ہی کے عہد میں شہید ہوئے۔
صوفی عنایت شاہ کی تحریک
صوفی شاہ عنایت نے جس وقت جھوک میں تعلیم و تبلیغ شروع کی تو سندھ کے بیش تر مشائخ، صوفیا اور سادات اپنے فرائض منصبی کو فراموش کر کے خالص دنیا دار زمیندار بن گئے تھے۔ اس اندھیرے میں صوفی شاہ عنایت کے علم و فضل کی، اُن کی خدا ترسی ، درد مندی اور بے لوث خدمتِ خلق کی روشنی پھیلی تو ان کے گرد ارادت مندوں کا ہجوم ہونے لگا۔ مگر صوفی شاہ عنایت ان روایتی صوفیوں میں نہ تھے جو حالات کو بدلنے کے بجائے صبرو قناعت کی تلقین کرتے ہیں اور یہ کہہ کر کہ دنیاوی زندگی چندہ روزہ ہے لوگوں کو توشہ آخرت جمع کرنے کا درس دیتے ہیں۔ وہ ان علمائے دین میں بھی نہ تھے جن کے نزدیک دولت کی مساوی تقسیم ہی مساوات محمدی کی اساس ہے۔ حالانکہ دولت پیدا کرنے کے ذرائع مثلاً زمین، فیکٹریاں، کارخانے اور بینک وغیرہ اگر چند افرادکی ذاتی ملکیت ہوں تو دولت کی مساوی تقسیم کیوں کر ممکن ہوگی۔
صوفی شاہ عنایت نے قانونِ معیشت کا یہ راز پالیا تھا کہ اصل چیز پیداواری عمل ہے اور اصل مساوات وہ ہے جو پیداواری عمل کے دوران قائم ہو نہ کہ تقسیم کے دوران ورنہ چوروں اور ڈاکوؤں کا ٹولا بھی مال کو آپس میں بانٹ کر کھاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دولت کی منصفانہ تقسیم پیداواری عمل میں مساوی شرکت کے بغیر ممکن ہی نہیں لہٰذا صوفی شاہ عنایت نے پیداواری عمل میں مساوی شرکت پر زور دیا۔
ان کا راسخ عقیدہ تھا کہ مساواتِ محمدی کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ کھیتی باڑی اجتماعی اصولوں پر کی جائے، پیداواری عمل میں سب لوگ برابر کے شریک ہوں اور پیداوار کو حسبِ ضرورت آپس میں تقسیم کرلیں۔ صوفی شاہ عنایت کے مرید فقیروں نے یہ تجویز بہ خوشی منظور کرلی اور اجتماعی کھیتی باڑی میں مصروف ہوگئے۔
اجتماعی زراعت صوفی شاہ عنایت کی ایجاد بندہ نہ تھی بلکہ ان سے بہت پہلے قبیلہ داری نظام کے دور میں بھی اجتماعی زراعت کا رواج عام تھا۔ عین ممکن ہے کہ صوفی صاحب کے زمانے میں بھی بعض کوہستانی قوموں بالخصوص بلوچوں میں یہ طریقہ رائج ہو اور صوفی صاحب نے اس کی افادیت کو محسوس کرلیا ہو۔ ان کا سید محمد جونپوری (1443۔1505ء) کی مہدوی تحریک سے متاثر ہونا بھی بعیدازقیاس نہیں ہے کیوں کہ سید محمد جونپوری سمہ حکمران جام نندا کے عہد میں ڈیڑھ دو سال تک ٹھٹھے میں مقیم رہے تھے اور بہت سے لوگ جن میں میاں آدم شاہ کلہوڑا بھی تھے ان کے مرید بن گئے تھے۔ سید محمد جنھوں نے مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا بڑے عالم فاضل بزرگ تھے۔ انھوں نے اپنی مہدوی برادری کو “دائرے” کا نام دیا تھا جو مکمل مساوات اور ابدیت کی علامت ہے۔ اُن کے دائرے میں چھوٹے برے امیر غریب کا امتیاز نہ تھا۔ مرید دائرے میں اجتماعی زندگی بسر کرتے تھے اور ضروریاتِ زندگی آپس میں برابر تقسیم کرلیتے تھے۔
صوفی شاہ عنایت کا تجربہ بہت کامیاب ہوا۔ جھوک میں آباد فقیروں کو نہ بٹائی دینی پڑتی نہ بے گار کرنی پڑتی اور نہ پٹواری قانون گو کو ” ستم شریکی” رسوم ادا کرنے پڑتے تھے لہٰذا صوفی شاہ عنایت کی شہرت جلد ہی دور دور پھیل گئی اور ہر جگہ ان کے نئے تجربے کا چرچا ہونے لگا۔ اُس پر مستزاد یہ کہ سادات ہلڑی کے فقیر جو اب تک اپنے زمینداروں کے مرید تھے شاہ عنایت کے حلقہ ارادت میں چنانچہ تحفہ الکرام میں رقم ہے کہ؛
” فقرائے بلری خاندان شان بہ معائنہ فروغ و مجد ایں سلسلہ از آنہا بریدہ بایں ہامی پیوستند‘‘۔
” جو درویش پہلے خاندانِ ہلری سے وابستہ تھے وہ صوفی شاہ عنایت کے سلسلے کا فروغ دیکھ کر سادات کو ترک کرکے اس نئے سلسلے مین شامل ہوگئے‘‘۔
لہٰذا ” فقیروں کی جاعت سندھ کے خاندانی پیروں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگی۔‘‘
اس تحریک کی مقبولیت سے خاندانِ سادات کے مریدوں ہی کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ بابو پلیجہ اور آس پاس کے دوسرے علاقوں کے مزارع بھی متاثر ہوئے۔ ” در زمینِ ایشاں فقرارگ و ریشہ دو اندہ بودند‘‘(صوفی شاہ عنایت کے فقیر اُن کی زمینوں میں بھی ریشہ دوانیاں کررہے تھے۔ یعنی اجتماعی زراعت کی تبلیغ کررہے تھے)۔ نتیجہ یہ ہوا کہ زمینداروں کے مزارعے مطالبہ کرنے لگے کہ ہماری زمینوں میں بھی صوفی شاہ عنایت کے طریقے پر عمل کیا جائے۔ مگر پیداوار میں مساوی شرکت کے اصول کو تسلیم کرنے کے لیے زمیندار ہر گز تیار نہ تھے۔
انہوں نے محسوس کرلیا کہ اس انقلابی فتنے کا اگر فوراً تدارک نہ کیا گیا تو سندھ میں جاگیر داری اور زمینداری نظام خطرے میں پڑجائے گا۔ لہٰذا خطرے کا سدِ باب کرنے کی غرض سے زمینداروں نے جن میں ہلڑی کے شاہ عبدالکریم کے جانشین سید عبدالواسع اور شیخ ذکریا بہاؤلدین کے جانشین شیخ سراج الدین اور پلیجانی کے زمیندار نور محمد بن منبہ پلیجو اور حمل بن لاکھا جاٹ پیش پیش تھے، میر لطف علی خان صوبے دار ٹھٹھہ سے فریاد کی کہ صوفی شاہ عنایت کو اجتماعی کھیتی سےمنع کیا جائے لیکن صوفی کی زمین مدد معاش کی معافی زمین تھی۔ صوبے دار کا اس پر کوئی اختیار نہ تھا۔
چنانچہ اس نے حکومت کی جانب سے مداخلت کرنا مناسب نہ سمجھا البتہ زمینداروں کو اجازت دے دی کہ وہ صوفی اور ان کے فقیروں سے جس طرح چاہیں نپٹ لیں۔ صوبے دار کا اشارہ پا کر زمینداروں نے جھوک کی بستی پر اچانک دھاوا کردیا مگر منھ کی کھائی البتہ کئی فقیر مارے گئے اور لوگوں کا مالی نقصان بھی ہوا۔ شہدا کے وارثوں نے زمینداروں کی اس لا قانونیت کے خلاف شاہی دربار میں استغاثہ دائر کیا تو وہاں سے حکم صادر ہوا کہ ” مرتکبین بادشاہ کے حضور آکر بے گناہوں کے خون کا حساب دیں ۔ چوں کہ انھوں نے شاہی حکم کی تعمیل سے انحراف کیا لہٰذا خوں بہا کے عوض سلطانی دستورالعمل کے مطابق ان کی زمینیں مقتولین کے ورثا کے حوالے کر دی گئیں۔‘‘
فقیروں کی اس قانونی جیت سے گرد پیش کے مزارعین کے حوصلے بڑھ گئے اور سرکاری حکام اور زمینداروں کی بھی وہ پہلی سی ہیبت نہ رہی بلکہ؛
کثر غربا و سائر مردم اضلاع در مہدِ امان ان اضلاع کے اکثر غربا اور سائر
آن اہل اللہ از جنگِ تظلم زمینداران زمینداروں کے ظلم سے نجات پاکراس
رہائی یا فتہا مامون نشتند اہل اللہ (صوفی شاہ عنایت) کے دامینِ پناہ میں امن سیرہنے لگے
اس سے پتہ چلتا ہے کہ صوفی شاہ عنایت کی کسان تحریک زیریں سندھ میں کئی ضلعوں میں پھیل گئی تھی اور صوفی صاحب کی پشت پناہی کی وجہ سے لوگوں میں اتنی طاقت آ گئی تھی کہ زمیندار اب ان پر ہاتھ اٹھانے کی جرات نہ کرسکتے تھے۔ اسی اثنا میں ” جور زمانہ سے تنگ آکر فقیروں کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہونے لگا اور ہر درو دیورا و گنبد و خانقاہ سے ہمہ اوست کی صدائیں بلند ہونے لگیں‘‘۔
فرخ سیر نے غالباً یہ سمجھ کر کہ میر لطف علی خان فقیروں کے ساتھ نرمی برت رہا ہے اس کو بر طرف کر کے نواب اعظم خان کو 1716ء میں ٹھٹھہ کا صوبے دار مقرر کردیا۔ زمینداروں نے اس تبدیلی سے فائدہ اٹھایا اور اعظم خان کے کان بھرنے شروع کردے۔ شاید نواب کو صوفی شاہ عنایت سے ذاتی پرخاش بھی تھی۔ کہتے ہیں کہ اعظم خان ایک بار صوفی شاہ عنایت سے ملاقات کے لیے گیا تو فقیروں نے اس کو یہ کہہ کر روک دیا کہ حضرت اور ادو وظائف میں مشغول ہیں۔ جب صوفی صاحب سے ملاقات ہوئی تو اعظم خان نے کہا کہ ” درِ درویش را درباں نہ شاید( درویش کے دروازے پر دربان اچھے نہیں لگتے) صوفی صاحب نے بے تامل جواب دیا کہ ” بہ یک شاید تاسگِ دنیا نہ آید‘‘ (ٹھیک ہے تاکہ دنیا کا کتا اندر نہ آنے پائے) ۔ یہ امر اعظم خان کی ذاتی رنجش کا باعث بن گیا۔
یہ روایت صحیح ہو یا غلط، نواب اعظم نے بہر حال اجتماعی زراعت کی تحریک کو کچلنے کا فیصلہ کرلیا اور چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ اس نے صوفی شاہ عنایت سے وہ واجبات طلب کیے جو ” ممنوعہ سلطانی” تھے۔ صوفی نے جواب دیا کہ جب یہ واجبات کی بادشاہ کی طرف سے معاف ہو چکے ہیں تو آپ کو ان کی وصولی کا کیا حق ہے۔ اس جواب سے نواب تلملا اٹھا۔ اس نے پیش کاروں اور متصدیوں سے مشورہ کرکے بادشاہ کے پاس شکایت لکھ بھیجی کہ صوفی شاہ عنایت اور ان کے فقیر دعوئے سلطنت کررہے ہیں اور خلیفتہ اللہ کا حکم ماننے سے انکاری ہیں 39؎ فرخ سیر نے امرِ واقعی کی تحقیقات کیے بغیر حکم صادر کردیا کہ باغیوں کو بزورِ شمشیر اطاعت پر مجبورکیا جائے۔
مرکز سے اجازت ملتے ہی نواب اعظم خان جھوک پر حملے کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔ اس نے سندھ کے سب ہی رئیسوں کے نام پروانے جاری کیے کہ اپنے اپنے سپاہی لے کر مدد کو آؤ۔
میاں یار محمد کلورہ و سائرزمینداران و جملگی (اعظم خان نے) میاں یار محمد کلہوڑہ ، تمام
اہل و احشام ایں الکہ، کہ با فقرا کینہ کہنہ می زمینداروں اوراس خطے کے ان تمام لوگوں
داشتند، احکامِ اعانت حاصل کردہ با افواج کے نام معاونت کے احکام حاصل کرلیے
برون ازا حاطہ شمار واز مور ملخ بسیار ، کہ از تھے جو فقیروں سے پرانی دشمنی رکھتے تھے
جد سیوی داور تاکنارہ دریائے شور جمع آمدہ یوں ایک ایسی فوج تیارکرکے فقیروں پر حملہ کیا جو شمار نہیں کی جا سکتی تھی اور چیونٹیوں اور ٹڈیوں سے بھی زیادہ تھی اور سبی و ڈھاڈر سے سمندر تک کے علاقے سے جمع کی گئی تھی۔
صوفی شاہ عنایت صلح پسند بزرگ تھے۔ ان کو جب زمینداروں کی مخالفت اور اعظم خان کی فوجی تیاریوں کی خبر ملی تو وہ افسوس کرنے لگے کہ ” میں بازار عشق میں یہ سودا اس لیے تو نہیں لایا تھا اورنہ میں چاہتا تھا کہ اس طرح کا شورو غل بپا ہو کہ داروگیر کا میدان آراستہ ہو جائے”۔ جب دشمن کی فوجوں نے جھوک کا رُخ کیا تو فقیروں نے تجویز پیش کی کہ کیوں ہ ہم ان پر راستے میں حملہ کردیں تاکہ شاہی لشکر کو اپنی صفیں آراستہ کرنے کا موقع نہ ملے اور جھوک محاصرے سے بچ جائے مگر ” شاہِ خدا آگاہ نے پیش دستی کی اجازت نہیں دی‘‘۔
جھوک فقیروں کی پرامن بستی تھی فوجی چھاؤنی نہ تھی۔ فقیروں کے پاس ان کی ” کاغذی” تلواروں کے سوا جن کے دستے لکڑی کے تھے اگر کوئی اسلحہ تھا تو وہ کاٹھ کا ایک زنبورچہ تھا جب کہ دشمن ” تو پہائے پیل کش روئیں‘‘ (ہاتھیوں کو ہلاک کرنے والی لوہے کی توپیں) سے مسلح تھے۔ مگر میاں یار محمد (خدایار خان کلہوڑا والی بھکر) اور میراں سنگھ کھتری ملتانی کے خطوط سے جو میدانِ کارزار سے لکھے گئے تھے اندازہ ہوتا ہے کہ پرانے زمانے کے دستور کے مطابق جھوک کے گرد کچی مٹی کی مضبوط دیواری موجود تھی اور گہری خندق بھی کھدی ہوئی تھی جو پانی سے بھری تھی۔
میاں یار محمد نے جھوک کے محاصرے کے دوران جو خط اپنے بیٹے میاں نور محمد کو فارسی میں لکھا تھا اس سے پتہ چلتا ہے کہ شاہی لشکر 12 اکتو بر 1717ء کو یا اس سے دو چار دن پیش تر دریائے اوتھل سے کوچ کرکے پہنچا اور بستی سے ایک میل کے فاصلے پر مقیم ہوا البتہ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ حملہ آوروں اور فقیروں کی تعداد کیا تھا۔ میران سنگھ کھتری ملتانی کے خط سے پتہ چلتا ہے کہ ” نواب اعظم خان کی جمعیت قلیل تھی‘‘ اور مقابلہ دراصل خدایار خان کی کثیر فوج اور فقیروں ہی میں ہوا۔ وہ لکھتا ہے کہ ” قلعہ مفسد‘‘ کو ایک جانب خدا یار خان نے محاصرہ کیا اور ” بہ آوازِ بندو قہائے برق شرائر و جزائر عد نوائر ہوش ربائے مقہور شدند‘‘ (برق گرانے والی بندوقوں اور رعد کی سی ہوش ربا آواز پیدا کرنے والے جزیروں سے دشمن پر قہر برسانے لگے) اور دوسری طرف نواب اعظم خان نے مورچہ لگایا اور “بہ تیرو خدنگ ہنگامہ آرائی معرکہ جنگ گردیدند (تیروں سے جنگ کا ہنگامہ برپا کیا) میران سنگھ نے اپنے محسن میاں خدا یار خان کی فوجی برتری اور شاہی لشکر کی کمتری کو بڑی ہوشیاری سے واضح کیا ہے۔ فقیروں کی جمعیت کو وہ دس ہزار سوار بتاتا ہے جو سراسر غلط ہے۔ ان کے پاس گھوڑوں کجا اتنے تو آدمی بھی نہ تھے۔ میاں یار محمد نے اپنے خط میں فقیروں کے شب خون مارنے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی تعداد سترہ سو پیادہ تھی” کہ در حقیقت روحِ تمام مفسدان بو”۔ اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ فقیروں کی کل تعداد دو ڈھائی ہزار سے زیادہ نہ تھی اور ان کے پاس آتشیں اسلحہ بالکل نہ تھا۔
شب خون کا واقعہ 12 اکتوبر 1717ء کو اسی رات پیش آیا جس دن شاہی لشکر نے جھوک کا محاصرہ کیا۔ میاں یار محمد لکھتے ہیں کہ:
”اتوار کی رات تھی۔ ہمارا لشکر گھراؤ ڈالے پڑا تھا۔ ابھی ایک پہر رات باقی تھی کہ مفسدوں کے ایک ہزار سات سو پیادے شب خون کے ارادے سے کسی نہ کسی طرح لشکر تک پہنچ گئے اور جوق در جوق کئی جگہوں پر لشکر میں گھس آئے اور بلا خوف و تردد حملے کرنے لگے چنانچہ لشکر کے بہت سے آدمی کام آئے البتہ ہمارے دلیروں نے کشتوں کے پشتے لگا دیے اور گنتی کے چند مفسد ہی اپنی جان جان سلامت لے جا سکے ‘‘۔
” اس شب خون میں ‘اکثرپھوار من جملہ قاسم پسر گہرام اور سید بولہ وکیل ٹھٹھہ و احمد بوبکانی و اودھیجہ قوم کے ہمارے بھائی اور دوسرے زمیندار بھی مارے گئے ‘‘۔
