ہمارا آج کا موضوع صرف گفتگو کی حد تک آج کا کہا جا سکتا ہے، ورنہ یہ پہلا اور آخری یا بد قسمت کوئی Isolated واقعہ نہیں . گذشتہ روز میڈیا میں رپورٹ ہوا ہے، کہ خیبر پختون خواہ کے علاقہ کوہستان میں جرگہ کے فیصلے کے تحت ایک لڑکی کو غیرت کے نام پر خاندان کی معاونت سے قتل کر دیا گیا ۔ وجہ بتائی جا رہی ہے کہ لڑکے کے ڈانس پر کچھ لڑکیوں کی تالیاں بجاتے ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ وجہ کوئی بھی ہو قتل کا سرٹیفکیٹ فراہم نہیں کرتی ۔
ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ کسی طرح ایسے بے رحمانہ واقعات کے اسباب کی صحت مند پڑچول ہو پائے ۔ ہوتا کیا ہے کہ ہمارے فیمنسٹ ساتھی مرد یا عورت اسے صرف پدر سری کا نام دے کر بات ختم کر دیتے ہیں ۔ فیمینسٹ ہم بھی ہیں ۔ اس سے قبل سوشلسٹ ہیں ۔ہر سوشلسٹ فیمنسٹ بھی ہوتا ہے ، لیکن ہر فیمینسٹ سوشلسٹ نہیں ہوتا۔ اس وقت ہم اس بحث میں پڑے بغیر تعمیری گفتگو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
یہاں ہم اپنا مختصر نقطہ نظر رکھ دینا چاہتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک یہ سب صرف اورصرف پدر سری تک محدود نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پدر سری کئی اسباب میں سے ایک ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے ، کہ یہ غیرت کہاں سے جنم لیتی ہے ۔ کوئی جبلی شے ہے ۔ نہیں ، اسی دھرتی کے سماجی نظام کی پیداوار ہے۔ اسی لیئے کہیں کم کہیں زیادہ پائی جاتی ہے۔
ایسے واقعات زیادہ تر اندرون سندھ ، بلوچستان اور ایک حد تک جنوبی پنجاب میں بھی ہوتے ہیں۔ جن کا بڑا سبب جاگیردارانہ اور قبائلی نظام ہے ۔
دیکھا جائے تو پشتون معاشرہ سب سے زیادہ اس خباثت کی لپیٹ میں ہے۔ وجہ افغانستان، خیبر پختون خوا کی ایک ڈیموگرافی اور قبائلیت کی وجہ سےطالبنائزیشن کے اثرات تیزی سے قبول کر رہا ہے ۔
سندھ ، بلوچستان میں جاگیرداری اور قبائلیت کے باوجود پشتون معاشرہ سے صورتحال قدرے مختلف ہے ۔ سندھ میں پیپلزپارٹی پارٹی بڑی” عقلمندی ” سے کمرشلائزیشن پیدا ہی نہیں ہونے دے رہی ۔ اپوزیشن پیپلزپارٹی سے بھی زیادہ بوسیدہ ہے ۔ ہمارے ہر قوم کے ترقی پسند بھی اپنے ہاں کچھ نہ کچھ رونق لگائے رکھنے کے لیے قوم پرستی کے گرد گھومتے پھرتے رہتے ہیں ۔
پشتون معاشرہ بلکل مختلف حالات کی زد میں رہا ہے ۔ تاریخ میں جائیں تو بفر زون تھیوری پسماندگی کا سبب رہی ہے۔ قریب کے واقعات خاص طور پر افغان جہاد کے پیٹرو ڈالر، منشیات، اسلحہ ، سمگلنگ نےکمرشلائیزیشن ، Urbanization کو جنم دیا ۔ دوسری طرف شعوری، ثقافتی ارتقاء بہت سست روی کا شکار ہے ۔ قوم پرستی کے چکر میں ہم جتنا طالبنائزیشن کو نظر انداز کریں گے۔ پشتون سماج کی بربادی ہوتی رہے گی۔
