ہم کیوں کہتے ہیں کہ یاسِیّت ہم پہ منع فرما دی گئ ہے اور جدوجہد فرض۔ اس لیئے کہ جدوجہد ہماری choice ہے۔ ہم پہ تھونپی نہیں گئی ۔ کامیابی اضافی ہے۔ محنت کشوں کے راج کا راستہ ہم نے خود چُنا ہے ۔ اس میں اُتار چڑھاؤ، نشیب و فراز تاریخ کا حصہ ہیں ۔ اس اُتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز کو جاننے کی بجائے بھاگنا ، فراریت اور مایوس ہونا بزدلی ہے۔
عالمی محنت کش تحریک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو مختلف وقتوں اور معاشروں میں ایسے وقت آتے رہے ہیں ۔لمحہ موجود میں بھی ہیں ۔ سوویت یونین کی ناکامی لمحہ حالیہ ہے ۔ اس وقت تاریخ اسی کیفیت سے گزر رہی ہے ۔ آئندہ بھی ایسا وقت آتا رہے گا ۔ جب تک سامراج اور سرمایہ داری کسی نہ کسی شکل میں موجود رہیں گی۔
دوسرا یاسِیّت، مایوسی اُن کا مقدر ہے، جو لفظوں کی قدر و حُرمت سے بے بہرہ اور الفاظ کے معنی سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ الفاظ اساس علم ہیں ۔ لفظ ، ان کے معنی ، متن کی Form اور ترتیب مرتب کرتے ہیں، جس سے فکر اور نظریہ تکمیل پاتا ہے ۔ لفظوں کے معنی کی نمو کا عمل بلند تخیل، فکر اور نظریہ کی سہار ہوتے ہیں۔۔۔
یہیں دو باتیں اور واضع کرتے چلیں، کہ آئندہ تحریر میں الفاظ کی بجائے زیادہ تر فکر اور نظریہ کی اصطلاح استعمال کریں گے۔ دوسرا گفتگو ہماری روایت مارکسزم اور محنت کشوں کے اقتدار کے دائرہ کے میں ہی ہوگی۔
تھامسن مان نے گزشتہ صدی میں ایک پتے کی بات کہی تھی؛
” ہمارے عہد میں انسانی تقدیر سیاسی اصلاحات میں اپنا معنی ظاہر کرتی ہے”۔
ہم زبان Language کی پِچ پر بات کرنے نہیں جارہے۔ اورنہ ہی یہ ہمارے ملحوظِ خاطر ہے۔ ہمارے نزدیک جن کا فکر اور نظریہ سے تعلق جس قدر پست درجے کا ہوگا ۔ ان کی understanding ، perception , شخصیت ، جمالیات حتیٰ کہ اظہار expression میں بھی گھٹیا پن طاری اور پستی مسلط رہےگی۔
understanding جتنی پست ہوگی ، فراریت کے امکانات بھی اُتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ اس سے ہمارے سمیت کسی کو استثنا حاصل نہیں ہے۔ معلوم میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا ۔ نامعلوم کا Impression معلوم سے بڑھتا جائے گا۔ معلوم کی طلب میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔ الفاظ، معنی ، متن، فکر ، نظریہ اور کتاب قوت حاصل کرتے جائیں گے۔ یہی طلب انسان کی تکمیل کرتی جائے گی ۔
برٹولٹ بریخت کا کہنا ہے؛
” سوچ ایک حقیقی شہوانی مسرت ہوتی ہے۔”
ہمارے نزدیک یہی شہوانی مسرت استقامت کا سبب ہوتی ہے ۔ فرار، مایوسی کے امکانات کم سے کم ہوتے جاتے ہیں۔ جاننا، ماننا، استقامت ایک دوسرے کے مرہونِ منت ہیں۔ جاننا شعوری، جب کہ ماننا لاشعوری فعل ہے۔ فکر و خیال میں پوشیدہ بے پناہ خالی پن استقامت میں جھول پیدا کرتا ہے۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے۔
Comments 2
جواب دیں جواب منسوخ کریں
ہم کیوں کہتے ہیں کہ یاسِیّت ہم پہ منع فرما دی گئ ہے اور جدوجہد فرض۔ اس لیئے کہ جدوجہد ہماری choice ہے۔ ہم پہ تھونپی نہیں گئی ۔ کامیابی اضافی ہے۔ محنت کشوں کے راج کا راستہ ہم نے خود چُنا ہے ۔ اس میں اُتار چڑھاؤ، نشیب و فراز تاریخ کا حصہ ہیں ۔ اس اُتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز کو جاننے کی بجائے بھاگنا ، فراریت اور مایوس ہونا بزدلی ہے۔