جس وقت یہ حملہ ہوا تو وہ سپاہی جو میاں یار محمد کے خیمے کے گرد پہرے پر مامور تھے ” ادھر اُدھر ہوگئے‘‘ (شاید جان بوجھ کر) مگر خیریت گزری کہ میاں یار محمد کے دو بیٹے میاں داؤد میاں غلام حسین اور بھائی میر محمد بن میاں نصیر محمد موقعہ واردات پر موجود تھے۔ چنانچہ انھوں نے ” غبارِ فتنہ رابآبِ شمشیر فرو نشاند ند” ۔ اس چپقلش میں میاں غلام حسین زخمی ہوئے۔
محاصرے کو دو مہینے گزرگئے مگرشاہی لشکر توپ و تفنگ سے لیس ہونے کے با وصف جھوک پر قبضہ کرنے کی جرات نہ کرسکا۔ اسی اثنا میں صاحبزادہ سید حسین خان اور کئی زمیندار نواب اعظم کے حسبِ پروانہ کمک لے کر جھوک پہنچ گئے لیکن شاید ان ہی دنوں سیلاب آگیا اور”گردِ قلعہ مفسد طغیانی آب بمرتبہ بود کہ از چہار طرف تازہ کردہ نشانِ خشکی نمایاں نمی شد” (صوفی عنایت کے ” قلعے” کے گرد پانی اس کثرت سے تھا کہ چاروں طرف چار پانچ میل تک خشکی کا نشان نظر نہیں آتا تھا) بہرحال صاحبزاد صاحب کی فوج نے کسی نہ کسی طرح پانی عبور کیا اور جھوک کی چہاردیواری کے قریب مورچہ لگایا۔ میاں یار محمد فرزندِ ارجمند کے اس کمالِ بے مثال کی قصیدہ خوانی فرماتے ہوئے یوں گہرافشاں ہیں گویا موصوف نے ہفت خواں فتح کرلیا ہو۔ لکھتے ہیں کہ؛
سپاہ پادشاہی ، فتح یا باں بادشا کی فوج فتح یاب ہے اور
عدواز سوزغم، بس دل کباباں دشمن کا دل شوزِ غم سے کباب ہے
سپاہِ پادشاہی درشکر خند بادشاہ کی فوج مسکرا رہی ہے اور
عدوں چوں غنچہ، دستارازسر افگند دشمن نے کلی کی مانند اپنی پگڑی سر سے اتارپھینکی ہے
سپاہ پادشاہی درشکر خند بادشاہ کی فوج کا دل باغ باغ ہے اور
عدو چوں بوم، درویراں فتادہ دشمن اُلوؤں کی مانند ویرانے میں پڑا ہے
سپاہِ پادشاہی، شادو فیروز بادشاہ کی فوج شاد اور کامیاب ہے
عدو و لشکر ش، ناشاد ودل سوز بادشاہ کی فوج خوش خرم ہے اور
عدو ہر دم بہ غم ہم ارتباط است دشمن ہر لحظہ غم سے دوچار ہے
سپاہ پادشاہی رُوبہ شادی بادشاہ کی فوج کا چہرہ خوشی سے کھلا ہوا ہے
عدو عاجز، بدستِ نامرادی دشمن عاجز و نامراد ہے
سپاہ پادشاہی پرشکوہ است بادشاہ کی فوج پر شکوہ ہے اور
عدواز جانِ خود ہر جاستوہ است دشمن اپنی جان سے تنگ ہے
سپاہِ پادشاہی، دل خروشاں بادشاہ کی فوج دل دہلانے والی ہے اور
عدو چوں مردگاں ، ازلب خموشاں دشمن کے ہونٹ مردوں کی طرح خاموش ہیں
سپاہ پادشاہی، نصرت اندوز بادشاہ کی فوج کا اثاثہ جیت ہے
نشستہ برعدو پیکاں جگردوز وہ دشمن پر سینے میں پیوست ہونے والے تیر کی مانند چڑھی ہوئی ہے۔
آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ صاحب زادہ بلندا قبال عنقریب “آن بدسگالِ لعین” (صوفی شاہ عنایت ) کو قتل کردیں گے یا گرفتار۔
اس بات کو دو مہینے گزر گئے لیکن فقیروں کی قوتِ مقاسمت میں کمی آئی اورنہ شاہی فوج ان کو زیر کرسکی۔ پھر یوں ہوا کہ ایک صبح” خان والا شان اور نواب عالی مکان‘‘ ہاتھیوں پر سوار ہو کر” شیرانہ و دلیرانہ‘‘ جھوک کی چہاردیواری کے قریب آئے اور ” دلیران نبردکیش و دلاورانہ شہامت اندیش” سے کہا کہ ” پہلے تم اس چہارد یواری کو توپ اور بندوق سے دھنیے کی رُوئی کی طرح ہوا میں اُڑا دو پھر ہم فقیروں کے خرمنِ حیات کو تلواروں کی آگ سے جلا کر خاک کردیں گے‘‘۔ مگر اتفاق سے وہاں پر صوفی کا کوئی جاسوس موجود تھا۔ اس نے فقیروں کو دشمن کے اس منصوبے سے آگاہ کردیا لہٰذا یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔
محاصرہ چار مہینے تک جاری رہا۔ فقیروں کے پاس توپیں بندوقیں نہ تھیں لہٰذا اُن کو شب خون مارنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ یہ طریقہ اتنا کار آمد ثابت ہوا کہ میر علی شیر قانع کے بقول ” حملہ آور تباہی کے قریب جا پہنچے تھے‘‘۔
صوفی عنایت نے فقیروں کو ہدایت کردی تھی کہ شب خون نہایت خاموشی سے مارو لیکن ایک رات کسی فقیر نے غلطی سے اسمِ ذات (اللہ) کا نعرہ لگادیا اور دوسرے بھی اس کے شریک ہو گئے جس کی وجہ سے لشکر میں اپنے اور پرائے ظاہر ہو گے اور بیش تر فقرا تلوار کا لقمہ بن گئے‘‘۔
شاہی لشکر میں جاسوسوں کی موجودگی سے اور اس بیان سے کہ نعرہ لگانے کی وجہ سے لشکر میں ” اپنے اور پرائے ظاہر ہو گئے‘‘۔ یہ گمان ہوتا ہے کہ کچھ فقیر خفیہ طورپر دشمن کی فوج میں شامل ہو گئے تھے اور عام لشکریوں کو اپنا ہمدرد بنانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ شاہی لشکر چوں کے بھاڑے کے سپاہی تھے اور جھوک سے ان کو نہ کوئی ذاتی عناد تھا اور نہ ذاتی مفاد وابستہ تھا لہٰذا ان کو نواب اور زمینداروں سے منحرف کرنا چنداں دشوار نہ تھا ۔ ہمارے اس قیاس کو محاصرے کی طوالت اور ناکامی سے مزید تقویت ملتی ہے۔
شب خون میں فقیروں کو شکست سے نقصان ضرور پہنچا مگر ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور وہ دشمن سے بدستور مقابلہ کرتے رہے۔ آخرکار جب فقیروں پر فتح پانے کا کوئی امکان نہ رہا تو دشمن نے دغا و فریب سے کام لیا اور 1 جنوری 1718ء کو صوفی شاہ عنایت کے سامنے صلح کی تجویز پیش کی گئی۔ ” میاں خدا یار کلہوڑا کا بیٹا محمد خان اور شہداد بلوچ وغیرہ سالارانِ فوج نے قرآن کو درمیان میں رکھ کر عہد کیا کہ فقیروں کی جان و مال کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا ۔‘‘ صوفی شاہ عنایت کے بعض رفقا نے ان کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ یہ قسمیں اور عہدو پیمان دشمن کی چالیں ہیں۔ ان کے دھوکے میں نہ آئیے اور مقابلہ جاری رکھیے مگر خدا پرست صوفی قرآن کی قسم پر کیسے شک کرسکتا تھا چنانچہ انھوں نے صلح کی تجویز منظورکرلی۔ جھوک کا پھاٹک کھول دیا گیا اور شاہی فوج نے بستی پر بلا کسی مزاحمت یا خوں ریزی کے قبضہ کرلیا۔ بعد ازاں صوفی شاہ عنایت کو بڑے احترام کے ساتھ نواب اعظم خان کے خیمے میں صلح نامے پر دستخط کرنے کے بہانے لایا گیا لیکن وہاں پہنچتے ہیں گرفتار کرکے ہتھکڑیاں، بیڑیاں پہنا دی گئیں۔
تب شاہی انتقام کی آگ نے جھوک کا رُخ کیا اور فقیروں کا قتلِ عام شروع ہوا۔ ان کے گھر جلا دیے گئے ۔ ان کا اثاثہ لوٹ لیا گیا اور بستی کی چہار دیواری مسمار کردی گئی۔ جھوک کی اجتماعی کھیتی سیلابِ خون میں ڈوب گئی۔ نہ بیج بونے والے بچے نہ فصل کاٹنے والے۔
جھوک کو نیست و نابود کرنے کے بعد نواب اعظم خان ٹھٹھہ واپس آیا اور صوفی شاہ عنایت دربارمیں طلب کیے گئے۔ میرعلی شیرقانع راوی ہیں کہ صوبے داری اور صوفی کے مابین دربار میں جو سوال و جواب ہوا وہ ” طوفانی داستان‘‘ ہے۔ مختصر یہ کہ نواب نے جتنے سوال کیے صوفی شاہ عنایت نے ان کے جواب خواجہ حافظ شیرازی کی زبان میں دئیے۔
نواب اعظم خان: بتاؤ تم نے یہ شورش کیوں برپا کی؟
صوفی شاہ عنایت :
آں روز کہ تو سنِ فلک ذیں کردند آرائش مشتری زپردیں کردند
ایں بود نصیب ماز دیوانِ قضا ماراچہ گنہ، قسمت ماایں گردند
جس دن خدا نے آسمان کو گردش کا حکم دیا اور مشتری ستارے کو سات چھوٹے ستاروں کی جھرمٹ سے آراستہ کیا خدا کی عدالت سے میرا یہی نصیب مقرر ہوا تھا اس میں میرا کیا قصور، میری قسمت ہی میں یہ لکھا تھا۔
شیخ محمد رضا شاعر نے جو اعظم خان کے پاس بیٹھا تھا کہ کہ ؛
دوست بیدار، بشو، عالم خواب است اینجا دوست عالمِ خواب سے جاگ جاؤ
حرفِ بیہودہ مگوپاء حساب است اینجا بیہودہ باتیں مت کرو کہ یہ تمھارا وقتِ حساب ہے
صوفی شاہ عنایت:
درکوئے نیک نامی مارا گذرنہ دادند مجھ کو نیک نامی کے کوچے میں گھسنے نہیں دیا گیا
گر تو نمی پسندی، تغیر کن قضارا تجھ کو اگرپسند نہیں تو حکمِ خداوندی کو بدل دے
اعظم خان: پھر تو مصیبت کے لیے تیار ہو جاؤ۔
شاہ عنایت: البلاء للولاء کا للہب للذہب
اعظم خان: تم نے اپنے آپ کو کیوں بدنام کیا اور مصیبت کا شکار ہوئے۔
شاہ عنایت:
ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شدزِ عشق وہ شخص جس کا دل عشق سے زندہ ہے کبھی نہیں مرتا
ثبت است بر جریدہ عالم دوامِ ما ہماری ابدیت کی مہر دفترِ کائنات پر لگی ہوئی ہے
اعظم خان : حاکم وقت کی اطاعت کیوں ترک کی؟
شاہ عنایت:
مامریداں رُوبہ سوئے کعبہ چوں آریم چوں ہم مرید اپنا منہ کعبے کی طرف کیسے کریں
روبہ سوئے خانہ خمار دارد پیرما جب کہ ہمارے پیر کا منھ مے خانے کی طرف ہے
اعظم خان: اب اپنی خواہشوں کا ناکام ہونے کا غم کیوں کرتے ہو۔
شاہ عنایت:
من ازاں دم کہ وضو سا ختم از چشمہ عشق میں نے جس وقت عشق کے چشمے پر وضو کیا
چار تکبیر زدم یکسرہ برہرچہ کہ ہست اسی وقت ہستی کی ہرشے کو سات سلام کرلیا
اعظم خان نے جب دیکھا کہ یہ شخص مجھ سے نہ ڈرتا ہے نہ اپنے کیے پہ نادم ہوتا ہے اورنہ جان بخشی کی التجا کرتا ہے تو اس نے حکم دیا کہ گستاخ صوفی کو قید میں ڈال دو۔ شاہ عنایت نے چلتے چلتے یہ شعرپڑھا کہ؎
ساقیا برخیزدر د ہ جام را
خاک برسرکن عمِ ایاّم را
7 جنوری 1718ء مطابق 15صفر 1130ھ کو صوبے دار اعظم خان کے حکم سے صوفی شاہ عنایت کا سرقلم کردیا گیا۔ وہ آخری وقت میں یہ شعر پڑھ رہے تھے۔
رہا یندی مرا از قید ہستی
جز ایک اللہ فی الدارین خیرا
صوفی شاہ عنایت شہید ہو گئے۔ بے شمار فقیر تہ تیغ کردئیے گئے اورجھوک کی بستی بربا دہوگئی پھر بھی اربابِ اقتدار کے خوف وہراس کا یہ عالم تھا کہ وہ فقیروں کے نام سے لرزتے تھے چنانچہ اعظم خان نے منادی کروا دی تھی کہ اگرکسی کی زبان سے لفظ “اللہ (جو فقیروں کا اسمِ تکبیر تھا) بلند آواز سے نکلے تو اس کا سر تلوار سے قلم کردیا جائے۔ اس حکم پر تبصرہ کرتے ہوئے میر علی شیر قانع لکھتے ہیں کہ ” سبحان اللہ! خدائی است کہ بہ عوض نام گرفتن خود سرمی کرد بلے عشق بازاں را ہمیں سر راہ است (سبحان اللہ کیا خدائی ہے کہ خود اس کا نام لینے پر سر قلم ہوتے تھے لیکن عاشقوں کا یہی راستہ ہے)۔
ہم نہیں کہہ سکتے کہ اعظم خان اور صوفی شاہ عنایت کے درمیان مکالمے کی داستان کسی معتبر شہادت پر مبنی ہے یا صوفی شہید کے کسی خوش مذاق مداح کی پروازِ تخیل کی تخلیق ہے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صوفی شاہ عنایت آخر وقت تک اپنے اصولِ زیست پر قائم رہے۔ ان کے پانے استقلال میں ایک لمحے کے لیے بھی لغزش نہیں ہوئی۔
تحفتہ الکریم کے بیان کے مطابق میاں یار محمد کلہوڑا کو ” اعلیٰ خدمات کے عوض شماداتی اور چاچکاں کے علاقے سے لکری، دندا، حجام، دورنک، رجب، پسر، پاچاتہ، ٹھور اور دیہ سائیں ڈنہ کے موضعے بطور انعام عطا ہوئے۔ اس طرح وادی سندھ میں اجتماعی زراعت اور منصفانہ تقسیم دولت کا پہلا تجربہ انجام کو پہنچا۔
صوفی شاہ عنایت نے فیوڈلزم کے دور میں اجتماعی زراعت یعنی سوشلسٹ طریقہ پیداوار اور طریقہ تقسیم کو رواج دینے کی کوشش کی تھی۔
ان کایہ اقدام لاکھ لائق تحسین و تعریف سہی اوران کی اوران کے رفقا کی قربانیاں لاکھ لائقِ احترام مگر معاشرتی ارتقا کے قانون پر کسی کا اختیار نہیں ہے۔ کوئی شخص خواہ وہ کتنا ی بڑا انقلابی کیوں نہ ہو اور خدمتِ خلق کے جذبے سے کتنا ہی سرشار کیوں نہ ہو اس قانون پر سبقت نہیں لے جا سکتا۔ صوفی شاہ عنایت کی خواہش بڑی نیک تھی لیکن تقدیریں فقط خواہشوں سے نہیں بدلتیں۔ان کا خواب بہت خوش آئیند تھا لیکن وہ یہ خواب کم از کم دو صدی پہلے دیکھ رہے تھے جب کہ اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے نہ معروضاتی خیالات موجود تھے نہ موضوعی حالات موزوں تھے۔ نہ پیداواری قوتوں نے اتنی ترقی کی تھی کہ فیوڈل ازم کا خاتمہ ناگزیر ہو جاتا اور نہ محنت کشوں میں جن کا منصب سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہے اپنے تاریخی کردار کا شعور پیدا ہوا تھا ( یہ شعور آج بھی نہیں ہے) اٹھارویں صدی کا محنت کش طبقہ سندھ میں یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ نوابوں جاگیرداروں کے ہاتھوں سے سیاسی طاقت چھین کر خود برسرِ اقتدار آجانا چاہیے۔ (اہلِ جھوک نے تو کبھی ٹھٹھہ پر قبضہ کرنے کے بارے میں بھی غور نہ کیا چہ جائیکہ سندھ پر) ایسی صورت میں صوفی شاہ عنایت کے تجربے کو لازماً ناکام ہونا تھا سو ہوا البتہ بیرونی قوتوں کی چال بازیوں سے نہ کہ اندرونی خرابیوں کی وجہ سے۔
صوفی شاہ عنایت کو اپنے تجربے کی تاریخی اہمیت کا احساس نہ تھا اورنہ ان کو اس بات کا اندازہ تھا کہ اجتماعی کھیتی کی تحریک زمینداروں کے حق یں کتنی مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ بہ ظاہر یہ تحریک کسی چھوٹے سے تالاب کے بند پانی میں ایک کنکری کی موجوں سے زیادہ نہ تھی مگر صوفی اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ ان لہروں میں طوفانی موجوں کی توانائی پوشیدہ ہے جو ابھر کر پوری جاگیرداری نظام کو خس و خشاک کی طرح بہا لے جانے کی قدرت رکھتی ہے۔ اُن میں عوام کی مسلح جدو جہد کی قیادت صلاحیت بھی نہ تھی۔ مثلاً فقیروں نے جب مشورہ دیا کہ نواب کی فوج پر راستے ہی میں بڑھ کر حملہ کردیا جائے تاکہ دشمن کو صف بندی کرنے اور جھوک کو گھیر لینے کا موقع نہ ملے تو صوفی شاہ عنایت نے پیش دستی سے انکار کردیا اور دفاعی مقابلے ہی پر اکتفا کیا۔ اس طرح لڑائی چھڑنے سے پہلے ہی لڑائی کا فیصلہ ہوگیا کیوں کہ دفاعی جنگ عموماً شکست کی تمہید ہوتی ہے۔ (یہی غلطی 1857ء) دہلی کے قلعہ بند لشکر نے بھی کی اور انگریزوں کو موقع دے دیا کہ وہ پنجاب اور دوسرے مقامات سے فوجیں اور سامانِ رسد لے جا کر دہلی پر حملہ کرسکیں۔) انھوں نے حصار بند ہو کر دشمن کو کھلی چھٹی دے دی اور اپنا ناتہ سندھ کے عوام سے توڑلیا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے کسان فقیروں کی سرفروشانہ جدو جہد کو اپنی جدو جہد نہ سمجھ سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جھوک کے ففیروں کو یہ جنگ تنہا لڑنی پڑی۔ سندھ میں ان کا کوئی حامی و مدد گار نہ پیدا ہوا۔ اور فقیروں کی یہ جنگ ایک وقتی اور مقامی سانحے سے زیادہ اہمیت نہ اختیار کرسکی۔