جرگے قبائلی، جاگیردارانہ نظام کا حصہ ہیں ۔ سماج کے کمزور طبقات کےخلاف ہمیشہ فیصلے دیتے ہیں۔ ان کی ذد میں سب سے زیادہ عورت آتی ہے۔
ہم سرمایہ داری کو بھی پدر سری سے مبرا نہیں مانتے ۔ بنیادی طور پر طبقاتی نظام کی ہر شکل کم یا زیادہ اپنے اندر پدر سری کے grains رکھتی ہے ۔ اسے ڈھائے بغیر پدر سری سے نجات ممکن نہیں ۔ اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ تب تک ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر پدر سری کو قبول کیئے رکھا جائے ۔ نہیں بلکل نہیں ، ہمیں مسلسل اس کے خلاف جدوجہد جاری رکھنی پڑے گی۔
عورت کی سیاسی، سماجی، معاشی، ثقافتی empowerment کی جنگ کو ہر حال میں جاری رکھنا ہوگا ۔ دوسرا بڑا نقطہ یہ ہے ، کہ ایک جنسی صنف کو دوسرے کے مقابل کھڑا کرنے کی بجائے شانہ بشانہ ہونا چاہیے۔ خواہ سامراجی پروجیکٹ مقابل کے لئے کتنی ہی سرمایہ کاری کیوں نہ کرے ۔ جب تک ہم نظریاتی شفافیت سے طبقاتی جنگ کو اولیت نہیں دیں گے۔ عورت سماجی برابری حاصل نہیں کر پائے گی ۔ غیرت یونہی اپنے کرتوت دکھاتی رہے گی ۔
نوٹ: یہ مضمون 28 نومبر کو لکھا گیا تھا۔ موضوع کی اہمیت کے پیشِ نظر، قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔
—♦—
مصنف کے بارے
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
ہمارا آج کا موضوع صرف گفتگو کی حد تک آج کا کہا جا سکتا ہے، ورنہ یہ پہلا اور آخری یا بد قسمت کوئی Isolated واقعہ نہیں . گذشتہ روز میڈیا میں رپورٹ ہوا ہے، کہ خیبر پختون خواہ کے علاقہ کوہستان میں جرگہ کے فیصلے کے تحت ایک لڑکی کو غیرت کے نام پر خاندان کی معاونت سے قتل کر دیا گیا ۔ وجہ بتائی جا رہی ہے کہ لڑکے کے ڈانس پر کچھ لڑکیوں کی تالیاں بجاتے ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ وجہ کوئی بھی ہو قتل کا سرٹیفکیٹ فراہم نہیں کرتی ۔
ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ کسی طرح ایسے بے رحمانہ واقعات کے اسباب کی صحت مند پڑچول ہو پائے ۔ ہوتا کیا ہے کہ ہمارے فیمنسٹ ساتھی مرد یا عورت اسے صرف پدر سری کا نام دے کر بات ختم کر دیتے ہیں ۔ فیمینسٹ ہم بھی ہیں ۔ اس سے قبل سوشلسٹ ہیں ۔ہر سوشلسٹ فیمنسٹ بھی ہوتا ہے ، لیکن ہر فیمینسٹ سوشلسٹ نہیں ہوتا۔ اس وقت ہم اس بحث میں پڑے بغیر تعمیری گفتگو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
یہاں ہم اپنا مختصر نقطہ نظر رکھ دینا چاہتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک یہ سب صرف اورصرف پدر سری تک محدود نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پدر سری کئی اسباب میں سے ایک ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے ، کہ یہ غیرت کہاں سے جنم لیتی ہے ۔ کوئی جبلی شے ہے ۔ نہیں ، اسی دھرتی کے سماجی نظام کی پیداوار ہے۔ اسی لیئے کہیں کم کہیں زیادہ پائی جاتی ہے۔