عالمی محنت کش تحریک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو مختلف وقتوں اور معاشروں میں ایسے وقت آتے رہے ہیں ۔لمحہ موجود میں بھی ہیں ۔ سوویت یونین کی ناکامی لمحہ حالیہ ہے ۔ اس وقت تاریخ اسی کیفیت سے گزر رہی ہے ۔ آئندہ بھی ایسا وقت آتا رہے گا ۔ جب تک سامراج اور سرمایہ داری کسی نہ کسی شکل میں موجود رہیں گی۔
دوسرا یاسِیّت، مایوسی اُن کا مقدر ہے، جو لفظوں کی قدر و حُرمت سے بے بہرہ اور الفاظ کے معنی سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ الفاظ اساس علم ہیں ۔ لفظ ، ان کے معنی ، متن کی Form اور ترتیب مرتب کرتے ہیں، جس سے فکر اور نظریہ تکمیل پاتا ہے ۔ لفظوں کے معنی کی نمو کا عمل بلند تخیل، فکر اور نظریہ کی سہار ہوتے ہیں۔۔۔
یہیں دو باتیں اور واضع کرتے چلیں، کہ آئندہ تحریر میں الفاظ کی بجائے زیادہ تر فکر اور نظریہ کی اصطلاح استعمال کریں گے۔ دوسرا گفتگو ہماری روایت مارکسزم اور محنت کشوں کے اقتدار کے دائرہ کے میں ہی ہوگی۔
تھامسن مان نے گزشتہ صدی میں ایک پتے کی بات کہی تھی؛
” ہمارے عہد میں انسانی تقدیر سیاسی اصلاحات میں اپنا معنی ظاہر کرتی ہے”۔
ہم زبان Language کی پِچ پر بات کرنے نہیں جارہے۔ اورنہ ہی یہ ہمارے ملحوظِ خاطر ہے۔ ہمارے نزدیک جن کا فکر اور نظریہ سے تعلق جس قدر پست درجے کا ہوگا ۔ ان کی understanding ، perception , شخصیت ، جمالیات حتیٰ کہ اظہار expression میں بھی گھٹیا پن طاری اور پستی مسلط رہےگی۔
understanding جتنی پست ہوگی ، فراریت کے امکانات بھی اُتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ اس سے ہمارے سمیت کسی کو استثنا حاصل نہیں ہے۔ معلوم میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا ۔ نامعلوم کا Impression معلوم سے بڑھتا جائے گا۔ معلوم کی طلب میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔ الفاظ، معنی ، متن، فکر ، نظریہ اور کتاب قوت حاصل کرتے جائیں گے۔ یہی طلب انسان کی تکمیل کرتی جائے گی ۔
برٹولٹ بریخت کا کہنا ہے؛
” سوچ ایک حقیقی شہوانی مسرت ہوتی ہے۔”
ہمارے نزدیک یہی شہوانی مسرت استقامت کا سبب ہوتی ہے ۔ فرار، مایوسی کے امکانات کم سے کم ہوتے جاتے ہیں۔ جاننا، ماننا، استقامت ایک دوسرے کے مرہونِ منت ہیں۔ جاننا شعوری، جب کہ ماننا لاشعوری فعل ہے۔ فکر و خیال میں پوشیدہ بے پناہ خالی پن استقامت میں جھول پیدا کرتا ہے۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے۔
Comments 2
-
-
للکار نیوز says:
محترمہ الوینہ نیازی صاحبہ مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ! قارئین کی رائے ہمارے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ہم اپنی ادارتی پالیسی کا ریویو تسلسل کے ساتھ قارئین کے آراء کی روشنی میں کرتے رہتے ہیں۔
-
اللہ کرے زور قلم اور کالم اور زیادہ
محترمہ الوینہ نیازی صاحبہ مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ! قارئین کی رائے ہمارے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ہم اپنی ادارتی پالیسی کا ریویو تسلسل کے ساتھ قارئین کے آراء کی روشنی میں کرتے رہتے ہیں۔