یہ محاکمہ اپنی جگہ لیکن صوفی شاہ عنایت کا یہی تاریخی کارنامہ کیا کم ہے کہ انھوں نے اجتماعی کھیتی کا کامیاب تجربہ کرکے ثابت کردیا کہ زمیندار اور جاگیردار حائل نہ ہوں تو کھیتی باڑی زیادہ خوش اسلوبی سے ہو سکتی ہے اور رقابت و دشمنی کے بجائے یگانگت اور امدادِ باہمی کے جذبات فروغ پا تے ہیں اور یہ بھی واضح ہوگیا کہ ریاست کی قوتِ قاہرہ حق و انصاف کی حمایت کرنے کے بجائے اب تک ہمیشہ عوام کے خلاف اورنچے طبقوں کے مفاد کی حمایت کرتی رہی ہے۔ افسوس اس کا ہے کہ تاریخ کی درسی کتابوں میں محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں کا ذکر تو بڑی شدو مد سے کیا جاتا ہے لیکن ہماری نئی نسل صوفی شاہ عنایت شہید کے نام سے بھی واقف نہیں۔
سید سبط حسن نامور ترقی پسند دانشور، صحافی اور ادیب تھے ۔انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور وہ پیام، نیا ادب اور نیشنل ہیرالڈ جیسے رسالوں اور اخبار سے وابستہ رہے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ لاہور میں اقامت پزیر ہوئے جہاں انہوں نے 1957ء میں میاں افتخار الدین کے اہتمام میں ہفت روزہ لیل و نہار جاری کیا۔ جب میاں افتخار الدین کے ادارے کو صدر ایوب خان کی حکومت نے جبری طور پر قومی تحویل میں لیا تو سبط حسن لیل و نہار کی ادارت سے مستعفی ہو گئے اور 1965ء میں کراچی منتقل ہو گئے۔ کراچی میں انہوں نے اپنا زیادہ تر وقت تصنیف و تالیف میں بسر کیا اور اس دوران ماضی کے مزار، موسیٰ سے مارکس تک، پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء، انقلاب ایران، کارل مارکس اور نوید فکر جیسی خالص علمی اور فکری تصانیف پیش کیں۔ 1975ء میں انہوں نے کراچی سے پاکستانی ادب کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا۔
اگست 1985ء میں لندن میں، مارچ 1986ء میں کراچی میں اور اپریل 1986ء میں لکھنؤ میں ترقی پسند تحریک کی گولڈن جوبلی منائی گئی تو سید سبط حسن نے ان تینوں تقریبات میں فعال کردار ادا کیا۔جواب دیں جواب منسوخ کریں
منصور ہویا سرمد ہو صنم ، یا شمس الحق تبریزی ہو
اس تیری گلی میں اے دلبر ہر ایک کا سرقربان ہوا
سَچّل سرمستؔ
وادیِ سندھ ہمارے ماضی کی امین اور مستقبل کی نوید ہے۔ برصغیر کی سب سے قدیم تہذیب کا مولدو مرقد یہی علاقہ ہے جس نے گزشتہ تین چار ہزار سال کی تاریخ میں بڑے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں اور ان گنت قوموں اور مذہبوں کی جولاں گاہ رہا ہے۔ شکتی وادی مسلک کے پابند دراوڑ، ویدک دھرم پر چلنے والے آریا، حکیم زرتشت کے ماننے والے ایرانی، زیوس اور اپالو کے پرستار یونانی، بدھ مت کے پیرو ہن اور کشن اور اسلام کے معتقد عرب، ایرانی، ترک اور افغان سب نے یکے بعد دیگرے اپنی اپنی تہذیبوں کے حسین امتزاج سے۔
مگرایک وقت وہ بھی آیا جب معاشرہ ماضی کی دلدل میں پھنس کر آگے بڑھنے کی صلاحیتیں کھو بیٹھا اور تب ڈھائی پونے تین سو برس گزرے ایک مردِ مجاہد نے اجتماعی طرزِ معیشت کی طرح ڈال کر ہم کو آگے بڑھنے کی راہ دکھائی۔ اُس نے اِس خزاں گزیدہ دیار میں “گلشنِ نا آفریدہ‘‘ کا خواب دیکھا اوراپنے قبل از وقت سنہرے خواب کی تعبیر کے صلے میں شہادت پائی۔ اس نیک نیت بزرگ کا نام شاہ عنایت اللہ تھا۔ جھوک کی بستی میں جو شہر ٹھٹھہ سے 35 میل کے فاصلے پر واقع ہے ان کا مزار آج بھی زیارت گاہِ خاص و عام ہے اور لوگ دُور دُور سے آکر ان کی قبرپر عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں لیکن شاہ عنایت کی شہادت کے اسباب و محرکات کا علم بہت کم لوگوں کو ہے۔
شاہ عنایت کا سنِ ولادت معلوم نہیں لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ سترھویں صدی عیسوی میں شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ٹھٹھہ کے ایک خدار سیدہ خاندان میں پیدا ہوے۔ ان کے جدِ علیٰ مخدوم صدھولا نگاہ موضع نصریہ پرگنہ بٹھورہ ضلع ٹھٹھہ کے رہنے والے تھے۔ وہ ایران توران سے نہیں آئے تھے بلکہ یہیں کی خاک سے اٹھے تھے لنگاہ قو م سے تعلق رکھتے تھے۔
شاہ عنایت کے والد مخدوم فضل اللہ ” بے رِیا درویش ‘‘ تھے۔ میر علی شیر قانع شاہ عنایت کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں خاموش ہیں لیکن لکھتے ہیں کہ ” پیرِ حق شناس، بنیاد شریعت، مرشدوں کے مرشد، ولی زمانہ، مقبولِ بارگاہِ الہیٰ شاہ عنایت اللہ صوفی نے ابتدا میں جستجوئے حق کے لیے بڑی سیرو سیاحت کی اور کافی مدت کے بعد دکن میں جا کر شاہ عبدالملک سے ملاقات کی‘‘۔ ان کی صحبت سے فیض یاب ہونے کے بعد شاہ عنایت نے دہلی کا رخ کیا اور وہاں ایک بزرگ شاہ غلام محمد سے علومِ ظاہری حاصل کیے۔ مگر استاد پر شاگرد کی شخصیت کا اتنا اثر ہوا کہ وہ شاہ عنایت کے ہمراہ ٹھٹھہ چلے آئے۔ شاہ غلام محمد کو شریعت سے طریقت کی راہ زیادہ عزیز تھی لہٰذا ” ٹھٹھے کے علما نے انہیں تعزیر کے لیے شرعی عدالت میں پیش کردیا” کیوں کہ اہل اللہ کو علما سے ہمیشہ اذیتیں پہنچتی ہیں۔‘‘ شاہ عنایت نے شاہ غلام محمد کو دہلی لوٹ جانے کا مشورہ دیا چنانچہ وہ دہلی واپس چلے گئے اور شاہ عنایت نے جھوک میں سکونت اختیار کرلی۔
شاہ عنایت نے جب ہوش سنبھالا تو سلطنت ِ مغلیہ کا آفتاب بڑی تیزی سے مائل بہ زوال تھا۔ اورنگ زیب نے اگرچہ اکبر اعظم کی مانند پچاس برس حکومت کی لیکن اس کی سلطنت کو عہدِ اکبری کا سا امن و استحکام کبھی نصیب نہ ہوا۔ شہنشاہ کا ابتدائی زمانہ باپ اور بھائیوں کو راہ ہٹانے میں گزرا۔ پھر دکن کی مہمیں شروع ہو گئیں۔ اُدھر مرہٹوں، راجپوتوں اور سکھوں نے شورش برپا کی اور جا بجا بغاوتیں ہونے لگیں۔ مرکز کی گرفت کمزور ہوئی تو جاگیری نظام کی تباہ کاریوں نے اپنا رنگ دکھایا۔ ایسی حالت میں سندھ جیسے دُور افتادہ علاقے کا کون پر سانِ حال ہوتا۔ صوبے کا نظم و نسق درہم برہم ہوگیا۔ جاگیرداروں کی بن آئی اور ہر طرف لوٹ مارکا بازار گرم ہوگیا۔
سندھ اُن دنوں دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔
بالائی سندھ جس کا صدر مقام بھکر (سکھر) تھا اور زیریں سندھ جس کا صدر مقام ٹھٹھہ تھا۔ بالائی سندھ کی حیثیت صوبہ ملتان کی چوتھی سرکار کی تھی اور وہاں کا حاکم ملتان کے صوبے دار کے تابع ہوتا تھا۔ وہاں 1574ء اور 1679ء یعنی 105 برس میں پچاس حاکم مقرر ہوئے۔ ان کی مدت ملازمت کا اوسط فی کس دو سال ہوتا ہے۔ اورنگزیب کے عہد میں سلطنت کے ضعف اور سیاسی ابتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1679ء میں فوجی مہموں کی ناکامی کے بعد بالائی سندھ کا علاقہ کلہوڑا سردار میاں یار محمد کے حوالے کردیا گیا اور پھر وہاں کوئی مغل حاکم نہیں آیا۔
زیریں سندھ جہاں مرزا جانی بیگ ترخان کی خود مختار حکومت تھی 1599ء میں اکبر کے حکم سے فتح ہوا تھا مگر دُور اندیش شہنشاہ نے مرزا جانی بیگ سے عہدِ وفاداری لے کر ریاست اس کو واپس کردی تھی۔ مرزا جانی بیگ کی وفات کے بعد اس کا بیٹا مرزا عیسٰی خان ترخان سندھ کی باج گذار ریاست کا مالک تسلیم کرلیا گیا لیکن اس کی وفات کے بعد جہانگیر نے سندھ کو 1614ء میں الگ صوبہ بنا دیا۔
ٹھٹھہ میں 1614ء اور 1732ء (118سال) کے درمیان 67 صوبے دار آئے اور گئے۔ ان کی مدتِ ملازمت کا اوسط ڈیڑھ سال ہوتا ہے۔ بعضوں نے تو دہلی سے ٹھٹھہ آنے کی تکلیف بھی گوارا نہ کی بلکہ اپنے نائب بھیج دیے۔ لاہری بندر کو جو وادیِ سندھ کی واحد بڑی بندرگاہ تھی خالصہ کی ملکیت قرار دے دیا گیا لہٰذا صوبے کی آمدنی گھٹ گئی اور سیاسی اہمیت بھی کم ہو گئی۔ چنانچہ عموماً کم رتبے کے منصب داروں کو ٹھٹھہ کا صوبے دار مقرر کیا جاتھا بلکہ بعض اوقات سیوستان یا بھکر کے کسی فوجدار کو صوبے دار بنا کر ٹھٹھہ بھیج دیا جاتا تھا۔ آخرش صوبہ ٹھٹھہ کا بھی وہی حشر ہوا جو بھکر کا ہوا تھا۔
1732ء میں نواب امیر خان کو پوا صوبہ بطورجاگیر عطا ہوا۔ انھوں نے اس دولت خدادا کو ایک شخص دلیر خان ولد دلیر دلبر خان کو اجارے (ٹھیکے) پر دے دیا اور جب دلیر خان مرگیا تو صادق علی خان کو مستاجر بنا دیا۔ ان موصوف کو اجارے میں ” گھاٹا” ہوا لہٰذا انھوں نے زیریں سندھ کو 1738ء میں خدا یار خان کلہوڑا (نور محمد خان) کے سپرد کردیا۔
ٹھٹھے کا صوبہ چار سرکاروں پر مشتمل تھا۔ ٹھٹھہ ، نصرپور، چاچکاں اور چاکر ہالا۔ صوبے کے حاکم اعلیٰ کو ناظم کہتے تھے۔ سرکار کا حاکم فوجدار اور پرگنے کا حاکم شقہ دار کہلاتا تھا۔ ان کے علاوہ نظم ونسق کے فرائض کی ادائیگی کے لیے دیوان، بخشی، عامل، وقائع نویس، قاضی، محتسب، صدر، مقدم، قانون گو، پٹواری، متصدی، کارکن، سجاول اور ارباب متعین تھے۔ وقائع نویس مرکزی حکومت کا نمائندہ ہوتا تھا۔ اس کا کام مرکز کو علاقے کے نظم و نسق کی خفیہ رپورٹیں بھیجنا ہوتا تھا البتہ یہ پتہ نہیں چلتا بقیہ عہدے داروں کا تقرر بھی مرکز کرتا تھا یا وہ صوبیدار کے نامزد کردہ ہوتے تھے۔
بہرحال قریب قریب سبھی عہدے ترکوں اور ایرانیوں کے لیے مخصوص تھے خواہ وہ براہِ راست دہلی سےآتے یا سندھ میں بسے ہوئے پرانے ترک، ایرانی یا عرب خاندانوں کے افراد ہوتے۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ مقامی باشندے فارسی زبان سے جو سلطنت کی سرکاری زبان تھی شاذو نادر ہی واقف ہوتے تھے۔
زرعی نظام کا اِرتقاء
یہاں کے قدیم سیاسی نظریوں کے مطابق زمین کاشت کاروں کی مشترکہ یا ذاتی ملکیت تسلیم کی جاتی تھی، ریاست کی ملکیت نہیں ہوتی تھی۔ البتہ کاشت کاروں کو پیداوار کا ایک مقررہ حصہ ریاست کے حوالے کرنا پڑتا تھا۔ پیداواری عمل میں گاؤں والے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ واجبات کی وصولی اور ادائیگی گاؤں کے مکھیا کی ذمے داری ہوتی تھی۔
مسلمانوں کے عہد میں (712۔1843ء) سندھ میں یکے بعد دیگرے گیارہ مختلف خاندان برسر اقتدار آئے۔ ان میں سومرا، کلہوڑا اور تالپور خاص مقامی لوگ تھے لیکن نسلی تفاخر کا رحجان ہمارے پڑھے لکھے طبقوں میں چھوت کی بیماری کی طرح پھیلا ہوا ہے ہم کو اس سرزمین سے رشتہ جوڑتے بری شرم محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ ہر شخص یہی کوشش کرتا ہے کہ اپنا نسلی رشتہ عرب، عراق، ایران، ترکستان سے جوڑے اور یہ ثابت کرے کہ ہمارے اجداد باہر سے آئے تھے۔ کوئی شخص یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اس کے پرکھے یہیں کے رہنے والے تھے جو مسلمان ہو گئے تھے۔ افسوس ہے کہ ہمارے مورخین بھی اس مرض سے محفوظ نہ رہ سکے۔ مثلاً مولانا غلام رسول مہر نے ” تاریخِ سندھ عہدِ کلہوڑا” میں 35 صفحے یہ ثابت کرنے میں صرف کیے ہیں کہ کلہوڑا عباسی ہیں؎۔
اسی طرح مولانا اعجاز الحق قدوسی نے تاریخ معصومی ، تاریخ طاہری، مولانا سید سلیمان ندوی، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اور انگریز مورخین کی تمام دلیلوں کو رد کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ” سومرا عرب تھے جو ہندوستان میں آباد ہو گئے تھے”۔ حالانکہ سومرا، سمہ اور کلہوڑا خاندان کے بانیوں کے نام اوران کے قبیلہ داری رسم و رواج ہی ان کے سندھی الاصل ہونے کی ناقابلِ تردید شہادت پیش کرتے ہیں۔ مثلاً بھونگر، دودا، سانگھڑ، پاتھو، گھنرا، چنیسر، گھچن، بہیل وغیرہ۔
مقامی خاندانوں کے دور میں حاکم اور محکوم کا فرق اگرچہ موجود تھا مگر خلیج اتنی وسیع نہیں تھی جتنی غیر ملکی حکمرانوں کے عہد میں ہوئی۔ سومرا ہوں یا سمہ، کلہوڑا اور تالپور ان کا رہن سہن، ان کے رسم و رواج ، ان کی زبان اور تہذیبی قدریں عام باشندوں سے مختلف نہ تھیں لہٰذا رعایا کو بے گانگی کا چنداں احساس نہ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے عہد میں سندھ کی دولت سندھ ہی میں رہتی تھی اور عام لوگوں کو بھی اس سے براہِ راست یا بالواسطہ طور پر مستفید ہونے کا موقع مل جاتا تھ۔ خراج کی شکل میں دمشق، بغداد، غزنی یا دہلی نہیں منتقل ہوتی تھی۔
مثلاً ہیر وڈوٹس لکھتا ہے کہ;
داریوش اعظم کے دور میں سندھ کا صوبہ ایران کو سونے کے 231 من ذرات بطور خراج بھیجتا تھا6؎ اسی طرح خلافتِ بنی امیہ اور بنی عباس کی محکومی میں سندھ کو ہر سال 15 لاکھ درہم خراج ادا کرنے ہوتے تھے۔ تیسری بات یہ ہے کہ ملکی حکومتوں کے زمانے مین سرکاری ملازمتیں مقامی لوگوں کو ملتی تھیں۔ صوبے دار اور شقہ دار باہر سے آکر ان پر مسلط نہیں ہوتے تھے اور نہ فوج کے سالار اور سپاہی غیر سندھی ہوتے تھے۔
ہباری قریش، ارغون اور ترخان ہر چند کے باہر سے آئے تھے لیکن انھوں نے سندھ میں مستقل بودوباش اختیار کرلی تھی۔ شادی بیاہ بھی مقامی خاندانوں میں کرنے لگے تھے اور انھیں میں گھل مل گئے تھے۔ اس کے برعکس سلاطینِ مغلیہ کے عہد میں سندھ کی حیثیت بالکل مفتوحہ علاقے کی تھی۔ تمام ذمہ دار عہدے ترکوں اور ایرانیوں کو سونپے جاتے تھے اور ان کو ہر طرح کی مراعات حاصل تھیں جب کہ سندھ کے حقیقی باشندوں کو صوبے کے نظم و نسق پر کوئی اختیار نہ تھا۔
سندھی اور غیر سندھی خاندانوں کے دورِ حکومت کے اس فرق کے باوجود انگریزوں کی آمد (1843ء) سے پیش تر یہاں کے معاشرے میں ہزار برس کی طویل مدت کے دوران کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوئی۔ حکومتیں بدلتی رہیں لیکن طرزِ حکومت قریب قریب یکساں رہا۔ نہ قبیلہ داری نظام بدلا اور نہ ذرائع پیداوار اور پیداواری رشتوں میں کوئی فرق آیا۔ جو آلات و اوزار گوتم بدھ کے زمانے میں استعمال ہوتے تھے وہی مغلوں کے زمانے میں بھی بدستور استعمال ہوتے رہے۔
حکومتیں آتی رہیں جاتی رہیں مگر دیہات کی زندگی پرانی ڈگر پر چلتی رہی۔ غور سے دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ خالص سندھی حکومتوں کے عہد میں بھی سرکار دربار کی ساری فضا ایرانی تھی۔ دربار میں فارسی بولی جاتی تھی، سرکاری دفتروں کی زبان فارسی تھی، خط و کتابت فارسی مین ہوتی تھی، شعر فارسی میں کہے جاتے تھے، کتابیں فارسی میں لکھی جاتی تھیں، مکتبوں اور مدرسوں میں ذریعہ تعلیم فارسی تھا اور جو خاندان ایران، عراق، ترکستان اور افغانستان سے بھاگ کر یہاں آتے تھے ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا تھا۔ ان کو ملازمتیں اور زمینیں آسانی سے مل جاتی تھیں۔ سندھ میں پیروں اور سیدوں کی فراوانی اہلِ سندھ کی اسی فراخ دلی اور مہمان نوازی کی مرہونِ منت ہے۔
اسلام کی رُو سے زمین کا مالک اللہ ہے لیکن سلف میں زمین اسی شخص کی ملکیت سمجھی جاتی تھی جو اس کو جوتتا تھا۔ مزارعوں یا ہاریوں کے ذریعے کھیتی باڑی کی اجازت نہ تھی۔
چنانچہ ڈاکٹر ضیا الحق نے اپنی محققانہ تصنیف Landlord and Peasant in Early Islam میں اس مسئلے پر بڑی تفصیل سے لکھا ہے اور احادیث کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ آنحضرتؐ نے مزارعت یعنی زمین کو بٹائی پر دینے کی ممانعت فرما دی تھی۔ (ڈاکٹر صاحب کی رائے میں فقط وہ حدیثیں معتبر ہیں جن میں مزارعت کی ممانعت کی گئی ہے اور جن حدیثوں میں مزارعت کی اجازت کا ذکر ہے وہ عباسی دور کی الحاقی اور وضعی حدیثیں ہیں) امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں کاشت کاروں کے حقِ ملکیت کو تسلیم کیا ہے۔
اسلامی مملکتوں میں جاگیری نظام کو سب سے پہلے خلفائے بنی امیہ نے رواج پایا۔ انھوں نے ساسانی اور بازنطینی شہنشاہوں کی مانند زمین کے بڑے بڑے قطعات اپنے خاندان کے افراد اور دوسرے متوسلین کو انعام یا وظیفے کے طورپر سونپ دیے۔8؎ اس طرزِ انتقال کو ” اقطاع” کہتے ہیں۔ “اقطاع” نے سندھ میں بھی بنی امیہ ہی کے زمانے میں اس وقت رواج پایا جب عرب خاندان یہاں آآکر آباد ہونے لگے۔ عباسی خلیفہ المتوکل کے عہد میں (847ء۔861ء) جب فو ج کی ازسرِ نو تنظیم ہوئی تو فوجی کمانداروں کو اقطاع کی زمینیں ان علاقوں میں عطا کی گئیں جہاں وہ نظم و نسق کے سلسلے میں متعین ہوتے تھے۔ 9؎ اقطاع کی یہ نئی شکل تھی کیوں کہ اب تک زمینیں سرکاری عہدیداروں کو فوجی یا انتظامی اخراجات کی کفالت کے لیے یا نقدی مشاہرے کے عوض بھی ملنے لگیں۔
سلاطینِ دہلی کے عہد میں اقطاع کی ابتدا سلطان التمش ( 1210ء۔ 1236ء) نے کی۔10؎ اس کے جانشینوں نے بھی اس کی تقلید کی چنانچہ بلبن نے دہلی کو سرکش میواتیوں سے محفوظ رکھنے کی غرض سے دارالسلطنت کے نواح اور دوآبے میں اقطاع کی آراضیاں دو ہزار پٹھان لشکریوں میں تقسیم کردیں۔ مگر سلطان علاؤالدین خلجی نے جو تخت نشینی سے پہلے کڑا الہٰ آباد کا مقطیع رہ چکا تھا ، لشکریوں کو زمینیں دینے کا طریقہ بند کردیا اور تنخواہیں نقد ادا کرنے کا سلسلہ شروع کیا لیکن فیروز تغلق نے پرانی روایت پھر تازہ کردی۔ اس نے عین الملک کو ملتان کا صوبہ، ملک بیر خان افغان کو بہار کا صوبہ اور ملک افغان خان کو روہیلکھنڈ بطور اقطاع دے دیا۔ لودھیوں کے عہد میں اقطاع میں مزید اضافہ ہوا۔ اقطاع کے عوض مقطیعوں کا فرض تھا کہ وہ اپنے علاقوں میں امن و امان کے تحفظ کے لیے فوج رکھیں اور سلطان کی طلبی پر لشکر سمیت حاضر ہوں، چنانچہ جمال خان لودھی جاگیردار جونپور کے پاس 20 ہزار لشکری تھے۔ تاتار خان جاگیردار پنجاب کے پاس پندرہ ہزار اور اعظم ہمایونی سرونی جاگیردار الہ آباد کے پاس 45 ہزار سوار اور سات سو ہاتھی تھے۔
اقطاع کا سلسلہ اتنا بڑھا کہ برے جاگیر دار اپنی جاگیروں میں چھوٹے چھوٹے جاگیردار مقرر کرنے لگے۔ مثلاً اعظم ہمایوں سروانی نے سیف خان کو چھ ہزاری، دولت خان کو چار ہزاری اور فیروز خان کو چھ ہزاری جاگیردار بنا دیالیکن اسلام شاہ سوری (1545ء۔1553ء) نے بڑے جاگیر داروں کا زور توڑنے کی غرض سے ” جمع ولایت راخالصہ ساختہ‘‘ (بدایونی) یعنی پوری مملکت کو شاہی ملکیت قرار دے دیا اور نقدی ادائیگی کو دوبارہ رائج کرنے کی کوشش کی مگرناکام رہا۔ اس کے عہد میں ” منصب داری ‘‘کی ابتدا ہوئی۔ یہ خالص فوجی عہدہ تھا اور پچاس تا 20 ہزار سپاہیوں کے سردار کو خزانے سے نقد ادائیگی ہوتی تھی جاگیر نہیں دی جاتی تھی۔ (یہی وہ افغان جاگیردار منصب دار تھے جو پہلے بابر اور ہمایوں کے خلاف اور پھر اکبر کے خلاف صف آرا ہوئے تھے اور جن کو کچل کر اکبر نے افغان امرا ءکا اثرو نفوذ ختم کیا تھا ان کی جگہ ترک، مغل اور ایرانی منصب دار مقرر کیے تھے) مغلوں کے دور میں اقطاع کی اصطلاح رفتہ رفتہ متروک ہو گئی اور جاگیر اور منصب کی اصطلاحوں نے رواج پایا۔
منصب داری نظام کی خرابیوں پر ہم اپنی کتاب ” پاکستان میں تہذیب کا ارتقا” میں مفصل تبصرہ کرچکے ہیں۔ ہم نے لکھا تھا کہ برصغیر کے معاشی اور سیاسی انحطاط کی بڑی ذمہ داری اسی فیوڈل نظام پر عائد ہوتی ہے۔ اسی نظام اقتدار کی ہمہ گیری کے باعث ملک میں وہ سماجی حالات پیدا نہ ہو سکے جن میں سرمایہ داری نظام کو فروغ ہوتا۔ نہ صنعت کاروں، مہاجروں اور بیوپاریوں کا طبقہ اتنا مضبوط ہوا کہ وہ سیاسی اقتدار میں شرکت کا مطالبہ کرتا یا طاقت آزمائی کرکے اقتدار پر قابض ہوجاتا اور نہ دست کاری کی صنعتیں خود کار صنعتوں میں تبدیل ہو سکیں جیسا کہ یورپ میں ہوا۔ یہ محاکمہ اپنی جگہ درست سہی لیکن قرونِ وسطیٰ کے تاریخی حالات میں نظم و نسق کا کیا کوئی دوسرا طریقہ ممکن تھا۔ کیا سلاطینِ دہلی خواہ وہ پٹھان تھے یا مغل تاریخ کے جبر سے آزاد ہو سکتے تھے۔
ہمارا خیال ہے کہ ان کے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ بات یہ ہے کہ شخصی حکومتوں کے دور میں کہ نمائندے ادارے سرے سے مفقود ہوتے ہیں۔ تخت و تاج کی سلامتی ہر فرماں روا اپنا بنیادی فریضہ سمجھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ طاقتور سے طاقتور بادشاہ بھی خود تنہا اپنا بچاؤ نہیں کرسکتا بلکہ اس کو کسی نہ کسی طبقے یا گروہ کا تعاو ن حاصل کرنا پڑتا ہے البتہ اس تعاون کی قیمت اختیارات میں شرکت کی شکل میں ادا کرنی ہوتی ہے۔ سلاطینِ دہلی نے یہ تعاون ، یہ وفاداری جاگیر اور منصب عطا کرکے حاصل کی۔
مثال کے طورپر صوبوں کے نظم و نسق پر ہی غورکریں لیکن یہ حقیقت ذہن میں رکھیں کہ سترھویں اٹھارویں صدی میں مرکز اور صوبوں کے درمیان رابطے کی وہ سہولتیں موجود نہ تھیں جو اب ہیں۔ اس وقت نہ موٹریں اور ریل گاڑیاں تھی نہ ہوائی جہاز۔ نہ تار نہ ٹیلی فون نہ وائر لیس، ایسی صورت میں بس یہی ممکن تھا کہ معتبر اور وفادار امرائے دربار کو صوبوں کا نگراں بنایا جائے۔ نقدی ادائیگی ممکن نہ تھی۔ سکوں کا رواج بہت کم تھا۔ کیونکہ جاگیری نظام میں چیزیں بازار میں فروخت ہونے کے لیے بہت کم بنتی تھیں لہٰذا سکوں کی ضرورت نہ تھی۔ سرکاری عہدیداروں کو تنخواہیں لا محالہ زمین یا جنس کی شکل میں ادا کی جاتی تھیں۔
کوئی بادشاہ فیوڈل ازم کے دائرے میں رہ کر بدی کے اس چکر سے نکل ہی نہیں سکتا تھا اور اگر کسی نے کوشش کی بھی تو وہ ناکام ہوا۔ علاؤالدین خلجی، محمد بن تغلق اور اسلام شاہ سوری کے تجربے اسی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے۔
اختیارات میں شرکت کی دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ صوبائی وحدتوں کے حق ِ خود اختیاری کو تسلیم کرلیا جاتا اور ان کا نظم و نسق منتخب شدہ نمائندوں کے سپرد کردیا جاتا جیسے امریکا میں ہوتا ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن تھا جب خود مرکز میں کوئی منتخب شدہ نمائندہ حکومت موجود ہوتی ۔ مگرقرونِ وسطیٰ میں جہاں اقتدارِ اعلیٰ کا سرچشمہ ریاست کے باشندے نہیں بلکہ ایک فردِ واحد کی ذات ہوتی تھی اور باشندوں کی حیثیت شہریوں کی نہیں بلکہ رعایا کی ہوتی تھی اس قسم کی طرزِ حکومت کا تصور بھی ممکن نہ تھا۔ قرونِ وسطیٰ کا ہندو ستان پانچویں صدی قبل مسیح کے یونان سے دو ہزار برس پیچھے تھا۔
سلطنتِ مغلیہ کی عمارت بھی جاگیری نظام پر قائم تھی ۔ ہرچند کہ زمین اُصولاً ریاست کی ملکیت تھی اور ریاست کے سربراہ کو اس پرپورا اختیار حاصل تھا لیکن قبضے کے اعتبار سے زمین کی چار قسمیں تھیں؛
1۔ خالصہ، 2۔ جاگیر، 3۔ سیورغال /مددمعاش/انعام، 4۔ زمینداری۔
1۔خالصہ کی زمینیں بادشاہ کی ذاتی ملکیت ہوتی تھیں۔ سندھ میں مغلوں کے عہد میں خالصہ کی زمینیں بہت کم تھیں۔ اور دو حصوں میں بٹی ہوئی تھیں۔ اول خالصہ سلطانی جس کی آمدنی خزانہ عامرہ میں جمع ہوتی تھی۔ دوئم صوبہ داروں ، فوجداروں اور حاکموں کی کفالت کرنے والی زمینیں لیکن یہ عہدہ دار خود کاشت کرنے کے بجائے زمینوں کو ٹھیکے پر دے دیتے تھے۔ اور ” اس طرح پوری معیشت کی بربادی کا باعث ہوتے تھے”۔ شکایت جائز لیکن سرکاری عہدہ دار نظم و نسق کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی کیسے کرتے۔ وہ زمینیں اجارے پر دینے پر مجبور تھے۔ خالصہ کی زمینیں عموماً بہت زرخیز ہوتی تھیں۔ ان کا مجموعی رقبہ 4/1 اور 11/1 کے درمیان گھٹتا بڑھتا رہتا تھا۔
شاہ جہاں کے عہد میں خالصہ مواضات کی تعداد 75 ہزار اوران کی آمدنی تین کروڑ 15 لاکھ روپیہ تھی۔ شاہ جہاں کے بعد خالصہ کی آراضیاں بھی اجارے (ٹھیکے) پر دی جانے لگیں۔ نظام الملک آصف جاہ نے محمد شاہ (1719ء۔ 1747ء) کو مشورہ دیا تھا کہ ” چوں کہ خالصہ محال کی اجارہ داری نے ملک کو تباہ کردیا ہے لہٰذا اس طریقے کو منسوخ کردیا جائے۔ مگر اس کی شنوائی نہ ہوئی۔
2۔ جاگیر دار طبقہ حکومت کا دستِ راست تھا اور تقریباً تین چوتھائی زمینیں اس کے تصرف میں تھیں۔ مغلوں نے جاگیرداری اور منصب داری کو یک جا کر کے فوجی ریاست کا جو نظام رائج کیا اس کی وجہ سے جاگیردار طبقہ بادشاہ کے لطف و کرم کا محتاج ہوگیا۔ شاہی خاندان کے افراد اور وزرا سے لے کر صوبوں کے ناظم اور ان کے ماتحت عملہ سب کے سب فوجی عہدے دار ہوتے تھے اور منصب دار کہلاتے تھے ۔ یہ منصب داریاں دس ہزاری سے شروع ہو کر دس سواروں پر ختم ہوتی تھیں۔ منصب داروں کے مرتبے کا تعین اسی مناسبت سے ہوتا تھا اور اسی حساب ان کو سرکاری خدمات کی بجا آوری کے لیے نقدی تنخواہ کے عوض جاگیریں دی جاتی تھیں۔ گویا ” وہ فوجی بھی ہوتے تھے، نواب بھی اور سول انتظامیہ کے رکن بھی‘‘۔ منصب داروں کے تبادلے، برطرفی یا موت کی صورت میں ان کی جاگیر ریاست کو منتقل ہو جاتی تھی۔ سرکاری عہدے چوں کہ موروثی نہیں ہوتے تھے لہٰذا جاگیریں بھی موروثی نہیں ہوتی تھیں۔بڑے منصب داروں (مثلاً صوبہ دار) کی تقرری اور تبدیلی بھی کسی قاعدے سے ضابطے کے مطابق نہیں ہوتی تھی بلکہ بادشاہ کی مرضی پر منحصر تھی لہٰذا ان عہدے داروں کو کچھ خبر نہ ہوتی کہ وہ کب تبدیل یا برطرف کردیے جائیں۔ وہ اپنے فرائض بڑی بے یقینی کے عالم میں ادا کرتے تھے۔
بڑے بڑے جاگیر دار شاذو نادر ہی اپنی جاگیروں پر جاتے تھے۔ وہ خود شاہی دربار سے منسلک رہ کر آگرہ، دہلی اور لاہور میں عیش کی زندگی گزارتے اور جاگیر کی دیکھ بھال عاملوں کے سپرد کردیتے۔ ان کو اپنی جاگیر کو ترقی دینے ، پیداوار کو بڑھانے، افتادہ زمینوں کو زیر کاشت لانے یا آب پاشی کے نظام کو بہتر بنانے سے کوئی سروکار نہ تھا۔ وہ سوچتے ہمارا یہ منصب چند روزہ ہے ۔ تبادلے کا حکم نہ جانے کب آجائے پھر ہم کیوں فکر کریں لہٰذا جو وقت ملا ہے اس کو غنیمت جانو اور جتنا مال و متاع سمیٹ سکو جلد از جلد سمیٹ لو۔ وہ اپنی جاگیریں اجارے پر دے دیتے تھے بلکہ حفظِ ماتقدم کے طورپر مستاجروں سے پیشگی رقم وصول کرلیتے تھے۔ یہ رقم ” قبض” کہلاتی تھی۔ شاہ جہاں کے عہدمیں تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ زمین کا سودا ہو جانے کے بعد بھی اگر کوئی شخص قبض کی زیادہ رقم پیش کرتا تو مقرر شدہ مستاجر کو بے دخل کرکے زمین اس کے حوالے کردی جاتی تھی۔ اس بد عہدی اور لاقانونیت کی نہ کوئی داد تھی نہ فریاد۔ پروفیسر عرفان حبیب کی تحقیق کے مطابق سندھ میں جاگیروں کے انتظام میں مقامی لوگوں کو شریک نہیں کیا جاتا تھا حتیٰ کہ خالصہ میں بھی یہی دستور تھا۔ فقط پرگنے کا قانون گو مقامی آدمی ہوتا تھا۔