ایسے واقعات زیادہ تر اندرون سندھ ، بلوچستان اور ایک حد تک جنوبی پنجاب میں بھی ہوتے ہیں۔ جن کا بڑا سبب جاگیردارانہ اور قبائلی نظام ہے ۔
دیکھا جائے تو پشتون معاشرہ سب سے زیادہ اس خباثت کی لپیٹ میں ہے۔ وجہ افغانستان، خیبر پختون خوا کی ایک ڈیموگرافی اور قبائلیت کی وجہ سےطالبنائزیشن کے اثرات تیزی سے قبول کر رہا ہے ۔
سندھ ، بلوچستان میں جاگیرداری اور قبائلیت کے باوجود پشتون معاشرہ سے صورتحال قدرے مختلف ہے ۔ سندھ میں پیپلزپارٹی پارٹی بڑی” عقلمندی ” سے کمرشلائزیشن پیدا ہی نہیں ہونے دے رہی ۔ اپوزیشن پیپلزپارٹی سے بھی زیادہ بوسیدہ ہے ۔ ہمارے ہر قوم کے ترقی پسند بھی اپنے ہاں کچھ نہ کچھ رونق لگائے رکھنے کے لیے قوم پرستی کے گرد گھومتے پھرتے رہتے ہیں ۔
پشتون معاشرہ بلکل مختلف حالات کی زد میں رہا ہے ۔ تاریخ میں جائیں تو بفر زون تھیوری پسماندگی کا سبب رہی ہے۔ قریب کے واقعات خاص طور پر افغان جہاد کے پیٹرو ڈالر، منشیات، اسلحہ ، سمگلنگ نےکمرشلائیزیشن ، Urbanization کو جنم دیا ۔ دوسری طرف شعوری، ثقافتی ارتقاء بہت سست روی کا شکار ہے ۔ قوم پرستی کے چکر میں ہم جتنا طالبنائزیشن کو نظر انداز کریں گے۔ پشتون سماج کی بربادی ہوتی رہے گی۔
جرگے قبائلی، جاگیردارانہ نظام کا حصہ ہیں ۔ سماج کے کمزور طبقات کےخلاف ہمیشہ فیصلے دیتے ہیں۔ ان کی ذد میں سب سے زیادہ عورت آتی ہے۔
ہم سرمایہ داری کو بھی پدر سری سے مبرا نہیں مانتے ۔ بنیادی طور پر طبقاتی نظام کی ہر شکل کم یا زیادہ اپنے اندر پدر سری کے grains رکھتی ہے ۔ اسے ڈھائے بغیر پدر سری سے نجات ممکن نہیں ۔ اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ تب تک ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر پدر سری کو قبول کیئے رکھا جائے ۔ نہیں بلکل نہیں ، ہمیں مسلسل اس کے خلاف جدوجہد جاری رکھنی پڑے گی۔
عورت کی سیاسی، سماجی، معاشی، ثقافتی empowerment کی جنگ کو ہر حال میں جاری رکھنا ہوگا ۔ دوسرا بڑا نقطہ یہ ہے ، کہ ایک جنسی صنف کو دوسرے کے مقابل کھڑا کرنے کی بجائے شانہ بشانہ ہونا چاہیے۔ خواہ سامراجی پروجیکٹ مقابل کے لئے کتنی ہی سرمایہ کاری کیوں نہ کرے ۔ جب تک ہم نظریاتی شفافیت سے طبقاتی جنگ کو اولیت نہیں دیں گے۔ عورت سماجی برابری حاصل نہیں کر پائے گی ۔ غیرت یونہی اپنے کرتوت دکھاتی رہے گی ۔
نوٹ: یہ مضمون 28 نومبر کو لکھا گیا تھا۔ موضوع کی اہمیت کے پیشِ نظر، قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔
—♦—
مصنف کے بارے
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT