پھُوٹ پڑیں مشرق سے کِرنیں
حال بنا ماضی کا فسانہ
گونجا مستقبل کا ترانہ
بھیجے ہیں احباب نے تحفے
اَٹے پڑے ہیں میز کے کونے
دُلہن بنی ہوئی ہیں راہیں
جشن مناؤ سالِ نو کے
نکلی ہے بنگلے کے در سے
اِک مُفلس دہقان کی بیٹی
افسردہ مرجھائی ہوئی سی
جسم کے دکھتے جوڑ دباتی
آنچل سے سینے کو چھپاتی
مُٹھی میں اِک نوٹ دبائے
جشن مناؤ سال نَو کے
بھوکے زرد گداگر بچے
کار کے پیچھے بھاگ رہے ہیں
وقت سے پہلے جاگ اُٹھے ہیں
پیپ بھری آنکھیں سہلاتے
سر کے پھوڑوں کو کُھجلاتے
وہ دیکھو کچھ اور بھی نکلے
جشن مناؤ سال ِنو کے
—♦—
جواب دیں جواب منسوخ کریں
پھُوٹ پڑیں مشرق سے کِرنیں
حال بنا ماضی کا فسانہ
گونجا مستقبل کا ترانہ
بھیجے ہیں احباب نے تحفے
اَٹے پڑے ہیں میز کے کونے
دُلہن بنی ہوئی ہیں راہیں
جشن مناؤ سالِ نو کے
نکلی ہے بنگلے کے در سے
اِک مُفلس دہقان کی بیٹی
افسردہ مرجھائی ہوئی سی
جسم کے دکھتے جوڑ دباتی
آنچل سے سینے کو چھپاتی
مُٹھی میں اِک نوٹ دبائے
جشن مناؤ سال نَو کے
بھوکے زرد گداگر بچے
کار کے پیچھے بھاگ رہے ہیں
وقت سے پہلے جاگ اُٹھے ہیں
پیپ بھری آنکھیں سہلاتے
سر کے پھوڑوں کو کُھجلاتے
وہ دیکھو کچھ اور بھی نکلے
جشن مناؤ سال ِنو کے
—♦—