یہ اجارہ داری سب سے بڑی لعنت تھی جس سے سندھ کا کاشت کار سندھی فرماں رواؤں کے عہد میں بچا ہوا تھا۔ چنانچہ عہدِ شاہ جہانی کا سب سے مستند مؤرخ یوسف میرک جو خود جاگیر دار طبقے سے تھا (اس کے والد میرابوالقاسم نمکین بھکری اور بڑے بھائی میرابو البقاد دونوں صوبہ دار رہ چکے تھے) مرزا عیسیٰ خان ترخان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس سے کہتا کہ فلاں پرگنے کو جس کی مال گذاری بیس ہزار روپیہ ہے ایک لاکھ کے عوض اجارے پر دے دو تو وہ قبول نہ کرتا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ
درعمل اجارہ ویرانیِ ملک است، چراکہ اجارہ داری میں ملک کی ویرانی ہے کیوں کہ
درعملِ اجارہ دست خاکم ازرعیت برآیدو اجارے میں حاکم رعیت سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے
دستِ مستاجر بر آنہا قائم شودو مردم اور مستاجر رعیت پر حاوی ہو جاتا ہے اور
مستاجر حسبِ خواہش خود آنچہ می دانند مستاجر کے آدمی رعیت غریب کے ساتھ جو
بررعیت غریب فی کنند عملِ اجارہ اگرچہ چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ اجارہ داری ابتدا
اول مرتبہ مانند آتش کر درکاہ خشک می گیرد میں سوکھی گھاس میں آگ کی طرح اچھی لگتی
خوشترو روشن می نماید، اماآخرش نتیجہ ہے اور روشنی دیتی ہے مگر آخرکار اس کا
سیاسی و خاکستری مطلق می دہدتیجہ مکمل سیاہی اور خاکستری ہوتا ہے۔
3۔ ” سیور غال‘‘ یا مدد معاش وہ زمینیں تھیں جو مکتبوں اور مدرسوں کے خرچ کے لیے یا علما، فضلا اور خاندانِ سادات کے گزارے کے لیے بطور معافی دی جاتی تھیں۔ علم و دانش کو فروغ دینے کا یہ طریقہ ارغونوں نے شروع کیا تھا۔ ترخانوں نے بھی اس روایت کو قائم رکھا البتہ ” مدد معاش کی ایک شرط تھی کہ وظیفہ خوار حاکمِ وقت کے وفادار رہیں”۔ اس طرح ارغونوں اور ترخانوں نے سندھ میں پڑھے لکھے افراد اور بااثر خاندانوں کا ایک اہم طبقہ پیدا کرلیا تھا جس کا مفاد حکومت سے وابستہ ہوتا تھا۔ مغلوں کے عہد میں ” مدد معاش” کی زمینوں میں اور اضافہ ہوا مثلاً بھکر میں میر عدل کو پچاس ہزار بیگھہ زمین بطور سیورغال عطا ہوئی لیکن اورنگ زیب سے پہلے یہ معافیاں موروثی نہیں ہوتی تھیں اورنگ زیب نے ان کو موروثی کردیا۔ ڈاکٹر انصار زاہد کے اندازے کے مطابق سندھ میں سیورغال زمینوں کا مجموعی رقبہ 25،30 فی صد سے کم نہ تھا۔ سیورغال کو موروثی کردینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ” سندھ میں سابق علما و مشائخ کے خاندانوں کے اثر و نفوذ میں تدریجاً اضافہ ہوتا گیا اور وہ نہایت طاقت ور فیوڈل گروہ بن گئے”۔ ان خاندانوں سے علم و فضل تو ایک دو پشتوں میں رخصت ہوگیا البتہ جاگیریں باقی رہیں اورپیری مریدی کا کاروبار خوب چمکا۔
4۔ چوتھا طبقہ جس کو زمین پر کسی حد تک مالکانہ حقوق حاصل تھے زمینداروں کا تھا۔ یہ اصطلاح بڑی مبہم ہے۔ محمد شاہ کے عہد کا مشہور لغت نویس آنند رام مخلص” مراۃ الاصطلاح ‘‘میں لکھتا ہے کہ زمیندار لغوی اعتبار سے” صاحبِ زمیں‘‘ کو کہتے ہیں لیکن اب وہ ہر شخص زمیندار کہلاتا ہے جو کسی گاؤں یا قصبے میں زمین کا ” مالک‘‘ ہو اور کاشت کرتا ہو۔ زمیندار کی اصطلاح مغلوں کے دور میں بھی استعمال ہوتی تھی چنانچہ ” آئینِ اکبری”اور ” رقعات عالم گیری” دونوں میں زمینداروں کاذکر موجود ہے اور عبدالقادر بد ایوانی بھی منتخب التواریخ میں مالوہ کے کے مشہور ہیرو باز بہادر خان کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ” باز بہادر خان نے جس نے اپنے چند امرا کے ہمراہ راہِ فرار اختیار کرلی تھی دوسرے زمینداروں سے مل کر پیر محمد خان پر حملہ کردیا”۔ ایک اور واقعے کے ضمن میں وہ ” غریب زمینداروں ” کا بھی ذکر کرتا ہے۔
تاریخ مظہر شاہ جہانی کی شہادت اس سے بھی زیادہ معتبر ہے۔ وہ سندھ کے دیہات کے بارے میں لکھتا ہے کہ ” ائمہ ایں دیار چار قسم اند‘‘ ان میں زمینداروں کو وہ چوتھی قسم قرار دیتا ہے۔
مردم زمینداراں اند کہ تعلق بہ چوتھی قسم زمینداروں کی ہے جن کا تعلق
ربابی و مقدمی نیزدارند، وچوں زمیندار ارباب اور مقدموں سے بھی ہے۔ زمیندار
انند زمین ہا خوب پر حاصل از جاہائے ہونے کے باعث وہ اپنے ماتحت چکوں
نیک درتحت چکہائے خود گرفتہ اندومردم قابض ہیں اور رعیت جو ان کی محتاج ہے
و کندن جوئی آب، زمینہائے آنہارا بلاکسی مدد اور آب پاشی کی سہولتوں کے
مزروع نمایند چاں چہ اکثر زمینہائے آں ان زمینداروں کی بیشتر زمینوں
چکہائے خود نمی برند۔۔۔۔میں زراعت ہوتی ہے مگروہ اپنے چکوں کو آباد کرنے کی خود کوئی کوشش نہیں کرتے
تاریخِ مظہر شاہ جہانی کے اس اقتباس سے ظاہر ہوتاہے کہ سندھ کے زمیندار گاؤں میں رہتے تھے اور کاشت کاروں سے ان کا تعلق براہِ راست تھا۔ وہ اپنی زمینوں کے خود مالک تھے مگر خود کاشت کرنے کے بجائے مزارعوں سے کام لیتے تھے۔ بسا اوقات جاگیر دار وں کے ارباب اورمقدم یہی مقامی زمیندار ہوتے تھے لہٰذا قدرتی طورپر ان کا مفاد بھی جاگیر دار طبقے سے وابستہ تھا لیکن وہ جاگیرداروں کے تابع نہیں تھے ۔ مثلاً
یوسف میرک لکھتا ہے کہ؛
” ایک بار میں نے سہوان کے حاکم کو مشورہ دیا کہ سمیجہ اُونر قوم کے فلاں سرکش گروہ کا قلع قمع فریب اور دھوکے سے حملہ کر کے کیا جائے تو بعض زمیندارانِ سہواں ایں حرف را خوش نہ کردند‘‘ (میری بات سہوان کے بعض زمینداروں کو پسند نہیں آئی) اور حملے کا مشورہ مسترد ہو گیا ۔‘‘
پروفیسر عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ؛
”زمیندار عام کسانوں سے اونچے ہوتے تھے۔ وہ اپنے مزارعوں کو بے د خل کرسکتے تھے۔ ان کی زمینیں موروثی ہوتی تھیں اور وہ ان کو فروخت بھی کرسکتے تھے۔‘‘
جس دیار” بیداد گراں ، ناپرساں اور بیکساں‘‘میں یوسف میرک کے بقول بے شمار ” بھیڑئیے‘‘ اور ” راکشش‘‘ موجود ہوں وہاں غریب کسانوں کی زبوں حالی کا پوچھنا ہی کیا۔ وہ زمین جوتتے بوتے اور فصلیں اُگاتے مگر زمین پر ان کو کسی قسم کا اختیار نہ تھا نہ عارضی نہ مستقل اور جو غلہ وہ اپنے خون پسینے سے پیدا کرتے اس کا بیش تر حصہ جاگیر دار، مستاجر، معافی دار ملا، مشائخ، سادات اور زمیندار لے جاتے۔ جو باقی بچتا اس میں سے متعدد ” رسوم‘‘ ادا کرنے پڑتے۔ نتیجہ یہ کہ پیداوار بڑھانا تو درکنار وہ سرکاری کارندوں اور اجارہ داروں کی لوٹ مارسے تنگ آکر جنگلوں کی راہ لیتے اور ڈاکو، راہ زن بن کر دوسروں کو لوٹنا شروع کردیتے تھے۔
سندھ میں عموماً ” غلہ بخشی‘‘ یعنی بٹائی کا رواج تھا چنانچہ ترخانوں کے عہد میں کسانوں سے زمین کی زرخیزی اور آب پاشی کی سہولتوں کی مناسبت سے فصل 2/1 ،3/1 اور 4/1 وصول کیا جاتا تھا لہٰذا بقول یوسف میرک ” ملک آباد تھا اور رعیت پر قوت تھی لیکن جاگیر داروں کے دور میں کسانوں کو ” خراجِ مقاسمہ‘‘(2/1) کے علاوہ ان گنت ” رسوم‘‘ ادا کرنے پڑتے تھے جن کو ” ستم شریکی‘‘ یا ” فروعی واجبات‘‘یا ”سائرجہات‘‘ کہتے تھے۔ قانوناً یہ واجبات سراسر ناجائز تھے لیکن قانون کے محافظ جب خود یہ ناجائز رقمیں وصول کرتے تو کسانوں کی کون سنتا چنانچہ۔
” بہ تہمت ہائے باطلہ سکان ایں دیار را از آزاد ہائے گونا گوں دادہ ، زیادہ از جریم آنہا جرمانہ کہ از طاقتِ بشر دُور است مقررمی سازند چنا ں چہ مردم ہلاک می گردند‘‘۔
” انہوں نے ناجائز واجبات وصول کرکے اس ملک کے باشندوں کو طرح طرح کی تکلیفوں میں پھنسا رکھا ہے۔ وہ اتنا جرمانہ لگاتے ہیں جس کی ادائیگی بشر کی طاقت سے دور ہوتی ہے لہٰذا لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔‘‘
سکونت کے اعتبار سے سندھ کی دیہی آبادی دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ حضری اور بدوی۔ وہ گاؤں جو دریائے سندھ کے آس پاس مستقل طورپر بسے ہوئے تھے لاندھی یا گوٹھ کہلاتے تھے۔ زیادہ آبادی انہیں علاقوں میں تھی اور آب باشی کی سہولتوں کی وجہ سے یہاں پیداوار بھی اچھی ہوتی تھی۔ اس کے برعکس کوہستانی اور ریگستانی علاقے جہاں گلہ بان قومیں رہتی تھیں بہت پسماندہ تھے۔ ان صحرا نورد قوموں کا کوئی مستقبل ٹھکانہ نہ تھا بلکہ وہ اپنے اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کو ساتھ لیے چارہ گھاس کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ مارے پھرتے رہتے تھے۔ ان کی عارضی بستیوں کو تھانہ یا گدھان کہتے تھے۔ یہ گھاس پھوس کی جھونپڑیاں یا اون کی چھول داریاں ہوتی تھیں جن کو بری آسانی سے جانوروں پر لادا جا سکتا تھا۔ جھونپڑیوں اور خیموں کے جھنڈ کو تومان کہتے تھے جو یک جدی خاندانوں (خیل) کا مسکن ہوتا تھا۔ تومان کا بزرگ تومان دار کہلاتا تھا۔ یہ خانہ بدوش قبیلے زیادہ تر بلوچ تھے جن کی مہمان نوازی، جفاکشی اور دلیری ضرب لمثل تھی۔ ہر تومان میں ایک مہمان خانہ ضرور ہوتا تھا اور تو مان کے ہر فرد کو مہمان داری کے مصارف کے لیے تومان دار کو شیشک (6/1) ادا کرنی پڑتی تھی۔ (شیشک کا رواج بلوچستان میں چند سال پیش تر تک تھا) یہ بلوچ قبیلے بھکر اور ٹھٹھہ کے مغرب میں کوہستانی علاقوں میں رہتے تھے۔ کلہوڑا سردار انھیں کی مدد سے برسرِ اقتدار آئے۔
شاہ جہان کے آخری ایام میں حاکموں کے ظلم و جور اور جاگیرداروں کے بے دریغ استحصال کی وجہ سے سندھ کی اقتصادی حالت خراب سے خراب تر ہوتی گئی اور رعایا میں بے چینی بڑھتی گئی۔ کئی قومیں مثلاً سمیچہ، بلوچ اور نہمردی ایسی تھیں جنہوں نے مغلوں کی اطاعت کبھی قبول نہیں کی تھی۔ ان کی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے صوبہ داروں کو مسلسل فوجی طاقت استعمال کرنی پڑتی تھی ۔
چنانچہ یوسف میرک کی کتاب اِن ” سرکش‘‘ قوموں کی سرکوبی کی خونیں داستان سے پُر ہے۔ بد امنی کا یہ حال تھا کہ شہر سہوان کا حاکم قلعے سے باہر نکلنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا اور قلعے کی دیوار کے نیچے دن دہاڑے قتل اور لوٹ مار کی وارداتیں ہوتی رہتی تھی۔ لاہری بندر اورٹھٹھے کے درمیان تجارتی قافلے تیس میل کا سفر فوج کی نگرانی میں طے کرتے تھے۔
سندھ میں بارش برائے نام ہوتی ہے لہٰذا زراعت کا انحصار پانی کی فراہمی پر ہے۔ جس حکمران نے نہریں نکا کر اس مسئلے کو حل کرلیا وہ کامیاب رہا اور جس نے نہروں کی طرف سے غفلت برتی وہ ناکام ہوگیا۔ مغلوں نے یہ اہم فریضہ جاگیر داروں کے سپرد کردیا تھا حالاں کہ اتنا بڑا کام ان کی استطاعت سے باہر تھا۔ اگر نہریں نکال کر اُفتادہ زمینوں کو قابلِ کاشت بنایا جاتا تو ملک قحط کی بار بار آفتوں سے بچ جاتا اور خانہ بدوش قبیلے بھی آباد ہو کر پر امن زندگی بسر کرنے لگتے۔ حیرت ہے کہ اورنگ زیب کا سا عاقل شخص بھی سندھیوں کی بے چینی اور سرکشی کے اصل سبب کو سمجھنے سے قاصر رہا۔ اس نے بھی یہ نہ دیکھا کہ سمیچہ یا نہمروی جن کو اس نے بزورِ شمشیر مطیع و فرماں بردار بنانے کا عزم کررکھا تھا تلاشِ معاش کے سلسلے میں مجبور ہو کر مزروعہ علاقوں کا رخ کرتے تھے اور یوسف میرک کا سا صاحبِ فہم مؤرخ بھی شاہ جہاں کو یہی مشورہ دیتا ہے کہ ” مردُمِ مفسدو متمر دغیر از ضربت شمیشر بہ طریقِ نیک رام نمی شوند‘‘ (مفسد اور سرکش عناصر کو نیک طریقوں کے بجائے تلوار ہی کے زور سے رام کیا جا سکتا ہے) حالاں کہ وہ خود معترف ہے کہ اگرکسی دُور اندیش جاگیردار یا حاکم نے غیر آباد علاقوں میں آب پاشی کا بندوبست کردیا یا سرکش قبیلوں کو زمین دے کر بسا دیا تو حالات سدھر گئے۔ مثلاً پرگنہ چندوکہ (لاڑکانہ) میں میرابرہ نے ایک بڑی نہر نکالی (جو اب بھی موجود ہے) تو ویران اور غیر آباد علاقہ سرسبز و شاداب ہوگیا اور وہاں کئی شہر بس گئے۔ اسی طرح سمیجہ ، ابرہ اور سانگی قوموں نے خود نہریں کھودیں تو نئے دیہات وجود میں آگئے اور کسان جوق درجوق آکر وہاں آباد ہوگئے اور مزروعہ زمین ایک لاکھ جریب سے زیادہ ہوگئی اور سرکاری لگان بھی 30،40 فیصد بڑھ گئی۔
اورنگزیب نے 1707ء میں اورنگ آباد دکن میں بڑی مایوسی کے عالم میں انتقال کیا۔ اس کے بعد تختِ شاہی کے لیے خانہ جنگی شروع ہو گئی اور ملک میں طوائف الملوکی پھیلی اس سے تاریخ کا ہر طالبِ علم واقف ہے۔ اورنگ زیب نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ تینوں بیٹے سلطنت کو آپس میں تقسیم کرلیں لیکن خود اس نے اپنے باپ اور بھائیوں کے ساتھ جو سلوک کیا تھا اس کے پیشِ نظر بیٹوں سے توقع رکھنا کہ وہ باپ کی وصیت پر عمل کریں تے عبث فعل تھا۔ شہزادہ اعظم شہزادہ معظم کے خلاف لڑتا ہوا مارا گیا۔ پھر کام بخش کا کام تمام ہوا اور شہزادہ معظم شاہ عالم اول کے لقب سے تخت پر بیٹھا لیکن چار سال بعد وفات پاگیا اور اس کے چاروں بیٹے جہاں دار شاہ، عظیم الشان، جہاں شاہ اور رفیع الشان آپس میں آمادہ پیکار ہوئے۔ جہاں دار شاہ تینوں بھائیوں کو قتل کر کے بادشاہ بنا مگر ایک سال بعد عظیم الشان کے بیٹے فرخ سیر نے لال قلعہ دلی میں چچا کا گلا گھونٹ کر ہلاک کردیا اور خود بادشاہ بن بیٹھا (1713ء) چھ سال کی مختصر مدت میں تخت کے چھ دعوے دار مارے گئے اور فقط ایک قدرتی موت مرا۔
یہی پُرآشوب زمانہ صوفی شاہ عنایت کا بھی ہے۔
زوالِ سلطنت کے اسباب
سلطنتِ مغلیہ کا عروج جتنا پر شکوہ تھا زوال اتنا ہی المناک ثابت ہوا۔ یوں لگا گویا یہ عظیم عمارت ریت کا گھروندہ تھی جو ہوا کے تیز جھونکے کی بھی تاب نہ لا سکی۔ مگر زوال کے آثار اورنگ زیب کے آخری ایام ہی میں ظاہر ہونے لگے تھے۔ اُدھر بوڑھا شہنشاہ اپنی ساری قوت دکن مہموں میں صرف کررہا تھا اِدھر سلطنت کے پرانے رفقا یکے بعد دیگرے اس سے کنارہ کش ہوتے جارہے تھے۔ بیٹے، امرائے دربار، ایرانی، جاٹ بندیلے، راٹھور، سی سوڈیا غرضیکہ کوئی بھی بادشاہ کی سیاسی حکمتِ عملی سے خوش نہ تھا۔ اس قحط الرجال کی وجہ سے کی وجہ سے سلطنت کے نظم و نسق میں جو خلل پڑ رہا تھا سلطان اس سے بخوبی آگاہ تھا چنانچہ شکایت کرتا ہے کہ ” ازنایابیِ آدم کار آہ، آہ تس ‘‘پروزیر سعد اللہ خان عرض کرتا ہے کہ ”جہاں پناہ، لائق آدمیوں سےس کوئی زمانہ خالی نہیں ہوتا البتہ خود غرضوں کی تہمتوں اور الزام تراشیوں پر کان دھرے بغیر، ان کا دل جیتنا اور ان کے ذریعے امورِ سلطنت سرانجام دینا، عقل مند آقاؤں کا شیوہ ہے‘‘۔ اورنگ زیب کو اپنی اس مردم ناشناسی کا احساس ہے اور وہ سعد اللہ خان کی عرضداشت کی صداقت کو تسلیم کرتا ہے مگر پانی سے اونچا ہو چکا تھا۔ مسلک میں تبدیلی اب اس کے اختیار میں نہ تھی۔
اورنگ زیب کے مشہور مؤرخ سر جادو ناتھ سرکار نے زوالِ سلطنت کے متعدد اسباب بیان کیے ہیں۔ مثلاً؛
اورنگ زیب کی غلط حکمتِ عملی، اس کے جانشینوں کا پست کردار اور امرائے دربار کی نااہلی اور خود غرضی لیکن جاگیری نظام کی فرسودگی پر حیرت ہے کہ اس کی نظر نہیں پڑی حالاں کہ تمام خرابیوں کی جڑ یہی نظام تھا جو اپنا تاریخی کردار ادا کرچکا تھا اوراب اس میں مزید ترقی کی گنجائش نہ تھی۔
لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سلطنت کے زوال میں اورنگ زیب کے جانشینوں کے پست کردار کو بھی بڑا دخل ہے۔ نازو نعم کی گود میں پلے ہوئے یہ عیش پسند شہزادے جن کو نہ امورِ سلطنت کی تعلیم دی گئی تھی اور نہ نظم و نسق کی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں، مسخروں، بھانڈوں ، اور خوشامدی مصاحبوں میں گھرے رنگ رلیوں میں مصروف رہتے تھے اور برسراقتدار آنے پر بھی ان مشغلوں کو ترک نہ کرتے تھے۔ چنانچہ مورخ لکھتا ہے کہ اٹھارویں صدی میں تخت دہلی کے ورثا کی تربیت اس ڈھنگ سے ہوئی کہ بڑے ہو کر وہ انتہائی بے بسی کے عالم میں دوسروں پر تکیہ کرنے کے عادی ہو گئے۔ وہ آزادی سے نہ خود فیصلہ کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی صلاحیت رہ گئی تھی۔ اُن کے ذہن کند ہو چکے تھے اور ان کی روحیں مردہ لہٰذا وقت گزاری کے لیے وہ حرم سرا کی عورتوں ، مسخروں اور خوشامدیوں کی صحبت میں پناہ لیتے اور تخت نشین ہو کر حکومت کی باگ وزیروں کے سپرد کردیتے تھے جس کی وجہ سے امرا میں باہمی رقابتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا اور جب وہ کسی طاقت ور وزیر کے اثرو اقتدار سے خوف زدہ ہو کر اس کو گرانے کی غرض سے کسی دوسرے وزیر کی حوصلہ افزائی کرتے تو آخر کار اس کے دامِ اختیار میں پھنس جاتے۔
شخصی حکومت کا سب سے بڑا نقص ہی یہ تھا (اور ہے) کہ ریاست کی بقا و ترقی کا دارو مدار سر براہ کی شخصیت، اہلیت اور مردم شناسی پر ہوتا تھا۔ بادشاہ میں حکومت کرنے کی صلاحیت ہوتی تو نظم و نسق درست رہتا،ریاست کو لائق وزرا اور حکام میسر آتے اور رعایا بھی ظالموں کی دست برد سے کسی حد تک محفوظ رہتی لیکن بادشاہ نا اہل ہوتا تو سلطنت کا وہی حشر ہوتا جو سلطنتِ مغلیہ یا اس سے پیش تر کی سلطنتوں کا ہوا۔ شخصی اور مطلق العنان بادشاہتوں کی تاریخ اسی نشیب و فراز کا آئینہ ہے۔ خواہ وہ رومتہ الکبریٰ ہو یا بنی عباس یا خاندانِ مغلیہ کی سلطنتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اورنگ زیب کے کسی جانشین میں معمولی ضلع کے نظم و نسق کی صلاحیت نہ تھی چہ جائیکہ اتنی وسیع و عریض سلطنت کا لنگر سنبھالنا جو کابل سے چاٹگام اور کشمیر سے راس کمار تک پھیلی ہوئی تھی اور آبادی و رقبہ میں پورے یورپ کے برابر تھی۔
طبقہ اُمرا میں بھی، جن سے نظم و نسق چلتا تھا اب پرانا سا دم دم خم باقی نہ تھا۔ اورنگ زیب سے پہلے اعلیٰ سرکاری عہدوں کے لیے بھرتی تین حلقوں سے ہوتی تھی۔ اول ترکستان اور ایران سے آنے والے قسمت آزما خاندان جن کا پیشہ سپہ گری تھا یا جو اپنی ذہانت اورلیاقت سے سرکار دربار میں رسائی حاصل کرلیتے تھے ۔
دوئم مقامی نو مسلم خاندان کے امرا و شرفا اور سوئم راجپوت اور کایتھ۔ اورنگ زیب کے طرزِ عمل سے بیرونِ ملک سے آمد کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ راجپوت امرا بھی ایک ایک کر کے علیحدہ ہوتے گئے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی مسلمانوں کے طبقہ امرا اور تورانی نژاد امرا میں اقتدار کی خاطر رسہ کشی ہونے لگی۔ اونگ زیب کے بعد تو اِن رقابتوں نے باقاعدہ کشت و خون کی صورت اختیار کرلی۔ مثلاً نظام الملک آصف جاہ دکن کی صوبہ داری پر اپنے تین حریفوں کو شکست دے کر قابض ہوا۔ اسی طرح گجرات کی صوبے داری کی خاطر شجاعت خان اور سر بلند خان اور ستم خان کے مابین جنگ چھڑ ی۔ شجاعت خان اور سربلند خان مارے گئے اور رستم علی خان نے شکست کھائی۔
سندھ میں نواب عطر خان، فرخ سیر کے عہد میں ٹھٹھہ کا صوبے دار مقرر ہو کر آیا مگر اس کو میر لطف علی خان سے مقابلہ کرنا پڑا۔ دونوں ایک سال تک لڑتے رہے یہاں تک کہ عطر خان قتل ہوا اور میر لطف علی خان نے سندھ کی صوبے داری پر قبضہ کرلیا۔ لطف یہ ہے کہ شاہی احکام کی اس باغیانہ خلاف ورزی کے با وصف فرخ سیر نے میر لطف علی خان کو شجاعت خان کے خطاب سے نوازا32؎ غرضیکہ دہلی دربار مختلف گروہوں کی سازشوں کا اڈا بن گیا تھا۔ تورانی، ایرانی اور ہندوستانی امرا دن رات اپنے ذاتی مفاد کی خاطر سیاسی داؤں پیچ میں مصروف رہتے تھے۔ کسی کو سلطنت کے مستقبل کی فکر نہ تھی۔ اس کے علاوہ عالیم گیری عہد کے بہت سے امرا شہزادوں کی معرکہ آرائیوں میں پہلے ہی جان نذر کرچکے تھے۔ جو بچ رہے تھے انھوں نے دربار کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی۔
فرخ سیر(1713۔1719ء) نہایت ظالم، ناکارہ اور عیش پرست ثابت ہوا۔ اس نے چچا کے قتل پر اکتفا نہ کیا بلکہ جس شخص کی طرف سے بھی خطرہ محسوس ہوا اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ امیرالامرا ذوالفقار خان اور اجہ سبھ چند دیوان کی زبانیں کٹوا دیں۔ جہاں دار شاہ کے عہد کے بہت سے امرا کو تہ تیغ کیا۔ جہاں دار شاہ کے بیٹے اعزالدین اور اعظم شاہ کے بیٹے اوراپنے چھوٹے بھائی ہمایوں بخت کو اندھا کرکے قیدخانے میں ڈلوا دیا۔ شہر کیا میدان حشر تھا جس میں کوئی کسی کا پرسانِ حال نہ تھا اور نہ کسی کی جان و مال، عزت، آبرو سلامت تھی۔ انھیں حالات سے غم زدہ ہو کر شاہ حاتم دہلوی نے جو شہر آشوب لکھا وہ نظم و نسق کی ابتری، طبقہ امرا کے انحطاط اور شہریوں کی مالی پریشانیوں کی بڑی سچی تصویر ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
شہوں کے بیچ عدالت کی کچھ نشانی نہیں
امیروں بیچ سپاہی کی قدر دانی نہیں
بزرگوں بیچ کہیں بوئے مہربانی نہیں
تواضع کھانے کی چاہو کہیں تو پانی نہیں
گویا جہان سے جارہا سخاوت و پیار
امیرزادے ہیں حیران اپنے حال کے بیچ
تھے آفتاب پر اب آگئے زوال کے بیچ
پھرے ہیں چرغے سے ہر دن تلاشِ مال کے بیچ
وہی گھمنڈ امارت ہے پر خیال کے بیچ
خدا جو چاہے تو پھر ہو، پر اب تو ہے دشوار
میر جعفر زٹلّی(پیدائش1657ء) اس دور کے ایک ہزل گو شاعر تھے جو ہنس ہنسا کر لوگوں کو خوش کرتے اور اپنا پیٹ پالتے تھے لیکن حالات اتنے بگڑ گئے تھے کہ وہ بھی ضبط نہ کرسکے۔ وہ اپنی ہزلوں میں کبھی شہزادوں کی نا اہلیوں اور آپس کی رقابتوں پر فقرے چست کرتے ہیں اور کبھی معاشرتی افراتفری کا ماتم کرتے ہیں۔ شہزادہ معظم شاہ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ:
نخستیں کلاں، ترکہ برکھنڈ کرو اول بڑے بیٹے نے سب کھنڈت کردی
ہمہ کاروبارِ پدر بھنڈ کرو باپ کا سارا کاروبار بھنڈ کردیا
چناں لوٹ شد بستیِ بھگ نگر حیدرآباد میں وہ لوٹ مچی
نہ خذ ما صفا ماند نہ ماکدر کہ اچھا برا کچھ نہ بچا
جہاں ہووے ایسے کلچھن سپوت لگے خلق کے منھ کو کالک بھبوت
محمد اعظم شاہ کا ذکر یوں کرتے ہیں،
دگرشاہ واعظم ہمہ کندور بہ رسوائی انداخت کارپدر
بہ خوش دامن و حسپورہ ساختہ بہ للو پتو کارِ درباختہ
ساس اور سالے کے ساتھ مل کر اور ایروں غیروں میں وقت صرف کرنے لگا
فرسذایں ناں بہ شب پان پھول ملا کر کیا کام سب خاک دُھول
عوام کی پریشان حالی کا حال یوں بیان کرتے ہیں۔
زلت کے آنسوؤں جگ روتا ہے نہ میٹھی نیند کوئی سوتا ہے
صدائے توپ و بندوق است ہرسو بسر اسباب و بندوق است ہرسو
دو ادوہر طرف بھاگڑ پڑی ہے بچہ در گود، سر کھٹیا پڑی ہے
کٹاکٹ و لٹالٹ ہست ہرسو جھٹا جھٹ و پھٹا پھٹ ہست ہرسو
برہر سو مار مار دھاڑ دھاڑاست اُچل چال و تبر خنجر کٹاراست
فرخ سیر تخت نشین ہوا تو اس کے سکے پر یہ شعر کندہ کیا گیا؎
میر جعفر زٹلّی نے سکے کو ہجو میں بدل کر کہا
سکہ زدبرگندم و موٹھ و مٹر مچھر ماربادشاہ فرخ سیر نے گندم
بادشاہ پستہ کش فرخ سیر موٹھ اور مٹر پر مہر لگا دی ہے
بد نصیب شاعر کو کیا خبر تھی کہ کم ظرف بادشاہ ایک بے ضرر شعر کی پاداش میں اس کو قتل کروادے گا۔ جعفرزٹلّی اردو کا واحد شاعر ہے جس کو ایک شعر کے عوض جان دینی پڑی۔ صوفی شاہ عنایت بھی فرخ سیر ہی کے عہد میں شہید ہوئے۔
صوفی عنایت شاہ کی تحریک
صوفی شاہ عنایت نے جس وقت جھوک میں تعلیم و تبلیغ شروع کی تو سندھ کے بیش تر مشائخ، صوفیا اور سادات اپنے فرائض منصبی کو فراموش کر کے خالص دنیا دار زمیندار بن گئے تھے۔ اس اندھیرے میں صوفی شاہ عنایت کے علم و فضل کی، اُن کی خدا ترسی ، درد مندی اور بے لوث خدمتِ خلق کی روشنی پھیلی تو ان کے گرد ارادت مندوں کا ہجوم ہونے لگا۔ مگر صوفی شاہ عنایت ان روایتی صوفیوں میں نہ تھے جو حالات کو بدلنے کے بجائے صبرو قناعت کی تلقین کرتے ہیں اور یہ کہہ کر کہ دنیاوی زندگی چندہ روزہ ہے لوگوں کو توشہ آخرت جمع کرنے کا درس دیتے ہیں۔ وہ ان علمائے دین میں بھی نہ تھے جن کے نزدیک دولت کی مساوی تقسیم ہی مساوات محمدی کی اساس ہے۔ حالانکہ دولت پیدا کرنے کے ذرائع مثلاً زمین، فیکٹریاں، کارخانے اور بینک وغیرہ اگر چند افرادکی ذاتی ملکیت ہوں تو دولت کی مساوی تقسیم کیوں کر ممکن ہوگی۔
صوفی شاہ عنایت نے قانونِ معیشت کا یہ راز پالیا تھا کہ اصل چیز پیداواری عمل ہے اور اصل مساوات وہ ہے جو پیداواری عمل کے دوران قائم ہو نہ کہ تقسیم کے دوران ورنہ چوروں اور ڈاکوؤں کا ٹولا بھی مال کو آپس میں بانٹ کر کھاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دولت کی منصفانہ تقسیم پیداواری عمل میں مساوی شرکت کے بغیر ممکن ہی نہیں لہٰذا صوفی شاہ عنایت نے پیداواری عمل میں مساوی شرکت پر زور دیا۔
ان کا راسخ عقیدہ تھا کہ مساواتِ محمدی کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ کھیتی باڑی اجتماعی اصولوں پر کی جائے، پیداواری عمل میں سب لوگ برابر کے شریک ہوں اور پیداوار کو حسبِ ضرورت آپس میں تقسیم کرلیں۔ صوفی شاہ عنایت کے مرید فقیروں نے یہ تجویز بہ خوشی منظور کرلی اور اجتماعی کھیتی باڑی میں مصروف ہوگئے۔
اجتماعی زراعت صوفی شاہ عنایت کی ایجاد بندہ نہ تھی بلکہ ان سے بہت پہلے قبیلہ داری نظام کے دور میں بھی اجتماعی زراعت کا رواج عام تھا۔ عین ممکن ہے کہ صوفی صاحب کے زمانے میں بھی بعض کوہستانی قوموں بالخصوص بلوچوں میں یہ طریقہ رائج ہو اور صوفی صاحب نے اس کی افادیت کو محسوس کرلیا ہو۔ ان کا سید محمد جونپوری (1443۔1505ء) کی مہدوی تحریک سے متاثر ہونا بھی بعیدازقیاس نہیں ہے کیوں کہ سید محمد جونپوری سمہ حکمران جام نندا کے عہد میں ڈیڑھ دو سال تک ٹھٹھے میں مقیم رہے تھے اور بہت سے لوگ جن میں میاں آدم شاہ کلہوڑا بھی تھے ان کے مرید بن گئے تھے۔ سید محمد جنھوں نے مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا بڑے عالم فاضل بزرگ تھے۔ انھوں نے اپنی مہدوی برادری کو “دائرے” کا نام دیا تھا جو مکمل مساوات اور ابدیت کی علامت ہے۔ اُن کے دائرے میں چھوٹے برے امیر غریب کا امتیاز نہ تھا۔ مرید دائرے میں اجتماعی زندگی بسر کرتے تھے اور ضروریاتِ زندگی آپس میں برابر تقسیم کرلیتے تھے۔
صوفی شاہ عنایت کا تجربہ بہت کامیاب ہوا۔ جھوک میں آباد فقیروں کو نہ بٹائی دینی پڑتی نہ بے گار کرنی پڑتی اور نہ پٹواری قانون گو کو ” ستم شریکی” رسوم ادا کرنے پڑتے تھے لہٰذا صوفی شاہ عنایت کی شہرت جلد ہی دور دور پھیل گئی اور ہر جگہ ان کے نئے تجربے کا چرچا ہونے لگا۔ اُس پر مستزاد یہ کہ سادات ہلڑی کے فقیر جو اب تک اپنے زمینداروں کے مرید تھے شاہ عنایت کے حلقہ ارادت میں چنانچہ تحفہ الکرام میں رقم ہے کہ؛
” فقرائے بلری خاندان شان بہ معائنہ فروغ و مجد ایں سلسلہ از آنہا بریدہ بایں ہامی پیوستند‘‘۔
” جو درویش پہلے خاندانِ ہلری سے وابستہ تھے وہ صوفی شاہ عنایت کے سلسلے کا فروغ دیکھ کر سادات کو ترک کرکے اس نئے سلسلے مین شامل ہوگئے‘‘۔
لہٰذا ” فقیروں کی جاعت سندھ کے خاندانی پیروں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگی۔‘‘
اس تحریک کی مقبولیت سے خاندانِ سادات کے مریدوں ہی کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ بابو پلیجہ اور آس پاس کے دوسرے علاقوں کے مزارع بھی متاثر ہوئے۔ ” در زمینِ ایشاں فقرارگ و ریشہ دو اندہ بودند‘‘(صوفی شاہ عنایت کے فقیر اُن کی زمینوں میں بھی ریشہ دوانیاں کررہے تھے۔ یعنی اجتماعی زراعت کی تبلیغ کررہے تھے)۔ نتیجہ یہ ہوا کہ زمینداروں کے مزارعے مطالبہ کرنے لگے کہ ہماری زمینوں میں بھی صوفی شاہ عنایت کے طریقے پر عمل کیا جائے۔ مگر پیداوار میں مساوی شرکت کے اصول کو تسلیم کرنے کے لیے زمیندار ہر گز تیار نہ تھے۔
انہوں نے محسوس کرلیا کہ اس انقلابی فتنے کا اگر فوراً تدارک نہ کیا گیا تو سندھ میں جاگیر داری اور زمینداری نظام خطرے میں پڑجائے گا۔ لہٰذا خطرے کا سدِ باب کرنے کی غرض سے زمینداروں نے جن میں ہلڑی کے شاہ عبدالکریم کے جانشین سید عبدالواسع اور شیخ ذکریا بہاؤلدین کے جانشین شیخ سراج الدین اور پلیجانی کے زمیندار نور محمد بن منبہ پلیجو اور حمل بن لاکھا جاٹ پیش پیش تھے، میر لطف علی خان صوبے دار ٹھٹھہ سے فریاد کی کہ صوفی شاہ عنایت کو اجتماعی کھیتی سےمنع کیا جائے لیکن صوفی کی زمین مدد معاش کی معافی زمین تھی۔ صوبے دار کا اس پر کوئی اختیار نہ تھا۔
چنانچہ اس نے حکومت کی جانب سے مداخلت کرنا مناسب نہ سمجھا البتہ زمینداروں کو اجازت دے دی کہ وہ صوفی اور ان کے فقیروں سے جس طرح چاہیں نپٹ لیں۔ صوبے دار کا اشارہ پا کر زمینداروں نے جھوک کی بستی پر اچانک دھاوا کردیا مگر منھ کی کھائی البتہ کئی فقیر مارے گئے اور لوگوں کا مالی نقصان بھی ہوا۔ شہدا کے وارثوں نے زمینداروں کی اس لا قانونیت کے خلاف شاہی دربار میں استغاثہ دائر کیا تو وہاں سے حکم صادر ہوا کہ ” مرتکبین بادشاہ کے حضور آکر بے گناہوں کے خون کا حساب دیں ۔ چوں کہ انھوں نے شاہی حکم کی تعمیل سے انحراف کیا لہٰذا خوں بہا کے عوض سلطانی دستورالعمل کے مطابق ان کی زمینیں مقتولین کے ورثا کے حوالے کر دی گئیں۔‘‘
فقیروں کی اس قانونی جیت سے گرد پیش کے مزارعین کے حوصلے بڑھ گئے اور سرکاری حکام اور زمینداروں کی بھی وہ پہلی سی ہیبت نہ رہی بلکہ؛
کثر غربا و سائر مردم اضلاع در مہدِ امان ان اضلاع کے اکثر غربا اور سائر
آن اہل اللہ از جنگِ تظلم زمینداران زمینداروں کے ظلم سے نجات پاکراس
رہائی یا فتہا مامون نشتند اہل اللہ (صوفی شاہ عنایت) کے دامینِ پناہ میں امن سیرہنے لگے
اس سے پتہ چلتا ہے کہ صوفی شاہ عنایت کی کسان تحریک زیریں سندھ میں کئی ضلعوں میں پھیل گئی تھی اور صوفی صاحب کی پشت پناہی کی وجہ سے لوگوں میں اتنی طاقت آ گئی تھی کہ زمیندار اب ان پر ہاتھ اٹھانے کی جرات نہ کرسکتے تھے۔ اسی اثنا میں ” جور زمانہ سے تنگ آکر فقیروں کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہونے لگا اور ہر درو دیورا و گنبد و خانقاہ سے ہمہ اوست کی صدائیں بلند ہونے لگیں‘‘۔
فرخ سیر نے غالباً یہ سمجھ کر کہ میر لطف علی خان فقیروں کے ساتھ نرمی برت رہا ہے اس کو بر طرف کر کے نواب اعظم خان کو 1716ء میں ٹھٹھہ کا صوبے دار مقرر کردیا۔ زمینداروں نے اس تبدیلی سے فائدہ اٹھایا اور اعظم خان کے کان بھرنے شروع کردے۔ شاید نواب کو صوفی شاہ عنایت سے ذاتی پرخاش بھی تھی۔ کہتے ہیں کہ اعظم خان ایک بار صوفی شاہ عنایت سے ملاقات کے لیے گیا تو فقیروں نے اس کو یہ کہہ کر روک دیا کہ حضرت اور ادو وظائف میں مشغول ہیں۔ جب صوفی صاحب سے ملاقات ہوئی تو اعظم خان نے کہا کہ ” درِ درویش را درباں نہ شاید( درویش کے دروازے پر دربان اچھے نہیں لگتے) صوفی صاحب نے بے تامل جواب دیا کہ ” بہ یک شاید تاسگِ دنیا نہ آید‘‘ (ٹھیک ہے تاکہ دنیا کا کتا اندر نہ آنے پائے) ۔ یہ امر اعظم خان کی ذاتی رنجش کا باعث بن گیا۔
یہ روایت صحیح ہو یا غلط، نواب اعظم نے بہر حال اجتماعی زراعت کی تحریک کو کچلنے کا فیصلہ کرلیا اور چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ اس نے صوفی شاہ عنایت سے وہ واجبات طلب کیے جو ” ممنوعہ سلطانی” تھے۔ صوفی نے جواب دیا کہ جب یہ واجبات کی بادشاہ کی طرف سے معاف ہو چکے ہیں تو آپ کو ان کی وصولی کا کیا حق ہے۔ اس جواب سے نواب تلملا اٹھا۔ اس نے پیش کاروں اور متصدیوں سے مشورہ کرکے بادشاہ کے پاس شکایت لکھ بھیجی کہ صوفی شاہ عنایت اور ان کے فقیر دعوئے سلطنت کررہے ہیں اور خلیفتہ اللہ کا حکم ماننے سے انکاری ہیں 39؎ فرخ سیر نے امرِ واقعی کی تحقیقات کیے بغیر حکم صادر کردیا کہ باغیوں کو بزورِ شمشیر اطاعت پر مجبورکیا جائے۔
مرکز سے اجازت ملتے ہی نواب اعظم خان جھوک پر حملے کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔ اس نے سندھ کے سب ہی رئیسوں کے نام پروانے جاری کیے کہ اپنے اپنے سپاہی لے کر مدد کو آؤ۔
میاں یار محمد کلورہ و سائرزمینداران و جملگی (اعظم خان نے) میاں یار محمد کلہوڑہ ، تمام
اہل و احشام ایں الکہ، کہ با فقرا کینہ کہنہ می زمینداروں اوراس خطے کے ان تمام لوگوں
داشتند، احکامِ اعانت حاصل کردہ با افواج کے نام معاونت کے احکام حاصل کرلیے
برون ازا حاطہ شمار واز مور ملخ بسیار ، کہ از تھے جو فقیروں سے پرانی دشمنی رکھتے تھے
جد سیوی داور تاکنارہ دریائے شور جمع آمدہ یوں ایک ایسی فوج تیارکرکے فقیروں پر حملہ کیا جو شمار نہیں کی جا سکتی تھی اور چیونٹیوں اور ٹڈیوں سے بھی زیادہ تھی اور سبی و ڈھاڈر سے سمندر تک کے علاقے سے جمع کی گئی تھی۔
صوفی شاہ عنایت صلح پسند بزرگ تھے۔ ان کو جب زمینداروں کی مخالفت اور اعظم خان کی فوجی تیاریوں کی خبر ملی تو وہ افسوس کرنے لگے کہ ” میں بازار عشق میں یہ سودا اس لیے تو نہیں لایا تھا اورنہ میں چاہتا تھا کہ اس طرح کا شورو غل بپا ہو کہ داروگیر کا میدان آراستہ ہو جائے”۔ جب دشمن کی فوجوں نے جھوک کا رُخ کیا تو فقیروں نے تجویز پیش کی کہ کیوں ہ ہم ان پر راستے میں حملہ کردیں تاکہ شاہی لشکر کو اپنی صفیں آراستہ کرنے کا موقع نہ ملے اور جھوک محاصرے سے بچ جائے مگر ” شاہِ خدا آگاہ نے پیش دستی کی اجازت نہیں دی‘‘۔
جھوک فقیروں کی پرامن بستی تھی فوجی چھاؤنی نہ تھی۔ فقیروں کے پاس ان کی ” کاغذی” تلواروں کے سوا جن کے دستے لکڑی کے تھے اگر کوئی اسلحہ تھا تو وہ کاٹھ کا ایک زنبورچہ تھا جب کہ دشمن ” تو پہائے پیل کش روئیں‘‘ (ہاتھیوں کو ہلاک کرنے والی لوہے کی توپیں) سے مسلح تھے۔ مگر میاں یار محمد (خدایار خان کلہوڑا والی بھکر) اور میراں سنگھ کھتری ملتانی کے خطوط سے جو میدانِ کارزار سے لکھے گئے تھے اندازہ ہوتا ہے کہ پرانے زمانے کے دستور کے مطابق جھوک کے گرد کچی مٹی کی مضبوط دیواری موجود تھی اور گہری خندق بھی کھدی ہوئی تھی جو پانی سے بھری تھی۔
میاں یار محمد نے جھوک کے محاصرے کے دوران جو خط اپنے بیٹے میاں نور محمد کو فارسی میں لکھا تھا اس سے پتہ چلتا ہے کہ شاہی لشکر 12 اکتو بر 1717ء کو یا اس سے دو چار دن پیش تر دریائے اوتھل سے کوچ کرکے پہنچا اور بستی سے ایک میل کے فاصلے پر مقیم ہوا البتہ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ حملہ آوروں اور فقیروں کی تعداد کیا تھا۔ میران سنگھ کھتری ملتانی کے خط سے پتہ چلتا ہے کہ ” نواب اعظم خان کی جمعیت قلیل تھی‘‘ اور مقابلہ دراصل خدایار خان کی کثیر فوج اور فقیروں ہی میں ہوا۔ وہ لکھتا ہے کہ ” قلعہ مفسد‘‘ کو ایک جانب خدا یار خان نے محاصرہ کیا اور ” بہ آوازِ بندو قہائے برق شرائر و جزائر عد نوائر ہوش ربائے مقہور شدند‘‘ (برق گرانے والی بندوقوں اور رعد کی سی ہوش ربا آواز پیدا کرنے والے جزیروں سے دشمن پر قہر برسانے لگے) اور دوسری طرف نواب اعظم خان نے مورچہ لگایا اور “بہ تیرو خدنگ ہنگامہ آرائی معرکہ جنگ گردیدند (تیروں سے جنگ کا ہنگامہ برپا کیا) میران سنگھ نے اپنے محسن میاں خدا یار خان کی فوجی برتری اور شاہی لشکر کی کمتری کو بڑی ہوشیاری سے واضح کیا ہے۔ فقیروں کی جمعیت کو وہ دس ہزار سوار بتاتا ہے جو سراسر غلط ہے۔ ان کے پاس گھوڑوں کجا اتنے تو آدمی بھی نہ تھے۔ میاں یار محمد نے اپنے خط میں فقیروں کے شب خون مارنے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی تعداد سترہ سو پیادہ تھی” کہ در حقیقت روحِ تمام مفسدان بو”۔ اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ فقیروں کی کل تعداد دو ڈھائی ہزار سے زیادہ نہ تھی اور ان کے پاس آتشیں اسلحہ بالکل نہ تھا۔
شب خون کا واقعہ 12 اکتوبر 1717ء کو اسی رات پیش آیا جس دن شاہی لشکر نے جھوک کا محاصرہ کیا۔ میاں یار محمد لکھتے ہیں کہ:
”اتوار کی رات تھی۔ ہمارا لشکر گھراؤ ڈالے پڑا تھا۔ ابھی ایک پہر رات باقی تھی کہ مفسدوں کے ایک ہزار سات سو پیادے شب خون کے ارادے سے کسی نہ کسی طرح لشکر تک پہنچ گئے اور جوق در جوق کئی جگہوں پر لشکر میں گھس آئے اور بلا خوف و تردد حملے کرنے لگے چنانچہ لشکر کے بہت سے آدمی کام آئے البتہ ہمارے دلیروں نے کشتوں کے پشتے لگا دیے اور گنتی کے چند مفسد ہی اپنی جان جان سلامت لے جا سکے ‘‘۔
” اس شب خون میں ‘اکثرپھوار من جملہ قاسم پسر گہرام اور سید بولہ وکیل ٹھٹھہ و احمد بوبکانی و اودھیجہ قوم کے ہمارے بھائی اور دوسرے زمیندار بھی مارے گئے ‘‘۔
جس وقت یہ حملہ ہوا تو وہ سپاہی جو میاں یار محمد کے خیمے کے گرد پہرے پر مامور تھے ” ادھر اُدھر ہوگئے‘‘ (شاید جان بوجھ کر) مگر خیریت گزری کہ میاں یار محمد کے دو بیٹے میاں داؤد میاں غلام حسین اور بھائی میر محمد بن میاں نصیر محمد موقعہ واردات پر موجود تھے۔ چنانچہ انھوں نے ” غبارِ فتنہ رابآبِ شمشیر فرو نشاند ند” ۔ اس چپقلش میں میاں غلام حسین زخمی ہوئے۔
محاصرے کو دو مہینے گزرگئے مگرشاہی لشکر توپ و تفنگ سے لیس ہونے کے با وصف جھوک پر قبضہ کرنے کی جرات نہ کرسکا۔ اسی اثنا میں صاحبزادہ سید حسین خان اور کئی زمیندار نواب اعظم کے حسبِ پروانہ کمک لے کر جھوک پہنچ گئے لیکن شاید ان ہی دنوں سیلاب آگیا اور”گردِ قلعہ مفسد طغیانی آب بمرتبہ بود کہ از چہار طرف تازہ کردہ نشانِ خشکی نمایاں نمی شد” (صوفی عنایت کے ” قلعے” کے گرد پانی اس کثرت سے تھا کہ چاروں طرف چار پانچ میل تک خشکی کا نشان نظر نہیں آتا تھا) بہرحال صاحبزاد صاحب کی فوج نے کسی نہ کسی طرح پانی عبور کیا اور جھوک کی چہاردیواری کے قریب مورچہ لگایا۔ میاں یار محمد فرزندِ ارجمند کے اس کمالِ بے مثال کی قصیدہ خوانی فرماتے ہوئے یوں گہرافشاں ہیں گویا موصوف نے ہفت خواں فتح کرلیا ہو۔ لکھتے ہیں کہ؛
سپاہ پادشاہی ، فتح یا باں بادشا کی فوج فتح یاب ہے اور
عدواز سوزغم، بس دل کباباں دشمن کا دل شوزِ غم سے کباب ہے
سپاہِ پادشاہی درشکر خند بادشاہ کی فوج مسکرا رہی ہے اور
عدوں چوں غنچہ، دستارازسر افگند دشمن نے کلی کی مانند اپنی پگڑی سر سے اتارپھینکی ہے
سپاہ پادشاہی درشکر خند بادشاہ کی فوج کا دل باغ باغ ہے اور
عدو چوں بوم، درویراں فتادہ دشمن اُلوؤں کی مانند ویرانے میں پڑا ہے
سپاہِ پادشاہی، شادو فیروز بادشاہ کی فوج شاد اور کامیاب ہے
عدو و لشکر ش، ناشاد ودل سوز بادشاہ کی فوج خوش خرم ہے اور
عدو ہر دم بہ غم ہم ارتباط است دشمن ہر لحظہ غم سے دوچار ہے
سپاہ پادشاہی رُوبہ شادی بادشاہ کی فوج کا چہرہ خوشی سے کھلا ہوا ہے
عدو عاجز، بدستِ نامرادی دشمن عاجز و نامراد ہے
سپاہ پادشاہی پرشکوہ است بادشاہ کی فوج پر شکوہ ہے اور
عدواز جانِ خود ہر جاستوہ است دشمن اپنی جان سے تنگ ہے
سپاہِ پادشاہی، دل خروشاں بادشاہ کی فوج دل دہلانے والی ہے اور
عدو چوں مردگاں ، ازلب خموشاں دشمن کے ہونٹ مردوں کی طرح خاموش ہیں
سپاہ پادشاہی، نصرت اندوز بادشاہ کی فوج کا اثاثہ جیت ہے
نشستہ برعدو پیکاں جگردوز وہ دشمن پر سینے میں پیوست ہونے والے تیر کی مانند چڑھی ہوئی ہے۔
آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ صاحب زادہ بلندا قبال عنقریب “آن بدسگالِ لعین” (صوفی شاہ عنایت ) کو قتل کردیں گے یا گرفتار۔
اس بات کو دو مہینے گزر گئے لیکن فقیروں کی قوتِ مقاسمت میں کمی آئی اورنہ شاہی فوج ان کو زیر کرسکی۔ پھر یوں ہوا کہ ایک صبح” خان والا شان اور نواب عالی مکان‘‘ ہاتھیوں پر سوار ہو کر” شیرانہ و دلیرانہ‘‘ جھوک کی چہاردیواری کے قریب آئے اور ” دلیران نبردکیش و دلاورانہ شہامت اندیش” سے کہا کہ ” پہلے تم اس چہارد یواری کو توپ اور بندوق سے دھنیے کی رُوئی کی طرح ہوا میں اُڑا دو پھر ہم فقیروں کے خرمنِ حیات کو تلواروں کی آگ سے جلا کر خاک کردیں گے‘‘۔ مگر اتفاق سے وہاں پر صوفی کا کوئی جاسوس موجود تھا۔ اس نے فقیروں کو دشمن کے اس منصوبے سے آگاہ کردیا لہٰذا یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔
محاصرہ چار مہینے تک جاری رہا۔ فقیروں کے پاس توپیں بندوقیں نہ تھیں لہٰذا اُن کو شب خون مارنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ یہ طریقہ اتنا کار آمد ثابت ہوا کہ میر علی شیر قانع کے بقول ” حملہ آور تباہی کے قریب جا پہنچے تھے‘‘۔
صوفی عنایت نے فقیروں کو ہدایت کردی تھی کہ شب خون نہایت خاموشی سے مارو لیکن ایک رات کسی فقیر نے غلطی سے اسمِ ذات (اللہ) کا نعرہ لگادیا اور دوسرے بھی اس کے شریک ہو گئے جس کی وجہ سے لشکر میں اپنے اور پرائے ظاہر ہو گے اور بیش تر فقرا تلوار کا لقمہ بن گئے‘‘۔
شاہی لشکر میں جاسوسوں کی موجودگی سے اور اس بیان سے کہ نعرہ لگانے کی وجہ سے لشکر میں ” اپنے اور پرائے ظاہر ہو گئے‘‘۔ یہ گمان ہوتا ہے کہ کچھ فقیر خفیہ طورپر دشمن کی فوج میں شامل ہو گئے تھے اور عام لشکریوں کو اپنا ہمدرد بنانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ شاہی لشکر چوں کے بھاڑے کے سپاہی تھے اور جھوک سے ان کو نہ کوئی ذاتی عناد تھا اور نہ ذاتی مفاد وابستہ تھا لہٰذا ان کو نواب اور زمینداروں سے منحرف کرنا چنداں دشوار نہ تھا ۔ ہمارے اس قیاس کو محاصرے کی طوالت اور ناکامی سے مزید تقویت ملتی ہے۔
شب خون میں فقیروں کو شکست سے نقصان ضرور پہنچا مگر ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور وہ دشمن سے بدستور مقابلہ کرتے رہے۔ آخرکار جب فقیروں پر فتح پانے کا کوئی امکان نہ رہا تو دشمن نے دغا و فریب سے کام لیا اور 1 جنوری 1718ء کو صوفی شاہ عنایت کے سامنے صلح کی تجویز پیش کی گئی۔ ” میاں خدا یار کلہوڑا کا بیٹا محمد خان اور شہداد بلوچ وغیرہ سالارانِ فوج نے قرآن کو درمیان میں رکھ کر عہد کیا کہ فقیروں کی جان و مال کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا ۔‘‘ صوفی شاہ عنایت کے بعض رفقا نے ان کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ یہ قسمیں اور عہدو پیمان دشمن کی چالیں ہیں۔ ان کے دھوکے میں نہ آئیے اور مقابلہ جاری رکھیے مگر خدا پرست صوفی قرآن کی قسم پر کیسے شک کرسکتا تھا چنانچہ انھوں نے صلح کی تجویز منظورکرلی۔ جھوک کا پھاٹک کھول دیا گیا اور شاہی فوج نے بستی پر بلا کسی مزاحمت یا خوں ریزی کے قبضہ کرلیا۔ بعد ازاں صوفی شاہ عنایت کو بڑے احترام کے ساتھ نواب اعظم خان کے خیمے میں صلح نامے پر دستخط کرنے کے بہانے لایا گیا لیکن وہاں پہنچتے ہیں گرفتار کرکے ہتھکڑیاں، بیڑیاں پہنا دی گئیں۔
تب شاہی انتقام کی آگ نے جھوک کا رُخ کیا اور فقیروں کا قتلِ عام شروع ہوا۔ ان کے گھر جلا دیے گئے ۔ ان کا اثاثہ لوٹ لیا گیا اور بستی کی چہار دیواری مسمار کردی گئی۔ جھوک کی اجتماعی کھیتی سیلابِ خون میں ڈوب گئی۔ نہ بیج بونے والے بچے نہ فصل کاٹنے والے۔
جھوک کو نیست و نابود کرنے کے بعد نواب اعظم خان ٹھٹھہ واپس آیا اور صوفی شاہ عنایت دربارمیں طلب کیے گئے۔ میرعلی شیرقانع راوی ہیں کہ صوبے داری اور صوفی کے مابین دربار میں جو سوال و جواب ہوا وہ ” طوفانی داستان‘‘ ہے۔ مختصر یہ کہ نواب نے جتنے سوال کیے صوفی شاہ عنایت نے ان کے جواب خواجہ حافظ شیرازی کی زبان میں دئیے۔
نواب اعظم خان: بتاؤ تم نے یہ شورش کیوں برپا کی؟
صوفی شاہ عنایت :
آں روز کہ تو سنِ فلک ذیں کردند آرائش مشتری زپردیں کردند
ایں بود نصیب ماز دیوانِ قضا ماراچہ گنہ، قسمت ماایں گردند
جس دن خدا نے آسمان کو گردش کا حکم دیا اور مشتری ستارے کو سات چھوٹے ستاروں کی جھرمٹ سے آراستہ کیا خدا کی عدالت سے میرا یہی نصیب مقرر ہوا تھا اس میں میرا کیا قصور، میری قسمت ہی میں یہ لکھا تھا۔
شیخ محمد رضا شاعر نے جو اعظم خان کے پاس بیٹھا تھا کہ کہ ؛
دوست بیدار، بشو، عالم خواب است اینجا دوست عالمِ خواب سے جاگ جاؤ
حرفِ بیہودہ مگوپاء حساب است اینجا بیہودہ باتیں مت کرو کہ یہ تمھارا وقتِ حساب ہے
صوفی شاہ عنایت:
درکوئے نیک نامی مارا گذرنہ دادند مجھ کو نیک نامی کے کوچے میں گھسنے نہیں دیا گیا
گر تو نمی پسندی، تغیر کن قضارا تجھ کو اگرپسند نہیں تو حکمِ خداوندی کو بدل دے
اعظم خان: پھر تو مصیبت کے لیے تیار ہو جاؤ۔
شاہ عنایت: البلاء للولاء کا للہب للذہب
اعظم خان: تم نے اپنے آپ کو کیوں بدنام کیا اور مصیبت کا شکار ہوئے۔
شاہ عنایت:
ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شدزِ عشق وہ شخص جس کا دل عشق سے زندہ ہے کبھی نہیں مرتا
ثبت است بر جریدہ عالم دوامِ ما ہماری ابدیت کی مہر دفترِ کائنات پر لگی ہوئی ہے
اعظم خان : حاکم وقت کی اطاعت کیوں ترک کی؟
شاہ عنایت:
مامریداں رُوبہ سوئے کعبہ چوں آریم چوں ہم مرید اپنا منہ کعبے کی طرف کیسے کریں
روبہ سوئے خانہ خمار دارد پیرما جب کہ ہمارے پیر کا منھ مے خانے کی طرف ہے
اعظم خان: اب اپنی خواہشوں کا ناکام ہونے کا غم کیوں کرتے ہو۔
شاہ عنایت:
من ازاں دم کہ وضو سا ختم از چشمہ عشق میں نے جس وقت عشق کے چشمے پر وضو کیا
چار تکبیر زدم یکسرہ برہرچہ کہ ہست اسی وقت ہستی کی ہرشے کو سات سلام کرلیا
اعظم خان نے جب دیکھا کہ یہ شخص مجھ سے نہ ڈرتا ہے نہ اپنے کیے پہ نادم ہوتا ہے اورنہ جان بخشی کی التجا کرتا ہے تو اس نے حکم دیا کہ گستاخ صوفی کو قید میں ڈال دو۔ شاہ عنایت نے چلتے چلتے یہ شعرپڑھا کہ؎
ساقیا برخیزدر د ہ جام را
خاک برسرکن عمِ ایاّم را
7 جنوری 1718ء مطابق 15صفر 1130ھ کو صوبے دار اعظم خان کے حکم سے صوفی شاہ عنایت کا سرقلم کردیا گیا۔ وہ آخری وقت میں یہ شعر پڑھ رہے تھے۔
رہا یندی مرا از قید ہستی
جز ایک اللہ فی الدارین خیرا
صوفی شاہ عنایت شہید ہو گئے۔ بے شمار فقیر تہ تیغ کردئیے گئے اورجھوک کی بستی بربا دہوگئی پھر بھی اربابِ اقتدار کے خوف وہراس کا یہ عالم تھا کہ وہ فقیروں کے نام سے لرزتے تھے چنانچہ اعظم خان نے منادی کروا دی تھی کہ اگرکسی کی زبان سے لفظ “اللہ (جو فقیروں کا اسمِ تکبیر تھا) بلند آواز سے نکلے تو اس کا سر تلوار سے قلم کردیا جائے۔ اس حکم پر تبصرہ کرتے ہوئے میر علی شیر قانع لکھتے ہیں کہ ” سبحان اللہ! خدائی است کہ بہ عوض نام گرفتن خود سرمی کرد بلے عشق بازاں را ہمیں سر راہ است (سبحان اللہ کیا خدائی ہے کہ خود اس کا نام لینے پر سر قلم ہوتے تھے لیکن عاشقوں کا یہی راستہ ہے)۔
ہم نہیں کہہ سکتے کہ اعظم خان اور صوفی شاہ عنایت کے درمیان مکالمے کی داستان کسی معتبر شہادت پر مبنی ہے یا صوفی شہید کے کسی خوش مذاق مداح کی پروازِ تخیل کی تخلیق ہے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صوفی شاہ عنایت آخر وقت تک اپنے اصولِ زیست پر قائم رہے۔ ان کے پانے استقلال میں ایک لمحے کے لیے بھی لغزش نہیں ہوئی۔
تحفتہ الکریم کے بیان کے مطابق میاں یار محمد کلہوڑا کو ” اعلیٰ خدمات کے عوض شماداتی اور چاچکاں کے علاقے سے لکری، دندا، حجام، دورنک، رجب، پسر، پاچاتہ، ٹھور اور دیہ سائیں ڈنہ کے موضعے بطور انعام عطا ہوئے۔ اس طرح وادی سندھ میں اجتماعی زراعت اور منصفانہ تقسیم دولت کا پہلا تجربہ انجام کو پہنچا۔
صوفی شاہ عنایت نے فیوڈلزم کے دور میں اجتماعی زراعت یعنی سوشلسٹ طریقہ پیداوار اور طریقہ تقسیم کو رواج دینے کی کوشش کی تھی۔
ان کایہ اقدام لاکھ لائق تحسین و تعریف سہی اوران کی اوران کے رفقا کی قربانیاں لاکھ لائقِ احترام مگر معاشرتی ارتقا کے قانون پر کسی کا اختیار نہیں ہے۔ کوئی شخص خواہ وہ کتنا ی بڑا انقلابی کیوں نہ ہو اور خدمتِ خلق کے جذبے سے کتنا ہی سرشار کیوں نہ ہو اس قانون پر سبقت نہیں لے جا سکتا۔ صوفی شاہ عنایت کی خواہش بڑی نیک تھی لیکن تقدیریں فقط خواہشوں سے نہیں بدلتیں۔ان کا خواب بہت خوش آئیند تھا لیکن وہ یہ خواب کم از کم دو صدی پہلے دیکھ رہے تھے جب کہ اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے نہ معروضاتی خیالات موجود تھے نہ موضوعی حالات موزوں تھے۔ نہ پیداواری قوتوں نے اتنی ترقی کی تھی کہ فیوڈل ازم کا خاتمہ ناگزیر ہو جاتا اور نہ محنت کشوں میں جن کا منصب سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہے اپنے تاریخی کردار کا شعور پیدا ہوا تھا ( یہ شعور آج بھی نہیں ہے) اٹھارویں صدی کا محنت کش طبقہ سندھ میں یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ نوابوں جاگیرداروں کے ہاتھوں سے سیاسی طاقت چھین کر خود برسرِ اقتدار آجانا چاہیے۔ (اہلِ جھوک نے تو کبھی ٹھٹھہ پر قبضہ کرنے کے بارے میں بھی غور نہ کیا چہ جائیکہ سندھ پر) ایسی صورت میں صوفی شاہ عنایت کے تجربے کو لازماً ناکام ہونا تھا سو ہوا البتہ بیرونی قوتوں کی چال بازیوں سے نہ کہ اندرونی خرابیوں کی وجہ سے۔
صوفی شاہ عنایت کو اپنے تجربے کی تاریخی اہمیت کا احساس نہ تھا اورنہ ان کو اس بات کا اندازہ تھا کہ اجتماعی کھیتی کی تحریک زمینداروں کے حق یں کتنی مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ بہ ظاہر یہ تحریک کسی چھوٹے سے تالاب کے بند پانی میں ایک کنکری کی موجوں سے زیادہ نہ تھی مگر صوفی اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ ان لہروں میں طوفانی موجوں کی توانائی پوشیدہ ہے جو ابھر کر پوری جاگیرداری نظام کو خس و خشاک کی طرح بہا لے جانے کی قدرت رکھتی ہے۔ اُن میں عوام کی مسلح جدو جہد کی قیادت صلاحیت بھی نہ تھی۔ مثلاً فقیروں نے جب مشورہ دیا کہ نواب کی فوج پر راستے ہی میں بڑھ کر حملہ کردیا جائے تاکہ دشمن کو صف بندی کرنے اور جھوک کو گھیر لینے کا موقع نہ ملے تو صوفی شاہ عنایت نے پیش دستی سے انکار کردیا اور دفاعی مقابلے ہی پر اکتفا کیا۔ اس طرح لڑائی چھڑنے سے پہلے ہی لڑائی کا فیصلہ ہوگیا کیوں کہ دفاعی جنگ عموماً شکست کی تمہید ہوتی ہے۔ (یہی غلطی 1857ء) دہلی کے قلعہ بند لشکر نے بھی کی اور انگریزوں کو موقع دے دیا کہ وہ پنجاب اور دوسرے مقامات سے فوجیں اور سامانِ رسد لے جا کر دہلی پر حملہ کرسکیں۔) انھوں نے حصار بند ہو کر دشمن کو کھلی چھٹی دے دی اور اپنا ناتہ سندھ کے عوام سے توڑلیا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے کسان فقیروں کی سرفروشانہ جدو جہد کو اپنی جدو جہد نہ سمجھ سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جھوک کے ففیروں کو یہ جنگ تنہا لڑنی پڑی۔ سندھ میں ان کا کوئی حامی و مدد گار نہ پیدا ہوا۔ اور فقیروں کی یہ جنگ ایک وقتی اور مقامی سانحے سے زیادہ اہمیت نہ اختیار کرسکی۔
یہ محاکمہ اپنی جگہ لیکن صوفی شاہ عنایت کا یہی تاریخی کارنامہ کیا کم ہے کہ انھوں نے اجتماعی کھیتی کا کامیاب تجربہ کرکے ثابت کردیا کہ زمیندار اور جاگیردار حائل نہ ہوں تو کھیتی باڑی زیادہ خوش اسلوبی سے ہو سکتی ہے اور رقابت و دشمنی کے بجائے یگانگت اور امدادِ باہمی کے جذبات فروغ پا تے ہیں اور یہ بھی واضح ہوگیا کہ ریاست کی قوتِ قاہرہ حق و انصاف کی حمایت کرنے کے بجائے اب تک ہمیشہ عوام کے خلاف اورنچے طبقوں کے مفاد کی حمایت کرتی رہی ہے۔ افسوس اس کا ہے کہ تاریخ کی درسی کتابوں میں محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں کا ذکر تو بڑی شدو مد سے کیا جاتا ہے لیکن ہماری نئی نسل صوفی شاہ عنایت شہید کے نام سے بھی واقف نہیں۔
سید سبط حسن نامور ترقی پسند دانشور، صحافی اور ادیب تھے ۔انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور وہ پیام، نیا ادب اور نیشنل ہیرالڈ جیسے رسالوں اور اخبار سے وابستہ رہے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ لاہور میں اقامت پزیر ہوئے جہاں انہوں نے 1957ء میں میاں افتخار الدین کے اہتمام میں ہفت روزہ لیل و نہار جاری کیا۔ جب میاں افتخار الدین کے ادارے کو صدر ایوب خان کی حکومت نے جبری طور پر قومی تحویل میں لیا تو سبط حسن لیل و نہار کی ادارت سے مستعفی ہو گئے اور 1965ء میں کراچی منتقل ہو گئے۔ کراچی میں انہوں نے اپنا زیادہ تر وقت تصنیف و تالیف میں بسر کیا اور اس دوران ماضی کے مزار، موسیٰ سے مارکس تک، پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء، انقلاب ایران، کارل مارکس اور نوید فکر جیسی خالص علمی اور فکری تصانیف پیش کیں۔ 1975ء میں انہوں نے کراچی سے پاکستانی ادب کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا۔
اگست 1985ء میں لندن میں، مارچ 1986ء میں کراچی میں اور اپریل 1986ء میں لکھنؤ میں ترقی پسند تحریک کی گولڈن جوبلی منائی گئی تو سید سبط حسن نے ان تینوں تقریبات میں فعال کردار ادا کیا۔